Sunday 9 September 2018

شیخ محمد الغزالی اور تصوف (’’الجانب العاطفی من الاسلام‘‘ کی روشنی میں)

0 comments
شیخ محمد الغزالی اور تصوف
’’الجانب العاطفی من الاسلام‘‘ کی روشنی میں
از قلم:ذیشان احمد مصباحی
-------------------------------------------------------------------------
محمد الغزالی السقا( ۱۹۱۷ء-۱۹۹۶ء) مصر کے ان جدید مفکرین میں سے ایک ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں اسلام پسندنئی نسل کو سوچنے اور برتنے کا ایک نیا رخ دیا ہے-جو اپنے سر میں سلفی دماغ اور اپنے پہلو میں صوفی دل رکھتے ہیں- محمد الغزالی کو عصرحاضر کے ایک مقبول اور متنازع اسکالر ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے بجا طور پر صوفی القلب لاصوفی الطریقۃ کہا ہے- (www.alghazaly.org)محمد الغزالی اسکندریہ مصر کے ایک مقام البحیرہ میں پیدا ہوئے- ۱۹۴۱ء میں جامعۃ الازھر سے فاروغ التحصیل ہوئے-انہوں نے جامعہ ام القریٰ مکۃ المکرمہ ، جامعہ قطر اور الامیر عبد القادر یونیورسٹی الجیریا میں تدریسی فرائض انجام دیے- انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ قاہرہ کے اکیڈمک کونسل کے چیئر مین رہے- مختلف دینی، علمی، فکری، سائنسی، اقتصادی اور سماجی موضوعات پر قریب ایک سوفکر انگیز کتابیں لکھیں- جمہوریہ مصرکا پہلا اعزازی ایوارڈ (۱۹۸۸ء ) ، شاہ فیصل ایوارڈ (۱۹۸۹ء )اورحکومت پاکستان سے امتیازی ایوارڈ سے سرفراز ہوئے- محمد الغزالی کو مغرب میں بالخصوص اس حوالے سے بھی جانا جاتا ہے کہ انہوں نے مصری عدالت سے فراغ فوضیٰ جیسے سیکولر مزاج اسکالر کے قتل کا مطالبہ کیا تھا جو اعلانیہ طور پر اسلامی قوانین کے خلاف زبان درازی کرتے رہے ہیں- انہوں نے مصری حکومت سے اس بات کا بھی مطالبہ کیاتھا کہ اسلام کی ایک قانونی تعریف طے کی جائے اور جو اس دائرے میں نہ آئیں ان سے ان کے لائق سلوک کیا جائے-
کہا جاتاہے کہ اسلام پسندی میں شہرت کے باوجود محمد الغزالی کا تعلق، مصر کے تشدد پسند جماعتوں سے نہیں تھا، جس کی مختلف صورتوں میں انہیں قیمت بھی چکانی پڑی- ان کی بعض تحریریں سعودی علماکے نقدو تبصرہ کا نشانہ بھی رہی ہیں- ان کی کتابوں میں ’الاسلام والاوضاع الاقتصادیہ‘’الاسلام والمناھج الاشتراکیہ‘،جددحیاتک‘،’مشکلات فی طریق الحیاۃ الاسلامیۃ‘،’سرتاحصر العرب والمسلمین،’دفاع عن العقیدہ والشریعۃ ضد مطاعن المستشرقین‘،’الاسلام المفتریٰ علیہ، الاسلام والاستبداد السیاسی‘،الاستعمار أحقاد وأطماع‘،’فی موکب الدعوۃ‘،’حقیقۃ العربیۃ‘، کیف نتعامل مع القرآن‘وغیرہ زیادہ اہم ہیں- ان میں سے کئی ایک دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکی ہیں-
 اس وقت شیخ محمد الغزالی کی تصوف وسلوک سے متعلق ایک نہایت ہی معرکہ آرا کتاب الجانب العاطفی من الاسلام-بحث فی الخلق والسلوک و التصوف، (ناشر، نھضۃ مصر-اشاعت ۲۰۰۵ء بارسوم) میرے پیش نظر ہے- کتاب کا موضوع اس کے نام سے ظاہرہے- اس میں شیخ محمد الغزالی نے تصوف کی تعریف و تحقیق ، حمایت و مخالفت یا تاریخ وتشریح سے بحث نہیں کی ہے بلکہ تصوف کو اسلام کے ایک باطنی اور اخلاقی ونفسیاتی پہلوتسلیم کرتے ہوئے، اس حوالے سے جو اسلام کی خاص تعلیمات ہیں ان کو اپنے مخصوص ادیبانہ ومفکرانہ لب ولہجے میں بیان کردیا ہے ، زبان ششتہ ، بیان دل پذیراور اسلوب جدید ذہن کو اپیل کرنے والا ہے-
اشاعت اول کے مقدمے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ محمد الغزالی تصوف کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں ، ایک جس کا تعلق فلسفے سے ہے جب کہ دوسرے کا تعلق اسلام کی خالص تعلیمات سے ہے، وہ فلسفۂ تصوف کے سخت مخالف ہیں ، بلکہ اسے اسلام کے خلاف ایک پرفریب ثقافتی جنگ کا نام دیتے ہیں، جس کا مقصد مسلمانوں کو ان کے عقائد و اہداف اور طریق مستقیم سے منحرف کرنا ہے- ان کے الفاظ ہیں:
’’فلسفیانہ تصوف ہماری علمی تاریخ میں ایک قسم کا پرفریب ثقافتی حملہ ہے جس کا مقصد ہمیں اپنے عقائد و مناہج اور اہداف سے منحرف کرنا ہے-اہل علم کو اسے ضروری طور پہ سمجھنا چاہیے اور انہیں امت مسلمہ کو اس کے مکر وفریب اور اثرات سے متنبہ کرنا چاہیے، کیوں کہ اس کی اشاعت سے اسلام دشمنوں کا مقصد یہ ہے کہ امت مسلمہ ایک بے مقصدوبے حوصلہ قوم بن جائے، ایک پریشان حال اور سست قوم، جس کا کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے کوئی تعلق نہ ہو، جو آیات و احادیث میں تاویل کرے اور الفاظ کے صحیح مفاہیم کو اپنے خیالات واوہام کے ذریعے بدل کر رکھ دے-‘‘(ص:۳)
لیکن اس کے برخلاف وہ اسلامی تصوف کو جی جان سے قبول کرتے ہیں اور نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ اس لفظ کو جو حضرات اسلامی روایت میں ایک نیا لفظ قرار دے کراسے رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو لفظی بحث سے بالاتر ہوکر حقیقت تصوف کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں اور الفاظ کے گورکھ دھندے سے نجات کے لیے وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ اصطلاحات ہیں اور ہر شخص اپنی اصطلاح بنانے کے لیے مجاز ہے- فرماتے ہیں:
’’رہااسلامی تصوف تو اس کی بات ہی الگ ہے- بسا اوقات بعض حضرات کو یہ لفظ ناگوار گزرتا ہے لیکن جب مفہوم پر متفق ہیں توپھر الفاظ پر جھگڑنامیں پسند نہیں کرتا- بعض نے اسی کو علم القلوب کا نام دیا ہے، بعض حضرات اسے علم الاحسان کہتے ہیں ، جس کے دومقامات ہیں ، مشاہدہ اور مراقبہ، بعض ماہرین اخلاق ونفسیات اسیعلم البواعث علی الاعمال سے موسوم کرتے ہیں جب کہ میں اسے الجانب العاطفی من الاسلامی (اسلام کا داخلی پہلو) کہنا پسند کرتا ہوں اور قدیم مقولہ ہے: لامشاحۃ فی الاصطلاح (اصطلاح میں کوئی جھگڑا نہیں-)‘‘ (ص:۳)
شیخ محمد الغزالی عصر حاضر میں اسلامی تصوف یا اسلام کے جانب عاطفی کی اشاعت ناگزیر سمجھتے ہیں -ان کی یہ کتاب اسی مقصد کے تحت سامنے آئی ہے- اس مقصد عظیم کی ضرورت اور اس کی کامیاب پیش کش میں اہل اسلام کی ناکامی کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ارباب دانش کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نئی تہذیب نے انسان کو آسمان سے کاٹ کر زمین سے باندھ دیا ہے- اس کے دل کو دنیاوی مسائل میں الجھا دیا ہے اور آخرت کے مقاصد سے اسے غافل کررکھا ہے-وہ انسان کو اللہ سے دور لیے جارہی ہے- یعنی اس کا رخ مکمل دین  مخالف سمت پرہے- اس تہذیب کو کامیاب بنانے میں بڑاحصہ ان دین پسندوں کابھی ہے جو دستورالٰہی کو قلب ونظر کو مطمئن کرنے والے اسلوب میں دنیا وآخرت کی ضمانت، جسم وروح کی ضرورتوں کا مداوا اور دین دونیا کے کفیل کے طور پر پیش کرنے میں ناکام ہیں- ہم مسلمانوں کے پاس اس میدان کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ میٹریل ہے- ہماری تاریخی میراث میں اس حوالے سے کافی وشافی مواد موجود ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ادراک وافادہ کا احساس ہو-دین صرف خشک احکام کا نام نہیں ہے اور نہ ہی یہ بے جان فرامین کا نام ہے- یہ تو شوق ورغبت سے لبریز ایک دل ہے جو دین دارشخص کو حق تعالیٰ کی طاعت کی طرف انگیز کرتا ہے اور وہ یہ پکارتے ہوئے آگے بڑھتا ہے :مولیٰ! میں تیری رضا کے لیے بھاگا آرہا ہوں، وعجلت الیک رب لترضی۔ (طہ:۸۴) (ص:۴)
الغزالی اپنی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اس کتاب میں اپنی علمی وراثت کے ایک گراں مایہ پہلو کا احیا کیا گیا ہے ، جس کی معاصر زندگی کو ضرورت ہے- اگر وہ اس پہلو سے اغماض برتتی ہے تو وہ زمین وآسمان کی برکتوں سے محروم ہوجائے گی اور اس سے دور صرف زمینی سفلی مقاصد کی طرف بڑھتی چلی جائے گی- میں نے کوشش کی ہے کہ اسلامی مفاہیم کو ضبط تحریر میں لے آؤں اور انہیں نئی نسلوں سے قریب کروں-میرااولین مطمح نظر حمایت اسلام کے لیے عصر حاضر کے مطلوبات کو ہمارے پاس موجود وافر روحانی معانی سے جوڑنا تھا، تاکہ تمام تر عصری مطالبے مستحکم داخلی قوت کے ذریعے پورے ہوں، جن کے ساتھ حق زندہ رہے اور آگے بڑھے-‘‘(ص:۴)
شیح الغزالی کے اس اقتباس سے یہ بات پورے طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اسلام کے روحانی پہلو کو یا دوسرے لفظوں میں اسلامی تصوف کو موجودہ دنیا کے مسائل ومصائب کو حل کرنے کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں- وہ اسلام کی پیش کش اس کے تمام تر روحانی پہلوؤں کے ساتھ ضروری قرار دیتے ہیں اور موجودہ مطالبات کو اسلامی روحانیت سے مربوط کردینا چاہتے ہیں- حق کی بقا اور سرخروئی کے لیے اس سے بہتر کوئی دوسری راہ کم از کم ان کی نظر میں نہیں ہے- 
شیخ الغزالی اشاعت اول کے مقدمے کا اختتام اپنے ان جملوں سے کرتے ہیں:
’’میں تصوف کو اس کے گوشۂ نامی یا اس کی خانقاہ سے باہر لایاہوں، تاکہ وہ محرک طاقت بن سکے- مجھے خوشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ میری اس تحریر کو شرف قبول بخشے اور میں اس سے اس بات کا سوالی ہوں کہ وہ اسے میرے میزان حسنات میں شامل فرمائے-‘‘
یہ جملے واضح کررہے ہیں کہ الغزالی کے مطابق تصوف جمود وفرار کے اسباق نہیں، جیسا کہ بعض حضرات کا ماننا ہے، بلکہ اگر اس کی عصری پیش کش ہوتو وہ ایک محرک طاقت اور انقلاب بن کر سامنے آسکتا ہے-تصوف خانقاہوں میں موجود مزارات کی چادروں اوربتاشوں کا نام نہیں ہے بلکہ تصوف اس زندگی کا نام ہے جس سے موجودہ قلب و دماغ خالی ہیں- وہ ایک روح ہے جس کے بغیر مسلمان بلکہ انسان بے جان جسم ہیں-الغزالی نے جن مقاصد کے تحت یہ کتاب لکھی ہے اس میں وہ صدفی صد کامیاب ہیں -انہوں نے معاصر نفسیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی روحانیت کو ایسے اسلوب میں پیش کیا ہے کہ اس کو پڑھ کر حقیقت دین روشن ہوجاتی ہے، زندگی میں روح پیدا ہوتی ہے، مضمحل ارادے عزم جواںہوتے ہیں،فکر کو توانائی ، قلب کو صالحیت ، طبیعت کو شرافت اور آدمی کو انسانیت کے اقدار گراں مایہ کا احساس ہوتاہے- الغزالی کی یہ کتاب آج کے پریشان فکر نوجوان کو جینے کا حوصلہ دیتی ہے، اسے زمین پر رہتے ہوئے آسمان سے مربوط کرتی ہے، شخصی آزادی کے ساتھ سماجی احترام سکھاتی ہے اور ذات کو کائنات کے لیے نفع بخش بنانے کے گر سکھاتی ہے اور یہی تصوف ہے ، اسی کی صوفیہ دعوت دیتے رہے ہیں، اسی کے فقدان سے آج انسانیت انسانوں سے رخصت ہوئی ہے، اقدار پامال ہوئے ہیں اور انسان حیوان زر بن چکا ہے- الغزالی نے تصوف کے اس درس کو نہ صرف اپنے مخصوص اسلوب میں پیش کیا ہے بلکہ اس کے لیے بیشتر انہی الفاظ واصطلاحات کا سہارا لیا ہے جن کو قدیم صوفیہ استعمال کرتے رہے ہیں -الغزالی کی اس کتاب کو میکدۂ تصوف کا بادۂ کہنۂ در جام نو کہاجائے تو غلط نہ ہوگا-
’’تصوف ہماری اسلامی ثقافت کاایک حصہ ہے جو توجہ اور تحریک کا متقاضی ہے‘‘ ھٰذاجزء من ثقافتناالاسلامیۃ یستحق البعث و العنایۃ اس جملے سے مقدمے کا آغاز ہوتا ہے- مقدمے میں الغزالی نے لکھا ہے کہ اسلام کے دیگر شعبوں پر بہت زیادہ کام ہوا اور اس کے باطنی پہلو پر کم کام ہوا ، اسی کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو یہ گمان بھی ہوگیا کہ وہی بعض شعبے مکمل اسلام ہیں- الغزالی کے مطابق فقہ العبادات او رفقہ المعاملات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم مگر اسلام کا جو نفسیاتی او راخلاقی پہلو ہے اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، لیکن افسوس کہ علما نے اس پہلو پر اتنا کام نہیں کیا جتنے کایہ مستحق تھا-الغزالی سوال کرتے ہیں:’’مثلاً ہم وضوکے متعلق بڑی بڑی کتابیں لکھتے ہیں اوراعلیٰ معیار کے ساتھ شائع کرتے ہیں ، لیکن اس طرح کی علمی کتابیں اخلاص، توکل، تقویٰ ، اعانت، صبراور محبت کے بارے میں کیوں نہیں لکھتے ؟ جب کہ اللہ جل جلالہ کی محبت، اس کے لیے اخلاص، اس کی طرف رجوع، اس پر توکل اور اس کے لیے صبر، یہ ایسے معانی ہیں جو ایمانیات میں سرفہرست ہیں یا ایمان کے رکن رکین ہیں- مستند تفاسیر کے مطابق اور تفصیلی شرح وبیان کے ساتھ ان کو رقم کرنا اسلام کی عظیم خدمت ہے بلکہ میں یہ کہوں کہ عبادات ومعاملات جو ظاہری اعمال ہیں، اس وقت تک نامکمل اور نامقبول رہیں گے جب تک ان کے اندر یہ باطنی معانی پیوست نہ ہوں اور دلوں میں جگہ نہ کرلیں‘‘ (ص:۶)
شیخ محمد الغزالی کی بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ عصر حاضر میں فقہ العبادات اور فقہ المعاملات کی تدریس سے زیادہ تربیت احوال باطن کی ضرورت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج جدید مدنیت وثقاقت کی تعلیمات مختلف راستوں سے نئی نسل کے ذہن ودماغ پر اس تیزی سے چھاتی چلی جاری ہیں کہ اگر ہم اسلامی اخلاقیات وروحانیت پر نئی نسل کی تعمیر نہیں کرتے ہیں تو وہ جدید ثقافت کا شکارہوجائے گی اور اس کے ایمان سوز حملے سے جان بر نہ ہوسکے گی-
شیخ محمد الغزالی نے مقدمے میںیہ بات بھی لکھی ہے کہ وہ اس بات سے غافل نہیں ہیں کہ تصوف کی قدیم کتابوں میں انسان کے تعلق باللہ اور تعلق بالناس پر تفصیلی گفتگو ہوچکی ہے اور اس موضوع پر قدیم کتابوں میں وافر مواد جو موجود ہے لیکن اس کے باوجود اس موضوع پر ازسر نو کام کرنے کو وہ ضروری سمجھتے ہیں -انہوں نے ان کتابوں کو ’’ادبا کے مقالات اور شعرا کے جذبات‘‘ سے قریب بتایا ہے- ان کے نزدیک وہ کتابیں جدید ذہن کو اپیل کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں- اس لیے وہ اس موضوع پر جدید اسلوب میں مزید لکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں-
شیخ محمد الغزالی نے تصوف کی پرانی کتابوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کوئی مثال پیش کیے بغیر یہ بات کہی ہے کہ ان کتابوں میں بہت سے اغلاط اور خلاف واقع باتیں بھی در آئی ہیں- اس لیے اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ تصوف پر از سر نو لکھا جائے لیکن آگے بڑھنے سے قبل ایک بڑی منصفانہ بات کہہ دی ہے تاکہ ارباب تصوف کی دل آزاری نہ ہو اور بات متوازن ہوجائے ، فرماتے ہیں:
’’باوجود اس کے کہ ہماری ثقافتی روایت میں اغلاط صرف کتب تصوف تک محدود نہیں ہیں گوکہ ان کتابوں میں اغلاط زیادہ ہیں، بلکہ کتب تفسیر، کتب فقہ اور کتب سیر ت میں بھی بہت سی اغلاط در آئی ہیں اور ان کی بڑی بڑی کتابوں میں ایسی باتیں شامل ہوگئی ہیں جو اللہ ورسول کو اذیت پہنچانے والی ہیں-‘‘
اپنے مقدمے میں خصوصیت کے ساتھ دو قسم کے لوگوں پہ الغزالی نے سخت افسوس اور دکھ کا اظہار کیا ہے او رکہا کہ یہ دونوں گروہ مجھ سے شاکی ہے- ان دونوں گروہوں کا ذکر دل چسپی کا باعث ہے اس لیے ہم انہیں الغزالی کے الفاظ میں ہی لکھتے ہیں:
’’ایک گروہ وہ ہے جو اپنے دل میں جذبۂ گرم ، اللہ کے لیے شوق فراواں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حب شدید کا احساس رکھتا ہے، لیکن ا س کے باوجود آپ دیکھیں گے کہ کتاب وسنت کے احکام پر اس کی نظر بہت کم ہے، ان میں سے وہ تھوڑی باتوں سے واقف اور زیادہ باتوں سے جاہل ہے-اس کے خیال میں صرف اسے ہی اللہ ورسول کی محبت حاصل ہے اور دوسروں میں وہ بات نہیں پاتا اور وہ انہیں اس دولت سے محروم سمجھتا ہے-
اور ایک گروہ وہ ہے جو اپنی عقل میں روشنی ، علم میں وسعت اور کلام میں بلاغت پاتا ہے- اکثر احکام شرعیہ میں وہ درستگی پر پہنچا ہواہے، وہ مطلوبہ عبادات صحیح ڈھنگ سے اداکرتاہے، لیکن وہ سرد نفس، خشک طبع اور سخت دل ہے- اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو پائے اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرے اوراسے جو حق کا ادراک اور کتاب وسنت پر جو اس کی نظر ہے، اس کی وجہ سے اس کا تفوق واضح ہے-‘‘ (ص:۸)
شیخ محمد الغزالی کی اس مختصر عبارت سے بہت سے حقیقتیں سامنے آتی ہیں، جن پر لمبی گفتگو ہوسکتی ہے - شیخ محمد الغزالی مکمل اسلام کے لیے ظاہری احکام کی مکمل پاس داری کے ساتھ باطنی جذبے کی مکمل سچائی کو ضروری سمجھتے ہیں - ان دونوں باتوں سے اسلام مکمل ہوتاہے- کسی بھی ایک پہلو کو پکڑ لینااور دوسرے سے بے نیاز ہوجانا سخت انحراف اور ضلالت ہے- ان کی نظر میں:
 ’’کامل مسلمان وہ ہے جس کے قلب و ذہن ایک ساتھ روشن ہوں- جو صاحب بصارت و بصیرت ہو، حقوق اللہ اور حقوق العباد میں اس کی فکر اس کے جذبے سے اس طرح ہم آہنگ ہو کہ یہ معلوم نہ ہوسکے کہ ان میں فائق کون ہے، اس کے جذبے کی سچائی یا اس کے شعور اور نہ یہ معلوم ہو کہ زیادہ تیز کون ہے ،اس کے نفس تازہ کی گرمی، یا اس کی عقل دوررس کی حدت- یہ تمام صفات خود اسلام کی فطرت سے ماخوذ ہیں- یہ ایسا دین ہے جو اپنے عقاید کوعقلی صحت کی جہت سے ایسے فکری اصولوں پر استوار کرتا ہے جو علوم ریاضی مثلاً حساب اور جبر وہندسہ کے بدیہیات کے مشابہ ہیں-اس دین کے عقلی اصول عام معاملات اور نوپیدا مشکلات ومسائل میںواضح ہیں- اور دوسری طرف اسلام دین عبادت ہے، ایسی عبادت جو دل کی سلامتی، اخلاص اور محبت وادب سے آراستگی اور ہواے نفس، جنبہ داری اور فریب سے صفائی کے ساتھ تحقق پذیر ہوتی ہے- جناب رسالت مآب ﷺ کی سیرت دل ونگاہ کی بیداری کے حسن امتزاج اور ایک سفر میں دونوں کی مصاحبت کابہترین نمونہ ہے-‘‘( ص:۸)
سفر شریعت میں عقل و ضمیر کی ہم سفری کو لازم قرار دینے کے بعد الغزالی نے ان مدعیان احوال کی مذمت کی ہے جو عقل کی پاسبانی اور شریعت کی پاس داری کو لازم نہیں سمجھتے- اسی طرح ان شریعت پرستوں اور عبادت گزاروں کا مذاق اڑایا ہے جن کا دل دولت اخلاص وتقویٰ سے خالی ہوتاہے- اس سلسلے میں انہوں نے ایک افسر کا دل چسپ اور عبرت آموز واقعہ نقل کیا ہے جو حب آل بیت کا دم بھرتا ،اپنے ہاتھ میں تسبیح لیے پھرتا اور اپنے آپ کو واصلین میں گمان کرتاتھا- ایک بار ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا جس میں بشمول اس کے بڑے بڑے خطبا نے جوہر خطابت دکھائے -  دوسرے دن اخبارات نے سب کے نام شائع کیے مگر ان کا نام کسی وجہ سے نہ چھپ سکا - بس کیا تھا، جیسے مارے غضب کے پاگل ہوگئے ہوں-
الغزالی نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ ہر ’’وہ جذبہ جس کی تائید اسلام کے اصول و فروع کی صحیح تفصیلات کی روشنی میں نہ ہو، اور ان پرپورے طور سے عمل ہو، اس جذبے کا عند اللہ کوئی وزن نہیں ہے -اسی طرح جذبے کی سچائی علمی مغالطے کے لیے عذر نہیں ہے اور نہ دین اللہ میں ہویٰ اور رائے سے کہنے کا جوازہے - اسلام کے چشمے معروف اور متعین ہیں، صرف انہیں سے احکام مستنبط کیے جاسکتے ہیں، کسی شخص کو اجازت نہیں ہوسکتی کہ وہ ان میں اضافہ کرے یا کمی کرے-‘‘ (ص:۱۰)
الغزالی نے قرآن کی تفسیر بالرای کی مخالفت کی ہے- متصوفہ کی ایسی تفسیر جونہ ماثور ومسنون ہو اور نہ ہی اصول شرع اس کی تائید کرتے ہوں ،کو سخت مذموم سمجھتے ہیں- یہ فتنے کے دروازے کو کھولنا ہے اورشریعت کو بے امان کرناہے- اسی طرح اس بات پر بھی انہیں حیرت ہے کہ مفسرین عموماً آیات قرآنیہ کی لفظی تحقیق اور اعرابی مباحث تو پیش کرتے ہیں لیکن جومغزقرآن ہے ، دلوں کو مولیٰ سے جوڑنے اور ان کی قدروقیمت کو متعین کرنے کے حوالے سے جواسرار ہیں، انہیں کوئی نہیں چھیڑتا - متصوفہ اور ظاہر پرستوں دونوں پر طنز کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’اور عجیب بات یہ ہے کہ ہم دو متضاد گروہوں کے بیچ ہیں- ایک گروہ وہ ہے جوزبان اور بلاغت کے قواعد بیان کرتاہے اور بعض قریبی ظاہری احکام کی طرف متوجہ ہوتا ہے اوروہیں رک جاتا ہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو قواعد کو توڑتا ہے، حدود سے تغافل برتتا ہے اور من مانی نکات آفرینی کے ذریعے قرآن پر حملے کرتا ہے ، کیوں کہ اس کی نظر میں وہ نکات قلب میں رقت پیدا کرتے ہیں، وجدان کو صیقل کرتے ہیں اور لوگوں کو خدا کی طرف لے جاتے ہیں-‘‘ (ص:۱۳)
دونوں مقدمے کے بعد اصل کتاب شروع ہوتی ہے- کتاب تین نمایاں عنوانات کے ساتھ منقسم ہے جسے ہم باب بھی کہہ سکتے ہیں- پہلا الاسلام والایمان والاحسان ، دوسرا دعائم الکمال النفسی اور تیسرا شارات الطریق ، پھر ان کے تحت بہت سے ذیلی عناوین ہیں-
پہلاباب الاسلام والایمان والاحسان ’’حدیث جامع‘‘ کے ذیلی عنوان سے حدیث جبرئیل سے شروع ہوتی ہے - یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ عام اہل علم ونظر کی طرح شیخ محمد الغزالی بھی حدیث جبرئیل میں وارد لفظ الاحسان کو تصوف کی اصل قراردیتے ہیں - الغزالی نے حدیث جبرئیل کی تشریح میں بڑالطیف نکتہ بیان کیا ہے:
٭ ایمان درست ہوگا تو اس کا نتیجہ عمل کی شکل میں ضروربرآمد ہوگا-
٭ اور عمل درست ہوگا تو یقینی طور پر وہ ایمان پر مرتکز ہوگا-
٭ اور احسان درست ہوگا تو یقینی طور پر وہ ایمان راسخ اور عمل کامل کا ہی نتیجہ ہوگا- 
اس کے بعد الغزالی نے ان لوگوں کا رد کیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایمان سے اور ایمان اسلام سے جدا ہوسکتا ہے اور بالخصوص ان کا تعاقب کیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ احسان کا حصول فرائض اورعقاید سے بے گانہ رہ کر بھی ممکن ہے -الغزالی ان تینوں امور کو ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم قراردیتے ہیں- ان کے مطابق جب ایمان کامل اور عمل صحیح کا تحقق ہوگا تو اس کے بعد لازمی طور پر مقام احسان حاصل ہوگا-انہوں نے قرآنی آیات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان میں سے ہر لفظ ایک دوسرے کی جگہ پربھی بولاجاتا ہے - اس کے بعد پھر انہوں نے الگ الگ ایمان ، اسلام اور احسان کی تحقیق کی ہے- ایمان کے ضمن میں اسلام اور مسیحیت کے عقائد کا تقابل کیا ہے، الحاد کا رد بلیغ فرمایا ہے اور اسے علمی خرافات قرار دیا ہے- اسلام کی تحقیق میں شہادتین کا معنی بتادیا ہے ، انسانی زندگی میں خطا ونسیان کے موضوع پر اظہار خیال کیا ہے اور اللہ کے حضورسپر انداز ہونے کے دائرہ کارکو متعین کیا ہے- الاحسان کی تشریح کے ضمن میںالاحسان فریضۃ مکتوبۃ علی کل شیٔ کے ذیلی عنوان کے تحت یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں احسان یعنی اس معاملے کو احسن طریقے سے برتنالازم ہے- شیخ محمد الغزالی کا ماننا ہے کہ احسان کے بعد ہی کوئی شے مکمل ہوتی ہے -ایمان واسلام میں تمامیت اور کمال وہ احسان ہے جس کا ذکر حدیث جبریل میں ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ و ان لم تکن تراہ فانہ یراک(عبادت اس طورسے کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگریہ نہ ہوتو اس طور سے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے) کے الفاظ سے آیا ہے - اس کیفیت کے بعد ہی ایمان اوراسلام مکمل ہوتے ہیں- زندگی کے ہر میدان کار میں اسی طرح کمال مطلوب ہے- آپ ڈاکٹر ہیں تو اس کے انتہائی تقاضوں کو پورا کیجیے- اس ضمن میں ایک انوکھی بات یہ کہی ہے کہ جو شخص جس میدان عمل میں ہے وہیں رہ کر اپنا کام پورا کررہا ہے تو گویا وہ درجۂ احسان پر ہے- الغزالی نے اس پر حیرت ظاہر کیا ہے کہ ڈاکٹر اپنا وقت تسبیح پڑھنے میں اور انجینئر تقریر جھاڑنے میں ضائع کریں- الغزالی کے مطابق ان کے لیے فرائض و واجبات کے بعد احسان یہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ دار یوں کو بحسن وکمال ادا کریں- یہی خدمت ان کے لیے عبادت کا درجہ رکھتی ہے-اسی طرح اہل ثروت انفاق فی سبیل اللہ کی بجائے نفل پڑھیں اور علما وصلحا تعلیم ودعوت کی بجائے دوسرے امور خیر میں مصرو ف ہوجائیں، یہ احسان کے مطلوبہ اصول کی خلاف ورزی ہے -
الاحسان کی تفصیل کے دوران الغزالی نے کہا ہے کہ عامۃ الناس پر غفلت وعیش کی چادر تنی ہوئی ہے، جس کو ہٹانے اور ان کے اوپر ان کے مقصد تخلیق کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے- وہ اس عمل کے لیے ذکر کو ناگزیر قرار دیتے ہیں -ان کے بقول ’’کثرت ذکر کے بغیر درجۂ احسان کا حصول ممکن ہی نہیں ہے‘‘ (ص:۷۲) 
پھر استغراق فی اللہ اور ذکر کی دوسری صورتوں کو بیان کرتے ہیں- تفصیل و تحقیق کے بعد بطور خلاصہ لکھتے ہیں کہ ’’الاحسان کی حدیث جبرئیل میں جو تشریح کی گئی ہے وہ تشریح صرف اس شخص کا وصف نہیں بیان کررہی ہے جو نماز کے لیے اپنے قدموں کو برابر کررہا ہے اور اپنی زبان کو ذکر میں مشغول کررہاہے، بلکہ یہ ہر اس انسان کے وصف کا بیان ہے جو اللہ کے تمام احکام کو زندگی کے تمام شعبوں میں بجالاتا ہے- الاحسان کا دائرہ بہت وسیع ہے- اس کی حدیں انسانی زندگی میں گہوارے سے قبرتک کے تمام اعمال کو محیط ہیں-‘‘(ص:۷۸)
دوسرے باب دعائم الکمال النفسی میں انسان کے آسمانی رشتے کو اجاگر کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس رشتے کے کمزور ہونے سے انسان کس طرح عام جانوروں کی طرح بنتا چلا جارہا ہے - الغزالی کے بقول مادیت انسان کو پستی کی طرف لیے جارہی ہے - اس ضمن میں انہوں نے تہذیب مادی کے خوب صورت پر وردوں کی مثال اس جانور سے دی ہے جسے سدھاکر مانوس کرلیا جاتاہے اور وہ اپنے مالک کے اشارے پر بعض فرماں بردار یاں کردیا کرتاہے اور اس کا مالک اسے سجا سنوار کررکھتا ہے- الغزالی اہل ایمان کو جادۂ مستقیم پر گام زن رہنے کے لیے جہاد بالنفس کی دعوت دیتے ہیں- فرماتے ہیں’’نفس کی تہذیب وتزکیہ عقل کو صیقل اور روشن کرنے جیسا یا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے-‘‘ (ص:۱۰۴) اس سلسلے میں انہوں نے ایک قیمتی اصول دیا ہے’’ اس جہاد میں کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب ہواے نفس کی مسلسل خلاف ورز ی کی جائے اور صراط مستقیم پر پوری جرأت اور صبر کے ساتھ قائم رہا جائے-‘‘ (۱۰۶)
اس کے بعد انہوں نے اتباع الشہوات کے عنوان کے تحت مادیت پرستوں کے نظریۂ آزادی اور شہوت پرستی کا رد کیا ہے اور اس شہوت پرستی کی تباہ کاریوں کو پیش کیا ہے- پھر ایک عنوان قائم کیاہیمن تجارب المربییناور کتب تصوف سے استفادہ کرتے ہوئے شیخ ابن تیمیہ کے معاصر اور حریف صوفی ابن عطاء اللہ اسکندری کے اقوال کے تحت نفیس بحثیں کی ہیں- ہر قول کو پہلے ایک عنوان دیا ہے اور اس کے بعد پھر اس کی جدید لب ولہجے میں تفہیم وتشریح کی ہے- یہ عنوانات اس طرح ہیں:بے جا مشقت شہرت کی ہوس، اللہ کے حوالے، شیطان کا مکر، اپنے رب پر اعتماد کرو، لوگوں سے ناامیدی ، کاملین کا نقص، اپنے نفس سے ڈرو، اللہ کے سامنے عاجزی، مادیت کے قیدی، عبودیت کی حقیقت، عابدین کی خطائیں ، احسان صرف اللہ کا ہے، اپنی حقیقت سے غافل مت ہو،اپنے مالک کے حقوق کو پہچانو، زندگی ایک شغل ہے اور محاسبۂ نفس -الغزالی نے ان عنوانات کے تحت حضرت ابن عطاء اللہ اسکندری کے اقوال نقل کرکے ان کی بڑی نفیس تشریح وتوضیح اور عصر حاضر میں ان کی بڑی خوب صورت ودل پذیر تطبیق کی ہے- ’’ مادیت کے قیدی (المحبوسون فی سجن المادۃ) کے ذیل میں منکرین خدا اور غافلین خدا کو خالق کے وجود کے اقرار اور احساس کی دعوت دی ہے- اس ضمن میں یہ بات بھی آگئی ہے:
’’بعض فلاسفہ یا بعض متصوفہ کو آپ یہ کہتے پائیں گے کہ وہ ہر چیزمیں خدا کو دیکھتے ہیں-یہ تعبیر درست ہے اگر ان کی مراد یہ ہے کہ وہ خدا کے آثار و شواہد دیکھتے ہیں- لیکن اگر ان کی مراد خالق و مخلوق کا اتحادہو، یا وحدۃ الوجود ہو، جیسا کہ بعض جھوٹے کہتے ہیں تو یہ تعبیر الف سے یا تک باطل ہے اور یہ قول اللہ اور رسولوں کا انکار ہے-‘‘
واضح رہے کہ وحدۃ الوجود کی مطلق حمایت یا مخالفت میرے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی، کیوں کہ ایمان وکفر کے مسائل میں یا احوال باطن کے مسائل میں معانی سے بے پروا الفاظ کو لے کر جنگ کرنا نہ تو دانش مندی ہے اور نہ ہی انصاف، میں نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ جو لوگ وحدۃ الوجود کو درست قرار دیتے ہیں ان کی مراد بھی درست ہوتی ہے اور جو اسے باطل قرار دیتے ہیں ان کی مراد بھی باطل ہوتی ہے - یعنی وحدۃ الوجود کے معنی اگر یہ لیے جائیں کہ وجود بالذات صر ف ایک ہے تو اس کے ایمان ہونے میں اور اگر اس کے معنی خالق و مخلوق کا اتحاد لیاجائے تو اس کے کفر ہونے میں شاید ہی کسی کو شبہ ہو - عموماً لوگ لفظی جنگ کرتے ہیں اور اس کے لیے تمام تراسلحے استعمال کرڈالتے ہیں -
آخری باب شارات الطریق کے ذیل میں توبہ، رغبت الی اللہ ، کن باتوںسے توبہ کریں؟ توبہ کے درجات ، خواص کی توبہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار، ورع، عفت اور قناعت، صبر و شکر، خوف ورجاء ، توکل اور حب کے معانی ومفاہیم کی تعبیر و تشریح ذہن جدید کوسامنے رکھ کر کیاہے- خاتمہ میں اللہ کا شکر اداکیاہے جس کی توفیق سے تمام تر مصروفیات کے باوجود یہ ایک مفید مطلب کام پورا ہوگیا- خاتمہ میں انہوںنے اس احساس کا بھی ذکر کیا ہے کہ بہت سے قارئین مجھ سے سوال کریں گے کہ اسلام کے داخلی پہلو کے حوالے سے غلط فہمیاں اور گم راہیاں کیاہیں؟ لیکن اس کام کے لیے جو محنت اور وقت مطلوب ہے، اس کے فقدان کے سبب الغزالی نے اپنے قارئین سے معذرت کرلی ہے- کاش ان کا قلم اس پہلو کا بھی احاطہ کرلیتا تو یہ بحث اپنی انتہا کو پہنچ جاتی-
 الغزالی نے اپنی تحریر کے بارے میں معاصرین سے جس رد عمل کی توقع کی ہے وہ یہ ہے: 
’’میں اہل سنت کے کچھ لوگوں کو جانتاہوں جویہ کہیں گے کہ مولف صوفی ہوگیا اور بعض متصوفہ یہ کہیں گے کہ یہ راہ سے بھٹک گیا اور میرے لیے بس اتنا کافی ہے کہ میں اپنے رب سے ہدایت کا طالب ہوں اور میں مختلف اوہام وخرافات سے اس دین کو پاک کرنے میں انصاف پر ہوں- وللّٰہ الحمد اولاًوآخراً‘‘
علم وفکر کا یہ ستارہ۱۹۹۶ء میں غروب ہوگیااوراب شہر رسول مدینہ منورہ میں محوخواب ہے-



0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔