Monday 22 January 2018

طالبان ازم : عصر حاضرمیں اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ

0 comments
طالبان ازم
 عصر حاضرمیں اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
----------------------------------------------------------------------------
پہلے اسے پڑھیے:-
آج  یہ تحریر ایسے وقت میں لکھ رہا ہوں جب پاکستان و افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بڑے پیمانے پر ’’ جہاد‘‘ ہو رہا ہے - ایسا جہاد جس کا رخ نہ امریکا و برطانیا کی طر ف ہے اور نہ ہی کفار و مشرکین یا یہودو نصاریٰ کی طرف، بلکہ اس کا ایک فریق مملکت خدا داد حکومت پاکستان ہے تو دوسرا فریق روئے زمین پر نظام شریعت محمدی کے نفاذ کے ٹھیکیدار طالبان ہیں- اس ’’جہاد‘‘ میں سیکڑوں مسلمان جاں بحق ہوچکے ہیں، ہزاروں بے گھر اور لاکھوں اس سے متاثر ہیں- اس وقت بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے یہ تازہ ترین خبریں آرہی ہیں: 
’’صوبہ سرحد کے ملاکنڈ ڈویژن میںمقامی طالبان کے خلاف فوجی کارروائی آج بھی جاری ہے اور اسی دوران تحریک نفاظ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد کا ایک بیٹااور تین سیکورٹی اہل کار ہلاک ہوئے ہیں-‘‘
’’سوات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد بے گھرہوچکی ہے اور نقل مکانی کایہ سلسلہ اب بھی جاری ہے - صوبہ سرحد کے صوبائی وزیر میاں افتخار کے مطابق ملا کنڈ کے مہاجروں کی تعداد پانچ لاکھ نفوس تک پہنچ سکتی ہے-‘‘
’’سوات کے شورش زدہ علاقے سے ہجرت کرنے والے بعض افراد نے امریکا، برطانیہ، آسٹریلیااور کنیڈا سے مطالبہ کیاہے کہ وہ سوات کے مہاجرین کے لیے عارضی سکونت پر مبنی امیگریشن کا بندو بست کریں-‘‘
’’صدر آصف علی زرداری اور افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کے بعد امریکی صدر بارک اوباما نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان القاعدہ کو شکست دینے کے لیے متحد ہیں-‘‘
کل ۶؍مئی کو بی بی سی نے ان خبروں کو خصوصیت کے ساتھ شائع کیا تھا: 
’’ صوبہ سرحد کے ضلع سوات سے اطلاعات ہیں کہ سیکورٹی فورسیز کی جانب سے بدھ (کل) کو ہونے والے مختلف کار روائیوں میں بارہ بچوں اور ۶؍ خواتین سمیت ۲۴؍عام شہری ہلاک ہوئے ہیں جب کہ اس دوران پاکستانی فوج نے ۳۵؍ طالبان کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے-‘‘
’’ ادھر سیدشریف میڈیکل کالج کے تقریباً ۷۰؍ طلبہ و طالبات گزشتہ دو دنوں سے اپنے ہاسٹلوں میں محصور ہیں - ایک طالب علم محمد رفیع نے فون پر بتایا کہ اس وقت چالیس طالبات اور تیس طلبہ ہاسٹلوں میں محصور ہیں اور ان کے پاس کھانے پینے کی اشیاء کم پڑ گئی ہیں-‘‘
’’صوفی محمد دیوبندی مکتب فکر سے متعلق ہیں لیکن جمہوریت کے غیر اسلامی ہونے کے ان کے موقف سے دیوبندعلما کی ایک بڑی تعداد اس کے خلاف ہے اور جمہوری سیاست میں شامل ہے- خود صوفی محمد بھی اسی انتخابی عمل کے ذریعے کئی برس قبل جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر کونسلر منتخب ہوئے اور اب اس عمل میں حصہ لینے والوں کو کفر کے داعی قرار دے رہے ہیں-‘‘
طالبانی گروپ اور صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی کا ’’ جہاد‘‘ (جو در اصل اقتدار کی ہوس یا بیرونی طاقتوں کی خفیہ سازش کانتیجہ ہے) ’’مسلم جمہوریت‘‘ کے خلاف جاری ہے- سرحدی علاقوں میں بسنے والے مسلمان زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں اور وہ امریکا، برطانیا، آسٹریلیا اور کنیڈا جیسے (دشمنان اسلام) ممالک کے حضور ’’ شریعت محمدی کے حامی طالبان ‘‘ کے خلاف استغاثہ دائر کرکے امن و سکون کی بھیک مانگ رہے ہیں- ادھر پاکستان و افغانستان کے مسلم حکمراں بھی ’’ امریکا‘‘ سے اس ’’طالبانی جہاد‘‘ کوختم کرنے میںتعاون کے طالب ہیں- دوسری طرف مسلمانوں سے اقتدار چھیننے کی غرض سے خون ریز جنگ برپا کرنے، مسلم لڑکیوں کو زد و کوب کرنے، غیر مسلموں کے ساتھ جابرانہ رویہ اپنانے، عصری تعلیمی اداروں اور مزارات و مقابر کو توڑ پھوڑ کرنے پر دیگر ملکوں میں بسنے والے مسلمان غیر مسلم اقوام کے سامنے شرم سار ہیں -ان کے سامنے مسائل کھڑے ہورہے ہیں ،اس نام نہاد جہاد کی وجہ سے دنیا بھر میں اسلام کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور اگر طالبان کا یہ جہاد یوں ہی جاری رہا تو کوئی بعید نہیں کہ یورپ و امریکا میں بسنے والے مسلمان مختلف مسائل ومصائب میں گھر جائیں اور افغانستان و پاکستان میں بسنے والے شہریوں پر پھر امریکی بموں کی بارش شروع ہوجائے- اس طرح ’’ طالبانی جہاد‘‘ تاریخ اسلام کا وہ واحد جہاد ہے جو مسلمانوں کے خلاف لڑا جارہا ہے، مسلمان ہی مارے جارہے ہیں ، بے گھر ہورہے ہیں مختلف مسائل میں گھررہے ہیں اور اپنے تحفظ کے لیے غیر مسلم حکومتوں سے امن وامان کی بھیک مانگنے کے ساتھ اپنے ’’دوستوں‘‘ سے تنگ آکر اپنے ’’دشمنوں‘‘کو اپنے ہی ملک پر ہلہ بولنے کی دعوت دے رہے ہیں-
طالبان اور طالبان ازم:-
معروف آن لائن انسائیکلوپیڈیا ’’ وکی پیڈیا‘‘ طالبان کے بارے میں لکھتا ہے:
’’تحریک الاسلامی طالبان افغانستان کی سب سے موثر جنگی و سیاسی قوت ہیں، ان کو مختصر اً طالبان کہا جاتا ہے- نسلی اعتبار سے پشتون ہیں اورمسلکی اعتبار سے دیوبندی اور اہل حدیث کے مکتب فکرسے منسلک ہیں-
طالبان دراصل پاکستانی و افغانستانی مدارس کے وہ طالب علم ہیں جو افغان جہاد میں روس کے خلاف لڑتے رہے تھے- روسی فوجوں کی واپسی کے بعد ان کی اکثریت اپنے مدارس میں واپس چلی گئی تھی- مگر جہادی تنظیموں کی باہمی خانہ جنگی کے باعث ۱۹۹۵ء میں طالبان دوبارہ میدان جنگ میں آگئے اور افغانستان کے ۹۰؍ فیصد رقبے پر اپنی عمل داری قائم کرکے شریعت نافذ کردی- تاہم ان کی شریعت پر کئی حلقوں کی طرف سے تنقید ہوتی رہی- ان کو سب سے پہلے سعودی عرب اور بعد میں اسامہ بن لادن سے مالی معاونت حاصل رہی-
طالبان نے ۱۹۹۸ء میں ہرات پر قبضہ کے بعد مزار شریف پر قبضہ کیا تو اس شہر میں قتل عام کیا- ان کا طریقہ یہ تھا کہ ٹرکوں اور گاڑیوں میں عام سڑکوں اور گلیوں میں جاتے اور دائیں بائیں فائرنگ کرتے تھے- اس طریقہ سے انہوں نے ۸۰۰۰ ؍لوگوں کا قتل عام کیا- یہی طریقہ انہوں نے بامیان پر قبضہ کے بعد اختیار کیا- واضح رہے کہ طالبان سے قبل بامیان پر ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب وحدت کا قبضہ تھا-
طالبان خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے لیے جانے جاتے ہیں- ان کے اصولوں کا تعلق اسلام سے زیادہ پشتون ولی قوانین کے ساتھ ہے- وہ نہ صرف خواتین کی تعلیم کے سخت خلاف ہیں بلکہ خواتین کو گھرسے باہر بھی نہیں نکلنے دیتے- خواتین کو غیر اسلامی طریقہ سے سزائیں بھی دینے  کے قائل ہیں- مثلاً بھرے بازار میں خواتین کو لکڑی کی چھڑیوں کے ساتھ پیٹنے کی روایت انہوں نے قائم کی - ان کے دور میں خواتین کے مدرسے بند کردیے گئے-‘‘
ممکن ہے وکی پیڈیا کی فراہم کردہ معلومات کو کوئی صدفی صد درست نہ سمجھے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ صد فی صد غلط بھی نہیں- فکری و عملی بے اعتدالی، تشدد، طاقت کے زور پر اسلام، مسلمانوں کو مسلمان بنانے کی کوشش، جہالت کافروغ، مسلم آزادی رائے کا قتل، اپنے گروپ سے وابستہ چند افراد کو برحق ،قاضی و حاکم اور خلیفۃ اللہ فی الارض سمجھنے کا جنون، مسلکی تعصب اور علاقائی مراسم کو عین اسلام قرار دینے کا اصرار یہ ایسی سچائیاں ہیں جن کو جھٹلایا نہیں جاسکتا- 
ایسے دور میں جب کہ اسلام دو راہے پر ہے- ایک طرف اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے امکانات جہاں پوری دنیا میں روشن ہیں- بادشاہی تعصب کا دنیا سے خاتمہ ہوگیا ہے اور جمہوریت کے طفیل چراغ مصطفوی سے دنیا کے ہر گوشے کو اجالنا آسان ہوگیا ہے- جدید طرز معاشرت سے انسانیت پریشان ہے اور وہ متمدن معاشرے میں پرامن نظام اور روحانی سکون کی تلاش میں ہے جس کے لیے اسلام کو بطور نعم البدل پیش کیا جاسکتا ہے ، تو دوسری طرف اسلام کے خلاف پوری دنیا میں غیر مسلح علمی و فکری جنگ جاری ہے- مذہبی تعصب سیکولر انداز میں اسلام پر یلغار کررہا ہے— ایسے میں چند بیمار ذہن اور تنگ نظر افراد دنیاکے ایک محدود خطے میں گولے اور بندوق کے ساتھ ایک جنگی اسلام پیش کرنے میں کوشاں ہیں- وہ جہاد کے نام پر نہ صرف مسلمانوں کا خون بہارہے ہیں، مسلم عوام کی زندگی کو جہنم بنا رہے ہیں بلکہ مخالفین اسلام کو اسلام کے خلاف شعوری یا غیر شعوری طور پر مواد فراہم کرکے توسیع اسلام کے امکانات کو محدود کررہے ہیں- 
۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر کیا جانے والا حملہ بھی اسی متشدد گروپ ’’ طالبان‘‘ کی طرف منسوب کیاجاتاہے ، جس کے بعد امریکا کو افغانستان اور پھر عراق کو قبرستان بنانے کا حسین بہانہ مل گیا تھا- اب ۹؍سال کے بعد جب کہ امریکہ میں ایک نسبتاً معتدل شخص حکمراں ہوا ہے اور بظاہر ہی سہی ، مسلمانوںکے ساتھ نرم رویہ اپنانے کا دم بھر رہا ہے اور افغانستان و عراق میں جنگ کے شعلے بجھنے کے قریب ہیں ، سوات کی وادی میں بدترین دہشت گردی کے ذریعے پھر یہ طالبان امریکہ کو پاکستان اور افغانستان پر حملے کرنے کی دعوت دے رہے ہیں- ایسے میں اس اظہار میں کوئی تامل نہیں ہے کہ طالبان عصر حاضر میں اسلام کے وہ احمق دوست ہیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ خطرات درپیش ہیں-اور ایسا اس لیے ہے کہ ان کی داڑھی اور پگڑی ان کی ہر حرکت کو اسلام سے جوڑ دیتی ہے جب کہ ان کی واقعی حیثیت ایل ٹی ٹی ای اور نکسل وادکے تشدد پسندجوانوں کی ہے جوہاتھ میں چند بندوقیں لے کر پوری دنیا پر حکومت کا احمقانہ خواب سجائے ہوئے ہیں-
حیرت انگیز خاموشی:-
 طالبان پچھلے کئی سالوںسے اسلام کے نام پر اپنی غیراسلامی سرگرمیوں میں مصروف ہیں مگر اس کے باوجود بر صغیر کے  علما ودانشوران ان کے خلاف زبان کھولنے کی بجائے حیرت انگیز خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں- آج پاکستان میں ’’ سنی تحریک‘‘ مختلف بینروں اور پوسٹروں کے ساتھ طالبان کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہے ، بینروں پر اس طرح کے نعرے لکھے ہوئے ہیں:
(۱)Say no to Taliban (۲)امریکی طالبان کاجو یار ہے غدار ہے ، غدار ہے(۳)امریکی ایجنٹ طالبان - پاکستان کے دشمن طالبان(۴)اسلام زندہ باد طالبان مردہ باد(۵)من پسند نفاذ شریعت کے خلاف دفاع اسلام ریلی(۶)No Terorrism, No Taliban (۷) سواتی شریعت نامنظور ،نامنظور(۸) طالبان کے ہاتھوں مزارات اولیاء اللہ کی توہین، علماء مشائخ کاقتل عام مجھے افسوس ہے کہ عصر حاضر کی اس خارجیت اور اسلام دوستی کے نام پر اسلام دشمنی کی اس بد ترین تحریک کے خلاف احتجاج کرنے والے ایک مخصوص حلقے سے تعلق رکھتے ہیں- ممکن ہے بعض جذباتی افراد اس احتجاج کو بھی مسلکی تناظر میں دیکھنے کی غلطی کر بیٹھیں، جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح ’’ دہشت گردی‘‘ کے خلاف ہر مکتب و مسلک کے علما نے کھل کر احتجاج کیا اسی طرح عصر حاضر میں دہشت گردی کی اس بڑی مثال کے خلاف بھی اپنے غم و غصہ اور اس سے اپنی براء ت کا اظہار کرتے تاکہ عوا م میں طالبان کی حرکتوں کے حوالے سے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے سے متعلق جو شبہات ہیں ان کا ازالہ ہوتا اور عالمی سطح پر اسلام کی پر امن تصویر پیش کرنے میں کامیابی ملتی- جماعت اسلامی کے مشہور اسکالر ماہرمعاشیات ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اپنی کتاب’’ تحریک اسلامی اکیسویں صدی میں‘‘ میں لکھا ہے کہ جہاد کا جو مفہوم جماعت کے بزرگوںنے طے کیا تھا آج کچھ نوجوان اس سے ہٹ کر جہاد کررہے ہیں- جماعت کے ذمہ داران کو اس کا احساس بھی ہے مگر معلوم نہیں کون سی ایسی مصلحت آڑے آرہی ہے کہ وہ کھل کر اس کا اظہار نہیں کر پارہے ہیں— ایسا لگتا ہے کہ طالبان کے تعلق سے مسلم اسکالروں کی خاموشی کی وجہ بھی کچھ اسی طرح کی ناقابل بیان مصلحت ہے- چوںکہ طالبان اپنا سررشتہ کبھی دیوبند سے جوڑتے ہیں تو کبھی سعودی عربیہ سے، ممکن ہے یہی نسبت بہت سی زبانوں کو مقفل اور قلموں کو خاموش کردیتی ہو- اہل علم کا یہ رویہ قابل تشویش ہے- اگر لفظی نسبت سے زیادہ انہیں اسلام اور مسلمانوں کاوقار عزیز ہے تو انہیں اس تشدد پسندجماعت کے خلاف ضرور کھل کر بولنا چاہیے-
غیر طالبانی طالبان:-
 عصر حاضر میں طالبان کے علاوہ بھی بہت سے طالبان ہیں جو طالبان کی تشدد پسندانہ آئیڈیالوجی کی غیر شعوری تقلید کرتے ہوئے فکر وعمل اور بیان و اظہار میں تشدد کی راہ اختیار کرلیتے ہیں- اپنی فکر کو وحی اور اپنی رائے کو حرف آخرقرار دینے پر مصر ہوجاتے ہیں ، اظہار حق کے زعم میں آداب اظہار فراموش کرجاتے ہیں ، مسائل میں اختلاف کو عقائد میں اختلاف سے جوڑ دیتے ہیں، سوال و دریافت کو مخالفت اور بغاوت سمجھ بیٹھتے ہیں، کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو فقہی مسائل میں تقلید کو شرک فی الدین کے مرادف سمجھتے ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی ہر دل عزیز شخصیات کا حوالہ اس کرو فر سے دیتے ہیں جیسے وہ شخصیت زمینی نہیں آسمانی ہو- عصر حاضر میں اسی فکری تشدد نے تکفیری رجحان کو جنم دیا ہے، جس سے اسلام کو مخصوص دائرۂ نظر میں دیکھنے اور اس سے باہر عام مسلمان کو کافر و مشرک اور بے دین سمجھنے کا جنون بڑھا ہے- جب کہ آج ضرورت ہے کہ فکری بے راہ روی، صلح کلیت ، فلسفۂ مابعد جدیدیت اور نفاق و تشکیک سے بچتے ہوئے ارشادات رسول یسروا ولاتعسروا بشروا ولاتنفروا (آسانی پیدا کرو تنگی نہیں ، لوگوں کو خوش رکھو بیزار مت کرو)پر عمل کیاجائے-اس سے ہٹ کر عصر حاضر میں اسلام کے نام پر جو کچھ کیاجائے گااس سے سوائے خسارہ کے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے-
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔