Tuesday 23 January 2018

اختلاف زحمت یا رحمت؟ --- ذیشان احمد مصباحی

0 comments
قلبی واردات ------------------ ذیشان احمد مصباحی
اختلاف امتی رحمۃ کی استنادی حیثیت پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر اختلاف خلوص پر مبنی ہو تو وہ عند اللہ بھی اجر و ثواب کا باعث بنے گا اور بین الناس بھی اس کی افادیت عام ہو کر رہے گی- ذرا سوچیے! فقر وغنا کے تعلق سے صحابہ کرام کی مختلف آرا نہ ہوتیں تو امت محمدی کے فقیر و غنی اتباع رسول کی عملی مثالیں کہاں سے لاتے، فقہ و اجتہاد میں اختلاف رائے نہ ہوا ہوتا تو احادیث کی مختلف رواتیوں پر عمل کیسے ممکن ہوتا اور مختلف دیار و امصار میں بسنے والے شریعت کے آبشار سے احسن طریقے پر کیسے سرشار ہوتے- اختلاف کی آج بھی ضرورت ہے، مگر ایسے اختلاف کی جس سے ایمان میں استحکام پیدا ہو، عمل کا جوت جگے اور کارگہہ حیات میں وہ بادبہاری چلے جو مختلف قسم کے بیل بوٹے کھلا کر چمن کے حسن کو دو بالا کر دے ،اس اختلاف سے خدا کی پناہ جو چمن کے آبشار کو خشک کر دے، شاخوں میں تراش خراش کی بجائے جڑوں کو کھود ڈالے اور ان مور پپیہوں کا گلا گھونٹ دے جن کی نوع بہ نوع آوازیں دور کھڑے ناظرین کو پاس آنے پر مجبور کرتی ہیں-
کہتے ہیں کہ اختلاف جرأت اور حوصلے کا کام ہے، بزدل لوگ کبھی اختلاف نہیں کر سکتے، اس کی بجائے وہ نفاق کی زندگی جیتے ہیں، وہ لا إلی ھٰؤلاء ولاإلی ھٰؤلائکے مصداق ہوتے ہیں، وہ بھیڑ کی چال چلتے ہیں، گردن جھکائے ایک کے پیچھے ایک، کبھی وہ لومڑی کی چال بھی چلتے ہیں، جدھر پس خوردۂ شیر نظر آیا دم دبائے بڑھ گئے ،مطلب کی دوستی کی، مطلب ختم دوستی ختم، اس کے برعکس اختلاف کرنے والے چیتے کا جگر رکھتے ہیں، وہ شیر کی طرح جھپٹتے اور سیلاب کی طرح آگے بڑھتے ہیں، اختلاف کرنے والے بشرطیکہ ان کی نیت مخلص اور مقصد نیک ہو، کسی کی دوستی یا دشمنی کی پروا نہیں کرتے، انہیں حق سے غرض ہوتی ہے، حق کے لیے جیتے اور حق کے لیے مرتے ہیں، وہ جدھر رخ کرتے ہیں اہل حق کا ایک ہجوم ان کے ساتھ ہوتا ہے، انہیں مخالفتوں کے طوفان کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن محبتوں اور حمایتوں کے پھول بھی ان پر نچھاور ہوتے ہیں، جس نے ان کی دیوانگی اور جنون کو نہیں سمجھا انہیں گالیاں دیں اور جسے ان کی’’ با شعور دیوانگی‘‘ کا ادراک ہوا، ان کے لیے پلکیں بچھا دیں-
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اختلاف فطرت کا حصہ ہے، اسے ہم قدرت کا عطیہ بھی کہہ سکتے ہیں، چمن دراصل اختلاف رنگ و بوہی کا نام ہے، چمن سے گر رنگ و بو کا اختلاف مٹ جائے تو نہ صرف چمن کی زینت ختم ہو جائے گی بلکہ اس کے وجود اور حقیقت پر بھی سوالیہ نشان کھڑا ہو جائے گا-کائنات پر جب ہم ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں تو یہ رنگا رنگ پھولوں ، نوع بہ نوع سبزوں ، جاذب نظر پودوں، خوب صورت کیاریوں، مختلف قسم کے پرندوں، میٹھے چشموں اور سفید نہروں پر مشتمل ایک دل فریب باغ نظر آتی ہے جسے باغباں نے بڑے سلیقے سے سجا رکھاہے- گویا کائنات میں تنوع بھی ہے اور ترتیب بھی، اس سے اختلاف کے مفہوم کی تحدید بھی ہو جاتی ہے، یعنی اختلاف اس حد تک کیا جائے جس حد تک ترتیب سلامت رہے، اتحاد کے زعم میں گلشن میں یک رنگی کا خواب دیکھنا اور اختلاف کے خروش میں حسن و جمال میں قائم لطیف نظم و ترتیب کو مٹا دینا دونوں ہی غلط ہے-
حق یہ ہے کہ اختلاف نہ ہو تو زندگی دوبھر ہو جائے، خدا کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے مسائل زندگی کو آسان بنانے اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں تقسیم عمل کے اصول کو قائم رکھنے کے لیے انسانیت کو دو سانچوں میں ڈھال دیا، پل بھر کے لیے سوچیے کہ اگریہ اختلاف نہ ہوتا تو کیا ہوتا، پھر حضرت آدم و حوا علیہما السلام سے جب یہ کارواں آگے بڑھا تو ہر قدم پر اختلاف کی ضرورت پڑی، صورتیں مختلف، حسن و جمال مختلف، فکروخیال مختلف، گفتار و کردار مختلف، صلاحیتیں مختلف، یہ اختلاف بڑھتا گیا، بڑھتا رہا ، بڑھتا جا رہا ہے اور بڑھتا رہے گا، چوں کہ زندگی کی ضرورتیں مختلف ہیں، تنہا کوئی ایک شخص ان تمام ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا اور دن بدن یہ ضرورتیں بڑھ رہی ہیں اس لیے اختلاف کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے-
مذہبی طور پر دیکھا جائے تو اختلاف کا حامی صرف اور صرف اسلام ہے،اس میں اصولی اعتبار سے یہ طے ہے کہ اگر خلوص کے ساتھ اختلاف ہو تو خطا بھی باعث عطا ہے، یہ اور بات ہے کہ اس اختلاف کی کچھ شرائط اور کچھ حدود و قیود ہیں، اس کے علاوہ دیگر مذاہب میں اختلاف تقریباً شجر ممنوعہ ہے، ایسے میں متعصبین سے یہ سن کر تعجب ہوتا ہے کہ اسلام اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہے- دراصل اسلام جس چیز کا مخالف ہے وہ اظہار رائے کی آزادی نہیں بلکہ غیر مشروط آزادی ہے، جسے کم از کم ’’ با شعور معاشرہ‘‘ کبھی بھی جائز قرار نہیں دے سکتا-معاشرے کا قیام اصول و ضوابط سے مشروط ہے، اصول و ضوابط کے بغیر معاشرہ قائم ہی نہیں رہ سکتا ،وہ انار کی اور بد نظمی کا شکار ہو جائے گا اور جب اصول و ضوابط کے بغیر معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا تو بھلا سلطنت و حکومت کا قیام کیوں کر متصور ہو سکتا ہے ؟ اس لیے ما بعد جدیدیت کے حامی ان ذہنی مریضوں کو اپنا محاسبہ کر لینا چاہیے جو آزادی اظہار رائے کا معنی ہر پابندی سے خود کو آزاد کر لینا سمجھتے ہیں-
یہاں اختلاف اور مخالفت کا فرق سمجھ لینا بھی ضروری ہے، یہ لطیف علمی فرق ہے، اسے جاہل نہیں سمجھ سکتے، عام محاورے میں یہ   ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال ہوتے ہیں اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ اختلاف بڑھتے بڑھتے مخالفت کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جیسے معاملہ اور لین دین بڑھتے بڑھتے محبت اور عشق کی شکل اختیار کر لیتا ہے، معاملہ کا تعلق جس طرح کسی ایک امر میں اتفاق سے ہوتا ہے اسی طرح اختلاف کا تعلق کسی ایک مسئلے میں عدم اتفاق سے ہوتا ہے، اس کے بر عکس محبت میں دوئی مٹ جاتی ہے اور محبوب کی ہر ادا پیاری نظر آتی ہے اور مخالفت میں یکجائی کا تصور ختم ہو جاتا ہے اور مخالف کی ہر روش ٹیڑھی نظر آتی ہے، اختلاف کا تعلق شعور سے ہوتا ہے جبکہ مخالفت کا تعلق عموماً جنون سے ہوتا ہے، اختلاف کی کچھ حدیں ہوتی ہیں مخالفت غیر محدود ہوتی ہے، اختلاف میں کہیں نہ کہیں خلوص باقی ہوتا ہے مخالفت سراپا عداوت ہوتی ہے، اختلاف نکتہ اختلاف کے مٹنے سے آپ مٹ جاتا ہے لیکن مخالفت میں ایسا نہیں ہوتا، مخالف شخص بہر امکان اپنی منفی سرگرمی جاری رکھنے کی کوشش کرتا ہے- 
چوں کہ اختلاف کسی ایک مسئلے یا چند مسائل میں ہوتا ہے اس لیے اختلاف غیروں کی طرح اپنوں سے بھی ہو سکتا ہے، لیکن مخالفت اپنوں کی(جب تک کہ وہ اپنے رہیں) نہیں کی جا سکتی- اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ اختلاف کے ساتھ باہم جیا جا سکتا ہے-اختلاف کے ساتھ جینے کا حوصلہ مضبوط جگر کا کام ہے، ہم نے سب کچھ سیکھا بس یہی نہیں سیکھا، کسی سے ایک مسئلے میں اختلاف ہوا ہم نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور نہ صرف ساتھ چھوڑ دیا بلکہ ہر سطح پر اسے کمزور اور ذلیل دکھانے کی کوشش میں لگ گئے-اور اپنے جذبۂ عداوت کی تسکین کی فکر میں فرد و جماعت اور مذہب و ملت سب کے مفاد سے بے نیاز ہو گئے، ہمیں اختلاف اور مخالفت کا فرق سمجھنا ہوگا اور اختلاف کے ساتھ جینے کا سبق یاد کرنا ہوگا-دو شخصوں میں اختلاف ہونے کا یہ قطعی معنی نہیں کہ ان میں سے ہر کوئی دوسرے کے خون کا پیاسا ہو جائے بلکہ ان پر لازم یہ ہے کہ وہ وجہ اختلاف کی نوعیت کو سمجھیں اور اختلاف جس نوعیت کا ہو طرفین اس کے مطابق اپنا رویہ طے کریں- ہماری بھول درا صل یہی ہے کہ ہم نے اختلاف کو کوئی بسیط امر سمجھ لیا ہے، اب اختلاف خواہ جیسا بھی ہو ہم اپنا رویہ وہی اپنا لیتے ہیں جو ایک جنگجو میدان جنگ میں اپنے حریف کے ساتھ اپناتا ہے-
اختلاف کے مفہوم پر غور کریں تو بظاہر ایسا لگے گا کہ یہ دوریاں بڑھاتا ہے اور زحمتوں کو دعوت دیتا ہے، لیکن حدیث پاک میں امت کے اختلاف کو رحمت کہا گیا، اس سے ہمیں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ امت مسلمہ کو ایسا ہی اختلاف کرنا چاہیے جس سے امت کے لیے خیر کے مواقع پیدا ہوں، ایسے اختلاف سے گریز کرنا چاہیے جو امت کی راہ میں مشکلات کھڑی کرے- اس حدیث سے ہمیں نہ صرف اختلاف کرنے کا جواز فراہم ہوتا ہے بلکہ آداب اختلاف بھی سکھایا جا رہا ہے، اختلاف ہو ضرور لیکن اس میں امت مسلمہ کی فلاح مقصود و مضمر ہو، وہ لا ضرر ولا ضرار کے اصول پر ہو کہ نہ خود تکلیف جھیلیں اور نہ دوسروں کو تکلیف پہنچائیں-اس کا خیال کم از کم افراد امت کے ساتھ اختلاف کرتے وقت ضرور رکھنا چاہیے تاکہ ہمارا اختلاف رحمت رہے زحمت نہ بنے اور ہم حدیث کی تعبیر میں’’ امت‘‘ ہی رہیں-
اختلاف کے کچھ مطالبے اور تقاضے بھی ہیں-(۱) وجہ اختلاف کا بھر پور علم ہو، معلومات کے بغیر اختلاف کا شوق پاگل پن ہے-(۲) اختلاف کے پس پردہ شخصی یا گروہی عصبیت نہ ہو، حقیقت پسندی اور سراسر حقیقت پسندی ہو(۳) اختلاف خلوص پر مبنی ہو ، مفاد اور خود غرضی پر نہیں (۴) اظہار اختلاف سے پہلے ہر ہر پہلو پر سنجیدہ غور کر لیا جائے اور حتی الوسع تمام تر علمی، فکری و ذہنی صلاحیت صرف کر دی جائے-(۵) جن مسائل کا ادراک نہ ہو یا ان میں گفتگو کے لیے مطلوبہ صلاحیت موجود نہ ہو تو بلاوجہ ان میں اپنی قابلیت کی نمائش کرنا نہ صرف اپنی رسوائی کو دعوت دینا ہے بلکہ اجتماعی مفاد کو نقصان پہنچانا بھی ہے(۶) اظہار اختلاف میں علمی تقاضوں کو پورا کرنا، گفتگو میں شائستگی، سلیقہ اور توازن برقرار رکھنا-جہالت اور لوازم جہالت سے مکمل گریز کرنا-(۷) اختلاف کو وجہ اختلاف تک محدود رکھنا ، فروعیات کے اختلاف کو اعتقادیات سے جوڑنا اور جزوی اختلاف کو کلی مخالفت کی شکل میں تبدیل کرنا ایک مذموم غیر علمی رویہ ہے-وغیرہ
مخلصانہ اختلاف جس چیز کا سب زیادہ متقاضی ہے، وہ ہے یک طرفہ صبر،اختلاف کے بعد عموماً ایسا ہوتا ہے کہ مقابل فرد یا گروپ اخلاقی اور علمی حدیں پار کر جاتا ہے- یہ بڑا صبر آزما وقت ہوتا ہے، ایسے میں صرف دومیں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے، یا تو آپ خود بھی مقابل فرد یا گروپ کی طرح علمی اور اخلاقی حدیں توڑ ڈالیے یا پھر یک طرفہ صبر کیجیے- بزدل اور کمزور پتے کے افراد ایسے مواقع پر بپھر جاتے ہیں اور صبر نہیں کر پاتے، جبکہ با حوصلہ افراد مکمل صبر و شکر کا مظاہرہ کرتے ہیں- چوںکہ حقیقت واقعہ یہی ہے کہ صبر کرنا ہی حوصلے کا کام ہے(بشرطیکہ قدرت کے ساتھ ہو) اور یہی ایمان والوں کا شیوہ ہے اور یہی مخلصانہ اختلاف کا مطلوب بھی-
آخری بات —امت مسلمہ اس وقت شدید مخالفتوں کی زد میں ہے اور افراد امت اختلاف وانتشار کا شکار ہیں، اس وقت امت کے فعال افراد کو ایک ساتھ دو محاذ پر کام کرنا ہے اور صرف کام ہی ہر مخالفت کا جواب ہے- لیکن یہ کام اختلاف اسلوب اور تقسیم ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے، ارباب دعوت و عزیمت کا فرض یہ ہے کہ وہ خارجی مخالفتوں کے رنگ و آہنگ کا جائزہ لے کر ان کے جواب کے لیے مناسب تدابیر کا تعین کریں اور اس پر مناسب افراد کو مامور کریں، داخلی سطح سے انتشار کو دور کریں، اختلاف تو فطری ہے، اسے باقی رہنا ہے لیکن اس کے ساتھ مخالفت اور عناد کے جو عناصر شامل ہو گئے ہیں انہیں ختم کرنے کی کوشش کریں،عصرحاضر کا یہ بڑا کام ہے، اگر ملت کے بہی خواہ اور امت کے مخلص افراد یہ کام کر جاتے ہیں تو خارجی مخالفتوں کا جواب ان کے لیے آسان تر ہو جائے گا -
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔