Tuesday 23 January 2018

مسلم ذہن کی تشکیل جدید اور صوفی نقطۂ نظر کی تعبیر وتطبیق

0 comments
مسلم ذہن کی تشکیل جدید
اور صوفی نقطۂ نظر کی تعبیر وتطبیق
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
-----------------------------------------------------------------------
بیسویں صدی کا آفتاب جب طلوع ہورہا تھا اس وقت پوری دنیا سے سامراج اپنے پاؤں سمیٹنے کی تیاریاں کر رہا تھا، جمہوریت کی صبح نمودار ہوا چاہتی تھی، پوری دنیا میں سیکولر نظام حکومت کی بالادستی کا ماحول بن رہا تھا، طویل جنگ و جدل اور قتل و غارت کے بعد اس وقت جو ورلڈ آرڈر تشکیل پایا ،اس کی زمام مغربی اور یورپی ہاتھوں میںتھی جس کا وجود عیسائی تھا اور دماغ یہودی- تقریباً نصف صدی گزرجانے کے بعد جب پورے طور پر سامراجی تسلط کا خاتمہ ہوگیا، سارے ممالک آزاد ہوگئے اور جمہوریت، آزادی فکر و نظر اور سیکولرزم کا غلبۂ عام ہوگیا ،اس وقت مشرق وسطیٰ ٹکڑوں میں بٹ گیا، جس کے قلب میں اسرائیل نامی ایک نئی ریاست کی تشکیل عمل میں آئی ،جو آج تک پوری مسلم دنیا کے لیےآزار بنی ہوئی ہے-
مشرق وسطیٰ کے چھوٹے چھوٹے خطے جن مختلف حکمرانوں کے ہاتھ آئے وہ مغربی ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں تھے، ان کی مجبوری یہ تھی کہ انہیں یہ حکومتیں مغربی ہاتھوں سے ہی بطور زکوٰۃ ملی تھیں، دوسری طرف استعمار سے آزادی کے بعد مسلم علما اور عوام جوش آزادی میں مسلکی منافرت اور فرقہ وارانہ تصادم میں مبتلا ہوگئے- یہ ریاستیں بالعموم حکمراں خاندان کے مسلکی تسلط کا مظہر بن گئیں- تب سے اب تک یہ مسلکی منافرت اس درجہ بڑھی ہوئی ہے کہ روئے زمین پر ۵۷ مسلم ریاستوں کا وجودہوتے ہوئے بھی اب تک ان کا کوئی مضبوط وفاق نہیں بن سکا- اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں مغربی سازش کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا،لیکن اگر کوئی گھر کا بھیدی ہے تو وہ صرف اور صرف مسلکی منافرت ہے، جودن بہ دن اس عظیم لنکا کو ڈھائے جارہا ہے-
اُسی عہد میں استعماری پنجے سے وطنِ عزیز ہندوستان بھی آزاد ہوا اور اسی وقت پاکستان نامی مملکت خداد بھی وجود میں آئی- اس عہد کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ پوری دنیا میں انگریزی تعلیم اور تہذیب نے اپنے پر نکالنے شروع کردیے تھے،جس کا شدید ردعمل اہل مشرق، خصوصاً اہل اسلام سے عین متوقع تھا-
جب یہ سب کچھ ہورہا تھا اسی وقت مسلم دنیا کے مختلف خطوں سےتجدید و احیا کی مختلف آوازیں بھی اٹھ رہی تھیں اور حکومت الٰہیہ کی تشکیل کا پرزور نعرہ بلند ہورہا تھا- یہ نعرہ لگانے والے وہابی یا وہابیت سے متاثر افراد تھے- ان کے بالمقابل جو روایتی صوفی/ سنی مسلمانوں کا طبقہ تھا وہ بالعموم اپنی خانقاہوں میںمردنی کیفیت سے دوچار تھا- زندگی اور انقلاب کی کوئی رمق اس عہد میں ان کے اندر نظر نہیں آتی- وہابیت کے بالمقابل ان کے ردعمل کاجو کل سرمایہ تھا، وہ وہابیت کے خلاف وہ شدید فتوے تھے جو اپنے پیچھے کسی مؤثر لائحۂ عمل نہ ہونے کے سبب وقت گزرنے کے ساتھ دم توڑتے چلے گئے- حکومت الٰہیہ کی تشکیل، خلافت الٰہیہ کا قیام اور نفاذ شریعت کی پرزور آواز بلند کرنے والوں میں عجم میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی اور عرب میں شیخ حسن النبا اور سید قطب کے نام سرفہرست ہیں- دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حضرات نہ پورے طور پر وہابی نظریات کے داعی تھے اور نہ ہی روایتی اسلام کو کسی قیمت پر قبول کرسکتے تھے، حتیٰ کہ دیوبند نے بھی مولانا مودودی کے خلاف فتویٰ جاری کردیا، جو ایک طرف وہابیت سے اپنی بیزاری کا اعلان بھی کرتا ہے اور دوسری طرف بعض نمائندگانِ وہابیت کے نظریات کی تائید وتوثیق بھی کرتا ہے- مگر اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ ہندوستان میں مولانا مودودی نے علی گڑھ، دیوبند اور ندوہ سے اپنے ہم خیالوں کی ایک جماعت تیار کرلی، کچھ یہی حال عرب دنیا میں حسن البنا اور سید قطب کا رہا- قابل غور بات یہ ہے کہ مولانا مودودی کی ’’جماعت اسلامی‘‘ اور سید قطب کی ’’الاخوان المسلمون‘‘ دوگز زمین پر بھی خلافت الٰہیہ قائم نہ کرسکی اور نہ نفاذ شریعت کا خوب صورت خواب اب تک شرمندۂ تعبیر ہوسکا بلکہ رفتہ رفتہ دونوں نے ہی جمہوریت کو بھی گلے لگالیا، جس کے بارے میں دونوں ہی اس بات کے مدعی تھے کہ یہ خلافت الٰہیہ سے بغاوت اور شرک فی الحاکمیت کے مترادف ہے- اپنے ہدف میں مکمل طور سے ناکام ہونے کے بعد دونوں جماعتوں سے متاثر نوجوانوںمیں رفتہ رفتہ جذباتیت، شدت پسندی، قتل و غارت گری اور دہشت گردی جیسے جراثیم پیدا ہوگئے- اس منفی کردار میں بانیان جماعت کا براہِ راست کوئی رول ہو یا نہ ہو، بہرکیف!یہ واقعہ ہے کہ ڈاؤن لائن میں آکر انہی جماعتوں سے متاثر نوجوان غلط راستوں پر آلگے، جنہیں بعض عرب ملکوں سے بھی نظری اور مالی کمک فراہم ہوتی رہی-فکری انتہا پسندی نے مسلم نو جوانوں کو رفتہ رفتہ عملی تشدد کی کی راہ پر ڈال دیا-تکفیر عام سے قتل عام تک کا درد ناک سفر مختلف ناموں سے آگے بڑھتا رہا، جس کی آخری اور انتہائی گھناؤنی شکل داعش کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے-
دوسری جانب خانقاہوں میں جو مردنی کیفیت چھائی رہی اس میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی بلکہ مزید اس پر جہالت، بے جا رسم پرستی، قبروں کی تجارت اور شریعت سے عملاً فرار کی صورتیں روز افزوں ترقی کرتی رہیں- ہندوستان میںخانقاہوں کی جانب سے جس ایک شخص نے نمائندگی اور دفاع کا فریضہ انجام دیا وہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی ہیں، جنہیں درگاہ نظام الدین اولیا کے مسند نشین خواجہ حسن نظامی ’’جماعت صوفیہ کا مرد صف شکن‘‘ کے نام سے یاد کیاہے- لیکن اس نمائندگی اور دفاع میںخود مولانا کاانداز کیا تھا، اس کی تعبیر کے لیے پروفیسر سید جمال الدین اسلم مارہروی کے لفظوں کا سہارا لوں تو یوں کہنا پڑے گا کہ’’ بریلوی تحریک صوفیہ کی نمائندہ تحریک ہے ،یہ اور بات ہے کہ اس کے اندر صوفیانہ رواداری کی کوئی بوباس نہیں پائی جاتی-‘‘ اس ابہام کی شرح مفصل بھی ہے اور جاںگداز بھی-برطانوی عہد میں جمہور امت کے مسلک تصوف اور طریق سواد اعظم کے خلاف جوتحریکیں اور تحریریں منظر عام پر آئیں، ان کے ردعمل میںبریلوی تحریک کی طرف سےان کا شدت کے ساتھ تعاقب کیا گیا- اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے بعد ردعمل اور تعاقب کی یہ شدت مولانا حشمت علی خان بریلوی کے توسط سے ہر آنے والے دن بڑھتی رہی- آگے چل کر خود بریلوی تحریک کے نمائندگان میں یہ بحث چل نکلی کہ ان میں صحیح مسلک پر سختی کے ساتھ کون قائم ہے اور کس کے اندرنرمی، صلح کلیت اور پلپلاپن آگیا ہے، آج کے دنوں میںردعمل کی اس نفسیات کی انتہائی شکل دیکھنی ہو تو ادے پور راجستھان میں وسط فروری ۲۰۱۵ءمیں ہونے والے محمد یوسف کے واقعے کو سامنے رکھیے-بریلوی طبقے کے لوگوںنے محمد یوسف کی قبر کھود کر اس کی لاش دوبارہ اس کے گھر پہنچا دیا- جرم یہ تھا کہ ان ظالموں کی نگاہ میں وہ ایک عامی شخص وہابی تھا- صوفی روایات کا دعویٰ رکھنے والے اگر اتنا نیچے گر جائیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ردعمل کی نفسیات میں بری طرح گرفتار،صوفی روایت سے دور اور وہابی طریق کے متبع ہوچکے ہیں- اس کی دوسری مثال اگر عالم عرب سے لینی ہو تو اخوانیوں کے اجتماعی ہجوم پر صوفی روایات کے مدعی فوجیوں کی طرف سے گولیوں کی بارش اور اس طرح کے دوسرے واقعات کو سامنے رکھا جاسکتا ہے- پڑوسی ملک پاکستان میں بھی اس کی مثالیں مل سکتی ہیں جہاں تصوف مخالف عناصر کے ردعمل میں صوفی روایات کے حامی بعض دفعہ اپنی راہ سے بھٹکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں-جہاں گستاخ رسول کے قتل کی بات تو کی جاتی ہے، لیکن اس قتل کا جو شرعی Process ہے اس پر غورکرنے کو غیرت عشق محمدی کے خلاف سمجھا جاتا ہے-
اس پورے منظر نامے کا سرسری تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں اصلاح و تجدید کے دعویداروں نے مسلم ذہن کی جس نہج سے تشکیل کی تھی وہ نتیجے کے اعتبار سے صفر رہی- مزید یہ کہ اس نے مسلم نوجوانوں کے ذہن و دماغ میں زہر گھول دیا، جس کے اثرات سے تصوف کا نام لیوا بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے- یہ منظر نامہ بتاتا ہے کہ امت کی سطح پر مسلمانوں کو اپنی فکر کا جائزہ لینے کی ضر ورت ہے- اس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ مسلم ذہن کی تشکیل نو وقت کی ضرورت ہے- ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ تشکیل صوفیانہ مناہج سے مستفاد ہونی چاہیے، اس کے بعد ہی مسلمان صحیح راستے پر آسکیں گے اور اس صدی میں مؤثر کردار ادا کرسکیں گے- اس دعوے کی دلیل کے لیے آنے والی سطور حاضر ہیں-
مسلم ذہن کے تشکیلی عناصر:-
آخرت کی ترجیح کے ساتھ دنیاوی زندگی میںاعتدال و توازن کی فکر مسلم ذہن کا نقطۂ آغاز وامتیاز ہے- عقائد و عبادات سے لےکر رسوم و معاملات تک ہر جگہ عدل اور اعتدال اسلام کا مطلوب ہے-(۱) ایک طرف مسلم فکر دنیا اور آخرت کے حسنات کی طالب ہے (۲) تو دوسری طرف اس نےزندگی کو ایک سفر یا ایک سڑک بتاکر (۳) دنیا کی حیثیت و واقعیت کو واضح کردیا ہے-
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی جس نہج پر تربیت فرمائی تھی اس کا مطالعہ کیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ صحابہ ایمان باللہ، ایمان بالآخرۃ، محبت واطاعت رسول، سادگی و شرافت، صداقت وامانت اور حق گوئی و بے باکی کے سانچے میں ڈھلے ہوئے معلوم ہوں گے- مزکّٰی قلوب، قضا و قدر پر غیر مشروط ایمان اور نصوص کتاب و سنت کی مکمل تصدیق کے ساتھ وہ انتہائی محنتی، جفاکش اور تعمیر دنیا اور فکر آخرت میں مستغرق تھے- ان کے ذہن و دماغ اخلاق محمدی سے ایسے روشن تھے کہ ان کی فکری ساخت ظلم وعدوان اور بے وفائی و بے مروتی سے مکمل ابا کرتی تھی- صحابۂ کرام کی سادہ اور بے نفس زندگی کا ایک وصف اور نمایاں ہے اور وہ یہ کہ ان کے افکار نہ یونانی فلسفے سے متاثر ہوئے اور نہ عجمی خیالات سے پراگندہ ہوئے- وہ ہر چون و چرا سے پاک، ایمان کے گہرے احساس اور اخلاق کی اعلیٰ اقدار کا پیکر تھے- ایثار و وفا، محبت و خدمت اور تعمیر دین و دنیا کے خروش نے ان کو دارین میں سرخرو و کامراں بنادیا تھا-
مسلم ذہن کا تاریخی فساد:-
صحابہ کے بعد عجم اور بلاد مغرب میں اسلامی فتوحات نے اپنے پیچھے کئی سوالات بھی کھڑے کردیے- اس کے ساتھ ہی یونانی درآمدات نے جہاں مسلمانوں پر علم و تحقیق کے نئے آفاق وا کیے، وہیں عقائد اسلامی کے حوالے سے قیل و قال کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو وقت کے گزرنے کے ساتھ آگے ہی بڑھتا رہا- غیر عربی میں نماز اور خلق قرآن کے مباحث عجمیت و یونانیت سے پیدا شدہ مسائل و عقائد میں سرفہرست ہیں- عقائد و مسائل کے نئے مباحث نے مسلمانوں کو افراط و و تفریط کے ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا جہاں اعتدال کی ڈگر تلاش کرنا مشکل تھا- علمی اختلافات نے ذہنی انتشار، فکری ناہمواری، فرقہ بندی و فرقہ پرستی، تفسیق و تضلیل اور تکفیر کی راہ ہموار کردی جس کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا-
اس عہد میں ایک دوسری بڑی تبدیلی یہ آئی کہ اسلام کی سادگی گم ہونے لگی- حضرت علی کے بعد ہی خلافت اسلامی کی مثالی حکومت رخصت ہوگئی اور مسلم حکام جو لفظی طو رپر خلیفۃ المسلمین بھی تھے، عجمی ملوکیت کے سارے تکلفات سے مزین ہوگئے- عامۃ المسلمین میں بھی فکر آخرت سے زیادہ طلب دنیا کا خروش بڑھ گیا- ایسے عہد میں زہاد و عباد کی جماعت جنہیں سب سے زیادہ دین عزیز تھا، اپنے دین و ایمان کی حفاظت اور دوسروں کے ایمانی و اخلاقی اصلاح و تربیت کے لیے سیاست حاضرہ سے لاتعلق رہ کر بطور غیر حکومتی ادارہ (NGO) خانقاہیں قائم کیں- یہ نظام آگے بڑھتا رہا- یہ غیر حکومتی نظام اتنا سادہ تھا کہ بالعموم حکمرانوں نے اس سے تعرض نہیں کیا؛ کیوں کہ انہیں ان پاک روح درویشوں سے اپنی حکومت کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا، دوسری طرف یہ نظام اتنا موثر تھا جس سے عوام ہی نہیں سلاطین و امرا اور فقہا و محدثین بھی فیض یاب ہوئے اور اپنے تزکیۂ نفس اور تطہیر روح کے لیے ان فقیروں کی گدائی کو فخر جانا- دین کی روح جو نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتی رہی اس میں ان خرقہ پوشوںکی تعلیم و تربیت کا رول کلیدی ہے- دین کے ان بے تاج بادشاہوں نے دلوں کو صاف کیا، دلوں کو جوڑا، اس لیے آنے والے عہد میں دلوں پر حکومت بھی انہی کی رہی-
دوسری طرف ان خانقاہوں سے باہر جو دنیا آباد تھی وہ دن بہ دن غفلت، خود سری، حب جاہ و مال اور اتباع ہویٰ میں مبتلا ہوتی گئی- محفلوں کی شمعیں فروزاں تر ہوتی رہیں، لیکن دلوں کا نور بجھتا رہا، خلافت اسلامیہ کی ساری شرطیں ’’قرشیت‘‘ کے لفظ میں سمٹ گئیں ،جو خلیفۃ المسلمین کے سارے عیوب ونقائص کی پردہ پوشی کے لیے کافی تھا- یہ قرشی دارالخلافے ملوکیت کے تمام تر مراسم کا گہوارہ تھے، جہاں عام وزرا اور گورنر ہی جاہ و منصب کے بھوکے نہیں تھے، ’’دین کے خدام‘‘ بھی نظام فتویٰ و قضا کے حصول کے لیے کوشاں رہتےتھے-امام غزالی نے اپنی کتاب’’ احیاء العلوم‘‘ کو فقہی اسلوب میں اسی لیے لکھا ہے کہ ان کے زمانے میں حصول قضا کے لیے فقہ کی طرف طلبہ کا رجحان بڑھا ہوا تھا- (۴) انھوں نے فقہ اسلامی کو اگر علوم دنیا سے شمار کیا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ ان کی نظر میں فقہ سے معاملات دنیا کی اصلاح ہوتی ہے نہ کہ معاملات عقبیٰ کی(۵)، بلکہ صرف فقہی تفریعات میں انہماک بسااوقات قلب کو سخت کردیتا ہے-(۶)
اس میں کوئی شک نہیں کہ بعد کے ادوار میں علوم میں ارتقا بھی ہوا ،ہرعلم کی نئی شاخیں بھی نکلیں، علم و تحقیق کے میدان میں علما نے داد تحقیق بھی دی، اسی طرح ہر دور میں محدثین، فقہا اور متکلمین کی ایسی جماعت موجود رہی جس کی ہر تگ و دو اخلاص و للہیت کی خاطر تھی، صوفیہ کی ایک جماعت اپنی خانقاہوں اور دائروں میں بیٹھ کر تزکیۂ نفس اور تطہیر روح کا سامان بھی کرتی رہی ،لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ خَيْرُكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ (۷) کے مصداق اسلام کی سادگی، مسلمانوں کا خلوص، آخرت کی فکر اور اطاعت و محبت اسلامی کی لو رفتہ رفتہ مدھم پڑتی چلی گئی-
علوم و اخلاق اسلامی کی تاریخ میں حجۃ الاسلام امام محمد الغزالی کی’’ احیاء علوم الدین‘‘ بڑی اہمیت کی چیز ہے- تاریخ اسلامی کے تقریباً نصف الفیے کے بعد آنے والی یہ شخصیت گذشتہ ہزار سالوں سے علمی، فکری، اخلاقی اور تعمیری مجلسوں کا موضوع بنی ہوئی ہے- ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ ا نہوں نے دین اور علوم دین کے حوالے سے تجدید و احیا کا فریضہ انجام دیا،روحانیت اور عرفان کو علمی استحکام بخشا تو دوسری طرف ان پر یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ غزالی کے بعد علوم طبعیات کی طرف سے مسلمانوں کا رجحان کم ہوگیا- اس الزام میں حقیقت کتنا ہے اور امام غزالی اس کے کہاں تک ذمہ دار ہیں، اس سوال سے قطع نظریہ واقعہ اپنی جگہ مسلم ہے کہ عہد عباسی میں جس طرح مسلمانوں نے یونانی علوم کی بازیافت کرنے کے ساتھ سائنسی علوم کو زندگی عطا کی، بعد کے زمانے میں ان علوم کی امامت یورپ کی طرف منتقل ہوگئی- کیمبرج اور آکسفورڈ جیسی دانش گاہوں میں سائنس اور ٹکنالوجی کی دنیا میں ہر دن نئی دریافتیں ہوتی رہیں اور مسلمان تاج محل اور لال قلعہ کی جمالیات میں گم رہے- مسلمانوں کے دنیوی ادبار اور منصب سیادت سے برطرفی کی ایک بڑی وجہ علوم جدیدہ سے بے پروائی بھی ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا-
اس عہد کا ہمارا ایک بڑا المیہ یہ بھی رہا ہے کہ ایک طرف تو ہم اختلاف امتی رحمۃ (۸)کی معنوی تصدیق بھی کرتے رہے، دوسری طرف ہرنظری اختلاف اور عملی تنوع کو ایک نیا فرقہ گھوشت کر کے اس کے رد و ابطال میں ایسے لگے کہ امت کاہر اختلاف ہمیشہ زحمت ہی بنتا گیا- غزالی، شعرانی اورشاہ ولی اللہ جیسے گنتی کے لوگ ہیں جو فروعیات میں اختلافات آرا کو توسع پر مبنی قرار دیتے رہے اور تکفیر و تضلیل اور داخلی جنگ وجدل کو ہر ممکن طور پر روکنے کی کوشش کرتے رہے، ورنہ عمومی رویہ یہی رہا کہ ہر فروعی عقیدے اور مسئلے کی بنیاد پر فریق مخالف کو گمراہ اور بے دین فرقہ قرار دے دیا گیا اور خامۂ زرنگار ہی نہیں خنجر برق بار چلانے میںبھی کوئی دریغ نہیںکیا گیا-امام شعرانی نے ماوراء النہر کے علمائے احناف و شوافع کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ رمضان کے دنوں میں بھر پیٹ کھا کھا کر ایک دوسرے سے مناظرے کیا کرتے تھے-(میزان الشریعۃ الکبریٰ، للامام عبدالوہاب الشعرانی) یہ اخلاقی پستی، تقلید جامد اور اپنے ائمہ کے تئیں غلومندانہ عقیدت کا نتیجہ تھی- اس قسم کی فکر نے مسلم ذہن کو پستی کی طرف دھکیل دیا اورہر علمی وفرعی اختلاف کو انا (Ego)کا مسئلہ بنادیا، جس کا نتیجہ وہی ہونا تھا جو ہوا- 
مسلم ذہن کی حالیہ تصویر:-
سقوط بغداد (۶۵۶ھ/۱۲۵۸ء) کے بعد مجموعی طو رپر مسلمان احساس کمتری میں مبتلا ہوگئے- عالمی اقتدار کا بھوت ان کے سروں سے اتر گیا- اس میں شک نہیں کہ اس کے بعد بھی کئی مضبوط حکمراں پید اہوئے ،جنہوں نے مسلم حکومتوں کو سنبھالا دینے کی کوشش کی، لیکن سچ یہ ہے کہ عباسی خلافت کی بہاریں واپس نہ ہوسکیں- دوسری طرف سائنسی علوم کا دارالخلافہ بغداد سے غرناطہ اور پھر غرناطہ سے پیرس اور لندن منتقل ہوگیا- 
چودہویں تاسترہویں صدی یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا زمانہ ہے- یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے مثبت و منفی پہلو کا تجزیہ ایک علمی بحث ہے جس کی تفصیل سے قطع نظر، مختصر یہ کہ اس نے دنیا کی تعلیمی، تہذیبی، ثقافتی، سیاسی اور علمی وسائنسی سروری کا سہرا یورپ کے سرباندھ دیا- نشاۃ ثانیہ کے آخری عہد میں استعمارکا عہدشروع ہوگیاجس نے پہلے مغرب کو اور پھرمشرق کو چھوٹی چھوٹی کالونیوں میں تقسیم کردیا- دوسری طرف مسلم دنیا علم و ادب، سیاست و حکومت اور تہذیب و ثقافت ہر سطح پر انحطاط کی طرف بڑھتی رہی- ۱۸۵۷ء میں مغل ایمپائر کے خاتمہ اور۱۹۲۴ء میں خلافت عثمانی کے انحلال کے بعد مسلمانوں کی رہی سہی کسر بھی جاتی رہی-ان دونوں واقعات نے مسلم ذہن کو غیر معمولی طو رپر متاثر کیا - اس کے بعد فکر آخرت میں ضعف کے ساتھ فکر دنیا میں پستی و اضمحلال بھی مسلم ذہن کا حصہ بن گیا-
بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی پوری دنیا میںجمہوریت کی جدوجہد تیز ہوگئی ،جو نصف صدی تک آتے آتے اپنے کمال تک پہنچ گئی اورجمہوریت کا غلبۂ عام ہوگیا، لیکن اس غلبے نے مسلم ذہن کو ایک تیسرے اضطراب سے دوچار کردیا اور وہ تھاروئے زمین سے حاکمیت الہٰ کے خاتمے کا موہوم تصور، جس نے بہت سے درد منددلوں کو مضطرب کردیا- اس اضطراب نے جمہوریت کے تعلق سے مسلم ذہن کو اب تک سنجیدہ نہیںہونے دیا- بیسویں صدی میں مسلم دنیا کو جو آزادی ملی اس کے بعد مختلف چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں قائم ہوگئیں- یہ باشاہتیں اسلامی خلافت کے اجتماعی تصور سے خالی ہیں اور طرفہ یہ کہ مسلکی عفریت نے انہیں ایک دوسرے سے اتنا دور کردیا ہے کہ اتحاد و اجتماع کی امید بھی مفقود ہے- یہ چھوٹی چھوٹی حکومتیں الگ الگ طور پر دنیا کی بڑی طاقتوں سے عہد و فاداری رکھتی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف مغربی طاقتوں کے آلۂ کار کے بطور استعمال ہوتی ہیں- مسلمان جن جمہوری مملکتوںمیں ہیں ،وہاں اب تک وہ اپنی تمدنی حیثیت متعین نہیں کرسکے ہیں- بیسویں صدی کے آغازمیں ’’جمہوریت‘‘ کے حوالے سےدارالاسلام اور دارالحرب کے نقطۂ نظر سے جو سوالات پیدا ہوئے تھے وہ اب تک تشنۂ جواب ہیں اور مسلم ذہن اب تک ان سوالات کے پیچ و خم میں الجھا ہوا ہے- یہ عجیب معاملہ ہے کہ آج جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور انہیں جمہوری حقوق حاصل ہیں وہاں وہ جمہوریت کے تعلق سے شرک فی الحکم والشرع کے واہمے میںالجھے ہوئے اور قیام خلافت الٰہیہ کے حسین تصور میں کھوئے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے وہاںان کی وفاداری اور وطن دوستی مشکوک ہے اور جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں مسلکی بادشاہتیں قائم ہیں ،جس کے تحت پلنے والا ذہن دوسرے مسلمانوں کی تکفیر اور ان کی ریاستوں پر تسلط و اقتدار کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے - فیض و عطا سے محروم، زوال و ادبار سے دوچار مسلم امہ کا یہ بدترین عہد ہے جس سے باہر نکلنے کے لیے اعلیٰ تدبر و تفکر اور پیہم پر امن جدوجہد کی ضرورت ہے، اس کے لیے مسلمانوں کو اپنے بہت سے نظری بت توڑنے ہوں گے اور مکمل متانت و سنجیدگی کے ساتھ مستقبل کا لائحۂ عمل تیار کرنا ہوگا جس کی بنیادرَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً  (البقرۃ:۲۰۱)کے روشنی میں انفرادی و اجتماعی اصولوں پر قائم ہوگی۔
بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ جب عالمی سطح پر جمہوریت کی بالادستی قائم ہورہی تھی، جس کی رو سے قانون کا مقتدر اعلیٰ عوام کو تسلیم کیا جاتا ہے، اس کے خلاف جو مسلم ذہن متحرک ہوا وہ صرف اسلام کی مثالیت (Idealism) کو دیکھ رہا تھا- اسلام کا قانون تدریج (Gradual Law) اور اصول استطاعت(Law of Affordability) اس کی آنکھوں سے اوجھل تھے، جس کے نتیجے میں اس نے جمہوریت کے خلاف باغیانہ روش اختیار کی اور اسلام کی مثالی حکومت خلافت الٰہیہ کے قیام کے لیے پرجوش جدوجہد شروع کردی- آج جب ہم بیسویں صدی کراس کر کے اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کا نصف عبور کرچکے ہیں ،یہ بات دو دو چار کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ خلافت الٰہیہ کی مثالیت پسند اور جمہوریت سے باغی اس فکر نے طالبان اور داعش جیسی خون آشام تحریکیں تو پیدا کردی ہیں، لیکن اپنے مقصد اور نتیجے کے اعتبار سے بالکل صفر ہے- اس کے ساتھ اس نے اسلام کی عالمی بدنامی اور بین المسلمین قتل و غارت کا جو سودا خریدا ہے وہ اس پر مستزاد ہے، جس کے تدارک میں کم از کم اکیسویں صدی کا نصف اول صرف ہو جائے گا-
ہم نے شروع میں یہ واضح کیا ہے کہ جمہوریت سے باغی اور اسلام کی مثالی خلافت کا داعی ذہن وہابی افکار سے تیار ہوا تھا- اس پورے ہنگامے میں اہل تصوف جو مسلمانوں کا سواد اعظم ہیں، اپنی خانقاہوں میں محصور رہے اور ان کی طرف سے خاموشی اور صرف خاموشی رہی- نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا سواد اعظم پس منظر میں چلا گیا، اہل خانقاہ کی تصویر، علمی حلقو ں میں بدنما بن گئی اور مسلمانوں کی قیادت و سیادت سے وہ بہت دور ہوگئے- ادھر مسلمان باہم لڑتے رہے اور اسلام بدنام ہوتا رہا اور زندگی کا حصار مسلمانوں پر تنگ سے تنگ تر ہوتارہا- اس پورے عہد میں تصوف سے متاثرین کی طرف سے جو کچھ ہوا وہ وہابیت کے ردعمل میں چند تکفیری فتوے ہیں اور بس، جن کے زور پر ’’دنیا میں کسی حسنہ‘‘ کی تحصیل ممکن نہیں ہے- اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ اہل تصوف خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کریں، لیکن اس سے پہلے انہیں تفکیر و تدبیر کے جاں سوز مرحلے سے گزرنا ہوگا- اس کے بعد ہی تعمیل و تعمیر کی منزل آئے گی- وہابی تدابیر کی ناکامی کے بعد یہ واضح ہوچکا ہے کہ اب صوفی بصیرت ہی مسلمانوں کو ان کے حالیہ مخمصے سے باہر نکال سکتی ہے- اس لیے آنے والی سطور میں پہلےصوفی نقطۂ نظر کی تعبیر و تفہیم رقم کی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد موجودہ تناظر میں اس کی ممکنہ تطبیق پرگفتگو کی جائے گی-
صوفی نقطۂ نظر کی تعبیر و تفہیم:- 
پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ انسان کامل تھے- مولیٰ تعالیٰ نے انہیں اسوۂ حسنہ کاپیکر بنایا تھا- ظاہر و باطن اور جبروت و ملکوت کے تاجدار تھے- ولایت و نبوت کی انتہائی بلندی پر فائز تھے- آپ کے بعد خلفائے راشدین نے آپ کی نیابت کاملہ کا فریضہ انجام دیا- خلافت راشدہ کے زریں عہد میں خلافت ظاہری (نفاذ شریعت) اور خلافت باطنی (تعلق باللہ) اپنی مکمل شکل میں موجود تھی- خلافت راشدہ کے بعد قوت نافذہ ان کے ہاتھوں میں آگئی جن کا باطن مشکاۃ نبوت سے پورے طور پر روشن نہیں تھا، اس لیے وہ ارباب باصفا جو ایمانی و روحانی طور پر نائب پیمبر تھے، لیکن قوت نافذہ سے محروم تھے، انہوں نے حکومت وقت سے عدم تصادم کی پالیسی کے تحت خانقاہی نظام قائم کیا اور ایمان باللہ، فکر آخرت، تزکیۂ نفس اور تطہیر روح کا غیر معمولی فریضہ انجام دیا- ان کے پاس اپنے پیغام حق کی دعوت و ترسیل کے لیے اخلاق نبوی کے سوا کوئی اور ہتھیار نہیں تھا، جو اتنا موثر ثابت ہوا کہ اگر خلافت ظاہری کے حاملین نے ،جو بعض دفعہ فاسق و فاجر بھی تھے، کرۂ ارض کو فتح کیا تو خلافت باطنی و روحانی کے امین ان پاک نفس درویشوں نے بندگان خدا کے دلوں کو فتح کرلیا اور دعوت و تبلیغ کا غیر معمولی فریضہ انجام دیا، بلکہ جن بنجر زمینوںپر مسلم خلفا و سلاطین کی تلواریں ٹوٹ گئیں، ان فاقہ مست درویشوں نے وہاں سے بھی ضرب خلق محمدی کے ذریعےچشمے ابال دیے-
تصوف کی تعریف و تفہیم کے لیے مختلف تعبیرات کا استعمال کیا جاتا ہے ،جن کا خلاصہ میں نے سطور بالا میں پیش کردیا - تفہیم مزید کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تصوف اسلام کا احسانی پہلو ہے- حدیث جبریل میں ایمان و اسلام کے بعد احسان کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے: ان تعبداللہ کانک، فان لم تکن تراہ فانہ یراک اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کیفیت میںکرو، گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، یا اس کیفیت میں کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے، گویا تصوف کا سبق تمام تر مشاہدہ و مراقبہ کی تفصیلات و تشریحات سے عبارت ہے- تزکیۂ قلب اور تطہیر روح جو اہم ترین فریضۂ نبوت ہے، انہوں نے اسی بنیادی کاز کے لیے اداکیا-
تصوف کو اسلام کا باطنی پہلو بھی کہا جاتا ہے- اس اعتبار سے تصوف مسلمانوں کا داخلی اور باطنی علاج کرتا ہے- ظاہر ہے کہ شروفتن کا سارا گہوارہ انسان کا باطن ہوتا ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کے باطن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ صالح ہے تو پورا بدن صالح ہے اور اگر وہ فاسد ہے تو پورا بدن فاسد ہے-(صحیح البخاری، کتاب الایمان، بَابُ فَضْلِ مَنِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ) اس اعتبار سے موجودہ عہد میں تصوف ہی مسلمانوں کے تمام تر فسادات کا ازالہ کرسکتا ہے- تصوف کے اندر وہ اثر انگیزی ہے کہ وہ انفرادی و اجتماعی ہر سطح پر مسلمانوں کے داخلی فساد کا ازالہ کرسکتا ہے ،جس کے بعد ظاہری فساد کا ازالہ سہل تر ہوجاتا ہے-
تصوف کو اسلام کا اخلاقی پہلو بھی کہا جاتا ہے- اس کے معنی یہ ہیں کہ تصوف کی طاقت قانونی نہیں اخلاقی ہے، اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اخلاقی طاقت قانونی طاقت سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے، نیز یہ کہ قومیں اپنے زوال و ادبار کے زمانے میں اخلاقی سطح پر بہت نیچے آجاتی ہیں- ان کی صداقت و امانت اور شجاعت و عدالت مشکوک ہوجاتی ہے- آج مسلمانوں کی کیفیت بھی یہی ہے- ایسی صورت میں مسلمانوں کا اخلاقی علاج ایک واجبی فریضہ بن گیا ہے، تصوف جس کا حکیم حاذق ہے-
تصوف درحقیقت حیات رسول کا مکی ماڈل ہے- تصوف یہ بتاتا ہے کہ جب نفاذ شریعت کے لیے قوت نافذہ نہ ہوتو اس وقت کس طرح پرامن طریقے سے ایمان کی دعوت دی جاتی ہے اور جہد مسلسل اور صبر پیہم کے ساتھ زمین ہموار کی جاتی ہے- تصوف ابوجہلوں اور ابولہبوںسے تصادم کے بجائے اعراض کی دعوت دیتا ہے- تصوف کفر و شرک کے تغلب کی صورت میں بت شکنی کے بجائے دلوں میں توحید کی جاگزینی کی حکمتیں بتاتا ہے- تصوف بتاتا ہے کہ جب مسند اقتدار پر کفار و مشرکین قابض ہوں تو کس طرح صداقت، امانت اور انصاف و انسانیت کی شمع جلا کر قلوب کو روشن کیا جاتا ہے- اس مکی حکمت سے ہی صدیق و عمر اور عثمان و علی پیدا ہوتے ہیں، یہی حکمت بلال، عمار بن یاسر، سلمان فارسی اور زید بن حارثہ جیسے جاں سوز اور سرفروش پیدا کرتی ہے-اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں صرف حیات رسول کامدنی عہد ہی نہیں دیکھنا چاہیے، مکی عہد سے بھی کسب فیض کرنا چاہیے، تصوف جس کا داعی ہے- رسول اللہ ﷺ کی پوری زندگی بغیر کسی تخصیص واستثنا کے اسوۂ حسنہ ہے-
اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :الْخَلْقُ عِيَالُ اللَّهِ(المعجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد) صوفیہ نے اس کی توضیح مزید کرتے ہوئے فرمایا: تخلقوا باخلاق اللہ(احیاء العلوم،كتاب المحبة والشوق والأنس والرضا،بيان أن المستحق للمحبة هو الله وحده)  اللہ کریم جس طرح تخلیق، تربیت اور فیض و عطا میں مطیع و عاصی کا فرق نہیںرکھتا تم بھی نہ رکھو- اس پہلو سے اسلام کی وہ تصویر سامنے آتی ہے جس کا مخالف کوئی نہیں ہے- اس نقطۂ نظر سے اگر عالمی سطح پر اسلام کو پیش کیا جائے تو دوسری قومیں غیر معمولی طو رپر اسلام سے متاثر ہوں گی اور اس کے دامن رحمت سے وابستہ ہوں گی-
بخاری کی کتاب الرقاق کی ایک روایت کے مطابق بندہ فرائض کے ذریعے اللہ کریم کی قربت حاصل کرتا ہے، پھر نوافل کے ذریعے اللہ کے اس مقام قرب پر پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی زبان ،حق کی زبان بن جاتی ہے اور اس کا ہاتھ، حق کا ہاتھ بن جاتا ہے-(۹) عام مسلمانوں کے بالمقابل صوفیہ کا ایک نشان امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ فرائض و واجبات پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے ساتھ حتیٰ المقدور نوافل کی طرف بھی پیش قدمی کرتے ہیں- صوفیہ کا یہ رویہ صرف نماز و روزہ ہی تک نہیں بلکہ حج و زکات اور حسن سلوک کے تمام پہلوؤں میں نظر آتا ہے- ظاہر ہے کہ یہ ایسا طریقہ ہے جس سے بیک وقت رضائے مولیٰ اور قبولیت خلق دونوں باتیں حاصل ہوتی ہیں- صوفیہ اگر دونوں جہان میں سرخرو ہوئے تو اس کی وجہ یہی تھی اور یہ طریق کار آج کی مضطرب انسانیت کو بھی سکون قلبی اور محبت و طمانیت کی سوغات دینے کی مکمل قوت رکھتا ہے-
صوفیہ کی حکمت ،اعراض اور عدم تصادم کی پالیسی بھی موجودہ حالات کے عین مطابق ہے- مسلمان اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ کھل کر تمام احکام اسلامی اور قوانین الٰہی کا نفاذ کرسکیں- یہ تلخ حقیقت ہمیں بہر طور تسلیم کرنا ہوگا کہ مسلمان حالت یُعلیٰ میں ہیں حالت یَعلو میں نہیں ہیں- ایسی صورت میں مثالی شریعت کے نفاذ کی دعوت مبنی براخلاص تو ہوسکتی ہے، مبنی برحکمت نہیں- اسلام کی دعوت ہمہ دم حکمت بالغہ کی روشنی میں ہوئی ہے اور حکمت زمانہ یہ ہے کہ مسلمان کوئی ایسی بات نہ کہیں اور کوئی ایسا عمل نہ کریں جس سے تصادم کی صورت پیدا ہو- بیسویں صدی میں ہونے والے تصادم کے تمام واقعات مسلمانوں کی تباہی پر منتج ہوئے- آزمودہ را آزمودن حماقت است کے بموجب مسلمانوں کے لیے مزید اب جائز نہیں ہے کہ وہ تصادم کے کسی واقعے میں شریک ہوں- صوفیہ کی حکمت عدم تصادم ہی عین تقاضائے زمانہ ہے-
صوفیہ کے یہاں ایک بات اور نمایاں نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ ان کا ہر قول و عمل مقاصد شریعت کی روشنی میں صادر ہوتا ہے، وہ لکیر کے فقیر نہیں ہوتے- مقاصد شریعت پر ان کی نظر اتنی گہری ہوتی ہے کہ وہ دین پرمسلک کو قربان کردیتے ہیں، کبھی مسلک پر دین قربان نہیں کرتے- صوفیہ کے قول الصوفی لا مذہب لہ  کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے-امام کبیر شیخ سید علی ہمدانی کے بارے میں کہاجاتا ہےکہ وہ شافعی المسلک تھے- جب وہ اپنے سات سو مریدین کے ساتھ کشمیر میں آئے تو دیکھاکہ یہاں احناف کے توسط سے اسلام پہنچ گیا ہے- انہوں نے سوچا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں پرحنفیت و شافعیت کامسئلہ اسلام کی دعوت میں مخل ہوجائے،انہوںنے اپنے تمام مریدین سمیت حنفیت اختیار کرلی- خواجہ نظام الدین اولیا کے ممتاز فقیہ خلیفہ علامہ فخرالدین زرادی نے کشف القناع عن اصول السماع کے مقدمے میں لکھا ہے کہ صوفیہ کا مسلک احتیاط ہے، اس لیے ان پر کسی فقیہ کا فتویٰ حجت نہیں ہے- مقاصد شریعت کے پیش نظر ہی ان کی دعوت میں حکمتِ تدریج اعلیٰ سطح پر پائی جاتی ہے- سب سے پہلے وہ دلوں سے الحاد کو کھرچتے ہیں، پھر شرک کو مٹاتے ہیں، پھر کفر کا صفایا کرتے ہیں، پھر احکام ظاہری کی دعوت دیتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ باطنی کدورتوں کو صاف کر کے انسان کو ملکوتی صفات کا حامل بنادیتے ہیں-
المختصر! صوفیہ صافی القلب ہونے کے ساتھ صاحب دل، صاحب نظر اور صاحب حکمت ہوتے ہیں- ان کے اخلاق سب سے عمدہ اور ان کی بصیرت و حکمت سب سے گہری اور دوربیں ہوتی ہے- وہ لفظوں کے بازی گر نہیں معانی کے غواص ہواکرتے ہیں-
صوفی نقطۂ نظر میں تدریجی ارتقا:-
صوفی نقطۂ نظر کے ارتقا کے تعلق سے کسی درویش کا یہ جملہ بڑا جامع اور بامعنی ہے:’’ تصوف پہلے ایک بے نام حقیقت تھا ، اب بے حقیقت نام ہے-‘‘اس سے تصوف کے تین ادوار واضح ہوتے ہیں:
پہلا دور:- جب حقیقت تصوف بہ تمام و کمال موجود تھی، مگر اسے تصوف نہیں کہاجاتاتھا،اسے زہد و تقویٰ اور احسان کہا جاتاتھا- یہ عہدنبوی اورصحابہ و تابعین کا دورہے،یا اس سے بھی وسیع تناظر میں اس کی ابتدا حضرت آدم صفی اللہ کی توبہ و استغفار سے ہوتی ہے-مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری اسی خیال کے حامی ہیں-(۱۰)
 دوسرا دور:- تصوف کا دوسرا دور اس وقت سے شروع ہوتا ہے، جب مسلمانوں میں طلب دنیا اور حب جاہ عام ہوگئی اور مسلمان حدیث رسول کے مطابق دنیا کی طرف ٹوٹ پڑے- (۱۱) نئے نئے افکارو خیالات اور ضلالات کا مسلم سماج میں داخلہ ہوا- ان گمراہیوں سے امتیاز کے لیے وہ مسلمان جو حقیقی لذت ایمان سے آشنا تھے،جواسلام کے مثالی زہد و تقویٰ سے مزین تھے،صوفی کہلائے جانے لگے اور ان کی مخصوص ایمانی واحسانی روش کو تصوف کہاجانے لگا- امام ا بوالقاسم قشیری نے رسالۂ قشیریہ کے آغاز میں اس نقطۂ نظر کا اظہار کیاہے- (۱۲)
تیسرا دور:- تصوف کا تیسرا دور وہ ہے جس میں تصوف کو حصول دنیا کا ذریعہ بنالیاگیا-فقیروں کے بھیس میں قبروں کے پاس بیٹھ کر نذرو نیاز کا انتظار کیا جانے لگا- تصوف کایہ بد ترین دور اس وقت اپنے شباب پر ہے-تصوف کے نام لیواؤں کی طرف سے تصوف کے اوپریہ اتنا بڑا ظلم ہے جس کی مثال مخالفین تصوف بھی پیش نہیں کرسکتے-لباس صوف اور خرقۂ ولایت کا جس طرح مذاق تصوف کے نام لیوا اڑا رہے ہیں، یہ صرف انہی کا حصہ ہے-
مخدوم گرامی ،عارف ربانی، شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی مد ظلہ النورانی اپنے مخصوص انداز میں فرماتے ہیں کہ شیخین کے عہد میں آفتاب نبوت کی تابانیاں نصف النہار پر تھیں- ان کی تیز شعاؤں میں ماہتاب ولایت نگاہوں سے او جھل ہوگیاتھا-عہد عثمانی میں آفتاب نبوت کا جاہ وجلال اور نظام دین کی روشنی مدھم پڑنے لگی اور ولایت کا اجالا غالب ہونے لگا- حضرت عثمان اسی لیے ذوالنورین ہیں کہ ان کے ابتدائی عہد میں آفتاب نبوت کا اجالا غالب تھا، جب کہ اواخر عہد میں ماہ تاب نبوت کی تابانیاں بڑھ گئی تھیں- حضرت علی کے آخری عہد میں آفتاب نبوت کی کرنیں مزیدمدھم ہوگئیں اور ولایت کا ماہ کامل آسمان دنیا پر پورے جاہ و جلال کے ساتھ طلوع ہو گیا- آفتاب نبوت کی کرنیں شفق میں چھپتی چلی گئیں اور اس طرح نظام خلافت و حکومت دن بدن بد سے بد تر ہوتا گیا- محبوب سبحانی سیدنا عبد القادر جیلانی کے عہد سے لے کر محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیا کے عہد تک ماہتاب ولایت نصف فلک پر روشن و تاباں رہا-اس کے بعد یہ ماہ تاب بھی ڈھل گیا اور ڈھلتا چلا گیا اور اب مائل بہ غروب ہے-
خانقاہ عالیہ عافیہ سید سراواں کے مسند نشیں شیخ ابو سعید صفوی کے مذکورہ بالا استعار اتی الفاظ میں تصوف کے عروج و ارتقا اورزوال و ادبار کی داستان کی ایک مجمل ،مگر واضح تصویردیکھی جاسکتی ہے-مذکورہ استعاراتی کلمات میں چھپے جہان اسرار ومعانی کوسمجھنا اور ان کی داد دینا یہ صرف اہل نظرکا حصہ ہے- 
تصوف کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تصوف اور فلسفے کے ملاپ کا ہے -ہر فکر اور ہر نظریہ تاریخی ادوار سے دوچار ہوتا ہے-تصوف بھی اس تاریخیت سے مستثنیٰ نہیں ہے-ہاں! اس ارتقائی مرحلے میں خصوصیت کے ساتھ تنہا تصوف کا مطعون و مظلوم ہونا یہ استثنائی واقعہ ضرور ہے-یونانی افکار سے تصادم کے بعد مسلمانوں نے عقلی بنیادوں اور اصطلاحوں کے ساتھ عقائد اسلام کی تفہیم کو ضروری سمجھا ،نئے مسائل و مباحث سے نمٹنے کے لے قرآن وسنت سے استدلال کے لیے فقہانے نئے اصول و ضوابط اور اصطلاحات بنائے ،اسی طرح جب عرفان اسلامی کے حاملین کا تصادم عجمی نظریات معرفت سے ہوا ، تو انہوں نے بھی عرفان اسلامی کی تفہیم کے لیے نئی اصطلاحیں وضع کیں - ایسی صورت میں فقہ و عقائد کے جدید مباحث و اصطلاحات سے یکسر صرف نظر کرتے ہوئے صرف عرفان اسلامی کی نئی تعبیرات و تشریحات کے خلاف طوفان برپا کیا جانا  ایک ناقابل فہم معمہ ہے-اسی طرح متکلمین اور فقہا کی اصطلاحات کوکوئی شخص کتب لغت اور لفظیات عرف سے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا،پھر صوفیہ کی اصطلاحات کو نہ جانے کیوں لغت اور روز مرہ کی تعبیرات سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے-(۱۳) دل چسپ بات یہ ہے عہد وسطیٰ کے صوفیہ نے اپنے روحانی تجربات و احوال کے بیان کے لیے شاعری کا سہارالیا ، جس کے متعدد اسباب ہیں، شاعری کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں تلمیح ،کنایہ،استعارہ اور ایہام کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے-عام شعرا کے خیالات کی واقعی تفہیم اور ان کے الفاظ سے ان کی افکارومعانی تک پہنچنا کارے دارد، پھر صوفیہ کی عارفانہ شاعری کو لفظی ترجمے کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرنا شعر وادب کے ساتھ عشق و عرفان پر بھی بڑی زیادتی ہے-المختصر! تصوف فلسفہ وشاعری کی اصطلاحات کے ساتھ آگے بڑھا- اس تصوف کواگر ہم لفظی طورپر سمجھنا چاہیں تو ہماری جہالت اور عناد دونوں مل کر ہمیں کہیں سے کہیں پہنچا سکتےہیں-
فلسفیانہ تصوف اور صوفیانہ شاعری کا سمجھنا صرف مخالفین تصوف کے لیے ہی مشکل اور پیچیدہ نہیں ہے،تصوف کے نام لیوا بھی بعض دفعہ اپنی جہالت کے سبب کچھ کا کچھ مطلب سمجھ لیتے ہیں-مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے وحدۃ الوجود کی لفظی تفہیم سے پیدا شدہ اسی قسم کی افراط و تفریط کا علاج کیا، جس کا سلسلہ آج بھی تحقیق ،علمیت اور اعتدال کے ساتھ جاری رہنا چاہیے -
یہاں ایک واقعہ لکھنا بر محل ہوگا- گذشتہ دنوں مخالفین تصوف کے ایک نسبتاً معتدل شخص سے میری گفتگو ہو رہی تھی- انہوں نے وحدۃ الوجود کے معنی دریافت کیے-میں نے قدرے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیے، جس کے بعد وحدۃ  الوجود پر شرک کا الزام خود بخود رفع ہوگیا- موصوف کہنے لگے: بتایئے آپ کو اتنی تفصیل میں جانا پڑا تب اس کاصحیح مفہوم بیان کر سکے-میں نے عرض کیا: فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (البقرۃ:۱۱۵)کے معنی تفصیل میں جائے بغیرآپ مجھے سمجھا دیجیے- اس آیت کا مفہوم بھی ہمیں تفصیل میں جائے بغیر سمجھادیجیے جس میں اللہ رب العزت نے فرمایاہے کہ ہم نے اس امانت کو پہاڑوں پر پیش کیا توانہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور انسان نے اسے قبول کر لیا جو کہ ظالم وجاہل ہے- (الاحزاب:۷۲)میں نے عرض کیا تشبیہات ،استعارات ،مجازات ،کنایات اور اصطلاحات کو ریاضی کے اصولوں کی روشنی میں دو دو چار کی طرح نہیں سمجھا جاسکتا-اس میں تفصیل و توضیح ضروری ہے،جو اہل فن ہی کر سکتے ہیں-
’’تاریخ مشائخ چشت ‘‘میںپروفیسرخلیق احمد نظامی نے صوفیہ کے طبقۂ اولیٰ میں اویس قرنی، حسن بصری،مالک دینار،محمد واسع، حبیب عجمی،فضیل بن عیاض، ابراہیم ادہم وغیرہ کو شمار کیا ہے- ان کی خصوصیات میں خشیت الٰہی ،انفرادیت ، تصنیف کتب کی ابتدا اور حکومت و سلطنت سے علاحدگی نمایاں ہیں-
خلیق نظامی کے بقول تصوف کا دوسرا دور ۸۵۰ ءکے بعد سے شروع ہوتاہے-اس عہد میں یونانی علوم کی درآمد ہو چکی تھی- اس عہد کی خصوصیات میں عقلیت پسندی کے آزار سے اعراض اور عشق الٰہی پر اصرار نمایاں ہیں،اسی طرح فلسفہ کی ذہنی لامرکزیت سے گریز اور قلبی مرکزیت پر ارتکاز بھی اس عہد کی بڑی خصوصیت ہیں-
تصوف کا تیسرا دور دسویں صدی عیسویں سے متعلق ہے - اس عہد کے صوفیہ نے فقہی حیلہ سازیوں سے بچنے کے لیے پورا زور تزکیۂ نفس اور اصلاح باطن پر دیا-اس عہد کے صوفیہ میں شیخ ابو سعید ابن العربی، شیخ ابو محمد الخلدی، ابو نصر سراج، ابو طالب مکی، شیخ ابو بکر، ابو عبد الرحمن سلمی وغیرہ قابل ذکر ہیں- اس عہد کے صوفیہ نے قانونی اور علمی حیلہ سازیو ں کے خاتمے کے لیے لوح و قلم سے رشتہ جوڑا اور تصوف پر علمی کتابیں وجود میں آئیں-ا سی مقصد تزکیہ و تصفیہ کے لیے صوفیہ متقدمین کے تذکرے لکھے گئے،جن میں ابو سعید ابن العربی کی طبقات ،ابو محمد الخلدی کی حکایات الاولیااور ابو عبد الرحمن سلمی کی طبقات الصوفیہ اہم ہیں-بعد میں اسی روش پر شیخ الاسلام عبد اللہ انصاری نے طبقات صوفیہ اور مولانا جامی نے نفحات الانس لکھی- اس عہد کی تصنیفات میں صوفیہ نے اس بات پر خاص زور دیا کہ تصوف شریعت سے کوئی الگ راہ نہیں ہے- ابو طالب مکی کی قوت القلوب اور شیخ ابو بکر کی التعرف لمذھب اہل التصوف اس حوالے سے اہم تصانیف ہیں- اس عہد کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں منطق و فلسفہ کی طرح علم تصوف کے لیے بھی اصطلاحیں وضع ہو ئیںاور تصوف کو فنی درجہ ملا-خلیق نظامی نے ابو نصر سراج کی ’’کتاب اللمع‘‘ کو اس عہد کی سب سے اہم تصنیف قراردیا ہے ،جس میں تصوف کے بنیادی تصورات اور بطور خاص تصحیح نیت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے- اس عہد میں صوفیہ کے مختلف گروہ بننے لگے تھے-شیخ علی ہجویری نے صوفیہ کے دس مقبول اور د و مردود گروہوں کا تذکر ہ کیا ہے- حلولیہ اور حلاجیہ کو مردود گروہ صوفیہ میں شمار کیا ہے-
گیارہویں، بارہویں اورتیرہویں صدی کے آتے آتے تصوف کا پورا نظام فلسفہ اپنی تکمیلی شکل میں مدون ہوگیا- صوفی لٹریچر کا ایک بڑا ذخیرہ وجود میں آگیا اور صوفیانہ سلاسل بہت ہی ممتاز اور نمایاں شکل میں وجود میں آگئے- گیارہویں صدی کے بزرگوں میں ابو نعیم اصبہانی ، ابو القاسم قشیری، شیخ علی ہجویری،شیخ عبد اللہ انصاری، شیخ ابو سعید ابوالخیراور ان کی تصنیفات حلیۃ الاولیا ،رسالہ قشیریہ، کشف المحجوب، منازل السائرین اور رباعیات ابوالخیر یاد گارہیں- بارہویں صدی کے سب سے نمایاں صوفی امام غزالی اوراس صدی کی شہکار تصنیف احیاء علوم الدین ہے- اس عہد کی دوسری بڑی شخصیت سیدنا عبد القادر جیلانی کی ہے ،جنہوں نے اپنے مواعظ و نصائح سے دلوں کو گرمادیا اور تربیت نفس اور تجلیۂ روح کا غیر معمولی کارنامہ انجام دیا- شیخ ابونجیب عبد القاہر سہروردی ، محی الدین ابن عربی اور شیخ شہاب الدین سہروردی جیسے مشاہیر بھی اسی عہد سے تعلق رکھتے ہیں- ابن عربی نظریۂ وحدۃ الوجود کے بانی و شارح کے طور پر جانے جاتے ہیں،جب کہ شیخ شہاب الدین سہروری عوارف المعارف کے سبب محافظ حدود شریعت کے طور پر اپنی شناخت رکھتےہیں- اس کے بعد کے عہد میں نظریۂ وحودۃ الوجود تصوف کا علامتی نشان بن گیا- اپنے بعد بڑے بڑے دماغوں کو متاثر کرنے کے ساتھ اس نظریے نے مخالفین تصوف کے لیے جو ازمخالفت کی راہ نکال دی-
اس صدی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس عہد میں بڑے بڑے صوفی شعر اپیدا ہوئے اور انہوں نے شاعری کے توسط سے صوفیانہ افکار کو عوامی مقبولیت دینے کا فریضہ انجام دیا -نمایاں شعرا میں حکیم سنائی، نظامی گنجوی اور عطار کے نام لیے جا سکتے ہیں-مولانا روم،سعدی،اوحدی اور عراقی کا ذکر بھی اس سیاق میں واجب ہے-اس کے بعد تیرہویں صد ی میں تصوف اپنے ارتقائی معراج پر پہنچ گیا-بقول خلیق نظامی:
’’تیرہویں صدی عیسوی میں روحانی سلاسل وجود میں آئے اور ان کی تشکیل سے تصوف کی تحریک میں ایک نئی جان پڑگئی- اسلامی تصوف کی تاریخ تیرہویں صدی میں ہر اعتبار سے مکمل ہو جاتی ہے -حقیقت میں یہ سلاسل اس کے ارتقا اور نشو نما کی آخری منزل ہیں- آئندہ صدیوں میں تصوف کی تحریک؛ زوال و انحطاط اوراصلاح و تجدید کی مختلف حالتوں سے گزرتی رہی، لیکن بنیادی طور پر نہ اس کے فلسفے میں کوئی اضافہ ہوا، نہ اس کے عملی پر وگرام میں کوئی تبدیلی-‘‘(تاریخ مشائخ چشت،۱۲۴،۱۲۵،ندوۃ المصنفین دہلی، ۱۹۸۵ء)
ہندوستان کی مٹی میں تصوف کی روح پھونکنے والے خواجہ معین الدین چشتی (۱۲۳۶ء) شیخ قطب الدین بختیار کاکی (۱۲۳۶ء) بابا فرید گنج شکر (۱۲۶۵ء) اور حضرت نظام الدین اولیا (۱۳۲۵ء) اسی عہد ارتقا کی زینت ہیںجن کے بعد تصوف کا ماہ کامل گہن آلود ہو گیااور ہر آنے والے دن اس کی روشنی اور مدھم ہو تی چلی گئی- اس کے ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتاکہ اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے آسمان ولایت پر بعض روشن ستارے طلوع ہوتے رہےاور گم گشتہ گان راہ حقیقت کی رہبری و رہنمائی کا فریضہ ادا ہوتارہا-
صوفی نقطۂ نظر کی حالیہ تصویر:-
تصوف کبھی ایک بے نام حقیقت تھا اور اب ایک بے حقیقت نام ہے- ایسا لگتاہے کہ کسی درویش نے یہ جملہ موجود ہ عہد کے لیے ہی کہاتھا،اس لیے کہ اس کی معنویت جس قدر موجودہ عہد میں نکھر کر سامنے آئی ہے، ماضی میں اس کی مثال نہیں مل سکتی-راقم السطور آج سےدس بارہ سال پہلے کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس غلط نتیجے پر پہنچا تھا کہ اب صوفیہ کی قبروں پر صرف فاتحہ ہی پڑھی جاسکتی ہے، ان کی صحبت میں بیٹھ کر دو بہ دو استفادہ نہیں کیا جاسکتا-اللہ کا شکر ہے کہ عالم عرب کے نام ور صوفی عالم دین شیخ عبدالقادر عیسیٰ رحمہ اللہ کی تالیف حقائق عن التصوف سے استفادہ اور بعض میرے ذاتی تجربات نےمیری دست گیری کی اور اس فکر پریشاں سے نجات ملی- لیکن اس کے باوجوداس اظہار میں کوئی تامل نہیں کہ ارباب عرفان حقیقی کے استثنائی وجود و امکان سے قطع نظر یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ تصوف کی حالیہ صورت حال سخت تکلیف دہ ہے -اقبال نے ایک صدی قبل تصوف کاجوالمیہ لکھا تھا، وہ آج فزوں تر ہو گیا ہے:
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن، تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے
تصوف کی حالیہ تصویر بالعموم جہالت کی تصویر ہے ۔جنہیں میراث میں مسند ارشاد ملی ہے تعلیم و تعلم کی زحمت بھلا وہ کیوں اٹھائیں؟ بہ مشکل تمام ۱۰؍فیصد جو تعلیم یافتہ ہیں وہ علم دین سے دور ہیں اور شاذو نادر جنہوںنے علم دین حاصل کر بھی لیا ہے، وہ اس تربیت سے دور ہیں، جو ایک انسان کو کبرو انا کے دلدل سے نکال کر آدمیت و عبدیت کے مقام تک پہنچاتی ہے - خانقاہوں کا عمومی جائزہ بتاتاہے کہ اصلاح و تزکیہ کی مسند پر جلوہ افروز حضرات خود انتہائی حد تک غیر مزکی، شریعت سے دور، دنیا کے حریص، کبرو نخوت کے خوگر اور انسانیت وآدمیت کے جوہر سے محروم ہیں- غیر مزکی افراد کے ذریعے تزکیہ و تطہیر کا بے کیف عمل موجود ہ احسان و سلوک کا سب سے بڑا المیہ ہے-
درگاہوں اور خانقاہوں میں ارباب ثروت کی آمد کے منتظر معاصر صوفیہ کا یک وصف اور بہت ہی Common ہے اور وہ ہے تحقیر شریعت-فرائض وواجبات سے غافل ،رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس مستصوفین ،زائرین کی مرادوں کے برآنے کی ایسی بشارتیں سناتے ہیں جیسے کتاب تقدیر ان کے ہاتھوں میں تھمادی گئی ہو اور حذف واضافے کے جملہ حقوق ان کے نام محفوظ کر دیے گئے ہوں- اس پر طرفہ یہ کہ شریعت کے احکام فرائض وواجبات کے تعلق سے ان کے اندر ایسی بے اعتنائی پائی جاتی ہے،جیسے ان کا عرفان ان چند رسمی احکام سے بہت بلند ہو چکاہو- شریعت سے غفلت عموماً شریعت کی تخفیف تک پہنچی ہوتی ہے مگر سر پر دستار انا اس سلیقے سے سجی ہوتی ہے کہ کیامجال کہ کوئی اصلاح کی بات کر دے اور پھر صحت کے ساتھ آگے بڑھ جائے-
خانقاہیت کی درگاہیت میں تبدیلی نے گذشتہ کئی صدیوں سے تصوف کوایک سود مند تجارت بنا رکھا ہے- خانقاہ جس کی اصل خان گاہ بمعنی جائے مرشد بتائی جاتی ہے، درگاہیت کی آمد کے بعد پھولوں اور چادروں کی منڈی میں تبدیلی ہو گئی ہے،جہاں بیٹھے ہوئے لوگ گمراہوں کی ہدایت اور پریشاں حالوں کی دست گیری کے بجائے نقد داموں پر جنت کا بیوپار اور مرادوں کا سودا کرتے ہیں-تقسیم کے بعد بچ جانے والی چادروں کو پھاڑ پھاڑ کر باہم تقسیم کرنے والے یہ مجاورین، صاحب قبر کے حضور زائرین کی فریادوں کی اس انداز میں پیش کرتے ہیں، جیسے ان کا رابطہ براہ راست طور پرعالم روحا نیت سے ہو اور انھیںایسا تصرف باطنی حاصل ہو کہ وہ جب اور جس کی مراد چاہیں صاحب قبر سے پوری کراسکتے ہیں-ان کے ڈرامائی انداز سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صاحب قبر نے ان مجاورین کو آرڈر بکنگ پر لگا رکھا ہے اور وہ مستقل طور سے مرادو ں کی جھولیاں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں: 
اگریہ زہد ہے ،تقویٰ ہے اور تصوف ہے
کوئی بتائے پھر انداز آزری کیاہے
تصوف کے معاصر نام لیواؤں کا ایک بڑا طبقہ وہابی رد عمل کا نفسیاتی مریض ہے-وہابی جس شدت کے ساتھ تصوف کے انکار اور متصوفین کو مشرک ومباح الدم قراردینے پر تلے ہوئے ہیں ،صوفیہ کی جانب سے اسی شد ومد کے ساتھ وہابیہ کو گستاخ رسول اور کافر قرار دیاجارہاہے-وہابیہ کی طرف سے جس بے باکی سے صوفیانہ رسوم واعمال پر حرام و شرک ہونے کے فتوے دیےجارہے ہیں ،اسی جرأت اور حوصلے کے ساتھ متصوفین کے یہاں بد عات پر ستی، غلو اور شدت کا مظاہرہ ہو رہا ہے- اگر وہابیہ توسل اور استغاثہ کو کفر والحاد سمجھ رہے ہیں تو متصوفین نےعبادت و ریاضت اور زہد و توکل سے بے نیاز، حضور حق میں آہ و فغاں سے بےپروا،صرف مشائخ سے توسل اور استغاثہ کو ہی اپنا کل ’’عمل صالح‘‘ بنا رکھا ہے-وہابیہ اگر اپنے موقف میں انتہائی حد تک غالی ، سخت دل اور خشک طبع ہیں تو تصوف کے نام لیوا بھی فتوی بازی اور دوسروں کے ساتھ بد اخلاقی اور بد تمیزی میں پیچھے نہیں ہیں- المختصر! رد عمل کی نفسیات نے معاصر دنیا میں تصوف کے بہت سے نام لیواؤں کو عملاً وہابیت کی ڈگر پرڈال دیا ہے اور ایک وصف جس نے متصوفین زمانہ کو توہب پسندوں سے بھی آگے کر دیاہے، وہ یہ ہے کہ وہابی افکار کے حاملین اپنے تمام تر باطنی فساد کے ساتھ ظاہر شریعت پر سختی سے کاربند ہیں،جب کہ باطنیت کے یہ جھوٹے مدعیوں نے شریعت کے ظاہری اور واجبی احکام سے بھی خود کومستثنی قراردے رکھا ہے،پھرالظاہر عنوان الباطن کے آئینے میں ان کی باطنی دنیا کی شادابی کا بھی بھر پور اندازہ لگایا جاسکتاہے-
حقیقی صوفی شریعت کی مکمل پاس داری کے ساتھ اضافی رسم و راہ پر عامل ہوتا ہے، پابندمراسم نہیں ہوتا- اس کی عقابی نگاہیں مصالح و مقاصد اور ثمرات و نتائج پر ہوتی ہیں- وہ لفظوں کا اسیر نہیں بحر معانی کا غواص ہوتاہے، لیکن موجودہ عہد کے حاملین تصوف کا فکری وعملی مطالعہ بتاتاہے کہ وہ حقائق ومعانی کی دنیا سے کوسوں دو ربندۂ رسوم و عادات بن کر رہ گئے ہیں-حدیث نبوی کے مصداق حقیقی صوفیہ ہر زمانے میں دین کی تائیدونصرت کے لیے ’’سنن حسنہ‘‘ ایجاد کر تے رہے(۱۴)، جب کہ موجودہ متصوفین کا عمومی حال یہ ہے کہ وہ ہر نئ رسم کو اسا س دین اور روح شریعت سمجھ کر اس کی مقصدیت سے قطع نظر، اس کے تحفظ و بقاپر اس طرح مصر نظرآتے ہیں کہ اس کے لیے فرائض و واجبات بھی چھوڑنے پڑیں تو اس میںوہ ذرہ برابر دریغ نہیں کرتے -اعراس مشائخ کی عمومی محافل کا جائزہ لیجیے،فاتحہ کی مجلس میں گھنٹہ اور منٹ کی مکمل پاس داری کے ساتھ شرکت ،ہر زائر عرس کا اولین فرض معلوم ہوتی ہے،جب کہ نماز پنج گانہ کے وقت مسجدوں کی حاضری اختیاری اورOptional سمجھی جاتی ہے-یہ معکوس روحانیت سالکین کو کس مقام سے آشناکرائے گی ہم پر مخفی نہیں ہے-
یہ تمام امور ومسائل اس بات کو واجب کرتے ہیں کہ موجودہ عہد میں پائے جانے والے صوفیانہ نقطۂ نظر میں اصلاح و تجدید حتمی طور پر کی جائے-
صوفی نقطۂ نظر میں اصلاح و تجدید:-
معاصر حالات کے تجزیہ کے بعد اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ معاصر صوفی نقطۂ نظر میں اصلاح و تجدید کی ضرورت کس قدر بڑھ چکی ہے-صوفی فکر کے بارے میں ابتدائی سطور میں مذکور ہوا کہ یہ ایسا اخلاقی نظام ہے جو تیر و تفنگ کے بغیر بھی موثر، فاتح اور کامیاب ہوتا ہے- آج جب کہ مسلمان عالمی تناظر میں قوۃ نافذہ سے محروم ہیں، ان کے لیے صرف یہی ایک راستہ ہے کہ وہ صوفی نقطۂ نظر کی اصلاح و تجدید کے ذریعے قنوطیت کے اندھیروں میں امید کی شمع روشن کریں-
تصوف کا مرکزی عنوان تزکیۂ نفس ہے، اس لیے اصلاح تصوف کے ذیل میں سب سے زیادہ تزکیہ پر ہی زور دینے کی ضرورت ہے- تزکیہ قرآنی محاورے میں فریضۂ نبوی ہے۔ صوفیہ کے یہاں یہ فریضہ وہ شخص ادا کرسکتا ہے جو صحبت نبوی سے سرفراز ہو یا اس کی صحبت و اجازت کا سلسلہ ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہو- صوفیہ کہتے ہیں کہ ارشاد و تزکیہ کا فریضہ وہی ادا کرے جو کامل و مکمِّل ہو، یعنی جو خود بھی مزکیّٰ ہو اوردوسروں کو بھی مزکیّٰ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، اس لیے تزکیۂ نفس کے لیے پہلےمزکیّٰ نفوس کی تلاش ضروری ہے- یہ امر ان کے لیے اور زیادہ ضروری ہےجو تزکیہ و تربیت کے بغیر موروثی طو رپرمسند ارشاد پر بیٹھے ہیں- اسی طرح علمائے امت، حکمائے ملت اور دانشوران قوم کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ مزکیّٰ نفوس کی محفل رشد و ہدایت میں شریک ہوں اور اپنے دل کی دنیا آباد کریں- لیکن اگر کسی کو ایسے مزکیّٰ نفوس نہ ملیں تو پھر صوفیۂ کاملین کی کتابوں کے مطالعے اور درس و تدریس سے بھی یہ کام بڑی حد تک لیا جاسکتا ہے- اسی طرح یہ بھی کیا جائے کہ تزکیۂ نفس و تطہیر روح کے موضوع پر معاصر علمی اسالیب میں مقالات و مضامین تحریر کیے جائیں- سیمینار ، سمپوزیم اور کانفرنسیز کا انعقاد ہو-اس طریقے سے معاصر دنیا میں تزکیہ و تصفیہ کاعمل آسان ہوسکتا ہے-
تزکیۂ نفس کے بعد دوسرے نمبر پر شریعت کاقیام واہتمام ہے- اس فکر کو عام کیا جائے کہ فرائض و واجبات کی پابندی اور محرمات سے مکمل اجتناب کے بغیر عرفان و روحانیت کا ہر تصور فریب محض ہے- اس صورت میں جو ولایت حاصل ہوتی ہے وہ ولایت رحمانی نہیں ولایت شیطانی ہوتی ہے-معاصر اہل تصوف کے حلقوں میں اہتمام شریعت کے حوالے سے ایک عمومی تساہل پایاجاتا ہے- اہل تصوف کا فرض ہے کہ پہلی فرصت میں اس کوتاہی کا تدارک کریںیا پھر سجادے کے تقدس کی بحالی کے لیے  اس سے الگ ہوجائیں اور کوئی مباح ذریعۂ معاش تلاش کرلیں- 
تصوف علمی کا تجدید و احیا بھی وقت کی بڑی ضروری ہے- اب وقت آن پڑا ہے کہ تصوف پر علمی انداز میں کھل کر بحث ہو- علمی بحث و نظر کے بغیر فکر وعمل کا کوئی انداز اہل علم کو متاثر نہیں کرسکتا اورر اس کے بغیر بڑی سطح پر کسی انقلاب کی توقع نہیں کی جاسکتی- تصوف کے نام پر جو قدیم لٹریچر ہے وہ معاصر فکری الجھنوں اور نظری سوالات کے تناظر میں تشفی بخش نہیں ہے-صوفی لٹریچر کا سارا سرمایہ جدید سائنسی عہد سے پہلے کا ہے- اب ضرورت ہے کہ نئے اسالیب، نئی دریافتوں اور نئے حقائق و معارف کی روشنی میں علمی انداز میں تصوف کا لٹریچر مرتب کیا جائے- اگر اس انداز میں کوئی احیاء علوم الدین لکھی جاتی ہے تو عصرحاضر میں تصوف، اسلام اور انسانیت کی بڑی خدمت ہوگی-تصوف پر جو جدید لٹریچرلکھا جائے اس میں روایت کے ساتھ ساتھ درایت کے اصولوں کا بھی خاص خیال رکھا جائے-
تجدید و احیائے تصوف کے لیے یہ امر بھی ناگزیر ہے کہ اہل تصوف اپنا احتساب کریں- ان کے اندر تصوف کی روح اور حقیقت کتنی ہے اور وہ رسم پرستی کے طلسم میں کس قدر گرفتار ہیں، اس کا ایمان دارانہ جائزہ لیں- اسی طرح جس تصوف کو وہ گلے سے لگائے ہوئے ہیں وہ کتاب و سنت اور سلف کے معیار پر کتنا اترتا ہے اس کا بھی ناقدانہ حتساب ضرور ی ہے-تصوف اور اہل تصوف کے منصفانہ احتساب کے بغیر دنیا میں کسی صالح صوفی انقلاب کی آمد خیال خام کے سوا کچھ بھی نہیں ہے-
حسن اخلاق تزکیۂ نفس کا نتیجہ و ثمرہ ہے۔ جس کا باطن جتنا مزکیّٰ ہوگا اس کے اخلاق اسی قدر بہتر ہوں گے- صوفیہ نے اسی لیے تصوف کی تعریف حسن اخلاق سے کی ہے۔ کہاگیا ہے کہ التصوف کلہ الاخلاق۔ دوسری طرف معاصر تصوف کے جھنڈا بردار عموماً اخلاقی پستی کا شکار نظر آتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے ملنے ملانے کے روادار نہیں ہوتے- محاسن باطنی کجا، ظاہری رکھ رواؤ اور رواداری بھی عنقا ہوتی جارہی ہے- طرفہ یہ کہ بہت سے مشائخ آج فقیہانہ تقشف کا شکار ہیں۔ بقول شخصے جب سے مشائخ نے مسندفتویٰ اور مفتیان کرام نے مشیخت سنبھالی ہے، نظام شریعت و طریقت درہم برہم نظر آتا ہے-ایسے میں صوفیانہ اخلاق کا فروغ از حد ضروری ہوگیا ہے- مشائخ کا عملی مسلک صلح کل کا رہا ہے- جب خانقاہوں کے دروازے بلاتفریق مذہب و ملت اور بلا تحدیدرنگ و نسل ہر شخص کے لیے کھلے رہتے تھے- موجودہ فساد کلی کے عہد میں اخلاق و رواداری کو صلح کلیت اور گمراہیت کا نام دے دیا گیا ہے- یہ فکر اگر حاملین تصوف کے یہاں درآئے تو باعث تشویش ہے- اس پس منظر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ متصوفین زمانہ کے یہاں اخلاقی پستی فکری پستی کا شاخسانہ ہے- المیہ یہ نہیں کہ تصوف کے نام لیواؤں سے اخلاق غائب ہے، المیہ یہ ہے کہ اس بداخلاقی کے لیے بعض فکری و فقہی جواز بھی تلاش کرلیے گئے ہیں- یہ صورت حال بطور خاص برصغیر پاک و ہند میں ہے- ہم اس المیہ سے نکلنے کے لیے از ہر شریف کی وسطیت کو مثال بناکر بڑی حد تک اپنے درد کا درماں تلاش کرسکتے ہیں- دوسری صورت یہ ہے کہ اکابر مشائخ اور خصوصاً مشائخ چشت کی اخلاقی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کیا جائے اور زبان و قلم اور اخلاق و کردار سے انہیں عام کیاجائے- سیرت نبوی کا مطالعہ اور اخلاق محمدی پر مقالات و خطبات کی اشاعت کے ذریعے بھی وسیع تناظر میں یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے-
وہابیائی ردعمل سے نجات بھی معاصر صوفی فکر کے لیے واجبی درجہ رکھتی ہے- وہابیہ کی طرف سے اہل تصوف کو مشرک کہا جاتا ہے اور یہ پلٹ کر انہیں کافر ثابت کرنے کے درپے ہوتے ہیں- وہابی فکر کے حاملین اسلامی آثار اور صوفی علاما ت کے انہدام کے درپے ہیں- قبوں، میناروں اور قبروں کے انہدام کے بڑھتے ہوئے واقعات ہماری نگاہوں کے سامنے ہے- اس کے ردعمل میں اگر حاملین تصوف بھی وہابیہ کی قبریں کھودنے لگیں تو پھر دونوں میں فرق کیارہ جاتا ہے- صوفی غیر مشروط طور پراخلاق و رواداری کا پیکر ہوتا ہے- وہ صرف اچھائی کے بدلے اچھائی نہیں کرتا- ایک صوفی کے نزدیک برائی کا بدلہ بھی اچھائی ہی ہواکرتا ہے- معاصر صوفی ذہن میں اس فکر کو جاگزیں کرنے کی ضرورت ہے- اس کے بعد ہی اہل تصوف کوئی مثبت اور تعمیری کردار ادا کرسکیں گے-
مسلم ذہن کی صوفی تشکیل:-
بیسویں صدی میں اسلام کی سیاسی تعبیر و تشریح اور جہادی جدوجہد کی مکمل ناکامی کے بعد اب ضروری ہوگیا ہے کہ مطلوبہ مقاصد کی تحصیل کے لیے مسلم ذہن کی صوفی تشکیل کی جائے- حالات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ اب مسلمانوں کے پاس اس کے سوا چارۂ کار نہیں ہے- واضح رہے کہ صوفی تشکیل سے مراد زندگی سے فرار، خودسپردگی اور عدم جدوجہد نہیں ہے- صوفی تشکیل سے مراد مسلم ذہن کو اس حکمت سے آشنا کرنا ہے جو اس کی گم شدہ دولت ہے- مسلم ذہن کی صوفی تشکیل دراصل ناموافق حالات میں روشنی کی موافق شمع روشن کرنے کی حکمت سے عبارت ہے- یہ وہی شمع ہے جس نے پیغمبر علیہ السلام کے مکی عہد کے انتہائی ناسازگار ماحول میں صدیق و عمر اور علی و عثمان جیسے معماران امت پیدا کردیےاور ابو جہل اور ابولہب جیسے فسادیوں سے اعراض اور صرف نظر کا طریقہ بتایا- مسلم ذہن کی صوفی تشکیل سے ہماری پہلی مراد یہ ہے کہ مسلم ذہن کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح قریۂ مکہ میں تھے آج مسلمان اسی طرح عالمی قریہ Global Village  میں ہیں-ایسے میں مسلمانوں کے لیے حکمت و دانائی اور سعی و عمل کا صرف ایک ہی ماڈل Valid ہے اور وہ ہے سیرت رسول کا مکی ماڈل- سیرت رسول کے ماڈل کو اپنائے بغیر وقت کے ابوجہلوں اور ابولہبوں کے شر سے بچنا ناممکن ہے- موجودہ عہد کو زیادہ سے زیادہ ابتدائی مدنی عہد کے مشابہ قرار دیا جاسکتاہے، جب مسلمان دیگر قوموں کے ساتھ معاہدوں کے تحت اپنی بقا کی جنگ لڑرہے تھے-البتہ اس بات کوبہر حال ذہن میں نقش کا لحجرثبت کرنا ہوگا کہ مدنی ریاست کی تشکیل کے بعد مسلمانوں کی جو صورت حال پیدا ہوئی، آج مسلمان اس پوزیشن میں نہیں ہیں- اس نکتے کو تمام تر سیاسی، سماجی اور تمدنی مسائل و مباحث میں زیر غور رکھنا ہوگا-
اس وقت مسلمانوں کو غیر مسلم ملکوں اور قوموں کے ساتھ پرامن معاہدے کرنےہوں گے اور پھر ان معاہدوں کا مکمل احترام کرنا ہوگا- ظاہر سی بات ہے کہ یہ معاہدے اسلام کے مثالی ریاستی اصولوں پر نہیں ہوسکتے، اس لیے اس مقام پر فقہا اور حکام کو چاہیے کہ اسلام کے حکم مثالی کے بجائے حکم ضروری کا تعین کریں- شریعت اسلامی میں حکم ضروری وہ حکم کہلاتا ہے جو زمان و مکان کے بدلے ہوئے حالات میں ممکن ہوتا ہے:لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا(البقرۃ:۲۸۶) اور الضرورات تبیح المحظورات کے تحت فقہ اسلامی اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہر وقت مسلمان اسلام کے حکم مثالی کے مکلف نہیں ہیں،بلکہ حسب ضرورت حکم ضروری پر بھی عمل کرنا مطلوب شریعت کو فوت نہیں کرتا، بہرکیف! غیر مسلم قوموں اور حکومتوں کے ساتھ مسلم حکومتوں اور اقلیتوں کو اپرمن معاہدے کرنا اور ان کا احترام کرنا عین مقتضاے شریعت ہے- اس قسم کا معاہدہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہر جگہ مساوی شرائط پر ہی ہو، اگر کبھی بعض دفعہ بظاہر دب کر معاہدہ کرنا پڑے تو اس وقت بھی صلح حدیبیہ کی سنت کو تازہ کرتے ہوئے مسلمانوںکو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے- قیام امن و محبت کے حوالے سے مسلمانوں کا غیر مشروط رویہ ہی اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے عالمی غلط فہمیوں کا ازالہ کرسکتاہے-
بادشاہت ہو کہ جمہوریت، دونوں ہی اسلام کی مطلوبہ طرز حکومت نہیں ہیں- اسلام کی مثالی طرز حکومت شورائی خلافت ہے جس کا سلسلہ سیدنا حسن مجتبیٰ کے بعد منقطع ہوچکا ہے-اس کے بعد بعض استثنائی واقعات سے قطع نظر مسلمانوں کے یہاں ہمیشہ بادشاہت قائم رہی، جو خلافت تھی وہ بھی لفظی تھی، حقیقی معنوں میں وہ بادشاہت ہی کی بدلی ہوئی شکل تھی- مسلمان صدیوں سے اس طرز حکومت کو گلے لگائے ہوئے ہیں، اس لیے آج اگر حالات کے جبر نے جمہوریت کو غالب کردیا ہے تو ایسے میں جمہوریت کو قبول کرنا بھی ان کے لیے کوئی ناقابل معافی گناہ نہیں ہے- مسلمان جن ملکوں میں اکثریت میں ہوں وہاں اسلامی جمہوریہ قائم کریں اور قرآن اور دین کی بالادستی کے ساتھ مسلکی اختلافات کو گوارا کریں اور جن ملکوں میں اقلیت میں ہوں وہاں دستور حکومت اور پارلیمنٹ کا مکمل احترام کریں اور ایسے ملکوں میں شریعت اسلامی کے مشترکہ مفاد کے لیے مسلکی ترجیحات سے بلند ہوکر جمہوری جدوجہد کریں- ان کا جو بھی احتجاج ہو وہ جمہوریت کے احترام کے ساتھ ہو، جمہوریت سے بغاوت کر کے وہ اپنا مطلوب ہرگز حاصل نہیں کرسکتے-اس صورت میں انہیں جو کچھ حاصل ہوگا وہ اضطراب مزید کی شکل میں ہی ہوگا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت صداقت و امانت کے عملی اظہار سے کیا تھا- صوفیائے کرام نے بھی اسی قوت سے دلوں کو مسخر کیا - بدقسمتی سے آج مسلمانوں کی شناخت کذب اور بے امانتی سے ہوگئی ہے- ہمیں ایک بار پھر صداقت و امانت کا سبق تازہ کرنا ہوگا اور اپنے تئیں پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کا عملاً ازالہ کرنا ہوگا- صداقت و امانت کے حوالے سے ہمیں شخصی طور پر بھی اپنے کو درست کرنا ہوگا اور قومی سطح پر بھی صداقت اور ایفائے عہد کے حوالے سے اپنی شناخت قائم کرنی ہوگی۔ ہم جب قومی سطح پر دوسری قوموں سے بات کریں تو سچ بولیں، وعدے نبھائیں اور امانت کے تقاضے پورے کریں- جدید دنیا میں جمہوری ریاستوں میں ایک وفادار اور راست باز شہری بن کر ہم یہ کام مکمل کرسکتے ہیں- ہمیں ہر اس رویے سے بچنا ہوگا جس سے ہماری ملکی وفاداری مشکوک ہو- اپنے ملک اور وطن کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ جمہوری ریاستوں میں صرف فریادی نہ بنیں، ملک کے معمار اور Donaterبنیں-
پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن پاک میں رحمۃ للعالمین کے الفاظ آئے ہیں جب کہ ذات باری تعالیٰ کے لیے ارحم الراحمین کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الخلق کلھم عیال اللہ (۱۵) کا فارمولہ دیا اور بلاتفریق مذہب و ملت؛ غربت، ظلم، قتل و غارت، بھوک مری اور مرض و تکلیف کے خلاف جدوجہد کو کار ثواب بتایا- آپ نے انسانوں ہی نہیں حیوانوں کے ساتھ بھی بلکہ نباتات کے ساتھ بھی حسن سلوک کے اسباق دیے اور ان پر پہلے خود عمل کیا- صوفیہ نے اسی سنت سے تخلقوا باخلاق اللہ کا اصول وضع کیا- آج مسلمانوں کی صورت حال یہ ہے کہ وہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے قتل کے درپے ہیں- بعض نام نہاد متصوفین بھی ایسے ہیں جن کے اخلاق اور حسن سلوک کا دائرہ صرف ان کے ہم مسلک اور ہم مشرب لوگوں تک سمٹ گیا ہے- مسلمانوں کو اپنے ذہن میں یہ بات تازہ کرنی ہوگی کہ وہ رب العالمین اور ارحم الراحمین کے بندے اور رحمۃ للعالمین کی امت ہیں- اخلاقی تنگ نظری کے ساتھ نئے عہد میں اسلام کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا۔ خدمت انسانیت جس کا سبق اسلام نے صدیوں پہلے پڑھایا، آج سے Universal Truth کے طورپر عالمی سطح پر تسلیم کرلیا گیا ہے- ایسے میں اگر مسلمان ہی یہ سبق بھول جائیں تو باعث حیرت و افسوس ہے۔ خدمت انسانیت، خدمت اسلام کی بنیاد ہے۔ انسانیت کی خدمت کے بغیر اسلام کی ہمہ گیر خدمت کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا-
قرآن کریم کی ایک آیت ہے :وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان: ۵۲) (ان سے قرآن کے ذریعے بڑا جہاد کرو-)آیت کریمہ کی یہ توضیح ابن عباس کی ہے- (ابن کثیر) ظاہر سی بات ہے کہ قرآن کے ذریعے گردنیں تو نہیں کاٹی جاسکتیں، ذہنی شبہات کا ازالہ اور قلبی وسوسوں کا علاج ہی کیا جاسکتا ہے۔ گویا اس آیت میں جہاد بالقرآن کرنے کا حکم دیا گیا ہے-اس سے پہلے کی آیات اس طرح ہیں:
’’اللہ کی ہی وہ ذات ہے جس نے اپنی بارش رحمت کے آگے ہواؤں کو نوید بناکر بھیجا تو اکثر منکر ہوگئے۔ اگر ہم چاہتے تو ہم ہر بستی میں ایک ڈرانے والا بھیجتے، لہٰذا کافروں کی اطاعت نہ کریں اور ان کے خلاف قرآن سے جہاد کریں-‘‘
یہاں جہاد بالقرآن سے پہلے علمی دلائل و شواہد کا تذکرہ ہوا ہے۔ا س پس منظر میں جہاد بالقرآن کا اطلاق وسیع مفہوم میں علمی جہاد پر کیا گیا ہے-آج جب کہ عوامی قتال و خون خرابے کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار ہوگئی ہے، اس کے ساتھ آزادی رائے اور آزادیٔ اظہار رائے کا حق بنیادی حق انسانی کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے، جہاد بالقرآن یا جہاد علمی کے لیے پوری راہ ہموار ہوچکی ہے-جو لوگ قرآنی صداقتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور تلوار کی قوت سے زیادہ قرآن کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں، ان کے لیے موجودہ عہد میں پورا موقع ہے کہ وہ مکمل تن دہی اور انہماک کے ساتھ جہاد قرآن یا جہاد علمی میں مصروف ہوجائیں اور جن حضرات کو اپنی دلائل کی قوت پر یقین نہیں ہے ان کو بھی اس حقیقت کو سمجھ لینی چاہیے کہ تلواروں کی جھنکار اور توپوں کی گرج زیادہ دیر تک اپنے اثرات قائم نہیں رکھ سکتی، خصوصاً یہ بات اگر اس قوم کو نہ سمجھ میں آئے جو جنگ کے نام پر خود کشی کے لیے آمادہ ہے تو پھر اس کی عظمت و بقا کے سوال پر ہمیں فاتحہ پڑھ لینی چاہیے-
قرآنی تصور حیات میں ایمان کے بعد عمل صالح کو بڑی اہمیت ہے۔ صوفیہ کے یہاں عمل صالح کے دو پہلو ہیں، عبادت حق اور خدمت خلق۔ صوفیہ نے خلق خدا کے لیے ہمیشہ نفع رساں رہے ہیں-انہوں نے اسلام کی دعوت بعد میں دی ہے اور خلق خدا کے لیے نفع بخشی اور فیض رسانی کا کام پہلے کیا ہے- اپنی وفات کی صدیوں بعد بھی اگر صوفیہ دلوں پر راج کررہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قرآن کے تصور بقا پر قائم رہے ہیں- سورۂ رعد کی آیت نمبر ۱۷ میں قرآن کا اصول بقا اس طرح ہے: جو جھاگ ہوتا ہے وہ خشک ہوکر ہوا میں اڑ جاتا ہے اور جو چیز لوگوں کے لیے نفع بخش ہوتی ہے وہ زمین میں باقی رہتی ہے-(۱۶)
صوفیہ اسی اصول کے تحت خلق خدا کے لیے ہمیشہ نفع بخش رہے ہیں۔ اس وقت مسلمان اگر خلق خدا کے دلوں پر راج کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے بھی وہی اصول فیض رسانی Valid ہوگا جو قرآنی اصول صوفیہ کے لیے Valid تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی کیا پوزیشن ہے؟ کیا وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنے وجود سے دوسری قوموں کے لیے نفع بخش ہوسکیں- اس سائنسی، تکنیکی اور ابلاغی عہد میں فیض رسانی کے محاذ کیا کیا ہیں اور کیا مسلمان ان محاذوں میں سے کسی محاذ پر موجود ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مسلمانوں کا ذہن احتجاج، سوال اور مطالبات جیسے الفاظ سے پر ہے- مسلمان امتی سطح پر Donaterکی جگہ Recieverہوگئے ہیں- زندگی کی نئی دوڑ میں جب تک مسلمان فعال کردارادا نہیں کرتے ، ان کی بھکاری اور فریادی والی کیفیت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ غریب مسلمانوں کے ذہنوں کو غلط جہادی فلسفوں سے مسموم کر کے ان کو خودکشی کے لیے تیار کرنے کے بجائے ان کی فکروں میں علم و تعلیم کی روشنی بھر کے انہیں زندگی کے لیے تیار کرنا ہوگا - جنت کے خواب میں خود کش حملے ناکام ہوچکے ہیں۔ اب تصوردین و دنیا میں اعتدال کے ساتھ اخروی حسنہ کے حصول ساتھ دنیوی حسنہ کے حصول کے لیے بھی ان کی فکر کو مہمیز کرنا ہوگا- 
المختصر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دین کی سیاسی تعبیرات پر صدی ڈیڑھ صدی سے جو فکر تیار ہوئی وہ اب اپنی موت مررہی ہے- اب اقبال کے لفظوں میں کائنات کی روحانی تعبیر، فرد کے روحانی استخلاص اور روحانی بنیادوں پر عالم گیر سماج کی تشکیل وقت کی ضرورت بن گئی ہے-  مسلم ذہن کی اس تشکیل میں امور بالا کی پاسداری کے ساتھ مسلکی تشدد سے نجات، تکفیری رجحانات کی حوصلہ شکنی ،جمہوری حکومتوں سے تصادم کے بجائے تعاون کی پالیسی، مسلکی فکر کے ساتھ ساتھ امتی سطح پر اہل قبلہ کی فلاح وبہبود کی منصوبہ بندی، فقہی توسع کی بحالی، فروعی اختلافات میں رواداری ، صوفی مشرب محبت کا فروغ، کلامی اور فقہی مباحث میں اعتدال کے لیے امام غزالی اور امام شعرانی کے افکار و خیالات کی اشاعت، حدیث افتراق امت کے تعلق سے مسلک جمہور کی ترویج، امت مسلمہ کا احترام، انسانیت کے حوالے سے اسلامی تعلیمات اور صوفیانہ روایات کا احیا، محبت و مناظرہ کی جگہ موعظت حسنہ اور حکمت و دعوت اور سب سے بڑھ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم سے فتح و تسخیر کے فارمولے اپنانے ہوں گے-
واضح رہے کہ یہ عظیم مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک دین کے سیاسی تعبیرات کی شدت پسندی کو مسترد کرنے کے ساتھ اس کے ردعمل میں اہل تصوف کے یہاں جو منفی ذہن تیار ہوا ہے، اس کو بھی یکسر مسترد نہ کردیا جائے - نئے حالات میں معاصر صوفیہ کا ذہن بھی ناکام ہے-موثر صرف ایک ذہن ہے اور وہ ہے صوفی ذہن جس کی اصل خلق محمدی اور روح انسانی ہے-
*****
-----------------------------------------------------
حواشی:-
(۱) خَيْرُ الْأُمُورِ أَوْسَاطُهَا،مصنف ابن ابی شيبہ(۷/۱۷۹)مکتبۃ الرشد - الریاض،طبع اول،۱۴۰۹ھ
(۲) رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً  (البقرۃ:۲۰۱)
(۳) كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ(صحیح البخاري،کتاب الرقاق،بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ۔
(۴) الباعث الثاني أني رأيت الرغبة من طلبة العلم صادقة في الفقه الذي صلح عند من لا يخاف الله سبحانه وتعالى المتدرع به إلى المباهاة والاستظهار بجاهه ومنزلته في المنافسات (احیاء العلوم، مقدمہ، فضیلۃ العلم)
(۵) وهذا على ضربين أحدهما يتعلق بمصالح الدنيا ويحويه كتب الفقه والمتكفل به الفقهاء وهم علماء الدنياوالثاني ما يتعلق بمصالح الآخرة وهو علم أحوال القلب وأخلاقه المحمودة والمذمومة(احیاء العلوم، مقدمہ، بیان العلم الذی ھو فرض کفایۃ)
(۶) وما يحصل به الإنذار والتخويف هو هذا الفقه دون تفريعات الطلاق والعتاق واللعان والسلم والإجارة فذلك لا يحصل به إنذار ولا تخويف بل التجرد له على الدوام يقسي القلب وينزع الخشية منه كما نشاهد الآن من المتجردين له(احیاء العلوم، مقدمہ، بیان ما بدل من الفاظ العلوم)
(۷) صحيح البخاري (کتاب الشہادات،بَابٌ: لاَ يَشْهَدُ عَلَى شَهَادَةِ جَوْرٍ إِذَا أُشْهِدَ)
(۸) شرح المسلم للنووی،کتاب الوصیۃ،بَاب تَرْكِ الْوَصِيَّةِ لِمَنْ لَيْسَ له شئ يُوصِي فِيهِ
(۹) إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ(بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع)
(۱۰) مکتوبات صدی، مترجم شاہ نجم الدین فردوسی وشاہ الیاس بہاری،حصہ اول،مکتوب :۲۲ب، ص:۱۷۶،سعید اینڈ کمپنی، کراچی،۱۳۹۶ھ
(۱۱) فَوَاللَّهِ لاَ الفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنْ أَخَشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ(صحيح البخاري ،کتاب الجزیۃ، بَابُ الجِزْيَةِ وَالمُوَادَعَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ)
(۱۲) الرسالۃ القشیریۃ، بَاب فِي ذكر مشايخ هذه الطريقة وَمَا يدل من سيرهم وأقوالهم عَلَى تعظيم الشريعة۔
(۱۳) تصوف کے حوالے سے غلط فہمیوں کی بڑی وجوہات میں سے ایک بھی ہے کہ لوگ تصوف کو لغت سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کہ یہی رویہ علم کی دوسری شاخوں میں روا نہیں روا رکھتے۔تصوف کی نہ صرف اپنی آفاقی اصطلاحات ہیں ، بلکہ بعض صوفیہ نے اپنے اپنے زمانے اور ماحول کے الفاظ و تعبیرات کو اپنی واردات قلبیہ کی تعبیر کے لیے استعمال کیا۔ اسی طرح دین و روحانیت کے حوالے سے دوسری زبانوں اور علاقوں کی اصطلاحات کو بھی انھوں نے قبول کیا۔ وہ ہمیشہ منقول الفاظ سے زیادہ منقول معانی کے متلاشی رہے۔ مولانا فرماتے ہیں:
ہندیاں را اصطلاحات ہند مدح سندھیاں را اصطلاح سندھ مدح
شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ صفوی الہ آبادی اپنی مثنوی نغمات الاسرار فی مقامات الابرار کے آخر میں لکھتے ہیں:
اعتبارات و جہات اس کے سمجھ اصطلاحات و لغات اس کے سمجھ
(۱۴) مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ،کتاب الزکاۃ،  بَابُ الْحَثِّ عَلَى الصَّدَقَةِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، أَوْ كَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ وَأَنَّهَا حِجَابٌ مِنَ النَّارِ۔
(۱۵) الْخَلْقُ عِيَالُ اللَّهِ، فَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ مَنْ أَحْسَنَ إِلَى عِيَالِه(المعجم الاوسط،باب المیم، من اسمہ محمد)
(۱۶) فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْض۔




0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔