Tuesday 11 September 2018

تفسیر اشاری: ایک تحقیقی مطالعہ

1 comments
تفسیر اشاری: ایک تحقیقی مطالعہ
از قلم: امام الدین سعیدی
---------------------------------------------------------------
قرآن ظاہری وباطنی دونوں معانی کا حامل ہے،اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔
 بنیادی طور سے قرآن کریم کی تفسیر دو طرح کی ہوتی ہے: 
[۱] تفسیرماثوری [۲] تفسیر اشاری
 تفسیر اشاری کی بھی دو قسمیں ہیں :
[۱] ایک نظری یامعقولی [۲] دوسری صوفیانہ
اگر اشارہ علمائے راسخین اورفقہاومتکلمین کا ہوتواُسے تفسیر نظری یا معقولی کہیں گے اور اگر اشارہ صوفیہ اور عارفین باللہ کا ہوتواُسے تفسیر صوفیانہ یا صو فیہ کی اصطلاح میں تفسیر اشاری کہیں گے،تفسیر معقولی کا تعلق ظاہری مسائل شرعیہ اورعقلی توجیہات ہوتاہے، جب کہ تفسیر صوفیانہ کا تعلق مسائل طریقت وسلوک اور وجدانی حقائق سے ہوتاہے۔ 
 تفسیر صوفیانہ کی تعریف کرتے ہو ئے امام جلال الدین سیوطی فرما تے ہیں :
بِاَنَّہٗ عِبَارَۃٌ عَنْ تَاوِیْلِ الْاٰیَاتِ الْقُرْآنِیَّۃِ الْکَرِیْمَۃِ عَلٰی خِلَافِ مَا یَظْہَرُ مِنْہَا بِمُقْتَضَی اِشَارَاتٍ خَفِیَّۃٍ تَظْہَرُ لِاِرْبَابِ السُّلُوْکِ وَیُمْکِنُ التَّطْبِیْقُ بَیْنَہَاوَبَیْنَ الظَّوَاہِرِ الْمُرَادَۃِ (۱) ترجمہ: آیات قرآنی کی ایسی تاویل،جو اُس کے ظاہری  معنی کے علاوہ کسی ایسے معنی پر محمول ہو جو سالکین پر منکشف ہونے والےپوشیدہ اشارات کے مطابق ہو ، ساتھ ہی ظاہری معنی اور اشاری معنی کے درمیان جمع و تطبیق بھی ممکن ہو (دونوں میں کو ئی حقیقی تعارض و اختلا ف نہ ہو )۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ تفسیر اشاری میں وہ لطیف اور پوشیدہ معانی بیان کیے جاتے ہیں جن کا ادراک اربا ب کشف ہی کو ہوتاہے ،یہ ایسے نکات ہو تے ہیں جو ظاہری معنی سے  ہم آہنگ ہو تے ہیں متعارض نہیں ۔ بلاشبہ ایسے معانی کا سرچشمہ الہامات ربانیہ ہوتے ہیں،اُسے علم لدنی بھی کہا جاتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں حضرت خضر علیہ الصلاۃ و السلام کے تعلق سے موجو د ہے۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے : فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا۔(۲) (ہمارےبندوں میں سے ایک بندے کوان دونوںنےپالیا، جسے اپنے پاس سےہم نے رحمت عطاکی اور اپنی جانب سے علم سکھایا)
 اس آیت میں علم لدنی سے وہ عام علم مراد نہیں جو ظاہر عبارت سے معلوم ہوتاہے، بلکہ جو علوم و معارف خالص ذات علیم و خبیر کے لطف و عطا سے پاکیزہ قلوب پر القا کیے جاتے ہیں وہ مراد ہیں ۔
 تفسیر اشاری کا ثبوت: 
تفسیراشاری کے لیےکوئی شرعی اصل و اساس ہے یا نہیں ؟اور کیا اس کاوجود عہد نبو ی اور عہد صحابہ میں تھا یا نہیں یا پھرتفسیر اشاری اس وقت شروع ہو ئی جب تصوف کا آغاز ہوا ؟ 
 اس بارے میں محققین علما و ائمہ نے اس بات کی تائید و توثیق فرمائی ہے کہ تفسیر اشاری دین میں کو ئی نئی ایجاد نہیں، اس کی اصل قرآن وسنت سے ثابت ہے، معارف قرآن  کے بیان کے لیے یہ کو ئی نیا طریقہ نہیں بلکہ یہ اس وقت سے چلا آرہا ہے جب سے قرآن کریم کا نز ول شروع ہو اتھا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منہج سے آگاہ فرمادیاتھا اور صحابہ کرا م بھی اس سے بخوبی واقف تھے۔امام شاطبی فرماتے ہیں:
ہٰذَاوَقَدْقَرَّرَعُلَمَاءُ التَّنْزِیْلِ اَنَّ لِلتَّفْسِیْرِ  الْاِشَارِی اَصَلًا شَرَعِیًّایَقُوْمُ عَلَیْہِ،وَاِنَّہٗ لَمْ یَکُنْ اِبْتِدَاعًا جَدِیْدًافِی اِبْرَازِمَعَانِی الْقُرْآنِ الْکَرِیْمِ،بَلْ ہُوَاَمْرٌمَعْرُوْفٌ مِّنْ لَّدُنْ نُزُوْلِہٰ عَلَی الرَّسُوْلِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَشَارَاِلَیْہِ الْقُرْآنُ وَنَبَّہٗ عَلَیْہِ الرَّسُوْلُ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَذٰلِکَ عَرَفَہُ الصَّحَابَۃُ الْاَطْہَارُرِضْوَانُ اللہِ عَلَیْہِمْ وَ اَظْہَرُوْا اِقْبَاسًامِّنْہُ لِلْاُمَّۃِ ۔ (۳)
ترجمہ : علمائے قرآن نے اس با ت کو ثابت کیا ہے کہ تفسیر اشاری کی بنیاد شرعی اصل پر قائم ہے ،قرآن کے معانی بیان کرنے کے لیے یہ کوئی نیا طریقہ نہیں بلکہ نزول قرآن کے زمانے ہی سے یہ طریقہ موجودتھا جس کی طرف خو د قرآن نے بھی اشارہ کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آ گاہ فرمایا ہے، اسی طرح خود صحابہ کرا م رضوان ا للہ علیہم اجمعین بھی اس سے واقف تھے اور اس سلسلے میں ان کے تفسیری نظائر وامثال بھی موجود ہیں ۔
 قرآنی آیات سے ثبوت:
وہ آیتیں جن سے تفسیر اشاری کی طرف اشارے ملتے ہیں،وہ درج ذیل ہیں جنھیں علوم قرآن کے ماہرین ائمہ نے بطور شواہد ودلائل اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے،ارشادربانی ہے:
أَفَلَايَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوْافِيْهِ اخْتِلَافًاكَثِيرًا[۸۲] (۴)(وہ لوگ قرآن کریم میں غورکیوں نہیں کرتے ہیں اگر یہ غیراللہ کی طرف سے نازل ہوا ہوتا، تو یقیناً لوگ اس میں بہت سارا اختلاف پاتے۔
ایک دوسرے مقام پریوں فرمایاگیا:
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ  أَذَاعُوْابِهٖ وَلَوْ رَدُّوْهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلٰى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْہُم[۸۳](۵) ترجمہ:جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ پیش آیاتو اُسے ظاہر کردیا اور اگر اُسے رسول اورامیر کی جانب لوٹا دیتے، تواصحاب استنباط اُسے جان لیتے ۔
مذکورہ بالا دونوں آیتوں سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ قرآن  کے ظاہری معنی کے علاوہ اور دوسرے معانی بھی ہیں جوغور و فکر سے حاصل ہوتے ہیں، ورنہ دعوت غوروفکر کا کیا مطلب؟  اسی طرح استنباط کا لفظ آیا ہے جو اہل علم کی طرف منسوب ہے ، اس سے بھی قران کے باطنی معنی کی طرف اشارہ ہے کہ اہل علم اپنے اپنے فہم و قیا س اور ذوق ووجدان سے معانی قرآن کے اتھاہ سمندر میں غواصی کرتے ہیں اور اللہ کے فضل سےلطیف حقائق ومعانی اخذ کرتے ہیں جو عام اور ظاہری مراد کے علاوہ ہوتے ہیں۔چنانچہ ارشادربانی ہے :فَمَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَايَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا[۸۷](۶)(اس قوم کو کیا ہوگیاہے کہ  وہ لوگ بات نہیں سمجھتے۔)
ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتاہے:أَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ أَقْفَالُهَا[۲۴] (۷)(کیایہ سچ مچ قرآن کو نہیں سمجھتے یا ان کے قلوب پر مہریں لگی ہوئی ہیں۔)
یہ آیتیں اس بات کی صراحت کرتی ہیں کہ قرآن کے ظاہری مفہوم کے علاوہ اس کے اندرپوشیدہ مطالب بھی ہیں، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کفار کو زجر وتوبیخ فرمائی کہ وہ قرآن کو سمجھنے کی کو شش نہیں کرتے،اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ قرآن کے ظاہری معانی کو نہیں سمجھتے تھے،بلکہ ظاہری مفہوم اس کو وہ بخوبی سمجھتے تھے، کیوں کہ قرآن خو د اُنھیں کی زبان میں نازل ہو ا ،لہٰذایہ ممکن نہیںکہ وہ اس کلام کو نہ سمجھ پائیں،بلکہ مرا د یہ ہےکہ وہ ان معانی کو نہیں جانتے جو مراد ِالٰہی ہیںاوران کو جاننے کے لیے فکرو بصیرت کی حاجت ہوتی ہے جو اُن کے پاس نہیں تھی ۔
 امام شاطبی اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
 وَالْمَعْنٰی لَایَفْہَمُوْنَ عَنِ اللہِ مُرَادَہٗ مِنَ الْخِطَابِ ، وَلَمْ یَرِدْ أنَّہُمْ لَایَفْہَمُوْنَ نَفْسَ الْکَلَامِ:کَیْفَ وَہُوَ مَنَزَّلٌ بِلِسَانِہِمْ؟وَلٰکِنْ لَمْ یُحْظُوْابِفَہْمِ مُرَادِ اللہِ مِنَ الْکَلَامِ وَکَانَ ہٰذَاہُوَمَعْنٰی مَارُوِیَ عَنْ عَلیٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ،أَنَّہٗ سُئِلَ: ہَلْ عِنْدَکُمْ کِتَابٌ فَقَالَ: لَا، إِلَّاکِتَابَ اللہِ،أَوْفَہْمٍ اُعْطِیَہٗ رَجُلٌ مُسْلِمٌ أَوْ مَافِی ہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ۔ (۸)
ترجمہ:مطلب یہ ہےکہ وہ لوگ خطاب سے اللہ کی مراد نہیں سمجھتے ،یہ معنی مراد نہیں کہ وہ نفس کلام کو ہی نہیں سمجھتے تھے، کیوں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ قرآن خود اُن کی زبان میں نازل ہوا ،ہا ں! وہ اس کلام سے مرادِ الٰہی تک نہیں پہنچ پاتے ،اسی معنی کی طرف اس روایت سے بھی اشارہ ملتاہے کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے پوچھا گیا کہ تمہارے پا س کوئی کتاب ہے ؟ تو آپ نے جو اب دیا:ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی کتاب نہیں،یا وہ فہم ہے جو مرد مومن کو عطاکیاگیا ہے یا جو کچھ اس صحیفےمیں موجود ہے (اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں )۔
احادیث سے ثبوت:
وہ احادیث کریمہ جن سےتفسیر اشاری کا ثبوت ملتا ہے،  مندرجہ ذیل ہیں:
[۱] حضرت عبداللہ ابن مسعود سے مروی ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إِنَّ لِلْقُرْآنِ ظَہْرًا وَ بَطَنًا وَحَدًّا وَمَطْلَعًا۔(۹) ترجمہ: قرآن کا ایک ظاہر ہے ایک باطن ہے ،اس کی ایک حد ہے، ایک مطلع ہے ۔
اس کی تخریج ابن حبان نے اپنی صحیح کے اندر کی ہے۔
ظاہر سے وہ ظاہری معنی مراد ہے جو عبارۃ النص سے معلوم  ہو جاتا ہے باطن سے مراد وہ اسرار ہیں جن پر اللہ ارباب حقیقت کو باخبر کرتا ہے بعض لوگو ں نے اس سے تاویل کاعلم مراد لیا ہے جو حسنِ باطن کی صفت رکھنے والے بندوں کو عطا کیا جاتاہے،جیساکہ ارشادربانی ہے:وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَأْوِيْلِ الْأَحَادِيْثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ۔ (۱۰) ترجمہ:ایسے تمہارا رب تمھیں چنتاہے اور تمھیں تاویل وتعبیر کا علم سکھاتاہے اور اپنی نعمت تمہارے اوپر مکمل فرماتاہے۔
[۲] علما نے اس حدیث سے بھی استدلا ل کیا ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ ابن عباس ر ضی اللہ عنہ کے لیے یہ دعا فرمائی تھی : أَللّٰہُمَّ فَقِّہْہٗ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّاوِیْلَ۔(۱۱) ترجمہ :یا اللہ! ( عبد اللہ ابن عباس کو ) دین کی سمجھ عطاکر اور اسے تاویل کا علم دے۔
امام غزالی اس حدیث سے تفسیر اشاری پر استدلا ل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فَاِنْ کَانَ التَّاوِیْلُ مَسْمُوْعًاکَالتَّنْزِیْلِ وَمَحْفُوْظًامِثْلَہٗ فَمَامَعْنٰی تَخْصِیْصِہٖ بِذٰلِکَ(۱۲)ترجمہ : اگر تاویل بھی تنزیل کی طرح محض سماعت سے حاصل ہوجاتی اور محفوظ ہو تی تو اس کو خصوصیت کے ساتھ علاحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔
مطلب یہ ہے کہ تاویل ایک خاص علم ہے جس سے ایسے اعلی معانی و احتمالات کا ادراک کیا جاتا ہے جو اشارات و رموز پر مبنی ہوتے ہیں اور یہ علم خواص کو ہی عطا کیاجا تا ہے ہر شخص اس کااہل نہیں ہوتا۔
صحابہ کرام کے آثار واقوال سے ثبوت:
 اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کئی ایسی روایتیں ملتی ہیں جو تفسیر اشاری کو ثابت کرتی ہیں۔ ذیل میں چند مستند روایات درج کی جاتی ہیں:
[۱] ابن ابی حاتم نے اس حدیث کی تخریج کی ہے حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا:
إِنَّ الْقُرْآنَ ذُوْ شَجْوَنٍ وَفُنُوْنٍ ،وَظُہُوْرٍوَبُطُوْنٍ،لَا تَنْقَضِی عَجَائِبُہٗ وَلَاتُبْلَغُ غَایَتُہٗ،فَمَنْ أَوْغَلَ فِیْہِ بِرِفْقٍ نَجَا ، وَمَنْ أَخْبَرَفِیْہِ بِعَنَفٍ ہَویٰ،أَخْبَارٌوَأَمْثَالٌ،حَلَالٌ وَ حَرَامٌ،وَنَا سِخٌ وَمَنْسُوْخٌ ،وَمُحْکَمٌ وَمُتَشَابَہٌ ،وَظَہْرٌ وَ بَطَنٌ، فَظَہْرُہُ التِّلَاوَۃُ وَبَطَنُہُ التَّاوِیْلُ،فَجَالِسُوْابِہِ الْعُلَمَاءَ، وَجَانِبُوْ ابِہِ السُّفَہَاءَ ۔ (۱۳)
ترجمہ: قرآن تہہ درتہہ باتوں اور مختلف شاخوںوالا ہے ، ظاہری وباطنی دونوں معنوں کا حامل ہے،اس کے عجائب کبھی ختم نہیں  ہوںگے اور نہ کو ئی اس کی حد کو پہنچ سکتا ہے ، تو جس نے نرم اورپاکیزہ طبیعت کے ساتھ حظّ اٹھایاوہ نجات پاگیا اور جس نے سخت طبیعت لےکر اس میں تحقیق کی وہ گمراہ ہوگیا ، اس میں  واقعات وامثال ہیں ،حلا ل وحرام کا بیان ہے ،نا سخ و منسوخ ہے ، محکم و متشابہ آیتیں ہیں ،اس کا ایک ظاہر بھی ہے اور ایک باطن بھی ہے ۔اس کا ظا ہر تلاوت ہے اور باطن تاویل ہے تو تم قرآن کے جاننے والوں کی صحبت میں بیٹھو اور قرآن نہ جاننے والوں سے دور رہو ۔
[۲] حضرت عبد اللہ ابن مسعود سے مروی ہے: 
 مَنْ اَرَادَ عِلْمَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ فَلَیُثَوِّرِالْقُرْآنَ۔ (۱۴)  ترجمہ : جو اولین وآخرین کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ قرآن کے معانی کے سلسلے میں بحث وکرید کرے۔
[۳] حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ سے مرو ی ہے، آپ فرماتے ہیں : 
لَایَفْقَہُ الرَّجُلُ کُلَّ الْفِقَہِ حَتّٰی یَجْعَلَ لِلْقُرْآنِ  وُجُوْہًا۔ (۱۵)  ترجمہ : کو ئی شخص پورے طور سے اس وقت تک فقیہہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ قرآن سے متعدد وجوہات و معانی نکالنے کی صلاحیت پیدا نہ کرلے۔
اما م سیوطی مذکورہ دونو ں روایت سے تفسیر اشاری کی اصل پر استشہاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَہٰذَاالَّذِیْ قَالَاہُ لَایَحْصُلُ بِمُجَرَّدِ تَفْسِیْرِ الظَّاہِرِ ۔ (۱۶)ترجمہ :جو بات ان دونو ں حضرات نے فرمائی ہے وہ بات صرف تفسیر ظاہر ی سے حاصل نہیں ہو سکتی(یعنی اس کا حصول تفسیر اشاری سے ہی ہوتا ہے )۔
اسی طرح امام غزالی قدس اللہ سرہٗ نے تفسیر اشاری کے لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی اس روایت سے استدلال کیا ہے جس میں آپ نے فرمایا تھا : لَوْشِئْتُ لَاَوْقَرْتُ سَبْعِیْنَ بَعِیْرًا مِّنْ تَفْسِیْرِ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ۔ (اگر میں چاہوں تو سورۂ فاتحہ کی تفسیر سے ستر اونٹوں کو بھر دوں۔)
 اس روایت کو ذکر کرنے کے بعدامام غزالی قدس اللہ سرہٗ فرماتے ہیں :فَمَا مَعْنَاہُ وَتَفْسِیْرُہَا فِی غَایَۃِ الْاِخْتِصَارِ۔ (۱۷)
ترجمہ:پھر حضرت علی کے اس قول کا کیا معنی ہوگاجب کہ  اس کی تفسیر بہت مختصرہے۔
مطلب یہ کہ قرآن کے معانی و مطالب ظاہری تفسیر میں محدود  نہیں ہیںبلکہ اس کے اشارات بھی ہوتے ہیں، ورنہ سورۂ فاتحہ کی صرف ظاہری تفسیر سے ستر اونٹوں کو بھر دینا ممکن نہیں، اس کے لیے ان اشارات ونکات کا بحر ذخار چاہیے جو علام الغیوب  کی طرف سے بصورت فیضان صالح بندوںکوعطا ہوتاہے ۔
صحابۂ کرام کی عملی زندگی میں بھی اس تفسیر کے نمونے موجود تھے اوروہ خود ایسے اشارات و اسرار بیان کرتے تھے جو ظاہر نص کے علاوہ تھے،اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام شاطبی فرماتے ہیں : وَلَہٗ أَمْثِلَۃٌ تُبَیِّنُ مَعْنَاہُ بِاِ طْلَاقٍ۔
تفسیر اشاری کی علی الاطلاق واضح مثالیں ہیں جو اس کے معنی کو ظاہر کرتی ہیں ۔
اس کی ایک واضح مثال یہ روایت ہے جس کو امام شاطبی علیہ الرحمہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے : 
لَمَّا نَزَلَ قَوْلُہٗ تَعَالٰی: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی،فَرِحَ الصَّحَابَۃُوَبَکٰی عُمَرُ، وَقَالَ:مَابَعْدَالْکَمَالِ إِلَّا النُّقْصَانَ مُسْتَشْعِرًانَعْیَہٗ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ،فَمَا عَاشَ  بَعْدَ ہَا إِلَّا أَحَدًا وَثَمَانِیْنَ یَوْمًا۔ (۱۸) 
  ترجمہ : جب آیت کریمہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی  نازل ہوئی تو سارے صحابہ اس بشارت کو سن کر جشن منانے لگے، مگر عمرفاروق رونے لگے اور کہنے لگے اس تکملہ کے بعد کمی ہی کمی ہے اس کمی سے اشارہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف تھا، چنانچہ ایسا ہوا بھی کہ رسول اللہ ﷺاس آیت کے نزول کے بعد صرف اکیاسی روز باحیات رہے۔
اس مثال سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ مذکورہ آیت کے نزول کے وقت عام صحابہ کرام خوشی ظاہر کررہے تھے،جب کہ عمرفاروق رونے لگے۔صحابۂ کرام کی خوشی بھی اپنی جگہ صحیح تھی وہ اس لیے کہ اس سے بڑھ کر بشارت کیا ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے دین کا تکملہ کردیا اور نعمتوں کو مکمل کردیا اور ان کے دین اسلام پر اپنی رضا مندی کی تصدیق کردی جیساکہ آیت کا ظاہری اور صریح مفہوم ہے ۔دوسری طرف عمرفاروق کا رونا بھی صحیح تھا وہ اس لیے کہ اس آیت سے انھوں نے یہ اشارہ اخذکیاکہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات قریب ہے، عمرفاروق کا رونا اسی مفہوم اشاری و باطنی کی وجہ سے تھا ۔ اس طرح کی کثیر مثالیں روایتوں میں بیان کی جاتی ہیں ۔ 
تفسیر اشاری علما وائمہ کی نظر میں :
تفسیراشاری میں ذاتی فکر و اجتہاد کاکوئی دخل نہیں، یہ خالص الہامی امر ہے جو صرف مخصوص بندوں کو حاصل ہوتاہے ۔اس سلسلے میں بعض ائمہ فن اور محققین علما کے اقوال و نظریات پیش کیے جارہے ہیں جن میں تفسیر اشاری کی صحت اور اس کی معنویت کو واضح طورسے بیان کیا گیا ہے ۔
حافظ ابن صلاح کی رائے:
  حافظ ابن صلا ح کے بارے میں منقول ہےکہ جب ان سے تفسیر اشاری کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: میں نے امام واحدی کی ایک روایت دیکھی جس میں انھوں نے فرمایا ہے کہ حضرت ابو عبد الرحمٰن سلمی نے ’’حقائق التفسیر ‘‘ نامی ایک کتاب تصنیف کی ہے، اگر اس کتاب سے اُن کا مقصد یہ ہے کہ وہ تفسیر ہے تو انھوں نے کفر کیا ۔ 
امام واحدی کی اس عبارت پر تعلیق(نوٹ) لگاتے ہوئے حافظ ابن صلاح لکھتے ہیں: 
الظن بمن یوثق بہ منہم ای الصوفیۃ ۔انہ اذاقال شیئا من امثال ذلک،انہ لم یذکر ہ تفسیرا ،ولا ذہب بہ مذہب الشرح للکلمۃ المذکورۃمن القرآن العظیم :فانہم لو کانو اکذلک کانوا قد سلکوا مسلک الباطنیۃوانما ذکر ذلک منہم لنظیر ما ورد بہ القرآن فان النظیر یذکر با لنظیر ۔ (۱۹)
ترجمہ: صوفیۂ کرام میں جو اِس طرح کی تفسیر کرتے ہیں ان میں جوقابل اعتماد ہیں، اُن سے یہی حسن ظن ہے کہ وہ جب اس طرح کی باتیں کرتے ہوںگے تو اُسے تفسیر کا نام نہیں دیتے ہوںگے اور کلمات قرآنیہ کی تشریح کے طور پر نہیں بیان کرتے ہوںگے ،اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو باطنیہ کے طرز کو اپناتے ہیں ۔میرا تو یہی خیال ہے کہ وہ جو کچھ بیان کرتے ہیں وہ قرآن میں وارد مفہوم کی نظیر ہو تی ہے اور نظیر کو نظیر سے بیان کیا جاتا ہے ۔
حافظ ابن صلا ح کی با توں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ تفسیر اشاری کے سلسلے میں حسن ظن کے قائل ہیں اور اُسے بطور نظیر سمجھتے ہیں، ساتھ ہی اس کی بھی صراحت ہوتی ہے کہ تفسیر اشاری کے قبول میں شرائط و ضوابط کا التزام ضروری ہے ۔
 امام تفتازانی کی رائے: 
علامہ سعد الدین تفتازانی، امام نسفی کی ایک عبارت:والنصوص علی ظواہرہا فا لعدول عنہا الی معان یدعیہا  اہل الباطن الحاد کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
 و سمو الباطنیۃ : لا دعائہم ان النصوص لیست علی ظواہرہا ،بل لہا معان باطنۃ لا یعرفہا الا المعلم ،و قصدہم بذلک نفی الشریعۃ بالکلیۃ۔ثم قال واما ما یذہب الیہ بعض المحققین من ان النصوص محمولۃ علی ظواہرہا ،ومع ذلک ففیہا اشارات خفیۃ الی دقائق تنکشف علی ارباب السلوک ،ویمکن التطبیق بینہا و بین الظواہر المرادۃ فہو من کمال الایمان و محض العرفان۔ (۲۰)
ترجمہ: باطنیہ کو اس لیے باطنیہ کہا جا تا ہے چوںکہ ان کا یہ دعوی ہو تا ہے کہ نصوص کے ظاہری معنی کا اعتبار نہیں،بلکہ اس کا اصل معنی باطنی ہے جو معلم (امام ) ہی جانتا ہے ۔اس طرح ان کا مقصد شریعت کی بالکلیہ نفی کرنا ہوتاہے ۔رہ گیاوہ مسئلہ جس کی طرف بعض محققین گئے ہیں کہ نصوص قرآنی اپنے ظاہر ہی پر محمول ہوںگے مگر ساتھ ساتھ اس میں کچھ پوشیدہ اشارات بھی ہو تے ہیں جو نہا یت لطیف معنی کی خبر دیتے ہیںاوریہ اشارات ارباب سلوک پر ہی کھلتے ہیں ۔نیزاگر ظاہری معانی اور اشارات کے درمیان تطبیق بھی ممکن ہوتی ہے ،تو بلاشبہ ایسا اشارہ ،کمال ایمان اور خالص عرفان میں سے ہے ۔
امام سعدا لدین تفتازانی جو منقول و معقول دو نو ں کے یکتائے روزگار امام شمار کیے جاتے ہیں، انھوں نے تفسیر اشاری کو واضح طورسے کمالِ ایمان اور خالص عرفان کا نام دیا ہے، ان کے اس قول سے نہ صرف تفسیر اشاری کی صحت ثابت ہو تی ہے، بلکہ اس کی اہمیت و ضرورت بھی واضح ہو رہی ہے ۔
 ابن عطاء اللہ اسکندری کی رائے: 
اما م جلا ل الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ’’الاتقان ‘‘میں علامہ احمد بن عطاء اللہ اسکندری کی ایک تقریر نقل کرتے ہو ئے بیان کرتے ہیں : 
وقال الشیخ تاج الدین احمد بن عطاء اللہ فی کتابہ’’لطائف المنن‘‘اعلم أن تفسیر ہذہ الطائفۃ ،ای الصوفیۃ ،لکلام اللہ و کلام رسولہ ﷺ بالمعانی العربیۃ لیس احالۃ للظاہر عن ظاہرہ ولکن ظاہر الآیۃ مفہوم منہ ما جلبت الآیۃ لہ، و دلت علیہ فی عرف اللسان، وثَمَّ افہام باطنۃ تفہم عند الآیۃ والحدیث لمن فتح اللہ قلبہ ، وقد جاء فی الحدیث ،، لکل آیۃ ظہر وبطن فلا یصدنک عن تلقی ہذہ المعانی منہم ان یقول لک ذو جدل و معارضۃ فلیس ذلک باحالۃ ، وانما یکون احالۃ لوقالوا لامعنی للاٰیۃ الا ہذہ ،وہم لم یقولو ا ذلک بل یقرؤن الظواہر علی ظواہرہا مرادا بہا موضوعاتہا ویفہمون عن اللہ تعالی ما افہمہم۔(۲۱)
ترجمہ : شیخ تاج الدین احمد بن عطا ء اللہ سکندری اپنی کتاب ’لطائف المنن ‘میں فرماتے ہیں کہ کلام اللہ او ر حدیث  کی جو تفسیر صوفیہ کرام انوکھےمعانی کی صورت میں بیان کرتے ہیں وہ ایسی تفسیر نہیں ہے کہ ظاہرقرآن وحدیث کو ظاہری معنی سے پھیردیتی ہو،بلکہ ان کاموقف یہی ہوتاہے کہ آیت کا ظاہری مفہوم وہی ہے جس کے لیے آیت لائی گئی ہے اور جس پر زبان کےعرف کے مطابق و ہ آیت دلالت کررہی ہے ۔ ہاں! مگر اس کے ساتھ کچھ باطنی اسراربھی ہوتے ہیں جن کو آیت یا حدیث سے وہی شخص سمجھتا ہے جن کا سینہ اللہ تعالیٰ نے کشادہ کردیا ہے ،چناں چہ حدیث میں آیا ہے کہ ہر آیت کا ایک ظاہری معنی ہے اورایک باطنی معنی ،تو ایسا نہ ہو کہ تم کو اُن معانی کے حاصل کرنے سے کسی مُجادِل یا مُعْتَرِض کایہ شوشہ باز رکھے کہ یہ تو اللہ و رسول کے کلام کی مراد بدلنا ہے ۔ حالانکہ یہ اللہ و رسول کے کلام کوبدلنانہیں ہے، یہ تو اس وقت ہو تا جب وہ یہ کہتے کہ اس باطنی معنی کے علاوہ آیت کاکو ئی اور معنی مراد نہیں ہے، لیکن وہ ایسا نہیں کہتے ہیں ۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ وہ ظواہر کو ان کے ظاہر ہی کے مطابق پڑھتے ہیں اور اُن سے وہی مراد لیتے ہیں جس پر ظاہری الفاظ دلالت کر رہے ہیں، پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ جو اُن کوفہم عطا کرتا ہے وہ سمجھتے ہیں یا اشارات اخذ کرتے ہیں ۔
ابن تیمیہ کی رائے:
حافظ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : 
مثل مایاخذونہا من القرآن ونحوہ فتلک الاشارات ہی من باب القیاس و الاعتبار،والحا ق ما لیس بمنصوص با لمنصوص مثل الاعتبار و القیاس الذی یستعملہ الفقہا فی الاحکام، لکن ہذا یستعمل فی الترغیب والترہیب  وفضائل الاعمال و درجات الرجال ونحو ذلک  فان کانت الاشارۃ  اعتباریۃ من جنس  القیاس الصحیح کانت حسنۃ مقبولۃ، وان کانت کالقیاس الضعیف کان لہا حکمہ، وان کان تحریفا للکلام عن مواضعہ وتا ویلا للکلام علی غیر تاویلہ کانت من جنس کلام القرامطۃ والباطنیۃ و الجہمیۃ۔ (۲۲)
ترجمہ: صوفیہ کرام قرآن یا دوسری نص سے جو اشارات اخذکرتے ہیں وہ قیا س و اعتباراور غیر منصوص کو منصوص سے لاحق کرنے کے با ب سے ہو تے ہیں، جیسے احکام مستنبط کرنے کے لیے فقہاقیاس کرتے ہیں،ایسے ہی یہ بھی ہے، مگر ان اشارات کااستعمال ترغیب و ترہیب ،فضائل و اعمال اور سالکین کے درجات اوراس طرح کے دوسرے امور میں ہوتا ہے، چنانچہ اگر اشارۂ قیاس صحیح کی جنس سے ہو، تو عمد ہ اور قابل قبو ل ہے،اگر قیاس ضعیف کی طرح ہو ،تو اس کے لیے  وہی حکم ہےجو قیا سِ ضعیف کا ہے اور اگر وہ اشارہ ایسا ہو کہ  کلام کو اس کے محل سے دور کردے یا فاسد تاویل پرمبنی ہو، تووہ  قرامطہ ،باطنیہ اورجہمیہ کا کلام شمار ہوگا ۔
ابن تیمیہ جیسے متشدد ناقد اگر اس بات کا اعتراف کرلیں کہ تفسیر اشاری کی صحت و معنویت مسلم ہے، تو یہ بلاشبہ اس کی شرعی حیثیت بتانے کے لیے ایسے لوگو ں کے بر خلاف مضبوط دلیل ہے جو اِس کی مخالفت کرتے ہیں اور اِسے کتاب اللہ میں تحریف و رائے زنی قرار دیتے ہیں۔ 
ابن قیم جوزی کی رائے:
ابن قیم تفسیر کو درج ذیل تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
[۱] تفسیر علی اللفظ: وہو الذی ینحو الیہ المتاخرون
[۲]  وتفسیر علی المعنی وہو الذی یذکرہ السلف
[۳] وتفسیر علی الاشارۃ والقیاس :وہو الذی ینحو الیہ کثیر من الصوفیۃوغیرہم، ہذالاباس بہ باربعۃ شرائط:ان لا یناقض معنی الایۃ ۔وان یکون معنی صحیحا فی نفسہ ۔وان یکون بینہ وبین معنی الآیۃ ارتباط و تلازم۔وان یکون فی اللفظ اشعار بہ ۔فاذااجتمعت ہذہ الامور الاربعۃ کا ن استنباطا حسنا ۔ (۲۳)
ترجمہ : پہلی تفسیر لفظی بنیاد پر ہو تی ہے جس کی طرف متاخرین علما گئے ہیں۔ دوسری تفسیر معنی کے اعتبار سے ہوتی ہے جو اسلاف سے منقول ہے اورتیسر ی تفسیر اشارہ و قیاس سے متعلق ہے جسے صوفیہ کرام وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ اس تفسیر میں کوئی قباحت نہیں، جب کہ یہ شرائط پائے جائیں: اول یہ کہ آیت کے ظاہر ی معنی سے نہ ٹکرائے ،دوم یہ کہ وہ معنی فی نفسہ صحیح بھی ہو ،تیسری یہ کہ آیت کے ظاہری معنی اور اس اشاری معنی کے درمیان ربط و تلازم ہو ،چوتھی یہ کہ نص کی عبارت میں اس معنی کی طرف کسی جہت سے اشارہ و احتمال ہو ۔ جب یہ چاروں امور جمع ہو ں تو ایسی تفسیر حسنِ استنباط کے قبیل سے ہوگی ۔
 شیخ ابن عاشورمالکی کی رائے:
ابن عاشورمالکی لکھتے ہیں:
وامامایتکلم بہ اہل الاشارات من الصوفیۃ فی بعض آیا ت القرآن من معان لاتجری علی الفاظ القرآن ولکن بتاویل و نحو ہ فینبغی ان تعلموا انہم ماکانوا ید عون ان کلامہم فی ذلک تفسیر للقرآن بل یعنون ان الآیۃ تصلح للتمثل بہا فی الغرض المتکلم فیہ وحسبکم فی ذلک انہم سموا ہا اشارات ولم یسمواہا معانی۔(۲۴)
ترجمہ : صوفیہ کرام میں جو اہل اشارات ہیں وہ قرآن کی بعض آیتوں میں ایسے معانی بیان کرتے ہیں جو ظاہر الفاظ سے تاویل کیے بغیر مطابقت نہیں رکھتے، ایسے معانی کے سلسلے میں یہ جان لیں کہ صوفیہ کرام کبھی بھی یہ دعوی نہیں کرتے کہ یہ اشارات تفسیر قرآن ہیں، بلکہ اُن کی مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ آیت، مطلوبہ مقصدمیں مثال بن سکتی ہے ۔اس کی صحیح حقیقت جاننے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ایسی با توں کو آیات کےاشارات کہتے ہیں معانی نہیں ۔
سرخی امام آلوسی کا قول:
امام آلوسی لکھتے ہیں:
فا لانصاف کل الانصاف التسلیم للسادۃ الصوفیۃ الذین ہم مرکز الدائرۃ المحمدیۃ ماہم علیہ واتہام ذہنک السقیم فیما لم یصل لکثرۃ العوائق الیہ   واذالم تر الہلال فسلم .لاناس رأوہ بالابصار۔ (۲۵)
ترجمہ:صوفیہ کرام سے منقول اشارات کے بارے میں انصاف کی بات یہی ہے کہ ان کی باتیں قبول کی جائیں ، کیوںکہ یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقت میں دائرۂ محمدی کا مرکز  ہیں،ان کے وہ معاملات جن کی حقیقت ہم نہیں جان پاتے، اس میں اپنی کج فہمی کو قصوروارٹھہرانا مناسب ہے ، کیوںکہ اس میں بہت سے حجابات ہوتے ہیں ۔جب تم چاند نہ دیکھو توان لوگوں کے لیےماہ نوکا دیکھنا تسلیم کرلو جنھوں نے دیکھاہے۔ ( یعنی چاند کے ہونے کا انکار مت کرو)
خلاصۂ کلام:
 مذکورہ تما م اقوال کی روشنی میں جو باتیں نتیجہ کے طور پر سامنے آتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
الف: تفسیر اشاری مشروط طریقے پر قابل قبول ہوگی، لہٰذا علمائے فن نے جن شرائط و ضوابط کا ذکر کیا ہے اُن کا التزام ضروری ہے، اگر کسی بھی شرط کا فقدا ن ہو اتو قابل قبول نہ ہوگی۔
ب: ہر شخص اس کااہل نہیں ہوگا، بلکہ اللہ جسے نو رِ فہم اور قلبی فتوحات عطاکرے اور اس کے سینے کو ایسے نکات و اسرار کا حامل بنادے وہی اس کا اہل ہوگا۔ اَب کون اس کاحامل ہوگا ،کون نہیں ،یہ اللہ کی عطا اور اس کے فضل پر موقوف ہے ۔ (ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُوْ تِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ) یہ اللہ کافضل وانعام ہے جسے چاہے وہ عطا کرتا ہے ۔
ج: مذکورہ مستند علما و ائمہ نے تفسیر اشاری کی حمایت کی ہے مخالفت نہیں،بلکہ بعض نے تو اُسےکمالِ ایمان اور جوہر عرفان قرار دیا ہے۔
د: تفسیر اشاری کوسادات صوفیہ کا وہ علم کہا گیاہے جو معارف قدسیہ اور فیوض سبحانیہ کی صور ت میں من جانب اللہ ان کو عطا کیا جاتا ہے ۔البتہ ! لوگوں کی تعبیرات الگ الگ ہیں، کچھ لوگ اُسے قیاس و استنباط کی قبیل سےمانتے ہیں اور کچھ اُسے الہامات اور وجدانیات کے باب سے سمجھے ہیں۔
غرض کہ مجموعی طور پر سب صوفیہ سےحسنِ ظن کے قائل ہیںاور اس تفسیر کو سلوک ومعرفت کا کمال گردانتے ہیں ۔
 تفسیر اشار ی کے شرائط اور اس کاحکم:
مذکورہ اقوال سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ تفسیر اشاری مطلقا ًقابل قبول نہیں ،بلکہ مشروط طریقے پر مقبول  ہوگی ۔ ذیل میں اہل علم کے ذکر کردہ اصول و شرائط بیان کیے جارہے ہیں :
٭حافظ ابن قیم جو زی نے چار شرطوں کا ذکر کیاہے جن کا تفصیلی ذکر اس سے قبل ہوچکا ہےیاددہانی کے طورپر اجمالاً اس کا ذکریہاںپر بھی کیاجارہاہے :
پہلی شرط یہ ہے کہ آیت کا ظاہری معنی اشاری معنی کے مخالف نہ ہو ۔ 
دوسری شرط یہ ہے کہ وہ معنی فی نفسہ صحیح ہو( کوئی فرضی یاوہمی خیال نہ ہو) ۔
تیسر ی شرط یہ ہے کہ ظاہری معنی اور اشارہ کے مابین ربط و تلازم ہو ۔
چوتھی شرط یہ ہےکہ عبارت نص میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ واحتمال موجود ہو۔ (۲۶)
اگر مذکورہ چاروں شرطیں مجتمع ہو ں تو یہ استنباط حسن کے قبیل سے ہو گا ۔
٭ اما م شاطبی تفسیراشاری کے شرائط بیان فرماتے ہیں : 
[۱] ان یصح علی مقتضی الظاہر المقررفی لسان العرب ویجری علی المقاصد العربیہ۔ 
پہلی شرط یہ ہے کہ وہ معنی عربی زبان کے اصول کے مطابق ظاہری معنی سے ہم آہنگ ہو اور وہ معنی قواعد عربیہ کے مطابق جاری ہو۔ 
پھر اس شرط کا ماخذ بیان کرتے ہو ئے لکھتے ہیں :
 یہ ضابطہ ہم نے قرآن کے عربی ہونے سے اخذ کیا ہے، جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے۔ ( ہم نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم اس کو سمجھ سکو )۔ چناں چہ اگر کسی نے قرآن کی ایسی تفسیر وتا ویل کی جو کلام عرب کے موافق نہیں اور عربی قواعد کی رو سے مخالف ہے،توگویا اُس نے قرآن کے عربی ہونے کا لحاظ نہیں کیا، اس لیے کہ ایسا مفہوم قرآن میں داخل ہوجائےگا جس مفہوم پر نہ تو اس کے الفاظ دلالت کررہے ہیں اور نہ معنی ۔ جب معاملہ ایسا ہو تو ایسی تفسیر کو قرآن سے ہرگز منسلک نہیں کیاجائےگا اور اس کا قائل اس گناہ کامرتکب شمار ہوگا جو کتاب اللہ میں بغیر علم کے رائےزنی کرتا ہے ۔
[۲] ان یکون لہ شاہد شرعی یویدہ من الکتاب او السنۃ او الا صول المعتمدۃ و یشہد بصحتہ ۔
 دوسری شرط یہ ہے کہ اس معنی اشاری کے لیے کتاب وسنت یا معتمد و متفق علیہ اصول سے کو ئی شرعی دلیل ہو جو اس کی صحت کی تائید کرے ۔ 
  اس کی وجہ بیان کرتے ہو ئے وہ فرماتے ہیں :
اگر دوسری جگہ اس معنی پر کو ئی منصوص یا ظاہری شاہد نہ ہوجو اُس کی صحت کی تائید کرے، تو اس کا شمار ایسے دعوی ٔ محض میں ہو گا جو اہل باطل قرآن کے معاملے میں کیا کرتے ہیں اور یہ بات علما کے اتفاق سے مسلّم ہے کہ محض دعوی مقبول نہیں ہو تا ۔(۲۷) 
[۳] ان لایکون للتفسیر الاشاری معارض شرعی او عقلی ،و ذلک کتا ویلات الباطنیۃ التی توصلوا بہا الی نفی الشریعۃ با لکلیۃ ،کتفسیر ہم الکعبۃ با لنبی والصلوات الخمس با لاصول الا ربعۃ والامام۔ 
تیسری شرط یہ ہےکہ تفسیر اشاری کا کوئی شرعی یا عقلی مخالف و معارض نہ ہو،جیسے باطنیہ فرقہ کی تاویلات جن سے بالکلیہ شریعت کی نفی ہو تی ہے ،مثلاً وہ لوگ کعبہ کی تفسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صلا ۃ خمسہ کی تفسیر اصول اربعہ اور امام سے کرتے ہیں ۔
[۴]  ان لایدعی ان التفسیر الاشاری ہو وحدہ المراد دون الظاہر بل لابد من اقرار التفسیر العباری الظاہر اولا ثم الاخذ با لمعنی الا شاری ۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ ہر گز یہ دعوی نہ کیا جائے کہ آیت کا مفہوم ومرادصرف تفسیر اشاری ہی ہے، ظاہری معنی مراد نہیں ، بلکہ اولاً ظاہری معنی کا اقرار کیا جائے، پھر اس کے بعد تفسیر اشاری کا قول کرے ۔
اس شرط کی طرف امام غزالی قدس اللہ سرہٗ اشارہ کرتے ہوئےلکھتے ہیں :   
اولاًظاہری تفسیر سے غفلت برتنا اور محکم معنی کو چھوڑ کر باطنی معنی کا قصد کرنا جائز نہیں،اس لیے کہ جو اسرار قرآن سمجھنے کا دعوی کرے اور ظاہری تفسیر کا قول نہ کرے وہ ایسا ہے جیسے کوئی گھر کی چھت پر جانے کا دعوی کرے اور دروازے کو پار نہ کرے ،یا ترکیوں کی بات سمجھنے کا دعوی کرے حالاںکہ ترکی زبان سے نا آشنا ہو ۔(۲۸)
٭ امام زرقانی نے بھی تقریباً انھیں شرطو ں کو قدرے ترمیم و اضافےکے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ پانچ شرطو ں کا ذکر کرتے ہیں :
[۱]  ان لا یتنافی وما یظہر من معنی النظم الکریم۔
پہلی شرط یہ ہے کہ اشاری معنی نظم قرآن کے ظاہری معنی کے مخالف نہ ہو ۔
[۲] الا یدعی انہ المراد وحدہ دون الظاہر۔
دوسری شرط یہ ہےکہ یہ دعوی نہ کیا جائے کہ آیت کی مراد بس یہی اشاری معنی ہے دوسرا معنی مراد نہیں ۔
[۳] الا یکون تاویلا سخیفا بعیداکتفسیر بعضہم قولہ تعالٰی(ان اللہ لمع المحسنین ) بجعل کلمۃ لمع فعلا ماضیاوکلمۃ (محسنین ) مفعولہ۔
تیسری شرط یہ ہےکہ اشاری معنی کمزور اور بعید تاویل پر مبنی نہ ہو جیسے بعض لو گ اللہ تعالیٰ کے اس قول (ان اللہ لمع المحسنین ) میں لمع کو فعل ماضی اور محسنین کو مفعول گردانتے ہیں ۔
[۴] الایکون لہ معارض شرعی وعقلی۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ اس اشاری معنی کے مخالف کو ئی شرعی یا عقلی دلیل نہ ہو۔
[۵]  ان یکون لہ شاہد شرعی یویدہ۔ (۲۹) 
پانچویں شرط یہ ہے کہ اس معنی کی تائید میں کو ئی شرعی دلیل موجود ہو ۔
٭ اگر مذکورہ تما م شرائط پر غور کیا جائے تو اصلاًوہ چار ہی ہیں :
اول یہ کہ جو اشاری معنی بیان کیا جا ئے اس میں اور آیت کے ظاہری معنی میں تعارض و تضاد نہ ہو کہ آیت کا ظاہری معنی جس چیز کی نفی کررہا ہے، اشا ری معنی اسی کا اثبات کررہا ہو ۔
دوم یہ کہ اولاً ظاہری معنی کو تسلیم کرے، پھر اس کے بعد اشاری معنی کو بیان کرے۔ ایسا نہ کہے کہ اس آیت کا مقصود صرف یہی باطنی معنی ہے، اس کے علاوہ کوئی معنی مراد نہیں۔ ایک طرح سے وہ ظاہری مفہوم کا منکر ہو، ورنہ ایسی اشاری تفسیر باطل ہوگی ۔
سوم یہ کہ اشاری تفسیر کی تائید کسی نہ کسی جہت سے شرعاً ہورہی ہو، چاہے مدلولِ قرآن سے یا اصولِ دین سے ۔ وہ کسی ثابت شدہ شرعی اصل کے مخالف نہ ہو ۔
چہارم یہ کہ اشاری معنی ایسی تاویل نہ ہو جو نہات کمزور اور سطحی دلیل پر مبنی ہو ،بلکہ وہ معقول اور مستحکم اساس پر قائم ہو اور نہ ہی ایسی دور کی تاویل ہو جو سمجھ سے بالا تر ہو ۔
تفسیر اشاری کاحکم :
تفسیر اشاری کا حکم کیا ہے ؟ کیا اُسے باکلیہ تسلیم کرنا واجب ہے ،یا بالکلیہ قابل تردید ہے؟ یا اُسے نہ قبول کیا جائے نہ رد کیا جائے۔ اس سلسلے میں ارباب علم کا صحیح اورمعتدل رویہ یہی ہے کہ  تفسیر اشاری اپنے شرائط کے ساتھ مقبول ومحمودہے ، کوئی اس کا ردنہ کرے۔ہاں!کسی کے لیے تسلیم کرناواجب بھی نہیں، مگرتردید بھی جائز نہیں۔
امام شاطبی فرماتے ہیں:
 ایسے اعتبارات و اشارات جوقرآنی آیات کے ضمن میں بیان کیےجا تے ہیں وہ دو قسم کے ہوتے ہیں ـ:
ایک قسم یہ ہے کہ اولاً اس کا اصل سرچشمہ قرآن ہو تا ہے، باقی سارے موجودات اس کے تابع ہو ا کرتے ہیں ۔ 
مطلب یہ ہے کہ وہ اشارہ اورکنایہ قرآن کریم سے حاصل کرتے ہیں ،پھرکائنات وموجودات کے نظریا ت و حقائق کو اِس قرآنی فکر کے تابع کرتے ہیں، قرآن کو اُن حقائق کے تابع نہیں کرتے ،کیوںکہ انھیں وہ نورِ بصیرت حاصل ہو تا ہے جو بلاتوقف  کائنات کی حقیقت کا مشاہدہ کراتا ہے اورمادی حقائق کے سارے حجاب اٹھا دیتا ہے۔
دوسری قسم یہ ہے کہ اس کا اصل سرچشمہ عالم موجودات کی جزئیات و کلیات ہو اکرتے ہیں اور قرآن کو اس فکر و نظر کے تابع کرتے ہیں ۔ 
اس کامطلب یہ ہے کہ پہلے وہ اس کائنات کے موجودات سے کو ئی حقیقت یا اشارہ لیتے ہیں، پھراُس کو قرآن سے ہم آہنگ کرتے ہیں،گو یا اُن کی فکر اصلا ًکائناتی فلسفہ پر مبنی ہوتی ہے اور تبعاً قرآن کریم سے اس کی تائید کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔پھر ان دونو ں قسموں کے تعلق سےامام شاطبی فرماتے ہیں : اگر اس اعتبار واستنباط کا تعلق پہلی قسم سے ہے تو وہ بلا اشکال باطنِ قرآن کے سمجھنے میں معتبر و مقبول ہے، اس لیے کہ  فہم قرآن اسی کا نام ہے جو قلوب پر اُس کے مطابق وارد ہو، جس کے لیے قرآن ناز ل کیا گیا ،یعنی ایسی ہدایت تامہ ہو جو مکلفین کے احوال کے مطابق ہو ۔
 اگر دوسری قسم سے ہے تو باطن قرآن کی فہم میں ایسا اشارہ واعتبار اخذ کرنے سے گریز ضروری ہے ۔مطلقاً اُسے قبول کرنا ممنوع ہے، اس لیے کہ یہ پہلی قسم کی ضد ہے اس طور سے کہ وہاں قرآن کی حیثیت مصدر اصلی کے طور پر تھی جو مدارِایمان و ایقان ہے اورباقی اعیان و موجو دات اس قرآنی فکر کے تابع تھے ،جب کہ یہاں اعیان و موجو دا ت کو اصل سرچشمہ بناکر ایک تصور اخذکیا گیا ،پھر قرآن کو اس کے تابع کیا گیااور یہ راہ کہیں نہ کہیں اس تفسیر بالرائے کی طرف لے جارہی ہے جس کے لیےحدیث پاک میں سخت وعید آئی ہے ، اگر اس بے راہ روی  کے جواز کا دروازہ کھول دیا جائے تو ہر شخص قرآن میں اپنی من مانی تاویل شروع کردےگا اور لوگ قرآن کے تابع ہونے کے بجائے اپنے نفس وخواہش کی پیروی کرتے نظرآئیں گے ۔ اس طرح یہ کتابِ ہدایت کے بجائے ان کے لیے کتابِ ضلالت بن جائےگی، کیوںکہ اسی سے کتنے لوگ ہدایت بھی پاجاتے ہیں اور اسی سے گمراہ بھی ہوجاتےہیں (یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَیَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا )۔ (۳۰)
اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن اصلاً گمراہی کی کتا ب ہے(معاذاللہ) ،بلکہ اس کا مطلب یہ ہےکہ جو لوگ اپنی طبیعت اور اپنی فکر کوقرآن کے تابع کریں گے وہ ہدایت یافتہ ہوںگے اور جو اس کے برعکس کریں گے،یعنی قرآن کو اپنی مرضی و خواہش کے تابع کرنے کی کوشش کریںگے وہ گمراہ ہو جائیںگے ۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دوسری قسم کا تعلق صوفیہ کے اس طبقے سے نہیں جو اہل صفا ہیں اور نفس وہوا کی پیروی سے محفوظ ہیں،بلکہ اس کا تعلق نام نہاد جا ہل مستصوفین سے ہے،یہ ایسے نفس پرست فساق وفجارطبقہ کا طرز عمل ہے جن کا مقصد شریعت کو اپنے تابع کرنا اور فاسد تاویلات کے ذریعے اپنے آوارہ افکا ر وخیا لات کو صحیح ثابت کرنا ہو تا ہے ۔
اما م زرقانی نے بھی تفسیر اشاری کے اخذ وقبول کے حوالے سے بہت عمدہ بات کہی ہے۔ وہ لکھتےہیں : 
تفسیر اشاری کی قبولیت میں جو شرائط ہیں وہ شرائط صحت ہیں،وہ اس لیے نہیں ہےکہ تفسیر اشاری کوواجب الاتباع یا واجب التسلیم ثابت کیاجائے، شرائط صرف اس بات کے لیے  ہیں کہ تفسیر اشاری کو مطلقاً مردود قرار دینادرست نہیں، کیوںکہ  جب یہ ظاہر قرآن کریم کے مخالف بھی نہیں اور اس کی تائید شرعی دلیل سے بھی ہورہی ہو، تو اس میں ردو انکار کی گنجائش نامناسب ہے۔ ہاں! اس تفسیرکو تسلیم کرنا بھی واجب نہیں ، کیوںکہ نظم قرآن معنی موضوع لہ کے اعتبار سے اس معنی اشاری پردلالت نہیں کررہا ہے، بلکہ وہ اشارات ایسے الہامات  کے قبیل سے ہیں جو اَربابِ کشف پر کھلتے ہیں وہ کسی قواعد یا کسی لغت کے پابند نہیں ہوتے۔(۳۱) 
حاصل کلام یہی ہےکہ تفسیر اشاری جو حقیقتاً وجدانیات کے قبیل سے ہوتی ہے ،ہر شخص کے لیےاس کو تسلیم کرنا واجب نہیں اور نہ ہی اس کی تردید کی جائےگی،بلکہ اس کے بارے میں یہی خیا ل کیا جائےگا کہ یہ معنی حق ہے ،اس کی صحیح حقیقت وہی جانتا ہے جس پر وہ معنی کھلا ہے :؎
چوں بشنوی سخن اہل دل مگوکہ خطا ست
سخن شناس نہ ای دلبرا خطا ایں جا ست
تفسیراشاری : عقلی توجیہات اورنمونے:
اگر یہ کہا جائے تو اس میں کو ئی مبالغہ نہیں ہو گا کہ معانی قرآن کے ذخیرے میں تفسیر اشاری کو ذکر نہ کرنا ایک طرح سے خود مدلول قرآنی کے تقاضے کے بر خلاف ہے، صرف ظاہری تفسیر پراکتفا کرنا غیر مناسب ہے،اس لیے تفسیر اشاری بھی نگاہوںمیں رکھناہوگا،تاکہ اِس حدیث کا مکمل مصداق عیاں ہوجائے : لِکُلِّ آیَۃٍ ظَہَرَ وَبَطَنَ ،وَلِکُلِّ حَرْفٍ حَدٌّ وَلِکُلِّ حَدٍّ مَطْلَعٌ۔ (۳۲) ترجمہ:ہر آیت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن،ہر حرف کی ایک حدہے اور ہر حد کا ایک مطلع۔
عقلی توجیہات:
٭ اس امت کے طبقۂ خواص کے حق میں تفسیر اشاری کا وجود یقینی ہے ۔ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں : کِتَابُ اللہِ عَلٰی أرْبَعَۃِ أشْیَاءٍ:اَلْعِبَارَۃُ وَالْإشَارَۃُ وَاللَّطَائِفُ وَالْحَقَائِقُ،فَالْعِبَارَۃُ لِلْعَوَامِ، وَالْإشَارَۃُ لِلْخَوَاصِ ، وَاللَّطَائِفُ لِلْأ وْلِیَاءِ وَالْحَقَائِقُ لِلْأنْبِیَاءِ۔    (۳۳)   ترجمہ: کتاب اللہ چار چیزوں پر مشتمل ہے ،عبارت ، اشارہ ،لطائف اور حقائق۔ عبارت یعنی ظاہری معنی عوام کے لیے ہےاور اشارہ خواص کے لیے ،لطائف اولیا کے لیے ہیں اور حقائق انبیا کے لیے ۔
 فہم قرآن کے سلسلےمیں اس درجہ بندی کی تقسیم وترتیب قرآن کی اس آیت سے بھی سمجھ میں آتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے: یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ الَّذِیْنَ اُوْتُواالْعِلْمَ دَرَجٰتٍ(۳۴) ترجمہ:اللہ تعالیٰ تم میں سےایمان والوںاورعلم والوں کو درجوں بلند فرمائے گا۔
٭ تفسیر اشاری کی ضرورت و اہمیت اس اعتبارسے بھی مسلم ہے کہ قرآن کریم میں جو ماضی کے واقعات ہیں، جیسے انبیا کے قصے اورگزشتہ قوموں کے واقعات، اُن میں ایسے معانی واشارات پر باخبر ہو نا جو ہر زمانے میں عبرت ونصیحت کے لیے کار آمد ہو ں انھیں تفسیر اشاری کے ذریعے آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے، تاکہ خطاب قرآن ہر دور میں بامقصد قرارپائے، مثلاً ظاہری تفسیر میں یہ ہوتا ہے کہ کسی نبی کا واقعہ جو گزر چکا ہے اُسے محض اس اعتبارسے لیا جائے کہ زمانےکے ختم ہو نے کے ساتھ واقعہ بھی ختم ہو گیا اور جو اس زمانے میں اس کی تلاوت ہو رہی ہے وہ محض عبرت و نصیحت کے لیےہے ۔  مگر تفسیر اشاری کا یہ کمال ہے کہ وہ اس واقعے کو ہر زمانے کے مخاطب کے لیے مفید و مستحکم بنادیتی ہے، مثلاً وہ موسیٰ اور فرعون کے واقعے میں موسیٰ سے کنایتاًقلب مراد لیتے ہیں اور فرعون سے نفس ، اس طرح رمزیہ نکات بیان کرکے کسی واقعے کے کردار کو ہر مخاطب کے حق میںہر زمانے میں منطبق کردیا جاتاہے ۔ یہ بات اس طرح بھی سمجھی جاسکتی ہےکہ قرآن کریم کا خطاب انتہائے زمان کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتا،کیوںکہ یہ اصلاً کلام ربانی ہے، یعنی صفت باری تعالیٰ ہے اور اللہ کی ہر صفت قائم ہے معطل نہیں ،اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیشہ متکلم ہے وہ زمان ومکان کی قید سے بالا تر ہےاور اُس کی ساری صفات ہمہ دم جاری و ساری ہیں ۔
٭ بہت سے مقامات پر تفسیر و توضیح کے وقت مشکلات درپیش ہوتی ہیں،ایک آیت کسی اور معنی کو بیان کرتی ہےاور دوسری آیت اس کے خلاف معنی کو بیان کرتی ہے۔ خاص طور سے جہاں تناقض کا وہم پیدا ہو تا ہے،اس مقام پر تفسیر اشاری مشکلات کو بہترین انداز میں حل کردیتی ہے، وہ ایسا معنی بیان کرتی ہے جس سے تناقض و تعارض کاوہم زائل ہوجاتاہے ، مثلاً قرآن کی آیت ( وَمَاکَانَ لِنَبِیٍّ أنْ یَّغُلَّ۔ا ٓل عمران: ۱۶۱) سے عصمت نبی کا ثبوت ملتا ہے کہ نبی سے کسی گناہ کا صدور ناممکن ہے مگر دوسری آیت (لِیْغْفِرَلَکَ اللہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَاتَأَخَّرَ۔فتح: ۲) سےنبی سےبھی گناہ کے صدور ہونے پر دلالت کرتی ہے۔اس مقام پر صاحب’’ بحر مدید‘‘ ایسی اشاری تفسیر بیان کرتے ہیں جس سے شان عصمت پر ذرہ برابر حرف نہیں آتا،وہ بیان کرتے ہیں:( إنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًامُّبِیْنًا ) با ن کشفنا لک عناسرارذاتنا و انوار صفا تنا وجمال افعالنا فشاہدتنا بنا : ( لِیَغْفِرَلَکَ اللہُ) ای لیغیبک عن وجودک فی شعور محبوبک ویستر عنک حسک ورسمک حتی تکون بنا فی کل شئی قدیما و حدیثا۔ (۳۵) ترجمہ: إنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًامُّبِیْنًا سے مراد یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے نبی! ہم نے آپ کے لیے اپنی ذات کے اسرار ،صفات کے انوار اور افعال کا حسن منکشف کردیا جس کی وجہ سے آپ نے ہمارا مشاہدہ کیا ۔( لِیَغْفِرَلَکَ اللہُ ) کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو خیال محبوب میں اس قدر استغراق حا صل ہو جائے کہ آپ اپنے وجود اور اپنے شعورو خیال سے غائب ہو جائیں،یہاں تک کہ ہر قدیم و جدید حالت میں ہماری ہی معیت آپ کو حا صل ہو ۔
  ایسی اور بھی بہت سی منطقی توجیہات ہیں جو تفسیر اشاری کی اہمیت و ضرورت کو بخوبی واضح کرتی ہیں ،بلکہ احکام دین کی روح کو سمجھنا تفسیر اشاری کے بغیر ممکن نہیں اور بلا شبہ صوفی منہج پر ایسی تفسیر ، تفسیروہبی ہواکرتی ہے جس کی طرف جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا یہ قول اشارہ کررہا ہے جو انھوں نے علوم ضروریہ کے تحت ایک مفسر کے لیے بیان کیا ہے،وہ فرماتے ہیں:  
 الخامس عشر : علم الموہبۃ : وہو علم یو رثہ اللہ تعالی لمن عمل بما علم و إلیہ الإ شارۃ بحدیث ( من عمل بماعلم ورثہ اللہ علم مالم یعلم ۔ (۳۶) ترجمہ:مفسر کے لیےپندرہواں علم، علم وہبی ہے، وہ ایسا علم ہے جو اللہ اُسے عطا کرتا ہےاورجس نے اپنے علم پر عمل کیا اس کی طرف یہ حدیث بھی اشارہ کررہی ہے کہ’’جس نے اپنے علم پر عمل کیا تو اللہ اسے ایسا علم عطا کرےگا جو اُسے معلوم نہیں ہو گا ۔‘‘ 
   در اصل یہ علم تقویٰ کے بغیر حاصل نہیںہو سکتا، اس کی طرف قرآن بھی اشارہ کرر ہا ہےکہ ( وَاتَّقُوااللہَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللہُ۔ بقرہ :  ۲۷۲) اللہ سے ڈرو ،اللہ تجھے علم عطافرمائےگا۔
 اور تقویٰ کا مفاد یہی ہے کہ قلب ہر طرح کے گناہ کی آلودگیوں سے پاک ہو ، جس کا قلب ایسا نہیں تو وہ اسرارِ قرآن کا ادراک نہیں کرسکتا۔
 امام زرکشی فرماتے ہیں:
إعلم انہ لا یحصل للناظر فہم معانی الوحی ، ولایظہر لہ أسرارہ ،وفی قلبہ بدعۃ أو کبر أو ہوی أو حب الدنیا أو وہو مصر علی ذنب أو غیر متحقق باالایمان أوضعیف التحقیق،أو یعتمد علی قول مفسر لیس عندہ علم أو راجع إلی معقولہ وہذہ کلہا حجب و موانع بعضہا أکد من بعض۔(۳۷)( البرہان ، ص:۴۳۵)
  ترجمہ: معانی وحی کا فہم ،اسرارِ قران پر اطلاع ،اس تالی کو حاصل نہیں ہو تاجس کے دل میں بدعت ،کبر ، ہوس اور حبِ دنیا ہو،یا وہ معصیت پر اصرار کرتا ہو یا حقیقی ایمان سے محروم ہو ،یا ضعیف التحقیق ہو یا ایسے مفسر کے قول پر اعتماد کرتا ہو جس کے پاس کوئی علم ودلیل نہیں ،یا منقول چھوڑ کر معقول کی طرف رجو ع کرتا ہو،یہ سب حجابات و موانع ہیں جن میں بعض بعض سے مضبوط ہیں ۔
تفسیر اشاری کے چند  نمونے:
[۱] امام سہل بن عبد اللہ تستری (۲۷۳ھ )آیت کریمہ (الذی خلقنی فہو یہدین ۔ والذی ہو یطعمنی ویسقین۔ واذا مرضت فہو یشفین ۔ والذی یمیتنی ثم یحیین۔ شعرا) کی تفسیر کرتےہوئے فرماتے ہیں :
( الذی خلقنی ) لعبودیتہ یہدینی الی قربہ (والذی ہو یطعمنی و یسقین ) قال : یطعمنی لذۃ الایمان ویسقینی شراب التوکل والکفایۃ (واذا مرضت فہو یشفین ) قال: اذاتحرکت بغیرہ لغیرہ عصمنی واذاملت الی شہوۃ من الدنیا منعہا عنی ( والذی یمیتنی ثم یحیینی) الذی یمیتنی با الغفلۃ  ثم  یحیینی  بالذکر۔ (۳۷)    ترجمہ: جس نے مجھے اپنی بندگی کے لیےپیدا کیا اور اپنے راہِ قرب کی ہدایت دی ،وہ مجھے لذت ایمان کا ذائقہ عطا کرتا ہے اور توکل وکفایت کی شراب پلاتا ہے ،جب میں کسی غیر کے لیے حرکت کرتا ہوں تو وہ مجھے بچا لیتا ہے،جب میں دنیا کی طرف مائل ہوتا ہوں تو وہ مجھےروک دیتا ہے ،وہ مجھے غفلت میں موت دیتا ہے اور ذکر میں زندگی عطا فرماتا ہے ۔(۳۸)
[۲] امام قشیری آیت کریمہ : یایہاالناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلکم تتقون۔ میں اعبدوا کامعنی بیان کرتے ہو ئے فرماتے ہیں :
 اعبدوا با لتجرد عن المحظورات،والتجلد فی اداء الطاعات،ومقابلۃ الواجبات با لخشوع والاستکانۃ والتجافی عن التعریج فی منازل الکسل والاستہانۃ ۔ (۳۹) 
ترجمہ : اللہ کی عبادت کرو ،خود کو ممنوعہ چیزوں سے پاک کرکے،طاعات کی ادائیگی میں سختی کرکے ،واجبات میں خشوع وخضوع پیدا کرکے اورسستی و کاہلی کی جگہوں سے خود کو دور رکھ کے۔
تفسیر اشاری: چندمشہورتصنیفات اور اُن کا تعارف:  
  کتاب اللہ معانی ومطالب کا بحر بے کراں ہے، اس کے لطائف وعجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے ۔ اللہ رب العزت کا یہ بے پناہ فضل و احسان ہے کہ اس نے تفسیر اشاری کے ذخیرہ ٔ کتب کی حفاظت فرماکر مطالبِ قرآن کا ایک نادر تحفہ عطا کیا جس سے اجلہ علمائے تفسیر سیراب ہو تے رہے ہیں۔
تفسیر اشاری پر مستقل و غیر مستقل دونو ں طرح کی تصنیفات موجو دہیں۔ ذیل میں چند مشہور تصنیفات کا تذکرہ و تعارف درج کیا جارہا ہے۔لیکن اس سے پہلے یہ بنیادی بات ملحوظ رکھیں کہ فن تفسیر میں بعض ایسی کتابیں ہیں جو محض تفسیر ظاہری پر مبنی ہیں، اس میں کسی بھی جہت سے تفسیر اشاری نہیں، جیسے واحدی کی تفسیر بسیط ، زمخشری کی تفسیرکشاف وغیرہ ۔
[۱] ایک قسم وہ ہے جس میں تفسیر ظاہری کا غلبہ ہے مگر اس کے ساتھ تفسیر اشاری بھی کہیںکہیں موجود ہیں، جیسے تفسیررازی ،  تفسیر نیشاپوری ،تفسیرقرطبی ،تفسیرآلوسی وغیرہ ۔
[۲] ایک قسم وہ ہے جس میں تفسیر ظاہری اور تفسیر اشاری دونوں قدرے فرق کے ساتھ متوازن اور برابرہیں، جیسے تفسیر روح البیان ،البحر المدید،تفسیرمہائمی وغیرہ ۔
[۳] ایک قسم وہ ہے جس میں تفسیر اشاری کی کثرت ہے اور تفسیر ظاہری کی مقدار نہایت کم ہے، جیسے تفسیر تستری ،تفسیر قشیری،التاویلات النجمیۃ وغیرہ ۔
[۴] ایک قسم وہ ہے جس میں پوری توجہ صرف تفسیر اشاری پر دی گئی ہے ،اس میں خالص تفسیر اشاری کے مواد ہیں، جیسے حقائق التفسیر للسلمی ( ۴۱۲ھ)، تفسیر ابن عربی ( ۶۳۸ھ)، عرائس البیان فی حقائق القرآن للشیرازی (۶۰۶ھ)،تفسیر حسینی فارسی از ملاواعظ حسین کاشفی (متوفی ۹۱۰ھ) وغیرہ ۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی کتابیں ہیں جو صوفی منہج تفسیرکے حوالے سے جا نی جاتی ہیں۔ ذیل میں چار اہم اور مشہور کتابو ں کا ایک اجمالی تعارف اور ان کے منہج و اسلوب کا ذکرکیا جارہا ہے۔
تفسیر تستری:
اس تفسیر کے مولف امام ابو محمد سہل بن عبد اللہ تستری قدس اللہ سرہٗ ہیں(متوفی۳۸۳ھ) آپ کا شمار کبار عارفین میں ہو تا ہے ،صاحب کمالات و کرامات مشائخ میں سے ہیں ، آپ کی ملاقات مشہور صوفی حضرت ذوالنون مصری قدس اللہ سرہٗ سے بھی ہے،آپ کو اعلی درجے کا اجتہاد بھی حاصل تھا ، آپ کافی عرصے بصرہ میں اقامت پذیر رہے ۔
منہج و تفردات:
یہ تفسیر مطبوعہ صورت میں دستیاب ہے،یہ بہت زیادہ ضخیم نہیں ہے، کیوںکہ اس میں ہر آیت کی تفسیر نہیں ہے بلکہ ہر سورت کی کچھ مخصوص آیتوں کی تفسیر بیان کی گئی ہے ۔ دوسری چیز یہ کہ تفسیر کے جو بھی مواد ہیں وہ سب آپ کے وہ اقوال ہیں جن کو آپ نے وقتا فوقتا کسی آیت کی تشریح کے وقت فرمائے تھے۔ اس طرح آپ نے اس کتاب کی تالیف نہیں کی ہے، بلکہ آپ کے اقوال کو جمع کرکے ایک تصنیف کی شکل دے دی گئی ہے۔ اس کا اسلوب علمی وعرفانی ہے۔ ایسا نہیں ہےکہ اس میںصرف تفسیر اشاری ہی موجود ہے، بلکہ کہیں کہیں تفسیر ظاہری بھی موجود ہےاور ایسابھی ہے کہ  اس میں کہیںصرف تفسیر اشاری ہے اور کہیں صرف تفسیر ظاہری۔ اس منہج سے صاف واضح ہے کہ آپ نے تفسیر ظاہری کا بھی اہتمام کیا ہے اور اُسے بھی اہم مانتے ہیں محض تفسیر اشاری پر اکتفا نہیں کیا۔(۴۰)
حقائق التفسیر للسلمی:
اس تفسیر کے مولف امام ابو عبد الرحمٰن محمد بن حسین بن موسیٰ الازدی السلمی (متوفی ۴۱۲ھ) ہیں ،خراسان کے مشہور عالم و محدث اور امام الاصفیاء تھے ۔ آپ کو بہت سے علوم و فنون پر ید طولی حاصل تھا، خاص طور سے علم حدیث پر زبردست مہارت تھی،یہاں تک کہ حاکم ابو عبداللہ نیشاپوری اور امام ابوالقاسم قشیری جیسی ہستی آپ سے درس حدیث لیا کرتی تھی۔ مرو ،عراق ،خراسان میں آپ کی علمی و روحانی جلالت کا شہرہ تھا اورمختلف علوم وفنون میں آپ کی تقریبا ًسو سے زائد تصانیف مو جود ہیں ۔
منہج و امتیازات:
یہ قرآن کی مکمل تفسیر ہے مگر اس میں صرف تفسیر اشاری پر اکتفا کیا گیا ہےاس میں تفسیر ظاہری کہیں بھی نہیںہے۔ اس سے کو ئی یہ نہ سمجھے کہ آپ تفسیر ظاہری کے قائل نہیں تھے بلکہ اولاً اسی تفسیر کو قابل اعتبار مانتے تھے ۔اس کتاب کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ حقیقت میں شیخ سلمی کی اپنی ذاتی تفسیر نہیں بلکہ انھوں نے ارباب حقیقت کے اقوال کو حسب سورت و آیت بیان کردیا ہے اور اسے مرتب کرکے حقائق القرآن کے نام سے موسوم کیا ہے، اس اعتبارسے وہ اس کتاب کے مولف نہیں بلکہ مرتب وجامع ہیں ۔خصوصی طور سے جن کے اقوال کو تفسیر میں ذکر کیا گیا ہے ،ان میں امام جعفر صادق،شیخ جنید بغدادی،فضیل بن عیاض ،سہل بن عبد اللہ تستری قدست اسرارہم جیسی مستند و مقدس شخصیات سر فہرست ہیں ۔(۴۱)
 مذکورہ کتاب کے بارے میں علما کے کچھ اعتراضات ہیں مگر اُن اعتراضات کا معقولی جواب بھی موجود ہے ، مثلاً: حافظ ابن تیمیہ اس کتاب پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 
وَمَایُنْقَلُ فِی حَقَائِقِ السُّلَّمِی عَنْ جَعْفَرِالصَّادِقِ عَامَّتَہٗ کُذِبَ عَلٰی جَعْفَرٍکَمَا قَدْ کُذِبَ عَلَیْہِ فِی غَیْرِ ذٰلِکَ۔ 
 ترجمہـ: سلمی کی حقائق التفسیر میں جو روایت امام جعفر صادق سے منقول ہیں درحقیقت وہ ان پر کذب ہے ، جیسا کہ اس کے علاوہ بھی جھوٹی باتیں ان کی طرف منسوب کی گئیں ہیں۔(۴۲)
ابن تیمیہ کے اس اعتراض کاجواب بہت لوگوں نے معقولی انداز میں دیاہےجن سے ان کا اعتراض بے محل نظر آتاہےاور یہ بات سمجھ میں نہیںآتی کہ امام سلمی جیسا محقق و محدث اور اصولی انسان کسی روایت کو نقل کرنے میں موضوع اورغیر موضوع کے درمیان تمیزملحوظ نہ رکھے۔
 لطائف الاشارات:
اس کتاب کے مصنف امام عبد الکریم بن ہوازن قشیری (متوفی۴۶۵ھ)ہیں۔ یہ اپنےوقت کے مشہور متکلم، محقق وفقیہ اور صوفی واعظ تھے اور ارباب سلوک کے مقتدا و امام تھے، انھیں خطیب نیشا پور بھی کہاجاتا تھا اورعلوم ظاہر و باطنی میں یکساں کمال حاصل تھا ۔ آپ کے شیوخ میں شیخ بو علی دقاق اور شیخ ابو سعید ابوا لخیر، امام سلمی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔
منہج و خصوصیات:
خودامام قشیری قدس اللہ سرہٗ اس کتاب کے اسلوب کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہماری یہ کتاب قرآنی اشارات کے ذکرپرمبنی ہے۔رہ گئے علماکے اقوال اور اُن کے اصولی مسائل تو ہم نے طوالت کے خوف سے نہایت اختصارسے کام لیاہے۔ اس کتاب میں صرف تفسیر اشاری نہیں،بلکہ تفسیر ظاہری بھی مو جود ہے،جوخالص علمی اندازمیںہے،اگر چہ تفسیر اشاری  کاغلبہ ہے۔ اس کتاب سے مصنف کا علمی مقام بھی واضح ہو تا ہے، انھوں نے علمی طور سے اشارات اخذ کیے ہیں،اسلوب بہت بلیغ ہے۔(۴۳)
عرائس البیان فی حقائق القرآن :
 اس کتاب کے مصنف ابو محمد روزبہان بن ابو نصربقلی فسوی شیرازی(متوفی۶۰۶ھ) ہیں ۔آپ بڑے نامورمتکلم ، مفسر،صوفی محقق اور شیخ نجم الدین کبریٰ کے مشائخ میں تھے ۔ آپ کثیرالتصانیف تھے۔
 منہج  اور خصوصیات:
اس کتاب میں خالص تفسیر اشاری ہے تفسیر ظاہری بالکل نہیں ہے، اگر چہ مصنف کے نزدیک اولاً تفسیر ظاہر ی کی اہمیت ہے، جیساکہ مقدمۃ الکتاب میں اس کی صراحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جس طرح علما نے قرآن کے ظاہری معانی اورمطالب بیان کیے ہیںاسی طرح میں نے حقائق قرآن کے حوالے سے ایک مختصر سی کتاب تصنیف کی ہےجو طویل اور تفصیل سے خالی ہے۔ میں نےاس میں رحمٰن کی جانب سے جواشارات ولطائف عطا ہوئے ان کو عمدہ انداز اور نفیس عبارت میںبیان کیاہے۔ بعض مقامات پر میں نے کسی آیت کی ایسی تفسیرکی ہے ،جو اس سے پہلے کسی مشائخ نے نہیں کی ہے۔
مصنف کی اس تحریرسے واضح ہے کہ اس میں خالص عرفان و وجدان کی باتیں ہیں جو معارف وحقائق اوراسرارو دقائق سے متعلق ہیں۔مزیدیہ کہ اس میں ندرت بیان کے ساتھ نکات واشارات میں بھی انوکھاپن ہے۔ یہ کتاب ایک مستقل علمی ذخیرہ ہے جس سے ارباب عرفان وعشق اپنے ذوق ووجدان کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ مشائخ کے نزدیک اس کتاب کی بڑی قدرومنزلت ہے۔(۴۴)
--------------------------------------------------
مصادر ومراجع:
(۱) الاتقان فی علوم القرآن،ج:۴،ص: ۱۹۸
(۲) کہف: ۸۵
(۳) الموافقات، ص:۶۹۸-۶۹۹ دار الکتب العلمیہ
(۴) النساء:۸۲
(۵) النساء:۸۳
(۶) النساء:۸۷
(۷) محمد:۲۴
(۸) الموافقات،جلد: ۳،ص:۳۷۲،اخرجہ البخاری والنسائی
(۹) ا خرجہ العراقی فی المغنی بحاشیۃ الاحیاء،جلد:۱،ص: ۹۹
(۱۰) یوسف:۶
(۱۱) مسند امام احمد،جلد: ۱، ص: ۲۶۶ ط دار صادرالکتب العلمیہ بیروت
(۱۲) احیاء العلوم، ج:۱،ص: ۲۹۰
(۱۳)  الاتقان للسیوطی، ص: ۴۷۴
(۱۴) المعجم الکبیر للطبرانی ،حدیث: ۸۶۶۴
(۱۵) الاتقان، ص: ۴۷۴
(۱۶) مصدرسابق
(۱۷) احیاء علوم الدین،جلد: ۱، ص: ۲۸۹ 
(۱۸) الموافقات ،جلد:۳، ص:۳۸۴
(۱۹) موافقات، ج:۳ ،ص:۴۰۴
(۲۰) شرح عقائد نسفی، ص:۱۴۳ 
(۲۱) الاتقان، ص: ۴۷۲
(۲۲) فتاوی ابن تیمیہ جلد ۶ ص ۳۷۶ 
(۲۳) التبیان فی اقسام القرآن ص۵۱
(۲۴) التبیان فی اقسام القرآن ص۵۱
(۲۵) مقدمۃ تفسیر آلوسی، ص:۸
(۲۶)( التبیان فی اقسام القرآن 
(۲۷) الموافقات،ج: ۴ ،ص: ۲۳۲
(۲۸) احیاءالعلوم،ج: ۱، ص:۲۹۱
(۲۹) مناہل العرفان
(۳۰) تلخیص از موافقات، ج:۳،ص:۴۰۴
(۳۱) مناہل، ج:۲، ص:۷۰ 
(۳۲) تخریج سابق 
(۳۳) مقدمہ لطائف الاشارات للقشیری، ص: ۸
(۳۴) مجادلہ:۱۱
(۳۵) البحر المدید، ج: ۵، ص : ۵۸۳
(۳۶) الاتقان ، ج: ۴، ص: ۱۸۸
(۳۷) تفسیر تستری، ج: ۱، ص: ۷۱تا۷۴
(۳۸) تفسیر تستری :ج،۱ص،۱۷-۱۸
(۳۹) لطائف الاشارات، ج: ۱، ص : ۷۹
(۴۰) تلخیص از تفسیر ومفسرون ازدکتور محمد حسن ذہبی ،ج :۴ ،ص:۳۲۶-۳۲۷
(۴۱) تلخیص از نفس مصدر
(۴۲) نفس مصدر ،ص:۳۲۹
(۴۳) اکمال الرجا ل،تفسیر قشیری،اسرارالتوحید 
(۴۴) عرائس البیان التفسیر والمفسرون،مناہل العرفان
٭٭٭ 





1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔