Monday 22 January 2018

شب جاے کہ من بودم --- دنیا کی بدلتی ہوئی صورت حال اور اسلام کے امکانات و خطرات پر ایک مذاکراتی تحریر

0 comments
شب جاے کہ من بودم
دنیا کی بدلتی ہوئی صورت حال اور اسلام کے امکانات و خطرات پر 
ایک مذاکراتی تحریر
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
----------------------------------------------------------------------------
مسٹر فائق جمالی صاحب کی باتیں بڑی معقول ہوتی ہیں، مجھ میں تو یہ ہمت ہی نہیں ہوتی کہ ان کی معمولی باتوں کی بھی کاٹ کر سکوں، کل وہ فرمارہے تھے کہ بہار سے جو گاڑیاں دہلی آتی ہیں ان میں سے آدھی واپس نہیں ہوتی ہیں کیوں کہ واردین دہلی کی نصف تعداد دہلی کو دل دے کر دہلی کی ہی ہو کر رہ جاتی ہے، جناب کی یہ باتیں مجھے بھلی لگیں،کیوں کہ میں خود چار سال پہلے جب دہلی آیا تواب تک بہار واپس نہیں لوٹا، پتہ نہیں جس گاڑی سے میں آیا تھا وہ واپس ہوئی یانہیں، بہر حال مجھے آج جو کہنا ہے وہ یہ کہ دہلی میں آنے والوں کو یہاں بھی کوئی سکون میسر نہیں آتا، بلکہ اس کے برعکس پریشانیوں کی فہرست میں ہر دن دوچار نئے ناموں کا اضافہ ہوجاتا ہے، پچھلے دنوں بٹلہ ہاؤس چھوڑ کر جب ذاکر نگر میں میں نے رہائش اختیار کی تو میری مشکلات کی فہرست میں ایک نئے عنوان ’’ مجلس احباب‘‘ کا اضافہ ہوگیا جسے ’’ دیوان فکر‘‘ یا ’’ ایوان تفریح‘‘ کا نام بھی دے سکتے ہیں یا چاہیں تو’’ شعبہ وقت گزاری‘‘ سے موسوم کردیں،نئے یا پرانے گریجویٹ، مولوی مولانا، صحافی خطیب، قلم کار اناؤنسر، کسی رسالے کے مدیر یا کسی ادارے کے پرنسپل یا کچھ اسی قسم کے دوسرے عجوبے آئے دن اس مجلس کی زینت بنتے رہتے ہیں، لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اس شغل بیکاری میں کبھی کبھار کچھ کام کی باتیں بھی ہوجاتی ہیں۔
 پچھلی رات ہماری یہ مجلس منعقد ہوئی، شرکاء تھے ایک چند روزہ سابق مدیر، ایک ضعیف فاؤنڈیشن کے ڈائرکٹر، ایک عارضی تنظیم کے جنرل سکریٹری، دہلی یونیورسٹی میں ایم اے فائنل کے ایک طالب، سیاحت کی غرض سے کشمیر سے نو وارد ایک عالم دین اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چند احباب، حسب سابق سلام دعا سے شروع ہوکر عالم اسلام کی موجودہ صورت حال پر گفتگو شروع ہوگئی، ایک صاحب گویا ہوئے:
*آج پوری دنیا میں امریکی بربریت سے نفرت اور بیزاری کی لہر چل پڑی ہے، امریکہ تاریخ کا سب سے بڑا ظالم ہے اور کس کو نہیں معلوم کہ ظلم کی ٹہنی کبھی بھی پھل نہیں سکتی۔
دیکھیے آپ جس چیز کو امریکہ کی بربریت اور ظلم و تعدی سے تعبیر کررہے ہیں وہ آپ کی نظر میں تو ظلم ہے مگر کوئی ضروری نہیں کہ وہ امریکہ کی نظر میں بھی ظلم ہو، واقعہ یہ ہے کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر دور میں طاقتور انسان نے کمزور انسان کو دبانے کی کوشش کیا، بعینہ جس طرح طاقتور مچھلیاں کمزور مچھلیوں کو نگل جاتی ہیں، طاقتور انسان اپنے سے کمزور انسان کو کچل دینا چاہتا ہے، تو آج امریکہ جو کچھ کررہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں، یہ تاریخ کی روایت ہے جو آئندہ بھی دہرائی جائے گی۔
یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی، اگر اس کو تسلیم کرلیجیے تب تو نہ ظلم ظلم رہے گا اور نہ انصاف انصاف، ہمیں ظلم اور انصاف میں بہر حال تمیز کرنی چاہیے۔
علیٰ کل حال، امریکہ ظالم ہے اور اس کے خلاف ہمیں زبردست جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک صاحب نے اپنی آستین سمیٹتے ہوئے ڈکار لیا اور فرمانے لگے:
آفتاب طلوع ہوتا ہے اور وہ بلند ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے جب اس کی بلندی رک جاتی ہے اور اس کے بعد اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے، امریکہ آج تلک ترقی کرتا رہا، اسے جہاں تک آگے بڑھنا تھا بڑھ چکا، اب الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے، عراق پر حملہ کی تیسری برسی کے بعد پوری دنیا میں امریکہ کے خلاف احتجاج اور غم و غصہ کا اظہار اس کا واضح اشارہ ہے۔
یہ سب باتیں خواب و خیال کی ہیں، کہہ لیجیے اور دل کو بہلا لیجیے۔
آپ یہ کیوں کہہ رہے ہیں، کیا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ ادھر پچھلے چند سالوں سے چین نہایت برق رفتاری سے ترقی کررہا ہے، خصوصاً اس کی اقتصادی پوزیشن بہت بہتر ہوتی جارہی ہے، تو کیا اس سے یہ نہیں لگتا کہ جس طرح روس کے زوال کے بعد امریکہ سپر پاور بنا، اب امریکہ کے زوال کے بعد چین سپر پاور بنے گا۔
ایک صاحب کافی دیر سے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے، انہوں چشمہ درست کرتے ہوئے نہایت مفکرانہ لہجہ میں لب کشائی فرمائی۔
دیکھیے صاحبان! دنیا میں کس کا عروج ہورہا ہے اور کون زوال آمادہ ہے، اس بے سود بحث میں بلا وجہ اپنا وقت ضائع مت کیجیے، آپ خدا اور رسول کے ماننے والے ہیں، اسلام کے علم بردار ہیں، آپ اس پہلو پر غور فرمائیں کہ اسلام کی سر بلندی کے آثار، وسائل اور امکانات کتنے ہیں اور اس کا خیال رکھیں کہ جس طرح روس کی مارکسزم اسلام کے خلاف تھی، امریکہ کی سرمایہ داری(Capitalism) اسلام مخالف ہے ،ویسے ہی چین کی کمیونزم بھی کسی طرح بھی اسلام کے حق میں نہیں ہوگی۔
مجلس پر تھوڑی دیر کے لیے سناٹا چھا گیا اور سب کی نظر چھت اور پنکھے یا فرش پر پڑے تنکوں پر ٹک گئیں، سابق ایڈیٹر صاحب نے پانی پیا، مونچھیں درست کیں، کرسی پر سیدھے ہو کر بیٹھے اور پھر کیا تھا مجلس پر چھائی ہوئی خاموشی کو اپنے الفاظ کی ساحری سے توڑ دیا۔
محترمو! آپ لوگ نوجوان ہو، ایک مخصوص ماحول سے نکل کر ایک خاص دنیا میں آپ نے قدم رکھا ہے، لیکن باوجود اس کے آپ اپنے منصب کو مت بھولیے، آپ عالم و فاضل ہیں، پوری امت کی نظریں آپ پر ٹکی ہوئی ہیں، اگر امت کو کسی روشنی کی امید ہے تو وہ فقط آپ سے، اس لیے آپ اتنی جلدی مایوس مت ہوجائیے، یا سیت کو اپنے اوپر مسلط مت کریے، میں نے مانا کہ حالات واقعی بہت ابتر ہیں، مایوس کن ہیں، مگر اتنے بھی نہیں کہ ہمارے ہاتھوں میں زنجیریں ہوں اور پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوں، ہم نے مانا کہ آپ بہت کچھ نہیں کرسکتے مگرکچھ تو کرسکتے ہو، کہتے ہیں کہ مالا یدرک کلہ لا یترک کلہ(Some thing is better than nothing) …کچھ دیر ٹھہر کر پھر گویا ہوئے… مجھے لگتا ہے کہ میرے نوجوان حالات کا رونا روکر اپنی سستی، کاہلی، نا اہلی اور بے عملی و بد عملی کے جواز کی راہ تلاش کرتے ہیں، اقبال کے بقول ’’ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘ اگر ہم اس بات کو سمجھیں اور اقبال کی اس فکر کی روح تک پہنچنے کی کوشش کریں تو شاید ہمیں امید کی بہت سی شمعیں فروزاں نظر آئیں گی، چراغ سے چراغ جلانے سے روشنی بڑھتی ہے، اگر ہر فرد کچھ نہ کچھ کرنے کا بیڑا اپنے کاندھے پر اٹھالے تو بڑی آسانی سے بہت سے کام ہوجائیں گے، بر عکس اس کے ایک دوسرے کو کوسنے اور ماتم کرنے سے مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے اور الجھتے چلے جائیں گے۔
 مجلس میں براجمان ڈائرکٹر صاحب کو لگا کہ اب ان کا وقت آن پڑا ہے، میں دیر سے دیکھ رہا تھا کہ ان کے صبر کا پیمانہ رفتہ رفتہ لبریز ہورہا ہے اور مجھے یقین ہو چلا تھا کہ ایڈیٹر صاحب کے خاموش ہوتے ہی وہ امنڈ پڑے گا، چنانچہ حسب توقع ’’ بر خوردارو!رک جاؤ، اب میری سنو‘‘ کہہ کر گویا ہوئے اور ہم جگر تھام کر سراپا سماعت بن گئے۔
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ جب امت جہاد کرنا چھوڑ دے گی تو وہ زوال و انحطاط کا شکار ہوجائے گی، ہمیں اس پر یقین رکھنا چاہیے اور جہاد بالقلم اور جہاد باللسان جیسی نا معقول توجیہات کو چھوڑ کر حقیقی جہاد کا علم لے کر اٹھنا چاہیے، جہاد کے بغیر اسلامی علم کی سر بلندی کا خواب ایک سراب ہے، دھوکا ہے، مبارک ہیں وہ لوگ جو حق کی سر بلندی کی خاطر آج بھی جہاد کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔
دوستو! یہ انٹلیکچو لیٹی، یہ دانشوری اور بلند خیالی کا واہمہ چھوڑ دو، صلح پسندی، معذرت خواہی اور عاجزی و منافقت سے توبہ کرلو، اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ’’ انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین‘‘  تمہیں سر بلندہو اگر مومن ہو، تو مکمل مومنانہ شان کے ساتھ اٹھو اور باطل کے خرمن کو خاکستر کر ڈالو۔
 قارئین کو یاد ہوگا کہ جام نور کے پچھلے مذاکرہ میں میں صرف ایک بار ہی بول سکا تھا اور اس کی وجہ خصوصاً مولانا عبید اللہ خاں اعظمی صاحب کا اپنی طلاقت لسانی کے ذریعہ مجلس پر قبضہ جمائے رہنا تھی۔ آج کی نشست میں اب مجھے ڈر ہوگیا کہ شاید مجھے ایک بار بھی بولنے کا موقع نہ ملے، اس لیے بلا تاخیر و تمہید محترم سابق ایڈیٹر کے حضور اپنا لمبا سوال داغ دیا۔
 تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ امت کو جہادی قوت سے محروم کرنے والی جماعت وہابی تحریک تھی، اسی نے ۱۹۲۳ء میں عثمانی سلطنت کا خاتمہ کر کے برائے نام خلافت کو بھی ختم کردیا، اس نے برطانوی سامراج کی پشت پناہی میں عرب کی متحدہ قوت کو توڑ کر عرب کو بستیوں میں تقسیم کردیا، برطانوی سامراج کے خلاف آئندہ کبھی بھی آمادہ پیکار ہونے سے انکار کرتے ہوئے ہمیشہ اس کی حمایت کرنے اور دم بھرنے کی قسمیں کھالیں اور پوری امت کو مذہبی، فکری اور سیاسی وسماجی سطح پر سخت ترین ابتلا و آزمائش میں ڈال دیا، لیکن آج کل جیسا کہ اخباروں میں آرہا ہے کہ یہی جہادی روح کو ختم کرنے والی جماعت آج سب سے زیادہ جہادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہے اور بعض واقف کاروں نے تو یہاں تک بتایا کہ اسامہ بن لادن اور ملا عمر کا بھی اسی وہابی جماعت سے تعلق ہے، آخر یہ دورخی کیسی ہے؟
میرا خیال تھا کہ میرا سوال بہت ہی مشکل ہے اور اس کا جواب دینے کے لیے شاید سابق ایڈیٹر صاحب کو پھر سے قلم دان ادارت سنبھالنا پڑے، لیکن خلاف توقع بڑی سنجیدگی اور وقار کے ساتھ فرمانے لگے۔
دیکھیے! اسامہ کو تیار کس نے کیا؟ صدام حسین کوبال و پر کس نے عطا کیے؟ آپ سب جانتے ہیں امریکہ نے، لیکن بعد میں یہ دونوں کس کے گلے کی ہڈی بنے، یہ بھی آپ جانتے ہیں، امریکہ کے، ٹھیک اسی طرح مجھے لگتا ہے کہ جن قوتوں نے اسلام کی پاکیزہ زمین میں وہابیت کا بیج بویا، آج وہابیت اسی کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے، جس وقت وہابیت کی تشکیل دی جارہی تھی اس وقت تشکیل دینے والوں کی نظروں میں اس کے ذریعہ پیدا ہونے والے مسلم امہ کے باہمی افتراق وانتشار، نفرت وغصہ اور خون ریزی کے سیاہ مناظر تھے، ان کے واہمے میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ وہابی تحریک کبھی ان کے خلاف بھی ہوجائے گی، اور ایسا ہوجانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے جس کو آپ تسلیم نہ کرسکیں، دیکھیے وہابیت کی شاخ جب لگائی گئی تھی تو شاید اس شاخ کو بھی یہ خبر نہ تھی کہ مجھے اسلام کے سینے میں خنجر کی شکل میں پیوست کیا جارہا ہے، یا خبر ہوگی بھی تو صرف اسی کو، بعد میں اس سے جو برگ و بارنکلے وہ یہی سمجھتے رہے کہ ہم ہی حقیقی اسلام کو پیش کررہے ہیں، اس طرح ان کے افکار و نظریات جیسے بھی رہے ،وہ انہی کو عین اسلام سمجھ بیٹھے، اب ان کی بعد کی نسلوں میں جب یہ شعور بیدار ہوا ہے کہ کوئی قوت ہے جو روبرو یا بیک ڈور سے اسلام کے خلاف سازش رچ رہی ہے، مسلمانوں کو کمزور کرنا چاہ رہی ہے، ان کی تہذیب و ثقافت کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہے تو اس میں اشتعال کا جذبہ اور انتقام کا شعلہ بھڑک اٹھا اور انہوں نے تشدد کی راہ اختیار کرلی۔ آج آپ کو بتاؤں کہ سعودی حکومت ہر طرح سے امریکی برطانوی غلامی کو بصد اعزاز قبول کی ہوئی ہے مگر سعودی بچوں تک میں امریکیوں کے تعلق سے ایسی شدید نفرت ہے کہ وہ ان کو دیکھنا تک پسند نہیں کرتے۔
آج امریکیوں کے لیے پوری دنیا میں عموماً اورعرب ملکوں میں خصوصاً چلنا پھرنا دشوار ہوگیا ہے، ریاض میں اس طرح کے بارہا واقعات رونما ہوئے کہ شدت پسندوں نے امریکی سمجھ کر دوسرے ملکوں کے سیاحوں تک کو گولی مار دیا، خلاصہ یہ کہ وہابی تحریک آج بہر کیف اپنے کو اسلامی جماعت سمجھتی ہے، وہ بھی اس شدت کے ساتھ کہ پوری دنیا میں مسلمان صرف اسی کے وابستہ گان ہیں، ایسے میں مخالفین اسلام کے تئیں اس جماعت میں نفرت، تشدد اور دہشت پسندی کا پایا جانا کوئی قابل حیرت بات نہیں ہے۔
ایڈیٹر صاحب خاموش ہوئے اور میں نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے ان کے سنبھلنے سے پہلے پہلے یہ دوسرا تیر بھی چلا دیا:
لیکن بہر حال آج سعودی حکومت امریکی مفادات کے خلاف اقدام نہیں کرسکتی، ایسے میں یہ جو آج کہا جارہا ہے کہ بین الاقوامی دہشت گردی کی سعودی سے امداد کی جاتی ہے بھلا یہ کیسے معقول ہے ؟
معقول ہے، بات در اصل یہ ہے کہ سرکاری خزانے سے دعوت و تبلیغ کے نام پر جو رقم نکالی جاتی ہے اسے سرکاری حکام دہشت گردوں کی امداد میں صرف کردیتے ہیں، آپ یہ سوچیے کہ جدہ ایئر پورٹ سے آپ معمولی نشہ آور کوئی چیز لے کر نہیں جاسکتے، سخت جانچ پڑتال کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، مگر ٹرک کاٹرک بارود اور بم خاص وقت میں خاص مقام پر پہنچتا ہے اور پھٹ پڑتا ہے، آپ نے یہ خبریں پڑھی ہوں گی، تو آخر ایسا کیوں کر ہوتا ہے؟ برّی راستے تو بند ہیں، بحری اور ہوائی راستے ہیں جہاں سخت قسم کا پہرہ ہے، کیا اس سے اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کے ہاتھ کس قدر مضبوط ہیں، در اصل کسی پالیسی کے خلاف جب عوامی بیزاری اور بے چینی پھیل جائے تو لاکھ کرو فر اور طاقت و قوت کے باوجود حکومتوں کی کچھ نہیں چلتی اور کمی و بیشی کے ساتھ امریکی پالیسیوں کے خلا ف نفرت کی لہر پوری دنیا میں پھیل چکی ہے، اس لیے یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ امریکی تانا شاہی کے اب بہت دن نہیں رہ گئے ہیں۔
جی ہاں! بالکل امریکہ کی تانا شاہی ختم ہوگی اور چین اس کی جگہ لے گا اور یہ کہنا کہ چین کی کمیونزم بھی اسلام مخالف ہے، اس کا مطلب  یہاں تک تو درست ہے کہ کمیونزم کے افکار اسلامی افکار کے مخالف ہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ جس طرح امریکہ نے اسلام کے سیاسی اور مذہبی استیصال کا بیڑا اٹھا رکھا ہے، چین ایسا ہر گز نہیں کرے گا، اس طرح چین کا عروج امریکہ کی بہ نسبت بہر حال بہتر ہے، کیوں کہ چین اسلام سے ٹکراؤ کا معاملہ کبھی بھی نہیں کرسکتا۔
دیکھیے! یہ تو وقت بتائے گا کہ کس کا عروج ہوگا اور کس کا زوال میں کرامت کا منکر نہیں، معجزے کا انکار نہیں کرتا، خدا چاہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر جہاں تک ظاہری اسباب و امکانات کی بات ہے تو اس کے تناظر میں امریکی زوال کا خواب شاید بہت امید افزا نہیں ہے۔
 کشمیر سے آئے ہوئے میرے دوست جن کو وقت سے پہلے کثرت تجربات نے بوڑھا کردیا ہے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے گویا ہوئے:
جی! ابھی ایک دو سال پہلے کی بات ہے، غالباً احمد آباد میں ایک دہشت گرد مارا گیا، جب اس کی شناخت کرائی گئی تو پتہ چلا کہ وہ حیدر آباد کا ہے، اس کے والدین سینہ پیٹ کر رہ گئے، انہوں نے کہا کہ میرا لڑکا سعودی عرب ملازمت کرنے گیا تھا، پتہ نہیں کیسے وہ یہاں مارا گیا، در اصل بعض ذرائع سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ دہشت گرد مسلم نوجوانوں کو مشتعل کرتے ہیں، ان کے اندر جاں بازی کی آگ بھڑکاتے ہیں، جب وہ جہاد کے نام پر سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں تو انہیں سعودی عرب بھیج دیا جاتا ہے، وہ ملازمت کے نام پر وہاں پہنچتے ہیں اور تربیت حاصل کر کے واپس آتے ہیں اور منصوبہ کے تحت کسی خاص مقام پر حملہ کرتے ہیں، مرتے یا مارے جاتے ہیں اور اہل و عیال کو حسب حال پیسے ملتے رہتے ہیں۔
مجلس پر ایک بار پھر سناٹا چھا گیا، آج کی ژولیدہ اور کثیر الجہات گفتگو بغیر کسی صحیح نتیجے پر پہنچے ہوئے تقریباً ختم ہوگئی، ٹیبل پر رکھی گھڑی کی سوئی ایک بجا رہی تھی، میں نے کہا کہ بزرگوں نے کہا ہے کہ دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں، اس لیے دیر تلک ہمیں اس طرح کی باتیں کرنا ٹھیک نہیں ہے، اور اس کے ساتھ ہی مجلس اختتام پذیر ہوگئی۔
میں نے یہ سطریں لکھنے کے بعد چاہا کہ بات مکمل کردوں اور قارئین کے لیے کوئی صحیح نتیجہ اخذ کر کے اس گفتگو کی پیچیدگی کو دور کردوں، لیکن اس خیال سے کہ ’’ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘ امت کے مسائل کے بارے میں سوچنا اور حتی الوسع عملی پیش رفت کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، میںنے ارادہ ترک کردیا اور یہ کام قارئین کے حوالہ کردیا، اگر آپ کسی اچھے نتیجے پر پہنچیں اور اس کے لیے آپ کو کوئی بہتر لائحہ عمل نظر آئے تو براہ کرم راقم الحروف کو مطلع فرمائیں۔ ممنون ہوں گا۔
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔