Wednesday 24 January 2018

آیات جہاد کی صوفیانہ تفسیر: ایک جائزہ

0 comments
آیات جہاد کی صوفیانہ تفسیر: ایک جائزہ
از قلم: حسن سعید صفوی
--------------------------------------------------------------------
تصوف ،اسلام سے الگ کسی Ism فکر یا مذہب و مسلک کا نام نہیں ہے-اسلامی تعلیمات میں خلق وخالق کے مابین جس تعلق کو بیان کیا گیا گیا ہے اسی کو اپنانے اور اسی سے مزین ہو نے کا نام تصوف ہے-صوفیائے کرام کی تصوف کے تعلق سے مختلف تعبیرات و تشریحات آپس میں متصادم و مخالف نہیں بلکہ وہ تعریفیں آپس میں ایک دوسرے کی مفسر و شارح ہیں-مختلف زاویۂ نگاہ سے الگ الگ تعریفوں کو جامعیت سے منسوب کیا جا سکتا ہے-
’’عوارف شریف‘‘ میں شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی قدس اللہ سرہ (ف:۶۳۲ھ) بعض صوفیہ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: التصوف ھو الخُلقُ مع الخَلق و الصِّدقُ مَع الحَقِّ. تصوف نام ہے دوپہلوؤں کے راست واستوار کرنے کا-ایک پہلو کا تعلق خلق خدا سے ہے، جس میں اخلاق حسنہ سے متصف ہونے کی حاجت ہے اور دوسرے پہلو کا تعلق خالق ارض و سما سے ہے ،جس میں صدق و اخلاص سے مزین ہونا ضروری ہے- (عوارف المعارف ۲/۵۹)
یہی حقیقی اسلام ہے، سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے پر ہمیں یہی اسلام نظر آتا ہے، جس کی طرف خلق خداکو دعوت دی گئی ہےاور اسی کی تبلیغ و اشاعت میں صوفیہ ہمیشہ سرگرم رہے- انہوں نےخلق کے ساتھ حُسن اخلاق اور خالق کے ساتھ صدق واخلاص کو خود اپنے وجود میں اور دوسروں کےاندر پیداکرنے کی انتہائی جدو جہد اور محنت و کوشش کو جہاد کا نام دیا- جہاد کے صحیح مفہوم کو سمجھنے کے لیے لغت اور اہل لغت کا بھی عندیہ معلوم ہونا چاہیے، اس کے بعد محققین صوفیہ کے آرا کو ذکر کیا جائے گا-
مفہوم ’’جہاد ‘‘لغت میں:-
لفظ ’’جہاد‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے-لغت عرب میں اس کا مفہوم صرف ’’کوشش، انتہائی کوشش، سعی بلیغ ،جدوجہد‘‘ وغیرہ ہے،یا انگریزی میںStruggle کا لفظ آتاہے -
جَھَدَ(ن) :جَدَّ و تَعِب کوشش کرنا اور تھک کرچور ہونا کے معنی میں ہے-
جَاھَدَ مُجَاھَدَۃً وَجِھَادًا: بَذَلَ وُسْعَہ پوری کوشش صرف کردینے کے معنی میں ہے-
قرآن مجید سے مثال دیتے ہوئے صاحب المنجد لکھتے ہیں: ومِن القرآن: ’’وجَاھِدُ وا فِی اللہِ حَقَّ جِھَادِہ‘‘ (اللہ کی راہ میں پوری کوشش سے لگو جیساکہ کوشش کا حق ہے-)
یُقَال: بَذَل جُھْدَہ: پوری قوت صرف کردی /پوری کوشش کی-
مذکورہ تصریح سے واضح ہوتاہے کہ جہاد کے لغوی مفہوم میں مبالغہ کا عنصر شامل ہے- لغت عرب میں کہاجاتا ہے: جَھَد الرَّجُلُ فِی کَذا، أی جَدَّ فِیہ وَبَالَغ.(اس شخص نے معاملے میں بھر پور کوشش کی)
جہاد کا اصطلاحی مفہوم:- 
اصطلاح شرع میں یہ لفظ کچھ قیود کے ساتھ اپنے اصل لغوی مفہوم میں ہی آیا ہے ،یعنی ایسی جد و جہد جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کی رضا وخوشنودی کی خاطر کی جائے، جہاد ہے-جہاد یا مجاہدہ کا قرآنی مفہوم بیان کرتے ہوئے علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: الجِھَادُ وَالمُجَاھَدَۃُ :اسْتِفْرَاغُ الوُسْعِ فِی مُدَافَعَۃِ العَدُوِّ. دشمن کو دور کرنے میں پوری قوت صرف کردینا- (مفردات القرآن)
مذکورہ تعریف کی روشنی میں چند آیات کریمہ ملاحظہ ہوں:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وجاھدوا فی اللہ حق جہادہ (حج:۷۸)اللہ کی راہ میں جہاد (کوشش) کرو جیسا کہ اس جہاد کا حق ہے-
اس کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر(ف ۷۷۴ھ) فرماتے ہیں: أی بأموالکم وألسنتکم وأنفسکم یعنی اپنے مال سے ،زبان سے اور اپنی جان سے-(۳/۲۸۸) 
امام بغوی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
قال الضحاک ومقاتل: اعملوا للہ حقَّ عملہ ،واعبدوہ حقَّ عبادتہ
  (معالم التنزیل للبغوی، ۵/۴۰۲) 
ضحاک اور مقاتل فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے لیےایسا عمل کرو جیسا کہ عمل کرنے کا حق ہے اور اس کی ایسی عبادت کرو جیسا عبادت کا حق ہے -
مزید فرماتے ہیں: 
قال عبد اللہ بن المبارک: ھو مجاھدۃ النفس والھوی، وھو الجھاد الأکبر، وھو حقُّ الجہاد ،وقَد رُوِیَ عن رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما رجع من غزوۃ  تبوک، قال: رجعنا من الجہاد الأصغر الی الجھاد الأکبر، وأراد علیہ السلام بالجھاد الأصغر: الجھاد مع الکفار، وبالجھاد الأکبر:الجھاد مع النفس.(۵/۴۰۲)
عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں: اس سے مراد نفس و خواہشات کے خلاف مجاہدہ ہے ،یہی جہاد اکبر ہے جو کہ جہاد کا حق ہے -حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہےکہ جب آپ غزوۂ تبوک سے واپس ہوئے تو فرمایا: ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف پلٹے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے یہاں کفار سے جہاد کو جہاد اصغر سے تعبیر فرمایا اور جہاد مع النفس کو جہاد اکبر کا نام دیا-
دوسری آیت کریمہ ملاحظہ ہو: 
والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا (عنکبوت ۷۹)
جنہوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا، ہم انہیں یقینًا اپنی (طرف سیرووصول کی) راہ دکھائیں گے-
امام بیضاوی اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: 
(والذین جاھدوا فینا ) فِی حقِّنا، واطلاق المجاھدۃ لیعمَّ جھاد الاعادی الظاھرۃ، والباطنۃ بأنواعہ (لنھدینھم سبلنا) أی سبل السیر إلینا، والوصول الی جنابنا، أو لنزیدنَّھم ھدایۃً  الی سبیلِ الخیر وتوفیقًا لسلوکھا۔ (۴/۳۲۴-۳۲۵)
جنہوں نے ہمارے واسطے جہاد کیا،یہاں جہاد کو عام رکھا تاکہ ظاہری دشمنوں سے جنگ اورباطنی دشمن (نفس وشیطان) سے جنگ، دونوں کو شامل رہے ،ہم انہیں اپنی طرف سیر اوراپنی بارگاہ تک وصول (پہنچنے) کا راستہ دکھائیں گے یا مفہوم یہ ہے کہ ہم ان کو خیر کی راہوں کی جانب مزید ہدایت اور ان پر چلنے کی توفیق مزید عطا کریں گے-
صاحب کشاف مزید واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
یہاں مجاہدہ کو مطلق رکھا،مقید نہیں فرمایا، تاکہ ہر قسم کے مجاہدے کو شامل ہو سکے، جیسے نفس امارہ، شیطان اوردوسرے اعدا- (فینا) یعنی ہمارے واسطے، ہمارے لیے، خالصتاً ہماری رضا کے لیے- (تفسیر کشاف: ۳/۳۶۹-۳۷۰ )
اس آیت میں بجا طور پر جہاد سے وہ کوشش مراد ہے جو طلب حقانیت اور معرفت خداوندی کے حصول میں کی جائے-
ایسے ہی ایک اور آیت کریمہ ملاحظہ ہو جو مکی ہے اور فرضیت قتال سے پہلے کی ہے- اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
 وجاھدھم بہ جھادًا کبیرًا.(فرقان:۵۲) اور تم قرآن کے ذریعے ان سے جہاد کبیر کرو- 
اس آیت میں صاف صاف دلائل و براہین کی روشنی میں باطل کے ردّو انکار کوجہاد کبیر کہاگیا ہے-
قاضی بیضاوی فرماتے ہیں:
 (وجاھدھم بہ) بالقرآن أو بترک طاعتھم ،الذی یدلُّ علیہ ’’فلا  تطع‘‘، والمعنی: إنھم یجتھدون فی ابطال حقِّک، فقابلھم بالاجتھاد فی مقابلتھم وإزاحۃ باطلھم (جھادًا کبیرًا) لأنَّ مجاھدۃَ السُّفھاء بالحُجَجِ أکبر من مجاھدۃ الأعداء بالسیف. (۲/۲۲۴)
قرآن کے ذریعہ ان سے جہاد کرو یا ان کی اطاعت ترک کر کے ان سے جہاد کرو، جس پر اللہ تعالیٰ کا فرمان فلا تطع دلالت کرتا ہے، معنی یہ ہے کہ حق کے ابطال کی وہ کوشش کرتے ہیں تو تم کوشش کر کے ان کا مقابلہ کرو اور ان کے باطل کے ازالے کے لیے جہاد کبیر کرو، کیوں کہ دلائل کی روشنی میں احمقوں سے مجاہدہ تلوار کے ذریعہ دشمن سے مقابلہ کرنے سے بڑا ہے-
ان شواہد کی روشنی میں واضح طور پر معلوم ہو ا کہ ہر خیر و خوبی ،نیکی اور بھلائی کے کاموں کو انجام دینے میں جو کوشش کی جائے وہ جہاد میں داخل ہے- 
امربالمعروف ،نہی عن المنکر،عدل وانصاف کے قیام،سچائی کی مدد، برائی کی مدافعت ،مظلوم ،کمزور اور زیر دست لوگوں کی اعانت،حق و حقانیت کی اشاعت، بنی نوع آدم کی خیر خواہی اور طاعت و بندگی میں ثابت قدمی کے لیے جو بھی اقدامات کیے جائیں، سب امور جہاد میں شامل ہیں-
علامہ فخر الدین رازی (۶۰۶ھ) نےتفسیر مفاتیح ا لغیب میں لفظ جہاد کی جامعیت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: 
فکلُّ مَا اُمِرَبِہ ونُھِیَ عنہ، فالمُحَافَظَۃُ علیہ جِھَاد.(۶۴/۲۳)
یعنی تمام مامور بہ اور منہی عنہ کی محافظت کا نام جہاد ہے،گویا کہ ہر وہ چیز جس کا حکم دیا گیا ہے او رہر وہ چیز جس سے روکا گیا ہے، اس کی حفاظت جہاد ہے، جو کہ بندۂ مومن کی زندگی کا لازمی حصہ ہے-
حدیث میں جہاد کا مفہوم:-
ذخیرۂ حدیث میں ہمیں بیان کردہ مفہوم کی سند میں کافی کچھ ملتاہے -چند احادیث پیش کی جاری ہیں،جن سے اس کے وسیع مفہوم سے آشنائی حاصل ہوتی ہے-
حدیث پاک میں مومن کی جو تعریف مذکور ہے ،اس میں صاف طو رسے بیان ہوا ہے:
 المؤمن من أمنہ الناس علی دمائھم وأموالھم. (سنن ترمذی:۲۷۳۶،سنن نسائی:۵۰۱۲،ابن حبان: ۲۰۳/۱۱) 
مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی عزت وآبرواور ان کی جان و مال محفوظ رہیں-
مجاہد کی تعریف واضح الفاظ میں اس طرح مذکور ہے: 
المُجَاھِدُ مَن جَاھَد نَفْسَہ فِی طَاعۃِ اللہ. (سنن ترمذی، معجم کبیرطبرانی ۱۳/۲۴۵، ابن حبان ۱۱/۲۰۳، مسند احمد)
مجاہد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طاعت و فرماں برداری میںاپنے نفس سے جہاد کرے-
شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی (۱۰۵۲ھ) اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
نفس طاعت الٰہی سے انکار اور سرکشی کرتاہے، فرماں برداری کے لیے تیار نہیں ہوتا،تو مجاہد وہ ہے جواس سے جنگ کرے،اسے شریعت کا پابند بنائے اور خالق ومالک کی فرماں برداری کی طرف کھینچ لائے ؎
سہل آں شیرے کہ صفہا بشکند
شیر آں باشد کہ خود را بشکند
وہ شیر ہونا آسان ہے جو صفوں کو پچھاڑ دے، شیر تووہ ہے جو اپنے آپ کو شکست دے دے-
(اشعۃ اللمعات،۱/۲۵۸)
دوسری حدیث ملاحظہ ہو-حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی قدرے طویل حدیث ہے ،جس کا ایک حصہ پیش ہے: 
قال صلی اللہ علیہ وسلم :ألا أدُلُّک برأسِ الأمر، وعمودہ، وذروۃ سنامہ؟ قلتُ: بلی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! قال: رأس الأمر: الاسلام، وعمودہ: الصلاۃ، وذروۃ سنامہ: الجھاد.(سنن ترمذی، مسنداحمد، سنن ابن ماجہ)
کیا میں تمہیں سب سے عظیم کام ،اس کے ستون اور اس کے بلند ترین حصے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ حضرت معاذ بن جبل نے کہا ، یا رسول اللہ ضرور بتایئے! حضور نے فرمایا: سب سے عظیم کام اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے اور اس کا بلند ترین حصہ جہاد ہے-
ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
اس حدیث میں جہاد کی صعوبت، اس کی عظمت اور تمام اعمال میں اس کے تفوق و برتری کی جانب اشارہ موجود ہے- جہاد جہد (بفتح جیم) سے مشتق ہے ،جس کے معنی مشقت کے آتے ہیں، یا بضم جیم جُہد سے مشتق ہے، جس کا مطلب طاقت ہے، اس لیے کہ انسان، دشمن سےلڑائی کے وقت اپنی پوری توانائی صرف کردیتاہے- 
جہاد کی کئی قسمیں ہیں، جس میں دین کی سر بلندی کی خاطر دشمنان دین سے قتال بھی ہے (جب وہ جنگ کے در پے ہوں) اور جہادنفس بھی ہے- یہ جہاد، نفس کو احکام خداوندی کا پابندکرنا، خواہشات نفسانی کو ترک کرنا، بری عادتوں کے خلاف عمل کر کےمشقت اٹھانا، یہاں تک کہ نفس مطمئن ہو جائے اورغضب ،شہو ت وغیرہ ساری قوتیں منظم ہو جائیں؛ یہ جہاد بالسیف سے بھی مشکل امر ہے، اسی وجہ سے اس کے لیے جہاد اکبر کا لفظ وارد ہوا ہے- 
نفس، انسان کے اندر بادشاہ کے مثل ہے-روح حیوانی ،فطری خواہشات اور شہوت اس کے لشکر کی مانند ہیں- یہ نفس اپنے آپ میں اندھا ہے، ہلاکت کی جگہوں کو نہ دیکھ پاتاہے اور نہ خیر و شر میں تمیز کرپاتاہے ، جب تک کہ اللہ تعالی اسے اپنی حکمت بالغہ سے نور بصیرت نہ عطافرما دے- تب یہ دشمنوں کو دیکھنے لگتا ہے اور معارف آشنا ہو جاتاہے اور اپنے وجود کو حرص کے خنزیر اور خواہش کے کتے اور غضب کےچیتے اور شہوت کے گدھے اور شیطنت کے سانپ سے بھرا ہوا پاتاہے،تو وہ اپنے آپ کو رذائل سے دور اور فضائل سےمعمور کرتاہے-
جہاد کی ایک قسم جہادقلب بھی ہے-یہ قلب کا تصفیہ ہےاور اغیار کے لگاؤ سے اس کو دور کرنا ہے اور روح کا جہاد اپنے وجود کو واحد قہار کے وجود میں فنا کردینا ہے- (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ۱: ۹۰-۹۱)
مفہوم جہاد ومجاہدہ صوفیہ کے نزدیک:-
شیخ ولی تراش امام نجم الدین کبریٰ (۵۴۰ھ؍۱۱۴۵ء-۶۱۸ھ؍۱۲۲۱ء) مجاہدہ کا معنیٰ بیان فرماتے ہیں:
ومعنی المجاہدۃ: بذلُ الجھد فی دفعِ الأغیار، والأغیار:  الوجود والنفس والشیطان.(فوائح الجمال، ص۱۲۲) یعنی مجاہدہ کہتے ہیں اغیار کو دفع کرنے میں سعی بلیغ کرنا، اور اغیار تین طرح کے ہیں: وجود، خواہش اور شیطان-
امام ابو نجیب عبد القاہر سہروردی (ف۵۶۳ھ) مجاہدہ کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 ھو فطم النفس عن مألوفاتھا، وحملھا علی خلاف أھو یتھا، ومنعھا من الشھوات، وأخذھا بالمکابدات وتجرع المرارات بکثرۃ الأوراد، واستدامۃ الصوم والنوافل من الصلوات، مع الندم علی المخالفات، ونقلھا عن قبیح العادات.(آداب المریدین، ص۲۸)
مرغوبات سے قطع تعلق کرنا ،خواہشوں کے خلاف لگنا ،شہوات سے باز رہنا ،نفس کی سرکشیوں پر سختی سے گرفت کرنا ،کثرت اوراد ،روزہ اور نفل نمازوں کے ذریعے اسے کڑوے گھونٹ پلانا ،اس کی سرکشیوں پر احساس ندامت وشر مندگی اور بری عادتوں سے بھلائی کی طرف منتقل ہونے کا نام مجاہدہ ہے-
آیات جہاد کی صوفیانہ تفسیر:-
آیات جہاد سے متعلق صوفیانہ تفسیر (جو کہ تفسیر اشاری کے نام سے متعارف ہے) کو دیکھنے سے پہلے ہمیں اس تفسیر کے تعارف میں اجمالًا کچھ عرض کر دینا ضروری معلوم ہو تا ہے، تاکہ اس کی اہمیت اور سند متعین ہو جائے -
امام جلال الدین سیوطی اس کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
عبارۃ عن تأویل الآیات القرآنیۃ علی خلاف ما یظھر منھا، بمقتضی اشارات خفیَّۃ تظھر لأرباب السُّلوک، ویمکن التطبیق بینھا وبین الظواھر المرادۃ. 
تفسیر اشاری آیات قرآنیہ کی اس تاویل کو کہتے ہیں جو ظاہری معنی کے علاوہ ایسے معنی پر محمول ہو جو سالکین پر منکشف ہونے والے پوشیدہ اشارات کے مطابق ہو اور اس کے اور ظاہری معنی کے درمیان جمع وتطبیق کی بھی صور ت ہو -
کلام اللہ کے ظاہری معنی کے علاوہ باطنی معانی بھی ہیں ،جس کی طرف سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد اشارہ کر رہا ہے- حضرت ابو جحیفہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا علی سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس رسول  پر نازل شدہ وحی میں قرآن کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ مولائے کائنات نے جواب دیا: لا، والذی فلق الحبۃ، وبرأ النسمۃ، الا أن یعطی اللہ عبدًا فہمًا فی کتابِہ۔  ہمارے پاس قرآن ہے اور مرد مومن کو اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ سمجھ ہے-
(مسند احمد، نسائی، معجم اوسط طبرانی)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں صاف طور سے اس بات کو بتا یا گیا ہے- حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان القرآن علی سبعۃ أحرف، لکل آیۃ منھا ظھر وبطن، ولکل حرف حد ومطلع . قرآن مجید سات حروف پر نازل ہوا ،ہر آیت کا ایک ظاہر وباطن ہے ہر حرف کی حد ہے اور مطلع ہے -(صحیح ابن حبان)
واضح رہے کہ تفسیر اشاری میں آیات قرآنیہ کو اس کے ظاہری مقتضیٰ اور معنیٰ پر باقی رکھتے ہوئے، اس میں پوشیدہ اسرار ورموز کو اجاگر کیا جاتا ہے-
اس اجمالی تعارف کے بعد اب جہاد سے متعلق چند آیات کی صوفیانہ تفسیر ملاحظہ فرمائیں:
(۱) لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوۡنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ غَیۡرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنۡفُسِہِمْ فَضَّلَ اللہُ الْمُجٰہِدِیۡنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنۡفُسِہِمْ عَلَی الْقٰعِدِیۡنَ دَرَجَۃً  وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی  وَفَضَّلَ اللہُ الْمُجٰہِدِیۡنَ عَلَی الْقٰعِدِیۡنَ اَجْرًا عَظِیۡمًا.(النساء:۹۵)
مومنین میں سے وہ لوگ جو جہاد میں نہ شریک ہو کر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد میں لگے رہتے ہیں (یہ دونوں درجے میں ) برابر نہیں ہیں -اللہ نے مجاہدین کو قاعدین (بیٹھے رہنے والوں )پر فضیلت بخشی ہے-اللہ تعالی نے تمام مومنین سے بھلائی کا وعدہ فرما یا ہے-اللہ نے مجاہدین کو قاعدین پر اجر عظیم میں فضیلت دی ہے -
آیت کریمہ میں مذکور مجاہدین کی تفسیر میں امام صدرالدین ابو محمد روز بہان بقلی (ف۶۰۶ھ) فرماتے ہیں: 
(المجٰھدین) الذین بدَّلوا بہجتہم فی طلب مشاھدۃ اللہ بوصف المراقبۃ (والقٰعدین) أھل الفترۃ، قعدوا عن طلب جمالہ تعالی بحظوظ البشریۃ  (والأجر العظیم) مشاھدۃ اللہ ووصول قربتہ. (عرائس البیان فی حقائق القرآن ۱؍۲۶۸)
مجاہدین سے مراد وہ ہیں جنہوں نے مشاہدہ الہی کی طلب میں اپنی خوشیوں کو نفس کی نگہبانی سے تبدیل کردیا (یہ حضرات ہمہ وقت نفس کی نگہبانی میں لگے رہتے ہیں، اس کو حق تعالی کے ذکر وفکر سے غافل اور خواہشات ولذات میں منہمک نہیں ہونے دیتے-)
اور قاعدین سے کم ہمت اور سست لوگ مراد ہیں جو لذات دنیوی میں مبتلا ہو کر جمال باری کی طلب سے باز رہے -
صانع الاولیاءشیخ نجم الدین کبریٰ اسی آیت کریمہ کے اشارہ کو بیان فرماتے ہیں: 
والاشارۃ فیھا: ألا یستوی القاعدون عن طلب الحق ،وان کانوا أولی العذر، من المومنین العالمین المتقین ،(والمجاھدون فی سبیل اللہ) فی طلب الحق، القائمون فی أداءحقوق الطلب (بأموالھم ) أی بترک الدنیا (وأنفسھم ) أی ببذل الوجود فی طلب المعبود (غیر أولی الضرر)غیرُ بالرفع صفۃ المجاھدین، یعنی فی اللہ حق جھادہ، ولا یرون ضرر الجھاد وضررا علی أنفسھم من بذل المال والأنفس، یدلُّ علیہ قولہ تعالی: (ثم لا یجدوا فی أنفسھم حرجا مما قضیت ).(النساء:۶۵)
ثُمَّ قال اللہ تعالی: (فضَّل اللہ المجاھدین باموالھم وانفسھم )یعنی فضَّلھم بفضیلۃ الولایۃ والتوفیق لبذل المال والنفس. (التاویلات النجمیۃ۲؍۱۸۷) 
اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ طلب حق سے باز رہنے والے مومنین اگر چہ معذور ہوں لیکن وہ متقی مومنین سے درجہ میں برابر نہیں ہیں- (اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرنے والے )یعنی طلب حق میں حقوق طلب کی انجام دہی میں ڈٹے رہنے والے (اپنے اموال کے ذریعے)یعنی ترک دنیا کرکے (اور اپنی جانوں کے ذریعے )یعنی طلب معبود میں اپنی ہستی کو فنا کر کے (تکلیف میں مبتلا ہوئے بغیر )یہ حالت رفع میں مجاہدین کی صفت ہے، یعنی اللہ کی راہ میں حق جہاد ادا کرنے والے اور مال وجان قربان کرکے جہاد سے کسی قسم کے کوئی ضرر کا اندیشہ نہ کرنے والے۔ اسی جانب یہ آیت دلالت کرتی ہے: (آپ کے فیصلے پر اپنے نفوس میں کوئی حرج نہیں پاتے )، پھر اللہ تعالی نے فرمایا :(اللہ تعالی نے جان ومال لگا کر جہاد کرنے والوں کو فضیلت عطا فرمائی) یعنی انہیں فضیلت ولایت سے مشرف فرما یا اور جان ومال قربان کرنے کی تو فیق عطا فرمائی-
(۲) یجاھدون فی سبیل اللہ ولا یخافون لومۃ لائم (المائدہ :۵۴)
وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے-
استاذ صوفیہ امام ابو القاسم قشیری (ف۴۶۵ھ)اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
(یجاھدون فی سبیل اللہ )أی یجاھدون بنفوسھم من حیث استدامۃ الطاعۃ، ویجاھدون بقلوبھم بقطع المنی والمطالبات، ویجاھدون بأرواحہم بحذف العلاقات، ویجاھدون بأسرارہم بالاستقامۃ علی الشہود فی دوام الأوقات۔ ثم قال: (ولایخافون لومۃ لائم ) أی لا یلاحظون نصح حمیم الخ.
(اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں)یعنی اپنے نفوس سے طاعت کی مداومت کے ذریعے اور اپنے قلوب سے اس کی خواہشوں اور مرادوں کو قطع کرکے اور اپنی ارواح سے تعلقات کو ہٹا کے اور اپنے اسرار سے ہمیشہ شہود پر استقامت کے ذریعے جہاد کرتے ہیں۔ پھر فرما یا (اور یہ لوگ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خائف نہیں ) یعنی کسی ہمدرد کی چارہ گری کی فکر نہیں کرتے -
شیخ روز بہان البقلی اس مقام پر فرماتے ہیں:
قال أبو بکر الوراق :الجھاد ثلاثۃ: جھاد مع نفسک، وجھاد مع عدوک، وجھاد مع قلبک، والجھاد فی سبیل اللہ ھو مجاھدۃ القلب بألا تتمکن منہ الغفلۃ بحال، وجھاد النفس ألا تفتر عن الطاعۃ بحال، وجھاد الشیطان ألا یجد منک فرصۃ فیأخذ بحظہ منک .
ابو بکر وراق کا فرمان ہے: جہاد تین ہیں: نفس سے جہاد، دشمن سے جہاد اور قلب سے جہاد- اللہ کی راہ میں جہاد، قلب سے یہ ہے کہ اس میں کسی بھی حال میں غفلت نہ داخل ہونے پائے-نفس سے یہ ہے کہ کسی بھی حال میں طاعت سے سستی نہ کرے اور شیطان سے جہاد یہ ہے کہ تمہاری جانب سے اس کو اتنا موقع نہ ملے کہ تمہاری ذات سے وہ اپنا حصہ پا لے-
(۳) یٰأیھا النبی جاھد الکفار والمنافقین. (توبہ :۷۳) 
امام سہل بن عبد اللہ تستری (ف۲۷۳ھ) فرماتے ہیں: جاھِد نفسَک بسیفِ المخالفۃ وحمِّلھا حمولا ت الندم. اپنے نفس سے جہاد کرو مخالفت کی تلوار سے اور شرم وندامت کا بار اس پر ڈال کے- (تفسیر تستری، ص۱۵۹)
شیخ رو زبہان بقلی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: 
(الکفار )النفوس الأمارۃ، وجھادھا إماتۃ شھواتہا (المنافقین ) ھم إبلیس وجنودہ، وجھادھم مجاھدۃ طریق الوسواس بالجوع الدائم، والحزن القائم، والزجر الغلیظ علیھم، یکون من القلب الروحانی المملوءمن النُّورِ الرَّبَّانی ۔
قال محمد بن علی :جاھد الکفار بالسَّیف والمنافقین باللسان، وقال سھل :النفس کافرۃ ، فجا ھدھا بسیف المخالفۃ، وأحمِلھا جولات الندم، وسیِّرہا فی مفاوز الخوف.
       (تفسیر عرائس ۲؍۳۳)
(کفار) نفوس امارہ ہیںاور ان سے جہاد ان کی شہوتوں کو فنا کر دینا ہے، (منافقین) ابلیس اور اس کے لشکری ہیں، اور ان سے جہاد وہی ہے جو وسوسہ ڈالنے والے سے جہاد کا طریقہ ہےیعنی متواتر بھوکے رہنا، ہمیشہ رنجیدہ خاطر رہنا اور ان پر سختی سے ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہنا-یہ جہاد اس دل سے ہوتا ہے جو روحانی ہو اور انوار ربانیہ سے پُر ہو-
محمد بن علی فرماتے ہیں: 
کفار سے تلوار کے ذریعے اور منافقوں سے زبان کے ذریعے جہاد کرو- سہل بن عبد اللہ فرماتے ہیں: نفس کافر ہے، مخالفت کی تلوار سے اس سے جہاد کرو، اس پر بار ندامت ڈالواور اس کو خوف کی وادیوں میں دوڑائو- 
(۴) یٰاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِینَ یَلُوْنَکُم مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوا فِیْکُمْ غِلْظَۃً  وَاعْلَمُوا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ. (توبہ: ۱۲۳) 
اے ایمان والو! تم ان کفار سے قتال کرو جو تمہارے قریب ہیںاور وہ تمہارے اندر (طاقت وشجاعت اور ہمت کی) سختی پائیں اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے-
شیخ روز بہان بقلی آیت کریمہ کااشارہ بیان فرماتے ہیں:
أقرب الأعداء إلى المسلم من الكفار الذي يجب عليه منازعته، هو أعدى عدوه أي نفسه. فيجب أن يبدأ بمجاهدة نفسه ثم بمجاهدة الكفار، قال عليه الصلاة والسلام: رجعنا من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر. (عرائس البیان ۱، ۴۵۳) 
مومن کا قریب ترین کافر دشمن اس کا اپنا نفس ہے ، جس سے جہاد فرض ہے ۔ لہٰذا اس پر ضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنے نفس سے مجاہدہ کرے پھر ظاہری دشمنوں سے لڑے-حضوراکرم  نے ارشاد فرمایا: ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹے ہیں-
شیخ نجم الدین کبریٰ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ایمان والو، یعنی اے وہ لوگ جنہوں نے محمد مصطفیٰ کی ان باتوں کی تصدیق کی، جن کی جانب انہوں نے اللہ کے اذن سے ہدایت فرمائی- قاتلوا الذین یلونکم من الکفار یعنی کافر نفس اور اس کی صفات سے جہاد کرو، اس طرح سے کہ اس کی خواہش کی مخالفت کرو، انہیں (اچھائی میں) بدل ڈالواور نفس کو اللہ کی اطاعت اور اس کی راہ میں مجاہدے پر مجبور کرو، اس لیے کہ یہ تمہیں ذات باری تعالی تک رسائی سے روکتا ہے-
ولیجدوا فیکم غلظۃ یعنی نفس کو شہوتوں، لذتوں اور اس کی پسندیدہ چیزوں کی جانب اس کی رسہ کشی ختم کر کے، اسے طلب حق میں لگے رہنے پر مجبور کرو اور اسے ختم کرنے کی سچی عزیمت رکھو-
       (التاویلات ۳، ۴۳۰)
(۵) وجٰھدوا فی اللہ حقَّ جھادہ (حج ۷۸)اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کا حق ہے-
امام قشیری فرماتے ہیں: 
(حقَّ جھادہ): حق الجھاد ما وافق الأمر فی القدر والوقت والنوع، فاذا حصلت فی شیء منہ مخالفۃ فلیس حق جھادہ .ویقال المجاھد ۃ علی أقسام: مجاھدۃ بالنفس، ومجاھدۃ بالقلب، ومجاھدۃ بالمال الخ (لطائف الاشارات: ۲؍۳۳۳)
حق جہاد یہ ہے کہ جہاد ایسا ہو جو مقدار، وقت اور نوعیت سب میں امر الٰہی کے موافق ہو، اگر ان میں سے کسی چیز میں بھی مخالفت سرزد ہوئی تو حق جہاد نہیں ادا ہوا -عرفا نے بیان کیا ہے کہ مجاہدہ چند قسموں پر مشتمل ہے: مجاہدہ نفس ،مجاہدہ قلب اورمجاہدہ مال-
نفس کے ذریعے تو مجاہدہ یہ ہے کہ بندہ کو جو چیز بھی میسر آئے وہ اسے طاعت الہی میں صرف کردے- تکلیفیں برداشت کرے اور نفس کے ساتھ رخصت اور نرمی کا برتائو نہ کرے -
قلب کا مجاہدہ فاسد خیالات سے اس کی حفاظت ہے اور غفلت، مخالفت کے ارادے اور بطالت وسستی کے دنوں کی یاد سے اس کو بچا نا ہے، مال کا مجاہدہ سخاوت اور ایثار وغیرہ ہے-
تفسیر عرائس میں ہے :
المجاھدۃ علی ضروب: وأشدُّھا المجاھدۃ مع النفس، وھو الجھاد فی اللہ (۲؍۵۴۸)
مجاہدہ کی چند قسمیں ہیں اور ان میں سب سے مشکل جہاد بالنفس ہے، اسی کو جہاد فی اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے-
حضرت شیخ قطب الدین دمشقی فرماتے ہیں:
’’وجَاھِدُوا فی اللہ حقَّ جھادِہ ھو اجتبٰکم ‘‘ أمر بالمجاھدۃ فی عوالم الحقیقۃ، ولھذا قال: (ھو اجتبٰکم) أی جذبکم الیہ واصطفاکم لدیہ، وھذا یدل علی أنہ لا بد من المجاھدۃ  للمبتدی والمنتھی۔ (رسالہ مکیہ، ص۱۰۸)
اللہ تعالی نے فرما یا: جہاد کرو اللہ تعالیٰ کی طلب میں جیسا کہ جہاد کا حق ہے، اس لیے کہ اس نے تمہیں منتخب فرما یا ہے- اللہ تعالی کا یہ قول عوالم حقیقت کے مجاہدہ کے لیے امر ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے فرما یا: (ھو اجتباکم ) یعنی اس نے تمہیں اپنی طر ف کھینچ لیا اور بر گزیدہ فرما لیا- اللہ تعالی کا یہ ارشاد اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ مجاہدہ مبتدی اور منتہی دونوں کے واسطے ناگزیر ہے-
مخدوم الملۃ شیخ سعد الدین خیر آبادی قدس سرہ (ف ۹۲۲ھ)مجمع السلوک شریف میں حضرت شیخ کی عبارت کی تشریح فرمانے کے بعد فرماتے ہیں:
پس مقصود آن است کہ جہاد در طلبِ خدای تعالی فرض است مر طالبان وعارفان راکہ المجاھدۃ تورث المشاھدۃ۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طلب میں جہاد کرنا طالبین وعارفین سب پر فرض ہے، اس لیے کہ مجاہدہ مشاہدہ کا سبب بنتا ہے -
(۶) والذین جاھدو افینا لنھدِیَنَّھم سُبُلَنا (عنکبوت: ۶۹)
جنہوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا، ہم انہیں بے شک اپنے راستوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
صاحب عرائس فرماتے ہیں :
جاھدوا باللہ فی اللہ للہ ،فیعرفون اللہ باللہ ،وھو معھم باعطائہ ایاھم کشف جمالہ، لأنھم یشاھدونہ بنعت المراقبۃ، وبذل وجوھھم لحب المشاہدۃ. وذلک معنی قولہ تعالی: وان اللہ لمع المحسنین. وأصل المجاھدۃ فطام النفس عما دون اللہ من العرش الی الثری، سبل المجاھدۃ من العبد الی اللہ أومن اللہ الی العبد. الخ۔
مشائخ نے اللہ تعالیٰ کی امداد سے اللہ کی راہ میں اللہ کے لیے جہاد کیا، یہ وہ ہیں جو اللہ کو اللہ کی معرفت سے پہچانتے ہیں- وہ اپنے کشف جمالی کی بخشش کے ذریعے ان کے ساتھ ہے- اللہ تعالیٰ کے فرمان: یقینًا اللہ صاحبا ن احسان کے ساتھ ہے، کے یہی معنیٰ ہیں اور مجاہدےکی اصل یہ ہے کہ نفس کو عرش تا فرش جو بھی غیر اللہ ہیں، ان سب کی محبت سے الگ کر دیا جائے- مجاہدے کی راہیں بندے سے اللہ تک یا اللہ سے بندے تک ہیں-
ابن عطا فرماتے ہیں ’’جاھدو افینا ‘‘ یعنی ہماری رضا کے حصول میں جہاد کیا ’’لنہدینہم ‘‘ ہم انہیں محل رضوان تک پہنچنے کی رہنمائی کریں گے - (عرائس البیان، ۳: ۱۰۹)
رسالہ مکیہ میں ہے :
’’والذین جاھدوا فینا ‘‘ یعنی جاھدوا فی طلبنا. (ص ۱۰۸) ’والذین جاھدوا فینا ‘
یعنی جنہوں نے ہماری طلب میں کوشش کی-
خلاصۂ بحث:-
مذکورہ بالا آیات کریمہ کی صوفیانہ تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات جہاد کی صوفیہ نے دو تفسیریں کی ہیں، ایک لفظ کے عام معنیٰ کے لحاظ سے(جس کی تائید احادیث کریمہ سے ہوتی ہے، جن کا ذکر اس مقالے میں بھی ہوا )، دوسری اشارہ کے لحاظ سے- ظاہری معنیٰ کو قبول کرتے ہوئے اشاری طور پر جو تفسیر کی گئی ہے، وہ بھی کتاب وسنت سے متصادم نہیں بلکہ مقاصد دین کے عین مطابق ہے، اور عصر حاضر میں اس کی بڑی معنویت بھی ہے- 
صوفیہ کی تفاسیر سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ حضرات ، جہاد بمعنی قتال کے منکر ہیں- صوفیہ، قتال کو جہاد کی آخری صورت سمجھتے ہیں ،جو ناگزیر حالات میں واقع ہوتا ہےاور وہ بھی شروط وآداب کے دائرے میں رہ کر- اگر ان کی رعایت نہیں کی گئی تو وہ قتال کےبجائے حرام خوں ریزی اور بربریت ہوگی- جہاد کے حوالے سے صوفیہ کا یہ مفہوم، عین مقاصد شرع کے مطابق ہے-
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔