Saturday 20 January 2018

مکالمہ: تکثیری معاشرے کی ایک لازمی ضرورت

0 comments
مکالمہ: تکثیری معاشرے کی ایک لازمی ضرورت
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
-----------------------------------------------------------------------
جس طرح گفتگو اور بات چیت دو انسانوں کو باہم جوڑنے کا لازمی ذریعہ ہے ، جہاں دو انسان ہوں گے وہ ایک دوسرے کو سمجھنا اور سمجھانا چاہیںگے اور اس کے لیے انہیں زبان کا سہارا لینا پڑے گا ، اسی طرح تکثیری معاشرے میں یعنی وہ معاشرہ جہاں مختلف افکار و نظریات کے افراد ہوں، انہیں باہم پر امن زندگی کے لیے مکالمہ کی طرف رجوع کرنا ناگزیر ہے-اس کے علاوہ دوہی راستے ہیں- ایک راستہ یہ ہے کہ جو غالب طبقہ ہو وہ مغلوب طبقہ پر چڑھ جائے اور اپنی فکر کے غلبے اور دوسرے کے فکر کے بطلان اورخاتمے کا اعلان کردے یا اگر دونوں مساوی ہوں تو باہم جنگ چھیڑدیں اور فیصلہ تلوار کے سپرد کردیں- اتفاق سے یہ دونوں راستے بادشاہی دور کے خاتمے کے ساتھ بند ہوچکے ہیں - آج دنیا کے کسی بھی حصے میں صرف ایک نظریے کی بالا دستی قبول کرنا مشکل ہوگیا ہے -جمہوریت نے جہاں اور بہت ساری تبدیلیاں پیدا کی ہیں ان میں ایک تبدیلی تکثیریت کی قبولیت کا ہے، جو دوسرے لفظوں میں ’’جیو او رجینے دو‘‘ یا’’ سو چو اور سوچنے دو‘‘ کا اصول ہے- عہد بادشاہی میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا- جینے اورسوچنے کا قابل قبول راستہ صرف ایک تھا اور وہ تھا سوچو جیسے بادشاہ سوچتا ہے اور جیو جیسے بادشاہ چاہتا ہے -
تعریف:-
 مکالمہ ( Dialogue ) کے معنی دو یا دوسے زائد لوگوں کی باہم گفتگو ، ناول یا ڈرامہ کے کردار وں کی بات چیت یا کسی خاص مذہبی یا سیاسی مسئلے پر اتفاق رائے کے لیے باہم تبادلۂ خیالات کرنے کے ہیں - آن لائن وکی پیڈیا لکھتا ہے:
' Today, dialogue  is used in classrooms, community centers, corporations, federal agencies, and other settings to enable people , usualy in small groups, to share their perspactives and experiences about difficult issues . It is used to help people resolve long standing conflicts and to build deeper understanding of contentious issues. Dialogue is not about judging,weighing, or making decisions, but about understanding and learning. Dialogue dispels stereotypes, builds trust , and enables people to be open to perspactives that are very different from their own."
مکالمے کی اس تشریح پر غور کرنے سے چند نکات سامنے آتے ہیں:
۱- مکالمے کے ذریعے لوگ اپنے افکار و تجزیات کو دوسروں کے ساتھ Share کرتے ہیں-
۲- اس سے طویل مدتی اختلافات کوحل کرنے میں مدد ملتی ہے-
۳- مکالمے کے توسط سے متنازع مسائل کا گہرا فہم حاصل ہوتا ہے-
۴- مکالمہ اختلافات کو فیصل نہیں کرتا، اس سے صرف اختلافات کافہم و ادراک حاصل ہوتا ہے -
۵- مکالمہ غلط فہمیوں کوختم کرتا ہے-
۶- مکالمے سے باہم اعتماد پیدا ہوتا ہے-
۷- اس سے لوگوں میں اپنے افکار و خیالات سے مختلف افکار و خیالات کو سمجھنے اور ان خیالات کے حاملین کے ساتھ جینے کا شعور پیدا ہوتا ہے -
آداب مکالمہ:-
 مکالمہ کی تعریف و تشریح سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ اپنے آپ میںکتنا اہم ہے - اس کی تشریح پر نظر ثانی کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے مکالمہ ہرکس و ناکس کے بس کار و گ نہیںہے-مکالمہ بہت سے اعلیٰ اوصاف کا تقاضاکرتا ہے- اس کے لیے بہت سے اخلاقی آداب اور علمی و نفسیاتی خوبیوں کی ضرورت ہے-بہ صورت دیگر مکالمہ کو مجادلے اور مناظرے میںتبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی اور مکالمہ کوئی مثبت وپرامن نتیجہ دینے کی بجائے مزید نفرت، کدورت اور نفسیاتی و ذہنی کشمکش پیدا کردے گا- ماہرین نے کامیاب مکالمے کے لیے بہت سے آداب و شرائط لکھے ہیں جن میں چند اہم یہ ہیں:
۱- مکالمے کا موضوع طرفین کے ذہن میں بالکل واضح ہو-
۲- غلطی واضح ہونے پر ہر فریق اعتراف خطا کے لیے تیار ہو-
۳- ہر فریق دوسرے کے لیے ایسے ہی الفاظ استعمال کرے جیسے وہ اپنے لیے دوسروں سے سننا چاہتا ہے- یعنی گفتگو میںسوقیانہ الفاظ و تعبیرات سے مکمل اجتناب ہو اور مخاطب کا احترام ملحوظ رہے-
۶-  ہر فریق دوسرے فریق کے فکر و خیال کا احترام کرے، اس کے عقائد کا احترام کرے اور اس کی نفسیات کا خیال رکھے-
۵-  مکالمے کا اصل محرک ہر فریق کے نزدیک تحقیق حق اور حقیقت حال تک رسائی ہو-
۶- مکالمے کے دوران اعتدال و توازن پر قائم رہنے اور غصہ اور اس کے عوامل سے مکمل احتراز کرنے کی کوشش ہو -
۷- ہر فریق بیان و اظہار کی قدرت رکھتا ہو-
۸- گفتگو میں سنجیدگی اور شائستگی ہو، پھکڑپن نہ ہو-
۹- ہر فریق دوسرے کی بات غور سے سنے، اس کی اچھی باتوں سے مستفید ہو، جدال برپا ہونے کی صورت میں نفس پر قابوپانے کی کوشش کرے اور یہ جب ہی ممکن ہے کہ آدمی کے اندر حلم و بردباری کی قوت ہو، ایک عربی مقولہ ہے :
رأس الأدب کلہ الفہم والتفہم والاصغاء الی المتکلم
دوسرے کی بات غور سے سننا ،اسے سمجھنے کی کوشش کرنا ادب کی اساس ہے-
مکالمے کے فوائد:-
 آج یہ بات تقریباً تسلیم کرلی گئی ہے کہ دنیا کا ہر مسئلہ مکالمے سے حل ہوسکتا ہے - ہٹلر نے کہا تھا کہ اگر تیسری جنگ عظیم ہوئی تو کوئی فاتح نہیں ہوگابس یہ ہوگا کہ کچھ انسان جنگ کے بعد زندہ بچ جائیں گے- بیسویں صدی کے سب سے بڑے جنگ جو کا یہ خیال اس بات کا کھلا ہوا اعتراف ہے کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے- اب صرف ایک ہی راستہ رہ گیا ہے اور وہ ہے مکالمے کا راستہ - یہ اور بات ہے کہ ابھی اکیسویں صدی میں بھی بہت سے ہٹلر دماغوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی-ان کی طاقت ، دولت، سیاست اور سازش نے انہیں جنگ کے جنون میں دھکیل دیا ہے اور وہ اب بھی تکثیریت کو قبول کرنے کی بجائے عالم گیر زبان، حکومت، مذہب اور ثقافت کی تشکیل کاخواب دیکھ رہے ہیں - ہمیںیقین ہے کہ اکیسویں صدی کا سورج غروب ہونے سے پہلے وہ اپنے اس خواب کے بھیانک نتائج ضرور دیکھیں گے اور اس کے بعد پھر وہ مکالمے کی طرف اس وقت لوٹیں گے جبکہ بہت کچھ لٹ چکا ہوگا- مکالمے کے فوائد بے شمار ہیں، ان میں یہ چند زیادہ عام ہیں-
۱- افکار و خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے اور معلومات میں اضافہ ہوتاہے-
۲- قوت تفکیر پیدا ہوتی ہے اور شخصیت میںنکھار آتا ہے-
۳- نئے افکار و خیالات جنم لیتے ہیں-
۴- ذہن صیقل ہوتا ہے اور اس میںحدت اور تیزی آتی ہے-
۵- غلط افکار و خیالات سے نجات ملتی ہے-
۶- حقیقت تک رسائی ہوتی ہے-
مکالمے کی تاریخ:-
 مکالمے کی تاریخ یونانی اور ہندی لٹریچر سے شروع ہوتی ہے- اس مکالمے کا تعلق خالص ادب و اخلاق اور فلسفے سے ہے- رگ وید اور مہابھارت میں ادبی، اخلاقی اور فلسفیانہ مکالمے ملتے ہیں - اسی طرح افلاطونی لٹریچر میں قیمتی مکالمے پائے جاتے ہیں- افلاطون کے بعد یونانی لٹریچر میں کرداروں اور مکالموں کا استعمال عام ہوگیا- یہ اسلوب مشرق و مغرب کے ادب میںآج بھی رائج ہے-
عہد اسلام کلی طورپر مکالمے کاعہد ہے -پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں میں خوب صورت مکالمات ملتے ہیں مثلاً پیغمبر علیہ السلام نے اہل مدینہ کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے فرمایا: 
للیہود دینہم وللمسلمین دینہم
’’یہود کے لیے یہود کا دین اور مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا دین‘‘
خصوصاً قرآن نے جو مکالماتی نمونے پیش کیے ہیں ان کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی-یہاں صرف دو مثالیں دی جاتی ہیں-
(۱)دین میںکوئی جبر نہیں ، ہدایت گمرہی سے ممتاز ہوچکی-
 (البقرہ: ۲۵۶)
(۲)اے نبی! تم کہہ دو : اے اہل کفر! جن کی تم پرستش کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا اور نہ تم اس کے پجاری ہوجس کی عبادت میں کرتا ہوں او رنہ میں اس کا پرستار ہوں جس کی تم پوجا کرتے ہو۔ تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین- (الکافرون:۱-۶)
آسٹریلیانژاد یہودی مفکر مارٹن ببر (Martin Buber) (1878-1965 ) نے اپنی تاریخی کتاب   I and Thou (میںاور تم ) لکھ کر فلسفۂ مکالمہ کی بنیاد رکھی- اس نے انسانوں کے باہمی رشتے اور خدا اور بندے کے رشتے میں مکالمے کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس کے آداب بتائے-
دوسرا وٹیکن کونسل 11 ؍اکتوبر 1962 ء سے 21 ؍ نومبر 1965 تک چار ادوار میں جاری رہا- اس کو نسل نے عالمی سطح پر مکالمے کی ضرورت پر زور دیا - کونسل کے دستاویزات کے مطابق مختلف طرح کے مکالموں کو آغاز کیا جانا چاہیے تھا- مثلاً دیگر مذاہب کے ساتھ مکالمہ، دوسرے عیسائی فرقوں کے ساتھ مکالمہ، نئے سماج کے ساتھ مکالمہ اور سیاسی قوتوں کے ساتھ مکالمہ - جدید دور میں مکالمے کے فروغ کے سلسلے میں وٹیکن کے دوسرے اجلاس کا رول بہت ہی کلیدی سمجھا جاتا ہے-
بیسویں صدی کے نصف آخر میںمکالموں کا سیلاب آگیا- مختلف ملکی اور عالمی سطح پر مکالماتی مراکز قائم ہوئے ، ایک مکالماتی لٹریچر وجود میں آیا ، مکالمے پر مختلف ویب سائٹس قائم کی گئیں اور مذہبی ، ثقافتی، تاریخی اور فکری مسائل و اختلافات کو مکالمے کے توسط سے حل کرنے کے لیے انفرادی و اجتماعی ، ملکی و بین الاقوامی کوششیں شروع ہوگئیں- یہ الگ بحث ہے کہ یہ کوششیں کس حد تک صحیح ٹریک پر ہورہی ہیں اور کہاں تک نتیجہ خیز ہیں؟
مکالمہ او رمناظرہ:-
 مسلم علما ے کلام نے متنازع اعتقادی و مذہبی مسائل کے حل و تصفیہ کے لیے علم مناظرہ ایجاد کیااور اسے باضابطہ فن کا درجہ دے دیا- اس کا آغاز غالباً عباسی دور میں اشعری اور معتزلی مناظروں سے ہوتا ہے- مسلم علما نے مناظرے کی جو تعریف کی ہے وہ ’’جدید مکالمے ‘‘کے تقریباً مترادف ہے- کیوں کہ دونوں کا مقصد تلاش حق اور حصول صواب ہے- فن مناظرہ کے جو آداب بیان کیے گئے ہیں ان میں اس بات پر بھر پور زور دیا گیا ہے- مناظرہ کے بالمقابل اہل فن نے ’’مجادلہ‘‘ کالفظ استعمال کیا جس میں تلاش حق نہیں بحث برائے بحث یا بحث برائے تفوق ہوتا ہے -اتفاق سے عملی طور پر مناظرے کی جوتاریخیں ملتی ہیں اس میںمناظرے پورے طور پر مجادلے کی شکل میںنظر آتے ہیں- کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر کی گمراہی کا سبب علما کا مناظرہ تھا جو مجادلے کے رنگ میں اکبر کے سامنے منعقد ہوا کرتا تھا-
تاہم مناظرہ جسے مکالمے کی ابتدائی شکل کہا جاسکتا ہے، کوبطور فن  ایجاد کرنے کا سہرا مسلم علما کے سر جاتا ہے جس کا اعتراف کیا جانا چاہیے اور اب جب کہ مذہبی مناظروں کا دور اختتام کو آیا مسلم علما و دانشوران کو مکالمے کی طرف بڑھنا چاہیے جس سے جدید دور میں دعوت و تبلیغ کے وسیع امکانات پیدا ہوچکے ہیں- 
جدید دور میں مکالمے کی مختلف صورتیں سامنے آئی ہیں جن میں (۱) بین المذاہب مکالمہ (۲) بین ثقافتی مکالمہ اور بین اقوامی مکالمہ زیادہ مشہور او راہم ہیں-
بین المذاہب مکالمہ:-
 بین المذاہب مکالمہ (Interfaith Dialogue )دور جدید کا ظاہرہ ہے - جمہوریت کے بعد جب تکثیری سماج کا ظہور ہوا جس میںکسی ایک مذہب کو اصولی اعتبار سے غلبہ حاصل نہیں تھا، ایسے میں جو مذہبی طبقات جس سطح پر قوت و غلبہ کے حامل تھے وہ ایک طرح کے نفسیاتی کرب میں مبتلا ہوگئے- اس نفسیاتی کرب نے مذہبی نفرت و تشددکو جنم دیا- دوسری طرف خود جمہوریت کے قیام میں با اثر اورسازشی دماغوںنے جمہوریت کے نقشے میں کچھ ایسا رنگ بھر دیا تھا جس سے مساوات کے پردے میں مذہبی منافرت کے جذبات صاف دیکھے جارہے تھے- ان اسباب وعوامل نے دنیا کو گجرات اور چیچنیا جیسے تحفے دیے جن کے بعد دنیا کے امن پسند افراد بین المذاہب مکالمہ کی طرف متوجہ ہوئے- اس کا مقصد مذاہب کو ختم کرنا نہیں، بلکہ ہر مذہب کو باقی رکھتے ہوئے جو مذاہب کے بیچ یکسانیت ہے اس کو پیش کرنا اور اہل مذاہب میں جو غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں ان کا ازالہ کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ مذہب نفرت کی تعلیم نہیں دیتا، جو لوگ مذہب کے نام پر نفرت کا کاروبار کررہے ہیں وہ روح مذہب سے ناآشنا ہیں -
بین المذاہب مکالمے کاآغاز عام طور پر دربار اکبری کے بین المذاہب مناظروں سے سمجھا جاتا ہے- بیسویں صدی کے آغاز میں ابراہیمی مذاہب یہودیت، مسیحیت اور اسلام میں خوب مناظرے اور مکالمے ہوئے- 1949 ء میں مولانا عبد العلیم صدیقی میرٹھی نے دوسرے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ سنگا پور کے کمشنر جنرل مالکوم میکڈونالڈ (Malcolm Macdonald ) سے ملاقات کی اور بین المذاہب تعاون پر گفتگو کی- پھر اسی نشست میںInter Religious Organisation  کی تشکیل کا فیصلہ کرلیا- یہ تنظیم قائم ہوئی اور اس نے بین مذاہب ہم آہنگی کے سلسلے میں نمایاں خدمات انجام دیں- اس تنظیم کا بنیادی مقصد اباحیت پسندی اور لادینیت کا خاتمہ تھا-سنگا پور کے وکٹوریا میموریل ہال میں تنظیم کے افتتاحی اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے مولانا نے کہا تھا: 
’’جہاں تک عام برائیوں اور پسندیدہ اخلاقی اصولوںکے تعین کی بات ہے تو ان میں کسی مذہب کا کوئی اختلاف نہیں ہے-رواداری اور ہمدردی اور قیام امن کی خواہش کے معاملے میں تمام مذاہب یکساں ہیں - ایسے میں مذہبی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کو دوسرے مذاہب کی تعلیمات کو سمجھنے کا موقع دیں تاکہ روح اتباع، متفق علیہ اخلاقی اصولوں کو عام کرنے اور عام برائیوں کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکے-‘‘
بیسویں صدی کے چھٹے عشرے میں بین المذاہب مکالمے کی تاریخ نے ایک نیا رخ لیا-1965 ء میں رومن کیتھولک چرچ نے دوسرے ویٹکن اجلاس کے بعد بین المذاہب اور بین المسالک مکالمے کے لیے خصوصی اعلامیہ جاری کیا اور مسیحیت کا دوسرے مذاہب کے ساتھ اور مسیحی فرقوں خصوصاً کتھولک اور پروٹسٹنٹ چرچ کے ساتھ مکالمے کی ضرورت پر زور دیا اور پھر بین المذاہب مکالمے کا ایک سلسلہ چل پڑا- جو ن2008 ء میں شاہ عبد اللہ نے مکہ میں مسلم علما کا اجلاس طلب کیا اور سعودی اور غیر سعودی علما و دانشوران سے بین المذاہب مکالمے کے لیے اجازت لی پھر اسپین کی راجدھانی میڈرڈ میں تاریخی بین المذاہب مکالمے کا انعقاد کیا جس میں اسلام کے علاوہ مسیحیت ، یہودیت، بدھ مت ، ہندومت اور تاؤمت کے مذہبی رہنما شریک ہوئے- گزشتہ دنوں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ایک سروے میں دنیا کے جن پانچ سو موثر ترین مسلم شخصیات کی فہرست آئی ہے اس میں شاہ عبد اللہ کو پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے اور اس انتخاب کی بڑی وجہ بین المذاہب ہم آہنگی کے سلسلے میں شاہ عبد اللہ کی کوششوں کو قرار دیا گیا ہے - بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ہی سابق صدر جمہوریہ ہند اے پی جے عبد الکلام نے گجرات فساد کے بعد 2003 ء میں فیورک تنظیم قائم کی اور سورت اجلاس کے بعد سورت اعلامیہ جاری کیا- اتفاق سے بین المذاہب ہم آہنگی کے نام پر اس میں کچھ ایسی دفعات شامل تھیں جن پر بعض حلقوں سے نقدو جرح کیا گیا- ناقدین نے لکھا کہ ایسی ہم آہنگی اسلام کی صداقت اور شریعت اسلامی کے انکار کے ہم معنیٰ ہے- آج بین المذاہب مکالمہ کے سلسلے میں اسی وجہ سے بعض اہل نظر کو تردد ہے، کیوں کہ بعض حضرات بین المذاہب ہم آہنگی کے جوش میں شریعت سے دست برداری تک کے لیے تیار ہوجاتے ہیں-
عصر حاضر میں بین المذاہب مکالمہ اہل مذاہب کے لیے مسئلہ بھی ہے اور ضرورت بھی- مسئلہ تو اس لیے کہ بین المذاہب مکالمے کی وکالت اکثر وہ لوگ کرتے ہیں جو مذہب مخالف ہیں- وہ بین المذاہب مکالمے سے اہل مذاہب میں ہم آہنگی نہیں بلکہ اہل مذاہب کی مذاہب سے دوری یا دست برداری کرانا چاہتے ہیں- ان کے خیال میں مذہب کا کسی ما بعد الطبیعیاتی حقیقت (Super Natural Reality )سے تعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایک سماجی ظاہرہ (Social  Phenomenon) ہے جو جدید سماجی انقلاب کے بعد ناقابل انطباق ہوگیاہے- اب جدید سماجی تناظر میں مذہب سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے جس کے لیے بین المذاہب مکالمہ سے راستہ ہموار کیاجاسکتا ہے— بین المذاہب مکالمے کے ان وکیلوں کی دور رس نگاہوں کے بھیانک خطرات سے اہل مذاہب کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے- کیوں کہ یہ ذہنیت کسی بھی مذہب کے حق میںنہیں ہے-بین المذاہب مکالمے سے دعوتی مذاہب کو ایک دوسرا بڑا خطرہ بھی پیدا ہوگیا ہے اور وہ ہے دعوتی عمل میںرکاوٹ، کیوں کہ جب تمام اہل مذاہب ایک میز پر جمع ہوجائیں گے اور ہر مذہب کا وجود اس مذہب والوں کے لیے تسلیم کرلیا جائے گا پھر کسی بھی مذہب کی دعوت کیوں کر ہوگی؟ یہ سوال بہت اہم ہے- لیکن میرا یقین بولتا ہے کہ اسلامی دعوت کے حق میں یہ چیز رکاوٹ نہیں ہے- بلکہ رکاوٹ پیدا ہونے کی بجائے اس سے اسلام کی ہمہ گیر اشاعت کادروازہ کھل جائے گا- کیوں کہ جب تفاہم (ـUnderstanding ) ہوگا، غیر جانب دارانہ انداز میں لوگ اسلام کو سمجھنا شروع کریںگے، اصلی اسلامی تعلیمات سے قریب ہوں گے ، پھر ان پر اس دین آخر کی صداقتوں کا انکشاف ہوگا اور دعوتی عمل کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی چلی جائے گی- یہ صورت حال خطرہ ان مذاہب کے لیے ہے جن کا فلسفہ نا پختہ ، فکر مدھم ، دین غیر سائنٹفک، زندگی صحرائی ، رسوم و روایات توہماتی او رغیر عملی اور تعلیمات افسانوی وغیر تاریخی ہیں اور طرز زندگی جدید شہریت سے ابا کرتی ہے - 
جب اسلام کے بارے میں اہل مذاہب کی قربت سے یہ حقیقت کھلے گی کہ یہ دین ، علم ، سائنس، فلسفہ، اخلاق، دنیا ، آخرت، فکر، عمل، سیاست، معاشرت سب کو محیط ہے- یہ دین آسان ہے، تو رب کعبہ کی طرف سے اسلام کے لیے فتح و نصرت کا نیا باب کھلے گا جس سے فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہوں گے اور اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے توبہ و استغفار کریںگے-
بین المذاہب مکالمہ اہل مذہب کی ضرورت اس لیے ہے کہ اس کے بغیر پر امن جمہوری زندگی تقریباً ناممکن ہے- جمہوریت نے جب سے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے ماننے والوں کو ایک چھت کے نیچے جمع کیا ہے، مذہبی اور ثقافتی اختلاف نے لوگوں کو باہمی نفرت و عداوت کے مرض سے دوچارکردیا ہے- اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو خصوصاً نئی نسل کو یہ بھی لگنے لگا ہے کہ مذاہب نفرت او رتشدد کی تعلیم دیتے ہیں- جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مذاہب نفرت و تشدد کی تعلیم نہیں دیتے- یہ اور بات ہے کہ بعض اہل مذاہب روح مذہب کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض اوقات تشدد کا آلہ کار بن جاتے ہیں - یہ بات میں بالخصوص اسلام کے بارے میں زیادہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلام کبھی نفرت و تشدد کی تعلیم نہیں دیتا، جب کہ موجودہ دور میں اسلام مخالف اہل سیاست و ابلاغ کی سازشوں اور بعض اسلام کے احمق دوستوں کے کرتوتوں سے  پوری دنیا میںاسلام نفرت اور تشدد کی علامت کے طور پر جانا جانے لگا ہے- بین المذاہب مکالمے سے مذاہب کے بارے میں یہ خیالات بھی ٹوٹیں گے اور تشدد کے جو واقعات رونما ہورہے ہیں ، ان میں بھی کمی آئے گی-
بین مذاہب مکالمہ مگر کیسے؟
گلوبل فیملی فار لو اینڈ پیس (GFLP) نیویارک کی ایک تنظیم ہے- یہ ہرسال ستمبر کے مہینے میں مختلف ملکوں میں عالمی بین مذاہب مکالمہ ہفتہ کا انعقاد کرتی ہے، جس میں مختلف مذاہب کے نمائندے شریک ہوتے ہیں- اس نے ۱۵-۲۱؍ستمبر ۲۰۰۷ میں اقوام متحدہ کے تعاون سے بہت بڑے پیمانہ پر پانچواں بین مذاہب مکالمہ کا انعقاد کیا تھا-اس کی ویب سائٹ بہت ہی Richہے، اس کے اوپر نمایاں طور پر یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں:
Respect, Tolerance, Love, for all Religions, for all Cultures, for all Life.
احترام، رواداری، محبت، تمام مذاہب کے لیے ، تمام ثقافتوں کے لیے، تمام طرز زندگی کے لیے-
یہ بظاہر ایک طرح کی صلح کل کی دعوت ہے، اس کے بالمقابل بنیاد پرستی Fundamentalismکا نظریہ ہے جو کسی ایک مذہب، ثقافت یا طرز زندگی کی صحت پر اصرار کرتا ہے- یہیں سے پیدا ہوتی ہے ثقافتی تصادم کی جنگ جس کو صمویل پی ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب Clash of Civilizationمیں اپنے مخصوص نقطۂ نظر سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے- GFLPکی ویب سائٹ میں ’’بین مذاہب مکالمہ‘‘ کی سرخی کے ذیل میں یہ لکھا ہواہے:
All religions teach us to make this world a better place. Still, religions often are an excuse for conflicts. To build a consensus of co-existence and mutual understanding among the various religious communities is a crucial task. Only by returnig to the original nature of riligion,cultivating sprituality, and moving beyond differences can each of us cooperate to make the world more compassionate, loving and peaceful.
’’تمام مذاہب ہمیں اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ ہم اس دنیا کو ایک اچھی جگہ بنائیں- لیکن اب تک مذاہب کو تنازعات کا ذمہ دار سمجھا جاتا رہا ہے-مختلف مذہبی گروہوں کے بیچ باہمی تفاہم و پر امن معاشرت کا شعور پیدا کرنا ایک ضروری مہم بن گئی ہے- ایسے میں مذہب کی اصل فطرت کی طرف لوٹنے، روحانیت کو فعال بنانے اور اختلافات سے اوپر اٹھنے کے بعد ہی ہم میں سے ہر شخص اس دنیا کو زیادہ رحم دل، محبت کرنے والی اور پرامن بنانے کا فرض نبھا سکتا ہے-‘‘
بین مذاہب مکالمے کے ان دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھنے کے بعد ایک ’’مذہبی انسان‘‘ سخت کشمکش کا شکار ہوجاتا ہے- اسے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ امن عالم کو عزیز رکھتے ہوئے اسے بین مذاہب مکالمے کی تائید و حمایت کرنی چاہیے یا صلح کل سے بچتے ہوئے اور اپنے مذہب پر قیام و استحکام کے لیے اس کی مخالفت؟ چونکہ اہل مذہب اس وقت دوراہے پر کھڑے ہیں- ایک طرف ان کو بنیاد پرستی سے پیدا ہونے والے تشدد سے انسانیت کو محوظ رکھنے کی بھی فکر ہے تو دوسری طرف انہیں صلح کل کا بھی شدید خطرہ ہے، جس کی انتہا لادینیت اور انکار ہے-
یہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں گزشتہ دنوں ہونے والے ڈپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں بین مذاہب مکالمے سے متعلق ایک چھوٹے سے پروگرام کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا، جس میں اسی شعبہ کی استاذ اور اسلام کے ایک بڑے اسکالر سمجھے جانے والے مفکر کی دختر نیک اختر نے اظہار روشن خیالی کے زعم میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’مسلمانوں کو بین مذاہب مکالمے کا حق ہی نہیں ہے، کیوںکہ وہ اپنے مذہب کو بہتر Superiorسمجھتے ہیں اور یہ خیال رکھتے ہوئے بین مذاہب مکالمہ ناممکن ہے-‘‘ 
اس پر ایک نوجوان نے جب یہ سوال کیا کہ ’’محترمہ! جب کسی کو دوسرے مذاہب کے بالمقابل اسلام کی حقانیت کا یقین نہ ہو، تو کیا وہ مسلمان بھی ہوسکتا ہے؟‘‘ تو وہ پریشان ہوگئیں اور اپنی تقریر کی تاویل و توضیح کرنے لگیں، اس پر صدر شعبہ محترم جناب اخترالواسع نے بہت پتے کی بات کہی کہ ’’مکالمہ وہی کرے جس کے تصوارت واضح ہوں، جس کو اسلام کی حقانیت پر اعتماد ہو، بصورت دیگر مکالمے میں اسلام کی نمائندگی کی بجائے اسلام کی تاویل شروع ہوجائے گی-‘‘
بات دراصل یہ ہے کہ اب تک اہل فکر و دانش کے ذہن میں بین مذاہب مکالمے کا مقصد واضح نہیں ہوسکا ہے یا ان کے ذہن میں ایسے مقاصد پیدا ہوگئے ہیں جن سے اہل مذاہب کا اتفاق کرنا مشکل ہے- ہوتا یہ ہے کہ جب دو مذاہب سے وابستہ افراد کسی ایک میز پر بیٹھتے ہیں تو ان کو اس اظہار میں بڑی شرم آتی ہے کہ وہ یہ کہیں کہ ان دونوں کے مذاہب میں بعض بنیادی اختلافات ہیں- وہ اختلافات کے ساتھ ایک دوسرے کو Faceکرنے کی جرأت اپنے اندر نہیں پاتے- اس لیے وہ معذرت خواہی اورتاویل کی راہ لیتے ہیں- اختلافات کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھالیتے ہیں- وہ ایک دوسرے سے مرعوب ہوتے ہیں اور بین مذاہب اختلاف جو ایک اٹوٹ سچ ہے، اس کا سامنا کرنے کی بجائے یہ کہنے لگتے ہیں کہ مذاہب تو سب ایک ہیں، جو اختلافات بظاہر نظر آتے ہیں، یہ مذاہب کے نہیں، بلکہ علما اور فقہا کے پیدا کردہ ہیں- بین مذاہب مکالمے کا یہی وہ رخ ہے جو بہتو ں کے لیے ناقابل قبول ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے-
درست بات یہ ہے کہ آفاقی سچائیوں (Universal Truth) مثلاً سچ بولنے، بھلائی کرنے، دوسروں کی مدد کرنے، بڑوں کی عزت کرنے، چوری اور غیبت سے بچنے اور اس طرح کی دوسری تعلیمات میں تمام مذاہب ایک دوسرے سے بہت حد تک قریب ہیں- جب کہ الٰہیاتی فلسفوں اور تعزیراتی و معاشرتی قوانین میں سارے مذاہب ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں- بین مذاہب مکالمے اگر صرف یہاں تک ہوں کہ ان سے پرامن معاشرت (Co-existence) کے احساسات کو فروغ ہو، تو یہاں تک تو بات درست ہے، لیکن جب مکالمے اختلافات ختم کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں تو دراصل وہ اختلافات کو ختم نہیں کرتے، بلکہ بالواسطہ طور پر مذاہب کو ختم کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں- اس لیے دور حاضر کے مکالمہ بین المذاہب کے وکیلوں کو چاہیے کہ وہ مکالمے کی درست مقصدیت کو سامنے رکھیں- بصورت دیگر بین مذاہب مکالمہ اکثر لوگوں کے لیے ناقابل ہوگا- مذاہب کے نمائندگان کو چاہیے کہ وہ اختلافات سے شرمانا چھوڑ دیں بلکہ اختلافات ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو زندہ اور باعزت رہنے کا حق دیں- انہیں یہ بات بھی لازم ہے کہ وہ میز پر بیٹھ کر اس بات کی وکالت نہ کریں کہ سارے مذاہب ایک ہیں کیوںکہ یہ ان کی کھلی منافقت ہے- اگر وہ اس بات میں سچے ہوتے تو وہ بسا اوقات دوسرے مذاہب کا بھی اتباع کرتے، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتے- وہ منافقت کرتے ہیں- بھری محفل میں مذہب کے بارے میں کوئی اور رائے دیتے ہیں اور بند کمروں میں کچھ اور-
آجFundamentalismجس کا صحیح مفہوم اصول پسندی ہے، ہمارے خیال میں بذات خود غلط نہیں ہے- اگر ہمیںکچھ اصول درست نظر آئیں تو ان کو درست سمجھنے میں آخر حرج کیا ہے؟ ہاں اگر یہ تشدد اور تطرف (Extremism) کی شکل اختیارلرلے، اپنی رائے دوسروں پر تھوپنے کا جبر کرے اور دہشت گردی Terrorismکو جنم دینے لگے، تو اس پر قدغن ضروری ہے- عصر حاضر میں فنڈامینٹلزم تطرف و تشدد کے ہم معنیٰ ہوگیا ہے، اس لیے آج اس کے صحیح خد و خال کو اجاگر کرنا ناگزیر ہوگیا ہے تاکہ تشدد ختم ہو- مذہبی تشدد و منافرت کو ختم کرنے کے لیے مکالمہ ناگزیر ہے- البتہ کامیاب مکالمہ اسی وقت انجام پاسکتا ہے، جب مذہبی نمائندے امن پسندی کے ساتھ یقین کی دولت سے بھی مالا مال ہوں اور وہ مرعوبیت کا شکار نہ ہوں- سچ بولنے کی جرأت اور سچ کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں، کیوںکہ امن اس وقت تک قائم نہیںہوسکتا جب تک ہم اختلافات کے ہوتے ہوئے پر امن زندگی کے لیے تیار نہ ہوں- اس کی بجائے اگر ہم اختلافات ختم کرنے بیٹھیںگے تو اس سے نہ امن قائم ہوگا اور نہ اختلافات ختم ہوںگے، البتہ نظریاتی سطح پر ایک دوسرا اختلاف پیدا ہوجائے گا-
بین المسالک مکالمہ:- 
دوسرے وٹیکن اجلاس نے ۱۹۶۵ء میں بہ یک وقت بین مذاہب اور بین مسالک مکالمے کے سلسلے میں خصوصی اعلامیہ جاری کیا۔ اس اعلامیہ کا مسیحی دنیا نے خیر مقدم کیا اور بالخصوص مسیحی مسالک کے بیچ مکالمے شروع ہوگئے-پروٹسٹنٹ اور کیتھولک چرچ جو ندی کے دو کنارے سمجھے جا رہے تھے، ایک میز پر آگئے۔ اس وقت میرے سامنے مرکز برائے مطالعہ تقابل مذاہب و ثقافت، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی کے استاد Father Oliver کا تیار کردہ نوٹ ہے جسے انھوں نے ایم اے سطح کی مسیحیت کے پرچے کے لیے تیار کیا ہے- یہ تقریباً ۶۰۰؍ صفحات پر پھیلا ہوا ہے- اس میں ایک ذیلی عنوان ہے: The Fruits of Dialogue -اس کے اندر مسیحیت کے بین مسالک مکالموں کے ثمرات و نتائج کو رقم کیا گیا ہے- اس میں ایک جگہ یہ عبارت بھی ہے:
It is first time in history that efforts on behalf of Christian unity have taken on such great proportions and have become so extensive. This is truly an immense gift of God, one which deserves all our gratitude. From the fullness of Christ we receive "grace upon grace".
’’تاریخ میں ایسا بالکل پہلی بار ہوا جب مسیحی اتحاد کی کوشش اس بڑے پیمانے پر کی گئی اور اس کے ثمرات اتنے وسیع تناظر میں سامنے آئے-سچ مچ یہ خد ا کی طرف سے ہمارے لیے بہت بڑا تحفہ ہے جو ہماری طرف سے ہر شکریے کا مستحق ہے-یسوع کی عنایت سے ہم پر رحمتوں پر رحمتیں نازل ہوئیں-‘‘
Father Oliver نے اتحاد مسیحیت کے لیے شروع ہونے والے بین مسالک مکالمے کے ثمرات کے تحت درج ذیل نتائج بطور خاص ذکر کیے ہیں، جو مکالمے کے توسط سے مسیحی دنیا کو حاصل ہوئے-
۱- اخوت کی بازیافت
۲- خدمت انسانیت میں تعاون
۳-کلام خدا وند اور عبادت کے توسط سے ایک دوسرے سے قربت
۴- دوسرے مسالک کے ذخیرے سے استفادہ
۵- اتحاد کی طرف پیش قدمی
اس طرح مسیحی دنیا دوسرے وٹیکن اجلاس کو اس خصوص میں بہت اہمیت دیتی ہے کہ اس نے مسیحیوں کے بیچ پیدا شدہ خلیج کو پاٹنے کا موقع فراہم کیا۔ ہانگ کانگ کے بشپ John Teng Hon نے اس اجلاس کی تعریف میں یہاں تک کہا کہ دوسرے وٹیکن اجلاس نے ہمیں یہ سمجھا دیا کہ صرف مکالمہ ہی اختلافات کو حل کر سکتا ہے-
We are guided by the sprit of Watican II: only dialogue and negotiation can solve conflicts.
دوسرے وٹیکن اجلاس کا پس منظر یہ تھا کہ رومن چرچ مسیحی دنیا میں تیزی سے اپنا وقار کھونے لگا تھا- مسیحی دنیا اختلافات و تنازعات سے ٹوٹ پھوٹ چکی تھی۔ سیاست نے مذہب کا دائرہ تنگ کر دیا تھا- پوپ کا دائرہ اثر محدود ہو کر رہ گیا تھا- جدید سائنسی افکار و تحریکات نے چرچ کو بے اعتبار بنا دیا تھا-شکست و ریخت نے مسیحیت کی ہوا نکال دی تھی۔ ایسے میں وٹیکن کا دوسرا اجلاس امید کی ایک کرن بن کر سامنے آیا اور مسیحیت میں ایک نئی روح پھونک دی-
اکیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں آج اسلام اور مسلم مسالک کا جائزہ لیجیے تو مسلمانوں کے احوال مسیحیوں سے بہت ملتے ہوئے نظر آ رہے ہیں- مسلمان آج دو راہے نہیں چو راہے پر کھڑاہے۔ مسلمان صرف مذہبی طور پر ہی کمزور نہیں ہوا ہے سیاسی اور سماجی سطح پر بھی اس کا وجود بکھرگیا ہے- ایک عجیب کشاکش ہے- دہریت، صلح کلیت، عالم گیریت، صارفیت، روحانی بحران ایک طرف اور دہشت گردی، فرقہ پرستی، تشدد، مسلکی منافرت، تکفیر و تفسیق، اسلاف بیزاری، قتل و غارت گری، فکری جمود، انکارو الحاد دوسری طرف، حالات کی کوکھ سے مسلمانوں کے لیے جو اذیت ناک مسائل پیدا ہوئے ہیں ان میں نمایاں طور پر درج ذیل ہیں-
۱- سیاسی سطح پر مسلمان بے دست و پا ہیں-
۲- مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام ہے-
۳- اسلامی تہذیب، روایات، اور طرز زندگی اعتراضات کی زد میں ہیں-
۴- اسلامی قوانین غیرمسلموں کی تنقیدات کا نشانہ ہیں-
۵- مسلم پرسنل لا میں مداخلت کی کوشش ہو رہی ہے-
۶- اسلامی شریعت کو اسلام مخالف عناصر غلط رخ سے پیش کر رہے ہیں-
۷- مسلمان غیر اسلامی و غیر انسانی حرکات و سکنات مثلاً خود کش حملے، مسجدوں پر بمباری اور مکانات کے انہدام میں شریک ہو رہے ہیں-
۸-مسلمان جدید تعلیمی ،سماجی،سیاسی،علمی اور سائنسی میدانوں اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں بہت پیچھے ہیں-
یہ اور اس طرح کے اور بھی بے شمار مسائل سے اکیسویں صدی کا ہر مسلمان دو چار ہے۔ اور یہ مسائل جبھی حل ہو سکتے ہیں کہ ہر مسلک اور ہر گروپ سے تعلق رکھنے والے مسلم نمائندے ان مسائل میں متحدہ موقف اختیار کریں اور کوئی ایک Stand لیں، جب کہ داخلی سطح پر حال یہ ہے کہ مسلم مسالک اور مکاتب فکر شدید طور پر دست بگریباں ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اختلافات کی نوعیت کو سمجھنے کی بجائے ایک طرح کی گروہی عصبیت کے مرض میں مبتلا ہیں اور وہ مسائل جن کا تعلق داخلی اور نظریاتی پہلوؤں سے نہیں، عام مسلم مفاد سے ہے، ان میں بھی وہ مسلکی منافرت اور علاحدگی پسندی کے رجحان کو بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس طرح وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے ہی ہاتھوں اپنی راہیں مسدود کر رہے ہیں- اس تناظر میں درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ 
۱-کیا یہ مسائل بین مسالک مکالمے سے حل ہوسکتے ہیں؟
۲- کیا اس طرح کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مسلمانوں کے مختلف طبقات اور مسالک کے نمائندے مکالمے کے لیے تیار ہوسکتے ہیں؟
۳- کیا اس طرح کا کوئی مکالمہ کامیاب ہوسکتا ہے؟
۴- اور سب سے اہم یہ کہ اس کا طریقۂ کار کیا ہو؟ بلفظ دیگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟
برصغیر کی جدید مسلم تاریخ بتاتی ہے کہ انقلاب ۱۸۵۷ کے بعد مسلمان صرف ٹوٹے اور بکھرے ہیں۔ مذہبی، فکری، علمی، سیاسی اور سماجی سطح پر صرف تفریقیں ہوئی ہیں۔ کسی بھی سطح پر وصل و اتحاد کے لیے کوئی قابل قدر کوشش نہیں ہوئی ہے۔ اور حیرت اس پر نہیں ہے کہ اس سمت کوئی قابل قدر پیش رفت نہیں ہوئی، حیرت اس پر ہے کہ اس پہلو پر سوچنے سے بھی لوگ ایسے بھاگتے رہے ہیں جیسے عوام کسی برص زدہ مریض سے بھاگتے ہیں- اس پہلو پر سوچنے کو ایک طرح کا فکری ارتداد یا ایمانی کمزوری سمجھا گیا جس کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنے مسائل ختم کرنے کی بجائے خود ہی بڑھانے کا نیک فریضہ انجام دیا-
جن لوگوں کی انگلیاں وقت کی نبض پر ہے، جنہیں قیافہ شناسی کا ذرا بھی علم ہے یا جن کی نظر رنگ گردوں پر ہے، وہ وقت کے اس جبر کو بخوبی محسوس کر رہے ہیں کہ مختلف مکاتب فکر کو اجتماعی مسلم مسائل کے تصفیہ کے لیے ایک میز پر آنا چاہیے اور باسلیقہ مکالمہ کے توسط سے وہ لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے، جس کے بعد ان کے مسلکی اختلافات ،غیر ضروری طور پر شریعت اسلامی کے وقار کو مجروح نہ کرسکیں اور ان کی وجہ سے مسلم مفاد عامہ کو زک نہ پہنچ سکے-
واضح رہے کہ میری اس تحریر کا منشا صلح کل کی دعوت نہیں ہے، کیوںکہ صلح کل تو نتیجے کے اعتبار سے لادینیت کے ہم معنیٰ ہے اور لادینیت خود ایک دین ہے، جس سے خدا کی پناہ! میں اختلافات کو ختم کرنے کی بات بھی نہیں کرتا، کیوںکہ رفع اختلافات کی بات خود ایک نظریہ ہے، جس سے اختلافات ختم تو نہیں ہوتے، البتہ ایک دوسرا اختلافی نظریہ سامنے آجاتا ہے- میرا مقصد یہاں صرف یہ ہے کہ اگر مسلمان بین مسالک مکالمے کے لیے تیار ہوتے ہیں تو اس سے غیر ضروری گروہی عصبیت کا خاتمہ ہوگا اور جو واقعی اختلافات ہیں وہ سامنے آئیںگے- چوں کہ اختلافات کے ساتھ جینا ممکن ہے جب کہ گروہی عصبیت کے ساتھ جینا ناممکن - اختلافات کا صحیح ادراک اپنے رویہ کے تعین میں روشنی فراہم کرتا ہے، جب کہ گروہی عصبیت انسان کو اندھا کردیتی ہے اور بسا اوقات وہ اپنے فریق مخالف کی صحیح بات کو بھی ٹھکرا دیتا ہے۔ اگر اس طرح کا کوئی مکالمہ شروع ہوتا ہے تو عوامی سطح پر یہ رہنمائی ملے گی کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کہاں تک جاسکتے ہیں اور کہاں سے ہمارے راستے بدل جاتے ہیں۔ اختلافات کی نوعیتوں کو بھی لوگ سمجھ سکیںگے کہ کون سا اختلاف عقیدے کا ہے اور کون سا اعمال کا۔ یہ بات بھی سمجھ میں آئے گی کہ عقیدے یا اعمال میں جو انحرافات و اختلافات ہیں وہ انسان کو کب فاسق بناتے ہیں، کب بے دین اور کب کافر و مرتد، چونکہ انسان جب تک عصبیت کی تاریکی میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے تو وہ مخالف کے ہر قول و فعل کو ارتداد اور بے دینی سمجھتا ہے- علم کے بعد عصبیت کی تاریکی ختم ہوتی ہے اور بصیرت کا نور پیدا ہوتا ہے۔ بین مسالک مکالمے سے کم سے کم یہ ہوگا کہ مسلکی اختلافات سے امت مسلمہ کے عام مفادات کو نقصان نہیں پہنچے گا اور مشترکہ مسائل میں مسلمانوں کی ایک متحد آواز بلند ہوسکے گی، جس میں خود کو منوالینے کی زبردست قوت ہوگی-
رہا یہ سوال کہ کیا مختلف مسالک کے نمائندے اس کے لیے تیار ہوںگے؟ تو اس کے آثارہمیں بہت کم ہی دکھائی دے رہے ہیں- ہندوستان میں شریعت اسلامی کے تحفظ کے نام پر بننے والی تمام مکاتب فکر کی نمائندہ تنظیم’’ مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ پر ایک خاص طبقے کی اجارہ داری اور دوسروں کی علاحدگی کے بعد اس کی امید اور بھی مدھم ہوگئی ہے- تاہم مثبت انداز نظر کا تقاضا یہ ہے کہ ہم مایوس نہ ہوں- ہمیںاس طرح کی پیش رفت سے یکسر مایوسی نہیں ہے، بلکہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے حشر کے بعد تو اور بھی زیادہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ ہر فریق اپنا احتساب کرے- وہ لوگ بھی سوچیں جوعلاحدگی پسندی کے جنون میں سیکولر حکومت کے سامنے شیرازۂ ملت کے انتشار کو اجاگر کر رہے ہیں اور وہ لوگ زیادہ سوچیں جو باتیں اتحاد ملت کی کرتے ہیں جب کہ ان کا عمل گروہی اجارہ داری اور مسلکی تسلط کی منافقانہ ذہنیت کا ثبوت پیش کرتا ہے-
رہی یہ بات کہ اس کا طریقۂ کار کیا ہو؟ تو اس حوالے سے عصر حاضر کے معروف اسکالر پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنی ایک  کتاب ’’فرقہ پرستی کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہے؟‘‘ جو پہلی بار ۱۹۸۵ء میں شائع ہوئی تھی، میں ایک جگہ لکھا ہے:
’’ہر نوعیت کی فرقہ پرستی کی قانونی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ مختلف فکر کے نمائندہ مسلمہ علماء پر مشتمل ایک کونسل قائم ہونی چاہیے، جس میں مشترک طور پر ایک ضابطہ اخلاق طے کیا جائے، تاکہ ہر مسلک کے واعظین، مقررین، مبلغین اور علماء و مصنفین اس ضابطہ اخلاق کے دائرہ میں رہ کر دعوت و تبلیغ دین اور اشاعت مسلک کا کام کریں۔ اس ضابطہ اخلاق کے ذریعے اس امر کی ضمانت مہیا کی جائے کہ کوئی شخص کسی مسلک کے خلاف بالواسطہ یا بلاواسطہ کیچڑ نہ اچھال سکے۔ یہ کونسل ایسے اکابر اور ذی اثر علماء پر مشتمل ہو کہ ان کے متعلقہ مسالک کے علماء و مبلغین ان کی ہدایت پر سختی سے عمل درآمد کے پابند ہوں۔ ان علماء کے ذریعے اس امر کی یقین دہانی حاصل کی جائے کہ اس اخلاقی ضابطے کی خلاف ورزی کرنے والا کوئی بھی خطیب ، مقرر، مصنف اور مبلغ نہ صرف اپنے اکابر کے سامنے جواب دہ ہوگا، بلکہ اس کے خلاف مسلکی اور تنظیمی سطح پر تادیبی کارروائی بھی کی جائے گی۔ مثلاً اس مسلک سے متعلق کسی بھی مذہبی یا سیاسی تنظیم میں اسے کسی عہدہ پر برقرار نہ رکھا جائے گا، اس کی رکنیت کو معطل کردیا جائے گا۔ مذہبی اور تنظیمی اجتماعات میں اسے نمائندے کے طور پر شمولیت سے باز رکھا جائے گا اور شہری و تنظیمی سطح پر اسے اس کی مسجد کی خطابت یا متعلقہ ادارے کی نظامت و سربراہی سے علاحدہ کرنے کے لیے اخلاقی دباؤ ڈالا جائے گا-
ان اقدامات کے پیچھے جب تک اس نوعیت کی مؤثر اور فیصلہ کن اخلاقی ضمانتیں موجود نہیں ہوںگی، یہ محض نیک تمناؤں اور آرزوؤں کا پلندا ہوگا۔ ایسی سفارشات سے اتحاد امت کی منزل کی طرف ٹھوس پیش رفت نہ ہوسکے گی-
اس وقت عملاً صورت حال یہ ہے کہ ہر طبقہ و مسلک کے ذمہ دار افراد امت کو انتشار و افتراق کی آگ سے نجات دلانے اور وحدت و یکجہتی کی فضا کو فروغ دینے کے لیے اتحاد و اخوت کی بات تو کرتے ہیں، ایسے منصوبوں میں شامل بھی ہوتے ہیں، اخباری بیانات کے ذریعے فرقہ وارانہ رجحانات کی مذمت بھی کرتے ہیں، لیکن انہیں بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اپنی جماعت، تنظیم اور مسلک سے تعلق رکھنے والے کون کون سے افراد بالواسطہ فرقہ وارانہ تضادات و فسادات کو ہوا دینے میں ملوث ہیں۔ ان کے زیر اثر کتنے حلقے اپنے مذمومہ مفادات کی خاطر فرقہ وارانہ کارروائیوں اور سازشوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی بلکہ سرپرستی فرما رہے ہیں اور کس حد تک ان کے دامن اس گھناؤنے جرم کی سیاہی سے داغدار ہیں، مگر وہ نہ تو انہیں اس عمل سے روکتے ہیں اور نہ ان کے خلاف جماعتی سطح پر کوئی کارروائی عمل میں لاتے ہیں، بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ان طبقات نے اپنی ’’واردات‘‘ کے لیے جدا جدا محاذ کھولے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک کے ذمے ’’قتل‘‘ ہے- دوسرے کے ذمے اخبارات میں بیانات مذمت اور تیسرے کے ذمے ’’مصالحت‘‘- ہر ایک کو اس کے منصب اور حیثیت کے مطابق کام سونپا گیا ہوتا ہے- ایک چہرے پر کئی چہرے سجانے والے جب تک خود اپنے اندر صدق و اخلاص پیدا کرکے اس دجل و فریب اور منافقانہ روش سے باز نہیں آتے اس وقت تک اس لعنت سے نجات بہت مشکل ہے-‘‘
(فرقہ پرستی کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہے؟ ص:۸۷، ۸۸، منہاج القرآن پرنٹرز، ۲۰۰۱)
میں ڈاکٹر طاہر القادری کے اس بیان کو حرف آخر کا درجہ نہیں دیتا اور نہ اس سے مکمل اتفاق کرنے کی وکالت کرتا ہوں- البتہ یہ بات ضرور کہوںگا کہ جو بات اس سے اچھی ہوسکتی ہے، وہ پیش کی جانی چاہیے اور بہر صورت امت مسلمہ کی عمومی فلاح، شریعت اسلامی کے تحفظ اور اسلام کی نیک نامی کے لیے سب کو متحدہ طور پر کوشش کرنی چاہیے-مکالمے کی بات میں اس لیے نہیں کہتا کہ مسلمان اپنی مسلکی وابستگی اور شناخت سے دست بردار ہوجائیں، بلکہ بین مسالک مکالمہ اس لیے ضروری ہے تاکہ ہم جذبات میں مخالفین اسلام کا آلۂ کار نہ بنیں اور مسلک کے تحفظ کے جوش میں غیر شعوری طور پر نفس شریعت اسلامی کی بدنامی و پامالی اور امت مسلمہ کے زوال و تباہی کا گھنونا فعل ہم خود ہی انجام نہ دیں-
اللّٰھم ارنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ و ارنا الباطل باطلاً و ارزقنا اجتنابہ(اٰمین!)
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔