Monday 22 January 2018

دعوت و تبلیغ کی راہیں مسدود کیوں؟(۲) [عالمی وامتی تناظرمیں]

0 comments
دعوت و تبلیغ کی راہیں مسدود کیوں؟(۲)
[عالمی وامتی تناظرمیں]
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
--------------------------------------------------------------------
اا؍ستمبر۲۰۰۱ ء کو و رلڈ ٹریڈسینٹر کے دھماکے کے ساتھ ہی تاریخ کے ایک نئے دور کا آغازہوگیا؛ کیوں کہ ماہرین کے مطابق اس کے بعداب تاریخ کی ایک اور تقسیم ممکن ہوگئی:
 ما قبل۱۱؍ ستمبر اور مابعد۱۱؍ ستمبر
 Before9/11&After9/11
تاریخ کی یہ تقسیم درست ہے یا نا درست اس سے قطع نظر ،یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ اکیسویں صدی کی سیاست وحکومت ،ابلاغ وترسیل ،اقتصاد ومعیشت اور مذہبیت ولا مذہبیت سب کی بنیادیں از سرنوہموار ہوئیں یا ہورہی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں اس کثرت سے انقلابات رونما ہوئے اور ہو رہے ہیں جن کا اندازہ بیسویں صدی کا انسان کجا، اکیسویں صدی کا انسان بھی کرنے سے بسا اوقات عاجز نظر آتا ہے ۔ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے زمانے کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہو۔ نتیجہ یہ ہے کہ جن تبدیلیوں کے لیے سالہا سال درکار تھے وہ تبدیلیاں حیرت انگیز قوت اور سرعت کے ساتھ مہینوں ،ہفتوں بلکہ چند دنوں میں ہوکر گزر جارہی ہیں۔ایک عجیب افرا تفری کا ماحول ہے ۔ آج کا انسا ن ابھی ایک سانحے کو بھول نہیں پاتا کہ دوسرا اس سے بڑا سانحہ پیش آجاتا ہے۔میڈیا کی میز پر تازہ بہ تازہ نوع بہ نوع حیرت انگیز خبروں کی قطار ہے۔ورلڈ ٹریڈسینٹر کے انہدام کے ساتھ ہی دہشت گردوں کی تلاش شروع ، افغانستان قبرستان میں تبدیل،عراق میں خون کی ندیاں ، صدام حسین سرِدار ،دنیا بھر میں بم دھماکے، امریکا میں سیاہ فام صدر، پیغمبر اسلام علیہ السلام کا کارٹون ،مصر،تیونس، شام، لیبیامیں انقلابات ،امریکا کا اقصادی نظام خطرے میں ، مغرب میں اسلام کی اشاعت، یورپ میں اسلامی تہذیب وثقافت پر پابندیاں، مسلمان ہونا انسانی جرم ،مسجد اقصیٰ پر یہود کی نگاہ غلط، اخوان المسلمین عدم تشدد کی راہ پر ، تشدد کے لئے مشہور سعودی سلفی حکومت کی بین المذاہب مکالموں میں دلچسپی۔ کتنی خبریں ہیں اور کتنی عجیب وغریب خبریں ہیں ، اکیسویں صدی کی ۔ اس کا پہلا عشرہ گزر گیا اور دنیا کو ایک نئے رخ پر ڈال کر گزرا۔
سقوط بغداد (۱۲۵۸ء )کے بعد تاتار کے صنم خانے سے کعبے کو پاسبان مل گئے اور پھر رفتہ رفتہ ایک مضبوط عثمانی سلطنت قائم ہوگئی ۔ سلاطین عثمانی نے عالم اسلام کے بڑے رقبے پر ایک طویل مدت تک حکومت کی پھر (۱۹۲۲ء )میں سلطنت عثمانیہ کے پتے بھی بکھر گئے جب سے تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزر گیا جس میں مسلمانوں کی عالمی سطح پر سیاسی محکومی ، سیا سی عدم وفاق اور نفسیاتی مہجوری قائم ہے ۔۱۹۹۰سء میں سویت یونین کے زوال کے بعدامریکی صدر جارج بش نے ۲۶؍ جنوری ۱۹۱۱ء کو نئے عالمی نظام (New World Order)کا اعلان کیا جس کی زمام صرف امریکا سنبھال سکتا تھا ۔ماہرین کے مطابق سویت یونین کے زوال کے بعد اب امریکا کا صرف ایک ہی دشمن ہوسکتا تھا اور وہ تھا اسلام۔امریکا جدید تہذیب و ثقافت کی علامت بن کر ابھرا۔۱۹۹۶ ء میں صمویل ہنٹنگٹن کی کتاب تہذیبوں کا تصادم  Clash of Civilization سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ جدید تہذیب کا ٹکراو صرف ایک تہذیب سے ہے اور وہ اسلام ہے۔ ۲۰۰۸ء میں ہالینڈ کے رکن پارلیمنٹ گیرٹ ولڈرزنے منٹ کی ایک مووی بنام فتنہریلیز کی جس میں اس نے اپنے اعتبار سے یہ خطرہ پیش کیاکہ آنے والے پچاس برسوں میں اسلام اور اسلامی تہذیب کا پوری دنیا اور بالخصوص ہالینڈ پر غلبہ عام ہونے والا ہے۔ ان امور پر سوچنے کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ آج کے اس عہد زوال میں بھی دنیااسلام کی طاقت سے خائف ہے۔ اس سے اس شعر کی صداقت سامنے آتی ہے جس میں اسلام کی تمثیل اس پودے سے دی گئی ہے جسے جتنا تراشو وہ اتنا ہی ہرا ہوتا جاتا ہے ۔ یہاں یہ پہلو بھی ہمارے لیے قابل غور ہے کہ اسلام کی جس طاقت سے آ ج دنیا خائف ہے ،اگر وہ طاقت واقعی موجود ہے، تو اس کی بازیافت کی صورت کیا ہے؟ہمارا کام سب سے پہلے اسلا م کی طاقت کا صحیح ادراک کرنااور پھر اسے بروئے عمل لانے کی کوشش کرنا ہے۔اکیسویں صدی کیا اسلام کی صدی ہوگی ؟یہ ایک سوال ہے جس پرخلاف توقع اہل اسلام سے زیادہ اہل کفر غور و خوض کر رہے ہیں۔ یہ سوال اہل اسلام کی توجہات کا بھی طالب ہے ۔ اس سوال کے جواب سے پہلے اس کے کئی پہلووں پر سوچنا ہوگا۔ کیا اکیسویں صدی میں اسلا م کا غلبہ عام ممکن ہے ؟ اس کے امکانات کیا ہیں؟ پھر اس غلبے کی نوعیت کیا ہوگی ؟صرف اسلامی ،روحانی واخلاقی غلبہ ممکن ہے یا تہذیبی وثقافتی غلبہ بھی ممکن ہے ؟کیا اسلام کے سیاسی غلبے کے بھی کچھ امکانات ہیں ؟اور کیا اکیسویں صدی میں خلافت اسلامی کی بازیافت کا بھی کوئی امکانیہ موجود ہے؟یہاں یہ سوالات بھی ہیں کہ اگر اکیسویں صدی میں اسلام کے غلبے کے امکانات موجود ہیں تو ا س کے لیے دعوت کے اسالیب اور تدابیر کیا ہوں ؟اس کا آغاز کہاں سے اور کیسے ہو ؟ اس کے تدریجی مراحل کیا ہوں؟ ان تمام سوالات کے ساتھ نہایت اہم سوال اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ ہمارے سامنے یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں اسلام کے غلبہ عام کے لیے داخلی اور خارجی رکاوٹیں کیا ہیں؟ جب تک ان رکاوٹوں اور مشکلات کا ہم صحیح اندازہ نہیں کر لیتے اور ان سے بچ نکلنے کی تدابیر پر غور نہیں کر لیتے اکیسویں صدی میں اسلام کی اشاعت و غلبے کا ہمارا خواب صرف خواب ہی رہے گا۔
حالات بتاتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں اسلام کے لیے حیرت انگیز امکانات موجود ہیں ۔ سائنس کو اب تک اسلام کا دشمن سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اب یہ دشمن نہیں رہا ، سائنس اسلام کا مصدِّق بن چکا ہے۔ ہماری یہ شکایت تھی کہ عوام بے دین اور اسلام بیزار ہوتے جارہے ہیں ، لیکن اب عوام میں اسلام کے تعلق سے دلچسپی حیرت انگیز حد تک ہے۔ کہا جاتا رہا ہے کہ مغرب سے اپنی نسل کو بچائیے؛کیوں کہ وہاں صرف اباحیت پسندی اور مادر پدر آزادی ہے، لیکن اب مشاہدہ اس خیال کو جھٹلا رہا ہے ؛ کیوں کہ یورپ و امریکا میں بسنے والے مسلمان مشرقی مسلمانوں سے اب کہیں زیادہ اسلامی تہذیب وثقافت اور دین داری کے پیکر نظر آرہے ہیں۔ سمجھا جاتا رہا ہے کہ میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ وترسیل اسلام کے تعلق سے معاندانہ کردار ادا کر رہے ہیں، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال اب اسلامی دعوت وتبلیغ کے لیے بھی بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے ۔یہ بھی مانا جاتا رہا ہے کہ یوروپ و امریکا اسلام کو مٹانے پر تلے ہوئے ہیں ، لیکن آج ان ممالک میں نہایت برق رفتاری سے اسلام کی تبلیغ و ترسیل ہورہی ہے اور اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ قرآن کے نسخے تیزی کے ساتھ فروخت ہو رہے ہیں اور عصر حاضر کا انسان تیزی کے ساتھ اپنی فطرت کی طرف لوٹ رہا ہے ۔ یہ حالات بتا تے ہیں کہ نئے عہد میں اسلام کے امکانات موجود ہیں ۔ اسلام نہایت نا مساعد حالات میں گھٹنے کے بجائے بڑھتا چلاجارہاہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ مشرق تا مغرب ایک نئی آواز گونجی ۔اسلامی تشدد پسندی کی آواز ۔نئی صدی میں اسلام کی جو شبیہ سامنے آئی یہ تشدد اور دہشت گری کی شبیہ تھی ۔اس کے مطابق ظلم، دہشت، جبر، قتل و غارت، عدم روا داری، عدم تہذیب، قدامت پرستی، وطن دشمنی، غداری اوراس قسم کے جتنے بھی منفی اوصاف ہوسکتے ہیں سب کو اسلام کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ اسلام کی نمائندہ تصویر اسامہ بن لادین کی وہ تصویر تھی جس میں اسامہ عمامہ اور ڈاڑھی میں ہے ۔ ساتھ میں چند بندوقیں ہیں اور وہ ایک پہاڑی میں بیٹھا ہوا ہے۔ یعنی داڑھی+عمامہ+ اسلحہ+ عدم تمدن=اسلام۔ اس تصویر کا اثر یہ ہو اکہ پوری دنیا میں داڑھی اور ٹوپی والے مشکوک نگاہوں سے دیکھے جانے لگے۔ تاریخ کا وہ دور بھی ہمارے سامنے تھاجب مسلمان کا ادنیٰ مفہوم ،ایمان دار اور راست باز تھا۔لیکن اکیسویں صدی میں یہ معنی یکسر تبدیل ہوگئے۔ اس تبدیلی کے بارے میں کہا یہ گیا کہ مغرب اسلام دشمنی پر آمادہ ہے اور مغربی میڈیا تسلسل کے ساتھ اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کر نے میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ ایک بات اور بھی کہی گئی کہ یہود ونصاریٰ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کررہے ہیں اور ان کی غلط شبیہ پیش کر کے اور ان کے باہمی اتحاد کو پارہ پارہ کر کے ان کی داخلی قوت کو کمزور اور خارجی صورت کو بدنما بنا دینا چاہتے ہیں۔ اسی لیے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
مذکورہ دونوں جوابات سے کلی طور پراتفاق اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے اندر مسلمانوں کی جو اپنی کوتاہیاں ہیں جن کی وجہ سے مغربی میڈیا کو پروپیگنڈے کا موقع ملتا ہے اور جن کی وجہ سے یہ یہودو نصاریٰ کی سازشوں کا شکار اور ان کے ہاتھوں کی کٹ پتلی بنتے ہیں،ان سے یکسر چشم پوشی کرلی گئی ہے،جب کہ اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے اور مسلمانوں میں تفریق وعداوت پیدا کرنے اور اسے ہوا دینے میں کہیں نہ کہیں غیر شعوری طور پر ہی سہی، مسلمانوں کا اپنا ہاتھ بھی ہے۔ مسلمان اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے اور سارا الزام مغربی میڈیااور یہود و نصاریٰ کے سر ڈال دیتے ہیں جو منصفانہ رویہ نہیں ہے۔ مسلمان جب تک ایمان داری کے ساتھ اپنا احتساب نہیں کرتے اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان سے باز نہیں آتے دوسروں کے سر الزام ڈالتے رہنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جو آپ کا دشمن ہے وہ آپ کے خلاف پروپیگنڈہ تو کرے گا ہی، وہ آپ میں تفریق وانتشار کا خواہاں تو ہوگاہی، اس میں حیرت کیا ہے؟ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آپ اپنے بارے میں صحیح معلومات دنیا کو نہ پہنچائیںاور آپ دشمن کی سازشوں کا شکار ہوں۔ آپ اپنی حکمتوں سے دشمن کی سازشوں کو توڑنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ آپ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے سبق لیتے ہوئے حالات کے اعتبار سے حکیمانہ فیصلے کیوں نہیں کرتے ؟ پیغمبر اسلا م علیہ الصلاۃوالسلام نے مختلف حالات میں مختلف فیصلے لیے ہیںاور پیغمبر کی سیرت کا ہر پہلو ہمارے لیے نمونہ عمل اور مشعل ہدایت ہے۔لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ۔(الاحزاب: 21)کا تقاضابھی یہی ہے۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ اسلام کی شبیہ کو مسخ کرنے اور مسلمانوں کے درمیان تفریق وانتشار پیدا کرنے کے ذمہ دار یقینی طور پر مسلمان بھی ہیں۔ بظاہر یہ بات عجیب سی ہے لیکن آنے والی سطور میں یہ حقیقت منکشف ہوجائے گی ۔ اس ضمن میں مسلمانوں کی کوتاہیوں کو ہم ذیل کے خانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
(۱)دین قتال کی حیثیت سے اسلام کا تعارف(۲)اختلاف امت کی برکتوں سے بے خبری(۳)نفاق عملی(۴)جدید ذرائع ابلاغ سے وحشت (۵)عالم گیریت کے عہد میں علاقائیت(۶)علما میں دعوتی اسپرٹ کا فقدان(۷)جدید علم الکلام سے گریز(۸)غیر عصری دینی تعلیم (۹)دین میں تشدد (۱۰)مبتلاے بو بکرو علی کی حماقت مآبی (۱۱)سلفیت اور صوفیت کی جنگ میں بے اعتدالی(۱۲)تصوف کی یرغمالی (۱۳)اہل سنت وجماعت کی تشریح میں ابہام (۱۴)قصہ قدیم و جدید (۱۵)جمہوریت سے نا آشنائی (۱۶)ملی اختلاف (۱۷)مسلم حکومتوں کی کس مپرسی (۱۸)مسلم ممالک کے وفاق کا فقدان (۱۹)دعوت سے پہلے حکومت۔ 
(۱) دین قتال کی حیثیت سے اسلام کا تعارف:- 
اسلام ایک پر امن مذہب ہے، جو نہ صرف مسلمانوں تک امن و سکون پہنچاتا ہے بلکہ پوری انسانیت تک سایہ امن دراز کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ (بخاری،کتاب الایمان،باب: المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ)مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے سارے مسلمان محفوظ رہیں۔ایک دوسری روایت میں ہے: المسلم من سلم الناس من لسانہ ویدہ  (مسند احمد بن حنبل،مسند عبد اللہ بن عمرو )مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے سارے انسان سلامت رہیں۔گویا مسلمان کا کام سلامتی پہنچانا ہے، تمام مسلمانوں تک اور پھر اس سے آگے بڑھ کرپوری انسانیت تک۔
اسلام کے اندر جہاد بھی ہے۔ جہاد اچھائی کے لیے کی جانے والی ہر اچھی کوشش اور جد و جہد کا نام ہے۔ جہا د کا ایک حصہ قتال بھی ، جس میں جنگ و جدال ہوتا ہے اور جس میں شمشیر وسنان اٹھانے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن جنگ استثنائی اور عارضی واقعہ ہے۔ اسلام نے اپنے دفاع اورا پنے جان و مال کے تحفظ اور باغی قوتوں کی سرکوبی(Operation) کے لیے اسے جائز قرار دیا ہے لیکن عام حالات میں اسلام کی ترجیح صلح و امن ہے جنگ و قتال نہیں ۔
گزشتہ دو تین سوسالوں سے جب سے مسلمانوں کی سطوت کمزور پڑی ہے اور یورپ طاقت و قوت ، علم و فن اور صنعت و تجارت کا سر چشمہ بن کر ابھرا ہے، مسلمان نفسیاتی طور پر احساس کمتری کا شکار ہوگئے ہیں۔ نشا ۃ ثانیہ کے بعد یورپ کی طاقت در اصل افرادی کثرت کی طاقت نہیں تھی۔ یہ طاقت تھی علم کی، فن کی، تجارت کی اور جمہوریت کی ۔ مسلمانوں نے رد عمل میں ان قوتوں کواپنانے کی کوشش نہیں کی۔ جدید فنون لطیفہ جب نئی تہذیب کی تشکیل کر رہے تھے مسلمان اس کے مقابلے میں صرف جائز و ناجائز کی تحقیق کر رہے تھے۔ مغرب عالمی تجارت پر قبضہ کر رہا تھااور مشرقی سلطنت و حکومت ان تاجروں کی وظیفہ خواری کر رہی تھی۔ یورپ میں جمہوریت کے ذریعے عوامی جذبات کو حکومت کے ساتھ جوڑا جا رہا تھا جب کہ مشرقی دماغ بادشاہت کے تحفظ کے لیے کوشاں تھا ۔ حد تو یہ ہے کہ زوال کے اس موڑ پر آنے کے بعد آج بھی مسلمان علم کے میدان میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں کرسکے۔ نو آبادیاتی دور کے ختم ہوئے پچاس سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا لیکن اب بھی مشرق علمی میدانوں میں مغرب کا دست نگر ہے۔ تیل کا ذخیرہ عرب میں ہے لیکن انہیں اپنے تیل کو نکالنے اور بیچنے کے معاملے میں بھی یورپ کی محتاجی ہے۔بطور خاص مسلم دنیا آج بھی جدید ٹکنالوجی کے معاملے میں اہل مغرب پر انحصار کرتی ہے ۔ جدید تجارت و اقتصاد اور جدید نظام بینک کاری میں مسلمانوں کا رول تقریباً  صفر ہے۔ مسلم ذہن و دماغ جمہوریت کے لیے اب بھی تیار نہیں۔جمہوریت کو شرک کرار دینے والے بھی موجود ہیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ وہ بعض مسلم بادشاہتوں کے حامی ہیں جب کہ بادشاہت بھی اصل اسلامی روح کے سراسر خلاف ہے۔
بات یہ چل رہی تھی کہ جب سے عالمی تناظر میں مسلمانوں کی سطوت کم زور پڑی ہے اور یورپ طاقت و قوت، علم و فن اور صنعت و تجارت کا سر چشمہ بن کر سامنے آیا ہے مسلمان نفسیاتی طور پر احساس کمتری کا شکار ہوگئے ہیں۔اس کے رد عمل میں مسلمانوں نے وہ کام نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھا۔ دوسرے لفظوں میں مسلمانوں نے اسلام کے اصول حکمت کو نہیں اپنایاجس کے مطابق صحیح جہاد کیا جاسکتاہے۔ اس کے بر خلاف مسلمانوں نے یہ کیاکہ خود کو جہادی اور جنگ جو اوراسلام کو دین جنگ وقتال کے طور پرپیش کیا ۔ مسلمانوں نے سیف و سنان کو اپنی علامت قرار دیا ۔ محمد ابن عبد الوہاب(۱۷۹۲ء )سید احمد رائے بریلوی (۱۸۳۱ء )حسن البناء (۱۹۴۹ء )اور مولانا مودود ی (۱۹۷۹ء )کی تحریکات ابھر کر سامنے آئیں۔ اٹھارویں،انیسویں اور بیسویں صدی کی ان تمام نمایاں تحریکات میں ایک چیز قدرے مشترک تھی اور وہ تھی اسلام کو جنگ جو اور شدت پسند بنا کر پیش کرنا۔ ان تحریکات نے سیف و سنان اور شدت پسند ی پر اتنا زور دیا کہ وہابی تحریک کے زیر اثر بے تحاشا مسلمانوں کا بھی قتل عام ہوا۔سید احمد رائے بریلوی کی تحریک کایہ عالم ہے کہ جن مسلمانوں نے سید صاحب کی امامت قبول نہیں کی سید صاحب نے انہیں منافقین کا لقب دیا اور ان کے مرید شاہ اسماعیل دہلوی نے انہیں واجب القتل اور مباح الدم قرار دیا۔ مولانا مودودی اور اخوان المسلمین کی تحریکات نے بھی مسلمانوں میں بے تحاشا شدت پسندی کے عناصر بھر دیے ۔ اکیسویں صدی میں طالبان کی شکل میںجو شدت پسندی ہمارے سامنے آئی اور جس کی حماقت مآبیوں کو بہانہ بنا کر امریکا نے افغانستان کو قبرستان میں تبدیل کردیا،وہ در اصل انہیں مذکورہ بالا تحریکات کی آخری شکل تھی۔
مذکورہ شدت پسندی کا نتیجہ صرف وہ نہیںہواجو ۲۰۰۱ء کے بعد افغانستان میں نظر آیا اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ عالمی منظر نامے پر اسلام دین ِ رحمت ورافت کی بجائے دین ِ جنگ وقتال بن کر سامنے آیا۔ ایسے دور میں جب کہ جدید ذرائع ابلاغ کے توسط سے اسلام کی زبر دست اشاعت ہونی تھی، دین حق کی منفی پیش کش اس کی دعوت و تبلیغ کی راہ میں سخت رکاوٹ بن کر سامنے آئی ۔یہ تو اسلام کی خوبی ہے کہ اس ماحول میں منفی طور پر اسلام کے مطالعے کا رجحان بڑھا جو نتیجے کے اعتبار سے مثبت ثابت ہوا۔ اسی طرح عالمی سطح پر کچھ ایسے مبلغین ابھر کر سامنے آئے جنہوں نے اسلام کو دین امن وراحت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش جاری رہنی چاہیے۔ اس سے بہت ہی مفید اور نتیجہ خیز نتائج سامنے آنے کی توقع ہے۔ 
(۲) اختلاف امت کی برکتوں سے بے خبری:-
 زندوں میں اختلاف نا گزیر ہے ، اختلا ف صرف مُردوں میں نہیں ہوتا ۔عصر اول سے ہی اسلام کے ماننے والوں میں مختلف مسائل میں اختلا فات ر ہے ہیں۔دین کے جو اصولی امور ہیں وہ  بحمداللہ متفق علیہ ہیں اور فروعی امور میں تعبیر و تشریح اور تفصیل میں کثرت سے اختلافات ہوئے ہیں، خصوصاً اسلام میں فقہی اختلاف اس کی واضح مثال ہے ۔ یہ اختلافات نا گزیر بھی ہیں اورباعث یسر ورحمت بھی ۔ پروفیسر اختر الواسع صدر شعبہ اسلامیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی، اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فقہی مسالک اسلام کے جمہوری کردار کے مظہرکے زیر عنوان لکھتے ہیں :
اسلامی شریعت کی تشکیل اس طرح ہوئی ہے کہ اس میں بنیادی مسائل اور احکامات صاف و صریح بیان ہوئے ہیں ۔ اسی لیے اسلام کے عقائد، ایمانیات اور بنیاد ی تصورات میں کبھی فرق نہیں پیدا ہوالیکن زندگی کے فروعی معاملاتــــــ کی نوعیت ایسی نہیں رکھی گئی ۔ خود عہد نبوی میں جزوی مسائل کے اندر اسلامی قانون کی متعدد تشریحات کی جاتی ر ہیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ ان سارے ائمہ و مجتہد ین نے صرف قرآن اور حدیث کوہی بنیاد بنایا ہے۔ یعنی ان کے بنیادی مصادر ایک ہی رہے ہیں ۔ پھر ان سب کے پیش نظر یہ بات رہی ہے کہ روز مرہ مسائل میں عوام الناس کے لیے شرعی احکام ومسائل کا مجموعہ فراہم کردیںجن پر وہ آسانی سے عمل کرسکیں ۔ (روزنامہ انقلاب ،دہلی۲۸؍ جون۲۰۱۲ء)
دراصل اختلاف فطرت کا نا گزیر حصہ ہے۔ اس حصے کو اسلام نے بھی ایک خاص دائرے میں برقرار رکھا ہے۔ دراصل دین کے کچھ اصول ہیں اور کچھ فروع ۔ اصول ہمیشہ مسلمات رہے ہیں ۔ رہے فرو ع تو ان کا ایک بڑا حصہ بھی مسلمات میں سے ہے۔ ان میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔فروعات کا ایک حصہ وہ ہے جن میں مختلف اہل علم کا اختلاف رہا ہے۔ یہ اختلافات علمی بنیا دوں پر رہے ہیں اور عہد صحابہ سے رہے ہیں۔ بلکہ بعض اختلافات کا سرا تو خود عہد نبوی سے ملتا ہے۔ مثال کے طور پر نماز میںہاتھ کہاں باندھا جائے، احادیث سے اس کی کئی صورتیں ثابت ہیں ۔ اب ان مختلف صورتوں میں راجح اور افضل کون سی صورت ہے ،اس کے اثبات میں علما کی اپنی الگ الگ آرا ہیں۔
 عارف ربانی امام عبدا لوہاب شعرانی کی کتاب المیزان الکبریٰ الشعرانیۃ کے مطابق شریعت میں جتنے مختلف احکامات ہیں ان میں غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ شریعت میں اکثر امور میں کچھ احکام سخت ہیں اور کچھ نرم۔ سخت احکام ان لوگوں کے لیے ہیں جو جسمانی اور ارادی لحاظ سے مضبوط ہیں ،اور نرم احکام ان کے لیے ہیںجو جسمانی اور ارادی لحاظ سے کمزور ہیں ۔ تفصیل کے لیے دیکھئے راقم کا مضمون مسئلہ اجتہاد و تقلید امام شعرانی کی نظر میں مطبوعہ مجلہ الاحسان الہ آباد جلد :۴۔
عصر حاضر کے معروف عالم سیرت ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم نے ان فقہی اختلافات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ در اصل اللہ کو یہ منظور تھا کہ اس کے پیغمبر کی ہر اداامت میں محفوظ ہو جائے اور یہ منشا مختلف فقہی اسکولوں کے فقہی اختلافات سے پوراہوا۔
فقہی اختلافات کی ایک حکمت اس زاویے سے سمجھئے کہ سمندری علاقوں کے گردو نواح میں مقیم لوگوں کی غذائیت کا واحد منبع سمندر اور سمندری جانور ہوا کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑا آسان ہوتا ہے کہ وہ فقہ شافعی پر عمل کرتے ہوئے مچھلی کے ساتھ دیگر سمندری جانوروں کو بھی اپنی غذائیت کے لیے استعمال کریں۔ اگر صرف حنفی مذہب ہوتاتو ایسے لوگوں کے لیے دشواریاں اور تکلفات در پیش ہوجاتیں ۔
اہل علم نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ فقہی اختلافات کی اساس توسع ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ اختلافات بندوں کے اختلاف طبائع اور اختلاف ممالک و اقالیم کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ میں بھی فقہی اختلافات ہوئے ، تابعین اور تبع تابعین میں بھی ہوئے ، لیکن جب اختلاف کرنے والے مخلصین تھے تو ان کا اختلاف مخالفت، خلاف اور جدال نہیں بنا۔ اس کے برخلاف عصر حاضر میں فقہی اختلافات ایمان و کفر اور مرنے مارنے کی بنیاد یں بن چکے ہیں ۔ فقہی اختلافات میںاب تحقیق اور توسع کی بجائے تکفیر اور اصرار کا رویہ روا رکھا جارہاہے۔ اس رویے نیمسلمانوں کے اندر غیروں کی تبلیغ و ہدایت کی جگہ، اپنوں کی تردید وتکفیر کا رجحان برپا کردیا۔ اکیسویں صدی میں اسلامی دعو ت کے ہمہ گیر فروغ کی راہ میں یہ رویہ ایک زبر دست رکاوٹ ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
(۳) نفاق عملی:-
ماضی میں مسلمان راست بازی کی علامت تھے جب کہ آج دغابازی کا استعارہ بن چکیہیں ۔ اس کی وجہ سے اسلامی دعوت بے پناہ متاثر ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جارج بر ناڈشا کو یہ تلخ تبصرہ کرنا پڑا:
I love Islam but I hate Muslims, because they don't follow it properly.
میں اسلام سے محبت کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود مجھے مسلمانوں سے نفرت ہے؛ کیوں کہ وہ صحیح طور سے اسلام کی پیروی نہیں کرتے۔ 
مسلمانوں کو پسند یا نا پسندکرنے کی بات کوئی سادہ بات نہیں ہے۔اشاعت اسلام پر براہ راست اس کا گہرا اثر پڑتا ہے ۔ کسی نظریے کی صداقت کبھی بھی اتنا متاثر نہیں کرتی جتنا کہ کردار کی صداقت متاثر کرتی ہے۔ اسلام کی اشاعت تمام تر کردار کی صداقت کی دین ہے۔ اگر آج بھی مسلمانوں کے پاس کردار کی صداقت ہوتی تو جارج برناڈشا جیسے لوگ اسلام کی مدح میں اس قسم کے تبصرے نہیں کرتے، وہ براہ راست اسلام کا ایک حصہ بن جاتے۔ یہ بات افسوس کی ہے کہ مشرقی مسلمانوں کے پاس راست بازی، وعدہ وفا، اور امانت داری کا وہ حصہ بھی نہیںجو آج مغربی عوام کے پاس ہے۔ ایسے میں مغرب میں اشاعت ِاسلام کے خواب کا منطقی جواز کیا ہے ؟ جس مغرب کو مسلمان ہر تحریر و تقریر میں اخلاقی باختگی کا طعنہ دیتے ہوئے نہیں تھکتے اس سے انہیںراست بازی، وعدہ وفا اور امانت داری کیا سباق لینا چاہیے؛ کیوں کہ ان اوصاف میں جو شخص بھی کچا ہوگا وہ حقیقت کے اعتبار سے مومن نہیں منافق ہوگا اور منافق سے اشاعت دین کی توقع محض عبث ہے۔ پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ جس میں یہ تین اوصاف ہوں وہ منافق ہے ۔ (۱)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲)جب وعدہ کرے تووعدہ خلافی کرجائے (۳)اور جب امین بنا یا جائے تو امانت میں خیانت کرجائے ۔(بخاری، کتاب الایمان،باب علامۃ المنافق)
ظاہر ہے کہ منافقین سے ہمیشہ دین کا نقصان ہوا ہے۔ وہ اس لائق نہیں کہ اکیسویں صدی میں ان سے اسلام کی بالا دستی کی توقعات رکھی جائیں۔خصوصاً اس صورت حال میں جب کہ ان کے مدعو عام اخلاقیات میں ان سے بہتر ہوں۔
(۴) جدید ذرائع ابلاغ سے وحشت:-
بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ٹیلی ویزن کی ایجاد عمل میں آئی۔ ایک چھوٹے سے ڈبے سے نکلتی ہوئی آواز اور اس پر چلتی ہوئی تصویروں نے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ۔ بیسویں صدی کے آٹھویں عشرے میں انٹرنیٹ کا ظہور ہوا ۔اس ظہور نے اس کائنات کو ایک چھوٹے سے گاوں میں تبدیل کر دیا ۔ دوسرے عشرے میں جدید میڈیا کی جو اساس پڑی تھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آٹھویں عشرے کے آتے آتے وہ بنیاد ایک نہایت بلند و بالا اور خوش نما عمارت میں تبدیل ہوگئی ۔ اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ جدید میڈیااپنے عروج کی انتہاClimaxپر پہنچ گیا ۔ اس کے ذریعے ایک جگہ بیٹھے بیٹھے صرف پوری دنیا کا نظارہ ہی نہیں ہونے لگا بلکہ ایک جگہ پر بیٹھ کر پوری دنیا پر حکومت بھی کی جانے لگی ۔ جن لوگوں نے اس میڈیا پر حکومت کی انہوں نے بالواسطہ طور پر دوسری قوموں ، ملکوں ، مذاہب اور ثقافتوں پر حکومت کی اور جن لوگوں کی گرفت میڈیا پر نہیں تھی انہوں نے اسے اپنے خلاف ایک سازش قرار دیا ۔ 
سب کو پتہ ہے کہ Media ،Medium,کی جمع ہے ۔ اور Mediumکے معنی ذریعہ ابلاغ اور واسطہ ترسیل کے ہیں ۔ ذریعہ ابلاغ کو دشمن کہنا انتہائی حد تک سادگی بلکہ حماقت پر مبنی ہے ۔ ٹیلی ویزن اور انٹرنیٹ کیا ہیں ؟ یہ اعلیٰ ترین ذرائع ابلاغ ہیں ۔ اور ذرائع اپنے آپ میں کسی کے دوست یا دشمن نہیں ہوتے ۔ ا ن کے اندر دوستی اور دشمنی کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔ 
اس بات کو ایک مثال کے ذریعے یوں سمجھا جا سکتاہے کہ اگر کوئی چوراہے پر کھڑا ہو کر یہ کہے کہ تلوار مسلمانوں کی دوست اور مسیحیوں کی دشمن ہے اور ایٹم بم مسیحیوں کا دوست اور مسلمانوں کا دشمن ہے تو ایسے شخص کے بارے میں ہر شخص کی رائے یہ ہوگی کہ اسے فورا آگرہ یا رانچی بھیج دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ایسی بات نہ صرف حماقت بلکہ پاگل پن ہے ۔ بلا تمثیل جدید ذرائع ابلاغ کو اسلام یا مسلمانوں کا دشمن یا ان کے خلاف کوئی سازش قرار دینا انتہا ئی حد تک حماقت ہے جس کا ارتکاب بطورخاص ۹/۱۱ کے بعد مسلم اہل قلم تسلسل سے کر رہے ہیں ۔ بھلا میڈیا میں یہ صلاحیت کہاں کہ وہ کسی کا دوست یا دشمن بنے ۔ اس کاکام تو صر ف یہ ہے کہ جو شخص اس کا استعمال کرتا ہے اس کی باتوں کو بڑی سطح پرقابل سماعت اور اثر انگیز بنادیتا ہے ۔ 
خدا نخواستہ میری بات کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ تقریبا گزشتہ ایک صدی سے ٹیلی ویزن کے ذریعے اور نصف صدی سے انٹرنیٹ کے ذریعے جو فکر و تہذیب نشرکی جا رہی ہے وہ اسلام مخالف نہیں ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے نہایت شدت اور منصوبہ بندی سے تسلسل کے ساتھ اسلامی فکر اور علم و تہذیب کے خلاف پروپیگنڈہ اور ماحول سازی کا کام ہورہا ہے ۔ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ اس میں کوئی قصور میڈیا کا نہیں ہے ۔بھلا ایک جامد اور بے حس شے کو قصور وار ٹھہرا ئیں بھی کیوں ؟ مجرم تو صرف وہ لوگ ہیں جنہیں اسلامی فکر سے اختلاف ہے اور قصور تو صرف ان کا ہے جو اسلامی تہذیب کو فنا کر دینے کے درپے ہیں ۔ ان کا یہ عمل اسلامی فکر و تہذیب کے یوم قیام سے ہی جاری ہے ، بلکہ چراغ مصطفوی سے شرارہ بولہبی کی ستیزہ کاری ازل سے تا امروز قائم ہے ۔ جدید ذرائع ابلاغ کے آنے کے بعد فرق صرف یہ پڑا کہ دشمنان اسلام نے اپنے مشن کے لییان کا نہایت چابک دستی سے استعمال کیا جب کہ چراغ مصطفوی کے حاملین جدید ذرائع ابلاغ کے جواز اور عدم جواز کو لے کر باہم الجھے رہے ۔ انہیں ہوش اس وقت آیا جب سیلاب بہا لے جا چکا تھا اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ذرائع ابلاغ اسی طرح شعلہ باری کر رہے تھے جیسے کسی توپ نے کسی قلعے کے خلاف اپنا دہانہ کھول دیا ہو ۔ ایسے وقت میں بھی مسلمانوں کا ایک طبقہ ان ذرائع کے مثبت استعمال کی فکر کے بجائے یہ شکوہ کر رہاہے کہ میڈیا اسلام کا دشمن ہے ۔ 
امام اعظم ابو حنیفہ اور دوسرے ائمۂ متقدمین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہزاروں ایسے مسائل حل کر دیے جو ان کے زمانے میں پیدا تک نہ ہوئے تھے اور وہ بعد میں پیدا ہوئے ۔ اس کے برعکس موجودہ فقہا کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ ان مسائل کو حل کرنے میں بھی بہت دیر کر دیتے ہیں جو ان کے گھر پر دستک ہی نہیں دے رہے ہوتے،گھر میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں ۔ جدید ذرائع ابلاغ کے بارے میںپچھلے پچاس سالوں سے عام طور پر جو علما کا رویہ رہا ہے اسے بطور مثال پیش کیا جا سکتاہے ۔ ٹیلی ویزن اور انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد پورے عالم اسلام میں تصویر اور عکس کی بحث چھڑ گئی جس پر متقدمین گفتگو کر چکے تھے ۔ اس وقت تصویر کی تحقیق کی بجائے ایک دوسرا موضوع مسلم فقہا اور اہل دانش کی توجہات کا طالب تھا جس کی طرف انہوں نے بالکل التفات نہیں فرمایا ۔ وہ موضوع در اصل یہ طے کرنا تھا کہ آنے والے پچاس سالوں کے بعد کیا انسانی زندگی ٹیلی ویزن اور انٹرنیٹ کے بغیر ممکن ہوگی؟ اگر اس موضوع پر اس وقت غور و خوض کیا گیا ہوتا تو آج اہل اسلام میڈیا کے استعمال میں اتنے پیچھے نہیں ہوتے اور نہ اس طرح کی بے عقلی کی باتیں سامنے آتیں کہ میڈیا اسلام کا مخالف ہے ۔ گزشتہ پچاس سالوں سے جدید ذرائع ابلاغ نے ابلاغ و ترسیل کی نئی دنیا قائم کی ہے اور خصوصا انٹرنیٹ نے گزشتہ پچیس سالوں میں اس میں ایسا رنگ بھر دیا ہے کہ کوئی چاہ کر بھی اس نئی رنگین اور(Digitalized) دنیا سے الگ نہیں رہ سکتا ۔ مگرافسوس کہ آج بھی بہت سے علما کو میڈیا سے وحشت ہوتی ہے ۔ اس کی وجہ سے اسلامی دعوت کو جو نقصانات ہو چکے ہیں اور ہورہے ہیں،وہ ناقابل تلافی ہیں ۔ اسلامی تہذیب کے خلاف جو ماحول بن چکا ہے اس سے آزادی بڑی مشکل ہو گئی ہے۔ کاش آج بھی مسلمانوں کی یہ وحشت دور ہو جاتی ، اب بھی ذرائع ابلاغ کے بارے میںوہ سنجیدہ ہو جاتے اور جزئیات پر غور کرنے کے ساتھ حالات فہمی ، مستقبل بینی، تعمیر فکر و دانش اور ترویج تہذیب و ثقافت کے اصولوں پر غور کرتے !وقت اب بھی باقی ہے !!
(۵) عالم گیریت کے عہد میں علاقائیت:- 
بخاری و مسلم اور دیگر کتب صحاح میں ایک معروف روایت ہے جسے حدیث جبریل کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہاں صحیح مسلم کے حوالے سے اسے نقل کرتا ہوں ۔ 
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ہمارے سامنے ایک شخص آیا، اس کے کپڑے بہت ہی سفید ، اور اس کے بال بہت ہی کالے تھے ۔ اس پر سفر کے آثار بھی ظاہر نہیں تھے اور نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا ۔ وہ آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح بیٹھ گیا کہ اس کے دونوں گھٹنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں گھٹنوں سے مل گئے اور اس نے اپنی ہتھیلیاںاپنی رانوں پر رکھ لیں ۔ 
عر ض کی : اے محمد ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ۔ 
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
اسلام یہ ہے کہ ۱۔ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۲۔ نماز قائم کرو۳۔ زکوٰۃ دو ۳۔رمضان کے روزے رکھو ۵۔ اور استطاعت ہو تو خانہ کعبہ کا حج کرو ۔
اس شخص نے کہا: آپ نے سچ کہا ۔
حضرت عمر کہتے ہیں کہ ہمیں تعجب ہوا کہ یہ شخص خود سوال کر رہا ہے اورپھر خودہی تصدیق کر رہا ہے ۔ 
اس شخص نے مزید پوچھا: آپ مجھے ایمان کے بارے میں بتایئے !
پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا : 
ایمان یہ ہے کہ۱۔ تم اللہ پر ایمان لے آو۲ ۔ اس کے فرشتوں پر۳ ۔ اس کی کتابوں پر۴ ۔ اس کے رسولوں پر۵ ۔ روز آخرت پر ۶۔ اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لے آؤ۔
 اس شخص نے کہا کہ آپ نے سچ فرمایا ۔ پھر اس نے کہا کہ آپ مجھے احسان کے بارے میںبتائیں !آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ، اور اگر تم نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں یقیناًدیکھ رہا ہے ۔ 
اس شخص نے کہا : آپ مجھے قیامت کے بارے میں بتایئے !
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
قیامت کی نشانی یہ ہے کہ ۱۔ باندی اپنی مالکن کو جنے گی۔ ۲۔ اور تم ننگے پاوں ، ننگے بدن، مفلس لوگوں کو سردار بنا دیکھوگے، جو مضبوط اور مستحکم عمارتوں میں اکڑتے نظر آئیں گے۔ 
حضرت عمر کہتے ہیںکہ پھر وہ شخص چلا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر خاموش رہے پھر مجھ سے فرمایا : اے عمر ! تمہیں پتا ہے کہ یہ سائل کون تھا ؟
میں نے عرض کی : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ جبرئیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے ۔
حدیث جبرئیل سے استفادہ کرتے ہوئے علمائے اسلام نے بتایا ہے کہ اسلام کے ارکان پانچ اور ایمان کے ارکان چھ ہیں جب کہ احسان مشاہدے یا مراقبے کی کیفیت کانام ہے ۔ علما نے یہ واضح کیا ہے کہ ان تینوں میں سب سے پہلے ایمان ضروری ہے، پھر اسلام اور پھر احسان ۔ اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہیکہ اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ اس حدیث میں بیان کر دیاگیا ہے ۔ اس سے بطور اشارہ یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام کی دعوت کے تین مرحلے ہیں :
۱۔ مرحلہ ایمان 
۲۔ مرحلہ اسلام 
۳۔ مرحلہ احسان 
پہلے مرحلے میں اسلامی مبلغین کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو ایمان کی دعوت دیں ۔ ایمان کی دعوت کا مفہوم یہ ہے کہ ہر ممکن اور حکیمانہ طریقے سے اللہ کے برگشتہ بندوں کو اس بات کی دعوت دیں کہ وہ اللہ پر اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر ، آخرت پر اور قضاو قدر پر ایمان لے آئیں ۔ اس سے ایمان کی دعوت اساسی لحاظ سے مکمل ہو جاتی ہے ۔ 
دوسرے مرحلے میں لوگوں کو کلمۂ اسلام لا الٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ کی گوہی دینے کو کہا جائے ،نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور حج کا قائل و عامل بنایا جائے ۔ لوگ اگر اس حد تک بھی آ جائیں تو گویا اسلام کی دعوت کا مرحلہ مکمل ہوگیا ۔ 
تیسرے اور آخری مرحلے کی دونوں منزلوں میں سے اگر کسی کو کوئی ایک منزل بھی مل جائے تو گویا زندگی کی معراج حاصل ہو گئی۔ کم از کم مجموعی طور پر اخلاص کی طرف دعوت دی جائے ۔ لیکن جہاں تک ایمان و اسلام کی بات ہے توحدیث جبرئیل کی حد تک بھی مدعو اقوام دعوت قبول کر لی تو یہ بہت بڑی کامیابی سمجھی جائے ۔ یہاں ایک مسئلہ آتا ہے وہ یہ کہ 
۱۔ ایمان و اسلام کے ارکان کی تشریحات میں بعض امور وہ ہیں جو متفق علیہ اور بعض امور وہ ہیں جو مختلف فیہ ہیں ۔ 
۲۔ ایمان کے باب میں بعض فروعی عقائد بھی ہیں ۔ ان میں بھی متفق علیہ اور مختلف فیہ دونوں صورتیں موجود ہیں ۔ 
۳۔ اعمال کے باب میں بعض احکام اسلامی اصولی ہیں اور بعض ثانوی، ثانوی مسائل میں بھی متفق علیہ اور مختلف فیہ دونوں صورتیں ہیں ۔ 
۴۔ مختلف ملکوں اور علاقوں میں اہل حق کے مختلف اعمال و اشغال ،شناخت اور طرز زندگی و بندگی ہیں ۔ 
۵۔ بہت سے مسائل و معاملات میں خودصوفیہ کو صوفیہ اور فقہا سے اختلافات ہیں ۔ اسی طرح محدثین کے بھی باہمی اختلافات ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ان مسائل کو ایک داعی کس طرح برتے ؟ اس کا اجمالی جواب یہ ہے کہ متفق علیہ امور کی دعوت دے اور مختلف فیہ امور کو چھوڑ دے ۔ اس جواب کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ دعوت اسلام کو کئی مراحل ومنازل میں تقسیم کیا جائے ۔ اس حوالے سے دعوت کے تین مراحل جو اوپر مذکور ہوئے ان میں سے ہر ایک کی تین تین منازل کی جائیں ۔ 
مثلا مرحلہ ایمان کی تین منازل ہوں :
۱۔ منزل کتاب و سنت ۔ اس منزل میں صرف ان عقائد کی تبلیغ کی جائے جو نہایت صراحت کے ساتھ کتاب و سنت میں مذکور ہیں اور جن کی تبلیغ وترسیل پر کتاب و سنت کا ارتکاز ہے ۔ اس کی مثال حدیث جبرئیل کاحصہ ایمان ہے ۔ 
۲۔ منزل عقائداہل سنت ۔ اس منزل میں پہلی منزل میں جن امور کی تبلیغ کی گئی ہے ان کی تشریحات و تفصیلات علمائے اہل سنت کی متفق علیہ آرا کی روشنی میں کی جائے ۔
۳۔ منزل عقائد فروعی ۔ اس منزل میں ان عقائد کی تبلیغ و ترسیل کی جائے جو خود علمائے اہل سنت کے نزدیک مختلف فیہ ہیں ۔ ان مختلف فیہ عقائد میں داعی کے نزدیک جو راجح عقائد ہوں اس مرحلے میں و ہ ان کی تبلیغ کر سکتا ہے ۔ 
اسی طرح مرحلۂ اسلام کی تین منازل ہوں: 
۱۔ منزل کتاب و سنت ۔ اس منزل میں ان احکام اسلامی کی تبلیغ کی جائے جو بصراحت و وضاحت کتاب و سنت میں مذکور ہیں اورجن پر کتاب و سنت کا ارتکاز اور اصرار ہے ۔اس کی مثال حدیث جبرئیل کاحصہ اسلام ہے ۔  
۲۔ منزل احکام متفقہ ۔ اس منزل میں ان احکام کی تبلیغ کی جائے جو اہل سنت کے نزدیک مسلم اور متفق علیہ ہیں۔ 
۳۔ منزل احکام مختلفہ ۔ اس منزل میں ان احکام کی تبلیغ کی جائے جو خود اہل سنت میں مختلف فیہ ہوں ۔ داعی اس منزل میں اپنی تحقیق کے مطابق ان میں راجح احکام کی تبلیغ کر سکتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں اس مرحلے میں داعی اپنے فقہی مسلک اور تحقیق کی اشاعت کرے۔
 اسی طرح مرحلۂ احسان کو بھی تین منازل میں تقسیم کر دیا جائے۔ 
۱۔ منزل کتاب و سنت ۔ اس منزل میں احسان و سلوک کے ان امور کی تبلیغ کی جائے جو کتاب و سنت میںبصراحت مذکور ہیں اور جن کی تبلیغ و ترسیل پر کتاب و سنت کا زور ہے ۔ 
۲۔ منزل اتفاق ۔ اس منزل میں احسان و سلوک کے ان امور کی تبلیغ کی جائے جو صوفیہ کے نزدیک متفق علیہ ہیں ۔ 
۳۔ منزل اختلاف ۔ اس منزل میں احسان و سلوک کے ان امور کی تبلیغ کی جائے جو صوفیہ میں مختلف ہیں ۔ اس مرحلے میں داعی احسان و سلوک کے ان مختلف فیہ امورکی تبلیغ کر سکتا ہیجو اس کے نزدیک راجح ہیں ۔ دوسرے لفظوں میںاس مرحلے میں داعی اپنا مشرب طریقت پیش کرسکتا ہے۔
داعی اگر ان تین مراحل اور نو منازل کا خیال رکھے تو دو نتیجے سامنے آئیں گے: 
۱۔ اسلام کی تبلیغ و دعوت میں آسانی اور تیزی پیدا ہو جائے گی۔
۲۔ اہل حق باہم لڑنے جھگڑنے سے بچ جائیں گے ۔ 
ان تمام مراحل و منازل کے ساتھ داعی اس بات کا خاص خیال رکھے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے ۔ لہٰذا اسلام کی اولین تبلیغ اسی شرط پر ہو سکتی ہے کہ اولاً اس کی آفاقی قدروں کی دعوت دی جائے ۔ لیکن اس کے برعکس موجودہ علما اور دعاۃ نے بالعموم اپناایسا وتیرہ بنالیا ہے کہ وہ دین سے پہلے اپنے مخصوص مسلک کو اوراخلاص و احسان سے پہلے اپنے خاص مشرب اور معمولات ورسوم کو مدعو کے ذہن و فکر میں اتار دینے کے درپے ہوجاتے ہیں۔یہ مبلغین اپنے علاقائی معمولات و رسوم کو پوری دنیاے اسلام سے منوانے کے آرزومند ہوتے ہیں۔موجودہ ماحول میں عقائد کے بجائے اعمال پر ، فرائض و واجبات کے بجائے سنن و مستحبات بلکہ مباحات پر اور اخلاص و توکل سے زیادہ چادر اور گاگرپر ارتکاز نے نئی صدی میں دین کی دعوت کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ مبلغین، اسلام کے آفاقی قدروں کی تبلیغ و ترسیل کے بجائیمختلف فیہ فروعی مسائل میں اپنی پسند کو نافذ وغالب کرنے اور عالمی سطح پر اسلام کو اپنیمقامی رسوم سے متعارف کرانے کے چکر میں باہم الجھ جاتے ہیں۔ ایسے میںدعاۃ و مبلغین اسلام کا پہلا فریضہ ہے کہ اپنی ترجیحات اصولی اور علمی لحاظ سے متعین کر لیں اور اس تعین میں تدریج کا خیال رکھتے ہوئیعام سے خاص کی طرف آئیں نہ کہ خاص سے عام کی طرف۔جیسا کہ گزشتہ سطور میں حدیث جبریل کے تحت اس کو تین مراحل اور نو منازل کی شکل میںبیان کیا گیا ہے۔
(۶)علما میں دعوتی اسپرٹ کا فقدان:- 
خانقاہ عالیہ عارفیہ سید سراواں الٰہ آباد کے زیب سجادہ داعی اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی مد ظلہ العالی عصر حاظر میں حکیمانہ دعوت کی ایک مثالی شخصیت ہیں ۔ ان کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ وہ مدعو کی سعادت دارین کے لیے حد سے زیادہ مخلص ، خیر خواہ اور متمنی رہتے ہیں ۔ ان کا یہ وصف مدعو کے دل میں ان کے لیے کشادہ جگہ بنا دیتا ہے جو در اصل دعوت کی بیج کا درجہ رکھتی ہے ۔ شرک و کفر میں مبتلا سیکڑوںافراد نے ان کے ہاتھوں پرتوبہ کی اور انہیں اپنا مسیحا سمجھا ۔ بہت سے ایسے افرادجو کہیں اور سے اسلام قبول کر کے آئے تھے ان کی بڑی اچھی تعلیم و تربیت کی بلکہ کہنا چاہیے تزکیہ فرمایا ۔ ایسے افراد جو مسلکی  امور میں ان سے مختلف تھے کچھ دن ان کی صحبت میں رہ کر ان کا ہم خیال ہو گئے ۔ اس قسم کے حیرت انگیز واقعات ان کی خانقاہ میں آئے دن دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ایسے میں بے تامل یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ دور میں جو لوگ دین کی دعوت کا کام کرنا چاہتے ہیں وہ حضرت کی محفل میں بیٹھیں اور ان سے جدید دور میں دعوت کے آداب سیکھیں ۔ کچھ لوگ سیکھ بھی رہے ہیں جن میں زیادہ تعداد نومسلم نوجوان، نو فارغ علما اور مخلص عوام کی ہے ۔ 
خانقاہ میں مختلف بڑے مدارس سے وابستہ بعض بڑے علما بھی آتے ہیں ۔ وہ یہاں کی دعوتی اور تبلیغی سرگرمیوں کا سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں ۔ انہیں ان کی تفصیلات سنائی جاتی ہے ۔ مگر ان میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو حضرت داعی اسلام کے دعوتی اسالیب سیکھنا اور ان کے ذریعے دعوتی عمل کو تیز کرنا چاہتے ہوں ۔ اکثریت ایسے علما کی ہوتی ہے جو یہ پوچھتے ہیں کہ اس خانقاہ میں لوگ اقامت کے وقت کب کھڑے ہوتے ہیں ، محفل سماع کیوں ہوتی ہے ، اس کے دلائل کیا ہیں وغیروغیرہ ۔
یہ ایک مثال ہے۔ اس سے یہ بات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے کہ عصر حاضر کے علما جزئی فقہی مسائل میں کتنے حساس واقع ہوئے ہیں جب کہ دعوتی اور تبلیغی مسائل کے احساسات کس قدر نقطہ انجماد سے قریب ہو چکے ہیں ۔ گل منجن سیروزہ ٹوٹنے ، ٹرین پر نماز پڑھنے ، میز پر کھانا کھانے ، ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے ، رفع یدین کرنے اور اس قسم کے مسئلے علما میں جس قدر زیر بحث ہیں اس قدریہ مباحث زیر بحث نہیں ہیں کہ اس اسلام مخالف ماحول میں غیر مسلموں تک اپنی دعوت کیسے پہنچائی جائے ، جمہوری ملکوں میں غیر مسلموں کے ساتھ معاملات کیسے روا رکھے جائیں ، اگر مستقبل میںفضا(Space) میں آبادی کے امکانات پیدا ہوں تو وہاں عبادات و معاملات کے طریقے کیا ہوں گے، جمہوری ملکوں میں اسلام کی بقا اور فروغ کے لیے مختلف مسالک کا باہمی رول کیا ہونا چاہیے ، نو مسلموں کی زندگی کے لوازمات اور آسانیاں کیسے فراہم کی جائیں ، نومسلموں کے لیے اگر غیرمسلم شوہر یا بیوی یا والدین کے ساتھ رہنا سماجی طور پر نا گزیر ہو تو وہ کیا کریں ، اگراسلام کے اعلان میں کسی کے لیے دشواریاں ہوں تو وہ کیا کرے ؟؟؟ یہ اور اس قسم کے دعوتی موضوعات موجودہ علماکی مجلسوں میں زیر بحث نہیں رہتے ۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ موجودہ علما میں دعوتی اسپرٹ کا فقدان ہے ۔ 
علمامیں دعوتی اسپرٹ کے فقدان کی ایک واضح وجہ یہ بھی ہے کہ آج کل علما عموما فروع سے اصول کی طرف آتے ہیں جب کہ دعوت کا تقاضا اس کے بر عکس ہے ۔ داعی کو لازم ہے کہ وہ اصول سے فروع کی طرف آئے ۔ پہلے عام اخلاقیات اور انسانیت پیش کرے ، جب لوگ مانوس ہو جائیں تو انہیں توحید کی دعوت دے ، اس کے بعد رسالت ، آخرت اور قضا وقدر اور جنت و دوزخ پر ایمان کی دعوت دے ۔ اس کے بعد عبادات اور دیگر اصولی احکام کی طرف آئے ، پھر احکام میں فروعی ، ثانوی اور ثالثی امور کی طرف آئے ۔ آج کل علما کی نفسیات بالعموم اس تدریج و ترتیب کے خلاف ہے جب کہ دعوت ان کی اس نفسیات کے ساتھ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ عصر حاضر میں علما کے سامنے فروغ دعوت کا ایک ہی فارمولہ ہے اور وہ ہے اپنی موجودہ نفسیات سے خود کو پاک کرنا ۔ 
(۷) جدید علم الکلام سے گریز:- 
اعتزال اور عقلیت کے ظہور کے بعد امام ابو الحسن اشعری (۹۳۵ء )نے علم الکلام میں عقلی مباحث کو داخل کیا ۔ بعد کے ادوار میں خصوصا امام غزالی نے علم الکلام کو پورے فلسفیانہ انداز میں رنگ دیا ۔ تھافت الفلاسفۃ فلسفے سے فلسفے کے ردکی پہلی کامیاب مثال کہی جا سکتی ہے ۔ اس کے بعد سے آج تک علم الکلام میں جو کتابیں لکھی گئیں تقریبا سب کا انداز یہی ہے ۔ شیخ ابن تیمیہ نے اس سے مختلف منہج کا آغاز کیا لیکن ان کے مسلک کی طرح ان کا اسلوب و منہج بھی امت میں مقبول نہ ہو سکا ۔ 
گزشتہ چند صدیوں میں یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد جدید علم سائنس کا دور آیا ۔ اس سائنسی دور میں مختلف نئے افکار و خیالات نے جنم لیے مثلا سوشلزم ، مارکس ازم ، ڈارون ازم ، کیپٹل ازم ، یہ افکار و خیالا ت سائنسی اسالیب میں اور نہایت علمی ، فکری اور واضح عقلی انداز میں پیش کیے گئے ۔ یہ افکار و خیالات عالمی سطح پر عوام کے ذہن و فکر پر چھا گئے ۔ ان افکار کا ایک بڑا حصہ اسلام مخالف مواد پر مشتمل تھا ۔ لیکن ان افکار کی ظاہری چمک دمک اور ان کی پیش کش کے سائنسی اسلوب نے لوگو ں کے لیے شہد کے ساتھ زہر کو بھی قابل قبول بنا دیا ۔ آج عالم اسلام کے اسکولوں اور کالجوں میں یہ مرتدانہ افکار و خیالات زیر درس ہیں جن کے نتیجے میں نئی نسل تیزی سے فکری ارتداد کی طرف بڑھ رہی ہے اور تماشا یہ کہ وہ اپنے اس ارتداد کو سائنس سمجھتی ہے ۔ مگر حیرت ہے کہ پورے عالم اسلام میںان مرتدانہ افکار کے رد میں کوئی قابل قدر مواد نہ مدارس میں شامل درس ہے اور نہ ہی اسکولوں اورکالجوں میں، ان افکار کے باطل پہلووں کی طرف کبھی کبھی مختلف اخبارات و رسائل میں بعض مضامین ضرور چھپ جاتے ہیں لیکن سب کو معلوم ہے کہ نقارخانے میںطوطی کی آواز کی کیا حیثیت ہوتی ہے ۔ جو افکار اسکولی سطح پر بچوں کے ذہن میں راسخ ہو جائیں وہ اتنی آسانی سے نہیں ہٹتے ۔
جدید دور کا یہ علمی و فکری ظاہرہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جدید علم الکلام لکھا جائے جو جدید سائنٹفک اور عصری اسلوب میں عصری ضلالتوں کا پردہ چاک کرے ۔اس میں شک نہیں کہ مسلم علما اور اہل دانش نے اس سمت میںپیش قدمی کی ہے اور کئی قیمتی کتابیں بھی منظر عام پر آئی ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہیکہ علم الکلام میں سائنسی اسلوب مسلمانوں کا مقبول اسلوب اب تک نہیں بن سکا ہے ۔ اسی طرح اس باب میں لکھی جانے والی کتابیں اب تک مدارس اور کالجز کے نصاب کا حصہ نہیں بن سکی ہیں ۔ آج بھی مدارس میں خوارج اور معتزلیوں کا رد بلیغ کیا جاتا ہے جو اس جہان میں عنقا ہو چکے ہیں، جب کہ نئے دور میں خارجیت اور اعتزال کی جو جدید شکلیں سامنے آ ئی ہیں ان کی طرف بھی متوجہ نہیں کیا جا تا ۔ 
اکیسویں صدی میں دعوتی و تبلیغی اسپرٹ کو تیز کرنے کے لیے دیگر امور کے ساتھ یہ امر بھی ضروری ہے کہ سائنسی اسلوب میں جدید افکار و نظریات کو سامنے رکھ کر جدید علم الکلام نہ صرف با ضابطہ لکھا جائے بلکہ اسیمدارس اور کالجز میں شامل نصاب کیا جائے ، اس کے بغیر عصر حاضر کے دعاۃ و مبلغین فکری سطح پر اپنے زمانے سے ہم آہنگ ہو کراپنے مدعو سے ہم کلام نہیں ہو پائیں گے ۔ 
(۸)دین کی غیرعصری تعلیم:- 
جب اسکول نہیں تھے اس وقت مدارس سے ہی علم کی روشنی پھوٹ رہی تھی ۔ تاج محل اور جامع مسجد کے معمار کسی یونی ورسٹی کی پیداوار نہیں تھے، ان کا تعلق مدرسے ہی سے تھا ۔ جب ہر طرف جہالت تھی تو مدارس کے فارغین ہی علم کی روشنی تقسیم رہے تھے ۔وہی کتاب و سنت کا درس بھی دیتے ، تصوف کے اسباق بھی پڑھاتے ، ایک مثالی کردار بھی پیش کرتے ، اور اس کے ساتھ عدالتی دستاویزات پڑھتے ، لوگوں کی جائیدوں کی تقسیم اپنے علم سے کرتے، ان میںپیدا اختلافات کو اپنے ناخن تدبر سے حل کرتے ۔ اس وقت علما صرف دو رکعت کے امام نہیں ہوتے بلکہ عوام اپنے تمام معاملات اور ہرقسم کی الجھنوں میں علما سے رجوع کرتے اور علما انہیں حل فرماتے ۔ 
گاؤ ں اور شہروں میں مدرسے کے فارغین آج صرف میلادخواں اور نکاح خواںبن کے رہ گئے ہیں ۔ عوام کی زندگیوں کے جو دوسرے سماجی ، اقتصادی اور سیاسی پہلوہیں ان سے فارغین مدارس کو کوئی سروکار نہیں، بلکہ عام طور پر انھیں اس قابل سمجھا بھی نہیں جاتا ۔ بسا اوقات اس چکی میں مدارس کے وہ فارغین بھی پس جاتے ہیں جو ذاتی طور پر دنیاوی معاملات کا شعور رکھتے ہیں ۔ میرے بعض احباب مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آج مدارس کے فارغین صرف دو رکعت کے امام ، میلاد خواں اور نکاح خواں بن کر کیوں رہ گئے ہیں ؟ میرا جواب ہے کہ اس کی وجہ مدارس کی غیر عصری تعلیم ہے ۔ جو زمانے میں ہو رہا ہے وہ مدارس میں پڑھایا نہیں جاتا اور جو مدارس میں پڑھایا جا تا ہے وہ زمانے میںہو نہیں رہا ۔ فارغین مدارس ذہنی طور پر جب اپنے زمانے کے ہیں ہی نہیں تو پھر بھلا ان سے اپنے زمانے کی امامت اوررہنمائی کی توقع کیوں کر رکھی جائے !
اہل مدارس میں تعلیم کے حوالے سے دین و دنیا کی واضح تفریق ہے ۔ وہ مدارس کو دینی تعلیم کا مرکز سمجھتے ہیں۔ مدارس میں دنیاوی علوم کی شمولیت کو غیر ضروری ہی نہیں ضرر رساںبھی سمجھتے ہیں ۔ ایسے میں نتیجہ تو وہی ہو گا جوہے ۔ نہ اس پر کسی حیرت کی ضرورت ہے اور نہ کسی شکوے کی ۔ ہاں!حیرت اس بات پر ضرور ہے کہ موجودہ مدارس کا نصاب بالعموم عصر حاضر کی دینی ضرورت کی تکمیل سے بھی قاصر ہے ۔ مدارس کا موجودہ نصاب و نظام طلبہ کی فکری ، علمی اور اجتہادی صلاحیتوں کو ابھارنے کے بجائے انہیںکچل کررکھ دیتا ہے ۔ رجوع الی الکتاب ، رجوع الی السنہ ، فہم اجماع ، علم اجتہادات اور شعور اجتہاد کا مدارس کے طلبہ میں مکمل فقدان ہے ۔ اس کے بر خلاف وہ تقلید در تقلید کے خوگر ہیں ۔ خدا نخواستہ میرا نشانہ مقلدین کے مدارس نہیں ، غیر مقلدین کہے جانے والے مدارس کے طلبہ بھی تقلیدی شراب کے ایسے خوگر ہیں کہ وہ نئے مسائل پر خود سے غور و خوض کرنے کی ہمت نہیں جٹا سکتے ۔ انھوں نے اپنی گردن سے امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمدبن حنبل کی تقلید کا قلادہ ضرور اتار پھینکا ہے لیکن اس کے بعد ان ائمہ اعلام سے نہایت کم درجے اور بعد میںپیدا ہونے والے اپنے بعض محبوب علما کی تقلید پر غیر اعلانیہ قسم کھا رکھی ہے ۔ آج مدارس میں تخصص فی الفقہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں صحیح معنوں میں تخصص فی التقلید کرایا جاتا ہے ۔واضح رہے کہ تقلید سے میری مراد ائمہ اعلام کی تقلید نہیں ہے ۔ یہاں پر تقلیدسے مراد یہ ہے کہ ہر مدرسہ اپنے مخصوص افکار و خیالات اور اجتہادات و قیاسات کو اپنے طلبہ کے ذہن میں اس طرح بھر دینا چاہتا ہے کہ اس کے علاوہ ان میں سوچنے کی صلاحیت ہی مفقود ہوجائے ۔ ہر مدرسے کی الگ ترجیحات ، امتیازات اور لوازمات ہیں اور وہ اپنے طلبہ کو ان مسائل میں مقلد محض بنا دینا چاہتا ہے ۔ جب مدارس کے نصاب و منہج کا یہ عالم ہے تو بھلا ان سے کیسے توقع رکھی جائے کہ وہاں سے آفاقی فکر کے حامل علما اور دعاۃ و مبلغین پیدا ہوں گے ۔ خود تاریک کوٹھری میں رہنے والے دنیا کو روشنی کی بھیک کیا دیں گے ؟ ایسی صورت حال میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے فکر مند افراد کاپہلا فرض یہ ہے کہ وہ مدارس میں دین کی عصری تعلیم رائج کریں ۔ 
دین کی عصری تعلیم سے مراد ایسی تعلیم ہے جو طالب علم میں موجودہ زمانے کی علمی و دینی قیادت کا جوہر پیدا کر سکے ۔ طالب علم اپنے عہدسے مکمل باخبر ہو جائے ، گر د و پیش میں سیاسی، سماجی ، علمی ، فکری ، اقتصادی اور تکنیکی سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے اس سے وہ یکسر نابلد نہ رہے بلکہ ان کا اجمالی علم رکھے اوروہ ان موضوعات پر ان کے ماہرین سے تبادلۂ خیال اور کم از کم استفادے کے لائق ہو سکے ۔ اسی طرح نئے حالات نے دین کے لیے جو مسائل پیدا کیے ہیں ان مسائل سے وہ مکمل طور پر باخبر ہو ۔ اپنی دینی بات کو براہ راست کتاب و سنت اور عقل کے پیمانے پر سمجھا دینے پر قادر ہو ۔ جدید فقہی موضوعات سے باخبر ہو اور ان پر علمی و فقہی انداز سے گفتگو کرنے کی اہلیت رکھتا ہو ۔ اور ان سب کے ساتھ جو دین کا جوہر ہے جسے احسان ، تزکیہ یا اخلاص کہتے ہیں اس کا بھی حامل ہو ورنہ اس کاعلم کبھی بھی شیطان کے راستے پر ڈالنے کے لیے کافی ہوگا ۔ اس کے لیے براہ راست کتاب و سنت سے استفادے کے ساتھ اگر صادقین ، مخلصین ، محسنین اور مزکیّٰ افراد کی صحبت میسر آئے تو طلبہ کی تعلیمی فراغت کے بعد ایسوں کی صحبت میں بھیجا جائے کیوں کہ کونوا مع الصادقین (التوبہ:۱۱۹)اللہ کریم کا واضح فرمان ہے۔ 
مدارس کے نصاب و نظام کی تبدیلی کا نعرہ گزشتہ سو سالوں سے بلند کیا جا رہا ہے ۔ یہ نعرہ تسلسل کے ساتھ آج بھی بلند ہو رہا ہے ، اس میں بھی شک نہیں کہ ارباب مدارس نے ان آوازوں پر توجہ دی ہے اور ایک حد تک نصاب و نظام میں تبدیلی بھی آئی ہے ۔ اب عام طور پر تبدیلی کے لیے ماحول بن بھی رہا ہے ، لیکن ماضی میں پڑھائے جانے والے مواد اور کتابوں کی محبت اہل مدارس کے سینوں میں ایسی رچ بس گئی ہے کہ وہ آسانی کے ساتھ ان سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ اس باب میں میری گزارش یہ ہے کہ اس قسم کی تمام محبتیں ایک خاص قسم کی عصبیت اور نفسانیت کی دین ہیں ۔آج حالات بدل گئے ہیں ۔ اب مدارس کے نظام و نصاب میں جزوی اور تدریجی تبدیلی کے بجائے اصولی اور یکبارگی تبدیلی نا گزیر ہے۔ دعوت دین اور تبلیغ اسلام کے خواہاں افراد کا فرض ہے کہ اب وہ مدارس کے نصاب میں اصولی تبدیلی کے لیے تیار ہوجائیں ، وہ مدارس کے نصاب و نظام کو ایسا بنائیں کہ مدارس میں عصری دینی تعلیم کا رواج شروع ہو سکے اور غیر عصری دینی تعلیم سے نئی نسل کونجات ملے ۔ ایسے نصاب و نظام کی تشکیل کے وقت عصری دینی تعلیم کے حوالے سے جو نکات اوپر مذکور ہوئے انھیں پیش نظر رکھنا ہوگا ۔ ان کے ساتھ درج ذیل نکات بھی مفید ہوں گے ۔
۱۔ عربی کی تعلیم آسان ہو کہ بہت جلد طلبہ لکھنے بولنے پر قادر ہوں اور یہ قدرت انہیں فہم کتاب و سنت کے لیے مفید ہو سکے ۔ 
۲۔ ہائی اسکول کی سطح تک مدارس میں وہ تمام مضامین پڑھائے جائیں جو عصری طورپر ضروری ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں مدارس میں اسکولوں کا ترقی یافتہ نصاب داخل کیا جائے جس میں اسکولنگ کے تمام اہم مضامین انگلش ، حساب ، سائنس ، تاریخ، جغرافیہ اور سماجیات کے ساتھ ضروری دینی مواد بھی شامل ہوں جن میں قرآن ، حدیث ، عقیدہ ، فقہ اور عربی زبان و ادب اہم ہیں ۔ 
۳۔ جدید اورسادہ و عام فہم اسلوب میں لکھی ہوئی کتابیں ہی شامل کی جائیں اور وہ تمام کتابیں ایک ساتھ نصاب سے باہر کر دی جائیں جو علم سے زیادہ پندار علم پیدا کرتی ہیں اورفن شناسی سے زیادہ چیستاں بیانی کی حامل ہیں ۔ 
۴۔ تدریس کو بھی آسان کیا جائے اور اس کے لیے بشمول کمپیوٹر ان تمام جدیدذرائع کا استعمال کیا جائے جو کسی بھی اعلیٰ اسکول میں کیے جاتے ہیں-
۵۔ طلبہ کی نفسیات میں خدا اعتمادی کے ساتھ خود اعتمادی ، مزاج میں علمیت کے ساتھ تواضع اور مقصد میں آفاقیت کے ساتھ دعوتی اسپرٹ پیدا کی جائے ۔  
۶۔ نصاب و نظام کی تشکیل میں جامعۃ الازہر کے نصاب و نظام سے استفادہ کیا جائے اور اس سے بہتر کی فکر کی جائے۔
اگر ایسا کیاجاتاہے تو مدارس میں ایک نئی زندگی کی واپسی اور ان سے ایک دعوتی انقلاب کی توقع یقینی طورپر کی جاسکے گی۔
( ۹) دین میں تشدد:-
پیغمبراسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر امن و رحمت بن کر تشریف لائے۔ قرآن میں انہیں رحمۃ للعالمین کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ رحمت و رافت کا درس دیا۔ آپ خلق عظیم کے پیکر تھے۔ آپ نرم دل اور کشادہ جبیں تھے۔ آپ فظاً غلیظاً ہرگز نہ تھے۔آپ کی دعوت مدعو کی محبت اور خیر خواہی پر مبنی تھی۔ آپ نے ہمیشہ لوگوں کی سعادت مندی کی دعا فرمائی۔ کبھی کسی کو بد دعا نہیں دی۔ آپ نے بلا تفریق مذہب و ملت؛ مہمانوں، پڑوسیوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم فرمائی۔ آپ کی دعوت ہر ظلم و جبر سے پاک تھی۔ قرآن میں ہے :لا اکراہ فی الدین(البقرۃ:256)آپ نے کبھی کسی کو اسلام کے لیے مجبور نہیں کیااور نہ ان لوگوں کے لیے جنہوں نے آپ کی دعوت رد کردی کسی طرح کاکوئی معاندانہ رویہ اختیار کیا۔ ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ آپ نے منکرین دعوت کو بد دعا دی ہو، یا ان کو قتل کرنے یا قید کرنے کی تدبیر کی ہو۔ اس کے برعکس آپ نے ہمیشہ مصلحانہ کردار پیش کیا۔ہر ممکن طور پر جنگ کو ٹالنے کی کوشش کی۔ مدعو اقوام کی ہدایت کے لیے دل سے بے چین رہتے اور ان کے حق میں ہدایت کی دعائیںفرماتے۔آپ ﷺکی امن پسندی اور صلح جوئی کا یہ عالم ہے کہ خود لفظ اسلام میں سلامتی اور ایمان میں امن کے معنی پوشیدہ ہیں۔آپ نے مسلم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے سارے مسلمان محفوظ رہیں۔ (بخاری،کتاب الایمان،باب:المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ)ایک دوسری حدیث میں ہے کہ مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے سارے انسان محفوظ رہیں(مسند احمد بن حنبل،مسند عبد اللہ بن عمرو )۔خلاصہ یہ کہ دین اسلام امن و سلامتی سے عبارت ہے ۔کسی نے سچ کہا ہے :
Islam means peace. 
اسلام امن سے عبارت ہے۔
یہ دین اسلام کی صحیح تصویر ہے۔ اس کے بر عکس گذشتہ کچھ سالوں سے مسلمانوںمیںایک مٹھی بھر جماعت دین کے لیے ہر تشدد اور جبر کو نہ صرف جائز سمجھتی ہے بلکہ ممکن حد تک دین کے لیے قوت اور جبر کا استعمال بھی کرتی ہے۔اس جماعت سے وابستہ افراد نہ صرف مدعو اقوام کو بم اور بارود کا نشانہ بنانے کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان کے ذریعے اس قسم کے واقعات پیش بھی آتے رہتے ہیں۔ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملے کے پیچھے اسی قسم کے لوگوں کو ملزم ٹھہرایا گیا۔اس الزام میں حقیقت کتنی تھی اس سے قطع نظر اس میں کو ئی شک نہیں کہ مسلمانوں میں تشدد پسند خیالات کے حاملین نے ورلڈ ٹریڈ سینٹرکے حادثے کو قابل مذمت نہیں گردانا ۔مسلمانوںکے ایک خاص طبقے میںامن پسندی کے بجائے ارہاب پسندی نئی صدی میںدعوت دین کی راہوںمیں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آئی ہے۔ان مٹھی بھر لوگوںکے کردار نے پوری امت کے کردار کو منفی شکل میںپیش کردیا ہے۔ بجائے اس کے کہ روحانیت ،صداقت اور امن کی متلاشی انسانیت مسلمانوں کی دعوت قبول کرتی، عام انسان مسلمانوںسے وحشت محسوس کرنے لگا۔
دین میں تشدد کی ایک دوسری شکل بھی ہے۔اور وہ ہے عام مسلمانوں کو کافر اور بے دین سمجھنا۔اس تشدد پسندی کی انتہا عرب ملکوںمیں جماعۃ الہجرۃ و التکفیر کی شکل میںسامنے آئی، جو اپنے وابستگان کے علاوہ پوری امت کی تکفیر کی قائل ہے ۔تشدد فی الدین کے سبب تکفیر امت کا مرض جماعۃ الہجرۃ والتکفیرکے علاوہ دیگر جماعتوںمیںبھی سرایت کر گیا ہے۔مختلف مسالک کے وابستگان صرف اپنے کو مومن اور دوسروں کو کافر سمجھتے ہیں۔ متقدمین کے یہاں اصول تکفیر تو واضح ہیں لیکن شخصی تکفیر کے معاملے میںان کے یہاںبڑی احتیاطیںہیں۔اس زمانے میں تشدد فی الدین کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ نہ صرف شخصی تکفیر بلکہ اجتماعی اورگروہی تکفیر میںبھی لوگ بہت جری ہوتے چلے گئے ۔اس رویے نے مسلمانوں کو با ہم ایسا الجھا دیا کہ اب وہ اپنی تباہی کے لیے خود ہی کافی ہیں۔بالفرض یہود و نصاریٰ مسلمانوںکے خلاف سازش کرنا بند بھی کردیںجب بھی مسلمان آپس میں ایک دوسرے کی تکفیر کرکے ایک دوسرے کو قتل کرتے اور مرتے مارتے نظر آئیںگے۔یہ صورت حال اس قدر سنگین ہے کہ مسلمان امت مسلمہ کے مشترکہ مسائل کے لیے اب اجتماعی طور پر سوچنے اور کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔
دین میںتشدد کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس زمانے کے بعض علما اور فقہا اپنی تحقیقات و اجتہادات کو غیر اعلانیہ طور پر وحی کا درجہ دے چکے ہیں۔ انہیںیہ ہر گز گوارا نہیںکہ کوئی ان سے علمی و فقہی اختلاف کرنے کی جرات کرے ۔اس رجحان نے جہاںایک طرف مسلمانوںمیںفکرو تحقیق کا گلا گھونٹ دیا ہے وہیںان کے اندر عداوت،الزام تراشی،بہتان،سوئے ظنی اور نفرت جیسے سفلی جذبات پروان چڑھا دیے ہیں۔ نتیجے کے طور پر علمی اختلافات کے دوران؛ فروعی مسئلے کو اصولی ،ثانوی کو اولیں،فقہی کو کلامی اور افضل و مفضول کے مسئلے کو ایمان و کفر تک پہنچانے کا منفی رویہ پیدا ہو گیا ہے۔ حالات ہمارے سامنے ہیں ۔ایسے حالات میںدین حق کی دعوت و تبلیغ کا کام کیوں کر کیا جا سکے گا!عصر نو میںجو لوگ دین اور دعوت دین کا جذبہ رکھتے ہیںان کا فرض ہے کہ وہ اپنے اندر حسن ظن،محبت، رواداری،امن پسندی اور خیر خواہی کے جذبات پروان چڑھائیں۔مدعو اقوام و مسالک کے لیے دشمن بننے کے بجائے ان کے لیے خیر خواہ بنیں اور تشدد فی الدین سے یک لخت توبہ کر لیں۔اللہ  کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پرتاکید کے ساتھ تین بار فرمایا کہ حد سے بڑھنے والے ہلاک ہو گئے۔ہلک المتنطعون۔(صحیح مسلم،کتاب العلم،باب ہلک المتنطعون)
(۱۰) مبتلاے بوبکر وعلی کی حماقت مآبی:-
مشرق وسطیٰ عالم اسلام کا مرکزی خطہ ہے۔یہ خطہ گزشتہ دو سو یا اس سے زائد سالوںسے شعلوںمیںجل رہا ہے۔اس کے اسباب خارجی بھی ہیں اور داخلی بھی۔ ان اسباب میں شیعہ سنی مسئلہ سرفہرست ہے۔ انقلاب۱۹۷۹ء کے بعد ایران میں سیاسی، سماجی، مذہبی، ثقافتی، تعلیمی اور تکنیکی ہر سطح پر نمایاں تبدیلیاں ظہور پذیر ہوئیں۔ ان تبدیلیوں نے ایران کو اس خطے میں ایک مضبوط و مستحکم ریاست بنا دیا۔ حکومت ایران کا یہ استحکام جہاں شیعہ فرقے کے لیے خوشیوں کے سوغات لے کر آیا وہیں سنی مسلمانوں کے لیے اور بطور خاص حکومت سعودی عربیہ کے لیے اس نے درد سری پیدا کردیا۔ ایران کی ترقی گزشتہ۳۰؍ سالوں سے عربوں کے لیے ایک مسئلہ بن گئی ہے۔پہلے یہاں چند واقعات لکھے جاتے ہیں:
٭ ۲۲ستمبر ۱۹۸۰ء سے ۲۰؍اگست ۱۹۸۸ء تک تقریباً۸؍ سالوں تک عراق ایران جنگ جاری رہی۔ اس میں ایران و عراق کے لاکھوں فوجی کام آئے جب کہ مالی لحاظ سے ہر دو جانب سے تقریباً پانچ پانچ سو بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔اسی طرح اس جنگ میں دونوں طرف کے جو شہری مارے گئے ان کی مجموعی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ اس جنگ کی بنیاد کہیں نہ کہیں شیعہ سنی مسئلہ تھا۔ اس موقع پر امریکا اور سویت یونین دونوں نے عراق کی پشت پناہی کی۔
٭۲۰۰۵ء میں ایران کا ایٹمی پلان پہلی بار اخبارات کی سرخیوں میں آیا۔ ایران کے اس پلان کے خلاف امریکی غیظ و غضب موضوع بحث بنا ہوا تھا۔ مسلم صحافی بالعموم امریکا کے اس ردعمل کے خلاف تھے کیوںکہ بعض قرائن کے پیش نظر اسرائیل نیوکلیر پاور ہے اور اسے امریکا کی تائید حاصل ہے۔ ایسے میں ایران کے ایٹمی پلان کے خلاف امریکا کا غضب ناک ہونا مکمل جانب داریت تھی، بالخصوص ایسی صورت حال میں جب کہ ایران کا ایٹمی پلان بقول اس کے اسلحہ سازی کے لیے نہیں عوامی فلاح و بہبود کے لیے تھا۔
  ڈاکٹر حبیب اللہ خان ندوی استاذ جامعہ ملیہ اسلامیہ جو مولانا وحید الدین خان کے گہرے مداحوں میں ہیں اور جوطلبہ کی عربی تعلیم کے ساتھ ذہنی و فکری تربیت پر خاص توجہ دیتے ہیں، نے ایک دن طلبہ کے سامنے اس مسئلے کو رکھااور ان کی آرا جاننے کی کوشش کی۔ تقریباً پوری کلاس کی ایک آواز تھی:امریکا کی ناراضگی غلط ہے۔ایران کو ایٹمی پلانٹ نصب کرنے کا حق ہونا چاہیے۔اس پر ڈاکٹر حبیب اللہ ندوی صاحب نے کہا:
’’آپ لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایران کے سارے پڑوسی ملک مسلم ہیں اور ان میں سے کوئی پڑوسی ایسا نہیں جو ایران کے اس پروگرام سے خوش ہو۔ اب آپ بتاؤ کہ وہ مسلمان جو ایران کے آس پاس رہ رہے ہیں، جب وہ نہیں چاہتے کہ ایران ایٹمی پاور بنے اور وہ ایران کی ایٹمی طاقت سے خوف محسوس کررہے ہیں تو آخر ہندوستان میں رہنے والے مسلمان کیوں پریشان ہیں اور اس مسئلے پر یک طرفہ طور پر امریکا کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیوں کر رہے ہیں؟‘‘
ڈاکٹر صاحب کی یہ بات منطقی تھی۔ لیکن اس کے باوجود میں دیر تک سوچتا رہا اور اب تک سوچ رہا ہوں کہ
۱۔ ایران ایک چھوٹا سا ملک ہے، جس نے مشرق وسطی کے سنی مسلمانوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ مسلمانوں کے درجنوں ممالک ہیں اور سب کے سب ایٹمی طاقت سے محروم اور اسرائیل کے سامنے بے بس ۔آخر کیوں؟
۲۔ ایران اسرائیل کے خلاف انقلاب ۱۹۷۹ء سے لے کر آج تک سخت رویہ رکھتا رہا ہے۔ اس نے آج تک اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ ایسے میں اگر ایران ایٹمی طاقت کا مالک بن رہا ہے تو اسرائیل سے زیادہ مسلم ممالک پریشان ہیں۔آخر کیوں؟
۳۔ ایران کے ایٹمی پروگرام سے اسرائیل سے زیادہ مسلمان خوف زدہ ہیں۔ آخر کیوں؟
٭ نومبر ۲۰۱۰ء میں ویکی لیکس نے بہت سارے سنسنی خیز حقائق نشر کیے۔ ان حقائق میں ایک بات یہ بھی تھی کہ سعودی حکمراں شاہ فیصل نے امریکا کو اس بات کی دعوت دی تھی کہ ایران کے نیو کلیائی پروگرام کو تباہ کرنے کے لیے اس پر حملہ کردے؛ کیوں کہ ایران ایک سانپ ہے جس کا سربے رحمی سے کچل دینا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سنی شیعہ اختلافات بہت گہرے ہیں۔ انہیں ختم کرنا عملاً ناممکن ہے۔ بہت سے عقائد و مسائل میں شیعہ سنی افکار متضاد ہیں۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ غیر مسلم دنیا کی نظر میںایران اور سعودی یکساں طور پر دو مسلم حکومتیں ہیں۔ ایسے میںبر تقدیر صدق خبر، اگران میں ایک حکومت دوسری حکومت کے خلاف امریکا کو دعوت جنگ دے تو عالمی سطح پر کیا پیغام جاتا ہے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سعودی عرب اور دوسرے ممالک ایران کے ایٹمی پروگرام سے خائف ہیں؟ اور اسی طرح یہ بات بھی قابل غور ہے کہ شیعہ سنی اختلاف کا اس حد تک بڑھ جانا کہ ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لیے مسیحی دنیا سے ساز باز کریں کیا عالم اسلام کے حق میں بہتر ہے؟ اس سے مسلمانوں کے حوالے سے دنیا میں کیا پیغام جاتا ہے؟ کیا یہ موضوع عالم اسلام کے لیے لمحۂ فکریہ نہیں ؟کیا یہودیوںاور مسیحیوں کے بالمقابل شیعوںکے لیے سنی اور سنیوں کے لیے شیعہاہون البلیتین  نہیں ہیں؟ یہاں ایک واقعہ یاد آتا ہے ۔
۲۰۱۰ء یا۲۰۱۱ کا سال تھا ،داعی اسلام حضرت شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی مدظلہ العالی ذاکر نگر دہلی تشریف رکھتے تھے۔آپ کا طریقہ ہے کہ جہاں رہتے ہیںدعوتی مقاصد کے لیے مختلف مذاہب و مسالک کے لوگوںسے ملتے ہیںاور اپنے مخصوص انداز میں انہیں حق کی دعوت دیتے ہیں۔رفیق گرامی جناب شوکت علی سعیدی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک سینیر طالب علم کو لے کر آئے ۔آں موصوف کا تعلق جماعت اہل حدیث سے ہے، وہ جامعہ ملیہ کے کیمپس میں جہاں رہتے ہیں مناظرے کی دکان سجائے رہتے ہیں۔خیر گفتگو شروع ہوئی ۔دوران گفتگو آں موصوف نے فرمایا:’’حضرت !آج حالات اتنے خراب ہو چکے ہیںکہ امن و امان اور انسانیت کی بحالی کے لیے سب کو متحد ہو جانا چاہیے، اس لیے مسلمانوں کو دیگر مذاہب والوں مثلا ہندؤوں ،عیسائیوںاور یہودیوں سے بھی اتحاد کرنا ہو گا ۔‘‘
حضرت داعی اسلام نے موصوف کی باتوں کی تائید کی ؛کیوں کہ حضرت امن وسلامتی کے داعی ہیں۔ وہ بہر صورت امن و سلامتی چاہتے ہیں۔آں موصوف پھر گویا ہوئے:
’’لیکن سب سے اتحاد ہو سکتا ہے ؛مگر شیعوں سے نہیں۔اس اتحاد سے شیعوں کو خارج رکھا جائے۔‘‘
حضرت نے فرمایا کہ’’ امن عالم کے لیے یہودیوں اور عیسائیوں سے اتحاد کیا جائے اور شیعوں سے اتحاد نہ کیا جائے ؟‘‘
آ ں جناب نے اس کے لیے قیل و قال کرنا چاہا ۔حضرت طبعاً بحث و تکرار کو پسند نہیں کرتے۔آپ نے فرمایا :’’ٹھیک ہے۔ اب اس بحث کو یہیں ختم کرتے ہیں، اب ہم دوسرے موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔‘‘
حکیم الامت علامہ اقبال نے آج سے تقریبا سو سال پہلے’ ’دنیاے اسلام‘‘ کے زیر عنوان اپنی ایک نظم میں کہا تھا :
ایک ہو ں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا
ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کے مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گذر
تا خلافت کی بنا دنیا میں پھر ہو استوار
لا کہیںسے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
اے کہ نہ شناسی خفی را از جلی ہشیار باش
اے گرفتار ابوبکر وعلی ہشیار باش
مگر افسوس کہ آج سو سالوں بعد بھی اس بانگ درا کو حسن سماعت میسر نہیں آسکا۔جو امت کافۃ الناس کے لیے مبعوث ہوئی تھی اور جس کے ہر فرد شاہد کو فرد غائب تک ایک آیت کی ہی سہی تبلیغ کرنی تھی، وہ باہم الجھی ہوئی ہے۔اسے درون خانہ سے فرصت ہی نہیں کہ بیرون خانہ نظر ڈالے۔رسمی نعرۂ اتحاد بلند کرنے والے بھی اب نہ رہے۔آج بھی یہ امت رنگ ونسل کے مسائل سے دوچار ہے۔دشمن خفی اور دشمن جلی،بلائے خفیف اور آفت شدید میںاسے اب تک تمیز نہ ہو سکی۔فہل من بصیر؟
(۱۱) سلفیت و صوفیت کی جنگ میں بے اعتدالی:- 
دی رائل اسلامک اسٹراٹیجک سینٹر عمان کی طرف سے گذشتہ چند سالوں سے دنیا کے پانچ سو موثر ترین مسلم شخصیات کی فہرست جاری ہو رہی ہے۔ ۲۰۱۲ء کی رپورٹ میرے سامنے ہے۔ یہ رپورٹ۲۰۵؍ صفحات پر مشتمل ہے۔اس میں مسلمانوں کے حوالے سے بہت سی اہم معلومات فراہم کی گئی ہے۔نظریاتی اعتبار سے اس میں مسلمانوں کو تین حصوں میں بانٹا گیا ہے:
۱۔روایتی اسلام (Traditional Islam)(دنیا کے  فیصد مسلمان)اسے قدامت پسنداسلام (Orthodox Islam)کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
۲۔اسلامی بنیاد پرستی(Islamic Fundamentalism) (دنیا کے تین فیصد مسلمان)یہ اعلی سیاسی ۔مذہبی مکتب فکر ہے جو بیسویں صدی میں رائج ہوا۔
۳۔اسلامی جدیدیت(Islamic Modernism) (دنیا کے ایک فی صد مسلمان) ۱۹؍ویںصدی سے عثمانی ترکی اور مصر سے اس کا ظہور ہونا شروع ہوا۔
آگے بتایا گیا ہے کہ روایتی اسلام کی ۹۰؍فیصد آبادی اہل سنت و جماعت کی ہے جس کے چار مکاتب فقہ؛ حنفی ۴۵؍فیصد ،شافعی ۲۸؍ فیصد، مالکی۱۵؍ فیصد اور حنبلی۲؍ فیصد ہیں اور تقریباً ۱۰؍ فیصد اہل تشیع کی ہے جن میں زیدی ایک فیصد سے کم ، اثنا عشری۸؍ فیصد اورنصف فیصد سے کم اسماعیلی ہیں۔
اسلامی بنیاد پرستی جو کل مسلم دنیا کی ۳؍ فیصد آبادی ہے اس میں سنیت کی طرف انتساب کرنے والے اخوانی اور وہابی ہیں جب کہ شیعوں میں اس کی نمائندگی بطور خاص آیت اللہ خمینی کے افکار سے ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ سنیت کی طرف انتساب کرنے والے دو بڑے گروہ میں بٹے ہوئے ہیں۔
۱۔ صوفی۔ جو روایتی سنی اسلام کے حامل ہیںاور چاروں اماموں ؛امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل میں سے کسی ایک کی تقلید کو ضروری سمجھتے ہیں اور صوفی سلاسل میں سے کسی سلسلے سے وابستگی کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں۔ 
۲۔ سلفی یا وہابی۔ یہ تقلید ائمہ اور سلاسل صوفیہ سے انتساب کے خلاف ہیںبلکہ بسا اوقات اسے شرک قرار دیتے ہیں۔ مذکورہ بالا سروے رپورٹ میں اسی طبقے کو اسلامی بنیاد پرست کہا گیا ہے جو پوری اسلامی دنیا کی۳؍ فیصد آبادی پر مشتمل ہیں جس میںخمینی افکار سے متاثر بعض شیعی حضرات بھی ہیں۔
ان دونوں طبقات میں سے ہر ایک کا اپنے اپنے بارے میں اصرار ہے کہ وہی حقیقی سنی ، السواد الاعظم اور مااناعلیہ واصحابی اور فرقۂ ناجیہ کا مصداق ہے۔ ان دونوں طبقات میں سے ہر ایک کی دعوت و تبلیغ کے علاحدہ محور ہیں۔
۱۔ سلفی حضرات کی دعوت کا محور توحید ہے۔
۲۔ صوفی حضرات کی دعوت کا محور تعظیم انبیا واولیا ہے۔ 
اس کے ساتھ دونوں طبقات میں سے ہر ایک کا دوسرے پر ایک مرکزی اعتراض ہے:
۱۔ سلفی حضرات صوفیہ کو صحیح معنوں میں موحد نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ صوفیہ ائمہ کی تقلید اور بزرگوں کی تعظیم و توقیر میں غلو کرتے ہوئے مشرک ہوچکے ہیں۔
۲۔ صوفی حضرات سلفیہ کو گستاخ رسول اور انبیا و اولیا کی بارگاہ کا بے ادب سمجھتے ہیں۔ اور گستاخی کی بنیاد پر انہیں کافر سمجھتے ہیں۔
سلفی حضرات کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ شریعت کے ظاہری احکام کی پیروی میںسخت اور پابند واقع ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ وہ شریعت کے باطنی پہلو کا سرے سے انکار کرتے ہیں جب کہ صوفیہ کا ارتکاز شریعت کے باطنی پہلووں پر زیادہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ وہ شریعت کے ظاہری احکام کی ادائیگی میں بسااوقات متساہل نظر آتے ہیں۔ اس اختلاف فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ سلفی اپنی ظاہر داری کے ساتھ بڑے ہی خشک طبع، اصرار مزاج، متشدد اور جنگ جو نظر آتے ہیں۔ وہ بات بات پر دوسرے کو مشرک کہتے اور اس کے خلاف سیف و سنان اٹھانے کے لیے تیار دکھتے ہیں جب کہ صوفیہ بالعموم رواداری، تحمل اور اخلاق کے پیکر دکھتے ہیں ۔ وہ اخلاق اور تزکیۂ نفس پر زور دیتے ہیںلیکن اس کے ساتھ کتاب و سنت کے بالمقابل ملفوظات مشائخ پر متوجہ رہتے ہیں اور اسی طرح شرع کے ظاہری احکام کی پیروی میں متساہل نظر آتے ہیں۔
صوفیہ اور سلفیہ کے اس طرز فکرو عمل نے عالمی سطح پرعجیب و غریب کشمکش(Dilemma)پیدا کردیا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کے مابین تکفیر اور مشرک سازی کا بازار گرم ہے۔دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آتے ہیںاور موقع ملنے پر ایک دوسرے کا خون بہانے میں دریغ بھی نہیں کرتے۔ سلفیہ میں چوں کہ اصرار اورتشدد کے رجحانات نسبتاً زیادہ ہیں اس لیے اکثر ان کی طرف سے پیش قدمیاں ہوتی ہیں۔ تازہ خبروں کے مطابق سلفیت سے منسوب نوجوانوں نے مختلف ممالک میں کئی صحابہ کی قبریں بھی کھود ڈالیں۔ حضرت آمنہ کی قبر کے ساتھ سلفی سعودی حکومت نے چند سالوں قبل جو کچھ کیا اسے بھی اس ضمن میں دیکھا جا سکتا ہے۔ان واقعات نے جہاں مسلمانوں کو توڑا ہے ، داخلی نفرت و عداوت میں اضافہ کیا ہے، سیاسی اور سماجی طور پرمسلمانوں کو کمزور کیا ہے، وہیں اسلام اور مسلمانوں کی منفی تصویر پیش کر کے اسلام کی دعوت و تبلیغ کی راہ میں دشواریاں پیدا کی ہیں۔ ایسے حالات میں کہ مسلمانوں کے رخساروں پر مغربی طاقتیں مسلسل طمانچے رسید کر رہی ہیں، کیا اس کی ضرورت نہیں ہے کہ کسی حد تک صوفیہ اور سلفیہ آپس میں سمجھوتا کرلیں؟ افسوس ہے کہ اس سمت علما نہیں سوچ رہے ہیںلیکن اس کے ساتھ ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ حکمرانوں نے اس سمت قابل قدر پیش رفت کی ہے۔ سعودی شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز نے بین مذاہبی اور بین مسالکی مکالموں اور مفاہموں کی جو کوشش کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔شاہ عبد اللہ کا نومبر ۲۰۰۷ء میں پوپ بینڈکٹ(شانژدہم)سے ملاقات کرنااور مارچ۲۰۰۸ء میں بین مذاہبی مکالمے اور جون۲۰۰۸ء میں مسلم قائدین کی مکے میں کانفرنس کا انعقاد کرنا خوش آئند بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔
ایک بات واضح رہنی چاہیے کہ اس گفتگو سے میرا مقصد طرفین میں سے کسی کی طرف داری کرنا یا ان کے اختلافات کو غلط اور بے بنیاد کہنا نہیں ہے ۔ شیخ یوسف القرضاوی نے امت کے برے دن پر رحم کھاتے ہوئے بڑے وسیع تناظر میں یہ کہا ہے کہ ہم صوفیوں کو سلفی بننے اور سلفیوں کو صوفی بننے کی دعوت دیتے ہیں: 
ندعو الی تسلیف الصوفیۃ و تصویف السلفیۃ 
لیکن میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ وہ اپنے اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے دوسرے کے ساتھ کم از کم ایسا رویہ اختیار نہ کریں کہ اپنے ہی کندھوں پر امت کا جنازہ اٹھانے کا جرم کر بیٹھیں۔ دوسرے فریق کے لیے اتنی رواداری ہونی چاہیے کہ ہر فریق دوسرے کو قتل کرکے مغربی سازشوں کا حصہ اور یہودی ہاتھوں کا کھلونا نہ بن جائے۔ہم میں سے ہر شخص یہ شکوہ کرتا ہے کہ مسلمان یہودی سازشوں کا شکار ہیںلیکن ہم میں کوئی بھی اس پہلو پر نہیں سوچتا کہ اس سازش کوناکام کیسے کیا جائے؟شیخ رمضان البوطی جو گشتہ دنوں(۲۱مارچ۲۰۱۳ء کو )دمشق کی جامع مسجد میں درس قرآن دیتے ہوئے اور امت کے افتراق و انتشار پر دل سوز دعائیں کرتے ہوئے تشدد پسندوں کے بم حملے کا شکار ہوکر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے، انہوں نے سلفیت و صوفیت کی انتہاپسندانہ جنگ کو ختم کرنے کی راہ میں بڑی کوششیں کی تھیں۔ شیخ سید یوسف بن ہاشم رفاعی کی کتاب نصیحۃ لاخواننا علماء نجد کے مقدمے میں ڈاکٹر سعید رمضان بوطی نے اس حوالے سے اپنی نیک آرزووں اور کاوشوں کا ذکر کیا ہے۔ شیخ بوطی کے ساتھ ان کی آرزوئیں دفن نہیں ہونی چاہیے۔ جن لوگوں کے دل میں اسلام کی آفاقی دعوت و اشاعت اور مسلمانوں کا وقار عزیز ہے ان پر لازم ہے کہ شیخ رمضان البوطی کی آرزووں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں۔ انہوں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ عالم اسلام کے دس صوفی علما اور دس سلفی علما ایک میز پر بیٹھیں اور مکالمے کے ذریعے پر امن صلح یا معاہدے تک پہنچیں۔ اس ضمن میں انہوں نے کافی کوششیں کیں لیکن بقول ان کے سلفی علما نے مثبت ردعمل کا اظہار نہیں کیاجس کا انہیں بڑا قلق تھا۔ 
(۱۲) تصوف کی یرغمالی:-
تصوف دین کے تیسرے رکن احسان سے بحث کرتا ہے جس طرح عقیدہ ،ایمان سے اور فقہ، اسلام سے بحث کرتا ہے۔ حدیث جبریل میں ایمان و اسلام کے بعد احسان کا سوال ہے ۔ حضرت جبریل نے عرض کی:
اخبرنی عن الاحسان؟
اے اللہ کے رسول!احسان کے بارے میں بتائیے؟
اس سوال کے جواب میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک۔
احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر یہ نہ ہو تو اس طور پر کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
حدیث جبریل کے پورے سیاق پر نظر رکھیے تو معلوم ہوگا کہ دین اللہ و رسول، آسمانی کتابوں اور فرشتوں، آخرت اور قضا و قدرپر ایمان کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیںکہ آدمی توحید و رسالت کی گواہی دے اور نماز و روزہ اور زکاۃ و حج ادا کرے۔ ان دونوں مرحلوں کے بعد احسان کا نمبر آتا ہے۔ یہ در اصل گزشتہ دونوں مرحلوں کو بتمام و کمال کرنے کا نام ہے۔ اس کے لیے دو طریقے بتائے گئے ہیں:
۱۔عبادت یا وسیع مفہوم میں احکام الٰہی کے اتباع کے وقت یہ احساس رکھنا کہ گویا میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ اتباع شریعت کی کامل ترین شکل ہے۔
۲۔ عبادت یا وسیع مفہوم میں احکام الٰہی کے اتباع کے وقت یہ احساس رکھنا کہ یقیناً اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ یہ اتباع شریعت کی کامل شکل ہے۔
تصوف کی حمایت کرنے والے تصوف کو الاحسان کا بدل قرار دے کر لفظوں کی تبدیلی کے ساتھ تصوف کی تفصیل اسی انداز سے کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ بعض اہل علم اس میں اخلاق اور خدمت خلق کا بھی اضافہ کرتے ہیں۔ اس تشریح کو سامنے رکھیے تو تصوف کی حقیقت اور تصوف کی یرغمالی دونوں سے پردہ اٹھ جاتا ہے۔اس تشریح کی روشنی میں تصوف نام ہے:
٭ کامل ترین شکل میں احکام الٰہی کے اتباع کا۔ اس طور پر گویا بندہ اپنے مولیٰ کو دیکھ رہا ہو۔ ظاہر ہے کہ جو شخص ہر وقت خدا کو اپنے سامنے تصور کرے گا اور ایک جہت سے مشاہدۂ حق کی لذت سے لطف اندوز ہوگا اس کا عمل ریا اور معصیت سے مکمل پاک ہوگا۔
٭یا کامل شکل میں احکام الٰہی کے اتباع کا، اس یقین کے ساتھ کہ مولیٰ اپنے بندے کو دیکھ رہا ہے۔ظاہر ہے کہ جو شخص ہر وقت اس یقین پر ہو کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے اور ایک جہت سے مراقبۂ حق کی لذت سے لطف اندوز ہورہا ہو، اس کا عمل ریا اور معصیت سے یقیناً پاک ہوگا۔
٭ اس کے ساتھ تصوف خلق عظیم کے اتباع کا طالب ہے۔ اسی لیے بعض صوفیہ نے کہا ہے کہ پورا تصوف اخلاق کا نام ہے۔لہٰذا جو تم سے اخلاق میں بڑھا ہوگا وہ تصوف میں بھی بڑھا ہوگا۔
 التصوف کلہ اخلاق فمن زاد علیک بالاخلاق زاد علیک بالتصوف۔
حضرت جنید بغدادی تصوف کی تعریف میں فرماتے ہیں:
الخروج عن کل خلق دنی والدخول فی کل خلق سنی۔
ہر پست اخلاق سے بلند ہونے اورہر عمدہ اخلاق سے آراستہ ہونے کا نام تصوف ہے۔
٭ اس کے ساتھ تصوف خدمت خلق پر آمادہ کرتا ہے اور الخلق عیال اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔شیخ سعدی نے کہا ہے:
طریقت بجز خدمت خلق نیست
بہ تسبیح و سجادہ و دلق نیست
تصوف کی یہ حقیقت سامنے رکھیے تو پھر یہ حقیقت بھی بے نقاب ہوجاتی ہے کہ تصوف کی یرغمالی ہوئی ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔
۱۔ تصوف ایمان کامل کا تقاضا کرتا ہے جب کہ آج لفظ صوفیہ کا استعمال سلفیہ کے بالمقابل ہونے لگا ہے۔ظاہر ہے ائمۂ اربعہ کی تقلید کے وجوب اور کسی سلسلۂ طریقت سے انتساب کے جواز کے تمام قائلین ایمان کامل کے پیکر نہیں ہوسکتے۔گویا آج محبین صوفیہ کو صوفیہ کہا جانے لگا۔
۲۔ تصوف یا احسان کا مقام ایمان و اسلام کے بعد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ جو لوگ اپنے آپ کو صوفی کہیں وہ صرف مومن ہی نہ ہوں بلکہ ارکان اسلام نماز و روزہ اور زکاۃ و حج کے بھی پابند ہوں۔ حالاں کہ واقعہ بالعموم اس کے خلاف ہے۔۳۔ تصوف یا احسان؛ اخلاص، بے ریائی، ہمہ وقت اللہ کے حاضر و ناضر ہونے کا احساس اور معصیت سے یکسر گریز چاہتا ہے۔جو لوگ اپنے آپ کو صوفی کہتے ہیں وہ اپنا احتساب کرلیں۔
۴۔ حضرت جنید بغدادی کی تعریف کے مطابق تصوف ہر پست اخلاق سے بلند ہونے اورہر عمدہ اخلاق سے آراستہ ہونے کا نام ہے۔ ماضی میں جو لوگ صوفی کہے جاتے تھے وہ پیکر اخلاق ہونے کے سبب صد فی صد اس کے مصداق تھے کہ انہیں صوفی کہا جاتا۔ یہ تناسب آج کتنا باقی رہ گیا ہے بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
۵۔ شیخ سعدی کے بقول تصوف خدمت خلق کا نام ہے ۔ماضی میں صوفیہ کی دل چسپی کا یہ ایک اہم باب تھا۔ وہ خلق خدا کی سعادت دارین کے لیے متفکر اور عامل ہوتے۔ وہ اپنے ملنے والوں کے حالات دریافت کرتے۔ آج معاملہ الٹا ہوچکا ہے۔ آج صوفی کہے جانے والے حضرات اپنے ملنے والوں کی جیب دریافت کرتے ہیں۔
ان تمام نکات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ 
۱۔سلفیہ کے بالمقابل لفظ صوفیہ کا استعمال ایک جدید اصطلاح تو ہوسکتی ہے، لیکن اس اصطلاح کا حقیقت تصوف سے کوئی خاص تعلق نہیںہے۔
۲۔ بے ایمان، بے عمل ، بد اخلاق، ریاکار، خلق خدا کو لوٹنے والے درگاہی مجاوروں کو صوفی کہنا یا سمجھنا تصوف حقیقی کو ذبح کرنا ہے۔ ان کے بارے میں تو صرف وہی کہا جاسکتا ہے جو اقبال نے کہا:
قم باذن اللہ کہہ سکتے تھے جو رخصت ہوئے
خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن
کیا ستم ہے کہ قادریت کا دم بھرنے والے استقامت علی الشریعۃ سے بے بہرہ ہیں، خواجہ کے نام پر دیگیں پکانے والے خواجہ کے مشن سے غافل ہیں،جس مسند پر بیٹھ کر صوفیۂ کرام دین و دنیا کی دولت تقسیم کررہے تھے اس مسند پر بیٹھنے والے ڈال خواجہ کی دیگ میں اور دے مخدوم کے نام پر کی ضربیں لگا رہے ہیں۔ ان تمام منفی صورتوں میں ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ آج بھی تقریباً ۹۰؍فیصد مسلم آبادی تصوف پسند اور محب صوفیہ ہے۔ ان کی قیادت کرنے والے اگر آج صوفیہ کا نعرہ لگانے کے بجائے صوفیہ کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کرلیں تو پھر دعوت و اصلاح کے اس انقلاب کو کون روک سکتا ہے جسے صوفیہ نے بے روک ٹوک دارالاسلام و دارالحرب ہر جگہ بلند کیا اور مخلوق کو خالق سے جوڑنے کا گراں قدر کارنامہ انجام دیا؟
(۱۳) اہل سنت کی تشریح میں ابہام:ـ
حدیث افتراق امت حدیث کی متعدد کتابوں میںمختلف طرق سے منقول ہے، مثلاابن ماجہ نے کتاب الفتن،باب:افتراق الامم میں حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بنی اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت بہتر فرقوںمیں بٹ جائے گی۔اس کے بعد ان بہتر کا انجام بتاتے ہوئے فرمایا:کلہا فی النار الا واحدۃ وہی الجماعۃ
بہتر فرقوں میں سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے۔اس حدیث سے واضح طور پر اہل حق گروہ کی نشان دہی ہو جاتی ہے، وہ اس طور پر کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ جتنے گروہ ہوں گے وہ سب فرقے ہوں گے۔جماعت ان میںفقط ایک ہوگی اور وہی نجات یافتہ اور جنتی ہوگی۔یہ حدیث اہل حق کی اتنی آسان شناخت کرادیتی ہے کہ فرقوںکے بیچ جماعت کی شناخت واضح ہوجاتی ہے۔ بعض روایتوں میں یہ بھی منقول ہے کہ صحابہ نے آپ سے دریافت کیا کہ وہ ایک گروہ جو ناجی ہوگا وہ کون سا گروہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس گروہ کی شناخت یہ ہے کہ وہ میرے اور میرے صحابہ کے طریق پر ہوگا۔ان کا طریق ما انا علیہ واصحابیہوگا۔ان ہی دونوں ٹکڑوںکو جوڑ کر علما نے اہل حق کو اہل سنت و جماعت کے نام سے موسوم کیا ہے۔
آج روئے ارضی پر کلمہ خوان محمد مختلف ٹکڑیوںاور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور سب کا دعویٰ یہ ہے کہ وہی ایک ناجی گروہ ہیں۔وہی جماعت ہیں، وہی ماانا علیہ واصحابی کے مصداق ہیں اور وہی سچے اہل سنت و جماعت ہیں۔ہر فرقے کی طرف سے یہ ادعا اس زور و شور سے ہے کہ آج فرقوںمیںجماعت کا تصور گم ہو کر رہ گیا ہے۔ایک عام سائل جو حق کا متلاشی ہے وہ حیران و پریشان ہے کہ وہ کس گروہ کے ساتھ خود کو وابستہ کرے کیوںکہ وہ جس کے پاس بھی جاتا ہے اسے یہی کہا جاتا ہے کہ ہم ہیںمااناعلیہ واصحابی کے علم بردار،ہم ہیںاہل حق، باقی سب باطل ہیں اور اس طرح ایک عام سائل کی پریشانیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔
یہاںایک دوسرا مسئلہ بھی ہے اور وہ یہ کہ فرقہ پرستی کا جنون اس شباب پر ہے کہ اب مزاج یہ بنتا جا رہا ہے کہ ہر عالم اپنے سے اختلاف رکھنے والے عالم کو ایک نئے فرقے کا بانی اور بزعم خویش خود کو فرقۂ ناجی کا نمائندہ تصور کرتا ہے۔اس تصور سے امت مسلمہ میں تفریق در تفریق پیدا ہوتی جا رہی ہے، اگر اس تصور کو جواز فراہم کر دیا جائے تو پھر امت کے لیے بہتر ہی نہیںبہتر ہزار گھروندے بھی تنگ پڑ جائیںگے۔
مذکورہ دونوں مسائل کا حل صرف اسی وقت ممکن ہے جب اس سوال کا واضح جواب آجا ئے کہ امت محمدی کے مختلف گروہ میں اہل حق کا گروہ کون سا ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ اس سوال کا جواب بڑی حد تک صرف اسی حدیث میں مضمر ہے جسے میں نے اوپر نقل کیا ہے کہ بہتر فرقوںمیںسب جہنمی ہوںگے سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے۔ اس سے واضح ہو گیا کہ جو گروہ جہنمی نہیںہوگا وہ فرقہ نہیںہوگا ،وہ جماعت ہو گا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے مختلف گروہوںمیں صرف وہی گروہ جنتی ہے جو جماعت ہے۔اور وہ ایک ہے۔باقی سب فرقے ہیںاور وہ جہنمی ہیں ۔اب اس کے بعد صرف ایک مرحلہ رہ جاتا ہے اور وہ یہ جاننا کہ جماعت کون ہے اور فرقہ کیا ہے اور فرقوںکے بالمقابل جماعت کی شناخت کیوںکر ہو؟
واضح سی بات ہے کہ جماعت میںکثرت کے معنی ہیں اور فرقہ میںگروہیت کے معنی ہیں ۔ایسے میں اسلام کے منتسبین میں جماعت صرف اسی کو کہا جا سکتا ہے جو اسلام کے نام لیوائو ںمیںسب سے زیادہ کی تعداد میں ہے۔اس کے علاوہ دیگر چھوٹی ٹکڑیاں فرقے اور جہنمی ہیں۔ جماعت جمع سے مشتق ہے جس سے اجتماع بنا ہے اور فرقہ، فرق سے مشتق ہے جس سے افتراق بنا ہے۔اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جماعت وہ ہوگی جو ہمیشہ اجتماعیت چاہے گی، وہ مسلمانوںکو جوڑنے کی بات کرے گی، جب کہ فرقہ وہ ہوگا جو ہمیشہ افتراق کی بات کرے گا، مسلمانوں کو توڑنے کے درپے ہوگا۔ جماعت میںشمولیت کا مفہوم ہے جب کہ فرقہ میں تحزب اور علیحدگی پسندی کا مفہوم۔جماعت اور فرقے کے یہ معنی نگاہوں میںرکھیے اور امت محمدی ہونے کے مدعی گروہوں کا ایک حقیقت پسندانہ سروے کر لیجئے، فرقوںمیںجماعت کی شناخت ہو جائے گی اور اہل حق، اہل باطل سے واضح طور پر ممتاز نظرآئیں گے اور ان مدعیان حقانیت کی قلعی بھی کھل جائے گی جو چند سروںکو لے کر خود کو ماانا علیہ و اصحابی کا مصداق سمجھ بیٹھے ہیں۔ہم اپنی بات کو مزید مدلل کرنے کے لیے یہاںچند احادیث نقل کرتے ہیں۔
۱۔حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دو ایک سے بہتر ہے اور تین دو سے بہتر ہے اور چار تین سے بہتر ہے۔لہٰذا تم پر لازم ہے کہ جماعت کے ساتھ رہو؛ کیوںکہ اللہ عز وجل میری امت کو ہدایت کے سوا کسی اور چیز پر کبھی جمع نہیں فر مائے گا۔ (مسند احمد ابن حنبل۵/۱۴۵۔ حدیث: ۲۱۳۳۱)
۲۔حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ،اس لیے جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (سب سے بڑی جماعت)کی پیروی کرو۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن،باب السواد الاعظم)
۳۔حضرت عبد اللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ کاہاتھ جماعت پر ہے۔لہٰذا سواد اعظم کا اتباع کرو؛ کیوںکہ جو اس سے الگ ہوا وہ جہنم میںجا گرا۔ (مستدرک للحاکم،۱/۱۹۹،حدیث:۳۹۱)
ان احادیث کو حدیث ما انا علیہ و اصحابی کے ساتھ جوڑ کر دیکھئے تو حقیقت پورے طور پر بے نقاب ہوکر سامنے آجائے گی اور اہل سنت و جماعت کی تفہیم کے حوالے سے لوگوںکے ذہن میںجو ابہام پایا جاتا ہے وہ ان شاء اللہ دور ہو جائے گا۔ہمارے یہاںبالعموم احادیث کی ان تمام روایتوںکو جوڑ کر دیکھنے کا رواج نہیں ہے جس کی وجہ سے ہمارے اندر اہل حق اور ما انا علیہ و اصحابی کے مصداق ہونے کا حسن ظن جتنا زیادہ ہے اس کے بالمقابل جماعت اور اجتماعیت کا تصور اتنا ہی کم ہے۔عالم اسلام کے تمام اہل سنت و جماعت کا فرض ہے کہ وہ ایک طرف ما انا علیہ و اصحابی کو سامنے رکھتے ہوئے طریق مصطفی اور سنت صحابہ کی پیروی کو دل و جا ن سے زیادہ عزیز رکھیںاو ر دوسری طرف علیکم بالجماعۃ کا پاس رکھتے ہوئے آج روئے زمین پرفکری طور پر مسلمانوں کا جو سب سے بڑا طبقہ ہے اس سے جڑنے اور اسے جوڑنے کی کوشش کریں اور ہر ممکن حد تک تفریق اور شذوذ کی لعنتوںسے خود کو بچائیںتاکہ یہ اجتماعیت کل آخرت میںبھی ان کے کام آئے اور دنیا میںبھی کامیابی و سرخ روئی کی ضمانت بنے۔
(۱۴) قصۂ جدید و قدیم:-
علامہ اقبال نے ایک صدی پیشتر کہا تھا ــ:
زمانہ ایک ،حیات ایک ،کائنات بھی ایک
دلیل کم نظری قصۂ جدید و قدیم 
 علامہ اقبال بیسویں صدی کے اوائل میں تھے۔اس وقت مشرق میں مغرب کی درآمد ابتدائی مراحل میں تھا۔مغربی تعلیم و ثقافت کے ساتھ مغربی صنعت و تجارت ،سائنس وٹکنالوجی اور طرز حکومت و ریاست سب کی در آمد شروع ہو گئی تھی۔مغربی ثقافت اور مسیحی افکار و نظریات بالعموم مشرق مخالف تھے ،جس کی وجہ سے اہل مشرق میں مغرب کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوگئے۔ اس نفرت نے بقول شخصے اہل مشرق کو انگریز وں کی مخالفت کے بجائے انگریزی کی مخالفت پر آمادہ کر دیا ۔چنانچہ انگریزی تعلیم کے خلاف اس عہد میں جن تحریکات کا ظہور ہوا وہ اسی مخالفانہ نظریات کا نتیجہ تھے۔اسے مسلم اہل دانش کی سادگی کے سوا اور کیا کہا جائے کہ وہ سائنس اور ٹکنالوجی کو بھی اسلام اور مسلمانوں کا دشمن تصور کرنے لگے تھے۔آج بھی اس قسم کے اہل دانش سے ملنے کاکبھی کبھی اتفاق ہو جاتا ہے۔بر صغیر میں سر سید نے ایک ہاتھ میں قرآن ،دوسرے میں سائنس اور پیشانی پر کلمہ طیبہ سجانے کی بات کی تھی۔یہ بات امت کو بہت دیر میں سمجھ میں آئی۔یہ سچ ہے کہ قانون فطرت کے حوالے سے سرسید کی بعض تشریحات ایک مسلمان کے لیے ناقابل تسلیم تھے لیکن ان نظریات کو بنیاد بناکر سائنس اور ٹکنالوجی سے مسلمانوں کا متوحش ہوجانا قابل حیرت و افسوس ہے۔ اخذ و استفادہ کے حوالے سے اسلام کے نقطہاے نظر :الْکَلِمَۃُ الْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُوْمِنِ فَحَیْثُ وَجَدَہَا فَہُوَ اَحَقُّ بِہَا (الترمذی)اورخذ ما صفا و دع ما کدر (قول حکمت)واضح ہوجانے کے باوجود مسلمانوں کے اندر اس قسم کا توحش یقینا حیرت انگیز ہے۔اس توحش کے نتیجے میں امت میں قدامت پسندی اور روشن خیالی کا جو فکری تصادم شروع ہوا وہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے ۔خاص طور سے علما کے بارے میں عوامی سطح پر ایک رائے بن گئی ہے کہ وہ ہر نئی چیز کی مخالفت کرتے ہیں ،پھر جب کافی تاخیر ہوجاتی ہے تو پھر اس نئی چیز کے جواز بلکہ حمایت کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔علامہ اقبال علم و فکر کے اس منفی رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے گویا ہیں :
وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم
کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم
زمانہ ایک ،حیات ایک،کائنات بھی ایک
دلیل کم نظری قصۂ جدید و قدیم 
وہ علم،کم بصری جس میں ہمکنار نہیں
تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم
بد قسمتی سے جدید وقدیم فکری کا تصادم ہنوز جاری ہے ۔اس تصادم کے سبب عصر جدید میں دعوت دین کی راہ میں مسلمان خود ہی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔دین کی عصری تفہیم، تبلیغ دین کے لیے جدید ذرائع کا استعمال ،جدید ماحول میں دین کی تبلیغ،تبلیغ دین کے لیے عہد عباسی اور عہد عالم گیری کے فتا وی سے اختلاف ،داعی کی زبان و لباس، جمہوریت کے عہد میں بعض نئے مصالح کا خیال،یہ اور اس قسم کے بے شمار مسائل ہیںجو خود مسلمانوں کے درمیان متنازع ہو گئے اور مسلمانوں کی توجہ غیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ سے زیادہ ان موضوعات کی تحقیق وتحلیل پر مرکوز ہو کر رہ گئی ۔بیسویں اور اکیسویں صدیاں سائنس اور جمہوریت کی صدیاں تھیں۔مسلمانوں نے ان دونوں کے تعلق سے اپنا موقف واضح کرنے میں بڑا وقت لگادیا،اس سے دین کی دعوت کا جو نقصان ہوا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔مسلم دعاۃ و مبلغین کو اب یہ طے کرلیناچاہیے کہ اسلام میں جدید و قدیم کا کوئی تصور نہیں ہے۔رہا آیت کریمہ الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ (المائدۃ: 3)میں اتمام دین کا اعلان اورحدیث رسول کل بدعۃ ضلالۃ(مسند احمد بن حنبل (4/ 126) میں دین میں اضافے پر وعید تو یہ خالص دینی احکام و فرائض کے تعلق سے ہے۔واجبات و احکام شرع میں اضافے کی گنجائش نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر نئی چیز گمراہی ہے خواہ اس کا تعلق بشمول سائنس اینڈ ٹکنالوجی کسی بھی میدان سے ہو ۔ہر نئی چیز کو اسلام کے مخالف سمجھنا، اسلام پر ایک تہمت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
اسلام میں احکام اسلامی کی وضاحت و تفصیل کے بعد غیر منصوص چیزوںکے بارے میں ایک کھلا موقف ہے۔اور وہ یہ کہ ہر اچھی چیز کو لے لیں اور ہر بری چیز کو رد کر دیں۔خذ ما صفا و دع ما کدر اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسلام میں اس جہت سے صرف ایک تقسیم ہے،نافع اور غیر نافع۔اکیسویں صدی کے داعیوںاور مبلغوں کا فرض ہے کہ وہ اس تقسیم کو یاد رکھیں۔ہر اس چیز کو لینے سے بچیں جس سے اسلام اور مسلمانوں کو کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ ہو اور ہر اس چیز کو بے محابہ گلے لگا لیں جو ان کے لیے نافع ہواور جہاں نفع و ضرر دونوں جمع ہوں وہاں غور کریںکہ غالب کون سا پہلو ہے،احتیاط کس میں ہے اور نتیجے کے اعتبار سے بہتری کس میں ہے؟اس قسم کے فیصلوں کے وقت صورت حال کے ساتھ صورت استقبا ل کو بھی ملحوظ و متصور رکھیں۔
 (۱۵) جمہوریت سے ناآشنائی:-
پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے لیے ایک مکمل رول ماڈل بن کر تشریف لائے-ان کے کردار کو قرآن نے اسوۂ حسنہ( The Best Role Model)سے موسوم کیا- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت و حکومت کا بھی ایک مکمل نظام پیش کیا -  آپ کے بعد آپ کے چار خلفا کی خلافتوں کے بارے میںامت کا اتفاق ہے کہ یہ خلافتیں علی منہاج النبوۃ(On the Path of the Prophethood) اور روئے زمین کی بہترین حکومتیں تھیں-اس عہد کو خلافت راشدہ اور خالص اسلامی حکومت کا عہد بھی کہا جاتا ہے- اس حوالے سے امت کے متفق علیہ حقائق کو سامنے رکھیے تو اسلامی حکومت کے خد و خال کچھ اس طرح سامنے آئیں گے:
(۱)شورائی نظام:  وامرھم شوریٰ بینھم(الشوری:۳۸)
(۲)نظام امارت: اطیعوااللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم(نساء:۵۹)
(۳)انتخاب امیر کی مختلف صورتیں:
(الف)باشعور مسلمانوں کا انتخاب ،جیسے حضرت ابو بکر کا انتخا ب-
(ب)امیر المومنین کی طرف سے موزوںجانشین کی نام زدگی، جیسے حضرت عمر کی نام زدگی-
(ج)امیرالمومنین کی طرف سے چندقابل و ممتاز اشخاص کی نامزدگی،جو آپس میں کسی کو امیر منتخب کریں،جیسے حضرت عثمان کا انتخا ب-
(د)عامۃ المسلمین کی طرف سے اجتماعی انتخاب ،جیسے حضرت علی کا انتخاب-
(۴)نظام عدالت :قرآن،سنت،اجماع اور اجتہاد پر مبنی-
اسلامی خلافت یا حکومت کے یہ چار متفق علیہ عناصر ہیں-ان کو سامنے رکھیے تو پھر مطلق العنان،نسل پرست،لادینی ،اشتراکی، سرمایہ دارانہ،عوامی جمہوریت اور ان جیسی تمام حکومتیں غیر اسلامی ٹھہر تی ہیں- اس لیے کہا جاتا ہے کہ خلفاے اربعہ کے بعد خلافت علی منہاج النبوۃ کا دور ختم ہوگیا-بعض حضرات اس میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے عہد خلافت کو بھی جوڑتے ہیں جو ۶؍ مہینوں پر مشتمل ہے۔
خلافت راشدہ کے بعد خلافت اموی، خلافت عباسی،خلافت فاطمی،حکومت مغلیہ،سلطنت عثمانیہ اور اس طرح کی کسی بھی سلطنت و حکومت کو اسلامی کہنا بہت مشکل ہے۔ان ادوار میںظلم و جبر کی بعض ایسی داستانیں بھی ہیں جو ننگ انسانیت ہیں ۔لیکن اس کے باوجود مسلم علما،محدثین،فقہا اور صوفیہ نے ان ادوار میں حکومتوں کے خلاف اعلان جنگ کرنے کے بجائے بالعموم اپنا مثبت کردار ادا کیا اور علم و تحقیق ، حدیث و فقہ اور دعوت و تبلیغ کا سلسلہ حکومتی اور غیر حکومتی سطح پر جاری رہا۔
سولہویں صدی عیسویں میں یورپ کی نشأۃثانیہ کے بعد سلطنت وحکومت کے مختلف نظریات سامنے آئے۔ ان نظریات میں نظریۂ جمہوریت بیسویں صدی کے وسط تک دنیا کا غالب اور مقبول ترین عملی نظریہ کے طور پر سامنے آیا۔یہ وہ دور تھا جب مسلمان عالمی سطح پر حالت مغلوبی میں تھے۔جمہوریت ،عوامی آزادی اور حکومت میں عوامی اشتراک پر مبنی طرز حکومت ہے۔مسلمانوں کے عہد مغلوبیت میں جمہوریت کا غلبۂ عام انہیں اس بات کا پورا موقع دے رہا تھا کہ وہ اظہار فکر و رائے کا مثبت استعمال کرتے ہوئے دین حق کی دعوت و تبلیغ میں لگ جائیں۔اس کے برخلاف مسلمانوں نے وہ کام کرنا شروع کیا جو نہ ان کا تھا اور انہ ان کے بس کا تھا۔مسلم مفکرین جمہوریت کے خلاف یہ اعلان کرنے لگے کہ یہ طاغوتی نظام ہے، اس میں مقتدر اعلی خالق کے بجاے مخلوق کو بنا دیا گیا ہے۔جمہوریت کے خلاف اس قسم کے احتجاج نے مسلمانوں کے ذہن کو جمہوریت کے حوالے سے مشکوک و مشتبہ،عملی لحاظ سے انہیں غیر داعی،فکری لحاظ سے متشدد اور حکومت کی نظر میں باغی اور مجرم بنا دیا۔جمہوریت کے خلاف ڈھول پیٹنے والے مفکرین نے نہ جانے کیوں ان نکات پر غور نہیں کیا کہ:
ا۔اگر مغرب کی جمہوری حکومت غیر اسلامی ہے تو مشرق کی شخصی اور مطلق العنان حکومتیں کون سی اسلامی ہیں؟پھر جو لوگ جمہوریت کے خلاف چیخ رہے تھے ،وہ مطلق العنانیت کے سامنے خاموش کیوں تھے؟
۲۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق آپ کے تیس سالوں کے بعد خلافت و رحمت کا زمانہ ختم ہوگیا،اور پھر بادشاہت و جبر کا زمانہ آگیا۔بادشاہت اور جبر کا یہ عہد تقریباً ڈیڑھ ہزار سالوں پر محیط ہے۔اس پورے عہد ظلم و جبر میں مسلم علماو مبلغین کا جو طریق فکر و عمل تھا، اس سے عہد جمہوریت میں انحراف کس منطق کا نتیجہ ہے؟
۳۔جمہوری حکمراں بالعموم غیر مسلم حکمراں تھے ، جیسے امریکا اور برطانیا کے حکمراں۔پھر ان کی حکومتوں کے اسلامی اور غیر اسلامی ہونے کی بحث چہ معنی دارد؟جو لوگ اسلام کو ہی تسلیم نہیں کرتے ان سے اسلامی حکومت تسلیم کرانے کے کیا معنی؟
۴۔ بعض جمہوری حکمراں مشترکہ طور پر مسلم وغیر مسلم دونوں تھے،جیسے ہندوستانی حکمراں۔ تو جب حکومت میں غیر مسلم برابر کے شریک ہوں تو ایسی صورت میں قرآن کو دستور اساسی تسلیم کرانے کا مطالبہ کس منطق کی دین ہے؟حلف الفضول، میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا تھا؟ کیا غیر مسلم معاہدین کو بھی اسلام کا پابند بنایا تھا۔
۵۔رہے وہ جمہوری ممالک جہاں عوام اور حکمراں سب مسلمان تھے یا اکثریت میں تھے جیسے پاکستان تو وہاں پریقینی طور پر کتاب و سنت کو حکومت کی بنیاد تسلیم کیا گیا تھا،پھر ایسی حکومتوں کو بھی طاغوتی حکومت کہنے کے کیا معنی ؟ 
اگر جمہوری حکومتیں صرف اس لیے ناقابل قبول ہیں کہ وہ اسلام کی آئیڈیل حکومت نہیں ہیںتو پھر توخلافت راشدہ کے بعد کوئی حکومت قابل قبول نہیں ہونی چاہیے؟؟
سطور بالا میں یہ بات آچکی ہے کہ عہد جمہوریت میں عالمی سطح پر مسلمان علمی اور سیاسی لحاظ سے مغلوب تھے۔ان کے لیے اظہار فکر ورائے کی آزادی ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھی۔جمہوریت کے خلاف مسلم مفکرین کی منفی فکر نے اس نعمت کو بے قدر کردیا۔وہ آزادانہ دعوت و تبلیغ کے بجائے حکومتوں کے طاغوتی عناصر تلاشنے لگے اور مسلم نوجوانوں کو بند کمروں میں بٹھا کر بلی کے خلاف چوہوں والی منصوبہ بندی کرنے لگے۔پروفیسر خالد حامدی استاذ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی نے اپنے رسالہ اللہ کی پکار میںتو یہاںتک لکھ دیا کہ ہندوستان میں ووٹ دینا شرک ہے۔میںنے جام نور کے توسط سے موصوف سے سوال کیا تھا کہ یہ بھی کیا منطق ہے کہ آں جناب حکومت ہند کی ملازمت کرکے لاکھوں روپئے ماہانہ وصول کریں تو وہ مومن و متقی بنے رہیںاور ہندوستان کا عام مسلمان اپنی معاشی و معاشرتی فلاح کے لیے کسی لیڈر کے انتخاب کے لیے ووٹ دے تو وہ مشرک ہو جائے؟…ع
ببیں تفاوت رہ ازکجا ست تا بکجا
خالد حامدی کا نام ایک مثال ہے۔ورنہ اس طرح کے سیکڑوں صاحبان فکرو قلم مسلمانوں کو جمہوری حکومتوں سے سر ٹکرانے کی دعوت دے رہے ہیں ۔المختصر جمہوریت سے ناآشنائی نے مسلمانوں کو عہد جمہوریت میں داعی کے بجائے باغی بنا دیا۔’رسی جل گئی مگر بل نہیںگئی ‘کے مصداق وہ جمہوری عہد میں بھی عباسی اور عالم گیری ذہن سے سوچنے کے عادی ہوچکے ہیں۔یہ پہلو مسلمانوں کے سنجیدہ غور و خوض کا طالب ہے۔
(۱۶) ملی اختلاف:-
ملی اختلاف سے ہماری مراد مسلمانوں کے مشترکہ کاز کے لیے مختلف مکاتب فکر کا عدم اتحاد ہے ۔اس وقت مسئلہ صرف ملی اختلاف کا نہیں ہے ،اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ملی اتحاد کو ناجائز و حرام سمجھتا ہے۔وہ نہ صرف ملی اتحاد کی ضرورت و اہمیت اور افادیت کا منکر ہے بلکہ اسے اپنی مسلکی شناخت اور مشربی حمیت کے خلاف سمجھتا ہے۔ملی اتحاد کے فوائد کیا ہیں اس کے لیے صرف دو مثالیں سامنے رکھئے۔
(الف)۶۲؍ سالہ خاتون شاہ بانو کو اس کے شوہر محمد احمد خاں نے   ۱۹۷۵ء میںاپنے گھر  سے نکال دیا۔بعد میں جب ۱۹۷۸ء میں شاہ بانو نے محمد احمد کے خلاف ایک مقدمہ درج کرایا جس میں شوہر سے ۵۰۰ سو روپے نفقہ کا مطالبہ کیا گیا تھا، محمد احمد خان نے شاہ بانو کو طلاق دے دی۔اور جب طلاق کے بعد بھی اس سے نفقہ کا مطالبہ ہوا تو اس نے کورٹ میں ایک کیس فائل کیا جس میں کہا گیا کہ شاہ بانو میری بیوی نہیں رہی اس لیے میں اس کے نفقہ کا ذمہ دار بھی نہیں۔سپریم کورٹ نے اس کی یہ فریاد رد کردی اور ۲۳؍اپریل ۱۹۸۵ء کو یہ فیصلہ دے دیا کہ محمد احمد خان کو تاحیات یا تا نکاح دیگر شاہ بانو کو نفقہ دینا پڑے گا۔عدالت عالیہ کا یہ فیصلہ اسلامی شریعت کے خلاف تھا اس لیے بلااختلاف مسلک و مشرب تمام ہندوستانی مسلمانوں نے اسے شریعت میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف متحدہ آواز بلند کی۔ نتیجے کے طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے احتجاج کے سامنے حکومت ہند کو پارلیمنٹ میں Act 1986 پاس کرنا پڑا۔اس ایکٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کردیا۔
(ب) پاکستان میں منکر ختم نبوت محمدی قادیانی جماعت کے بطور مسلمان، بڑھتے اثر ورسوخ کی بنیاد پر علما کو اس کے برخلاف متحد ہونا پڑا۔ یہ سال۱۹۷۴ء کی بات ہے جب پاکستا نی حکومت نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ۔اتنا بڑا فیصلہ آسانی سے نہیں ہو گیابلکہ اس کے لیے بریلوی،دیوبندی،اہل حدیث ،جماعت اسلامی اور اہل تشیع تمام مسلکی جماعتوں کو متحد ہونا پڑا تھا۔
ہندوستا ن و پاکستان کی یہ ایک ایک مثال یہ بتانے کے لیے کا فی ہے کہ ملی فیصلے کے لیے مسلمانوں کا ملی اتحاد کتنا ضروری ہے۔مذکورہ دونوں مثالیں تو اتفاقی اتحاد کی مثالیں ہیں۔ان کے علاوہ ہند و پاک میں ملی اتحاد کی کئی شعوری کوششیں بھی ہو چکی ہیںاور ان کا خاطر خواہ نتیجہ بھی سامنے آیاہے۔مثلا نظام مصطفی کے نفاذ کی راہیں ہموار کرنے کے لیے علامہ شاہ احمد نورانی بریلوی نے دیگر مسالک کے علما کے ساتھ مل کر۲۰۰۱ء میں متحدہ مجلس عمل( M.M.A)سیاسی پارٹی تشکیل دی۔۱۹۹۲ء کے ممبئی فسادات کے بعد علامہ سید حامد اشرف کچھوچھوی بریلوی نے دیگر مسالک کے علما کے ساتھ مل کر ممبئی میںعلما کونسل تشکیل دی۔لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ یہ دونوں شخصیتیں اپنے جماعتی حلقوں میں غیر مقبول ہو گئیں ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا ذہن ملی اتحاد کے لیے ابھی تیار نہیں ہوسکا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اب ہمارا ذہن کسی قدر توسع پسند ہونے لگا ہے۔ملی اتحاد کے خلاف پہلے جو شدید تیور تھا اب اس میں نرمی آئی ہے۔اب برف پگھل رہی ہے، اس کا ایک ثبوت اخبار کا یہ بیان بھی ہے:
’’جوگیشوری، تحریک اتحاد ملت کے عنوان سے منعقدہ پروگرام میں مقررین و علما نے اتحاد ملت پر زور دیا۔اور اسے وقت کا تقاضہ قرار دیا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے اتحاد ملت کو ہی تمام مسائل کا حل قرار دیا ۔دریں اثنا یہ بات بھی کہی گئی کہ فرقہ وارانہ فسادات میں ایک ہزار سے زائد سنی مسلمانوں کو فسادیوںنے مار دیا تھااس معاملے میںآج تک کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی ۔اس وقت مسلمانوں نے کسی قدر اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا اور قوم ایک پلیٹ فارم پر آگئی تھی اب وہ بھی ختم ہو تا جا رہا ہے۔جو افسوسناک ہے۔ اتحاد کونسل (بریلی )کے صدرمولانا توقیر رضا خان نے اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم قومی پیمانے پر مسلمانوں میں اتحاد کی کوشش کر رہے ہیں اور الحمد للہ آہستہ آہستہ کامیابی مل رہی ہے۔(روزنامہ انقلاب ،ممبئی،۳جون ۲۰۱۳ء)
واضح رہے کہ اس اجلاس میں مولانا سعود عالم قاسمی (صدر دینیات، علی گڑھ)عبد الجلیل مکی(نائب صدر صوبائی جمعیت اہل حدیث)اور مختلف مسالک کے دیگر علما و اہل دانش بھی شریک تھے جنہوں نے اتحاد امت کی ضرورت پر پرزور تقریریںکیں۔
 ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ ملی اتحاد کے خلاف سب سے شدید ذہن بریلی کا رہا ہے۔مگر خانوادۂ رضا بریلوی کے مولاناتوقیر رضا خان صاحب کا یہ بیان اس خیال کو کمزور کر رہا ہے۔ویسے بھی یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ مسلمان اس جمہوری عہد میں اتحاد کے بغیر فرقہ پرستوں سے مسجد کی حفاظت ،مدرسے کی تعمیر ،قرآن کا تحفظ ،ناموس رسالت کی پاسبانی اور مسلم پرسنل لا کی بقا جیسے مسلم مفادات کے لیے کوئی قابل قدر کارنامہ انجام نہیں دے سکتے ۔عمومی مسلم مفادات کا تحفظ عمومی ملی اتحاد کے بغیر ناقابل حصول ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔لیکن ہم اب بھی اس کے لیے پورے طور سے سنجیدہ نہیں ہوسکے ہیں۔
(۱۷) مسلم حکومتوں کی کس مپرسی:-
اسلامی کانفرنس تنظیم (منظمۃ التعاون الاسلامی/ Organization of Islamic Confrence)  ۵۷مسلم ممالک کی تنظیم ہے ۔Pew Research Centre کے سروے رپورٹ۲۰۱۰ء کے مطابق دنیا کے۴۹ممالک مسلم اکثریتی ہیں۔دنیا کی 23.4% یعنی تقریبا ایک چوتھائی آبادی مسلمانوں کی ہے جو1.6 بلین یعنی ایک ارب ساٹھ کروڑ افراد پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود ان کی علمی، فکری ،معاشی ،سماجی اور سیاسی حالت باعث تشویش ہی نہیںقابل رحم اور افسوس ناک بھی ہے۔۲۰؍جنوری۲۰۰۱ء کو امریکی قاتل جارج بش کی صدر نشینی کے ساتھ اکیسویں صدی کا ہیبت ناک آغاز ہوتا ہے۔ ۱۱؍ستمبر۲۰۰۱ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا ڈرامہ فلمایا جاتا ہے جس میں تقریبا ۳۰۰۰ جانوں کانقصان ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ( War against Terrorism)کا جارج بش کی طرف سے اعلان ہوتا ہے۔پھر کیا تھا ہر دوسرے دن مسلم دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجتی رہی ،خون مسلم بہتا رہا ،بم گرتے رہے،چیخیںنکلتی رہیں ،لاکھوں جانیں تلف ہوتی رہیں،عورتیںسسکتی رہیں ،بچے بلکتے رہے،مسلم دنیا درندوں کا لقمۂ تر بنتی رہی؛لیکن پورا عالم اسلام تماشائی بنا رہا ۔یہ سارے واقعات ایک کے بعد ایک ہوتے رہے اور مسلم اہل سیاست خاموش تماشائی بنے رہے۔حادثات کی فہرست پر ایک نظر ڈالیے:
الف:امریکی اور ناٹو افواج نے۷؍ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو افغانستان پر ہلا بول دیا ،وہاںگذشتہ دس بارہ سالوں سے ہر دن خون کی ندیاں بہ رہی ہیں۔۲۰ مارچ۲۰۰۳ء کو امریکا نے اپنے اتحادیوں ساتھ عراق پر حملہ کیا جس کا سلسلہ۲۰۱۰ء تک جاری رہا۔ اس جنگ میں باختلاف رائے ڈیڑھ لاکھ سے پندرہ لاکھ تک جانیں تلف ہوئیں۔۱۷؍ دسمبر۲۰۱۰ئسے بہار عرب( Arab Spring) کے نام سے اہل مغرب کی پشت پناہی پر مبنی عرب دنیا میں باغیانہ طوفان اٹھا جس کے نتیجے میں ۱۴؍جنوری ۲۰۱۱ء کو تونیسیا کے صدر زین العابدین بن علی کواور ۱۱؍ فروری۲۰۱۱ء کو مصری صدر حسنی مبارک کو اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا پڑا۔اور صدرلیبیا معمر القذافی کو۲۰؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو بہیمانہ طور پر اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔۲۷؍ فروری۲۰۱۲ء کو صدر جمہوریۂ یمن علی عبد اللہ صالح کو اس سیاق میں مستعفی ہونا پڑا۔ مشرق وسطیٰ میں بطور خاص اسرائیل کی شر انگیزیاں ان پر مستزاد ہیں ۔
مسلمانوں کے ساتھ سیاسی ظلم و جبر کی ان داستانوں کے ساتھ سماجی سطح پر مسلم مخالف مظالم کی چند جھلکیاں بھی دیکھیے جن میںگجرات  اور میانمار و آسام کے واقعات تازہ ہیں ۔خواہ اپنی نادانی سے خواہ دشمنوں کی شیطانی سے پوری دنیا میں مسلمان خود کو نمبر دوکا شہری تصور کرتے ہیں مگر ان سب کے باوجود مسلم حکومتوں کا رد عمل کیا ہے، خوف ،خاموشی اور مایوسی۔دین اور امت کے لیے مسلم سیاست دانوں کا رویہ مسلم علما کے رویہ سے کہیںزیادہ حیرت انگیز اور افسوس ناک ہے۔پیغمبر اسلام ﷺنے مسلمانوںکی مثال ایک جسم سے دی تھی جس کے ایک عضو کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا عضو بھی تڑپ اٹھتا ہے۔آج بھی یہ جسم موجود ہے لیکن مردہ یا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے سارے اعضاایک دوسرے سے جدا ہو گئے ہوں کہ ایک کی تکلیف دوسرے تک پہنچ ہی نہیںپارہی ہے۔مسلم اہل سیاست اس کے نمایا ں ترین مظہر ہیں ۔اس سیاسی اور ملی بے حسی کے ساتھ مسلم دنیا  کے چند دوسرے پہلو بھی پیش نگاہ رکھئے:
(الف) اقتصادی صورت حال: چند قدرتی وسائل سے مالا مال ممالک کو چھوڑ کر دیگر مسلم ممالک ترقیاتی امور میںانتہائی نچلی سطح پر ہیں۔ جس کے نتیجے میںمسلم آبادی کا بڑا حصہ غربت کی چکی میںپس رہا ہے ۔کثیر آبادی والے مسلم ممالک کی اکثریت خط افلاس سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے۔بعض ممالک میںشرح غربت ۶۰سے ۷۰ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ جن بعض ممالک میں صورت حال کچھ اچھی ہے تو وہاں عوام میں اقتصادی طور پر بہت زیادہ عدم توازن اور عدم مساوات ہے۔OICکی سالانہ اقتصادی رپورٹ کے مطابق مسلمان دنیا کی آبادی کا 22.8 فی صد ہونے کے باوجود OICکے ۵۷؍ممبرممالک دنیا کی کل GDPکا 10.9فی صد پیدا کر رہے ہیں۔ایک خوش آئند بات یہ ہے کہOICکے ممبر ممالک کی فی کس شرح آمدنی مسلسل بڑھ رہی ہے۔یہ شرح۲۰۱۱ء تک 5.507ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔جب کہ ۲۰۰۷ء میں یہ شرح 4.724تک تھی۔لیکن اس خوشی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ OICکے ممبر ممالک اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کے درمیان فی کس GDPکا فرق مزید بڑھ رہا ہے۔OICممالک کے چوتھے تھنک ٹینک فورم کے اجلاس کی مزید تفصیلات انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد کی سائٹ پر دیکھیں: www.strategy.com کی ایک رپورٹ کے مطابق ۵۷ مسلم ممالک کی مجموعی خام ملکی پیداوار (GDP:Grass Domestic Product)۲؍ٹریلین ڈالر کے اندر اندر ہے۔جب کہ صرف امریکا کے پروڈکشن کی مقدار10.4ٹریلین ڈالر ہے۔ چین کا 5.7ٹریلین ڈالر ،جاپان کا 3.5 ٹریلین ڈالر، جرمنی کا 2.1ٹریلین ڈالر ہے۔حتی کہ انڈیا کا GDP تقریبا 3ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ 
(ب) تعلیمی صورت حال:ڈاکٹر ایم آئی ایچ فاروقی جنرل سکریٹری اردو سائنٹفک سوساٹی اور سابق ڈپٹی ڈا ئرکٹر نیشنل باٹینکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لکھنؤ اپنے ایک تحقیقی مضمونStatus of Muslim Socities around the Wordمیں مسلمانوںاور مسیحیوں کی شرح تعلیم کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کینتھ ڈیوڈ( Kennith David)کے مطابق مسیحی دنیا کی اوسطا شرح تعلیم۱۹۸۰ء  میں۹۰؍فی صد تھی اور تقریبا۱۵؍ممالک میں۱۰۰؍ فی صد تعلیم تھی۔دوسری طرف مسلم ممالک میں اوسطا شرح تعلیم۴۰؍فی صد سے بھی کم تھی اور کسی ایک ملک میں بھی۱۰۰؍ فیصد تعلیم نہیں تھی۔بعد میںبھی کم و بیش یہی صورت حال رہی۔۲۰۰۱ء میںUNDPکی رپورٹ کے مطابق مسلم ممالک میں اوسطا ۶۰؍ فیصد تعلیم تھی جب کہ مسیحیوںکے مغربی ممالک میں یہ شرح ۹۵؍سے ۱۰۰؍فیصد کے درمیان تھی ۔مسیحی دینا کے تعلیم یافتہ افراد کے بیچ بمشکل دو فیصد نے اسکولی تعلیم مکمل نہیں کی تھی،جب کہ نام نہاد مسلم سماج کے۵۰؍ فی صد افراد نے کبھی جدید اسکولوںکی شکل ہی نہیں دیکھی۔ مسیحی سماج میں کم از کم پرائمری سطح کی تعلیم پر تعلیم کا اطلاق ہو تا ہے جب کہ مسلم سماج میں جو شخص بھی لکھنے پڑھنے کی اہلیت رکھتا ہے اسے تعلیم یافتہ سمجھا جاتا ہے۔اگر مسیحی دنیا کے معیار کو سامنے رکھا جائے تو بمشکل ۱۰؍فی صد مسلم آبا دی تعلیم یافتہ قرار پائے گی۔مسیحی دنیا میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہاں تقریبا  ۴۰؍فی صد افراد اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں جن میںسائنس کے مختلف شعبوں میں اختصاص بھی شامل ہوتا ہے۔یہ سطح مسلم دنیا میںدو فیصد سے بھی کم ہے۔
(دیکھئے:اسلامک ریسرچ فاونڈیشن انٹرنیشنل کی ویب سائٹ www.irfi.org)
(ج) دفاعی صورت حال:عالم اسلام کی دفاعی صورت حال کو جاننے کے لیے دنیا کے پانچ قوی ترین مسلم ممالک پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔
۱۔ مسلم ممالک میں پاکستان سب سے زیادہ طاقت ور مسلم ملک ہے۔پوری دنیا میں صرف یہی ایک ایسا مسلم ملک ہے جس کے پاس ایٹمی قوت ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس سات لاکھ کی تعداد میں فوج بھی ہے۔
۲۔ ترکی مسلم دنیا کا دوسراپاورفل ملک ہے۔اس کے پاس جدید ٹیکنالوجی اور جدیداسلحوں کی بھرمار ہے۔
۳۔ ایران تیسرا قوی ترین مسلم ملک ہے۔یہ شیعہ اکثریتی ملک ہے ۔اہل تشیع کے اجتہادات پر مبنی یہ اسلامی جمہوریہ ہے۔ایران کے پاس تیل کا بہت بڑا ذخیرہ ہے ۔ایٹمی توانائی اور اسلحہ کی کوشش میں ایران اب تک کامیاب نہیںہو سکاہے۔
۴۔ سعوی عربیہ دنیا کا چوتھا قوی ترین مسلم ملک ہے ۔حرمین شریفین کی وجہ سے اسے عالم اسلام کا دل ہو نے کا بھی شرف حاصل ہے۔ یہاںبھی تیل کا بڑا ذخیرہ ہے۔نظام حکومت بادشاہی ہے جسے امریکا کی پشت پناہی حاصل ہے۔اب گذشتہ کچھ سالوں سے اس نے بھی فوجی تیاریوں پر توجہ دی ہے۔
۵۔ ملیشیا دینا کا پانچواںقوی ترین ملک ہے۔یہ دنیا کے عظیم ترقی یافتہ ملکوںمیں سے ایک ہے لیکن چوں کہ اس کا کوئی دشمن نہیںاس لیے اس نے فوج اور دفاع پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے۔
اس پورے Dataمیںصرف ایک بات کسی قدر اطمینان کی ہے کہ پاکستان کے پاس ایٹمی اسلحہ ہیں۔بعض تجزیہ نگاروںکا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی ہزار برائیوںکے باوجود اپنی جوہری توانائی کے سبب عالم اسلام اور خصوصا حرمین کے تحفظ کی ضمانت اور اسرائیل کی بڑھتی جارحیت کے لیے ایک سد راہ ہے۔اس رائے کی صداقت یاعدم صداقت سے قطع نظر یہ بات بہر کیف مسرت انگیز ہے کہ مسلم ملکوں میں اور آٹھ جوہری اسلحہ کے حامل ممالک میں ایک ملک پاکستان (۱۹۹۸ء) بھی ہے۔دیگر ممالک میں امریکا (۱۹۴۳ء) برطانیا (۱۹۵۲ء) فرانس(۱۹۶۰ء)چین(۱۹۶۴ء)ہندوستان (۱۹۷۴ء) اور شمالی کوریا(۲۰۰۶ء )کے نام شامل ہیں۔لیکن مجموعی لحاظ سے بہر کیف مسلمان اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اپنا تحفظ خود کر سکیں،جس کے اسباب میں عدم اتحاد، فقدان تصور امت،اقتصادی و سیاسی ابتری کے ساتھ دفاعی نا رسائی بھی ہے۔
(د) سیاسی صورت حال: نئی دنیا عمومی تعلیم اور عمومی شعور کی دنیا ہے۔ اس میں عوام تعلیم یافتہ اور باشعور ہو چکے ہیں؛اس لیے اس دنیا میں کامیاب حکومت وہی ہو سکتی ہے جس میں عوام کے جذبات کے ساتھ ان کے افکار و خیالات کا بھی لحاظ رکھا جائے۔ اسی لحاظ سے سیاست کی اصطلاح میںموجودہ عہد کو جمہوریت کا عہد کہا جا سکتا ہے؛ لیکن اس حقیقت کے بر خلاف مسلم دنیا کا المیہ یہ ہے کہ یہ اب تک جمہوریت کی صالح قدروںکو اپنا نے کے لیے خود کو تیار نہیں کر سکی ہے۔ مسلم علما کی طرح مسلم حکمرانوں کی سوچ بھی عہد عباسی اور عہد مغلیہ کی سوچ ہے ۔اگر چہ ان کی حالت زار بہادر شاہ ظفر سے بھی زیادہ قابل رحم ہے۔۶۶۱ء میں حقیقی اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کے بعد مسلم امت نے اس کی بہاروںکو بہت کم دیکھا ہے۔ادھر عالمی سطح پر عوامی شعور و تعلیم کے عام ہو جا نے کے سبب جمہوریت کی واپسی کے بعد مسلم اہل فراست و سیاست نے بالعموم جمہوریت کے خلاف تقریریں شروع کر دیں۔ انہوں نے جمہوریت کا مقابلہ خلافت راشدہ سے کیا اور اس طرح جمہوریت کے نقائص اور عیوب کو کھول کھول کر بیان کیا۔ ایسا کرنا در اصل مسلم حکمرانوں کی شخصی مطلق العنانیت اور خاندانی شہنشاہیت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تھا ورنہ ایماندارانہ تجزیہ یہ تھا کہ جمہوریت کا تقابل خلافت راشدہ سے کرنے کے بجائے مطلق العنانیت اور شہنشاہیت سے کیا جاتا ۔اگر ایسا کیاجا تا تو یہ واضح ہو جاتا کہ جمہوریت اپنے تمام تر نقائص کے باوجود مطلق العنانیت اور شہنشاہیت سے بہتر نظام حکومت ہے۔روے زمین پر جمہوری نظام حکومت کے غلبۂ عام کے تقریباً سو سال ہونے کو آئے لیکن اب تک مسلمانوں کا ذہن بالعموم اور مسلم حکمرانوںکا ذہن بالخصوص اس نظام حکومت کے لیے تیار نہیں ہوا۔ گذشتہ سالوںمیں عالم عرب میںبہار عرب (Arab Spring) کے نام سے جو انقلابی ،عوامی تحریکیں شروع ہوئی ہیںیہ در اصل مسلم دنیا میں عوام  کے بڑھتے ہوئے شعور کا نتیجہ ہیں۔لیکن اس شعور کے پختہ ہونے میںاور عوامی نمائندگی کے ساتھ اسلامی قدروں پر مشتمل پر امن حکومتوں کے قیام تک نہ جانے ابھی کتنا وقت درکار ہے …ع
دیکھئے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
لیکن اس صداقت سے انکار ممکن نہیں کہ اگر روے زمین پر خلافت اسلامیہ کا نفاذ نہیں ہوتا ہے تو کم از کم مسلم ملکوں میںعوامی مسلم جمہوریہ کا قیام تو ہونا ہی چاہیے؛ کیوںکہ شکستہ حال ،خود غرض،دین اور درد امت سے نا آشنا موجودہ مسلم حکمرانوں کا ضعیف و ناپاک کندھا اس لائق نہیں کہ کاروان امت کو مزید سہارا دے سکے۔
(۱۸) مسلم ممالک کے وفاق کا فقدان:-
یکم نومبر ۱۹۲۲ء کو مصطفی کمال پاشا کے ذریعے ترکی میںسلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا ۔یہ سلطنت مسلم عہد حکومت کی خلافت کی آخری جھلک تھی۔وکی پیڈیا کے مطابق جس وسیع و عریض خطے پر یہ عظیم سلطنت قائم تھی آج اس پر چھوٹی بڑی چالیس حکومتیں قائم ہیں۔سیاسی سطح پر مسلم حکمرانوں کا یہ آخری عظیم الشان وفاق تھا ۔اس کے بعد سے اب تک مسلمان اتنی بڑی سیاسی وحدت قائم نہیںکر سکے، بلکہ اس کا تصور بھی گویا ختم سا ہو گیا۔سلطنت عثمانیہ کے زوال کے آخری ایام میں اس عظیم سلطنت کے تحفظ و بقا کے لیے پوری دنیا کے مسلمانوں نے آوا زبلند کی تھی۔ ہندوستان میں علی برادران اینڈ کمپنی نے خلافت تحریک چھیڑی۔ اس عہد میں عجیب افرا تفری کا ماحول تھا۔جذبات و دانشوری ،جوش اور مایوسی کی کش مکش تھی۔بہت سے اہل دانش اس مسئلے میں الجھ گئے کہ سلطنت عثمانیہ خلافت ہے یا نہیں؟ بہر کیف! اس امر میں کوئی شک نہیں کہ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ مسلم سیاسی وحدت کا خاتمہ تھا۔
 سلطنت عثمانیہ کے زوال کے معاً بعد ملک عبد العزیز آل سعود کی دعوت پر۱۹۲۶ء میں معتمر العالم الاسلامی (World Muslim Congress)کی تشکیل عمل میں آئی اور مکۃ المکرمۃ میں اس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔اس اجلاس میں ہندوستان سے سید سلیمان ندوی ،مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی جوہر،مولانا  احمد سعید دہلوی،مولانا شبیر احمد عثمانی،مفتی کفایت اللہ ،مولانا ثنا ء اللہ امرتسری وغیرہ شریک تھے۔ معتمر العالم الاسلامی کا دوسرا اجلاس فلسطین میں (۱۹۳۱ء) تیسرا اور چوتھا کراچی میں(۱۹۴۹ء،۱۹۵۱ء) پانچواں بغداد میں(۱۹۶۲ء ) اوردسواںکولمبو میں (۱۹۹۲ء)منعقد ہوا۔ان اجلاسوںکی حیثیت نشستند ،گفتندو برخاستند سے زیادہ کی نہیں ہے۔
عرب حکام نے ۱۹۴۵ء میں عرب لیگ کی بنیاد رکھی۔اس کی تاسیس کے وقت ۶؍بانی ممبرتھے؛ مصر، عراق، شرق اردن، لبنان، سعودی عرب اور شام۔ اس وقت اس کے بائیس ممبر ممالک ہیں۔عرب لیگ کے دستور کی دوسری دفعہ کے تحت یہ بات کہی گئی ہے: 
The purpose of the League is to draw closer the relations between member states and co-ordinate their political activities with the aim of realizing a close collaboration between them to safe guard their independence and sovereignty and to consider in a general way the affairs and interests of the Arab countries.
بعد میں جو حالات تسلسل کے ساتھ پیش آئے اور آرہے ہیںان کے پیش نظر اگر یہ کہا جائے کہ یہ خوب صورت الفاظ آج تک صرف عرب لیگ کے دستاویزات کا حصہ ہیں تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا ۔دور کیوںجائیے عرب ممالک کے بانی مبانی ممالک کے حالات اور ان کے باہمی رشتوں کا سرسری جائزہ لے لیجئے ،حقیقت آپ بے نقاب ہو جائے گی۔
اسلامی کانفرنس تنظیم(OIC)منظمۃ التعاون الاسلامی ۱۹۶۷ء کی  ہفت روزہ جنگ میں اسرائیل سے شکست کے بعد عرب حکام نے  ۱۹۶۹ء میںقائم کی ۔اس میں شک نہیںکہ یہ مسلم دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔۵۷؍ مسلم ممالک اس کے ممبر ہیں۔اس نے مسلم دنیا میں علمی و تحقیقی فروغ کے ساتھ فکری و ثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنے میں کلیدی رول ادا کیا ہے لیکن عسکری قوت نہ ہونے کے سبب اقوام متحدہ کی طرح یہ تنظیم بھی صرف قرار دادیں منظور کر سکتی ہے، نہ ممبر ملکوںمیں خانہ جنگی کا خاتمہ کر سکتی ہے نہ باہمی سیاسی رشتوںکو استوار کر سکتی ہے اور نہ ہی خارجی سیاسی دباؤ سے خود کو آزاد کر سکتی ہے بلکہ جارج ڈبلیو بش کی تجویز پر اب ایک امریکی نمائندہ بھی اس کی اجلاسوں میں شریک ہونے لگا ہے۔
الحاصل! مسلم دنیا سیاسی وفاق سے محروم ہے ۔ ۱۹۲۲ء سے لے کر اب تک سیاسی وحدت ناقابل تصور بن چکی ہے۔مسلم ملکوںکے مابین سیاسی وحدت ہو بھی کیسے؟ یہ ممالک انفرادی سطح پر لاقانونیت اور عدم طمانیت کا شکار ہیں ۔قوی ترین مسلم ملکوںمیں پاکستان کی نام نہاد جمہوریت ،سعودی عرب کی امریکا نوازشہنشاہیت،ایران کی تہمت شیعیت اور ترکی کی جدت پسندی کے ساتھ مسلم ملکوںمیںداخلی خانہ جنگی اور خارجی سیاسی دباؤ اور عسکری گھس پیٹھ کو دیکھ کر مسلم ملکوں کی لاقانونیت ،بے چارگی اور عدم وفاق کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
ان تمام پہلووں کو نظر میں رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ مسلمان عالمی سطح پر سیاسی لحاظ سے اس وقت مکی زندگی گزار رہے ہیںتو بے جا نہ ہوگا ۔ ایسے میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے ضروری ہے کہ سیرت طیبہ کے مکی نقوش سے استفادہ کیا جائے ،امریکا میں قیام خلافت اور ترقی یافتہ جمہوری ممالک پرفوج کشی کا خواب دیکھنے کے بجائے ایمان،عمل ،صبر،اعراض،عدم تصادم ،عدم تشدد،حکمت و بصیرت کے ساتھ حالت مظلومی میں اسلامی دعوت کے امکانات تلاش کیے جائیں۔
(۱۹) دعوت سے پہلے حکومت:- 
مسلم دنیا کی مذکور ہ بالا صورت حال اسلام کی عالمی دعوت کے امکانات کی راہیں کھول سکتی تھی،اگر مسلمان اپنی مجبوری و مہجوری کو پیش کرنے میںکامیاب ہوجاتے ۔اس کے بر خلاف بعض پر جوش رہنماؤں کے جذباتی خطبات اور لٹریچرس نے مظلوم مسلمانوںکو عالمی سطح پر ظالم کی حیثیت سے پیش کر دیا۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنی بے بصیرتی سے دعوتی امکانات کو دعوتی مشکلات میں تبدیل کر دیا۔
ہوایوں کہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلم سیاست کی عالمی کس مپرسی اور عدم وفاق کو دیکھتے ہوئے بعض جذباتی مسلمان حالات کا صحیح تجزیہ،مقاصد کی موزوں منصوبہ بندی اور اصابت فکر و تدبیر کے بغیر خلافت کی بازیافت کے لیے کوشاں ہو گئے۔ ان کی یہ کوشش اقامت دین اور خلافت الٰہیہ جیسے عنوانات کے تحت ہوتی رہی۔غلط سمت میں کی جانے والی کوشش جب ناکامیوںسے دوچار ہوئی توان مجاہدین میں فطری طور پر اشتعال ،جذباتیت ،تشدد اور تطرف پیدا ہوگیا۔جماعت اسلامی اور اخوان المسلمین کی تاسیس سے القاعدہ اور جماعۃ الدعوہ کے قیام تک اس پوری تاریخ میں خلافت اسلامیہ کی دوبارہ بحالی اور شریعت اسلامی کی بالادستی کاہی جذبہ کارفرما رہاہے ۔یہاں ہمارا مدعا یہ ہے کہ جذبہ خواہ کتنا ہی صالح کیوںنہ ہو،اگر اس کے پیچھے حکمت و بصیرت کی پشت پناہی اورصحیح فکر و تدبیر کی رہنمائی نہ ہو تونتیجہ وہی سامنے آئے گا جو آیا۔پوری بیسویں صدی میںنئی عالمی بستی میں جذباتی مسلمانوں کی طرف سے عالمی دعوت سے پہلے عالمی حکومت کی کوشش نے اکیسویں صدی کے آغاز میںانہیںداعی کے بجائے باغی و ارہابی(Terrorist)بنا کر پیش کر دیا۔عالمی سطح پر انسانی ہمدردی (Sympathy)ان سے برگشتہ ہو گئی۔مسلمان عالمی منظر نامے پر غیر مہذب،خونخوار اور غیر مثقف بن کرابھرے۔ایسے میں عقلی تجزیہ کے مطابق ہونا تو یہ تھا کہ دعوت کا عمل بالکل رک جاتا اور ارتداد کا عمل شروع ہوجا تا لیکن اس عقلی تجزیہ کے برخلاف اسلام کی صداقت کا معجزہ یہ ہے کہ ان نا مساعد و نا موافق حالات میں بھی یورپ و امریکامیں اشاعت اسلام کا زبردست کام ہو رہا ہے۔ قابل غوربات یہ ہے کہ اس اشاعت میں مسلمانوںکی اپنی کوشش کا کو ئی خاص حصہ نہیں ہے۔یہ سراسر اسلا م کی صداقت،قرآن کا اعجازاور اس سنت ربانی کامظہر ہے جس کا اظہار اس آیت کریمہ میں ہوا ہے:
اے ایمان والو!اگرتم میں سے کوئی اللہ کے دین سے پھر جائے تو عنقریب اللہ تعالیٰ ایک دوسری قوم کو پیدا فرمادے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے ۔(المائدۃ:۵۴)
اگر مسلمان اپنی حکمت و تدبیرسے عالمی سطح پر ایک بار پھر سے امن و سلامتی کی علامت اور داعی دین اسلام کے طور پر سامنے آئیں تو جدید دنیا میں اشاعت اسلام کی راہ میں ناقابل یقین تیزی آ سکتی ہے۔
فتح باب دعوت
آیات بینات کی روشنی میں دعوتی مشکلات کا حل
مذکورہ بالا اسباب و عوامل کے پیش نظر دعوت و تبلیغ کی راہ میں جو دشواریاں پیدا ہوئیں ان کے ازالے کے لیے قرآن ہماری بھر پور رہنمائی کرتا ہے۔ذیل میں آیات بینات کی روشنی میںجدید دور میں دعوتی امکانات تلاش کرنے اور رکاوٹیں دور کرنے کے حوالے سے چند خطوط پیش کیے جاتے ہیں:
(۱) مکی زندگی کی طرف واپسی
مکہ اور مدینہ عرب کی دو آبادیاںہیں ۔جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں تھے تو پورا مکہ آپ کے خلاف تھا۔آپ کے ہم نوا تھوڑے اور کمزور تھے ۔وہ اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ دوسرے فریق پر حکومت کریں یا ان پر جبر کریں یا ان سے جنگ کریں۔اس لیے اس عہد میںپیغمبر اور آپ کے اصحاب نے یک طرفہ طور پر صبر و ضبط سے کام لیا ۔اس عہد میں اہل ایمان کا سرمایہ ایمان تھا ۔وہ قانونی طور پر بہت سے معاملات میں ویسا عمل نہیںکر سکتے تھے جو بعد میںمدنی عہد میں ان کے لیے ممکن ہو گیا تھا۔
مدینے میں حالات تبدیل ہونے لگے۔پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموںکے ساتھ صلح و معاہدہ کیا اور پھر رفتہ رفتہ حالات اتنے سازگار ہو گئے کہ پورا مدینہ ہی نہیں ،پورا عرب آپ کا ہم نوا بن گیااور اس طرح نہایت خاموشی کے ساتھ اسلامی ریاست قائم ہو گئی۔ آج کی دنیا ایک عالمی آبادی (Global Village)ہے ۔ بدا الاسلام غریبا وسیعود کما بدا کے مصداق اس عالمی آبادی میں آج پھر وہی مکی حالات یا ابتدائی مدنی حالات پیدا ہو گئے ہیں۔اب یہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمان فوری طور پر اموی اور عباسی طرز فکر کو چھوڑ دیں۔ اس کے برخلاف لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (تمہارے لیے رسول اللہ کی پوری زندگی ایک نمونۂ عمل ہے۔) سے روشنی اخذ کرتے ہوئے صحا بہ سا ایمان و ایقان اور صبر و حکمت پیدا کریں۔مسلمان تمام مسائل پر غور کرنے سے قبل اپنا Mind Set چینج کریں۔وہ یہ تصور کریں کہ موجودہ عالمی آبادی میں ان کی حیثیت وہی ہے جو مکی عہد میں یا ابتدائی مدنی عہد میں صحابہ کی تھی۔اور پھر اس عہد میں پیغمبر نے جو حکیمانہ پالیسیاں اپنائیں تھیںانہیں وقت اور حالات کے مطابق اپنائیں؛ کیوں کہ پیغمبر کی پوری زندگی ہمارے لیے نمونہ عمل ہے نہ کہ صرف آخری زندگی۔
(۲)تجدید ایمان
اللہ کریم کا ارشاد ہے: انتم الاعلون ان کنتم مومنین تمھیں سر بلند رہوگے اگر تم مومن ر ہو ۔بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ اس آیت پر من و عن ایمان لے آئیں۔ ایسا ایمان جو زبانی لقلقہ نہ ہو ،قلبی ایمان ہو۔ہمارے تحت الشعور میںیہ بات جم جائے کہ ہم مومن رہ کر ہی سر خرو ہو سکتے ہیں۔جدید لادینی افکار و تحریکات نے کسی نہ کسی جہت سے ہمارے شعور کو بھی متاثر کیا ہے جس کے نتیجے میںہم اپنے مسائل پر بھی مارکسی اور ڈاروینی انداز سے سوچنے لگتے ہیں ۔ہم میں بیشتر افرادصرف پیدائشی مومن ہیں۔ اس لیے اب لازمی طور پر ہمیں تجدید ایمان کرنا ہوگی۔اللہ کا ارشاد ہے:یٰا یھا الذین آمنوا آمنوا۔ ہم صرف رسمی یا اسمی مسلمان ہیں، اب ضرورت ہے کہ ہم حقیقی مسلمان بنیں۔ ہم پر فقیہانہ مزاج کا ایسا غلبہ ہے کہ ہم ہمیشہ دوسروں کے ایمان کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ اب ہمیں اپنے ایمان کی بھی فکر کرنی ہوگی اور دوسروںسے توبہ کا مطالبہ کرنے کی فکر چھوڑ کر خود توبہ کرنی اور توبہ کی توفیق مانگنی ہوگی۔ہمارے پاس ایمان کے نام پر صرف دعوے ہیں ،اب ضروری ہے کہ اس دعوے کو عملی شواہد سے مستحکم کریں۔ ہم نظری کی جگہ عملی مسلمان بنیں ۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہم عملی مسلمان کا مطلب نمازی اور روزہ دار مسلمان سمجھتے ہیں۔یہ تو اپنی جگہ درست ہے ،اس کے ساتھ باطنی گناہوں سے بھی پاک ہونے کی ضرورت ہے ۔ قرآن نے کہا ہے :وذروا ظاھرالاثم وباطنہ۔ ظاہری اور باطنی ہر طرح کے گناہوں سے بچو۔ ظاہری گناہ سے تو کچھ لوگ بچ بھی جاتے ہیں ،باطنی گناہ جیسے کبر ،حسد، کینہ ،ریا اور ان جیسے گناہوں سے بچنا اور بھی مشکل ہے ۔ان گناہو سے بچنے کے لئے حقیقی تصوف اور حقیقی صوفیہ کاقرب تلاش کرنا ہوگا ؛کیو ںکہ یہ انہیں کا Chapter ہے۔
(۳)اقل ترین منصوبہ(Common Minimum Program) 
پیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ والسلام نے مکی زندگی میںیک طرفہ صبر و ضبط سے کام لیا۔آپ جب مدینہ آئے تو بھی مشرکین عرب کی شرانگیزی جاری رہی۔ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرین حکمت و مصلحت یہ سمجھا کہ مدینہ کے یہودو نصاریٰ سے، جو خود بھی اسلام کے مخالف تھے، بعض متفق علیہ نکات پر مصالحت کر لیں ۔اس کے پیش نظر آپ نے اہل مدینہ سے اتفاقی امور پر مصالحت کی ۔یہ مصالحت تاریخ میں میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہے ۔اس میثاق کی بنیاد بڑے دشمن(مشرکین مکہ)کے شر سے بچنے کے لیے چھوٹے دشمن(مدینہ کے اہل کتاب)سے مشترک اقل ترین پروگرام (Common Minimum Program)کی تشکیل ہے۔
میثاق مدینہ کا تعلق سیاسی مصلحت کے لیے اقل ترین پروگرام کی تشکیل سے ہے ۔اس کے علاوہ اسلام نے اہل کتاب سے مذہبی امور میںبھی اقل ترین پروگرام کی تشکیل کی دعوت دی ہے ۔قرآن میںہے:پیغمبر !آپ کہہ دیں کہ اے اہل کتاب!ایسی بات کی طرف آؤ جو ہم میںتم میںمشترک ہے ،یہ کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھرائیںگے اور ہم آپس میںکسی کو اللہ کے علاوہ رب نہیں بنائیں گے۔(آل عمران:۶۴)
آج کے برے حالا ت میںجب کہ دہریت، اشتراکیت، صہیونیت اور شدت پسند غیر مسلم تنظیمیں اسلام دشمنی پر آمادہ ہیں، مذکورہ بالاآیات اور واقعات سیرت سے روشنی لیتے ہوئے ضروری ہے کہ سیاسی ،مذہبی اور مسلکی سطح پر اقل ترین منصوبے بنائیں۔اس کے بغیر اس دین مخالف جمہور ی عہد میںاور کوئی صورت نہیںرہ جاتی۔جب وقت ضرورت ان کتابیوںکے ساتھ مشترک امور پر اتحاد و اشتراک ہو سکتا ہے جن کی کتاب تحریف شدہ اور غیر محفوظ ہے تو پھر حسب ضرورت اسلام کے نام پر پائے جانے والے مسالک و مکاتب کے ساتھ مشترک امور کے لیے اتحاد و اتفاق کیوں نہیں ہو سکتا؟ جب کہ کتاب محفوظ قرآن پر سب کا اعتقاد و ایمان ہے اور جناب محمد رسول اللہ ﷺکی رسالت کے سب قائل ہیں۔
اسی طرح لادینیت اوراس کی مختلف شکلوں کے شر سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اہل مذاہب ایک(Common Minimum Program) بنائیں جیسا کہ مبلغ اسلام علامہ عبد العلیم صدیقی علیہ الرحمہ نے اپنے عہد میں بنایا تھا ۔
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جمہوریت اور آزادی فکر و عمل کے اس عہد میںجب بین الاقوامی اور سیاسی مسائل معاہدوںاور مذاکروںسے طے ہوتے ہیں،مسلم حکام و سلاطین غیر مسلم حکومتوں اور حکمرانوں سے ایسے سیاسی روابط استوار کریںکہ اسلام کی پر امن عالمی دعوت و تبلیغ اور مسلمانوں کی تعلیم و ملازمت کی راہ کی تمام رکاوٹیں دور ہو سکیں اور ان ممالک میںجہاں مسلمان بطور اقلیت ہیںوہ پوری آزادی کے ساتھ دینی مواقع کے حصول کے ساتھ دینی مطالبات پر عمل پیرا ہو سکیں۔مذکورہ بالا آیت کو مسلمان سامنے رکھیںتو وہ بہت سارے مشکلات اور بلائوں سے محفوظ رہ سکتے ہیںجن میں وہ مبتلا ہیں۔
(۴) لا اکراہ فی الدین ولا اکراہ فی المسلک
اسلام نے سب سے پہلے مذہبی آزادی کی صدا بلند کی۔اس سلسلے میںباضابطہ قرآن کی آیت نازل ہوئی۔ لا اکراہ فی الدین (البقرہ: ۲۵۶)اس کے معنی یہ ہوئے کہ دین قبول کرنے کے لیے کسی کومجبور نہیںکیا جا سکتا۔پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کی پوری سیرت کواس آیت کی تفسیر کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔آج کچھ اپنوں کی نادانی اور کچھ غیروں کی سازش سے اسلام کو دین جبر و اکراہ کے طور پر پیش کر دیا گیا ہے۔ایسے میںمسلمانوں کا عالمی سطح پر فرض ہے کہ وہ اس غلط فہمی کو دور کریں۔اور دنیا کو یہ بتائیں کہ اسلام دین دعوت ہے دین جبر و اکراہ نہیں۔مسلم داعی کا فرض صرف یہ ہے کہ وہ اپنی بات پہنچا دے۔وما علینا الا البلاغسے یہی سبق ملتا ہے۔ اپنی بات منوانا اور کسی کو جبراً مسلمان کرنا یہ داعی کا کام نہیں ہے۔اس کے لیے پیغمبر آخرالزماں اور دیگر نبیوںکی سیرت کو دیکھا جا سکتا ہے۔اس بات کو اقوام عالم تک پہنچانے کے مناسب اور معاصر طریقے کیا ہو سکتے ہیں اسے ارباب حل وعقد طے کریں۔
مذکورہ آیت سے ایک اور سبق ملتا ہے ،وہ یہ کہ جب دین میںجبر نہیںہے تو مسلک و مشرب میںکیوںکر جبر ہو سکتا ہے؟اس لیے موجودہ عہد میں اسلام کے تحفظ و بقا اور اسلام مخالف قوتوںسے حفاظت کے پیش نظر مسلمانوں کو چاہیے کہ جو جس مسلک سے وابستہ ہو اس سے وابستگی کے ساتھ دوسروں کو پوری طرح مسلکی آزادی دے۔اس لیے کہ جب اسلام نے دین کے اندر جبر کو روا نہیں رکھا ہے تو مسلکی سطح پر جبر اور دسروں سے اپنی بات منوانا کہاںکا انصاف ہو سکتا ہے؟دوسری طرف جو اس کے منفی نقصانات ہوں گے یا ہو رہے ہیں وہ الگ ہیں۔مسلکی اختلافات کے سبب مسلمانوں کا ایک دوسرے کے خلاف تشدد اختیار کرنا اور قتل و غارت تک کے لیے آمادہ ہو جانا عالمی سطح پر متعارف ہوتا چلا جا رہا ہے۔اسلام کی شبیہ کو سنوارنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اس طرز فکر و عمل کا جائزہ لیں اور لا اکراہ فی الدین کے ساتھ لا اکراہ فی المسلک پر بھی عامل ہوں۔
(۵) علمی انقلاب
قرآن میں ہے :ہل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون (الزمر:۹) کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟اس آیت کا سیاق اگرچہ معرفت حق سے ہے لیکن اگر اس کے لفظوں کے عموم کو دیکھتے ہوئے اسے عمومی لحاظ سے دیکھا جائے جب بھی یہ آیت سو فیصد درست نظر آئے گی۔ علم بہر کیف بلندی تک پہنچا تا ہے ،علم نور ہے اورجہالت تاریکی۔خود مسلم تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہو گا کہ مسلمانوں کی زریں تاریخ ان کی علمی تاریخ بھی تھی۔آج وہ زوال و پسماندگی سے اس لیے بھی دوچار ہیںکہ وہ جہالت سے دوچار ہیں۔جب بغداد اور بصرہ وکوفہ میں علمی دانش کدے تھے ،جب مسلم اسپین میںعلوم جدیدہ کی یونیور سیٹیاں قائم تھیں، تو مغرب مسلمانوں سے روشنی کی بھیک مانگ رہا تھا اور مسلمان اسے علم کے ساتھ تہذیب و ثقافت کے آداب بھی سکھا رہے تھے۔ آج جدید علو م کے دانش کدے مغرب میں ہیں،اس لیے مسلمانوں سمیت پورا مشرق ،مغرب کا بھکاری بنا ہوا ہے۔یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بھکاری کبھی داعی نہیں بن سکتا ،اس لیے اس پر آشوب دور میں جو لوگ دین حق کی عالمی دعوت چاہتے ہیں انہیں اس سے قبل مسلمانوں کے اندر علمی انقلاب لانا ہوگا۔جب تک تعلیمی سطح پر مسلمان خود کفیل اور رہنمائے عالم نہیں بنتے مغرب ہی سب کا قبلہ بنا رہے گا۔جنہیںتحویل قبلہ عزیز ہے وہ علمی کعبے کی تعمیرنو کریں۔اس کے لیے مسلم حکومتیںسنجیدہ ہوں ،مسلم دانشوران مناسب خطہ بنائیں۔مسلم علما علم جدید کی سر پرستی فرمائیں۔مسلم ارباب ثروت تعلیمی NGOs قائم کریںاور غیر حکومتی تعلیم گاہیں کھولیںاور مسلم عوام اپنے بچوںکو تعلیم یافتہ بنانے کی قسمیںکھالیں۔جہالت کے ساتھ امامت دین و دنیا کا خواب …ع
ایں خیال است و محال است جنوں
اختتامیہ:-
’’دعوت و تبلیغ کی راہیں مسدود کیوں ؟‘‘کے عنوان سے ہماری پہلی تحریرماہ نامہ جام نور دہلی کے شمارہ اکتوبر، نومبر ۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی تھی۔ اسے ہم نے ۲۰۰۴ء میں لکھی تھی۔اس وقت میںالجامعۃ الاشرفیہ میںزیر تعلیم تھا ۔ وہ تحریرمسلکی اور ملکی تناظر میں لکھی گئی تھی۔ ۹؍سال بعد اس تحریر کا دوسرا حصہ لکھا گیا ۔جس کا آغاز ۲۰۱۲ء میںدہلی میں میری اقامت کے دوران ہی ہو چکا تھا۔یہ حصہ امتی اور عالمی تناظر میں ہے ۔مجھے امید ہے کہ پچھلی تحریر کی طرح یہ تحریر بھی توجہ سے پڑھی جائے گی۔ ارباب علم و دانش اس کی تائید و توثیق فرمائیں گے اور ملکی و عالمی سطح پر دعوت و تبلیغ کا درد  رکھنے والے اور ملت اسلامیہ کے درد میںتڑپنے والے نو جوان اس کے مثبت خطوط سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے جدید دور میںدعوتی انقلاب کے لیے خود کو تیار کریں گے۔ اس با ت کی بھی توقع ہے کہ حسب سابق بعض اپنے کرم فرما چیں بجبیں ہوں گے جن کا مشن لکیریںپیٹنا ہے اور جو نئی صدی میںاسلام کو عالمی سطح پر دین امن و رحمت کے بطور پیش کرنے کے حق میںنہیںہیں۔ایسے تمام کرم فر مائو ں سے معذرت کرتے ہوئے صرف اتنا کہوں گاکہ:
اٹھ کہ اب بزم جہاںکا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اللھم ارنا الحق حقا و ارزقنا اکتسابہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ
*****



0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔