Monday 20 August 2018

طلوعِ صبح نو ( مدارس سے جامعات کی طرف کاروان شوق کا سفر میمون)

0 comments
طلوعِ صبح نو
مدارس سے جامعات کی طرف کاروان شوق کا سفر میمون
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
---------------------------------------------------------------------
پس منظر: 
علامہ ارشد القادری (۱۹۲۵ء- ۲۰۰۲ء) بریلوی مسلک کے وہ روشن دماغ عالم تھے جنھوں نے مدارس کو عصری جامعات اور عالم عرب سے جوڑنے کے لیے ۱۹۸۹ء میں جامعہ حضرت نظام الدین اولیا کی شکل میں ایک Bridge کی تعمیر کی جس کا افتتاح ۲۴؍ اپریل ۱۹۹۵ء کو کیا گیا۔ گذشتہ دنوں اس جامعہ کے ڈائریکٹر جناب مولانا محمود احمد غازی، جو خیر سے علامہ کے پوتے بھی ہیں، کی طرف سے جامعہ سے شائع ہونے والے سالانہ مجلہ ’’کاروان رئیس القلم‘‘ کےلیے لکھنے کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ میرے لیے دو عناوین تجویز کیے گئے تھے، جن میں ایک آپشن یہ تھا: ’’طلبۂ مدارس کی عصری جامعات تک رسائی، ایک خوش آئند اقدام‘‘۔ مجھے یاد آیا کہ ۲۰۰۵ء میں اسی موضوع پر ایک مختصر تحریر ’’فضلائے مدارس نئی جہتوں کی تلاش میں‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی، جو ماہ نامہ کنز الایمان دہلی میں شائع ہوئی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں مدرسے سے پڑھ کر تازہ تازہ دہلی وارد ہوا تھا اوروہاں مدارس سے مختلف علم کی ایک نئی دنیا کو ایک نو مولود بچے کی طرح تجسس، حیرت اور اشتیاق سے دیکھ رہا تھا۔ اب ایک عشرہ سے زیادہ مدت گزر جانے کے بعد پھر یہی موضوع میرے سامنے تھا۔ مجھے لگا کہ اس موضوع پر شاید میںپہلے سے بہتر رائے پیش کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ مولانا محمود غازی کے حکم پر لبیک کہا اور دیگر مشاغل کو کنارے رکھتے ہوئے زیر نظر موضوع پر لکھنے کی تیاری شروع کردی۔ اس کے لیے میں نے عصری مدارس اور جامعات سے فیض یاب متعدد اصحاب نظر سے تبادلۂ خیال کیا۔ فیس بک پراس موضوع سے متعلق ۲۰ سوالات کے ذریعے مختلف الخیال افراد کی آرا حاصل کیں۔ اس حوالے سے پروفیسر ابراہیم موسی کی کتاب What is a Madrasa?کا اردو ورژن دینی مدارس: عصری معنویت اور جدید تقاضے کوبھی پیش نظر رکھا۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کے تعلیمی نظام کے حوالے سے مختلف اردو، انگریزی مضامین بھی استفادہ کیا۔ ان سب کے ساتھ، میں نے اپنے تجربات، خیالات اور احساسات کو سپرد قرطاس کرنے کی کوشش کی ہے۔
پہلا سوال:
پیش نظر موضوع پر پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ عصری جامعات میں فارغین مدارس کا آنا کیا واقعی خوش آئند قدم ہے؟جب میں نے اس پر اپنے احباب کی رائے جاننا چاہی تو اس کا نوے فیصد جواب اثبات میںآیا۔ البتہ دہلی کے جناب قمر عالم جو پیشے سے ویب ڈیزائنر ہیں، ان کا سوال ہے کہ ہم عصری جامعات میں کیوں آئیں؟ کیا ہم اپنے مدارس کو عصری جامعات نہیں بنا سکتے؟ جہاں ہم اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں اوراپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکیں۔ ساتھ ہی کتاب وسنت کی روشنی میں سائنس کو سمجھیں اور سمجھائیں۔ قمر عالم صاحب کی اس رائے میں پوشیدہ خلوص اور اس کی عظمت اپنی جگہ، لیکن اس کے ساتھ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ عملی سطح پر دور دور تک اس کا امکان نظر نہیں آتا۔ اگر چہ عالم ممکنات میں کچھ بھی محال نہیں ہے۔ اس کے لیے سر سید جیسے کسی جنونی کی ضرورت ہے جو دیوبند اور علی گڑھ کے ماڈل کو منظم کرکے ہندوستانی مسلمانوں کو ایک تیسرا تعلیمی ماڈل عطا کرے۔ 
مغربی بنگال کے مولانا عبد الرحیم مقیم حال ممبئی معارضاتی انداز میں فرماتے ہیں: کوئی صاحب یہ بھی فرمادیں کہ عصری جامعات کے فارغین دینی مدارس کی طرف رخ کریں۔ دینی جامعات کے فاغین کی عصری جامعات میں شمولیت اورعصری جامعات کے فارغین کی دینی جامعات میں شمولیت میری نظر میں دونوں باتیں اشد ضروری ہیں۔ مولانا عبد الرحیم کی طرف سےضرورت کا یہ بیانیہ طابق النعل بالنعل کے مصداق ہے۔ لیکن اس ضرورت کا عقلی جواز کیا ہے کہ عصری جامعات کے فارغین بھی دینی مدارس کی طرف رخ کریں، مولانا عبد الرحیم صاحب نے اس کی توجیہ نہیں کی ہے اور نہ ہی نفس الامر میں اس کی توجیہ آسان ہے۔ ہاں! یہ تو ہوسکتا ہے کہ اہل مدارس تربیت دین کے نام پر بعض شارٹ ٹرم کورسیزشروع کریں، جس میں عصری جامعات کے متعلمین یا فارغین داخل ہوکر اپنی دینی معلومات اور اسلامی تربیت کا سامان کریں۔اس طرف جزوی کوششیں ہمارے جامعہ عارفیہ میں بھی جاری ہیں، لیکن اب تک اس کا باضابطہ نظم و نصاب تشکیل نہیں پاسکا ہے۔ 
بدایوں کے مولانا سید محمد ظفر امام جو منظر اسلام بریلی کے ساتھ جامعہ اردو علی گڑھ کے بھی فیض یافتہ ہیں، فرماتے ہیں: فارغین مدارس کا عصری جامعات میں جانا خوش آئند ہے بھی اور نہیں بھی۔ جو علما مدارس میں حاصل کردہ علوم اور تہذیب و تمدن کے ساتھ ہیں اور رہیں، ان کا آنا یقیناً خوش آئند ہے، ورنہ نہیں ہے۔ گویا سید ظفر امام صاحب کے نزدیک مدارس کے بعد عصری جامعات میں جانے کے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ طالب علم مدارس سے حاصل کردہ دینی علوم کو بھی محفوظ رکھے، جنھیں اس نے مدارس سے حاصل کیے ہیں اور اس مذہبی تشخص کو بھی باقی رکھے، جو اسے مدرسے میں بطور وراثت حاصل ہوا ہے۔ سید ظفر امام کی یہ بات تقریباً نوے فیصد ذمہ داران مدارس کے جذبوں کی ترجمانی ہے، جس پر تفصیلی گفتگو آگے آتی ہے۔
فوائد ونقصانات:
عصری جامعات میں فارغین مدارس کی آمد کے فوائد کیا ہیں اور نقصانات کیا ہیں؟ اس سوال پرمحترم نوشاد عالم چشتی صاحب سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔انھوں نے اس کی ایک لمبی فہرست میرے سامنے رکھ دی، جس کے بعض نکات حسب ذیل ہیں:
فوائد:
الف:  افہام و تفہیم کا مزاج بنتا ہے
ب:  سوچ کا کینوس وسیع ہوتا ہے
ج:  اجتماعیت کا احساس جاگتا ہے
د:  حالات حاضرہ کا عرفان ہوتا ہے
ھ:   بہت ساری غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے
و:  فکر و نظر میں سائنٹفک اپروچ پیدا ہوتا ہے
ز:   انفرادی واجتماعی احتساب کا ذہن بنتا ہے
ح:  عصری مسائل میں تفکروتدبر کا سلسلہ شروع ہوتا ہے
ط:  ماضی کا تجزیہ اور مستقبل کی منصوبہ بندی کا شعور ملتا ہے
ی:  مختلف الخیال لوگوں سے ملاقات اور استفادے کی راہ کھلتی ہے
نقصانات:
الف:  مدرسے کی وضع قطع میں تبدیلی آتی ہے
ب:  مدرسی روایت کے خلاف بغاوت کا ذہن بنتا ہے
ج:   مدارس کی تحقیر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اخلاقیات ودینیات میں گراوٹ آتی ہے
د:  فکری آزادی اور بسا اوقات نظری تشکیک اور فکری بے راہ روی شروع ہوجاتی ہے
ہ:  ان کی بہت سی غلطیوں اور نادانیوں کے سبب لوگ براہ راست اہل مدارس کو مطعون کرتے ہیں
مذکورہ سوال کے جواب میں کان پور کے جناب مشتاق، فارغ التحصیل یونیورسٹی آف الٰہ آبادنے، اس کے پانچ فوائد اور دو نقصانات شمار کیے ہیں۔ 
فوائد:
الف:   قبول و برداشت کی صلاحیت بڑھتی ہے
ب:   اعلی سے اعلی تعلیم کے راستے نظر آتے ہیں
ج:   صحافتی مقتضیات اور ابلاغ و ترسیل کے عصری و بین الاقوامی رویوں سے شناسائی ہوتی ہے
د:    ذہن میں کشادگی آتی ہے، فکر میں توسع پیدا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اپنا حقیقی قد معلوم ہوتا ہے
ہ:   لسانی اعتبار سے عربیت زدہ اردو اور اردوئیت و فارسیت زدہ عربی کے خول سے باہر نکلنے کی سبیل پیدا ہوتی ہے
نقصانات: 
الف:   اگر ظرف وسیع نہ ہو تو مدارس کو جہالت کی فیکٹری سمجھنے لگتا ہے، حالاں کہ وہاں تک پہنچانے میں مدارس ہی سہارا بنتے ہیں
ب:  اگر احساس کمتری کا شکار ہو تو اپنا تعارف بحیثیت عالم کرانے کے بجائے غیر عالمانہ وضع قطع کا اسیر ہوجاتا ہے.
وضع قطع کا مسئلہ:
محترم جناب جلیس اختر نصیری پی ایچ ڈی جے این یو دہلی کو مشتاق صاحب کی آخری شق پر سخت اعتراض ہے۔ وہ دریافت کرتے ہیں کہ اگر غیر عالمانہ وضع قطع کی توضیح ہوجاتی تو مجھ جیسے کم پڑھے لکھے لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوتا۔ میری معلومات کے مطابق مدارس میں علامہ اقبال کو علامہ صرف اس لیے نہیں کہا جاتا کیوں کہ وہ باریش نہیں تھے۔ ان کو ڈاکٹر اقبال کہنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ عصری درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے حضرات کو روایتی درس گاہوں کے تعلیم یافتہ اس وقت تک عالم نہیں مانتے جب تک وہ باریش و با کلاہ نہ ہوں۔ 
جناب جلیس نصیری صاحب نے یہاں ایک بنیادی سوال اٹھایا ہے جو کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے اور غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ سوال حل ہوجائے تو عالم کی تعریف اور اس کی شناخت دونوں مسئلے حل ہوجائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عالمانہ وضع قطع واضح طور پر لفظوں میں منضبط نہیں ہوسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم علما کی وضع قطع کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اختلافات بلکہ تناقضات کا سامنا ہوتا ہے۔ بریلوی علما کی کلاہ، مونچھ اور ازار کی سائز کسی قدر طویل ہوتی ہے ، جب کہ دیوبندی علما ان امورمیں صاف اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ شمالی ہند کے علما بالعموم کرتا پاجامہ زیب تن کرتے ہیں، جب کہ جنوب خصوصاً کیرالا کے علاقے میں لنگی اور شرٹ کے ساتھ رومال کا چھوٹا عمامہ علما کی شناخت ہوتا ہے۔ سعودی کا غترہ (رومال) ایرانی عماموں سے مختلف ہوتا ہے۔ ترکی کا طربوش یمن کی عمامہ نما ٹوپی سے جدا نظر آتا ہے۔ مصر میں اخوان کی داڑھی کافی طویل ہوتی ہے اور ازاہرہ کا چہرہ کلین شیو یا خشخشی داڑھی والا ہوتا ہے۔ مشرق میں جبہ، عبا، توپ اور شیروانی کے جلوے ہوتے ہیں، تو مغرب میں کوٹ پتلون، شرٹ اور ٹائی کی حکمرانی۔ المختصر اس پورے منظر نامے پر نظر ڈالنےسے اندازہ ہوتا ہے کہ علما کی وضع قطع عالمی سطح پر ایک نہیں ہے، البتہ مقامی اعتبار سے الگ الگ وضع سے ان کی شناخت ہوتی ہے۔ اس کے ایک معنی یہ بھی ہوئے کہ عالمی سطح پر علما کی وضع قطع میں یکسانیت کی تلاش اور مقامی سطح پر اس کی عدم رعایت دونوں باتیں مناسب نہیں ہیں۔ 
یہ تو مسئلے کی ثقافتی نوعیت ہوئی جس کی کلی حفاظت اس گلوبل دنیا میں آسان نہیں ہے۔ رہی بات مسئلے کی شرعی تحقیق کی تو داڑھی اور لباس کی سنیت کا تعین تو کیا جاسکتا ہے، البتہ اس میں شرعی وجوب کی کوئی شق متعین کرنا ایک انتہائی مشکل امر ہے۔ لباس کے حوالے سے شریعت صرف ستر پوشی کو واجب کرتی ہے، نہ کہ کسی مخصوص لباس کو۔ اسی طرح ایک مشت داڑھی کے سلسلے میں وجوب، سنت ہدیٰ اور سنت زوائد جیسے مختلف اقوال معاصر علما کے یہاں پائے جاتے ہیں۔اس لیے زیادہ سے زیادہ صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ ثقافتوں کی مقامی قدروں کی رعایت کی جائے تو عوام بلاوجہ ذہنی خلجان سے محفوظ رہیں گے۔
فکری تبدیلی:
عصری جامعات میں جانے والے فارغین مدارس کے حوالے سے اس خدشے کا بارہار اظہار کیا جاتا ہے کہ وہاں پہنچ کر ان کے دینی رجحانات اور مسلکی تصلب میں کمی آجاتی ہے۔ اس سلسلے میں محترم مشتاق صاحب مختلف الرائے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ عصری جامعات میں جانے سے فضلائے مدارس کے دینی رجحان میں کمی نہیں آتی، البتہ مختلف اسباب کی ستم ظریفی سے مدارس کے اندر دین کا جو محدود تصور ورثے میں ملتا ہے، اس میں وسعت آجاتی ہے، جو بعض مہربانوں کو دینی تقصیر نظر آتی ہے۔ مشتاق صاحب مسلکی تصلب کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا ہے، البتہ مسلکی تشدد و تطرف میں نمایاں کمی آتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بعض حضرات عصری جامعات میں پہنچ کر دین و مسلک دونوں ہی بیچ ڈالتے ہیں، مگر قابل غور ہے کہ ایسے حادثات عصری جامعات کے ساتھ ہی خاص نہیں، ایسا سانحہ تو کسی بھی فیلڈ میں رونما ہوسکتا ہے۔ 
پورنیہ کے جناب شمیم مصطفیٰ مصباحی اس پر اضافہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عصری جامعات میں دینی رجحانات میں کمی ہونے کے بجائے اضافے کی متعدد مثالیں ہیں۔ ایسے بے شمار علما ہیں جو عصری علوم کی تحصیل کے بعد نہ صرف یہ کہ مکمل طور سے دین پر کاربند ہیں بلکہ دین کی مکمل پاسبانی بھی فرمارہے ہیں۔ ہاں عصری جامعات میں جانے سے مسلکی تشدد میں ضرور کمی آجاتی ہے، جو حالات کے پیش نظر صحیح بلکہ ضروری ہے۔
مولانا حید رضا مصباحی شعبہ عربی علی گڑھ فرماتے ہیں کہ جہاں تک دینی رجحانات میں کمی آنےکی بات ہے تو وہ یونیورسٹیوں کا رخ کرنے کے بعد ہی کیا، پہلے سے ہی بہتوں میں یہ بلا رہتی ہے۔ مولانا ایک خاص نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صرف کرتا پاجامہ زیب تن کرنا اور سر پر ٹوپی سجا لینا جس طرح دین پر کار بند ہونے کی سند نہیں، اسی طرح محض پینٹ شرٹ پہننا کسی بھی طرح دینی رجحانات میں قلت کا غماض قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اس سلسلے میں بیشتر اہل علم دینی رجحان اور مسلکی تصلب میں کمی ہونے کے خیال سے اتفاق نہیں کرتے، بلکہ وہ آگے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ اگر بعض حضرات میں دینی رجحان کم ہوتا ہے تو بہتوں میں زائد اور وسیع بھی ہوتا ہے اور جہاں تک مسلکی تصلب کی بات ہے تو تصلب کے نام پر تعصب کے جو اسباق طلبہ، مدارس سے لے کر آتے ہیں، عصری جامعات کی برکت سے وہ سارے اسباق ذہن و فکر سے ضرور محو ہوجاتے ہیں۔ 
ایک دوسرے مصباحی عالم جو علی گڑھ میں زیر تعلیم ہیں، جناب جاوید عالم کا ماننا ہے کہ عصری جامعات میں بعض مثالیں ایسی بھی ہیں کہ بعض طلبہ کے اندر مسلک کے حق میں اور بعض میں مسلک کے خلاف لبرل ازم کے حق میں تعصب و تشدد کا گراف مزید بلند ہوجاتا ہے۔
دہلی کے قمر صاحب اس قسم کے خیالات پر معترض ہیں کہ عصری جامعات میں پہنچ کر فضلائے مدارس سے مسلکی تعصب و عناد رخصت ہوجاتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو لازمی طور پر ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ مدارس میں مسلکی تعصب و عناد کے اسباق ازبر کرائے جاتے ہیں۔ جناب قمر عالم صاحب کے اس سوال کی حساسیت اپنی جگہ، مگر صورت حال کی سنگینی اپنی جگہ ایک مستقل مسئلہ ہے، ارباب مدارس کو جس کا کھلے ذہن و دماغ سےجائزہ لینا ہوگا۔ یہ ان کے لیے لمحۂ فکریہ بھی ہے اور دعوت احتساب بھی۔
میرے فیس بک فرینڈ مولانا عبد الحق مصباحی فرماتے ہیں: مسلک اگر عقائد کا نام ہے تو عصری جامعات میں جانے کے بعد عقیدے میں کمی نہیں آتی، ہاں! رہی بات اعمال کی تو اس میں کمی مدرسے کے اندر و باہر ہر جگہ ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مدرسہ میں اتنا پابند شرع نہ رہا ہو جتنا عصری جامعات میں پہنچ کر ہوجائے۔
مسلکی تشدد میں کمی؟
میں اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں یہاں چند وضاحتیں ضروری سمجھتا ہوں:
(۱) مسلک عقیدے کا نام ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے۔ لیکن بنیادی عقیدے کا نام نہیں، جس پر اسلام کی بنا ہو۔ میں اپنے تجربات کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اسی فیصد یا اس سے زائد فضلائے مدارس پر، خصوصاً بریلوی مدارس کے فارغین پر یہ واضح نہیں ہے کہ دین کے ضروری عقائد الگ ہیں اور سنیت یا مسلک کے ضروری عقائد الگ۔ دین کے کسی ضروری عقیدے کے انکار سے آدمی دائرۂ اسلام سے نکل جاتا ہے، لیکن مسلک کے کسی ضروری عقیدے کے انکار سے آدمی مسلک سے تو نکلتا ہے، تاہم دائرۂ اسلام میں داخل رہتا ہے۔ 
(۲) عصری جامعات میں مغرب سے درآمد شدہ لادینی افکار و رجحانات سے مسموم ہوائیں سائنس کی موہوم اور افسانوی صورت میں پھیلی ہوئی ہیں۔ان گزرگاہوں سے فضلائے مدارس بالعموم ناک بند کرکے گزرجاتے ہیں، جب کہ بعض اس زہر کا شکار ہوکر مشتبہ اور مشکوک ہوجاتے ہیں اور بعض کی پورے طور پر ایمانی موت بھی ہوجاتی ہے، مگر ان میں کسی کے پاس بھی وہ علمی فلٹر نہیں ہوتا جس کی مدد سے وہ اس زہریلی گیس سے اپنی اور دوسروں کی حفاظت کرسکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مدارس میں جدید مغربی فلسفے پر صرف لاحول پڑھا جاتا ہے جب کہ عصری جامعات میں جدید فلسفےسے ایسی مرعوبیت ہوتی ہے کہ جدید ٹیکنیکل سائنس کی طرح مغرب کے تمام تر تخیلاتی اور افسانوی فلسفے کو بھی تجرباتی اور یقینی سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ صورت حال مدارس اور عصری جامعات دونوں کو احتساب اور نئی منصوبہ بندی کی دعوت دیتی ہے۔ مدارس چوں کہ حفاظت دین کے نام پر قائم ہوتے ہیں، اس لیے وہ اس دعوت کے اول مخاطب ہیں۔ 
(۳) عصری جامعات میں پہنچ کر فضلائے مدارس مسلکی تعصب و عناد کے خول سے باہر آجاتے ہیں۔ یہ بات اب تک میرے لیے ناقابل فہم یا کم از کم مبہم ہے۔ میرے خیال سے مسلکی تعصب کی دو سطحیں ہیں؛ ایک عملی اور دوسری نظری۔ عملی سطح کی بھی دو قسمیں ہیں؛ ظاہری اور حقیقی۔ اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مدارس سے فیض یاب عصری جامعات کے طلبہ تعصب کے صرف ظاہری مظاہر سے نکل پاتے ہیں۔ مدارس میں رہتے ہوئے اپنے مخالف مسلک کے ساتھ جو ان کا ظاہری برتاؤ ہوتا ہے، اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے علیک سلیک شروع کردیتے ہیں اور اخلاق و افکار اورمال و اسباب کا تبادلہ خندہ پیشانی کے ساتھ کرنے لگتے ہیں۔ لیکن کسی شعبہ میں داخلہ، ملازمت یا اس طرح کے جب بڑے مواقع سامنے آتے ہیں تو پھر ان کا مسلکی عفریت جاگ جاتا ہے اور پھرصلاحیت اور عدل کے بجائے مسلکیت کو وجہ ترجیح بناتے ہیں۔ اس سلسلے میں مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ میں تبلیغی جماعت سے وابستگان کی مثال نمایاں طور پر ہمارے سامنے ہے۔ موثوق ذرائع کے مطابق انجینئرنگ اور دوسرے شعبوں میں طلبہ کو تعلیم سے زیادہ چلہ لگانے پر زور دیا جاتا رہا ہے اور چلہ لگانے والے طلبہ کو حاضری فیصد اور مارکنگ لسٹ دونوں میں پیش پیش رکھا گیا ہے۔ ان کے برخلاف وہ طلبہ سخت ابتلا اور تعصب کا شکار ہوئے ہیں جنھوں نے چلہ لگانے سے انکار کردیا ہے۔ یہ ان کا حال ہے، جو اپنی پیشانیوں پر سجدوں کا نشان لیے پھرتے ہیں۔
مسلکی تعصب کی نظری سطح پر بات کریں تو دو جماعتیں پیش پیش نظر آتی ہیں۔ سلفی اور بریلوی۔ سلفی اپنے متصوف حریفوں پر شرک کی تہمت رکھتے ہیں، جب کہ بریلوی اپنے مخالف طبقات کو گستاخی اور ضروریات دین کے انکار کا مجرم بتاتے ہوئےان پر کفر کاحکم لگاتے ہیں۔ سلفیوں سے قریب ہونے پر معلوم ہوا کہ ان میں اکثریت ان کی ہے جو شرک سے شرک حقیقی مراد لینے کے بجائے شرک صوری مراد لیتے ہیں۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جب موقع ملتا ہے تو وہ متصوفین کے پیچھے نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ ان کے برعکس بریلوی فضلا کفر کو بالعموم حقیقی معنی پر محمول کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ترک نماز کو تو گوارہ کرلیتے ہیں، لیکن دیگر مسالک کے پیچھے اقتدا کو گوارا نہیں کرتے، اگرچہ بصورت رضا یا اکراہ اب یہ برف بھی دھیرے دھیرے پگھلنے لگی ہے۔ لیکن اس کی رفتار بہت سست ہے۔ شاید پانچ فیصدیا اس سے کچھ کم و بیش۔
میں نےعلی گڑھ میں زیر تعلیم ایک نسبتاً باصلاحیت اور روشن دماغ مصباحی سے جب یہ سوال کیا کہ کیا عصری جامعات میں پہنچ کر مسلکی تعصبات کا خاتمہ ہوجاتا ہے؟ تو انھوں نے بہت ہی پر جوش انداز میں اثبات میں جواب دیا اور مثال میں خود کو پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ جب میں مبارک پور سے علی گڑھ آیا تھا تو یہاں کسی بھی وہابی، دیوبندی سے سلام و کلام درست نہیں سمجھتا تھا، لیکن اب میں الحمدللہ! اس نفرت انگیز تعصب سے نکل چکا ہوں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ بریلوی مدارس میں یہ عام تصور ہے کہ اکابر دیوبند کافر ہیں اور ان کی عبارتوں سے واقفیت کے بعد جو کوئی ان کے کفر میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔ علی گڑھ پہنچ کر مسلک کے اس نظری فہم میں کیا فرق آیا اور آپ کے نزدیک حسام الحرمین کے معیار پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کتنے مسلمان رہتے ہیں؟ میرے اس سوال کے جواب میں حضرت موصوف سراپا حیرت و استعجاب بنے رہے اور باہمہ علم و آگہی ایک لفظ نہیں بول سکے۔ 
عصری جامعات میں زیر تعلیم مدارس کے فاغین کی اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں ان سے مسلکی منافرت کے خاتمہ اور ملی اتحاد کے قیام کے حوالے سے کس حد تک امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ یہاں حافظ دلشاد حسین، استاذ جامعہ عارفیہ الٰہ آباد کے اس خیال سے اتفاق کیا جانا چاہیے کہ عصری جامعات میں زیر تعلیم فضلائے مدارس سے مسلکی منافرت کا خاتمہ نہ سہی، اس میں کمی ضرور آئے گی۔ کیرالہ کے محمد مستقیم ثقافی بھی اس حوالے سے کافی حد تک پر امید ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ میں اپنے تمام دوستوں میں کسی قدر یہی محسوس کررہا ہوں۔ جو کل تک مسلک بازی کے حوالے سے ممتاز تھے، آج اب انہی کو صلح کلی کہا جارہا ہے۔
بہر کیف! اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ عصری دانش گاہوں میں مسلکی منافرت میں کافی کمی آتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ عصری جامعات میں جانے سے دیگر فوائد کے ساتھ بڑے پیمانے پر مسلکی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ بریلوی مدارس کے علما عصری جامعات میں بہت تاخیر سے پہنچے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس مملکت کے دوسرے درجے کے شہری محسوس کیے جاتے ہیں۔ تمام اعلی مناصب پر ان کے فکری حریف جلوہ افروز ہیں، جس کی وجہ سے بسا اوقات انھیں متعصبانہ رویوں کا شکوہ رہتا ہے۔ تاہم دیر یا سویر جب وہ پہنچے ہیں تو وہاں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ مسلکی سرگرمیوں کو بھی بڑی حد تک زندہ کر رکھا ہے۔ یہی حال دیگر مسالک کے وابستگان کا بھی ہے۔ عصری جامعات میں اپنی مسلکی سرگرمیوں سے وابستگی، فکر و عمل کی آزادی کا حصہ ہے۔ البتہ تکلیف اس وقت ہوتی ہے، جب بعض اوقات یہ مسلکی سرگرمیاں ملی سرگرمیوں سے متصادم نظر آتی ہیں۔
بریلوی علما کی تاخیر:
رہا یہ سوال کہ بریلوی علما عصری دانش کدوں میں تاخیر سے کیوں پہنچے؟ اس کے جواب میں استاذ گرامی مفتی ارشاد احمد ساحل سہسرامی فرماتے ہیں کہ اس کے کئی اسباب ہیں۔ بڑا سبب یہ ہے کہ تقسیم پاکستان کے وقت سنی (بریلوی) علما مسلم لیگ کے حامی تھے، جب کہ دیوبندی کانگریسی تھے۔ کانگریس پوزیشن میں آنے کے بعد اپنے حامی دیوبندیوں کو نوازتی رہی اور دیوبندیوں نے بھی اہل سنت کو مسلم حکومتی شعبوں میں نہیں آنے دیا۔
مفتی صاحب کا یہ جواب شاید بہت سے دیگر سوالوں کو حل کرتا ہو۔ تاہم پیش نظر سوال اس سے یکسر غیر متعلق ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کے یوم تاسیس سے صبح آزادی تک اور اس سے اب تک ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملے گا کہ حکومت نے یا دیوبندی علما نے بریلوی علما کو عصری جامعات میں آنے سے روکا ہو۔ اس کی وجہ میری نظر میں بریلوی علما کی وہ حساسیت ہے، جو انھیں کسی بھی مسلک مخالف سے ملنے ملانے سے آخری حد تک روکتی ہے۔ عصری دانش کدوں میں مسلکی حریفوں کے ساتھ مذہبی حریفوں بلکہ مخالفین مذہب کا بھی ہمیشہ ایک ہجوم رہا۔ ایسے میں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ بریلوی علما اپنی مسلکی حساسیت کے پیش نظر اپنے فضلا کو ان اداروں میں جانے دیتے۔
علی گڑھ میں زیر تعلیم جناب عقیل اختر جن کا تعلق بنیادی اعتبار سے بریلوی مسلک سے ہے، وہ اس کے اسباب میں بریلوی علما کی عصریات سے ناواقفیت کو بھی شمار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بریلوی علما کی یہ عدم معرفت، عصری جامعات سے بریلوی مدارس کے معادلے اور طلبہ کے اندر تحریک و تشویق سے مانع رہی۔ عقیل صاحب کی اس بات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بریلوی علما میں عصریات کا شعور سب سے پہلے علامہ ارشد القادری کو ہوا۔ ان کے ادارہ جامعہ حضرت نظام الدین اولیا کے قیام (۱۹۹۵) کے بعد ہی سے بریلوی مدارس کے فضلا نے عصری جامعات میں قدم رکھنا شروع کیا، جس میں تیزی ۲۰۰۴ء کے بعد آئی۔ جامعہ ملیہ کے بعض اساتذہ کو یہ تبصرہ کرتے سناگیا ہے کہ جب سے مولانا ارشد القادری نے جامعہ نظام الدین قائم کیا ہے ، تب سے بریلوی یونیورسٹی میں آنے لگے۔ ۱۹۹۵ء سے پہلے بعض بریلوی علما کا اکے دکے عصری جامعات میں پہنچنا جزوی بلکہ استثنائی واقعات ہیں۔
مقاصد مدارس پر اثر:
یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ آج جب کہ تمام مدارس کے نو فارغین بڑی تعداد میں عصری جامعات کا رخ کررہے ہیں، اس وقت بھی علامہ ارشد القادری جیسا کھلا ذہن ، ذمہ داران مدارس میں شاید وباید ہی ہے۔ اس قافلے کا رہ نما آج بھی بالعموم طلبہ کا اپنا ذوق و شوق ہے۔ مدارس کے بہت کم ہی اساتذہ ہیں جو اپنے طلبہ کو عصری جامعات میں جانے کی ترغیب دیتے ہیں اور ان کی رہ نمائی کرتے ہیں۔ بالعموم مدارس کے اندر یہ تصور ہی حاوی ہے کہ فضلائے مدارس عصری جامعات میں پہنچ کر قیام مدارس کے مقاصد کو فوت کررہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ نوجوان علما اس خیال سے اتفاق نہیں رکھتے۔ نور الدین محمد مصباحی، مقیم حال جامع ازہر مصر کا کہنا ہےکہ بہت سے علما عصری جامعات میں نہ جاکر بھی مدارس کے مقاصد کو فوت کررہے ہیں، بلکہ سچ کہوں تو بیشتر نہ جانے والے ہی نقصان کررہے ہیں۔ گذشتہ ستر سالوں سے اکثر مدارس نے قوم کی ایک بڑی تعداد کو علم دین کے نام پر جکڑ رکھا ہے۔ جہاں ان کو دنیا اور ملت کے بارے میں شاید کنویں کے مینڈک سے بھی کم آگاہی رہی۔ اور اس طرح نہ جانے کتنے دماغ ابھرنے سے رہے۔
جناب محمد مشتاق کہتے ہیں: اگر مدارس کے قیام کا مقصد موذن اور امام بنانا ہو تورسم امامت و اذان کی ادائیگی کے لیے مسجدوں کی تعداد سے زیادہ حفاظ و علما پیدا ہوچکے ہیں۔ مقصد قیام اگر پیشہ ور مقرر بنانا ہے تو اس کے لیے مکاتب کافی ہیں۔ نقل فتاوی کرنے والے مفتی یا فرسودہ مضامیں پر نئے نئے ٹائٹل کے ساتھ کتابیں لکھنے والا مصنف بنانا ہو تو یہ کوشش بھی خوب ہورہی ہے۔ تعویذ گنڈہ کرنے والوں کی فوج تیار کرنی ہو تو اس کے لیے نہ مدارس نہ جامعات کی ضرورت ہے، بلکہ محض خود کو حیاداری سے باہر لانا کافی ہے۔ مشتاق صاحب کہنا یہ چاہتے ہیں کہ قیام مدارس کے پیچھے اگر مذکورہ مقاصد کارفرما ہیں تو عصری جامعات میں جانے سے ان کی تکمیل نہیں ہوتی اور نہ ہی فوت ہوتے ہیں، البتہ اگر قیام مدارس کے مقاصد میں دین و دنیا کا عرفان اور زمانی بصیرتوں کے ساتھ علم و دین کی خدمت ہے تو یہ مقاصد عصری جامعات میں جانے سے فوت نہیں ہوتے بلکہ ان کا حصول مزید سہل ہوجاتا ہے۔
ممبئی کے مولانا عبد الرحیم اس کے برخلاف یہ رائے رکھتے ہیں کہ عصری جامعات میں جانے سے مقاصد مدارس کا فوت ہونا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہمیں اس پر غور کرنا ہے کہ اس کا سد باب کیسے ہوگا؟ مولانا نےاپنے اس منطقی نقطۂ نظر پر کوئی دلیل پیش کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔ ہمیں ان کی جگہ اپنے کشمیری دوست محمد یاسر کی بات زیادہ معتدل اور منصفانہ معلوم ہوتی ہے کہ فضلائے مدارس کے عصری جامعات میں جانے سے بعض دفعہ قیام مدارس کے مقاصد یقیناً فوت ہوتے ہیں، مگر نہ جانے سے ملت کو اس سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔
مدارس پر تنقید:
فضلائے مدارس میں ایک بات قدر مشترک کی حد تک پائی جاتی ہے کہ وہ جب تک مدرسے میں ہوتے ہیں مدارس کا قصیدہ اور یونیورسٹیز کی ہجو پڑھتے نہیں تھکتے مگر جوں ہی عصری جامعات میں پہنچتے ہیں، ان کے توپ کا دہانہ مدارس کی طرف کھل جاتا ہے۔ پھر وہ عام طور سے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ مدارس کا تصور علم محدود ہے اور وہاں کا نظام و نصاب واجب الاصلاح ہے ۔ اس حوالے سے جن اصحاب علم و نظر کی آرا موصول ہوئیں، ان میں سے تقریباً سب نے اس تنقیدی رائے سے اتفاق کیا۔
عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد میں زیر تعلیم مولانا شمیم مصطفی مصباحی لکھتے ہیں: عہد وسطیٰ اور اس سے پہلے کے دور کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ مدارس کے فارغین دعوت و تبلیغ اور تحریر و تقریر تک محدود نہ تھے، بلکہ یہ سیاست، عدالت، ملکی نظامت، طبابت بلکہ زندگی کے ہر شعبے اور ہر میدان میں نہ صرف پیش پیش تھے بلکہ قیادت و سیادت کی باگ ڈور انھیں کے ہاتھوں میں تھی۔ آج کیا وجہ ہے کہ مدارس کے فارغین تدریس و تقریر اور دعوت و تبلیغ کے لیے بھی کما حقہ اہل نہیں ہو پارہے ہیں۔ آٹھ دس سال مدارس میں گزارنے کے بعد بھی عصری جامعات کی طرف رخ کرنے کی خواہش کرتے ہیں اور ملازمت کے لیے انھیں در بدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ لہٰذا ایسے حالات میں نظام مدارس اور نصاب مدارس کی اصلاح اور اس کی مکمل منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔
مدارس میں اصلاح:
مدارس کے نصاب و نظام میں اصلاح کے حوالے سے پچھلے سو سالوں سے مسلسل آوازیں اٹھتی رہی ہیں اور نہ صرف آوازیں اٹھتی رہی ہیں بلکہ اصلاحات و ترمیمات کا سلسلہ بھی جزوی طور پر ہی سہی تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ ان آوازوں نے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ مدارس کے نصاب و نظام میں تبدیلی ناگزیر ہے مگر یہ تبدیلی کیا ہو، کیوں ہو، کسیے ہو اور کن وسائل کے تحت ہو، یہ وہ سوالات ہیں جن کی تنقیح ،تنقیدات مسلسل کے باوجود واضح نہیں ہوسکی ہے۔ اس سلسلے میں یہاں چند نکات کی وضاحت ضروری ہے:
(۱)  ایک انتہائی متطرفانہ رائے یہ ہے کہ یہ مدارس آؤٹ ڈیٹیڈ ہوچکے ہیں، ان سے نجات حاصل کرلینے میں ہی امت کی نجات ہے۔
(۲) اس کے بالمقابل دوسرا متطرفانہ نظریہ یہ ہے کہ ان مدارس کو اپنے حال پر چھوڑ دیاجائے۔ یہ اپنے اسی ہیولیٰ اور صورت کے ساتھ دین کی حفاظت کرتے آئے ہیں اور اسی نہج پر کرتے رہیں گےء۔ ان کو چھیڑا گیا تو دین کی حفاظت خطرات سے دوچار ہوجائے گی۔ 
(۳) ایک تیسری انتہا پسند نگاہ، ان مدارس سے ڈاکٹروں اور انجینئروں کی کھیپ نکلتی ہوئی دیکھنے کی متمنی ہے۔ ظاہر ہے تمناؤں اور آرزؤں پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔
(۴) اہل مدارس کے یہاں ایک غالب اور مقبول رائے یہ ہے کہ نصاب میں انگلش شامل کردیا جائے، باقی درس نظامی حسب حال جاری رکھا جائے۔ مدرسے کا معادلہ عصری جامعات سے کرادیا جائے، جو فارغین درس نظامی کی تکمیل کے بعد عصری جامعات میں جانا چاہیں ،وہ جائیں اور وہاں زبان و ادب، مذہب و ثقافت اور تاریخ و سماجیات جیسے شعبہ جات میں اعلی تعلیم حاصل کریں۔
(۵) بعض خوردبین نظر رکھنے والے اصحاب فکر اس سے راضی نہیں ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مدارس کو دین کا مرکز ہونے کے بجائے علم کا مرکز ہونا چاہیے اوران کے اندر بلا تخصیص قدیم و جدید جملہ علوم و فنون کوپڑھایا جاناچاہیے۔ اس فکر کے حاملین کی ایک بڑی تعداد ہے، لیکن یہ حضرات نظری اور لفظی سطح پر جس طرح سے پرزور اور پر جوش ہیں، عملی اور انطباقی سطح پر اسی طرح خاموش اور متحیر ہیں۔ یہ بات اب تک میں نہیں سمجھ سکا کہ دین و دنیا کے قدیم و جدید علوم کا بوجھ ایک طالب علم پر کیسے ڈالا جائے گا اور اگر بالفرض ڈال دیا گیا تو اس بیچارے کی کیا درگت بنے گی؟مجھے لگتا ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تواس بوجھ سے اس کا ذہن ماؤف ہوجائےگا اور قدم ڈگمگاجائیں گے۔ 
(۶) پروفیسر اختر الواسع صاحب کا کہنا ہے کہ مدارس کو اگر ہم یونیورسٹیز کا شعبۂ دینیات یا شعبۂ اسلامیات باور کرلیں تو پھر اس میں تبدیلی کے آدھے سے زیادہ مطالبات از خود پادر ہوا ہوجائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ عصری جامعات، جہاں سیکڑوں شعبہ جات ہوتے ہیں، وہاں پر ادب کے طلبہ کو سائنس، تاریخ کے طلبہ کو طب، اور فلسفے کے طلبہ کو جغرافیہ کیوں نہیں پڑھایا جاتا، بلکہ شعبۂ دینیات میں بیٹھنے والے اساتذہ جو عام طور سےمدارس میں تمام علوم کی تدریس کی وکالت کرتے رہتے ہیں، آخر وہ اپنے شعبے میں طب، جغرافیہ، ریاضی اور تکنیکی سائنس جیسے مضامین کو شامل کیوں نہیں کرتے؟ یہ عجب تماشا ہے کہ جامعات میں رہنے والے اپنے لیے تخصص کی بات کرتے ہیں اور علما کو جملہ علوم و فنون کا ماہر دیکھنا چاہتے ہیں۔
(۷) ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ مدارس کو دینیات اور شرعیات کا ہی متخصص ادارہ سمجھا جائے، لیکن کیا ان مدارس سے پڑھ کر نکلنے والے دین و شریعت کے حوالے سے متوقع صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں؟ کیا مدارس اپنے نصاب و نظام سے ایسے علما پیدا کررہے ہیں جو دینی عرفان اور زمانی بصیرت کے ساتھ عصر حاضر میں مطلوبہ رول پلے کرسکیں۔ اگر نہیں تو اس کے لیے جو اصلاحات و ترمیمات لازمی ہیں، اہل مدارس کو کھلے دل ودماغ سے انہیں قبول کرنا چاہیے اور بلا تاخیر کرنا چاہیے؛ کیوں کہ زمانے کی رفتاربہت تیز ہوچکی ہے۔ 
(۸) ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ طلبہ کی بنیادی صلاحیتوں اور ان کے رجحانات کی تشخیص سے پہلے ان کو عالم دین بنانے کے لیے بٹھا دینا کسی بھی طرح انصاف ہے، نہ دانش مندی۔ ابتدائی بنیادی تعلیم ہر مسلم بچے کی ایک ہونی چاہیے اور اپنے پانچ بچوں میں سے چار کو اسکول اور ایک کو مدرسہ بھیجنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ دینیات کے مضمون کی شمولیت کے ساتھ ہر مسلم بچے کی ابتدائی تعلیم ایک ہو تاکہ ہر بچہ معاصر علوم و فنون کے مبادیات سے آشنا ہوجائے۔ اب دسویں کے بعد جس طرح کوئی ڈاکٹر بنتا ہے اور کوئی انجینئر بنتا ہے، اسی طرح جس کا شوق ہو، وہ علم دین کا متخصص بنے۔ ایسا متخصص چوں کہ مروجہ علوم و فنون سے آشنا ہوگا، اس لیے اس کے لیے زمانی احوال کا ادراک اور بدلتے حالات میں شریعت کا فہم و انطباق آسان ہوجائے گا۔
راقم السطور آخر الذکر رائے کو زیادہ مناسب تصور کرتا ہے، تاہم اس کا عملی اور انطباقی مرحلہ کیسے طے ہوگا؟ یہ سوال گہری تفکیر و تدبیر کا متقاضی ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ جامعہ عارفیہ اور بعض دیگر اداروں میں لوگ اس سمت پرسوچنے لگے ہیں۔
مدارس کا تصور اخلاق:
عصری جامعات میں زیر تعلیم بعض فضلائے مدارس، مدارس کے تصور دین اور تصور اخلاق پر بھی معترض نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے جناب محمد مشتاق رقم طراز ہیں کہ مدارس کا تصور دین و اخلاق ہرگز محدود نہیں، ورنہ رازی و غزالی اور ماضی قریب میں حافظ ملت کسی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ و اخلاق یافتہ نہ تھے۔ بلکہ صوفیۂ کرام میں تو کوئی بھی ایسا نہیں جو عصری جامعات میں پڑھا ہو، گوکہ صوفیہ نے تزکیہ و ریاضت شیخ کے آئینۂ خانہ میں حاصل کی مگر شیخ بھی مدرسے کے ہی پروردہ رہے۔ ہاں! یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد برصغیر ہند و پاک کے مدارس تصور دین کے بجائے لاشعوری طور پر مسلک کے پابند ہوگئے اور جس طرح مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبے میں گراوٹ آئی، اس کی زد سے مدارس اسلامیہ کا نظام اخلاق بھی نہ بچ سکا۔ 
مشتاق صاحب نے بظاہر مذکورہ اعتراض کا جواب دینے کی کوشش کی ہے، لیکن غور سے دیکھیے تو آخر آخر انھوں نے بھی مذکورہ اعتراض کی کسی حد تک ہم نوائی فرمادی ہے۔ اس کے بر عکس پروفیسر ابراہیم موسی استاذ اسلامیات نوٹرڈیم یونیورسٹی امریکا اس بات کے قائل ہیں کہ دنیا میں شاید اخلاقی تعلیمات کا سب سے بڑا قلعہ یا مرکز یہ مدارس ہی رہ گئے ہیں۔
پروفیسر صاحب کے اس خیال کو سختی سے رد کرتے ہوئے علی گڑھ کے جناب عبید رضا قادری رقم طراز ہیں: یہ بات بالکل جھوٹ ہے۔ اگر مدارس میں انھوں نے وقت گزارا ہوتا (واضح رہے کہ پروفیسر موصوف نے دار العلوم دیو بند اور ندوۃ العلما لکھنؤ میں رہ کرتقریبا ًچھ سالوں تک اکتساب فیض کیا ہے) تو انھیں پتہ ہوتا کہ یہ باتیں صرف نظری ہیں، عملی سطح پر مدارس کے اکثر اساتذہ بغض، حسد، کینہ اور غیبت جیسی بیماریوں کے شکار ہوتے ہیں۔ سالوں اپنے ساتھی مدرس کے ساتھ ہم کلام نہیں ہوتے۔ صرف سیاست ان کا مشغلہ ہوتا ہے اور گروپ بندی ایسی کہ الامان و الحفیظ۔ اس میں سارے مدارس شامل ہیں، وہ کسی بھی مکتبۂ فکر کے کیوں نہ ہوں۔ عبید رضا قادری صاحب نے مدرسوں میں حاوی چندہ خوری، رشوت ستانی، عدم رواداری اور دیگر بد اخلاقیوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔ انھیں مستزاد سمجھا جائے۔
عبید رضا قادری کے برخلاف جناب مشتاق صاحب کا فی حد تک پروفیسر ابراہیم موسیٰ کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسا کہ ہوائیں چل رہی ہیں، اگر تصوف کی نشاۃ ثانیہ ہوسکی تو ایک بہتر متبادل سامنے آئے گا، ورنہ مساجد کو ٹیکنیکل سجدوں اور خانقاہوں کو مجاوری اور گور کنی میں تبدیل کردینے کے بعد فی الحال مدارس ہی قلعہ، مرکز، امید گاہ اور آماجگاہ ہیں۔
بات ذرا پیچ دار ہوگئی۔ خلاصہ یہ کہ مدارس کے فارغین جرات، حق گوئی، ایمان داری، وعدہ وفائی، راست بازی، رواداری، حسن تبسم، مروت اور سماجی اخلاقیات میں یقیناً پست ہوتے ہیں جس کا احساس انھیں عصری جامعات میں پہنچ کر ہوتا ہےاور مدارس سے اپنے ساتھ لائے ہوئے ایک خاص نفسیات سے نکلنے میں وقت لگ جاتا ہے۔ اہل مدارس کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔ میرے استاذ پروفیسر حبیب اللہ خاں ندوی، صدر:شعبہ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ نے بی اے کی ہماری آخری کلاس میں کہا تھا کہ اگر خدا نخواستہ آپ میں سے کسی کو پھر سے مدرسہ یا مسجد میں جانا پڑے تو ایک کام ضرور کیجیے گا۔ مسجد کے سیمنٹ کے لیے دوسری جیب سے پیسہ نکالیے گا اور مرغا منگانے کے لیے دوسری جیب سے۔ استاذ موصوف نے مدرسے میں جاری اخلاقی بحران کو ایک جملے میں بڑی خوب صورتی سے ادا کردیا۔
اس کے ساتھ پروفیسر ابراہیم موسیٰ کی بات اپنی جگہ سو فیصد مسلم ہے کہ تصور خدا، آخرت اور روحانیت و انسانیت سے کوئی ادارہ مربوط ہے تو وہ صرف مدارس ہیں۔ باقی تمام اداروں کی تعلیم صرف اور صرف شکم سے مربوط ہے۔ اس تناظر میں مدارس کی عظمت و انفرادیت اور اہمیت و ضرورت اپنی جگہ مسلم ہے۔
رہا یہ سوال کہ فارغین مدارس عصری جامعات میں پہنچ کر دین کے حوالے سے عصری تقاضوں کی تکمیل کس حد تک کرسکے ہیں اور مستقبل میں مزید ان سے کیا توقعات رکھی جاسکتی ہیں؟ اس کے جواب میں جامعۃ الرضا بریلی سے آنے والے جناب محمد علی ریسرچ اسکالر شعبۂ اسلامیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کا کہنا ہے کہ عصری جامعات میں اب تک جو فضلائے مدارس پہنچے ہیں ان کا نوے فیصد عربی، اردو، اسلامیات اور فارسی جیسے شعبہ جات سے ہی فیض یاب ہوا ہے۔ تاریخ، سماج، مذہب، سیاسیات، فلسفہ، قانون، میڈیا، نظم حکومت اور سماجیات وعمرانیات جیسے شعبہ جات میں بہت کم فضلائے مدارس پہنچے ہیں۔ پھر جو طلبہ مدارس سے عصری جامعات کی طرف رخ کرتے ہیں ان میں ۹۵ فیصد وہ ہوتے ہیں جو عصری تقاضوں کے مطابق دین کی خدمت کے جذبات سے سرشار ہوتے ہیں، لیکن سال دو سال گزرتے ہی دین اور خدمت دین جیسے الفاظ بیشتر کے لاشعور میں پہنچ جاتے ہیں اور معاش، کریئر اور ملازمت جیسے الفاظ ہی ہمہ دم ذہنوں پر چھائے رہتے ہیں۔
میرا اپنا اذعان یہ ہے کہ بڑا نقلاب جب آئے گا کہ مدارس میں رہتے ہوئے دین اور خدمت دین کے تصور میں وسعت آئے گی۔ میری رائے میں تعلق باللہ اور حسن اخلاق دین کے بنیادی عنصر ہیں، جن کی تربیت اور تکمیل کسی بھی شعبۂ حیات میں رہ کر کی جاسکتی ہے اور دوسروں کو بھی آسانی سے اس سے جوڑا جاسکتا ہے۔ رہی بات خالص مذہبی پیشوائی کی ،مثلاً فتویٰ نویسی، امامت اور مذہبی رنگ کی دعوت یا خطابت کی تو یہ کام مدرسےکا ہر فارغ التحصیل کرے کوئی ضروری نہیں۔ اس تصور کےساتھ اگر فضلائے مدارس عصری جامعات میں پہنچتے ہیں اور علوم و فنون کے جملہ شعبوں میں حسب ذوق جاتے ہیں تو اس کے دور رس اور انقلابی اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب وہ ہائی اسکول کی سطح تک جملہ مروجہ علوم و فنون کی مبادیات سے آشنا ہوچکے ہوں۔ 
اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی ناقابل فراموش ہے کہ اب تک جو فضلا عصری جامعات میں پہنچے ہیں اور وہاں سے نکل کر مختلف مناصب پر فائز ہوئے ہیں، وہ تمام باستثنائے معدودے چند، دینی جذبات سے سرشار ہیں۔ ان میں نصف سے زائد ظاہری تدین سے بھی آراستہ ہیں۔ ان کی اکثریت قومی اور ملی درد سے آشنا ہیں ۔ قوم و ملت اور دین ومسلک کے حوالے سے بھی ان کے ایجابی جذبات میں گہرائی آئی ہے۔ وہ دین کے حوالے سے عام مجالس میں جب بات کرتے ہیں تو ان کی گفتگو بیشتر علما کی گفتگو سے زیادہ معقول اور مؤثر ہوتی ہے۔یہ سب عصری جامعات کے فیوض ہیں۔اگر مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کی تعلیمی اور فکری تربیت و توسیع کی جاتی رہی، تو عصری جامعات میں پہنچ کر وہ مستقبل میں امت کے لیے مزید مفید ثابت ہوں گے، ان کی کوششوں سے امت کا تعلیمی گراف بھی بلند ہوگا اور معاشی، فکری، تمدنی جہات میں بھی ترقی و اصلاح پیدا ہوگی اور کیا عجب کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد دوبارہ مدارس کے نظم و تدریس اور قضا و افتا کی طرف متوجہ ہو۔ ایسا ہوتا ہے تو دین کی پیشوائی ایسی شخصیات کے ہاتھوں میں آئے گی جو تعلیمی و تربیتی لحاظ سے مجمع البحرین کی حیثیت رکھتی ہوں گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے اور ہونا ہی چاہیے تو قومی،ملی،مذہبی، مسلکی،دعوتی، تبلیغی اور سماجی و معاشرتی زندگی میں اک نئی صبح طلوع ہوگی اور ضرور طلوع ہوگی۔
دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکبِ غُنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گُلستاں خالی
گُل بر انداز ہے خُونِ شُہَدا کی لالی
رنگ گردُوں کا ذرا دیکھ تو عُنّابی ہے
یہ نِکلتے ہوئے سُورج کی اُفُق تابی ہے
٭٭٭ 







Wednesday 15 August 2018

علامہ ابن جوزی—ناقدتصوف یامحدث صوفی؟

1 comments
علامہ ابن جوزی — ناقد تصوف یامحدث صوفی؟
از قلم: ضیاء الرحمٰن علیمی
----------------------------------------------------------------------------
نقداور تنقید کا مقصودہی یہ ہے کہ اصلاح کی جائے اور تنقید جس سے متعلق ہے اس کے نظام میں بہتری اور حسن وخوبی پیداکی جائے، تنقید کا مطلب یہ کبھی نہیں ہوتا کہ نا قد سرے سے اس چیزکومستر د کر رہا ہے جس سے اس کی تنقید کا تعلق ہے، اس لیے کہ وہ تنقید جو برا ئے اصلاح نہ ہو بلکہ عیب جو ئی یا با لکلیہ کسی چیز کو رد کرنے کی غرض سے ہو وہ درحقیقت اس بات کی مستحق ہی نہیں ہے کہ اسے تنقید کے دائر ے میں شامل کیا  جائے۔ عر ب کا مقو لہ ہے: نقدت الدارھم یہ اس وقت اہل عرب بولتے ہیں جب کھرے سکے کو کھوٹے سے الگ اور ممتازکردیا جائے اور ظاہر ہے کہ کھر ے کو کھوٹے سے نما یاں کرنے کا عمل اسی وقت انجام دیا جائے گا جب کہ اس میں کچھ سکے کھرے اورکچھ کھوٹے ہوں اور وہ باہم مل گئے ہوں ،یوں ہی یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ کسی جماعت، تحریک یا نظریے پر تنقید کا مطلب ضروری طورپر یہ نہیں ہوتا کہ نا قد کسی بھی طرح اس جماعت ،تحریک یا نظریے سے جڑا نہیںہو سکتا-
یوں تو تصوف اس نظام کا حصہ ہے جسے محسن انسانیت پیغمبردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور اس کا حدیثی نا م’’ـ احسان ‘‘ہے لیکن بعد کے ادوارمیں جب فتنوں نے اپنے پائوں پسارے، وہ جماعت جس نے اسلام و ایمان کو حاصل کرنے کے بعد احسان پر توجہ دی، صوفیہ کے نا م سے منسوب ہوگئی اور’’ احسان‘‘ تصوف کی اصطلاح سے بدل گیا اور اس میں کوئی تعجب کی بات بھی نہیں کیوں کہ عصر صحابہ میں فقہ کا اطلا ق عین شریعت کے علم پر ہوا کرتا تھا لیکن بعد کے ادوار میں اس کا اطلاق اصطلاحی فقہ جس کی تدوین عصر عباسی میں ہوئی اس پر ہونے لگا۔(۱) چنانچہ مرور ایام کے ساتھ تصوف کا آب زلال بھی گد لا ہونے لگا اور پھر نا قدین کی ایک جماعت اٹھی اور انہوں نے تصو ف کو اس کے سر چشمے سے جوڑنے اور اس میں در آنے والی کدور توں کو صاف کرنے کی کو شش کی۔
نا قد ین تصوف کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کے اپرو چ (Approach)کے لحاظ سے ان کے دو گروہ سامنے آئیں گے اور دونوںہی گروہ ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ پہلا گروہ وہ ہے جواصطلاح تصوف کو قبول کرتاہے اور خود بھی صوفیہ اور تصوف کے طریقے پر قائم ہے لیکن اس کے باوجود تصوف میں بنام تصوف در آنے والے غیر اسلامی عناصرپر نظر رکھتا ہے اور نا م نہاد صوفیہ اور ان کے تصوف پر تیشۂ تنقید بھی چلاتا ہے ، ایسے نا قدین میں امام غزالی ،مجدد الف ثانی ،اور شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہم اللہ کے نام سر فہرست ہیں ۔دوسرا گروہ وہ ہے جو اصطلاح تصوف کو تو قبول نہیں کرتا لیکن چند باتوں سے اختلاف رکھنے کے باوجود متقدمین صوفیہ کا احترام کر تا ہے۔اس گروہ کے سرکردہ افراد میں حافظ ابن جوزی ،حافظ ابن تیمیہ اورحافظ ابن قیم کانام آتاہے ۔ اِدھر چند صدیوں سے ایک تیسرا گروہ بھی ابھر کر سامنے آیا ہے ، یہ وہ گروہ ہے جو نہ اصطلاح تصوف کو قبول کرتا ہے اور نہ صو فیہ متقد مین ہوں یا متا خر ین ، کا احترام کر تا ہے بلکہ ان کی بارگاہوں میں درید ہ دہن اور بے باک ہے اور خود ان کی زند گی میں بھی حقیقت احسان و تصوف کا کوئی نا م و نشان دکھائی نہیں دیتا بلکہ صر ف ظاہری اعمال کو انہوں نے عین شریعت کا نا م دے رکھا ہے۔ یہ گروہ سرے سے تمام صو فیہ کو گمراہ اور گمراہ گر قرار دیتاہے ، اور اپنے اس موقف کو جائز ٹھہرانے کے لئے ناقد ین تصوف کے دوسر ے گروہ ، ان کی آر ااور ان کی تصنیفات کا سہارا لیتا ہے۔ یہ تیسراگروہ در حقیقت وہ ہے جو سلفی یا عرف عا م میں وہا بی کے نا م سے جانا جاتا ہے ۔
ابھی گزر چکا کہ علامہ ابن جوزی کا تعلق نا قدین تصو ف کے دوسرے گروہ سے ہے۔ ہم اپنے اس مقالے میں اسی بات کا مطالعہ کریں گے کہ کیا واقعی ابن جوزی کا تعلق دوسرے گروہ سے ہے، یوں ہی ہم ان کی تنقید تصوف کی بنیاد وں کو سمجھنے کی کو شش کر یں گے لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ ان کی زندگی پر مختصر گفتگو کر لی جائے اوراسلام کے لیے ان کی خدمات کا ایک سر سری تعارف پیش کر دیا جائے ۔ 
علامہ ابن جوز ی: حیات وخدمات:
ابوالفر ج جمال الدین عبدالرحمن بن علی بن محمد بن علی بن عبیداللہ ابن جوزی قریشی تمیمی بکری بغداد میں ۵۰۸ھ اور ایک قول کے مطابق ۵۱۰ھ میں پیدا ہوئے ، ابوالحسن علی بن عبدالواحد دینوری متوفی ۵۴۱ھ، ابوالقاسم ابن الحصین ھبتہ اللہ بن محمدبن عبدالواحدبن احمد عباسی شیبانی بغدادی متوفی ۵۲۵ھ اور ابوعبد اللہ حسین بن محمد بن عبدالوہاب بارع بغدادی متوفی ۵۲۴ھ سے سماع حدیث کیا ،ان کے علاوہ ابوبکر محمد بن حسین بن علی بن ابراھیم مرزقی متوفی ۵۲۷ھ اور موھوب بن احمد جو الیقی متوفی ۵۴۰ھ سے علوم وفنون کی تحصیل کی۔(۲) آپ نے اپنے مشائخ میں ستاسی اشخاص کو ذکر کیا ہے حالانکہ ان کے علاوہ اور بھی کئی علما سے آپ نے شاگردی کا شرف حاصل کیا ۔(۳)
تاریخ، حدیث، وعظ، علم جدل وکلام میں علامۂ عصر تھے۔ ابن الجزری نے آپ کو شیخ العراق اور امام الآفاق کے لقب سے یاد کیا ہے۔ علامہ موفق الدین ابن نقطہ بغدادی (متوفی ۶۲۹ھ) آپ کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ کان ابن الجوزی لطیف الصوت، حلوالشمائل، رخیم النغمۃ، موزون الحرکات، لذیذ المفاکھۃ یحضر مجلسہ مائۃ الف أو یزیدون لا یضیع من زمانہ شیئا‘‘۔
ترجمہ: ابن جوزی لطیف آواز والے، پیاری عادتوں والے تھے، ان کی آواز میں نغمگی اور حرکت واطوار میں وزن تھا، گفتگو پر لطف ہواکرتی تھی، ان کی مجلسوں میں ایک لاکھ بلکہ اس سے زیادہ لوگ حاضر ہواکرتے تھے اور اپنا وقت بلا وجہ ضائع نہیں کرتے تھے-(۴)
پوری زندگی وعظ ونصیحت اور لوگوں کی اصلاح میں گزاری ،آپ کے ہاتھ پر ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے توبہ کی، آپ نوعمری سے ہی تصنیف وتالیف میں مشغول ہوئے اور تاریخ و حدیث، فقہ وطب اور دوسرے علوم وفنون میںبہ کثرت تالیفات یاد گار چھوڑیں۔(۵) علامہ ابن جوزی کی اپنی تیار کردہ فہرست کے مطابق ان تالیفات کی تعداد ۲۶۳ تک پہنچتی ہے۔ (۶)امام ذہبی لکھتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ کسی عالم نے اتنی تصنیفات کیں جتنی کہ ابن جوزی نے۔(۷)آپ کی چند مشہور مطبوعہ تصانیف کے نام یہ ہیں ، المنتظم فی تاریخ الملوک والامم ،المدھش فی المواعظ و غرائب الاخبار، صفۃ الصفوۃ، مناقب بغداد ،مناقب عمر بن عبدالعزیز، الاذکیاواخبارھم، مناقب احمد بن حنبل۔(۸)
ان کے علاوہ ان کی اور بھی بہت سی کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں اور ہورہی ہیں اور مختلف زبانوں میں ان کے ترجمے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ 
وعدئہ الٰہی کے مطابق علوم و فنون کایہ آفتاب ۵۹۷ھ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی بارہویں تاریخ شبِ جمعہ کو غروب ہوگیا، انتقال کی خبر پھیلتے ہی بغداد میں کہرام مچ گیا ،بازار بند ہوگئے، جامع منصورین میں نماز جنازہ اداکی گئی جو شرکاکی کثرت کی وجہ سے تنگ ہوگئی ،یہ بغداد کی تاریخ کا ایک یاد گار دن تھا، ہر طرف غم کے آثار اور گریہ کی آواز یں بلند ہوتی تھیں ،لوگوں کو آپ سے ایسی محبت تھی کہ رمضان بھر لوگو ں نے راتیں آپ کی قبر کے پاس گزاریں اور قرآن کریم کے ختم کیے۔ (۹)
علامہ ابن جوزی کا نقد تصوف: 
علامہ ابن جوزی کی زندگی پر کی گئی گفتگو سے ان کے منارئہ علم کی بلندی کا اندازہ ہوچکا ہے، اب ہمیں اس بات کا پتا لگانا ہے کہ آخر وہ کون سی تحریریں ہیں جن سے ان کے ناقد تصوف ہونے کا قول کیا جاتاہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں ان کی مشہور تالیف ہے تلبیس ابلیس، جس میں انہوں نے پوری اسلا می سوسائٹی کے خلاف ابلیسی سیاست اور اس کی دسیسہ کاریوں سے متعلق گفتگو کی ہے اور اس کے دسویں باب میں صوفیہ پر شیطانی تلبیس کامختلف پہلوئوں سے جایزہ لیاہے۔ اس کے علاوہ صیدالخاطر اور دوسری کتابوں میں بھی صوفیہ سے متعلق تنقیدی پیرا گراف ملتے ہیں، لیکن صوفیہ کی تنقید سے متعلق ان کا اصل سرمایہ تلبیس ابلیس ہے، بقیہ ان کی دوسری تنقیدی تحریریں تلبیس ابلیس ہی کی طرف لوٹتی ہیں۔ 
تلبیس ابلیس کے دسویں باب کے مطالعے سے چند باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں ۔
۱۔  تصوف ابتدا میں زہد کلی کا نام تھا بعد میں تصوف کی جانب منسوب افراد نے رقص وسماع کی اجازت دے دی۔
۲۔ مصنف نے حضرت جنید بغدادی اور حضرت رویم سے نقل کیا ہے کہ برے اخلاق سے نکلنے اور اچھے اخلاق میں داخل ہونے کا نام تصوف ہے، نیز یہ کہ ساری مخلوق تو رسوم پرستی  میں لگی رہی اور گروہ صوفیہ حقائق کی تلاش میں سرگرداں رہا ، سب نے اپنے نفس سے ظاہر شرع کی درستی چاہی لیکن اس نے اپنے نفس سے حقیقت تقویٰ اور مداومت صدق کا مطالبہ کیا اور پھر مصنف نے یہ اقرار کیا ہے کہ اوائل صوفیہ کا یہی حال تھا البتہ بعد میں شیطان نے چند چیزوں میں ان پر تلبیس کی یہاں تک کہ متاخرین پر اس نے پورا غلبہ حاصل کرلیا۔
۳۔ مصنف یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ متقدمین صوفیہ کتا ب وسنت پر اعتمادکیا کرتے تھے ،بعد میں کم علمی کے سبب شیطان نے انہیں دام فریب میںگرفتار کرلیا۔۴۔ مصنف نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ بعض مشائخ سے جو غلطیاں صادر ہوئی ہیں اگر واقعی صحیح ہیں تو ہم ان کاردکریں گے ورنہ ہم ایسے قول سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہیں، باقی رہے وہ لوگ جو صوفیہ میں سے نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ مشابہت کرتے ہیں تو ان کی غلطیاں بکثرت ہیں۔
۵۔ اخیر میں وہ یہ بھی واضح کردیتے ہیں کہ ہمارامقصود صرف شریعت مطہرہ کو پاک کرنا اور اس کی خاطر لوگوں کو غیرت دلانا اور علمی امانت اداکرناہے۔ آگے وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اطاعت صرف احکام شریعت کی ہوتی ہے لوگوں کی نہیں، بسااوقات اولیاء اللہ سے نسیان ہوتا ہے، ان سے غلطیاں صادر ہوتی ہیں اور ان کی ان لغزشوں کو ظاہر کرنا ان کے مرتبے کاانکار نہیں۔ (۱۰)
تنقید تصوف وصوفیہ کی بنیادیں:
ان اعترافات کے بعد چند سرخیوں کے تحت انہوں نے صوفیہ کی کمیوں کو بیان کیا ہے اور قرآن واحادیث کی روشنی میں ان کو پرکھنے کی کوشش کی ہے ۔ صوفیہ کے استدلال کو ذکر کیا ہے اور پھر اپنی تنقید باوزن انداز میں لکھنے کی کوشش کی ہے، جن باتوں کی وجہ سے انہوں نے صوفیہ پر تنقید کی ہے ان کو نکات کی شکل میں ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں:
 (۱) صوفیہ کی بداعتقادی (۲)طہارت کے باب میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس، (۳) نماز میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۴) جائے سکونت کے باب میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۵) مال کو چھوڑ دینے اور اس سے علیحدہ رہنے کے سلسلے میں تلبیس ابلیس (۶) لباس کے بارے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۷) کھانے پینے کے بارے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۸) سماع اور رقص کے سلسلے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۹) وجد میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۱۰) نوجوانوں کی صحبت کے سلسلے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۱۱) تو کل میں اور مال واسباب جمع نہ کرنے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۱۲) ترک علاج میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۱۳) ترک نکاح میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۱۴)سفر وسیاحت کے سلسلے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۱۵) بغیر زاد سفر ویرانوں میں جانے کے سلسلے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس(۱۶) بعض وہ امور جو صوفیہ سے سفر میں خلاف شریعت سرزد ہوئے (۱۷) سفر سے واپسی کے سلسلے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس، (۱۸) کسی کی موت کے سلسلے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۱۹) تحصیل علم نہ کرنے کے سلسلے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۲۰) علم کی کتابیں دفن کرنے اور انہیں دریا میں بہادینے کی نسبت صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۲۱) علم میں مشغول رہنے والوں پر صوفیہ کا اعتراض (۲۲) صوفیہ کی علمی مسائل میں گفتگو (۲۳) شطحات صوفیہ اور ان کے دعوے (۲۴) صوفیہ کے بعض قبیح افعال ۔ (۱۱)
تنقید تصوف کا جائزہ:
یہ وہ کل۲۴ نکات ہیں جن کی بنا پر انہوں نے صوفیہ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے، علامہ ابن جوزی نے صوفیہ پر تنقید کرتے وقت عمومایا تو صوفیہ کے مستدلات کی روایت کی صحت سے انکار کیا ہے یا پھر ان کی استدلالی کوششوں کو'' تخلیط''قراردیاہے اور اگر روایت کی صحت کا انکار، کسی بھی طرح ممکن نہیں تھا تو تاویل کی کوشش کی ہے- صوفیہ نے اپنے نظریات اور  اعمال ورسوم کے دفاع میں جو کچھ کہاہے یا وہ اعمال جو بظاہر برے معلوم ہوتے ان کا کوئی صحیح معنی ومطلب نکالنے کی جو کوشش کی ہے ان سب کو انہوں نے یک لخت جادئہ نبوت سے خارج قراردیا ہے۔ اگر علامہ ابن جوزی کی تنقیدی بنیادوں کا جائزہ لیاجائے تو پتا چلے گا کہ صوفیہ پر ان کی تنقید یا تو غلط فہمی پر مبنی ہے اور تصوف وصوفیہ کی اصل حقیقت ہی ان پر واضح نہیں ہے یا پھر ان کو  ان بعض اصطلاحات سے اختلاف ہے جن کا عصر نبوی میں کوئی وجود نہیں تھا، البتہ ان کی اصل موجود تھی۔ یا پھر انہوںنے احادیث سے ثابت شدہ صوفیہ کے بعض اعمال کا انکار صرف اس لیے کیا ہے کہ اس پر صوفیہ عمل پیر اہیں جب کہ دوسرے مقام پر انہی چیزوں کی وہ تعریف وتوصیف کرتے نظرآتے ہیں۔ 
حاصل یہ کہ علامہ ابن جوزی کی تنقید کا دائرہ چند بیانات کے گرد گھومتاہے۔ (۱) روایت درست نہیں ہے اور صوفیہ موضوع روایتوں سے استدلال کرتے ہیں۔ (۲) اس روایت کا مطلب یہ نہیں ہے،بلکہ یہ ہے۔ (۳) یہ طریقہ یا یہ معنی جادئہ نبوت سے خارج ہے۔ جہاں تک ضعیف وموضوع روایتوں سے استدلال کی بات ہے تو حکم ضعف و وضع لگانے میں ان کے یہاں اعتدال کے فقدان سے قطع نظر خود ان کی حالت یہ ہے کہ وعظ اور دوسرے اس قسم کے موضوعات پر مشتمل ان کی کتابیں ضعیف وموضوع روایات سے پر ہیں۔(۱۲)
ماسبق میں لکھا جاچکا ہے کہ ان کے عمومی اعتراضات کی نوعیت غلط فہمی ہے کیوں کہ ان کے بعض اعتراضات ایسے ہیں جن سے جماعت صوفیہ بالکلیہ بری ہے ۔ مثلا حلولی ہونے کا الزام، تنہائی اور گوشہ نشینی کے لیے ترک جمعہ کا الزام، ترک نکاح اور ترک طلب اولاد کا الزام اور نوجوانوں کی صحبت میں رہنے کاالزام وغیرہ، اور بعض اعتراضات اس بنا پر کیے گئے ہیں کہ وہ صوفیہ کی مراد اور گفتگو کی حیثیت کو نہیںسمجھ سکے ہیں اور محض غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں مثلا طہارت کے لیے صوفیہ کا پانی زیادہ استعمال کرنا، مال سے دور رہنا اور اس سے دور رہنے کی تاکید کرنا، کھر درے لباس پہننا وغیرہ، یہ اور اس جیسے دوسرے مسائل ایسے ہیں جس میں دونوں فریق دو الگ الگ حیثیتوں سے حق پر ست اور دونوں کی بات اپنی جگہ پر درست ہے لیکن علامہ ابن جوزی کی گفتگو سے ایسا لگتاہے کہ صوفیہ اس دوسری حیثیت کے منکرہیں جس کے وہ قائل ہیں حالانکہ ایسا نہیں، یہاں بھی علامہ ابن جوزی محض غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اور بعض اعتراضات کا تعلق اختلافی مسائل سے ہے مثلا سماع، رقص ووجد وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ سماع کی حلت وحرمت پر متقدمین سے لے کر آج تک بحث جاری ہے یوں ہی رقص ووجد اضطراری کیفیتوں کا نام ہے اور اس کے مذموم ومحمود ہونے کا دارو مدار صدق احوال پر ہے اگر بندہ صادق الحال ہے تومحمود ہوگا ورنہ مذموم لیکن مشکل یہ ہے کہ اس پر یقینی اطلاع ممکن نہیں ،محض شو اہد وقرائن سے اندازہ لگایا جاسکتاہے۔اور ایسا بھی نہیں ہے کہ رقص ووجد کے محمود و مذموم ہونے کے سلسلے میں صوفیہ نے ان تفصیلات کا لحاظ نہیں رکھا ہے بلکہ صوفیہ نے اپنی کتابوں میں اس معاملے کے ہر پہلو پر گفتگو کی ہے لیکن اس کے باوجود علامہ ابن جوزی یہاں بھی صوفیہ کے تعلق سے بد گمانی کا شکار ہیں اور وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ رقص ووجد کے سلسلے میں صوفیہ ان تفصیلات کے قائل ہیں اور نہ وہ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ صوفیہ کے یہاں بھی صادق الاحوال ہوسکتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف وہ غنااور رقص ووجد کے جواز واستحسان کے سلسلے میں امام احمد بن حنبل اور دوسرے ائمہ اعلام سے منقول روایتوں کو اولاتو مسترد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب رد کردینے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے تووہ ان کے سماع کو زہد پر ابھارنے والے اشعار، اور رقص ووجد کو صدق احوال پر محمول کرتے ہیں ۔(۱۳)لیکن اسی وسعت قلبی کا مظاہرہ وہ صوفیہ کے لیے نہیں کرتے ہیں اور جہاں تک صوفیہ کی استدلالی کوششوں کو تخلیط قرار دینے کی بات ہے تو حقیقت یہ ہے کہ صوفیہ کے دلائل کی تردید میں خود ان سے تخلیط واشتباہ واقع ہواہے(۱۴) اور شطحات کے سلسلے میں صوفیہ کا علمی موقف یہی ہے کہ وہ قابل تقلید نہیں ہیں البتہ وہ ناقدین کی طرح شطحات کی بناپر سب وشتم نہیں کرتے بلکہ تاویل کرتے ہیںاور جن سے یہ باتیں صادرہوتی ہیں انہیں معذورجان کران کی عیب پوشی کرتے ہیںاورحسن ظن رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جوکہ شرعامطلوب ہے اور جہاں تک جادہ سے منحرف ہونے اور اعتدال پر نہ ہونے کی بات ہے تو اس مقام پر بھی دراصل علامہ ابن جوزی غلط فہمی کے دام میں گرفتارہیں۔
 اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شدید سردی کے موسم میں آگ کے انتہائی قریب بیٹھا ہو اب کوئی دوسراانسان جو اس کیفیت سے دوچار نہیں ہے اس تصویر کو جب بھی دیکھے گا تو اسے اعتدال سے ہٹا ہوا قرار دے گا اور آگ سے اس انسان کی انتہائی قربت کو’’ انحراف عن الجادۃ‘‘ کہے گا لیکن کیا واقعتا ایسا ہی ہے کہ وہ انسان جو شدید سردی کے موسم میں آگ کے انتہائی قریب بیٹھا ہے وہ اعتدال پر نہیںہے؟ یاپھر یہ دیکھنے والے کا محض فریب اور اس کے گردوپیش سے ناواقفیت کی دلیل ہے؟ (۱۵) اور جہاں تک عدم  اعتدال کی بات ہے تو ہر جماعت عدم اعتدال کا شکار ہے ،فقہائے ظاہر صرف ظاہری مسائل پر زوردیتے ہیں، اہل حدیث صرف ظواہر حدیث کو دین سمجھ بیٹھے ہیں، اصحاب ثروت نے صر ف ذخیرہ اندوزی کو سر مایہ آخرت سمجھ رکھاہے، ایسے میںصوفیہ احوال قلب کی درستی، دنیا سے یک گونہ بیزاری اور صرف آخرت پر نظر کو اصل مقصود قرار دے رہے ہیں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ جبکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ صوفیہ جس طرح باطن شریعت پر سختی سے عامل اور اس کی دعوت دینے والے ہیں یوں ہی وہ ظاہر شریعت کے مکمل پابند اور اس کی پابندی کی طرف بلانے والے ہیں وہ نہ دنیا سے محبت کی دعوت دیتے ہیں اور نہ دنیا بیزاری کی بلکہ وہ ہر عمل میں نیت کی درستی پر ابھارنے والے ہیں ، وہ اس اعتدال کے داعی ہیں جس کی حدیث میں صراحت کی گئی ہے کہ تم اپنی دنیا ایسے تلاش کروگویا تم ہمیشہ کے لیے یہاں رہنے والے ہو اور آخرت کی تیاری میں اس طرح مسلسل لگے رہو گویا تم اگلے ہی دن موت سے آملو گے، ان کی نظر میں ہمیشہ وہ حدیث رہتی ہے جس میں فرمایا گیا کہ دنیا تمہارے نفع کے لیے پیداکی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے، البتہ صوفیہ نبی کریم ﷺ کے حقیقی وارث ہیں، نیابت کا کام سند متصل کے ساتھ انجام دے رہے ہیں اس لیے وہ طالبین وسالکین کو ان کے احوال کے لحاظ سے رہنمائی فرماتے ہیں، کوئی اگر دنیا بیزار ہوتا ہے تواسے دنیا سے حدودشرع میں نفع اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں اور اگر کوئی دنیا کی آلائشوں میں ڈوبا نظر آتا ہے تو اسی شدت کے ساتھ اس سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، آج چوں کہ طالب دنیا کی کثرت ہے اور صوفیہ کی بارگا ہوں میں حاضرہونے والے عموما دنیا کی گندگیوں میں سرسے پائوں تک ڈوبے ہوتے ہیں ،اس لیے صوفیہ اسی شدت کے ساتھ اس سے باز رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اب ایک دوسرا شخص جوان احوال سے واقف نہیں ہے صوفیہ پر دنیا بیزاری کا الزام لگاتاہے اور ان پر خود غرض جماعت ہونے کا الزام عائد کرتا ہے کہ انہیں صر ف اپنی نجات کی فکر ہوتی ہے، حالاں کہ صوفیہ سب سے زیادہ مخلوق کی نجات کی فکر کرنے والے ہوتے ہیں، دنیا اور دنیاوی چیزوں سے متعلق صوفیہ کے غیر معتدل سمجھے جانے والے سارے اقوال کو مذکورہ احوال کے سیاق میں ہی سمجھا جانا چاہیے ورنہ ویسی ہی غلط فہمی پیداہوگی جیسا کہ علامہ ابن جوزی کو ہوئی۔
موجودہ دور کے ناقدین تصوف سے دوباتیں:
 تعجب تو عدم تقلید کے ان دعوے داروں پر ہے جو مسائل میں بھی متقدمین کے بجائے متاخرین کی تقلید کرتے ہیں اور کسی نظریے یا کسی تحریک پر تنقید بھی تقلیدی طور پر کرتے ہیں۔ حالانکہ تنقیدی عمل کا تقلید سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ موجودہ دور کے سلفی ناقدین تصوف صدیاں گزرنے کے باوجود تصوف اور صوفیہ کی کوئی اور دوسری خامی نہ پیش کرسکے جسے علامہ ابن جوزی، شیخ ابن تیمیہ وغیرہ نے نہ پیش کی ہو، اب ان حضرات سے چوں کہ غلط فہمیاں ہوئیں اور ان عصر حاضر کے ناقدین نے تقلیدی طور پر تصوف اور صوفیہ پر تنقید کی، اس لیے انہیں اب تک حق کا عرفان حاصل نہیں ہوسکا ،اگر انہوں نے واقعی تنقیدی عمل کو اخلاص وانصاف کے ساتھ انجام دیا ہوتا تو انہیں بھی سچائی مل جاتی اور جماعت صوفیہ میں درآنے والی خرابیوں کی بھی اصلاح ہوجاتی ،جیسا کہ امام غزالی کے ساتھ پیش آیا کہ وہ اجالوں کے سفیر بھی بنے اور مصلح تصوف بھی شمار کیے گئے۔ اگر موجودہ دور کے ناقدین علامہ ابن جوزی کی طرح صرف کمیوں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے، نیت بھی درست رکھتے اور حق پرست وناحق پرست صوفیہ کے مابین فرق قائم کرتے تو بات کسی حد تک قابل قبول تھی، انہوں نے تو تصوف کو بالکلیہ مسترد کردیا اور سب و شتم پر بھی اتر آئے اور علامہ ابن جوزی جیسی شخصیتو ں کو اپنے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کرنے لگے حالانکہ اگر یہ بات درست ہے کہ غیر معصوم کی ہربات قابل قبول نہیں تو پھر تنقید تصوف کے معاملے میں علامہ ابن جوزی کی تقلید کیوں؟اور یہاں ’’خذماصفاودع ماکدر‘‘ کا اصول کیوں جاری نہیں کیاجاتااور خود ابن جوزی کی تنقیدات کا تنقیدی مطالعہ کیوں نہیں کیاجاتا؟ دوسری بات یہ ہے اگر علامہ ابن جوزی کی تنقیدیں ان کو اتنی ہی پیاری اور ان کے نزدیک اتنی ہی'' معصوم'' ہیں تو پھر ان کے ان ریمارکس کو کیوں سینے سے نہیں لگایا جاتا جن کا تعلق سلفیت سے ہے۔ کیوں کہ صیدالخاطر میں ''سلفیون جہال ''کے نام سے مستقل تنقیدی پیراگراف موجود ہے ۔(۱۶)یوں ہی تلبیس ابلیس کے مشمولات اگر اتنے ہی ناقابل تردید ہیں تو کیا ہم یہ مان لیں کہ علامہ ابن جوزی جہاں مخالف تصوف وصوفیہ تھے وہیں فقہ وحدیث ا ور علم قرأت کے حاملین، والیان سلطنت اور اصحاب زہد و ورع کے بھی خلاف تھے؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوگا، بلکہ ہر بالغ نظر حقیقت پسند تقابلی مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے گا کہ علامہ ابن جوزی اہل سنت کے کسی طبقے کے مخالف نہیں بلکہ محض مصلح اور ہمدرد ہیں، ان کی نظر میں جو باتیں غلط نظر آ ئیں ،چاہے ان کا تعلق اسلامی معاشرہ کے کسی طبقے سے ہو، انہوں نے اصلاح کی کوشش کی،  صوفیہ پر ان کی تنقیدات کے مطالعہ سے لب لباب کے طور یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کی تنقیدوں کا تعلق جاہل صوفیہ یامتصوفین، اور صوفیۃ الرسوم سے ہے اور جہاں تک صوفیۃ الحقائق کی بات ہے تو وہ ان کی عظمتوں کے معترف ہیں اور جاہل صوفیہ کے خلاف اہل حق صوفیہ اور ان کے متبعین ہمیشہ معرکہ آرا رہے ہیں،البتہ لوگوں کی طبیعتوں کے لحاظ سے معرکہ آرائی کا انداز مختلف رہاہے۔البتہ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ علامہ ابن جوزی بھی انسان تھے اور معصوم نہیں تھے اس لیے ان کی تنقیدات کا بھی جائز ہ لیاجائے گا اور جو بات درست ہوگی اسے ہی قبول کیا جائے گا اور جونادرست ہوگی اسے مسترد کردیا جائے گا۔ یہ سب اللہ کی راہ میں کوشش کرنے والے ہیں،جہاں انہیں درستی نصیب ہوئی اس پر رب تعالیٰ کی جانب سے دوہرے اجر کے مستحق ہیں اور جہاں انہوں نے ٹھوکر کھائی وہاں بھی ایک اجر کے حق دار ہیں اور ان سب کا دار ومدار نیت پر ہوگا۔ اور جہاں تک صوفیۃ الحقائق کا معاملہ ہے تو خود علامہ ابن جوزی اس کے معترف ہیں کہ متقدمین صوفیہ کے یہاں اعتماد کتاب وسنت پر ہوا کرتا تھا،البتہ متاخرین میں خرابیاں در آئیںاور یہ بھی حقیقت ہے کہ افراد کے فساد سے نظریے کا فساد لازم نہیں آتا بلکہ زیادہ سے زیادہ عمل کی خرابی کا دعوی کیا جاسکتا ہے ، اور عمل کی خرابی سے کوئی جماعت اور طبقہ مستثنٰی نہیں ہے ، حقیقی صوفیہ آج بھی مشکاۃنبوت سے سب سے زیادہ روشنی حاصل کرنے والے ،اللہ کی راہ میں کوشش کر نے والے ، قرآن وسنت کے سب زیادہ حریص اور اسلام، ایمان واحسان کو سب سے زیادہ جمع کرنے والے ہیں،ان کاعقیدہ اہل سنت کا عقیدہ ہے اور وہ اپنے ہر عمل کو میزان شریعت میںسب سے زیادہ تو لنے والے اور قرآن و سنت کے خلاف ہر چیز کو سب سے زیادہ مسترد کرنے والے ہیں۔(۱۷)ہاں دوسری جماعتوںکی طرح ان میں بھی اچھے برے لوگ ہیں ان میں فرق و امتیاز کیا جاناچاہئے یوں ہی صوفیہ کا تعلق بھی انسانی جماعت سے ہے، ان سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ، اب جس طرح برائیوں کی بنا پر اور غلطیاں سر زد ہونے کی بنا پر دوسری جماعتوںکو متہم نہیںکیا جاتا، اسی طرح صوفیہ کو بھی طعن وتشنیع کانشانہ بنا نے کے بجائے ان کے ساتھ انصاف سے کام لیاجانا چاہیے ۔   
تصویرکا دوسرا رخ:
یہاں تک علامہ ابن جوزی کی تنقید صوفیہ و تصوف اور اس سے متعلق گوشوں پر گفتگو کی گئی، اب علامہ ابن جوزی کے تعلق سے تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اعتبار الفاظ واصطلاحات کا نہیں ہوتا بلکہ ان کے مدلولات کا ہوا کرتا ہے، چنانچہ اس زاویے سے دیکھا جائے تو علامہ ابن جوزی کی زندگی کے واقعات اور خود ان کی تحریریں ایک ایسے شخص کے قلم سے نکلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جو بظاہر تو ناقد تصوف ہے لیکن بباطن حقیقت تصوف کی عملی تصویر۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے علامہ ابن جوزی کی ان تحریروں کی جانب اشارہ کیا جائے گا جس میں وہ ایک خالص صوفی نظر آتے ہیں، ثانیا ان باتوں کو پیش کیاجائے جو صوفیانہ خصوصیتوں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔پھر ان کے عملی منہج سے ان کے صوفی انداز فکر بتلایا جائے گا اور ثالثا مورخین کے حوالے سے ان کی مجالس وعظ کو پیش کیاجائے جس سے آفتاب نیم روز کی طرح واضح ہوجائے گا کہ علامہ ابن جوزی کی مجلس ایک عام انسان کی مجلس نہیں ہواکرتی تھی بلکہ ایک صاحب حال صوفی کی مجلس ہواکرتی تھی۔ لیکن اس سے قبل کہ ان کی زندگی سے احوال تصوف کے نمونے پیش کیے جائیں، ضروری ہے کہ صوفی کسے کہتے ہیں اور طریقہ تصوف کیا ہے اس کی وضاحت کردی جائے تاکہ علامہ ابن جوزی کی زندگی سے پیش کیے جانے والے نمونوں کو ان تعریفات کی روشنی میں پرکھا جاسکے۔  
صوفی کون ہے؟
صو فی کی تعریف کرتے ہوئے شیخ ابن عجیبہ فرماتے ہیں: "سہل تستری نے فرمایا: 
الصوفی صفا من الکدر وامتلأ من الفکر وانقطع  الی اللہ عن البشر واستوی عند ہ الذھب والمدر"
ترجمہ: صوفی وہ ہے جو کدورت و آلائش سے دور ہو اور فکر آخرت سے پر ہو اور لوگوں سے کٹ کر اللہ کی طرف متوجہ ہوگیا ہو اور اس کے نزدیک سونا اور مٹی کا ڈھیلا برابر ہوگیا ہو (یعنی اپنے مولیٰ کے علاوہ اسے کسی چیز کی رغبت نہ ہو)۔ (۱۸)
امام محی الدین نووی (متوفی ۶۷۶ھ) اپنے رسالہ ’’المقاصد السبعۃفی اصول طریق التصوف‘‘ میں فرماتے ہیں:  
’’راہ تصوف کے اصول پانچ ہیں: ظاہر وباطن میں اللہ کا تقوی اختیار کرنا۔ اقوال وافعال میں سنت کی پیروی کرنا، عروج واقبال اور پستی اور ادبار میں مخلوق سے اعراض کرنا ۔(۱۹)
صوفی اور طریقہ تصوف کی اس توضیح کو ذہن نشیں کر کے علامہ ابن جوزی کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے اور فیصلہ کیا جائے کہ وہ صوفی اور تصوف کے مدلول کے لحاظ سے صوفی تھے یا نہیں۔ 
صیدالخاطر میں تصوف کے نمونے:
 کسی بھی انسان کی ڈائری اس کی حقیقی زندگی کی بہترین عکاس ہوتی ہے۔ علامہ ابن جوزی کی ایک ایسی ہی تصنیف ہے صیدالخاطر۔ یہ تصنیف کیا ہے ایک کشکول ہے جس میں مصنف نے اپنے قلبی واردات، بے تکلف خیالات واظہارات، زندگی کے مختلف تجربات، بکھرے افکار اور روز مرہ کی زندگی میں پیش آمدہ مسائل و حوادث کو اس طرح سمودیا ہے کہ پوری کتاب پڑھ جایئے کہیں بھی آورد کا شائبہ نہیں ہوگا بلکہ صرف آمد ہی آمد نظرآئے گا۔ اور قاری اس کتاب کے مطالعے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا، اس کتاب میں جابجا نفس سے مکالمے ملیں گے۔سوال وجواب ہوگا، ذہنی کشمکش کی داستان ہوگی، اور معاشرتی مسائل پر کبھی اشاراتی اور کبھی تفصیلی گفتگو ملے گی ،اس کتاب کے مطالعے سے علامہ ابن جوزی کا پورا پیکرتراشا جاسکتاہے۔کہیں وہ ناقد تصوف نظر آئیں گے اور کہیں ’’ناقد سلفیت‘‘، کہیںوہ محدثین کی کمیاں دکھارہے ہوں گے تو کہیں فقہاکی کمزوریاں بیان کرتے نظر آئیں گے، اور کہیں ایک ایسا عاجز ومتواضع انسان نظرآئے گا جو صرف تعلق باللہ کی تلاش میں ہے جو عزلت نشینی چاہتاہے ،جو دنیا سے متنفر ہے، جو بادشاہوں اور والیان سلطنت سے دوری بنائے رکھنا چاہتا ہے، جو ان ساری خوبیوں اور اعلیٰ صفات واحوال سے آراستہ ہے جن سے مشائخ صوفیہ آراستہ ہواکرتے ہیںاور جو سلوک وتصوف کی ان منزلوںپر ہے جہاں اکابر صوفیہ فائز ہوا کرتے ہیں۔ 
اس کتاب کی فہرست اٹھاکر دیکھی جائے تو تین سو سے زائد عناوین کے تحت ان کے مختلف افکار وخیالات ملیں گے جن میں اکثریت ان کی ہوگی جن کا تعلق تصوف اور صوفیانہ احوال وصفات سے ہے۔ ہم ذیل میں صرف چند عناوین کو ذکر کریں گے جس سے ان کے عملی اور فکری تصوف کا اندازہ لگانا آسان ہوگا، وہ عناوین جن سے رنگ ِتصوف جھلکتا ہے کچھ اس طرح ہیں:
(۱)  روابط النفس بالدنیا (دنیاسے نفس کے رابطے)(۲۰) (۲)  موت القلوب (دلوں کی موت) ( ۲۱) (۳) علماء الدنیاوعلماء الآخرۃ (علمائے دنیااور علمائے آخرت) (۲۲) (۴) التسلیم للحکمۃ العلیا (حکمت عالی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا) (۲۳) (۵) التبتل الی اللہ (دنیاسے کٹ کر صرف اللہ کاہوجانا) (۲۴) (۶) فلسفۃ الصبر والرضا (صبرورضا کافلسفہ) (۲۵) (۷) دعاء المنکسرین (منکسرین کی دعا) (۲۶) (۸) السبب لاینبغی ان یذھل عن اللہ (سبب اللہ سے غافل نہ کرے) (۲۷) (۹) جہاد الھوی (خواہش نفس سے جہاد)  (۲۸) (۱۰) سعادۃ العارفین (عارفین کی سعادت) (۲۹) ( ۱۱) دمعۃ التائب تطفئی نارالغضب (تائب کے آنسو غضب الٰہی کو بجھادیتے ہیں) (۳۰) (۱۲) تقوی اللہ علی کل حال (ہر حال میں اللہ سے ڈر) (۳۱) (۱۳) غلبۃ الشھوۃ (غلبہ شہوت) (۳۲) (۱۴) العلم النظری لا یکفی (علم نظری کافی نہیں) (۳۳) (۱۵) العزلۃ النافعۃ (نفع بخش عزلت) (۳۴) (۱۶) الاخلاص التام (کامل اخلاص) (۳۵) (۱۷) الحیاۃ مدرسۃ تخرج للآخرۃ (زندگی ایک مدرسہ ہے جہاں آخرت کی تیاری کرائی جاتی ہے) (۳۶) (۱۸) علماء القشورو علماء اللباب (ظاہر پرست اور حقیقت پرست علما) (۳۷) (۱۹) النفس طامعۃ اذااطمعتھا (نفس کو جتنی امید دلاؤگے اتنی ہی امید باندھے گا) (۳۸) (۲۰) الوحدۃ خیرمن جلیس السوء (برے ہم نشین سے تنہائی بہتر ہے ) (۳۹) (۲۱) آثار الذنوب طویلۃ المدی (گناہ کااثر دیر تک رہتا ہے) (۴۰) (۲۲) لا استقرار فی الدنیا (دنیامیں ثبات نہیں) (۴۱) (۲۳) التسبیح والاستغفار علی الحقیقۃ (حقیقت میں تسبیح و استغفار) (۴۲) (۲۴) العزلۃ دواء (گوشہ نشینی علاج ہے) (۴۳) (۲۵) المحافظۃ علی صفاء القلب (صفائی قلب کی پابندی) (۴۴) (۲۶) الاستعداد للرحیل (کوچ کی تیاری) (۴۵) (۲۷) مخا لطۃ المحجوبین عن اللہ عشاوۃ (غافلین کی صحبت اندھاپن ہے) (۴۶) (۲۸) حقیقۃ الحسد (حسد کی حقیقت) (۴۷)  (۲۹) یوم العید ویوم القیامۃ (یوم عید اور یوم قیامت) (۴۸) (۳۰) نماذج للعبرۃ (عبرت کے نمونے (۴۹) (۳۱) اللذات المعنویۃ (معنوی لذتیں) (۵۰) 
اب تک ہم نے صر ف عناوین کے نمونے کو ملاحظ کیا ہے اب ان کی کتاب صیدالخاطر سے ہی چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جن سے ان کے فکری میلان اور طبعی رجحان کا اندازہ ہوجائے گا۔
علماء الدنیا وعلماء الآخرۃ کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ میں نے علما کے باہمی بغض وحسد کے اسباب پر غور کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی وجہ دنیا کی محبت ہے، اس لیے کہ آخرت کو نگاہ میں رکھنے والے علما باہم الفت ومحبت رکھتے ہیں نہ کہ بغض وحسد، جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور جو انہیں دیا گیاہے اس کی ضرورت اپنے اندر محسوس نہیں کرتے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اور جو لوگ ان کے بعد آئے وہ عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ایمان کے ساتھ گزر گئے بخش دے اور ایمان والوں کے تعلق سے ہمارے دلوں میں کینہ مت ڈال ۔ 
حضرت ابو دردا ء ہررات اپنے دوستوں کے لیے دعاکیا کرتے تھے۔ حضرت امام احمد بن حنبل نے حضرت امام شافعی کے لڑکے سے فرمایا : تمہارے والد ان چھ لوگوں میں سے ہیں جن کے حق میں ہر صبح صادق کے وقت میں دعا کرتاہوں۔
دونوں گروہوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ دنیا کو محبوب رکھنے والے علما دنیا کی سرداری چاہتے ہیں اور زیادہ مال ودولت اور تعریف وتوصیف کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ جب کہ آخرت سے محبت رکھنے والے علما دنیا سے، مال ودولت سے اور تعریف وتوصیف سے بھاگتے ہیں اور اسے دوسروں کے لیے چھوڑدیتے ہیں یہ ان باتوں سے بہت ڈرتے ہیں اور جو اس کی آزمائش میں پڑتے ہیں اس کے لیے دعائے رحمت کیا کرتے ہیں ۔حضرت امام نخعی ستون سے ٹیک نہیں لگاتے تھے۔  یہ لوگ فتووں سے دور بھاگتے تھے، گم نامی کو پسند کرتے تھے۔ ان کی مثال ان لوگوں کی ہے جو سمندری سفر پر ہوں اور سمندر میں زبر دست موجیں بلند ہورہی ہوں تو انہیں صرف اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ کیسے وہ کامیابی کے ساتھ اپنا سفر پورا کریں گے، یہاں تک کہ انہیں کامیابی کا یقین ہوجائے،ان میں کا ہر ایک دوسرے کے لیے دعاکرتاہے اور باہم استفادہ کرتاہے، اس لیے کہ وہ سب ایک سواری میں بیٹھے مسافر ہیں جو آپس میں محبت والفت سے کام لیتے ہیں۔ گویا یہ روز و شب ان کے لیے سفرجنت کی راہ میں منزلوں کی مانند ہیں۔(۵۱)
 اضا عۃ ا لوقت کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
میں نے عام طور سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ عجیب و غریب انداز سے اپنی زندگی کے اوقات گزاررہے ہیں، اگر رات لمبی ہو تو بے سود باتوں میں گزرتی ہے یا پھر ایسی کتاب پڑھتے ہوئے گزرتی ہے جس میں جنگ وجدال کی باتیں یا قصے کہانیاں ہوتی ہیں ۔اوراگر لمبا دن ہو تو سوتے ہوئے گزارتے ہیں۔ یہ لوگ صبح وشا م کے وقت یا تو دجلہ کے کنارے ہوتے ہیں یا پھر بازاروں میں، میرے نزدیک یہ لوگ کشتی میں بیٹھے ان لوگوں کی طرح ہیں جو گفتگو میں مشغول ہیں، کشتی انہیں آگے لیے جارہی ہے لیکن انہیں خبر نہیں۔ بہت کم لوگ ہی اپنے وجود کی اہمیت سمجھتے ہیں اور زاد سفر کی اور کوچ کرنے کی تیاری میں لگے رہتے ہیں۔ البتہ ان میں بھی باہم فرق ہوتا ہے، اور یہ فرق اس علم کی کمی اور زیادتی کی بنا پر ہوتا ہے کہ اسے اس شہر اقامت میں کیا خرچ کرنا چاہیے۔ ہوشیار لوگ وہاں رائج چیزوں کی خبروں پر نظر رکھتے ہیں ان کا ذخیرہ کرکے زیادہ نفع کماتے ہیں۔ اور بے خبر لوگ جو مل جائے وہ لاد لیتے ہیں اور بسااوقات بغیر کسی محافظ کے ہی نکل پڑتے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیںجن کو راستے میں ہی لوٹ لیا جاتا تو وہ خالی ہاتھ ہی رہ جاتے ہیں۔ زندگی کے موسم بہار میں اللہ سے ڈرواور وقت نکلنے سے پہلے جلدی کرو۔ علم سے استشہاد کرو۔ حکمت سے استدلال کرو اور زمانے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ لوگوں سے مکالمے کرو اور زاد سفر لے لو، اس لیے کہ حدی خواں جب حدی خوانی کرچکے گا تو حسرت ویاس کے باوجود اس کی پُر تاثیر آواز کی تاثیر سمجھ میں نہیں آئے گی۔(۵۲)
العز لۃ دواء کے تحت گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عبادت گزاری زہد اور آخرت سے تعلق قائم کرنے کو شش اس وقت تک خالص نہیں ہوسکتی جب تک کہ مخلوق سے کلی طور پر ترک تعلق نہ کرلیا جائے۔ اس طرح کہ نہ انہیں دیکھے، نہ ان کی گفتگو سنے، البتہ ضرورت کے اوقات جیسے نماز جمعہ ،وجماعت اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اور ان اوقات میں بھی ان سے اجتناب کرے۔ اگر کوئی عالم مخلوق کو نفع پہنچا نا چاہے تو ان کے لیے ایک وقت متعین کردے اور ان سے گفتگو سے احتراز کرے۔ رہا وہ انسان جو آج کے بازاروں میں گھومتا ہے اور اس تیرہ وتاریک دنیا میں خرید وفروخت کرتا ہے اور بری باتوں کو دیکھتا ہے تو وہ گھر اس حال میں لوٹتا ہے کہ اس کے دل پر تاریکی چھا چکی ہوتی ہے۔ چنانچہ طالب حق کے لیے ضروری ہے کہ وہ جب بھی نکلے تو یا تو جنگلوں کی طرف نکلے یا پھر قبرستان کی طرف، سلف کی ایک جماعت خرید وفروخت کرتی تھی اور اجتناب سے بھی کام لیتی تھی۔ اس کے باوجود جس وقت ان کے دل کی نورانیت ختم ہوگئی انہوں نے بھی مخلوق سے قطع تعلق کرلیا۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں نے عبادت وتجارت ساتھ ساتھ کرنے کی کوشش کی تو یہ دونوں اکٹھے نہیں ہوسکے، تب میں نے عبادت کو اختیار کرلیا۔ حدیث میں وارد ہے کہ بازار لہوولعب میں اور لغو باتوں میں لگا تاہے، چنانچہ جو شخص نفع رسائی کے ساتھ پرہیز پر قادر ہو اور میل جول اور اپنے بال بچوںاور خاندان کے لیے حصول روزی پر مجبور ہوتو اسے چاہیے کہ وہ اسے دھیان رکھے اور پرہیز سے کام لے جیسے راہ چلتا انسان کانٹے سے بچتا ہے۔ پھر بھی اس کا بچ نکلنا بہت مشکل ہوگا۔ (۵۳)
یہ صوفیہ کا طریقہ ہے کہ و ہ واقعات زندگی کی پوری تحلیل کرتے ہیں اور اپنے نفس سے حکیمانہ مکالمے کرتے ہیں اور چھوٹے واقعات سے بڑے نتائج نکالتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ ابن جوزی بھی واقعات زندگی کا تحلیلی مطالعہ کرتے ہیں ، حکیمانہ انداز میں اس کے نصیحت وعبرت سے بھرے پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں اور اپنے نفس سے مکالماتی انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے دعا کی، ایک دوسرے صالح بزرگ اس دعا میں شریک تھے۔ دعاقبول ہوگئی، لیکن کس کی دعا قبول ہوتی اس پر انہوں نے اپنے نفس سے مکالمہ کیا جس کا حاصل یہ ہے کہ کبھی کبھی اعتراف گناہ حسن عمل پر بھاری پڑجاتا ہے اور حسن عمل نہ ہونے کے باوجود اعتراف گناہ کی وجہ سے بھی دعا قبول ہوجاتی ہے ۔(۵۴)
 یوں ہی وہ چھوٹے چھوٹے واقعات اور روز مرہ کے مشاہدات سے بڑے بڑے نتائج حاصل کرتے ہیں۔ مثلا انہوں نے دو مزدوروں کو ایک بھاری شہتیراٹھا کر لے جاتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ کچھ گاتے ہوئے جارہے ہیں۔ ایک شخص ایک مصرعہ پڑھتا ہے اور دوسرا اس کا ترنم سے جواب دیتا ہے، اس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ نفس پر شرعی ذمہ داریوں کا جو بوجھ ہے اور اس میں صبرکی جو راہ ہے اس کو نفس کی جائز دلداری سے طے کیاجائے ۔(۵۵)
یوں ہی صوفیہ کا طریقہ ہے کہ وہ قلب کی اصلاح اور ذوق وشوق پیداکرنے کے لیے موثر واقعات اور سلف صالحین کے حالات کے مطالعے پر زور دیتے ہیں۔ علامہ ابن جوزی بھی اسی فکر کے حامل ہیں اور وہ بھی فقہاو محدثین اور طلبہ و علما کو مشورہ دیتے ہیں کہ اصلاح قلب کے لیے اور ذوق طاعت وعبادت پیدا کرنے کے لیے صرف فقہ اور سماع حدیث میں مشغولیت ہی کا فی نہیں اور نہ صر ف اس سے قلب میں رقت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی صرف حلال و حرام کے علم سے قلب میں صلاح پیدا ہوتا ہے بلکہ اس کے لیے سلف صالحین کے حالات کامطالعہ ضروری ہے کیوں کہ ان روایات کا جو مقصود ہے وہ انہیں حاصل تھا۔ یوں ہی احکام پر ان کا عمل بھی صرف ظاہری نہیں تھا بلکہ اس کا اصلی ذوق انہیں حاصل تھا۔(۵۶)
علامہ ابن جوزی نے صرف مشورے ہی نہیں دیے بلکہ سلف صالحین اور صلحا ئے امت کی سیرتیں بھی لکھیں، جن میں حضرت حسن بصری، عمر بن عبدالعزیز ، حضرت سفیان ثوری ، حضرت ابراہیم بن ادہم، حضرت بشر حافی، امام احمد بن حنبل اور حضرت معروف کرخی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ صلحائے امت کا ایک جامع تذکرہ انہوں نے ’’صفۃ الصفوۃ‘‘ کے نام سے مرتب کیا، جن  صلحائے امت کی انہوں نے مختصر سیرتیں لکھی ہیں ،ان میں اکثریت ان حضرات کی ہے جو متقدمین صوفیہ میں شمارہوتے ہیں مثلا حسن بصری، ابراہیم بن ادہم، معروف کرخی، بشر حافی ،رابعہ بصریہ ، جنید بغدادی ،سری سقطی وغیرہم، یوں ہی انہوں نے اپنی اس کتاب میں بعض مجذوبوں کا بھی تذکرہ کیا ہے اور انہیں المجانین العقلاء (عقل مند پاگل )کے نام سے یاد کیا ہے۔(۵۷)
 یوں ہی انہوں نے اپنی کتاب صیدالخاطر میں بھی بکثرت متقدمین صوفیہ کا تذکرہ کیا ہے اور ان کی عظمتوں کو بیان کیا ہے۔(۵۸)
عملی تصوف کے نمونے:
 ان ساری باتوں سے قطع نظر خود ان کا عمل، ان کا تقوی اور ذوق عبادت ان کے طبعی میلانات اور فکری رجحانات کا پتا دیتے ہیں ، ان کے نواسے ابوالمظفر کہتے ہیں کہ وہ ہر ہفتہ ایک قرآن مجید ختم کرتے، انہوں نے کبھی کسی سے مذاق نہیں کیا ،بچپن میں کسی بچے کے ساتھ نہیں کھیلا، کبھی کوئی چیز مشتبہ نہیں کھائی۔ابن النجار کہتے ہیں کہ ان کو پاکیزہ ذوق حاصل تھا۔ مناجات ودعاکی چاشنی سے واقف تھے، ابن الفارسی کا بیان ہے کہ وہ شب بیدار تھے اور کبھی اللہ کے ذکر سے غافل نہیں ہوتے تھے۔(۵۹)خود ان کی تالیفات خصوصا صیدالخاطر کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ چشم بینا، دل بیدار، جمعیت خاطر، اور تعلق با للہ کو سر مایہ حیات گردانتے اور اس میں کمی آنے سے بے چین ہوجاتے تھے۔ 
صیدالخاطر میں وہ اپنی ایک حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
ابتدائے عمر ہی سے میرے اندر زہد اختیار کرنے کی خواہش تھی اور نوافل کا اہتمام تھا، تنہا ئی مرغوب تھی، اس وقت میرے دل کی حالت اچھی تھی، مجھے اللہ کے ساتھ ایک تعلق، اور دعا میں لذت و چاشنی محسو س ہوتی لیکن بعد میں ایسا ہوا کہ بعض حکام، اہل کا ران سلطنت میری حسن تقریر سے متاثر ہوئے اور انہوں نے مجھے اپنی طرف مائل کیا اور طبیعت بھی مائل ہوئی اور پھر وہ حلاوت دعاومناجات جاتی رہی یہاں تک کہ ایسا محسوس ہواکہ وہ روشنی بجھ گئی،کوئی علاج ہاتھ نہ آیا آخر میں نے صالحین کی قبروں کی زیارت کی اور ان کے وسیلے سے اصلاح حال کی دعا کی بالآخر اللہ نے میری رہنمائی فرمائی اور مجھے کشاں کشاں خلوت کی طرف مائل کیا جس سے مجھے وحشت تھی اور وہ دل جو میرے ہاتھ سے نکل گیا تھا پھر قابو میں آگیا۔(۶۰)  
مذکورہ بالا نمو نوں کے مطالعے کے بعد کسے انکار کی گنجائش ہو سکتی ہے کہ علامہ ابن جوزی صوفی منہج فکر کے حامل تھے البتہ وہ اپنے زمانہ کے جاہل وگمراہ صوفیہ جن کی اس زمانے میںبھی کثرت تھی اور ہر زمانے میںرہی ہے، ان سے بے حد نالاںتھے اور اس بنا پر وہ اپنے آپ کو اس جماعت سے الگ تھلگ رکھنا چاہتے تھے ۔ 
یہیں پر بات ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اب مشہور عر ب سیاح ابن جبیر اندلسی کے حوالے سے ان کی مجالس وعظ کے نمو نوں کوپیش کیا جاتا ہے، مطالعہ کیجیے اور فیصلہ دیجئے کہ علامہ ابن جوزی کی مجلس کسی صا حب وجدو حال صوفی کی مجلس ہواکرتی تھی یاخشک ناقد تصوف کی۔
 ابن جبیر اندلسی ان کی ایک مجلس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ــ:
میں نے شنبہ کے روز شیخ فقیہ، اما م اوحد جما ل الدین ابوالفضائل بن علی جوزی کی مجلس دیکھی- ان کی بڑی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب وہ منبر پر جلوہ افروز ہو تے ہیں، بیس سے زیادہ قاری قرآن کر یم کی تلاوت طر ب وشوق انگیز ی او ر ترتیب کے ساتھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ ان میں سے دو تین قاری ایک آیت کی تلاوت کرتے ہیںپھر جب وہ فارغ ہو جاتے ہیں تو قراء کی دوسری جماعت جو اتنے ہی افراد پر مشتمل ہوتی ہے دوسری آیت کی تلاوت کر تی ہے باری باری مختلف سورتوں سے آیتوں کی تلاوت کایہ سلسلہ جاری رہتاہے یہاں تک کہ سلسلہ قراء ت مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد حیر ت انگیز شخصیت کے ما لک اما م ابن جوزی خطبہ کا آغاز اس طرح کرتے ہیںکہ کانوں کے سیپ میں الفاظ کے موتی اُنڈیل دیتے ہیں اور تلاوت کی گئی آیتوں کو اپنے خطبے میں تلاوت کی ترتیب کے سا تھ پرودیتے ہیں پھر دوسرے قافیے کی آیت پر خطبہ مکمل کرتے ہیں، جب وہ اپنے رقت انگیز وعظ و خطابت سے فارغ ہو تے ہیں تو لوگوں کے دل شوق ووجد کی وجہ سے بے اختیار ہو چکے ہوتے ہیں ، سوزش اور جلن کی وجہ سے قلب پگھل جا تے ہیں، چیخ بلند ہو تی ہے اور آہ و بکا سے بھری بے تابیوں کا سلسلہ جاری رہتاہے، لوگ پکا ر پکار کر توبہ کا اعلان کرتے ہیں اور ابن جوزی کے اوپر ایسے گر تے ہیں جیسے کہ پروا نے شمع پر ، لو گ ان کی پیشانی کو بوسہ دیتے ہیں،ابن جوزی ان کے سر پر ہاتھ پھیر تے ہیں اور اس کے حق میں دعا کرتے ہیں ، کچھ لوگ تو بیہوش ہو جاتے ہیں اور آہ وبکا کے ساتھ ان کی جانب بڑھتے ہیں، ہم نے دیکھا کہ یہ لو گ انابت وندامت کے جذبات سے سر شار ہوتے ہیں اور ان کی نگاہوں میں قیامت کے ہو لناک مناظر ہوتے ہیں ، اگر ہم سمندر ی سفر اور بیابانی راستے صرف اس شخص کی مجلس میں حاضر ہونے کے لئے طے کر تے تب بھی یہ نفع بخش سودا ہو تا، تمام خوبیاں اللہ ہی کے لئے کہ اس نے میر ی ملاقات اس شخص سے کرائی جس کی فضیلت کی گواہی جمادات دیتے ہیں اور جس کی مثال سے دنیا تنگ ہے ۔(۶۱)
ان کی ایک دوسری مجلس کا تذکر ہ کرتے ہوئے ابن جبیر اندلسی لکھتے ہیں :
ہم نے ان کی دوسری مجلس جمعرات کے روز صبح کے وقت ۱۱؍صفر باب بدرکے پاس دیکھی۔ وہ منبر پر آئے قراء نے ترتیب کے ساتھ تلاوت قرآن شروع کیا اور ان سے جس قدر ہوسکا شوق وطرب انگیز ی کی ، لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، مختلف سورتوں سے کل نو آیتیں پڑھی گئیں پھر ابن جوزی نے شا ندار خطبہ دیا اور ابتدائی آیتوں کو اپنے خطبے میں تر تیب کے ساتھ پرودیا اورآخرآیت پرخطبے کو مکمل کیا، آیت یہ تھی (اللہ الذی جعل لکم اللیل لتسکنوافیہ والنہار مبصرا، ان اللہ لذوفضل علی الناس) آج کا خطاب کل سے بھی حیرت انگیز تھا۔ لوگوں کی آنکھیں ساون بھادوں بہانے لگیں۔ اور دلوں نے اپنے چھپے ہوئے شوق ووجد کو ظاہر کردیا۔ لوگ اپنے گناہوں کا اعتراف اور توبہ کا اقرار کرنے لگے ،ہوش وحواس اڑ گئے۔ یا رائے صبر جاتارہا، بے تابی اور بے ہوشی بکثرت طاری ہونے لگی۔ ابن جوزی اثنائے وعظ میں ہی شوق ووجد کو بھڑکانے والے تشبیب کے اشعار پڑھنے لگے اور پھر اس کو زہدیہ رنگ دینے لگے، سب سے آخرمیں انہوں نے دواشعار گنگنائے، اس وقت تک مجلس پر احترام کی فضا چھا چکی تھی اور کلام کے تیر نے لوگوں کو چھلنی کردیاتھا۔ وہ دواشعار یہ تھے۔
این فوادی اذابہ الوجد
واین قلبی فما صحابعد
یا سعد زدنی جویً بذکرھم 
باللہ قل لی فدیت یاسعد
 (اے سعد !میرا دل کدھر گیا اسے تووجدنے پگھلا دیا،میرادل کہاں گیا اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا ،اے سعد! میرے آتش عشق پر دوچار انگار ے اور رکھ دو،قسم خدا کی مجھے سناؤ اے سعد میں تجھ پر قربان )
انہی اشعار کو وہ دہراتے رہے اور حالت یہ تھی کہ خود ان اشعار کی تاثیر نے ان کو اپنی پوری گرفت میں لے لیا تھا اور آنسوئو ں کی وجہ سے آواز نہیں نکل پارہی تھی، یہاں تک کہ ا نہوں نے کچھ نہ بول پانے کی وجہ سے مجلس ختم کردی اور منبر سے اتر آئے ، اسی کی وجہ سے لوگوں کے دل بے تاب ہوگئے اور انہوں نے لوگوں کو بھڑکتے انگارے پر جلتا، روتا گڑ گڑا تا، زمین پرتڑپتا چھوڑدیا ،  کیا حسین منظر تھا اور کتنا خوش نصیب ہے وہ جس نے اس منظر کو دیکھا،اللہ ان کی برکتوں سے ہمیں نفع پہنچا ئے اور ہمیں ان لوگوں میں سے کردے جو اس کے فضل وکرم سے اس کی بارش رحمت سے فیضیاب ہوئے۔(۶۲)
 ان کی ایک تیسری مجلس کا تذکرہ کرتے ہوئے ابن جبیر لکھتے ہیں: 
ان کی ہم تیسری مجلس میں شنبہ کے روز ۱۳ صفر کو حاضر ہوئے میں نے دیکھا کہ ان کے وعظ کو سن کر لوگ ہچکیاں لے لے کر رورہے تھے، آنسوؤں کا سیل رواں تھا، اپنی مجلس کے آخر میں تشبیب کے کچھ اشعار دہرانے لگے تاکہ لوگوں میں زہد وشوق وطرب پیدا ہوجائے لیکن رقت قلبی کی وجہ سے وہ خود آگے کچھ نہیں بول سکے اور شوق ووجد کی حالت میں منبر سے اتر آئے اور سب کو اظہار ندامت کرتا آہ وزاری کرتا چھوڑ دیا ،کوئی واحسر تاہ کی صدائیں لگارہاتھا تو کوئی کچھ اور، آہ وبکا کرنے والوں کا سلسلہ چکّی کی طرح گردش کر رہاتھا اورکوئی بھی ابھی تک اپنے نشے سے ہوش میں نہیں آیا،پاک ہے وہ ذات جس نے ان کی ذات کو عقل مندوں کے لئے عبرت کا باعث اور اپنے بندوں کی توبہ کا مضبوط ترین ذریعہ بنایا،اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔(۶۳)
خاتمہ: 
پوری بحث ہمیں اس نتیجے تک پہنچا تی ہے کہ علامہ ابن جوزی اپنے زمانے کے نمایاں محدث، واعظ اور صوفی منہج فکر اور زاویہ نظر کے مالک تھے البتہ انہوں نے تصوف اور صوفیہ کو اپنی تنقید کا نشانہ اس لیے بنایا کہ ان کے زمانے میں اکثر صوفیہ غفلت اور بے اعتدالیوں کا شکار تھے، اور صرف اسی زمانے کی بات نہیں بلکہ ہر زمانے میں اچھے صوفیہ،صرف صوفیہ ہی نہیں بلکہ ہر طبقے کے اچھے لوگوں کی تعداد کم رہی ہے۔ ان کی ساری تنقیدی تحریر وں کے مطالعے کے بعد یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے رائج تصوف کے خلاف تھے اور ان تنقید وں سے ان کا مقصود یہ تھا کہ کمیوں کی اصلاح ہوجائے اور صوفیہ اپنی اصل یعنی کتاب وسنت کی طرف رجوع کریں، ان کا یہی مقصد وہاں بھی کارفرما ہے جہاں انہوںنے معاشرے کے دوسرے طبقوں مثلا متکلمین فقہا،محدثین، واعظین، اور ملوک و سلاطین پر تنقید کی ہے، وہ چوں کہ محدث پہلے ہیں اس لیے ان پر خصوصیت کے ساتھ سنت کی روشنی میں ہر چیز کو پرکھنے کا مزاج غالب ہونا ایک فطری امر ہے اور ہونا بھی چاہیے جب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا مختلف جماعتیں اپنے ناقدین کی تنقید وں کی روشنی میں اپنامحاسبہ کرتی رہیں گی اور جب یہ سلسلہ بند ہوجائے گا تو یہ جماعتیں بے راہ رو ہوجائیں گی۔ لیکن یہ بات ضرور واضح رہے کہ انہوں نے صوفیہ کو گمراہ جماعتوں میں شامل نہیں کیا ہے بلکہ صرف ان کی خامیاں گنائی ہیں اور تنقید ہی نہیں صوفیہ کی تعریف بھی لکھی ہے اگر صر ف تنقید کسی جماعت کو گمراہ قراردینے کے لیے کافی ہے تو پھر علامہ ابن جوزی کے نزدیک فقہا اور محدثین ساری جماعتوں کو گمراہ ماننا پڑے گا کیوں کہ انہوں نے سب پر تنقیدیں کی ہیں۔
اب یہ کہا ں کا انصاف ہے کہ ان کی تنقیدوں کو بنیاد بناکر جماعت صوفیہ کو گمراہ قرار دیا جائے ، یوں ہی یہ کہاں کا انصاف ہے کہ علامہ کی زندگی کے صرف ایک رخ کو پیش کیا جائے اور ان کی زندگی کے دوسرے رخ کو جوامتیازات تصوف میں رنگی ہوئی ہے، اسے نظر انداز کردیا جائے، اس باب میں میرا مطالعہ اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ وہ سب سے پہلے محدث ومصلح ہیں اور بعد میں حقیقت تصوف کے علم بردار،خواہ اصطلاح تصوف کو وہ خود قبول کریں یا نہ کریں،جہاں وہ ناقد تصوف ہیں، وہیں ان کی پوری زندگی صوفیانہ و زاہدانہ رنگ میں رنگی ہو ئی ہے، البتہ تنقید تصوف میں ان سے بے اعتدالیاں بھی صادر ہوئی ہیں اور ان دونوں حیثیتوں کے باہم جمع ہوجانے میں کوئی استحالہ نہیں ہے۔ اللہ تعالی ہمیں حق کو حق کہنے،باطل کوباطل لکھنے اور حق پرعمل اور باطل سے اجتناب کی توفیق عطافرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین۔   
------------------------------------------------------------
مصادر ومراجع:
۱۔ احیاء علوم الدین، امام غزالی، ج :ا، ص: ۳۲ اور ما بعد بحوالہ الامام غزالی بین مادحیہ ونا قد یہ، ڈاکٹریوسف القرضاوی ص: ۸۴۔۸۵، موسسۃ الرسالۃ بیروت۱۹۹۴ء
۲۔ دیکھئے: مقدمہ اخبار الحمقی والمغفلین لابن جوزی اور اس کا حاشیہ ص: ۷ ، المکتب التجاری، بیروت۔
۳۔ دیکھیے: مقدمہ تلبیس ابلیس لابن جوزی ،مترجم: مولانا ابومحمد عبدالحق اعظم گڑھی ، دارالکتاب دیوبند ۱۹۹۹ء
۴۔ مصدر سابق ص: ۸
 ۵۔ نفس مصدر ص: ۸-۱۳
۶۔ مقدمہ تلبیس ابلیس مترجم، ص: ۸- ۱۲ 
۷۔ مقدمہ اخبار الحمقی والمغفلین ص:۱۳  
۸۔ نفس مصدر
۹۔ تاریخ دعوت وعزیمت ،ابوالحسن علی ندوی، ص: ۲۳۲،مجلس صحافت و نشریات اسلام،لکھنئو۔
۱۰۔ دیکھئے: تلبیس ابلیس مترجم ص : ۲۲۵-۲۳۳ ملخصا۔ 
۱۱۔ نفس مصدر باب دہم، ملخصا۔
۱۲۔ دیکھئے: الکامل فی التاریخ لابن اثیر ج:۱۰ ،ص: ۶۴۰بحوالہ مقدمہ اخبار الحمقی والمغفلین،ص ۸ ۔
۱۳۔ دیکھئے: تلبیس ابلیس مترجم ،ص: ۲۸۸،۲۹۵،۳۰۱، ۳۰۷، ۳۰۹، ۳۱۲، ۳۱۵
۱۴۔ دیکھئے: تلبیس ابلیس باب دہم ،اور مطالعہ کریں تصوف کی بنیادی کتابوں میں متعلقہ بحثیں، دونوں کے مقابلے سے واضح ہو جا ئیگا کہ علامہ ابن جوزی سے بہت اشتباہ واقع ہوا ہے ،ان سے یہ اشتباہ صرف یہاں نہیں بلکہ موضوعات حدیث کے بیان میں بھی واقع ہوا ہے۔
۱۵۔ یہ مثال حضرت احسان اللہ ابو سعید چشتی مدظلہ العالی نے انحراف عن الجادہ کے سوال پر تقریب فہم کے لیے پیش کی تھی۔
۱۶۔ دیکھئے: صیدالخاطر ص: ۸۳
۱۷۔ التصو ف والصوفیۃ فی ضوء الکتاب والسنۃ، سیدیوسف ہاشم رفاعی مترجم: شاہ قادری سید مصطفٰی رفاعی جیلانی، ص ۱۳-۵۸،الاصلاح بنگلور ملخصا۔۲۰۰۴ 
۱۸۔ معراج التشوف الی حقائق التصوف ص: ۵۔ بحوالہ التصوف والصوفیۃ فی ضوء الکتاب و السنۃ، مترجم ص ۳۶-۳۷ 
۱۹۔ التصوف والصوفیۃ فی ضوء الکتاب والسنۃ مترجم، ص: ۵۴
۲۰۔ صیدالخاطر، ص:۱۲۔
۲۱۔ نفس مصدر،ص:۱۴۔
۲۲۔ نفس مصدر،ص:۱۷۔
۲۳۔ نفس مصدر،ص:۴۵۔
۲۴۔ نفس مصدر،ص:۷۸۔
۲۵۔ نفس مصدر،ص:۹۱۔
۲۶۔ نفس مصدر،ص:۱۰۷۔
۲۷۔ نفس مصدر،ص:۱۰۹۔
۲۸۔ نفس مصدر،ص:۱۲۲۔
۲۹۔ نفس مصدر،ص:۱۳۸۔
۳۰۔ نفس مصدر،ص:۱۹۵۔
۳۱۔ نفس مصدر
۳۲۔ نفس مصدر،ص:۲۱۰۔
۳۳۔ نفس مصدر،ص:۲۱۶۔
۳۴۔ نفس مصدر،ص:۲۶۲۔
۳۵۔ نفس مصدر،ص:۲۷۹۔
۳۶۔ نفس مصدر،ص:۳۰۵۔
۳۷۔ نفس مصدر،ص:۳۱۳۔
۳۸۔ نفس مصدر،ص:۳۲۰۔
۳۹۔ نفس مصدر،ص:۳۵۸۔
۴۰۔ نفس مصدر،ص:۳۸۴۔
۴۱۔ نفس مصدر،ص:۳۸۷۔
۴۲۔ نفس مصدر،ص:۳۹۷۔
۴۳۔ نفس مصدر،ص:۳۹۸۔
۴۴۔ نفس مصدر،ص:۳۹۹۔
۴۵۔ نفس مصدر،ص:۴۱۰۔
۴۶۔ نفس مصدر،ص:۴۱۱۔
۴۷۔ نفس مصدر،ص:۴۲۲۔
۴۸۔ نفس مصدر،ص:۴۶۸۔
۴۹۔ نفس مصدر،ص:۴۷۳۔
۵۰۔ نفس مصدر،ص:۴۷۵۔
۵۱۔ نفس مصدر،ص:۱۷،۱۸۔
۵۲۔ نفس مصدر،ص:۱۴۲۔
۵۳۔ نفس مصدر،ص:۳۹۹۔
۵۴۔ نفس مصدر،عنوان : دعاء المنکسرین، ص:۱۰۷۔
۵۵۔ نفس مصدر،عنوان : تعلیل النفس ،ص:۹۹۔
۵۶۔ نفس مصدر،عنوان: العلم النظری لایکفی ،ص:۲۱۔
۵۷۔ صفۃ الصفوۃ ، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد۔
۵۸۔ دیکھیے: مصدر سابق، عنوان: تعلیل النفس ۔ ص: ۹۹، عنوان: اھل الاشارۃ، ص: ۱۴۷، عنوان: تفاوت الھمم والآمال ،ص: ۲۳۹۔
۵۹۔ دیکھیے: تاریخ دعوت وعزیمت ،ابو الحسن علی ندوی، ص:۲۰۹ ،مجلس صحافت ونشریات اسلام لکھنؤ۔
۶۰۔ عنوان: التبتل الی اللہ، ص:۷۹
۶۱۔ مقدمہ اخبار الحمقی والمغفلین، ص: ۱۰-۹۔ المکتب التجاری، بیروت
۶۲۔ نفس مصدر، ص: ۱۱-۱۰
۶۳۔ نفس مصدر،ص: ۱۲)