Monday 15 January 2018

صہیونیت اورہمنیت:ایک سکے کے دو رخ

0 comments
صہیونیت اورہمنیت:ایک سکے کے دو رخ
تحریر:- وی ٹی راج شیکر
ترجمہ:- ذیشان احمد مصباحی
---------------------------------------------------------------------
دلت وائس فیملی کے بہت سے ممبروں نے تحریری طور پر اس بات پر نوٹس لیا کہ آخر ہم صہیونیوں کے مظالم کو اپنے رسالے میں اتنا کوریج کیوں دیتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ صہیونیوں کا مسئلہ ہندوستان خصوصاً دلتوں سے متعلق نہیں ہے، ایسے لوگوں کو ہم اس بات کا یقین دلانا چاہتے ہیں کہ برہمنیت اور صہیونیت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ان کا گہرا ربط و اشتراک عالمی منافع میں اشتراک کی خاطر ہے-
ہمارے دانشور رہنما، فادر آف دی انڈیا، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈ کر نے دلتوں بلکہ بھار ت کے بنیادی دشمن ’’ برہمنیت ‘‘ کی شناخت  کرلی تھی، برہمن اور یہود دونوں ہی ایک ہی جغرافیائی علاقے، اطراف ایران سے تعلق رکھتے ہیں، دونوں ایک ہی نسلی امتیاز و خصوصیت رکھتے ہیں، دونوں ذہنی اعتبار سے تخریبی ہیں اور ان پر بڑا بننے کا خبط سوار ہے اور جسمانی اعتبار سے دونوں ہی کمزور ہیں-
آج یہود اور ’’ ہندوستانی یہود‘‘ دونوں کے باہمی گہرے روابط ہیں، اور پوری دنیا میں افرا تفری برپا کرنے کے لیے دونوں باہمی تعاون سے اپنا عمل جاری کیے ہوئے ہیں، اسرائیلی موساد پوری آزادی سے ہندوستان میں اپنا کام کر رہی ہے اور دلتوں اور مسلمانوں سے نپٹنے کے لیے انڈین حکومت قانونی طور پر اسرائیل کے ڈیفینس اور انٹلی جینس کے ساتھ اشتراک عمل کیے ہوئے ہے اور چونکہ ’’دلت وائس‘‘ ہندوستان کا قدیم ترین رسالہ عظیم ترین جنرل ہے جو یہاں کے ۸۵ فیصد حقوق انسانی سے محروم شہریوں کا ترجمان ہے، اس لیے اس کا فرض ہے کہ یہ جہاں ہندوستانی تہذیب پر ’’ ہندوستانی یہود‘‘ کی مسلط کردہ جارحیت پر گفتگو کرے ،وہیں اپنے فیملی ممبروں کو یہود کے مسلط کردہ خطرات سے بھی آگاہ کرے، جب دونوں کا جسم اور دونوںکا دماغ ایک ہی ہے تو ہم دونوں کو الگ الگ خانوں میں نہیں رکھ سکتے، یہ ہماری خصوصیت ہے کہ سب سے پہلے ہم نے ہی برہمنوں کو’’ ہندستانی یہود‘‘ سے متعارف کرایا، یہ ایسی تعبیر تھی جسے سب نے کھلے دل سے تسلیم کیا اور اس کا خوب استعمال کیا- 
جب ہم پورے طور پر ’’ ہندوستانی یہود‘‘ سے لڑ رہے ہیں تو کیا یہ ہمارا فرض نہیں ہے کہ وہ افراد جو یہود سے لڑ رہے ہیں ان کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں،بہر حال! جب یہود اور ’’ ہندوستانی یہود‘‘ اپنی نسلی ڈکٹیٹر شپ قائم کرنے کے لیے گہرے اشتراک سے کام کر رہے ہیں کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ انسانیت کو تباہ کرنے والی اس مصیبت کے خلاف اپنی ہر ممکن کوشش کر گزریں؟
امریکہ کی شکست:-
آخر کار امریکہ نے نہایت بے غیرتی کے اظہار کے ساتھ صاف لفظوں میں یہ اعتراف کر لیا کہ افغانستان کی طرح عراق میں بھی اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا، یہ دراصل خاموشی کے ساتھ عراق سے بھاگ نکلنے کا منصوبہ ہے ، یہ ہے دنیا کے واحد سپر پاور کی حالت زار- صدام حسین نے جیل میں رہتے ہوئے بھی خود سر امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں-  Dalit Voiceنے پوری دنیا میں سب سے پہلے یہ اعلان کر دیا تھا کہ عراق پر امریکی چڑھائی کا اختتام امریکہ کی بھیانک تباہی پر ہوگا -Dalit Voice Feb.1, 2003 P.8 "US Defeated even before attacking Iraq.دلت وائس کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی-
ہم نے ہی سب سے پہلے یہ پیشین گوئی بھی کی تھی کہ مغرب مسلمانوں کے خلاف اپنی جنگ ہار جائے گا(DV Aug. 1, 2004, P.4)ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ افغانستان میں امریکہ کو شکست سے دو چار ہونا پڑے گا، اور اب وہ دن دور نہیں جب افغانستان کی پر آشوب زمین پر حکومت کرنے والے امریکی پٹھو حامد کرزئی کو یا تو گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے گا ، یا وہ خود ہی رفو چکر ہو جائیں گے-
مکہ اعلامیہ:-
جیسا کہ ہم نے لکھا کہ امریکہ بھاگ نکلنے کا منصوبہ بنا رہا ہے ، یہ ایک چھوٹے ریگستانی عرب ملک کے ہاتھوں دنیا کے سب سے بڑے ڈکٹیٹر کی بربادی کا منظر ہے، نہایت مایوسی کی حالت میں امریکہ نے عراق کو تین حصوں شیعہ، سنی اور کرد میں تقسیم کرنے کا پلان بنایا، لیکن عراق کے شیعہ و سنی لیڈروں کی تائید و حمایت میں ۲۱؍اکتوبر ۲۰۰۶ء کو پاس ہونے والے مکہ اعلامیہ نے دونوں کو امریکہ کے مقابلے میں متحد کر دیا، ویسے امریکہ بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ عراق کی تقسیم موجودہ صورت حال سے اور زیادہ ہی خطر ناک ثابت ہو گی-
صدام حسین جیل میں قہقہے لگا رہے ہیں، دریں اثنا جارج بش اور ان کی ریپبلیکن پارٹی کو اپنے مستقبل کے حوالے سے سخت ناامیدی کا سامنا ہے،ڈیموکریٹک پارٹی ترقی کرتی جا رہی ہے، صہیونی خاموشی کے ساتھ جمہوریت پسندوں سے ملتے جا رہے ہیں، انہوں نے ہی ریپبلیکن پارٹی کو اقتدار میں لایا تھا،اور بش کو صدر بنایا تھا، اب وہی ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی سے ہاتھ ملا رہے ہیں، چونکہ ان کی کوئی مستقل پارٹی نہیں ہوتی ،ان کی نظر صرف مستقل منافع پر ہوتی ہے-
عالمی مسلم قیادت ایران کے ہاتھوں میں:-
ایسے وقت میں جب کہ نسلی نخوت میں چور گورے مغربی مسیحیوںاور ان کے زمام دار صہیونی اپنے سامنے خطرات محسوس کر رہے ہیں، مشرق وسطیٰ میں ان کے خلاف ایک مستحکم اتحاد انقلابی ایران کی قیادت میں پروان چڑھ رہا ہے ، جبکہ عالمی قیادت پر بتدریج چین قابض ہوتا جا رہا ہے-
نیوکلیائی بم کا تجربہ کر کے امریکہ کے رخسار پر معمولی سے ملک شمالی کوریا کا زبردست طمانچہ رسید کرنا، امریکہ میں اقتصادی بحران کا بڑھنا ،کئی بار ووٹنگ کرانے کے باوجود وینزویلا(Venezuela)کے شاویز(Chavez)کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی سیٹ پر کامیابی سے روکنے میں امریکہ کا ناکام رہنا، اور بش کے سب سے بڑے ناقد، بش کے وفادار کتے بلیر کے لیے تباہی و بربادی ،صہیونیوں کے نور نظر اسرائیل کو منہ توڑ شکست دینے والے شاویز کا چھوٹی سی گوریلا فوج حزب اللہ کے ہتھے چڑھ جانا(DV Sep-1, 2006 P.6: Why mighty Israel was defeated by puny Hezbullah) اور ان کے علاوہ دوسرے بہت سے حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ ظلم کبھی پھل نہیں سکتا اور یہ کہ فتح و کامرانی سچ اور انصاف کی فطرت میں شامل ہے-
امریکہ کی گردن کس کے چنگل میں؟:-
امریکہ کے بے گناہ شہری اس وقت تک مشکلات ومصائب سے دو چار رہیں گے ، جب تک وہ امریکہ کو مٹھی میں رکھنے والے ۳؍ فیصد یہودیوں کو سبق سکھا کر وہائٹ ہائوس پر خود اپنا مکمل تسلط قائم نہیں کر لیتے- ہم یہاںسب سے پہلے مشرق وسطیٰ کی بات کرتے ہیں ، یہ دنیا کا بیدار ترین مسلم خطہ ہے ، جس پر مغرب کے گورے مسیحی اور ان کے کنٹرولر صہیونی سب سے زیادہ اپنی نظر گڑائے ہوئے ہیں اور اسلام کو ختم کرنے کے لیے مختلف تمدنی جنگیں چھیڑے ہوئے ہیں، یہ اور بات ہے کہ یہ جنگیں جمہوریت کے نفاذ کے نام پر ہو رہی ہیں- 
کوئی مسلم ملک نیوکلیر پاور نہیں ہے، (سوائے غریب پاکستان کے) نہ کوئی ملک صنعت کے لحاظ سے بہت نمایاں ہے، مشرق وسطیٰ کی تمام مسلم زمینیں بے آب و گیاہ ریگستان ہیں، جہاں کوئی فصل نہیں اگ سکتی ، علاوہ اس کے ان کے گھر خانوں میں تقسیم ہو گئے ہیں، مسلم ممالک ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں، بارہا ان کے مابین جنگیں بھی ہو چکی ہیں، ان کی قوت کا سر چشمہ صرف تیل ہے ، جس پر اہل مغرب ایک زمانے سے اپنی حکمت سے قابض ہیں ، اور اس طرح تمام مسلم ممالک مغرب کے زیر تسلط ہیں اور ان کے بینک ان ممالک کو مالیات فراہم کرتے ہیں-مشرق وسطیٰ مکمل طور پر مغرب کی گرفت میں قید ہے-امریکہ نے افغانستان سے اپنی مسلم مخالف جنگ کا آغاز کیا، پھر عراق منتقل ہو گیا اور اب شام یا ایران پر جنگ تھوپنے کی تیاری میں ہے-
دلت وائس میں ہم نے بارہا اس بات کو دہرایاہے کہ امریکہ صرف اپنے  نور نظر صہیونی اسرائیل کے تحفظ کی خاطر مختلف مسلم ممالک کے خلاف ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ چھیڑتا جا رہا ہے-
ٹرومان کی سپر اندازی:-
گو کہ اسرائیل بھی اس حقیقت کو خوب سمجھتاہے کہ وہ امریکی تعاون کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن اب تک امریکی انتظامیہ اپنی حماقت کے سبب اسرائیل کے مکمل قبضے میں ہے- اگر امریکی عوام اس صہیونی تسلط کے خلاف بر سر پیکار نہیں ہوتے ہیں تو یقینی طور پر امریکہ سیاسی و اقتصادی سطح پر دلدل میں ڈوب جائے گا- اس کے واضح اشارے دکھائی دینے لگے ہیں ، ہمارا یہ خدشہ نہایت واضح ہے-
ہمیں امریکہ کی عام پبلک سے کوئی شکایت نہیں، وہ سب کے سب بے گناہ ہیں، ساتھ ہی ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ کے پیش رو صدور اور ان کی انتظامیہ بے رحمی سے اقلیت قلیل یہود %۳ کو کچلتے رہے، پھر ان کے اس رویہ میں رفتہ رفتہ تبدیلی آتی گئی اور بالآخر صدر Trumanپورے طور پر صہیون کے سامنے سپر انداز ہو گئے-
امریکی مسیحیوں کو وارننگ:-
برطانیہ کو بہت پہلے سے صہیون  ہضم کیے ہوئے تھا، لیکن امریکہ شروع میں صہیون کا سخت ترین مخالف تھا، خود Truman بھی آخر آخر تک ان سے نبرد آزما رہا ،لیکن امریکی اقتصاد میں صہیون کی بڑھتی ہوئی طاقت، میڈیا اور سیاست نے آخر کار اس کو سپر انداز ہونے پر مجبور کر دیا- اقوام متحدہ بھی ہمیشہ صہیونیوں کی جیب میں رہا- امریکہ کی سیاسی قیادت خواہ ریپبلیکن پارٹی کی ہو یاڈیموکریٹک پارٹی کی، ہمیشہ صہیونیوں کے سکے پر قائم رہی ، جو امریکہ کے امیر ترین افراد تھے-
صہیونی سکہ اور میڈیا عظیم امریکہ کو جو مواقع کی سر زمین سمجھی جاتی ہے، بر باد کر رہے ہیں اور اس کے بے گناہ شہریوں اور اس کی پروٹسٹنٹ اکثریت کو تباہ کر رہے ہیں اور جب تک امریکہ کے سادہ لوح عیسائی (جن کو خطرے کا احساس بھی ہے اور جنہوں نے میرے حالیہ دورۂ امریکہ کے موقع پر اپنی بے چارگی و بے نصرتی کا اعتراف بھی کیا تھا) جو صہیونی جال میں الجھے ہوئے ہیں وہ خود ہی اپنے آپ کو آزاد کرنے کی جدو جہد نہیں کرتے، امریکہ کی تباہی کے تعلق سے ہمارے خدشات برقرار رہیں گے-
مسلمانوں سے پوپ کی معذرت:-
ہم نے اپنے سابق اداریے (Islam, Christianity reconciliation needed to  save world from sure Armageddon" D.V. Sep.16, 06)میں اس نکتے (صہیون سے خطرہ)  پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی، لیکن ہمیں امریکی عیسائیوں پر جن کی قیادت پھر سے ان کے مذہبی اداروں کے ہاتھ میں آرہی ہے، شعور کے کچھ بھی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں-
مسلمانو ں کی تنقید میں پوپ کی حالیہ تقریر جس کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج کیا او رکسی قدر پوپ نے ان سے معذرت بھی کی، نے بھی صاف طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وٹیکن ، یہود کی مٹھی میں ہے ،باوجود اس کے کہ ہر عیسائی کو یہ معلوم ہے کہ عیسی مسیح جو خود بھی ایک یہود ی تھے، کو قتل کرنے والے یہی یہود ہیں- ٹھیک اسی طرح جیسے انڈیا کی برہمنی قیادت پاگل ہو گئی ہے اور ہر رہ گزر کو دانت کاٹ رہی ہے، یہود قیادت نے بھی پاگل کتے کی حرکتیں کرنی شروع کر دیا ہے، اگر دنیا کو محفوظ رکھنا ہے تو اس پاگل کتے کو گولی مارنا پڑے گا،امریکہ کے پاس بندوق موجود ہے لیکن اس عمل کے لیے اسے ہمت کر کے گھوڑا دبانا ہوگا-ان سب باتوں سے بڑھ کر آج امریکہ میں دوسرا ایک بہت بڑا خطرہ در پیش ہے، وہ یہ کہ انجیل نویس مسیحی جو سب کہ سب صہیون موافق ہیں، ان کے بیشتر لیڈران نے اندر سے اپنے آپ کو یہودی بنا لیا ہے، پورا امریکہ انجیل نویسوں کی گرفت میں ہے، جو چرچ (کیتھولک خواہ  پروٹسٹنٹ ) کے مرکزی دھارے سے کٹے ہوئے ہیں، اس کامطلب یہ ہے کہ اپنی زندہ موت کے خلاف بغاوت کے لیے آج امریکی عیسائیوں سے بہت کم امید کی جا سکتی ہے- 
دنیا کی طویل ترین جنگ:-
 صہیونی امریکہ کی گردن پر اپنی گرفت مضبوط کیے رہیں گے اور جونہی وہ امریکہ کی تباہی کے آثار دیکھیں گے وہ اپنی دولت امریکہ سے باہر کہیں اور منتقل کردیں گے اور اس کے ساتھ ہی امریکہ آخری طور پر موت کے گھاٹ اتر جائے گا-
امریکی مفکر ین ، ماہرین تعلیم اور سیاست دانوں کے ساتھ ہم نے اس سریع الحرکتہ تباہی کے تعلق سے مذاکرے بھی کیے، سب نے ہماری رائے سے اتفاق کیا لیکن اس کے ساتھ ہی سب نے اپنی مجبوری کا عذر پیش کیا-
بلفظ دگر، ان معمولی ۳؍ فیصد امریکی کنٹرولر صہیونیوں کو دنیا کے واحد سپر پاور کو ہلا ک کرنے میں ذرا برابر بھی تامل نہیں ہے، جب کہ اسی کے تعاون سے انہوں نے اسرائیل کی صہیونی ریاست کی تشکیل کی-(عر بوں کی زمین پر جسے برطانیہ نے غصب کر کے یہود کو تحفہ دیا تھا) اور سینکڑوں عربوں کا خون بہایا اور اس طرح سے انہوں نے انسانوں کو ہلا ک کرنے والی دنیا کی طویل ترین تباہی کو جنم دیا جس نے خون مسلم سے دریا بہا دیے  -
(Alan Hart, Zionism, 2005 World Focus Publishing, Kent, England PP. 600 20£)
 اسامہ نہ مارا گیا، نہ پکڑا گیا:-
 صہیونی جو اپنے آپ کو دنیا کا سب سے زیادہ ذہین اور طرار سمجھتے ہیں ، انہوںنے خود ہی اس بات کا ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ وہ روئے زمین کے سب سے بڑے احمق ہیں- اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانو ںکے خلاف جنگ اور تشدد برپا کرنے کے لیے انہوں نے صدی بھر میں جو سازش کی تھی، وہ اب خود انہی کی قبر کھود رہی ہے اور صرف یہی نہیں، انہوں نے اپنی طاقت سے مشرق وسطیٰ کے لڑاکو مسلمانوں کو متحد ومستحکم کرنے میں مدد کی، بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی، ان کی خباثت اور جرائم نے مغرب کے سامنے ایک ایسی انقلابی قیادت برپا کر دی ہے، جس سے سارا مغرب لرزہ وخائف ہے- القاعدہ، ایران ، حزب اللہ، حماس وغیرہ اس قیاد ت کے مختلف نام ہیں-
گرچہ ۱۱/۹ کا سانحہ صہیونیوں کی ہی سازش کا نتیجہ تھا جس کا سارا الزام اسامہ بن لادن کے سر پر رکھ دیاگیا، لیکن ان کی یہ سازش ان کے لیے کچھ بھی مفید نہ ہو سکی، کتنی شرم کی بات ہے کہ اتنی جنگ ، تشدد افغانستان کی خاک چھاننے اور پاکستان کی تلاشی لینے کے باوجود نہ تو وہ اسامہ کو مار سکے اور نہ ہی گرفتار کر سکے- صہیونی اب بے حیائی کا مظاہرہ کر تے ہوئے اس کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اسامہ زندہ ہے اور ان کی حماقت پر خندہ زن ہے-
خود کش بم کی بازیافت:-
لیکن ان ساری باتوں سے بڑھ کر صہیونی قلم کار ہنٹنگ ٹان(Huntington)کا خاکہ بنایا ہو مغربی ’’تمدنی‘‘ جنگ ہے جس نے شیعوں اور سنیوں کے ما بین ، نہیں بلکہ عالم اسلام کے ما بین حیرت انگیز اتحاد قائم کر دیا ہے اور یہی نہیں، دبا کچلا اور ہر اساں عالم اسلام نے ایک نہایت ہی عجیب وغریب اور بھیانک ہتھیار ’’خود کش بم‘‘ کی باز یافت کر لی ہے جس کے سامنے ساری مغربی دنیا اور ان کے ظالم صہیونی کنٹرولر تھر تھر کانپ رہے ہیں-
لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انڈیا کی مسلم قیادت مغربی صہیون سے بھیانک ترین ’’ ہندوستان صہیون‘‘ سے نپٹنے کے لیے اپنے خود کش بم کی بازیافت میں ناکام کیوں ہے؟(DV July 16, 2005 P.27. "The Miracle of suicide bomber") خود مغربی میڈیا نے بھی جب یہ دریافت کیا کہ عرب کی گلیوں میں صہیون سے نفرت و بغاوت میں اکٹھا مسلمانوں کا انبوہ آپ سے آپ بڑھتا جا رہا ہے ،تو اس نے اس بے غبار حقیقت کا اعتراف کرنا شروع کر دیا-آج اس کے لیے "Resistance"(دفاع) کا لفظ استعمال کیا جا رہاہے جو ’’ جہاد‘‘ کا انگریزی ترجمہ ہے-دعوت جہاد نے مسلمانوں میں ایسی روح پھونک دی ہے ، ایسا ولولہ انگیز کر دیا ہے جس سے مصر، سعودی عرب، ار دن وغیرہ میں مغرب کی مسلط کردہ بد عنوان شہنشاہیت کا نپنے لگی ہے، امریکہ مسلم ممالک میں جمہوریت لانے کی بات کرتا ہے لیکن فی الواقع وہ مسلمانوں کی خود سر ترین شہنشاہیت کو سپورٹ کر رہا ہے-
امریکہ کا نشانہ اسلام کی تباہی:-
بہر کیف! ایرانی صدر احمدی نژاد اور حز ب اللہ کے صدر حسن نصر اللہ آج مسلم عوام کے ہیرو بن گئے ہیں اور امریکی پٹھوئوں کو ابھی نفرتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اب مسلم عوام یہ سمجھ چکے ہیں کہ مسلم ممالک پر صہیونیوں کی تھوپی ہوئی امریکی جنگ ’’ مسلم دہشت گردوں ‘‘ سے لڑنے کے لیے نہیں ہے اور نہ اس کا مقصد جمہوریت قائم کرنا ہے، ان کا مقصد مسلمانوں کو تقسیم کر کے مسلم دنیا پر حکومت کرنا ہے تاکہ وہ تیل پر اپنا قبضہ جما سکیں، مسلمانوں پر مغربی تہذیب کو مسلط کر دیں، پہلے مسلم عورتوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھائیں اور پھر مسلم سماج کو ہی اکھاڑ پھینکیں - اس عمل کا آخری نشانہ اسلام کا خاتمہ ہے- بہت سے مغربی اہل قلم بھی اس راز نہاں کا برملا اظہار کرنے لگے ہیں-
’’تہذیبی تصادم کا مطلب ہے اسلام کی بنیادیں کھودنا اور پھر مسلمانوں کو مغلوب کر دینا، اس کا دوسرا قدم افریقیوں کو غلام بنانا ہے اور ’’ہندوستانی یہود‘‘ کی مدد سے ہندوستانی دلتوں کو غلام بنانا ہے، (یہ کام نہایت برق رفتاری سے ہو رہا ہے) اورآخر میں زر دفاموں (چینی) پر حملہ کرنا ہے، یہود کے ان تمام ظالمانہ رویوں سے نجات پانے کے لیے مسلمانوں، سیاہ فاموں، بھوروں اور زرد فاموں کو ہاتھ ملانا ہوگا تاکہ وہ اپنے مشترکہ دشمن سے لڑ سکیں-‘‘ 
یہی وجہ ہے کہ نفرت کا دھندا کرنے والے صہیونی اور ان کے سفید مسیحی متبعین مسلمانوں کے خلاف اپنی احمقانہ جنگ میںبالآخر شکست کھا گئے-اس کی ایک واضح مثال دیکھیے کہ ٹونی بلیر بہ آسانی کوفی عنان کی جگہ لے سکتے تھے اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بن سکتے تھے، کیوں کہ خود ان کی اپنی حیثیت تھی ، اپنی پہچان تھی ، لیکن اپنے صہیونی آقائوں کی آواز پر رقص کرنے کے سبب نہ صرف انہوں نے اپنا وقار کھو دیا بلکہ انہیں بے پناہ ذلت ورسوائی بھی اٹھانی پڑی-
بھاسما سور:-
صدر کلنٹن کی تقدیر نے انہیں بھی وہیں پہنچایا اور وہ یہودی دوشیزہ مونیکا لیونسکی(Monica Lewinsky)کے ساتھ سیکس اسکینڈل معاملے سے بذلت تمام نجات پائے- نکسن واٹر گیٹ معاملے میں گرفتار تھے، انڈیا میں بھی ہمارے سامنے وہی منظر ہے-’’ہندوستانی یہود‘‘ (انڈیا کے ۳؍فی صدبرہمنی حکمراں) ملک کی قیادت کا استعمال کرتے ہیں اور پھر اسے پامال کر ڈالتے ہیں، یہود کی پر فریب سازشیں پروٹوکول نامی ان کی پر اسرار کتاب میں لکھی ہوئی ہیں Zionist Arthashastra)۵۰ ؍روپے میں دلت وائس کے دفتر سے حاصل کی جا سکتی ہے-) اور’’ ہندوستانی یہود‘‘ کی سازشیں چانکیہ کے ارتھ شاستر میں موجود ہیں-(R. Shamasastry, 1988, Padma Printers, Mysore-24
یہود اور ’’ ہندوستانی یہود‘‘ دونوں پران کے فرضی کردار بھاسماسور کی طرح ہیں، یہ کردار مرغ اور بیل کی داستان سے وابستہ ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ جس کسی کے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دیتا وہ جل کر خاکستر ہو جاتا، صہیونی بھاسماسور نے بلیر کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا اور وہ تباہ ہو گیا، بش ¾ مر چکا ہے ، ابھی مسز کلنٹن اسی لیے دلہن بنی ہیں تاکہ مسٹر کلنٹن کا بھی وہی حشر ہو -
انڈیا کی بھی یہی صورت حال ہے، جو کوئی برہمنی بھاسما سور سے مَس ہو تا ہے وہ جل کر خاکستر ہو جاتا ہے- جار ج فرنانڈیز کی حالت دیکھ لیجیے! (DV Nov.1, 2006 P.8: "Noose tightening round George Fernandes' neck.)وزیر اعظم منموہن سنگھ اپنی باری کے انتظار میں ہیں، کھتری سکھ استعمال کر لیے جانے کے بعد مکمل طور پر کنارے لگا دیا جائے گا-
منتخب لوگوں کی مقتدرانہ بر تریت:-
انڈیا کے ۳؍فیصد برہمنی حکمراں ’’ہندوستانی یہود‘‘ ہیں، جب سے سادہ لوح دراوڑوں کی تاریخی زمین پر انہوں نے اپنے قدم جمائے ہیں، یہاں پر انہوں نے بھی بعینہٖ وہی صورت حال پیدا کر دی ہے جو یہود یورپ، امریکہ اور بالآخر فلسطین میں پیدا کیے ہوئے ہیں- دونو ںکا طریقہ تقسیم ، فریب اور تباہی ہے-
ان کا ہتھیار ذہن سازی، مکر، دھوکہ ، غداری اور نفرت انگیزی ہے جو خون، پسینہ اور آنسو کی ندیاں بہانے کا باعث بنتاہے اور بالآخر اس کا نتیجہ تباہی ہوتا ہے ، جس پر منتخب لوگوں کی مقتدار نسلی برتریت کی تاسیس ہوتی ہے - ہم نے اپنی کتاب برہمن از م(V.T. Rajshekar, Dalit Sahitya Akademy, 2002, Rs. 50)کے اندرونی کو ر پیج سواستیکا (برہمن ازم کا مذہبی نشان) کی تصویر اس کے دوسرے چاروں اجزاء نازی ازم، فاشزم، ریشیزم اور زیونیزم کے ساتھ شائع کی تھی- تیسری ترمیم شدہ اشاعت(۲۰۰۲ء) کے بعد بر صغیر ہند میں برہمنیت کے مظالم اور روس، مغرب، مغربی ایشاء اور افریقہ میں صہیونیت کی سفاکیت کی بے شمار شہادتیں مل چکی ہیں -
گاندھی کے قاتل:-
صہیون کا مجرمانہ کردار سب سے پہلے حضرت عیسیٰ مسیح کے قتل کے ساتھ سامنے آیا، یہ خود یہودیوں کی ہاتھوں ایک یہودی کا قتل تھا ، لیکن انڈیا پر برہمنی حملہ کا آغاز ہندوستان کی عظیم الشان گنگا جمنی تہذیب کی تباہی کے ساتھ اس کے مقابل دوسری تہذیب کے قیام سے ہوتا ہے- اس کے بعد انہوں نے بدھ مت پر ہلہ بولا اور ہندوستان سے اس کا صفایا کر دیا- اس کے ساتھ ہی ۳؍ فیصد برہمنوں نے (جن کی آبادی آج بھی اسی رفتار و انداز سے بڑھ رہی ہے) پورے ہندوستان پر اپنا مکمل تسلط قائم کر لیا- اس کے بعد ہندوستان پران کا اقتدار مستقل قائم رہا، انہوں نے ایم کے گاندھی کو استعمال کر کے ہندوستان کو تقسیم کرایا اور مسلمانوں کو ایک علاحدہ خطے(پاکستان) میں پیک کر دیا-
جب ان کا کام ہو گیا اور ایک برہمن وزیر اعظم (جواہر لال نہرو) نے انڈیا کی باگ ڈور سنبھال لی توانہوں نے گاندھی سے خود کو نجات دے دی-(V.T. Rajshkar, Why Godse killed Gandhi? DSA-1997)تقسیم ہند (۱۹۴۷ء) کے بعد فوراً ہی انہوں نے ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کھڑا کر دیا، جس کا مقصد مسلمانوں کو ہندوستان کا مستقل دشمن کی شکل میں پیش کرنا تھا- پچھلے ۶۰؍سالوں میں آرین برہمنی حکمرانوں کو ہندوستان کے غیر ہندو ، اصلی باشندوں کو—جنہیں درج فہرست ذات ، درج فہرست قبائل اور پسماندہ طبقات کہا جاتا ہے—ہندوبنانے (غلام بنانے) کی اپنی کوشش میں نمایاں کامیابی ملی ہے، جس کے نتیجے میں انہوں نے انڈیا کو مستقل میدان جنگ بنا دیا ہے جس میں ’’ ہندوستانی‘‘ اور مسلمان (انڈیا میں پاکستان سے زائد مسلمان ہیں ) ان کی زیر قیادت مستقل نبرد آزما ہیں-
امریکہ کو لا مسیحیا نے کی سعی:-
برہمن ازم رفتہ رفتہ کمزور ہوجاتا اگر اس نے انڈیا کو کمزور نہیں کر دیا ہوتا اور اسے ایک ناکام ریاست نہ بنا دیا ہوتا -(V.T. Rajshekar, India As a failed state, DSA-2004, Rs. 10)آرین برہمن ہندوستان کے حکمراں بن جاتے تو ہیں لیکن انہوں نے کبھی اس سے محبت نہیں کی، کیوںکہ وہ انڈیا کے باشندے نہیں ہیں- یہی وجہ ہے کہ انہیں انڈیا کے عوام کی صحت و خوشی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے- بلاشبہ وہ عوام کا استحصال کر کے دولت مند اور حکمراں بنے ہوئے ہیں- بہ الفاظ دیگر انہوں نے انڈیا کے عوام کی صحت و خوشی تباہ کر کے انڈیا کو تباہ کر ڈالا ہے-
یہود امریکہ میں بعینہٖ یہی سب کچھ کر رہے ہیں-Henry Fordکی کتاب ’’ بین الاقوامی یہود‘‘ (Ford Co., USA)کا مطالعہ کیجیے جس میں اس نے بتایا ہے کہ کس طرح منظم طریقے سے  یہود نے امریکہ کی جڑیں کھو دی ہیں، اس کے سیاہ فام باشندوں کو غلام بنایا ہے اور ایک مسیحی ریاست کو اندر سے لا مسیحی بنا دیا ہے-
دلت وائس یا اپنی کتابوں میں ہم نے جو پیشین گوئیاں کی ہیں ان میں کوئی ایک بات بھی غلط ثابت نہیں ہوئی ہے- تصدیق کے لیے سارے ریکارڈ برائے مطالعہ ہمارے پاس موجود ہیں-مشرق وسطیٰ پر صہیونی زیر قیادت امریکی حملہ اور انڈیا پر برہمنی جارحیت کے مابین ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ مغربی ایشیا کے تمام مسلمان نہ صرف اپنے شیعہ سنی اختلافات بھلا چکے ہیں ،بلکہ انہوں نے خانہ جنگی میں مبتلا اپنے حکمرانوں کو بھی کنارے لگا دیا ہے اور اپنے مشترکہ دشمن سے لڑنے کے لیے ’’ فرد واحد‘‘ کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے ہیں-
لیکن یہ بات انڈیا کے اندر نہیں ہو سکی ہے ، انڈیا کے ۲۰؍ فیصد غلام درج فہرست ذات (اچھوت ) ۱۰؍فیصد درج فہرست قبائل اور ۳۵؍فیصد دوسرے پسماندہ طبقات جو کل ۶۵؍فیصد ہوتے ہیں، انہیں باہم دیگر برسر پیکار کر کے زبردست طریقے سے ہندوا(غلام بنا ) دیا گیا ہے -ذات پات کے نظام ، جو ہند وازم (برہمن ازم کا جدید نام) کا دوسرا نام ہے، کا اہم کردار پھوٹ ڈالنا اور حکومت کرنا ہے-علاوہ ازیں انڈیا کے اندر ۱۵؍فیصد مسلمان ہیں، جبکہ مسیحی اور سکھ میں سے ہر ایک 2½ فیصد ہیں-اس تاریخی ملک کومیدان جنگ میں تبدیل کر کے برہمن از م کے ستائے ہوئے ۸۵؍فیصد ان سبھی ہندوستانیوں کو ایک دوسرے سے لڑا دیا گیا ہے- اور یہ جنگ مستقل جاری ہے-
برہمن یہود سے فائق:-
یہود نے اپنے مستقل تشدد اور جنگ سے اپنے مظلوموں (مسلمانوں) کو متحد کر دیا لیکن’’ہندوستانی یہود‘‘ اپنے مظلوموں کو مزید تقسیم در تقسیم کرتے، کمزور اور غلام بناتے جا رہے ہیں- بہ الفاظ دیگر ’’ہندوستانی یہود‘‘ نے خود کو زیادہ مہلک اور خطرناک ثابت کردیا ہے، سوال یہ ہے کہ انہوں نے ایسا کس طرح کیا؟انہوں نے یہود کی طرح کوئی تلاطم پیدا نہیں کیا، برہمنی حکمراں صرف مسلمانوں پر بے رحم تھے اور انہوں نے ان کی قابل ذکر تعداد کو پاکستان میں بھر دیا،ہندوستان کی سر حد پر ایک مسلم ریاست کے قیام نے ان حکمرانوں کے لیے مزید آسانی فراہم کر دی-چوںکہ اب ان کے ہاتھ مستقل طور سے قربانی کا بکرا ہاتھ لگ گیا تھا-
 برہمنی حکمرانوں نے اپنے خالص اجارہ میڈیا کے تعاون سے بہ آسانی ایسی صورت حال پیدا کر دی جس سے تشدد کی بھیانک آگ بھڑک اٹھی اور پھر شک کی سوئی پاکستان کی طرف اٹھا دی اور ۶۵ فیصد ہند وائے ہوئے درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات کو اس بات کا یقین دلادیا گیا کہ ان کی ساری مصیبتیں دہشت گرد پاکستان اور اس کے ہندوستانی ایجنٹ (مسلمانوں) کے سبب ہیں-اخبار میں ایک بار خبر چھپ جاتی ہے، رائے عامہ ہموار ہو جاتی ہے اور پھر مسلمانو ںکو نہایت بے رحمی کی سزائیں جھیلنی پڑتی ہیں، سالہا سال سے بغیر کسی مقدمہ کے ہزاروں مسلمان ہندوستانی جیلوں میں سڑ رہے ہیں-
(DV Sept.16, 2006 P.16: "Reckless arrest of Muslims")
ہندو شراب غلاموں کو خوابیدہ کر رہی ہے:-
مسلمانوں کے مقابل درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات سے از راہ تشدد نہیں نپٹا گیا، چوںکہ وہاں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی، ہندو ازم خود ایک ایسی عجیب وغریب شراب ہے، جس نے ہندو انے (غلام بنانے) کے ذریعے ان ۶۵؍فیصد اصلی ہندوستانیوں کے حواس گم کر دیے ہیں -وہ غلام جو اپنی غلامی میں ہی مگن ہو اس کو قائل کرنے کے لیے بھلا ہتھیار کی ضرورت ہی کیا ہے؟اس طرح برہمنیت ۱۵؍فیصد مسلمانوں اور ۶۵؍فیصد درج فہرست ذات، قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات کو قائل کرنے کے لیے دو الگ الگ ہتھیار استعمال کرتی ہے اور پھر انڈیا پر اپنی پر امن حکومت کو "rising world super power"سے متعارف کراتی ہے-
مرغ و بیل کی داستان کی طرح یقینی بنائے ہوئے ’’ درخشاں ہندوستان‘‘ کا یہ فسانہ مغربی یہودی میڈیا میں وسیع پیمانے پر شائع کیا جارہا ہے اور اب دنیا اس لعنتی جھوٹ پر یقین بھی کرنے لگی ہے-
ہندوستانی یہود زیادہ خطرناک:-
اس کے معنی یہ ہیں کہ یہود کے مقابل ’’ ہندوستانی یہود‘‘ نے اپنے آپ کو زیادہ مہلک اور زیادہ بھیانک ثابت کر دیا ہے- ہم یہود کی سازش اور ان کے نور نظر اسرائیل  کے خاتمہ کے آثار دیکھ سکتے ہیں، لیکن انڈیا کا جو سرنگ ہے ،اس کی انتہا کے آثار کچھ بھی نہیں دکھ رہے ہیں- یہاں گھٹا ٹوپ تاریکی ہے جس میں بر صغیر ہند کے ۱؍ ارب ۲۰؍ کروڑ غلام اپنی غلامی میں مگن ہیں-
اب مشرق وسطی کی طرف آئیے، صہیون کے حکم پر امریکہ کی یکے بعد دیگرے حماقتوں نے اسلام کو سب سے نمایاں کر دیا ہے- ایران ایک شیعہ ریاست ہے جبکہ شیعہ، دنیا کی مسلم آبادی ۱؍ ارب ۳۰؍ کروڑ کے صرف ۱۵؍فیصد ہیں- صہیون کی نفرت انگیزی نے سنیوں کو بھی آیت اللہ خمینی کے زیر اثر پروان چڑھنے والی شیعی قیادت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار کر دیا ہے- خمینی نے حال ہی میں دنیا کو ہلا کر رکھ دیا جب وہ تہران میں عوامی مجمع میں بندوق لہراتے اور فراٹے دار عربی بولتے ہوئے ظاہر ہوئے اور’’ شیطان اعظم‘‘ (امریکہ) پر اوچھے حملے کیے-
ایسا لگتا ہے کہ اسلام کی شاخیں سنی اور شیعہ کے مابین قدیم شگاف اب بھر رہا ہے، سنی مذہبی عالمی قیادت کی دعویدار امریکی زیر اقتدار سعودی عربیہ ایک تل چٹا ریاست دم توڑ رہی ہے، دنیا میں ڈرامائی  تبدیلیاں ظہور پذیر ہیں-
ترکی اسلامی شاہ راہ پر واپس:-
امریکی غلطیوں اور صہیونی شرار توں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ آج پوری عالمی مسلم قیادت متحد ہو چکی ہے- امریکہ کے تیار کردہ ’’ اعتدال پسند مسلمان‘‘ کہے جانے والے سب نزاع کے عالم میں ہیں اور بہتوں نے تو دم توڑ دیے ہیں-
پوری دنیا کے لیے، بطور خاص مسلم دنیا کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے ترکی مغرب کے گرفت سے آزاد ہوگئی ہے- ترکی ناول نگار Orhan Pamukجو ترکی پر تنقید کے ترک کی نظر میں ذلیل و رسوا ہوا، اسے صہیون کی زیر اثر قائم نوبل پرائز کمیٹی ادب کا نوبل پرائز دے کر ممکن ہے خوش ہو اور Pamukمسلمانوں کے خلاف اپنے نفرت انگیزی کے فن سے نوبل پرائز حاصل کر لیا ہو، لیکن در حقیقت یہ واقعہ  مسلمانوں کو یہ باورکرانے میں معاون ثابت ہوا ہے کہ نوبل کمیٹی صہیونیوں کی ایک دوسری سیاست ہے-
بنگلا دیش کی نیلامی:-
پھر ایک دوسرے برائے نام مسلمان محمد یونس کو نوبل امن پرائز دے کر یہود اور ’’ہندوستانی یہود‘‘ نے اسلامی ریاست بنگلا دیش کو تباہ کرنے کی سازشیں رچی ہیں، ایک بنگالی برہمن دابابار اٹا بھٹا چاریہ صدرCentre for Policy Dialogue in Dhaka (CPD)یونس کو سیاست میں کھینچنے اور ملک کے اسلامی کردار کو تباہ کرنے کی کوشش میں ہے، اسے خوش قسمتی کہیے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں نےCPDکی سازش کو بے نقاب کر دیا ہے، بنگلادیش جو پاکستان کو کمزور کرنے کی برہمنی سازش کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے، اس کی جڑیں کھو د نے کی تیاریاں جا ری ہیں-
مشرف مغرب کو بیو قوف بنا رہے ہیں:-
بہر کیف!پاکستانی صد پرویز مشرف اپنے آپ کو’’ اسلامی دہشت گردی‘‘ کے سب سے بڑے مخالف کی شکل میں ظاہر کر کے ایک نہایت حیرت انگیز گیم کھیل رہے ہیں ، جہاں وہ ایک طرف امریکی گائے کے تھن سے دودھ نکال رہے ہیں وہیں اسی وقت پس پردہ القاعدہ کو مکمل تحفظ فراہم کر رہے ہیں- ان کی خارجہ پالیسی بھی عجیب ہے، جس طرح چین کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم ہیں، اسی طرح امریکہ اور ایران سمیت تمام مسلم ممالک کے ساتھ بھی ہیں- ان کی اعلیٰ تدبیریں اور سیاستیں برہمنی انڈیا کے مقابل ممتازونمایاںہیں،انڈیانے اپنے سارے انڈے ایک تھیلے(امریکہ)میں ڈال کر اپنے آپ کو مصیبت میں مبتلا کر لیا ہے، چین اور قرب و جوار کے دوسرے سارے ممالک کو اپنا مخالف بنا لیا ہے، یہاں تک کہ دنیا کا واحد ہندو ملک نیپال کو بھی ’’ ہندو انڈیا‘‘ پر اعتماد نہیں رہا ہے-
منموہن سرکار تباہ کن ہے:-
دریں اثنا برہمنیت انڈیا کو نچوڑ کر خشک کرتی جا رہی ہے اور انڈیا کے ۱۵؍ فیصد آرین رائے دہندگان انڈیا کے امیر ترین افراد بن گئے ہیں-مغرب میں بطور خاص میڈیا ،فائنانس اور ٹکنالوجی کے میدان میںبہتر پوزیشن حاصل کر لینے اور صہیونیوں کے ساتھ گہرے اشتراک عمل ہونے کے سبب وہ انڈیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے پر قادر ہیں- وزیر اعظم منموہن سنگھ جو ایک اعلیٰ ذاتی کھتری سکھ ہیں، وہ خود بھی انڈیا کو برباد کرنے کے لیے برہمنی ڈھول بجانے میں مصروف ہیں- دلت وائس میں ہم نے اس نام زد ورلڈ بینک کی غارت گری کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے ،عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے سارے جھوٹ اور مبالغہ آمیز افسانوں کے بیج میڈیا میں بو دیے گئے ہیں-
(DV Nov. 1, 2006 P.6:DV expresses no confidence in PM: His only worry is urban rich")
منموہن سنگھ کی حکومت ویدک باجپائی زیر قیادت ہندونازی دہشت گرد پارٹی کی پانچ سالہ حکومت سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوئی- ایسے عالم میں جب کہ جار ج بش ڈوب رہے ہیں، مسلم دنیا اوپر آر ہی ہے، چین تیزی سے عالمی طاقت بنتا جا رہا ہے، انڈیا خارجی مسلم دنیا اور داخلی مسلمانوں(جن کی آبادی انڈونیشیا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے) کی نظر میں قابل نفرت بنتا جا رہے ہے-ہندوستان کے ۸۵ فیصد محکوم عوام کو چاہیے کہ وہ کسی مناسب موقع کا انتظار کر یں اور جب ۱۵؍فیصد حکمراں برہمن طبقہ بے نقاب ہو جائے تو وہ میدان میں آ جائیں ، چین اور مسلم دنیا کبھی بھی برہمنی غداریوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے-
منووادی مائونوازوں کا عروج:-
لیکن ہمیں ایک خطرہ ہے، ایسا لگتا ہے کہ برہمنی طاقتیں برہمنی قیادت میں پروان چڑھنے والے نکسلیوں کے توسط سے ایک بار پھر ہمیں شکست دینے والی ہیں، برہمن اپنی نقلی مائو وادی حکومت کا شکنجہ کستے جا رہے ہیں اور اس طرح پھر وہ نہیں چاہتے کہ ہم اپنا سر اٹھا سکیں-
(DV Oct. 16, 2006 P. 5:"Naxalism gets complicated with R.S.S. & big business infiltration")
امریکی اساس بین الاقوامی تحریک مائونواز(Maoist International Movement, MIM)برہمنی منصوبہ بندیوں سے مکمل واقف ہے، ایک بار جونہی برہمن پرا چند حکومت نیپال سے جڑ گیا(یہ دن اب دور نہیں ہے) وہ ہفت احزابی سیاسی اتحاد کو توڑنے کے لیے فوراً اپنی طبعی مائو نواز طاقت کا استعمال کر ے گا اور نیپال پر اپنا برہمنی ڈکٹیٹر شپ قائم کر لے گا اور اس کے ساتھ ہی نیپال کا یہ شعلہ جوالہ پرا چند برہمنی صہیونی مقبوضہ میڈیا کے ذریعے پوری دنیا پر چھا جائے گا-
چین نیپالی مائو نوازوں کے خلاف:-
لیکن حسن اتفاق سے چین پرا چند کی مائونواز پارٹی جو امریکہ و صہیون کی حلیف ہے، کا سپورٹ نہیں کر رہا ہے، یہی مائونواز پارٹی ہندوستان میں بھی ہے ، جس کی قیادت کی باگ ڈور برہمنی ہاتھوں میں ہے اور جو غریب، سادہ، فاقہ کش قبائل ، دلت اور پسماندہ طبقات کو اپنے تو پوں کا چارہ کے طور پر استعمال کرتی ہے-
چوںکہ میڈیا پر مکمل طور سے ہمارے دشمنوں کاتسلط ہے، انہوں نے باضابطہ پراچند کی شخصیت کو پر کشش اور سحر طرا ز بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے اور وہ اس دن کے انتظار میں ہیں جب وہ نیپال کا مطلق العنان حکمراں بن کر سامنے آئے گا- لیکن یقینی طور پر نیپال کے دلت اور دوسرے محکوم طبقات پرا چند اور اس کے اس گروہ سے نفرت کرتے ہیں جسے ہمارے لوگوں سے ہی نفری فراہم کر ائی جاتی ہے-
دلت وائس کبھی غلط نہیں کہتا:-
ایک بار اگر اس نے نیپال پر اقتدار حاصل کر لیا( جس کے آثار نمایاں ہیں) ہندوبیرون ہند ہر جگہ میڈیا ’’ انقلاب پرچند‘‘ کا گیت گانا شروع کر دے گا اور ہندو نازی آر ایس ایس دہشت گرد جو چھتیس گڑھ کے سلوا جودوم اور آندھرا پردیش اور دیگر مقامات کےPWGمیں سرایت کیے ہوئے ہیں، حرکت میں آجائیں گے- اعلیٰ ذاتوں کے زیر اثر قائم محکمۂ پویس،نوکر شاہی اور عدلیہ سب ایک قطار میں لگ جائیں گے اور برہمنوں کے ٹوائلیٹ پیپر بھی پرا چند کو شیر بنا کر پیش کریں گے-
پرا چند کی بھڑکائی ہوئی آگ جو ہمالیہ میں جلنی شروع ہو گئی ہے بہ آسانی گنگا کی وادیوں میں پھیل جائے گی، پھر اس کے شعلے جنوب کی طرف بڑ ھ جائیں گے- ایک پانچواں ہندوستان منووادی نکسلی انقلاب کے زیر سایہ پروان چڑھ رہا ہے-ہماری یہ تشویش غلط نہیں ہو سکتی-کیوں کہ دلت وائس کی کوئی پیشین گوئی کبھی غلط ثابت نہیں ہو سکی ہے-اس طرح کی بلا ے ناگہانی کو رد کرنے کے لیے چینی مائو نوازوں اور اس سے باہر کے بین الاقوامی مائو قوتوں کو بر وقت اقدام کرنا ہوگا -   انڈیا کے برہمن حکمرانوں کی کوئی مستقل پارٹی نہیں ہے، ان کی نظر بس دائمی مفاد پر ہوتی ہے، ابھی ماضی قریب میں یہی برہمن سرخ انقلاب کی قیادت کر رہے تھے-(V.T. Rajshkar, How Marx failed in Hindu India, DSA-1988)لیکن جب ’’طبقاتی کوشش‘‘ کا تجربہ ملک کے محکوم دلتوں اور مسلمانوں کے ساتھ کامیاب نہیں ہوا تو انہوں نے ’’ہندو توا‘‘ کا علم اٹھا لیا ، دلتوں اور پسماندہ طبقات کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا دیا اور ہندو مسلم مذہبی تنازع کھڑا کر دیا- 
ہندوستانی عوام نے ہندو دہشت گرد پارٹی بی جے پی کو پچھلے الیکشن میں مسترد کر دیا، ایسے وقت میں جب کہ برہمنی حکمراں شدید دل گرفتہ ہیں، نیپال میں پرا چند کا بھڑکایا ہوا شعلہ ان کے لیے امید کی نئی روشنی ہے- برہمنوںکو جس دن یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ مائوازم ان کی برتریت کو یقینی بنانے والا ہے ،وہ اسی رات سرخ رنگ اختیار کر لیں گے اور مائو کے نغمے گنگنانا شروع کر دیں گے-
اس صورت حال کے پیش نظر انڈیا کے درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات (۶۵ فیصد) مسلمان،مسیحی اور سکھ(۲۰فیصد) سب(۸۵ فیصد) کو اپنے مسائل کے مستقل حل کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور اس کے لیے بیرون ملک کی ترقیوں کا گہرا مطالعہ اور اندرون ملک کی ضرورتوں کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے- اور وہ لوگ جو مغرب اور مشرق وسطی میں صہیونیت سے نبرد آزما ہیں انہیں برہمنیت کا بھی گہرا مطالعہ کرنا چاہیے ، جس کی ریشہ دوانیاں عالمی سطح پر پھیل چکی ہیں- صہیونیت کی رسوائی عالمی شہرت حاصل کر چکی ہے، لیکن برہمنیت جو اس کے مقابل زیادہ خطرناک ہے،اب تک گاندھیائی عدم تشدد، جمہوریت اور انصاف کے لبادے اور دوسرے پر فریب پردوں میں چھپی ہوئی ہے جس کی وجہ سے دنیا کے طرار مفکرین کو بھی غلط فہمی لاحق ہے-
ہندوستان کی برہمنیت اور مغرب کی صہیونیت ناموں کے اختلاف کے ساتھ معناً ایک ہی ہیں بلکہ ان کامطمح نظر بھی ایک ہے، ’’منتخب افراد‘‘ کی نسلی برتریت کا قیام، جس کے لیے دونوں سر د خونی آتنک، ذہن سازی ، مکر و فریب، غداری، نفرت ، خون، پسینہ ،آنسو، موت، تباہی، ہر چیز ہر طرح سے استعمال کرتے ہیں- اس لیے ہم مشترکہ منصوبہ بندی کی گزارش کرتے ہیں-
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔