Tuesday 23 January 2018

قصۂ قدیم و جدید

0 comments
قصۂ قدیم و جدید
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
----------------------------------------------------------------------
مولانا سید علیم اشرف جائسی جماعت اہل سنت کے ایک وسیع نظر عالم دین ہیں، انہوں نے جام نور کے جہاد نمبر میں لکھا ہے:
’’ اسلامی شناخت مابعد جدیدت کے اس عہد میں ثقافتی تجدید و تغریب کی کشمکش میں مبتلا ہے اورا مت اس ضمن میں متعدد خیموں میں بٹی ہوئی ہے جن میں دو خیمہ زیادہ نمایاں ہے یا مغربی میڈیا اور ذرائع ابلاغ نے انہیں زیادہ نمایاں کررکھا ہے، شاید اس لیے کہ اسلام کے خلاف اپنی سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی جنگ میں انہیں دونوں خیموں سے سروکار ہے۔ ایک تغریب(Westernization) کے خوف سے تجدید سے گریزاں ہے تو دوسرا تجدید کی طمع میں تغریب سے ہم آغوش ہے، دونوں ثقافتی انتہا پسندی کی نمائندگی کرتے ہیں، آج اسلامی ثقافت کے لیے یہی انتہا پسندی چیلنج ہے۔‘‘ ( ص:۷۸)
میرے سامنے ہندوستان میں قادیانیت کا نمائندہ رسالہ چودہویں صدی ( جون، جولائی ۲۰۰۵ء) ہے، اس میں عورت کی امامت کے تعلق سے دو مضامین شائع ہوئے ہیں، ایک اسلام پسند مغربی کا اور دوسرا مغرب پسند مشرقی کا۔ محترمہ یاسمین موگائیڈ مصر نژاد امریکن ہیں، وہ لکھتی ہیں:
’’ چودہ سو سال سے امامین اور دیگر ائمہ کرام کا اس امر پر اتفاق رہا ہے کہ مرد امامت کرے گا۔ پھر ایک مسلم عورت کے ذریعہ امامت کا سوال اور اس پر عمل کیا معنیٰ رکھتا ہے… اگر یہ معاملہ شرعی ہوتا توحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ، حضرت عائشہ صدیقہ اور خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا سے کہا ہوتا کہ وہ امامت کریں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جنت کی بشارت دی تھی، لیکن اس کے باوجود خواتین نے کبھی امامت نہیں کی اور نہ کبھی انہیں اس کی اجازت دی گئی، لیکن آج  چودہ سو سال کے بعد کوئی عورت مردوں کو امامت کرتے ہوئے دیکھتی ہے اور سوچتی ہے کہ یہ تو انصاف کی بات نہیں کہ صرف مرد ہی امامت کریں۔‘‘ ( ص:۲۳)
غالباً محترمہ یاسمین مو گائیڈ کو نہیں معلوم کہ مغربی عورتوں کی اس سوچ کے حامل بعض ہندوستانی مرد دانشور بھی ہیں، جو اردو سے گریجویشن، فارسی سے ایم اے اور عربی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بلا اشتراک غیرے شریعت اسلامیہ کے مجتہد مطلق بن بیٹھے ہیں اور چودہ سو سالہ اسلامی ثقافت کی وہ متفقہ روایات جن پر جملہ ائمہ مجتہدین کا اتفاق ہے یا دوسرے لفظوں میں جن عقائد و مسائل پر پوری امت بہ تواتر آج تک متفق رہی ہے، زمانہ رسالت سے لے کر زمانۂ حال تک کسی نے اختلاف نہیں کیا، آج ان مسائل میں بھی اپنی مجتہدانہ رائے سے کیڑے نکال رہیہیں اور اس زعم کے ساتھ کہ ’’ اسلامی تحریک کے اثرات، سب کے سب، عہدرسول میں ظاہر نہیں ہوگئے تھے بلکہ اس کے اثرات مستقبل میںبھی ظاہر ہوتے رہیں گے اور یہ کہ عالمی سطح پر ایک نبوی معاشرہ کے قیام کا منصوبہ ابھی شرمندۂ تعبیر ہونا باقی ہے۔‘‘ جمہور امت کے متفقہ مسائل پر بھی پُر جسارت گفتگو فرماتے ہوئے فکری و لسانی انحراف کی اس منزل تک پہنچے ہوئے ہیں کہ ’’ہمارے لیے ہماری اپنی فکری اور عملی لغزشیں ہی کیا کم ہیں کہ ہم قدما کی لغزشوں کا بوجھ بھی اٹھانا ضروری خیال کریں۔‘‘
یہ الفاظ جناب راشد شاز کے ہیں، چودہویں صدی کے پیش نظر شمارے میں عورت کی امامت کے حوالے سے دوسرا مضمون انہی کا ہے، ان کاخاص امتیاز یہ ہے کہ یہ علما ء سے بالکل ڈرے، سہمے اور جلے رہتے ہیں، یہ علماء کی طرف انہی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے دودھ سے منہ جلنے کے بعدبلی چھاچھ کی طرف دیکھتی ہے ۔ مغربی خاتون محترمہ یاسمین موگائیڈ کے برخلاف جناب نے مشرق میں رہتے ہوئے بھی بڑی وسیع ظرفی کا مظاہرہ فرمایا ہے، خواتین کی امامت کی وکالت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ کسی ذات کا عورت ہونا اس کے لیے سماجی اور دینی طور پر وجہ معذوری بن جائے، قرآنی دائرۂ فکر سے اس خیال کی توثیق نہیں کی جاسکتی ہے۔‘‘ جناب کی اس مجتہدانہ شان پر کون خود کو نثار نہ کرے گا؟ محترم نے پوری اسلامی شریعت اور اسلامی تاریخ کا پہلی بار دقت نظر سے جائزہ لیا ہے اور اس سے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ:
’’اسلام کی اس ابتدائی معاشرت ( کو) اگر متصور کیجیے تو اکیسویں صدی کی ابتدا میں کسی مسلم خاتون کے نماز جمعہ پڑھانے کی بات کوئی قابل حیرت واقعہ نہیں معلوم ہوتی۔‘‘
موصوف سے ہمیں پہلی بار یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجدوں میں عورتوں کا داخلہ عہد رسالت سے آج تک ’’ متوارث عمل‘‘ ہے اور یہ کہ عورتوں کو مسجدوں سے روکنے والے حجاز مقدس سے دور علاقوں میں رہنے والے فقہاء ہیں ،انہوں نے تاریخ اسلام سے پہلی بار یہ انکشاف بھی کیا کہ ’’ جو لوگ مسلم معاشرہ کے زوال کو روکنے کے لیے اٹھے تھے ان کی ساری توجہ عورتوں کو قابو میں رکھنے میں صرف ہوگئی، مردوں کی خاطر خواہ اصلاح کا کام ان کے پروگرام سے محو ہوگیا۔‘‘ حالانکہ اب تک ہمارے مطالعہ میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ تاریخ دعوت و اصلاح میں کبھی کوئی ایسی تنظیم یا جماعت بھی وجود میں آئی ہو جس نے مردوں کی اصلاح سے رخ موڑ کر عورتوں کو قابو میں رکھنے کی طرف اپنی توجہ مبذول کردی ہو۔ موصوف کی تحقیق ہے کہ ’’ عہد رسالت میں جس انقلاب کی بنا رکھی گئی تھی اس کے تمام ثمرات اس عہد میں حاصل نہیں ہوگئے تھے۔‘‘
وہ اپنے اس علمی وتاریخی تناظر میں ۱۸؍ مارچ ۲۰۰۵ء کو امریکہ میں امینہ ودود کی امامت جمعہ ( جس میں عورتوں کے ساتھ مرد بھی شریک تھے)کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’آج اگر مسلم معاشرہ میں عورتیں خود کو حاشیہ پر محسوس کرتے ہوئے پدرانہ مسلم معاشرہ میں اپنے سماجی رول کی از سر نو بازیافت کے لیے اپنے اندر امامت جیسے مسئلہ کو بزور بازو حاصل کرلینے کی ہمت پاتی ہیں تو اسے اس تاریخی تسلسل سے علیحدہ کوئی اجنبی عمل نہیں کہا جاسکتا۔‘‘
مسلم عورتوں کے لیے موصوف کے دل میں جو درد، کسک اور خلوص ہے شاید دنیا کی کوئی اسلامی علوم سے بہرہ ور خاتون محسوس نہیں کرسکتی، حتی کہ امریکہ کی یاسمین موگائیڈ بھی محسوس نہیں کرسکتیں جن کا امینہ ودود کے بارے میں خیال ہے کہ: ’’ عورت یہ بات بھول گئی کہ خدا نے عورت اور مرد کو فوقیت اس کے عمل کی بنیاد پر دی ہے، جنس کے طور پر نہیں اور یکسانیت کے لیے نہیں۔ اس طرح امینہ ودود نے ۱۸؍ مارچ کو یہ زبردست غلطی کی۔‘‘
بات صرف راشد شاز یا کسی ایک دوفرد یا چندافراد کی نہیں، سلمان رشدی سمیت ایک بہت بڑے طبقے کی ہے جن کے سروں پر غراب مغرب نے بسیرا کرلیا ہے،یہ تجدید، اصلاح، عصری تقاضوں کی موافقت اور سائنسی اور مادی عہد کی حقیقت پسندی کے نام پر اپنی مرضی کا اسلام تشکیل دینا چاہتے ہیں، ایک دو مسائل نہیں بلکہ پورے اسلامی اسٹراکچر کو بدلنے کے خواہاں ہیں اور بڑی جسارت سے کہنے لگے ہیں کہ نئے دور میں مغرب نے جو تمدن پیش کیا ہے وہ کوئی اسلام مخالف تمدن نہیں بلکہ عین اسلام ہے، ان کی وسیع ظرفی، روشن خیالی اور انسان دوستی کا یہ عالم ہے کہ ان کے نزدیک اسلام کا کوئی ضابطہ اور کوئی اصول یقینی اور حتمی نہیں رہ گیا ہے، یہ یقین کی منزل سے گزر کر لا ادریت کے مقام رفیع پر فائز ہیں، دوسری طرف خوش عقیدہ مسلمانوں کا وہ طبقہ ہے جو بجائے اس کے کہ اس لا ادریت کا ترکی بہ ترکی جواب دیتا ، یہ شہروں، مخلوط ثقافتوں اور ابلاغ کے جدید ذرائع سے بھاگ کر پہاڑیوں اور صحراؤں میں سر چھپانے پر مجبور ہے یا شتر مرگ کی طرح ریت میں سر چھپا کر اپنے سمیت جملہ مسلمانان عالم کو محفوظ و مامون سمجھنے لگا ہے۔ ان کی خود سپردگی، بزدلی اور غیظ و غضب نے انہیں یہ سمجھنے پر مجبور کردیا ہے کہ صحیح اسلام صرف مخصوص مجلسوں اور بند کمروں میں ہی پیش کیا جاسکتا ہے، حالانکہ دور جدید ’’ صحیح اسلام‘‘ کو حرف بہ حرف پیش کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور اس کے لیے ہمیں وسیع تر امکانات بھی فراہم کرتا ہے۔
شراب نو کا خمار:-
 اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی کچھ سر پھروں پراسلام کی تجدید و اصلاح کا بھوت سوار ہوگیا ہے، آج گلوبلائزیشن، مادی و صنعتی انقلاب اور انفار میشن ٹکنالوجی کے وسیع تر پھیلاؤ کا حوالہ دے کر علماء دین کو ’’ شریعت کے ٹھیکیدار‘‘ ’’قدامت پرست‘‘ ’’ بنیاد پرست‘‘ اور ’’ملا‘‘ جیسے القاب سے نوازنے کا واحد مقصد عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ علماء اسلام کو صحیح انداز میں پیش نہیں کررہے ہیں، اس لیے علماء کو چھوڑ کر عوام کو خود قرآن و حدیث سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے، اور کچھ مغرب پسند تو یہاں تک سوچنے لگے ہیں کہ اسلام چودہ سو سال پہلے عرب کے ایک بنجر علاقے کا پیداوار مذہب ہے ، یہ اکیسویں صدی کا پورا پورا ساتھ نہیں دے سکتا، اس قسم کی باتیں آج میڈیا میں با ربار دہرائی جارہی ہیں، اس کے لیے منطقی اور پر فریب اسلوب بیان اختیار کیا جارہا ہے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ ایسی باتیں کرنے والے وہ لوگ ہیں جو دین کی حد بندیوں سے باہر جانے کے لیے بھی بے قرار ہیں اور زبانی طور پر اسلام کے لیے سب سے زیادہ خلوص اور درد کا اظہار بھی کررہے ہیں۔چند پر فریب تحریر یں آپ بھی پڑھیے، جناب راشد شاز لکھتے ہیں:
’’یہ بات اصولی طور پر درست نہیں کہ مستقبل کے دین کو اور اس دین کو جو آخری لمحے تک ہماری رہنمائی کا دعویدار ہے اسے قدما کی تعبیر کا تابع کردیا جائے کہ ایسا کرنا وحی کو اس کے فریضے سے معطل کردینا ہے۔‘‘( چودہویں صدی، جون جولائی ۲۰۰۵ء)
جناب کی اس تحریر پر کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے شارع اسلام علیہ التحیۃ والسلام کے اس ارشاد کو پیش کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے جس کی تخریج ابن عساکر اور خطیب نے کی ہے، آں جناب کے جذبۂ اصلاح کی حقیقت قارئین کے سامنے ازخود ظاہر ہوجائے گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’ جب فتنوں کا ظہور ہواور اس امت کے بعد والے اگلے لوگوں پر لعنت کریں تو اس وقت جس کے پاس علم ہو وہ اسے عام کرے۔‘‘
 جو لوگ آج آزادی فکر کی بیساکھی کے سہارے قدما کی تعبیر و تشریح سے شریعت اسلامیہ کو آزاد کرنا چاہتے ہیں انہیں ان احادیث نبویہ کا بھی بغور مطالعہ کرنا چاہیے جن میں یہ کہا گیا ہے کہ امت کی بڑی جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اور اس سے انحراف کرنے والے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائیں گے۔ اگر عقلی طور پر بھی غور کیا جائے تو یہ مسئلہ واضح ہوگا کہ شریعت کو اگر جمہور امت کی تعبیر کے تابع رکھا جائے تبھی اسلام ایک مذہب اور ایک دستور کی شکل میں آج باقی رہ سکے گا، اگر جمہور امت کی تعبیر سے اسلام کو آزاد کردیا جائے تو پھر جتنی زبانیں اور جتنی فکریں ہوں گی اسلام کی بھی اتنی ہی شبیہیں سامنے آئیں گی۔ قدما کی تعبیر سے اسلام کو آزاد کرانے کی فکر میں لاغر ہونے والے آخر اس اندوہ ناک صورت حال پر غور کیوں نہیں کرتے؟
جناب راشد شاز مزید لکھتے ہیں:
’’بدقسمتی سے مسلم معاشرہ میں صدیوں سے قرآن کو محور غور و فکر سے پرے محض کتاب برکت کی حیثیت سے دیکھنے کا رواج عام ہے‘‘ ( ایضاً)
اگر یہ بات مسلم عوام کے لیے کہی جارہی ہے تو اس کی صداقت سے انکار ممکن نہیں، مگر اس صورت میں قسمت کو سب و شتم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ،کیوں کہ عوام کبھی بھی شریعت کی تعبیر و تشریح نہیں کرتے اور اگر علماء کے لیے یہ بات کہی جارہی ہے جو شریعت کی تعبیر و تشریح کرتے ہیں تو لائبریریوں میں پڑی پچھلی صدیوں کی تفسیر، شرح حدیث اور فقہ کی ہزار ہا ہزار کتابیں اس دعوے کی ایسی کھلی تردید ہیں جس کے بعد مزید کسی تردید کی ضرورت نہیں رہ جاتی، محترم شاز صاحب جیسے اس دور کے شاذ افراد ایسی باتیں کہہ کر جو کہنا چاہ رہے ہیں آج مسلم عوام کو اسے سمجھنے اور اس پر ان کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
لندن بم دھماکہ (7/7) کے بعد گستاخ رسول سلمان رشدی بھی اصلاح کا نعرہ لے کر میڈیا میں اتر پڑا ہے۔ آج وہ اصلاح کے نام پر اسلام اور علماء اسلام کے خلاف زہر افشانیوں کا نیا مورچہ سنبھالے ہوا ہے، لندن حادثہ کے فوراً بعد ہی اس نے اخبارات کو بیان دیتے ہوئے کہا تھا:
’’آج قرآن کا از سر نو مطالعہ کرنے اور اسلام کی تشکیل نو کرنے کی ضرورت ہے‘‘
ابھی حال ہی میں اس نے ٹائمس آف انڈیا کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا ہے:’’ میں اسلام میں ایسی اصلاحی تحریک لانے کی بات کررہا ہوں جو اسے بنیاد پرستی سے باہر لائے۔‘‘
I was talking about a reform movement to reclaim Islam from that radicals.
(The Times of India, Oct,16,2005)
قدامت کا ہوّا:-
 آج دین دار طبقے پر قدامت پسندی کا الزام اگراس معنیٰ کر ہے کہ وہ چودہ سو سالہ قدیم مذہب کے اصول و قوانین کی پیروی کرتاہے تو بلاشبہ یہ الزام درست ہے، اور میںسمجھتا ہوں کہ دین پر ور طبقہ کو اس الزام کو بخوشی بلکہ فخریہ قبول کرلینا چاہیے اور اگر اس الزام کی توضیح میں یہ کہا جائے کہ یہ لوگ اس اسلام کی پیروی کر رہے ہیں جس کی تعبیر و تشریح چودہ سوسال سے علماء و فقہاء کرتے آرہے ہیں جب کہ آج کا تقاضا یہ ہے کہ آج از سر نو اسلام کی تعبیر و تشریح ہونی چاہیے جب ہی اسلام دور جدید کا ساتھ دے سکے گا تو یہ الزام بھی دین دار طبقہ کے لیے باعث فخر و موجب فرح ہے، لیکن اس کے ساتھ اسلام کی از سر نو تعبیر و تشریح کرنے کا مطالبہ ایسا فریب ہے جس کے دام میں امت مسلمہ کبھی بھی نہیں آسکتی، کیوں کہ اس مطالبے کو قبول کرنے کا مطلب اسلام سے دست بردار ہوجانا ہے اور امت ایسا ظالمانہ مطالبہ کبھی تسلیم نہیں کرسکتی۔
حقیقت یہ ہے کہ قدامت اور بنیاد پرستی کا الزام از الف تا یا فریب ہی فریب ہے، ایک ہوّا ہے، ایک مکر ہے، وہ آزاد طبیعتیں جن کے نفس بے مہارکی راہ میں اسلام آڑے آتا ہے وہ بجائے اس کے کہ  وہ اپنے نفس کی اصلاح اور کج فکری کا علاج کریں یا سیدھے اسلام سے دست بردار ہوجائیں وہ اسلام کی ایسی تعبیر و تشریح کرنا شروع کردیتے  ہیںجس سے اسلام ان کی مرضی کے مطابق ہوجائے، اور اس کے لیے انہیں سب سے پہلے اسلام پسندوں کو طعن و تشنیع کرنا ضروری ہوجاتا ہے کہ اس کے بغیر ان کا نیا اسلام حقیقت کی زمین پر اتر ہی نہیں سکتا۔سلمان رشدی کا حالیہ مطالبۂ تجدید و اصلاح کو سامنے رکھیں تو مذکورہ بالا باتوں کی تصدیق ہوجاتی ہے، کھلی ہوئی بات ہے کہ رشدی پر گستاخی رسول کی پاداش میں آج پوری دنیا کے مسلمانوں کی جانب سے لعنت و نفریں کی بارش ہورہی ہے، ایسے میں اس کے دل میں اصلاح اسلام کا جذبہ پیدا ہوجانا فطری ہے تاکہ اسلام کا دامن اتنا وسیع ہوجائے کہ اس میں ایک گستاخ رسول کو بھی جگہ مل سکے اور ایک ایسا شخص جو قرآنی آیات کا مذاق اڑائے اور یہودیوں کو بھی شرما دینے والے اسلوب وزبان میں عظمت رسالت پر حرف گیری کرے، اسے بھی نہ صرف اسلام کا اعزاز دیا جائے بلکہ مصلح امت اور مجدد اسلام کے القاب سے بھی نوازا جاسکے۔
اہل تجدید کے تین خیمے:-
 کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کے معانی میں بے پناہ وسعت ہوتی ہے، پانی کی طرح کہ جو کوزہ سے سمندر تک مختلف کم و کیف میں پایا جاتا ہے، ایسی صورت میں ان کے معانی و مفاہیم کے مختلف درجات پر غور کیے بغیر سب پر یکساں حکم لگانا بڑی نا انصافی ہے، اختلاف، موافقت، تنقید اور تفریق جیسے الفاظ اسی ضمن میں آتے ہیں۔ لفظ ’’ تجدید‘‘ کا شمار بھی اسی میں ہونا چاہیے کیوں کہ متجددین کسی متعین اور محدود فکر کے حامل نہیں بلکہ ان کے مختلف خیمے اور متعدد گروہ ہیں، سہولت کے لیے انہیں ہم تین خانوں میں رکھ سکتے ہیں۔ (۱) مستغربین (۲) متجددین (۳) محققین۔ 
مستغربین: جدت پسندوں کا یہ وہ گروہ ہے جس کے ذہن و دماغ پر اہل مغرب کے عظیم الشان علمی اور سائنسی کارناموں نے اپنا ایسا تسلط جمالیا ہے کہ انہیں مغرب کی تعفن زدہ ثقافت اور حیا سوز کلچر میں بھی انسانی عظمت کے آثار نظر آتے ہیں۔ مغرب میں عورتوں کو نہ صرف مردوں کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے بلکہ اجنبیوں سے بغل گیر ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی ان کا ضمیر انہیں ملامت نہیں کرتا، بلکہ وہ اسے عورتوں کی آزادی سمجھتے ہیں اور اس بے حیائی کا ماخذ اسلام کو بتاتے ہیں جس نے تاریخ میں پہلی بار عورت کو اس کا حق دیا۔ یہ حضرات آج اسلام کو اسی آئینے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا ایک فریب ہے کہ ’’اسلام روح ہے نہ کہ جسم‘‘۔
 متجددین: جدت پسندوں کا یہ وہ گروہ ہے جو کسی مسئلے کو مشرق و مغرب اور صحیح و غلط کی کسوٹی پر دیکھنے کے بجائے آسان اور مشکل ( یسر اور عسر) کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ ( ہر چند کہ یہ قانون بھی اسلامی ہے لیکن یہ فی نفسہٖ اتنا مبہم ہے کہ اس کی توضیح ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں، اس کے لیے علمی اصول ہیں جو ماہرین کے ہی بس کے ہیں ) مثلاً ہمارے ایک حنفی کرم فرما ہیںا نہیں فقہ جعفری کا طریقۂ طلاق، فقہ سلفی کے بعض مسائل اور ہندؤں کے بعض عقائد و مراسم بہت اچھے لگتے ہیں، اس لیے نہیں کہ یہ ان کی علمی تحقیق ہے بلکہ صرف اس لیے کہ ان امور میں بڑی آسانی ہے، دور حاضر میں بعض حنفی علما اور طلبہ کا داڑھی کٹا کر فقہ شافعی کا حوالہ دینا بھی اسی ضمن میں آتا ہے، آج تصویر اور ٹیلی ویژن کے مسئلہ پر بھی بعض حضرات اسی اسلوب نظر سے غور کررہے ہیں اور ان کے مد مقابل بعض دوسرے تصویر کی حرمت پر پوری شد و مد کے ساتھ دلیل دیے جارہے ہیں، حالانکہ تصویر کی حرمت اور ٹیلی ویژن کے مفاسد ایسا واضح امر ہے جس پر کسی بحث وتکرار کی ضرورت ہی نہیں، ہاں آج اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ان مفاسد کے باوجود اہل اسلام کو اس بات کی ضرورت نہیں ہے، وہ ٹیلی ویژن کو دعوت کے لیے استعمال کریں؟ مگر افسوس کہ اس پر کوئی بحث کرنے کو تیار نہیں۔
محققین: جدت پسندوں کا یہ وہ گروہ ہے جسے جدت پسند کے بجائے حقیقت پسند کہنا چاہیے، یہ صرف اپنی ذاتی سہولت یا شخصی وہم و گمان پر نہیں بلکہ شرعی اصول اور اسلامی طرز تحقیق سے عصر نو کے زائیدہ مسائل میں غیر متعصبانہ غور و فکر کرتا ہے اور امت کے لیے حتی الوسع آسانی کی راہ نکالتا ہے۔ اس ذہنیت کے لوگ فروعی مسائل میں متقدمین سے اختلاف بھی کرتے ہیں مگر ان کا اختلاف خالص علمی ہوتا ہے۔ ایسے افراد خود مخلص ہوتے ہیں اوراپنے پیش رو علمائے اسلام جن کی جہد مسلسل سے اسلام اپنے ذخیرے کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے، کوبھی مخلص اور قابل احترام سمجھتے ہیں۔
 پس چہ باید کرد:-
 پندرہویں اورسولہویں صدی  میںیورپ میں مذہب و سیاست کے درمیان کشمکش کا دور رہا ہے، اسی عہد میں مارٹن لوتھر (۱۴۸۳ء؍۱۵۴۶ء) نے اصلاح مذہب کا علم بلند کیا، اس کا سب سے بڑا مدعا یہ تھا کہ خدا اور بندے کے درمیان ثالث کا توسط غلط ہے، اس لیے چرچ( مذہبی رہنماؤں کی جماعت) کا تقدس کوئی چیز نہیں۔ مارٹن لوتھر کی آواز رفتہ رفتہ ایک انقلاب کی شکل اختیار کرگئی اور نتیجتاً مذہبی رہنماؤں کا زور ٹوٹ گیا۔ اصلاح مذہب کی داستان یہاں تک جتنی دل آویز ہے اس کے بعد کی داستان اتنی ہی دل خراش ہے، اس کے بعد عوام و خواص نہ صرف مذہبی رہنماؤں سے آزاد ہوگئے بلکہ سرے سے ان کے اوپر سے مذہب کی گرفت ہی ڈھیلی پڑ گئی، الحاد و لادینی کا چلن عام ہوگیا اور مذہب ایک کھلونا ہو کر رہ گیا۔
 عصر حاضر میں اسلام بھی غیروں کی سازش اور اپنوں کی سادگی اور حماقت کے نتیجے میں اسی موڑ پر آگیا ہے، آج اصلاح مذہب کا نعرہ لگانے والے بجائے اس کے کہ وہ اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کرتے، اپنی جہالت پر شرمسار ہوئے بغیر علماء کو مسلسل طعن و تشنیع کررہے ہیں، مذہب کی جو تعلیم یا جو پیغام ان کی محدود عقل میں نہیں سماتا وہ اسے فوراً یہ کہہ کر مسترد کردیتے ہیں کہ یہ سب علما ء کا کیا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کتاب و سنت میں زندگی کے جملہ مسائل کا ہر ہر جزئیہ بیان نہیں ہوا ہے، اصول بیان کردیے گئے ہیں ان کے آئینے میں مذہب کے ماہرین جزئیات کا حل دریافت کرتے ہیں ، اس لیے ان مذہب بیزار اصلاح پسندوں کے لیے یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ یہ بات کتاب و سنت میں نہیں ہے۔ حالانکہ کسی بات کا کتاب و سنت میں بہ صراحت نہ ہونا الگ چیز ہے اور کتاب و سنت کے مخالف ہونا الگ، صدائے اصلاح کے بعد عیسائی دنیا میں مذہبی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اگر یہ مصلحین اپنی مفروضہ اصلاح کے بعد رونما ہونے والے اسلام کے دور کا تصور کریں تو ان کی اصلاح انہیں خود قابل اصلاح نظر آئے گی۔
 بہر کیف! یہاں اتنی بات تو واضح ہوہی جاتی ہے کہ اصلاح پسندوں کی نعرہ بازیوں اور شور و غوغا کے رد عمل میں اگر ہم صرف خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے تو نتیجہ خوش آئند نہیں ہوگا۔ وقت کا جبر ہے کہ کچھ کریں، میرے سامنے عمل کی چند صورتیں ہیں۔
(۱) اصلاح کے وہ دعویدار جن کے اسلامی نام سے یہود ی و عیسائی مشینریاں فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے مقاصد میں استعمال کررہی ہیں، عام مسلمانوں کے سامنے ان کا اصلی روپ پیش کرنا از بس ضروری ہے تاکہ وہ عوام کواپنی دل ربا سخن سازیوں سے کسی طرح بھی لبھا نہ سکیں۔
(۲) اس حقیقت کو متعارف کرایا جائے کہ مذہب شناسی کے بغیر مذہب پر تنقید نہایت غیر منصفانہ عمل ہے ،ایسے ہی عالم پر جاہل کی تنقید براہ راست جہل کا علم پر تنقید ہے۔
(۳) اصلاح پسندوں میں عیار کم اور معصوم زیادہ ہیں، بیشتر انجانے میں دوسرے شر پسندوں کے سر میں سر ملا رہے ہیں، اس لیے وہ ہماری جانب سے نرمی اور تبلیغ حق کے مستحق ہیں نہ کہ عتاب و سرزنش کے۔
(۴) اسلام کا مکمل نظام حیات دو دو چار کی طرح نہیں ہے، بلکہ بہت سے ایسے مسائل ہیں جن تک عام ذہنوں کی رسائی نہیں ہوتی ہے، ایسے میں مشکوک ذہنوں کی مناسب تفہیم کی ضرورت ہے ،ان کے شبہات پر برہم ہونا عقل مندی نہیں ہے۔
(۵) ہم پر صرف حق کی تبلیغ واجب نہیں، حق کی حکیمانہ تبلیغ واجب ہے، اس نکتہ کو سمجھنا ہوگا۔
(۶) جائز پر مستحب، مستحب پر مسنون اور مسنون پر واجب کو قربان نہیں کیا جاسکتا، اس لیے جہاں ہم ایک شئے کے حصول کے لیے کوشاں ہوں وہاں اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں اس سے اہم فوت نہ ہوجائے۔
(۷) حدیث رسول کے مطابق ہر شخص فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں، اس لیے ہم قومیت یا رنگ و نسل پر اسلام کو قربان نہیں کرسکتے، اسی طرح بعض مسائل جن کی حیثیت مسلکی علامت تک ہے، وہ کوئی واجب یا فرض نہیں، ان کے لیے اسلام کا نقصان قبول کرنا سخت نادانی ہے۔
(۸) ارشاد رسول کے مطابق امت کا سواد اعظم ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جو اسلام سواد اعظم سے ہم تک پہنچا ہے وہ عین اسلام ہے، قدما میں بعض کی شخصی رائے غلط ہوسکتی ہے مگر متفقہ آراء ہر گز غلط نہیں ہوسکتیں، یہ بات سمجھنے کی ہے۔
(۹) بعض مسائل وقت اور حالات کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں، اس کا فیصلہ دین کی گہری معرفت رکھنے والا شخص ہی کرسکتا ہے ،اس لیے اگر بعض مسائل میں بعض محققین علماء تسہیل کے خواہاں ہوں تو ان کا رد بعینہٖ ویسے نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ ایک جاہل متجدد کا کیا جاتا ہے۔
(۱۰) عصر جدید میں ایک بات یہ کھل کر سامنے آئی ہے کہ آج مذہبوں، ثقافتوں اور تہذیبوں کا باہمی اختلاط اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ایک عام آدمی کے لیے اس سے نجات کی راہ پا نا نا ممکن سا ہوگیا ہے، اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ میڈیا مغربی افکار اور مغربی کلچر کی فوقیت کو ثابت کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کررہا ہے، ایسے میں اگر کوئی تقویٰ شعار اپنا دامن سمیٹ کر صحرا نوردی اختیار کرلے تو وہ یقینا اس بلائے ناگہاں سے خود کو بچا لے گا لیکن ایسی صورت میں وہ قوم کو ایسے گرداب بلا خیز میں چھوڑ دے گا جس سے نجات پانا اس کے لیے ناممکن ہوگا۔ اس لیے علمائے کرام اور مبلغین اسلام کے لیے یہ گھڑی لمحہ فکریہ ہے کہ وہ کیا کریں؟ اگر انہوں نے اس نکتے پر سنجیدہ غور و فکر نہیں کیا تو کل امت گناہوں کے جس دلدل میں پھنسے گی آج اس کا صحیح تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔