Tuesday 23 January 2018

کیا دینی کام کی جدید تفہیم کی ضرورت ہے؟

0 comments
کیا دینی کام کی جدید تفہیم کی ضرورت ہے؟
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
--------------------------------------------------------------------------
(۱) اسلام کا مقصود دین ہے جو آخرت اساس (Based on Hereafter life) ہے- دنیا آخرت کی زندگی میں کامیابی کے لیے امتحان گاہ ہے- اسی دنیا کی صالح زندگی پر آخرت کی کامیابی انحصار کرتی ہے- چنانچہ ایک ضعیف حدیث میں دنیا کو آخرت کی کھیتی کہا گیا ہے-الدنیا مزرعۃ الآخرۃ(طبقات شافعیہ۶/۳۵۶)اس تناظر میں دنیا کی تحصیل اسلام کی نظر میں صرف آخرت کی تحصیل کے لیے ہے- دنیا وی جدوجہد کا مقصود اگر آخرت ہے تو بالواسطہ طور پر یہ جدوجہد خالص دینی جدوجہد ہے اوراسی طرح ہر وہ مصروفیت جس کا تعلق بظاہر دین سے ہو اگر اس کا مقصود دنیا کا حصول ہو، اس کے ذریعے ، دولت ، شہرت اور عزت حاصل کی جارہی ہو تو وہ بظاہر دینی شغل ہوگا لیکن فی الواقع وہ خالص دنیوی کام کہلائے گا -و ہ اہلِ دنیا کی نظر میں دینی کام ہوگا لیکن آخرت میں کھل جائے گا کہ ایسا کا م دنیا کے لیے دینی تجارت تھا اور بس - احادیث مبارکہ میں اس طالب علوم دین کے بارے میں جس کا مقصود دنیا کا حصول ہو، یہ کہا گیا ہے کہ جب آخرت میں وہ آئے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ تمہاری جد وجہد جس مقصد کے لیے تھی وہ دنیا میں حاصل ہوگئی اب آخرت میں تمہارے لیے کوئی حصہ نہیں ہے- ایسی روایتوں سے بھی مذکورہ بالا بات کی تائید ہوتی ہے-
اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا اپنے آپ میں کوئی بری یا ناپاک شے نہیں ہے او رنہ ہی دنیوی دولت، عزت اور شہرت کا حصول اسلامی نقطۂ نظر سے کوئی بری چیز ہے، اصل برائی دنیا کو مقصود بنانا ہے، کیوں کہ مومن کا مقصود ہمیشہ آخرت کی زندگی ہواکرتی ہے، دنیا اہل کفر کا مقصودو مطلوب ہے- اس لحاظ سے دین کی خاطراگر کوئی دنیوی عزت وشہرت یا دولت حاصل کرتا ہے، تو ایسا کرنا خالص دینی کام کہلائے گا اور بظاہر دنیاوی کام ہی کیوں نہ ہو فقط نیت کے بدلنے سے ایک ہی کام دنیاوی ہوجائے گا اور وہی کام دینی ہوجائے گا-
اس کے ساتھ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جہاں آخرت کے مقصود ہونے کے لحاظ سے یہ کہا گیا کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے الدنیا سجن للمومن(حیلۃ الاولیاء۶؍۳۸۹) وہیں پر قرآن پاک میں یہ بھی وارد ہوا کہ لاتنس نصیبک من الدنیا(القصص:۷۷) دنیا سے جو تمہارا حصہ ہے اسے فراموش مت کرو -مطلب یہ ہے کہ مومن کا ایک حصہ اس دنیا سے بھی وابستہ ہے اور یہ اس لیے کہ اسے اسی دنیا میں آخرت کی کھیتی کرنی ہے اگر اسے دنیاوی زندگی کا حصہ نہیں ملا تو وہ اپنی کھیتی کو بارآور بھلا کیسے بناسکتا ہے-
(۲-۳)دینی کام کے مفہوم اور دائرہ عمل کا تعین صرف کام کرنے والے کی نیت سے کیا جاسکتا ہے -ہر وہ کام جو دینی جذبے کے تحت کیا جائے وہ دینی کام ہے- دینی کام کی واحد خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اندر نیت دین کی ہوگی- اگر یہ خصوصیت نہ پائی جائے تو عام مشاغل دین ہی نہیں ، رکوع وسجود بھی خالص دنیا داری ٹھہریں گے - اس خصوصیت کے بغیر نہ نماز نماز ہے نہ روزہ روزہ اور اگر یہ خصوصیت موجودہو تو عام مشاغل دنیا بھی خالص دینی کام کہلا ئیں گے-
یہ بات مزید وضاحت کے ساتھ اس وقت سمجھ میں آئے گی جب ہم اسلام کے تصور دین کو سمجھ لیں- اسلام کے اندر دین کا تصور بہت وسیع اور جامع ہے- اسلام کے مطابق دین پر عمل کرنے کے لیے ایسا بالکل ہی ضر وری نہیں ہے کہ انسان صحرا نوردی اختیار کرلے اور ترک دنیا کو اپنے اوپر لازم کرلے - اسلام کا تصور دین دنیوی زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے- اسلام میں دنیوی زندگی ہی در اصل دینی زندگی ہے اگر اس کا مقصود آخرت ہو-اسلام دین اللہ ہے اور دین در اصل طرز عمل کا نام ہے- اب ہر وہ طرز عمل جس میں اللہ کی رضا جوئی کا پاس ولحاظ رکھا جائے وہ دینی طرز عمل ہے اور اسی طرح ہر وہ کام جس میں اللہ کی رضا جوئی کا پاس و لحاظ نہ رکھا جائے وہ دنیوی کام ہے-
دینی کام کو مزید سمجھنے کے لیے ہمیں اسوۂ رسول کریم اور حیات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پیش نظر رکھنا چاہیے- اللہ کے پیغمبر جناب محمد رسول  اوراصحاب رسول کی زندگی میںدینی اور دنیوی کام کی کوئی تفریق نظر نہیں آتی ہے- وہ دنیا کے تمام جائز ودرست کا روبار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ وہ یہ کہیں کہ فلاں فلاں کام دینی ہیں اور فلاں فلاں کام دنیوی - وہ دنیا کے تمام کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ تمام دنیوی مشاغل عین دینی کام ہیں- اور اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے کام کے اندر بالذات کوئی دینی حسن تھا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پوری زندگی کا مقصودا للہ ورسول کی اطاعت اور خوش نودی بن گیا تھا- آج ایک بار پھر اس بات کی ضرورت آن پڑی ہے کہ مشاغل دنیا کو دینی اور دنیوی خانوں میں تقسیم کرنے سے زیادہ ہم اس بات کی فکر کریں کہ ہم اپنی زندگی کے رخ کو صحیح سمت کیسے دیں- ہم اپنی زندگی کو آخرت اساس بنا دیں- اپنا مقصود اللہ ورسول کی اطاعت اور خوش نودی کو بنادیں-ہم دین کے نام اور رسم سے زیادہ اس کی روح اور حقیقت ومقصد پر توجہ دیں- اگرایسا کرتے ہیں تو پھر خود بخود ہمارے ہاتھوں سے ہونے والا ہر کام دینی کام بن جائے گا- نیتوں کا تزکیہ ضروری ہے اگر یہ ہوگیاتو پھر ہماری ہر جدوجہد مکمل دین بن جائے گی اور ہمار ا دین کی طرف بھاگنا بھی دین کے لیے ہوگا اور دنیا کی طرف بھاگنا بھی فی الواقع دین کے لیے ہوگا- اخلاص نیت کے بغیر امامت و خطابت دنیا داری ہے اور اخلاص نیت کے بعد سیاست وحکومت عین دین داری ہے-
(۴) اسلام مردہ رسم پرستی نہیں زندہ روحانیت کا نام ہے-اس لیے دین کے نام پر ہونے والے اعمال واشغال میں اگر یہ روحانیت پائی جاتی ہے تب تو وہ کام صحیح معنوں میں دینی کام ہے بصورت دیگر وہ رسم پرستی دین سے دور ایک غیر دینی روایت ہے - آج ہمارے معاشرے میں اس کی درجنوں مثالیں مل سکتی ہیں- آج ہماری اذانیں روح بلالی سے خالی ہیں اور ہمارے فلسفے تلقین غزالی سے بے واسطہ ہیں-صورت حال یہ آن پڑی ہے کہ دین کو رسم بنا لیا گیا ہے اور مسلمانوں کے کلچر کو اسلام سمجھ لیا گیا ہے-ہماری نمازیں حضور قلبی سے خالی ظاہری قوانین کی پابند ہیں- ہمارے روزے خصوصی افطار پارٹیوں کا وسیلہ بنتے جارہے ہیں- زکوۃ کی ادائیگی سے زیادہ مدرسوں میں اپنے ناموں کی تختیاں لٹکانے کی فکر ہے- حج ہمارے لیے بہترین ذریعہ سیر و سیاحت بن گیاہے یہ تو بنیادی ارکان اسلام میں ہماری نیتوں کے فساد کی مثالیں ہیں -اب ان روایتوں کو دیکھیے جو اچھے مقاصد کے تحت مسلم سماج میں رائج ہوئیں پھر رسم پرستی نے ان روایتوں کو باقی رکھا اور ان کے پس پردہ جو صالح مقاصدتھے انہیں یا تو غائب کردیا یا ان کے تصور کو مدھم کردیا- مثال کے طور پر مردوں کے ایصال ثواب کے لیے تیسرے چوتھے یا چالیسویں روز قرآن خوانی اور صدقات وخیرات کی روایت پڑی- اب ایصال ثواب کا نام رہ گیا باقی یہ مجلسیں خویش واقربا کے لیے دعوت اور جشن کی پارٹیاں بن گئیں- فقرا پر صرف کرنے کی بات خیالی رہ گئی یہاں تو اچھے خاصے امرا ناراض ہونے لگے کہ چہلم کی دعوت میں ہمارے لیے کھانے کا صحیح اہتمام نہیں تھا- اس سے بڑھ کر جہالت اور رسم پرستی نے یہ گل کھلایا کہ یہ تصور عام ہوگیا کہ اگر سوئم چہارم یا چہلم کی مجلس نہ ہوئی یا کسی اور دن ایصال ثواب کردیا گیا تو ثواب ہی نہیں پہنچے گا-
اسی طرح مسلم معاشرے میں موقع بہ موقع دینی محافل کا انعقاد مذہبی روح کو تازہ کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا- اب یہ دینی محافل جلسہ پھر کانفرنس اور اس سے بڑھ کر تفریح کا سامان بنتی چلی گئیں- دین کے نام پر ہونے والے ان جلسوں اور کانفرنسوں سے دینی روح غائب ہوتی چلی گئی- واعظین سے لے کر منتظمین تک اور عام سامعین وحاضرین تک کے دل اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ کے جذبے سے خالی ہوگئے- جلسے ڈرامائی انداز میں ہونے لگی اور صرف اس بات کا نعرہ لگتا رہا کہ غوث کا دامن نہیں چھوڑیں گے جب کہ دامن غوث الوریٰ کو تھامنے کے حوالے سے کوئی پر زور بات نہیں کہی گئی-
ہرکس وناکس کی وفات پر اس کے عرس کا اہتمام ، نماز میں شرکت سے زیادہ عرس میں شرکت کا جنون، ہر محلے میں ایک کمرے میں جامعہ اور دارالعلوم کے قیام کا سلسلہ، غیر متعلق امور کو رسماً اور جبراً دینی امور بنانے کی مثالیں ہیں-افسوس اس کا نہیں ہے کہ ان امور کو بہت زیادہ اہمیت دے دی گئی افسوس اس کا ہے کہ دین کی جو روح تھی وہ دبتی چلی گئی، مسلمانوں کی فلاح دین و دنیا کے حوالے سے جو ضروری امور تھے وہ بے اہمیت ہو کر رہ گئے اور پوری توجہ ان اضافی امورپر مرکوز ہوگئی-حد تو یہ ہوئی کہ یہی علامت سنیت اور پھر مقصود سنیت بن گئے-
(۵) مذہبی ماحول میں پچھلے پچاس سالوں سے موجودہ تعطل نے دینی کام کے مفہوم کو حد سے زیادہ محدود کرکے رکھ دیاہے- عام نگاہوں میں اعراس اور جلسوں کا انعقاد ہی دین کا اصل کام رہ گیا ہے- اس کے برعکس اسلام اور مسلمانوں کے عمومی مفاد کے لیے جد وجہد کرنا بالخصوص اسلام کی تبلیغ واشاعت اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے جدید ذرائع کو استعمال کرنا دینی امور کے تعین کے لیے کھنچی ہوئی لکیر وں سے باہرکاکام معلوم ہوتاہے- سچ یہ ہے کہ عصر حاضر میں دین کا وسیع تصور بہت محدود ہو کر رہ گیا ہے اسی طرح دینی امور میں قائم ترتیب بھی اکثربدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے اس کی بہت سی مثالیں ہیں-
(۱)علوم وفنون کی ایک قسم تو وہ ہے جس کا تعلق براہ راست احکام شریعت مثلاً نماز و روزہ کے احکام سے ہے جب کہ دوسری قسم موجودہ زندگی کے لازمہ کی حیثیت رکھتے ہیں- اسلام کے تصور دین میں چوں کہ بشرط ایمان واخلاص تمام کاروبار جہا ں شامل ہے- اس طرح تمام معاصر علوم کا تعلق دین اور اقامت دین سے ہے خواہ براہ راست ہوخواہ بالواسطہ -مگر موجودہ عہد میں علوم کو دینی اور عصری میں تقسیم کرکے عصری علوم کی تحصیل سے مسلمانوں میں بے نیازی پیدا کردی گئی تھی - خدا کا شکر ہے کہ اب یہ طلسم ٹوٹ رہا ہے-جب یہ طلسم ٹوٹ جائے گا تو مدارس کی طرح اسکولوں کی اہمیت بھی مسلم معاشرے میں مسلم ہوجائے گی یا اسکول اور مدرسے خود ہی ایک چھت کے نیچے جمع ہوجائیں گے-امام غزالی کی احیاء العلوم پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ جس طرح دینی احکام کی تفہیم وتبلیغ کے لیے علوم قرآن وحدیث کی تحصیل ضروری ہے اسی طرح مسلمانوں کی صحت اور دیگر مسائل حیات کو حل کرنے کے لیے طب اور دوسرے ان علوم کی تحصیل بھی فرض کفایہ ہے جن کی ضرورت عام معاشرتی زندگی میں پیش آتی رہتی ہے-
(۲)مسلمانوں کے اجتماعی وقار کے دفاع اور شریعت کی تبلیغ واشاعت کے لیے جدیدذرائع ابلاغ نعمت غیر مترقبہ کے بطور سامنے آئے ہیں لیکن مسلمان ان کی دینی وعصری اہمیت کو سمجھنے سے اب تک قاصر ہیں -کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہر گلی کے نکڑ پر ایک مدرسہ اورہر شہر اور ضلع میں کئی ایک بڑے مدارس تو قائم ہیں اور ہورہے ہیں- مگر پورے ملک میں مسلمانوں کے پاس ایک بھی قابل قدر اخبار یا ٹیلی ویژن چینل نہیں ہے- یہ سب کچھ بھی دین کے مفہوم کے گڈ مڈ اور محدود ہوجانے کی وجہ سے ہے-یہ افسوس ناک باتیں ہمیں تصور دین کی تجدید اور دینی کام کی تفہیم جدید کی دعوت دے رہی ہیں-
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔