Monday 22 January 2018

حقیقت کیا ہے؟

0 comments
حقیقت کیا ہے؟
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
---------------------------------------------------------------------------
ٹیلی ویژن ،ریڈیو ،اخبارات اوراب انٹر نیٹ نے واقعی پوری دنیا کو ایک چھوٹا سا گائوں بنا کر رکھ دیا ہے ،ہر صبح جب ہم اخبارات پر نظر ڈالتے ہیں تو کسی نہ کسی طرح شعور یا تحت شعور میں یہ بات ضرور ہوتی ہے، سائنس کا یہ کتنا بڑا انعام ہے کہ آپ پوری رات ایک بند کوٹھری میں رہے اور خواب سے بیدار ہوتے ہی آپ کو معلوم ہو گیا کہ کل رات سے آج  رات تک پوری دنیا میں کہاں ،کب اور کیا اہم واقعہ پیش آیا ہے، دنیا کے کس خطے میں امن کا سویرا ہوا اور کہاں کہاں دہشت نے اپنے منحوس سائے پھیلائے۔لیکن کبھی کبھی جب ہم خبروں کے بین السطور پر نظر ڈالتے ہیں تو ان میں ایک خاص قسم کی یکسانیت ، بیانات میں تضاد کی ایک رو، تصویروں کا ایک مخصوص انداز گویائی اور تبصروں میں شکوک و شبہات ، خدشات اور خیالات کا یکساں اور متضاد طرز ا ظہار نظر آتا ہے، پھر کبھی ہم سوچنے لگتے ہیں کہ کیا جو ہم پڑھ رہے ہیں، جو دیکھ رہے ہیں یا جو سن رہے ہیں وہی عین حقیقت ہے یا ہم خواب میں کچھ ان کہی باتیں کر، سن اور دیکھ رہے ہیں؟ یا ہماری آنکھوں پر جدید سائنس نے کچھ خاص قسم کی عینک لگا رکھی ہے جس سے نظر آنے والی چیزوں پر ہمیں یقین نہیں کرنا چاہیے؟ 
کیا یہ اسامہ کی بھتیجی ہے؟:-
۲۴؍دسمبر ۲۰۰۵ء کو دی ٹائمس آف انڈیا کے عالمی صفحے پر ایک دوشیزہ کی ایک غیر مہذب تصویر چھپی ہے ، تصویر کے اوپر یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں:Presenting Osama bin Laden's Nieceیہ تصویر تصویری صحافت کے کمال فنکاری کی منہ بولتی تصویر ہے۔ یہ تصویر بتاتی ہے کہ جو لوگ اسلامی جہاد کا علم لیے پوری دنیا میں غیر یقینی اور بے امن صورت حال بنائے ہوئے ہیں ان کے گھر کا اس قدر بدتر حال بھی ہو سکتا ہے ۔ یہ تصویر یہ بھی بتاتی ہے کہ جو لوگ دنیا میں اسلام کا علم لے کر اٹھ رہے ہیں ان کا مقصد اسلامی دعوت یا اسلامی جہاد نہیں، سیاسی اور مادی منافع کا حصول ہے ورنہ وہ اپنے اس جہاد اور دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کرتے، یہ تصویر مسلم لڑکیوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ اگر ان کے گھر والے انہیں مذہبی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کریں تو انہیں اس زنجیر کو توڑ دینی چاہیے۔ کیوں کہ دنیا میں اسلامی شدت پسندی کے حوالے سے متعارف سب عظیم شخصیت کے گھر کی لڑکیاں بھی یہی کچھ کر رہی ہیں۔
لیکن اس آزاد دنیا میں اگر ہم آزاد ذہن سے سوچیں تو کئی ایک سوالات یکبارگی پیدا ہو جاتے ہیں ۔ایک یہی کہ یہ تصویر میڈیا کے لیے اتنی اہمیت کی حامل کیوں ہو گئی ہے؟ دوسرا یہ کہ اسامہ کا خانوادہ بہت ہی دولت مند اور خوش پوش و خوش عیش ہے۔ پھر اس کا گھرانہ تعداد کے اعتبار سے بھی سینکڑوں افراد پر مشتمل ہے تو کیا آج کے دور میں ایسے خانواد ے کی کسی ایک لڑکی کا غیر اسلامی رویہ اختیار کر لینا کوئی بہت حیر ت کی چیز ہے؟اخبار نے تفصیلات کا ذکر کیے بغیر صرف اسامہ کو ہدف تنقید بنایا ہے، حالاں کہ آزاد فکری سے مسئلے کا جائزہ لیا جائے تو اسامہ کو ہدف تنقید بنانا صحیح معلوم نہیں ہوتا، خاص طور سے ایسی صور ت میں کہ اسامہ اپنے خاندان کے ساتھ نہیں، اسلامی جہاد (حقیقت سے اس کا تعلق کچھ بھی ہو) کانعرہ لے کر میدان میں اترے ہیں ، ورنہ خود ان کے گھر یلو تعلقات کی خوش گواری اور خانگی تہذیب و تمدن سے ان کا اتفاق غیر یقینی ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس تصویر کی اشاعت کا مقصد صرف اسامہ بلکہ اسلام پسندی کا مذاق اڑانا ہے۔
تصیر کے اندر لڑکی کے ایک ہاتھ میں شراب کا پیالہ ہے، وہ ایک چھوٹے سے حوض میں ہے اور اس کے وجود پر جنسی ہیجانی کیفیت طاری ہے، مگر غور کرنے سے کچھ ایسا بھی لگتا ہے کہ لڑکی کو جبراً حوض میں ڈال کر اس کی تصویر لے لی گئی ہو۔ جو لوگ موجودہ دنیا میں بلیک میلنگ کے سیاہ دھندوں سے واقف ہیں ، ان کے لیے یہ امکان کوئی زیادہ تعجب خیز نہیں ہے،اس تصویر پر اس زاویے سے بھی سو چا جا سکتا ہے کہ آج کل اس قسم کی خبریں بند کمروں میں بنتی ہیں اور چھپنے کے بعد ہوٹل سے بیڈروم تک ان کا چرچا ہو جاتا ہے مگر ایسی خبروں کی تحقیق نہیں ہوتی۔ جو خبریں ہم آج پڑھتے ہیں، ان میں بہت سی ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا سارا وجود کا غذی صفحات تک ہی محدود ہوتا ہے۔ اس تناظر میں ’’یہ تصویر اسامہ کی بھتیجی کی ہی ہے‘‘ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے ۔
یہ مرنے والے کون تھے؟:-
دہشت گردی کے موضوع پر اظہار خیالات کرتے ہوئے ایک فاضل مبصر نے لکھا ہے:
’’گزشتہ ماہ میں لندن میں تھا، T.V.پر دیکھا کہ عراق میں ایک مسجد میں ۵۰۰ کے قریب ہلاک شد گان میں عراقی مردوعورتیں اور دس بارہ سال کے معصوم بچے تھے جنہیں مسجد کے سامنے بم دھماکہ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، سوچ کر مجھے بتایا جائے کہ مسجد کے یہ نمازی کیا امریکی ایجنٹ تھے؟ کیا نمازی امریکیوں کی فتح کی کامیابی کی دعائیں مانگ رہے تھے؟ مرنے والوں میں ۴۰ ننھے بچے بچیاں تھیں، کیا بچے امریکی پٹھو تھے؟‘‘ ( اسپریچول ٹائمز، جولائی، ستمبر ۲۰۰۵ء)
جہاد کے نام پر اس قسم کے اعمال یقینا بحث طلب ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ ایسے واقعات کو جہاد اور دہشت گردی کے تناظر میں دیکھنے کے ساتھ دوسرے تناظر میں بھی دیکھا جا نا چاہیے۔ مثال کے طور پر ہم انہیں قومی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں، اور اس طرح ہم پائیں گے کہ ایسے اعمال نہ صرف جائز بلکہ واجب ہوں گے ۔ 
وطنیت پرستی موجودہ جمہوری نظام کی ریڈھ کی ہڈی ہے۔ دنیا کا ہر ملک اپنے شہریوں کو وطنیت پرستی کی شراب پلاتا ہے اور ملک کی آبرو کے نام پر جان کی قربانی چاہتا ہے۔ ’’ملک کی آزادی اورزندگی میں عزیز تر کیا ہے؟ ‘‘یہ سوال اگر کسی امریکی یا برطانوی سے بھی کیا جائے تو اس کا جواب ’’ آزادی ‘‘ہوگا، بصورت دیگر ملک کے تئیں اس کی وفاداری مشکوک قرار پائے گی۔
عراق کے حالیہ خونیں منظر نامے پرنظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کے جنگجوئوں میں بھی اسلامی جذبے سے کہیں زیادہ قومی جذبے کی کار فرمائی ہے، اس سے سابق صدر صدام حسین بھی مستثنیٰ نہیں ہیں، اس لیے عراق میں پیدا شدہ خون ریزی کے تعلق سے گفتگوکرتے ہوئے ہمیشہ اسلام یا جہاد کا حوالہ دینا صحیح معلوم نہیں ہوتا ہے۔
یہاں بحث کا یہ پہلو بھی نکل سکتا ہے کہ مسجد کے نمازیوں کو مارنے والے کون تھے، اس پر غور کیا جائے، ظاہر ہے جس طرح اس مسجد میں مرنے والے سب امریکی نہیں تھے، اسی طرح اس خبر کو نشر کرنے والے صدام حسین کے دلال یا اسامہ بن لادن کے چیلے نہیں تھے، بلکہ اس کے بر عکس ان کے مخالفین تھے۔ اور یہ عقلی طور پر مسلم ہے کہ کسی کے بھی حق میں اس کے مخالف کی بات آنکھ بند کر کے تسلیم نہیں کی جا سکتی۔
عراق افغان یا دوسرے ملکوں میں جب اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں تو فوراً یہ فیصلہ لے لیا جاتا ہے کہ یہ کرنے والے وہ مسلمان ہیں جن کا تعلق القاعدہ یا دوسری تنظیموں سے ہوگا، اور اسی مفروضے کو سامنے رکھ کر اسلام، جہاد اور دہشت گردی کو موضوع بحث بنا دیا جاتا ہے، حالانکہ وہاں دوسرے بہت سے ممکنات بھی ہوتے ہیں جن کو شک کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے، پھر اگر حملہ آور مسلمان ہوں جب بھی کوئی ضروری نہیں کہ ان کا تعلق براہ راست شدت پسند مسلم تنظیموں سے ہی ہو، اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ آج امریکی قید خانوں میں بے شمار معصوم عراقی شہری بھی ہیں جن کے ساتھ حیوانیت کا سلوک کیا جا رہا ہے، اور اپنے اقرباء او ر رشتہ داروں کو ذلیل ہوتا دیکھ کر کسی بھی انسان میں تشدد کا پیدا ہو جانا فطری ہے۔ اس لیے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ آج عراقی جنگ جوئوں میں اسلام پسندوں، شدت پسندوں،قومیت پرستوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان کی بھی ہے جن کو اقرباء کی محبت نے خون ریزی پر آمادہ کر دیا ہے اور اس صورت حال میں حملہ آوروں کے (اگر وہ مسلمان ہیں ) ہر ہر عمل میں اسلامی تعلیمات کی جلوہ نمائی تلاش کرنا ، قرین انصاف نہیں ہے۔
اب تک تصدیق نہیں ہو سکی:-
’’شمالی عراق کے موصل شہر میں امریکی فوجی کیمپ پر خودکش حملہ کا ذمہ دار ’’انصار السنہ‘‘ گروپ نے گزشتہ ہفتہ ایک ویڈیو ٹیپ جاری کیا ہے جس میں اس حملے کی تیاریوں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ ویڈیو ٹیپ گروپ کی ویب سائٹ پر جاری ہوا جس میں دو شنبہ کی تاریخ ہے۔منگل کے اس خودکش حملہ میں ۲۲؍افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے نے امریکی کیمپ کے حفاظتی انتظامات پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے،صحافیوں نے جمعرات کے دن امریکی وزیر دفاع ڈونالڈ رمسفلڈ سے یہ سوال کیا کہ آخر کیوں امریکی فوجیوں کو ہلاکت کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔یہ ویڈیوٹیپ دکھاتا ہے کہ تین مسلح افراد سیاہ لباس اور نقاب پہنے ڈائننگ ہال پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں، ان میں ایک شخص کہتا ہے کہ گروپ کا ایک آدمی گارڈز کی تبدیلی کے وقت کیمپ پر حملہ کر دے گا اور ٹیپ کے دوسرے حصہ میں ٹھیک اس کیمپ پر خودکش حملہ ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ،لیکن اب تک اس ویڈیوٹیپ کی تصدیق نہیں ہو سکی۔‘‘
 یہ ایک عربی اخبار سے ترجمہ ہے ، اس پوری خبر کی بنیاد ایک ویڈوٹیپ پر ہے، جس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے، لیکن تصدیق نہ ہونے کی بات خبر کے آخر میں کہی گئی ہے، خبر کی ہیڈنگ ہے’’شریط فید یو یعرض عملیۃ الہجوم علی قاعدۃ الموصل‘‘ اخبارات کے قارئین ہیڈنگ پڑھنے کے بعد خبر کی چند سطریں پڑھ کر اس کا خلاصہ معلو م کر لیتے ہیں، آخر تک پڑھنے کی زحمت کم لوگ کرتے ہیں، اس طرح آج کی خبروں سے ہمیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں جگہ مسلمانوں کے فلاں گروپ نے خود کش یا تباہ کن حملہ کیا۔ سارے تبصرے اور تجزیے اسی بنیاد پر ہوتے ہیں، جبکہ عموماً ایسی خبروں کی کوئی تصدیق نہیں ہوتی۔ اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ آج ہم تک پہنچنے والی خبر یں ہمارے لیے کس قدر گمراہ کن ہیں۔
میں بہت دنوں سے یہ سوچ کر حیران ہوں کہ مسلم شدت پسند تنظیمیں حملہ کرنے کے بعد اقرار جرم کرنے کی حماقت کیوں کرتی ہیں۔ ہر شخص یا ہر جماعت کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اس کے کرتوت خواہ جتنے بھی کالے ہوں مگر وہ عوام یا قانون کی نظر میں سب سے زیادہ پاک وصاف دکھائی دے، لیکن شدت پسند تنظیموں کا رویہ اس کے بر عکس کیوں کر ہے کہ وہ جرم بھی کرتی ہیں اور اقرار جرم بھی؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کا مقصد شہرت کمانا ہوتا ہے اور شہرت کے لیے وہ جرم قبول کر لیتی ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ صرف شہر ت کے لیے کوئی خود کشی کو دعوت نہیں دے سکتا، صرف اس مقصد کے لیے کہ لوگ کسی تنظیم کو جان جائیں اس کے ممبران خودکشی کے لیے ہرگز تیار نہیں ہو سکتے، خصوصاً اس صورت میں کہ اس شہرت سے ان پر عرصہ حیات تنگ ہو جاتا ہے اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر ان کے خلاف داروگیر شروع ہو جاتی ہے۔لیکن یہ دیکھ کر کہ اس قسم کی (تقریباً ) تمام خبروں کے آخر میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اس خبر کی اب تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے، حقیقت سے کچھ کچھ آشنائی ہونے لگی ہے۔
 بڑامجرم کون ، بش یا صدام؟
۱۴؍ دسمبر ۲۰۰۵ء کو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے یہ بیان دیا کہ: ’’ یہ سچ ہے کہ عراق کے تعلق سے موصول ہونے والی اطلاعات زیادہ تر غلط تھیں۔ اس لیے میں ایک صدر ہونے کی حیثیت سے عراق جنگ کے فیصلے کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔‘‘( ٹائمس آف انڈیا ۱۶؍۱۲؍ ۲۰۰۵ء)
مسٹر بش نے اپنے ان الفاظ میں نہ صرف عراق جنگ کی ذمہ داری قبول کی ہے بلکہ انہوں نے یہ اعتراف بھی کر لیا ہے کہ وہ لاکھوں عراقیوں اور ہزاروںامریکی فوجیوں کے قاتل ہیں۔ صدام کے خلاف آج جو مقدمات چل رہے ہیں ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ انہوں نے ۱۹۸۲ء میں ۱۴۸؍شیعوں کو قتل کر ڈالا تھا ، لیکن بتایا جائے کہ صدام کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد کا بش کے مقتولین کی تعداد کے ساتھ کیا تناسب ہے؟ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ صدام ایک ڈکٹیٹر تھے،ڈکٹیٹر شپ بجائے خود غلط طرز حکومت ہے لیکن سوال ہے کہ اس طرز حکومت میں کیا چند افراد کاقتل ہونا کوئی تعجب خیز ہے؟ بلکہ حکومت کو بچانے کے لیے ڈکٹیٹر شپ ہی کیا،ڈیموکریسی میں بھی خون کے چند قطرات ٹپک جانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔صدام حسین اس وقت بیڑیوں میں جکڑ ے ہوئے ہیں، اس لیے ا ن کا جرم سب معلوم کر رہے ہیں اور سب کو تبصرے کرنے کا موقع مل رہا ہے ،ورنہ کچھ کمی بیشی کے ساتھ سعودی حکمرانوں سمیت دنیا کے تمام ڈکٹیٹر حکمرانوں کا حال بھی یہی ہے،لیکن بہر کیف جرم جرم ہوتا ہے، اگر صدام نے واقعی کچھ ناحق خون بہائے ہیں تو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے لیکن  صرف ۲۰۰۵ء میں ۸۴۴ امریکی فوجیوں اور ہزاروں عراقیوں کے قاتل اور کروڑوں کی املاک تباہ کر کے زندگی کی رفتار کو ڈانواڈول کر دینے والے اقراری مجرم بش کے خلاف کیا قانونی چارہ جوئی نہیں ہونی چاہیے؟کہتے ہیں کہ دوربادشاہت میں’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘والی حکومت تھی، جمہوریت نے اس چیز کو ختم کر دیا اور دنیا کے سارے انسانوں کو قانون کی نظر میں برابر کر دیا۔ اگر یہ بات سچ ہے تو ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حقوق انسانی کے احترام کی دعویدار عالمی تنظیمیں، عدالتیں اور ادارے بش کے حق میں اس قدر خاموش کیوں ہیں؟ 
عراق عوام کے حوالے:-
۱۵؍ دسمبر۲۰۰۵ء کو عراق میں پہلا جمہوری انتخاب ہوا، مختلف علاقوں میں ووٹنگ ہوئی، ۱۶؍دسمبر کے اخبار میں جسم نما لباس میں ملبوس ایک خاتون کو پولنگ بوتھ پر ووٹ دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے، خبر کا عنوان ہے:Iraq goes to the people.
ہمیں یاد آتا ہے کہ افغان سے طالبان کی شکست اور نئی عبوری حکومت کی تشکیل کے بعد ایک افغانی عورت کی تصویر اخبارات نے بہت نمایاں کر کے شائع کی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ وہ آزادی کے ساتھ ایک مرد سے ہاتھ ملا رہی ہے، اس طرح اخبارات محض ایک تصویر چھا پ کر قارئین کو بہت کچھ بتا اور سمجھا دیتے ہیں اور قارئین سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تصویری صحافت کا یہ انداز نہایت پر فریب ہے۔ یہ حقیقت میں بس ایک جزوی واقعہ ہوتا ہے جس کو عوام غلطی سے کلی واقعہ سمجھ لیتے ہیں۔ اگر اس زاویے سے غور کریں کہ حکومت خواہ جتنی بھی سخت گیر ہو وہ ملک کے ایک ایک فرد سے اپنے قانون کی مکمل پابندی نہیں کرا سکتی، تو یہ فوراً واضح ہو جائے گا کہ اس طرح کی تصویریں چھاپ کر یہ بتانا کہ اس جگہ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا اب ہونے لگا،سو فی صد درست نہیں ہے۔
لیکن ہمیں اس خبر پر ابھی دوسرے زاویے سے بحث کرنی ہے، وہ یہ کہ جمہوریت کی وظیفہ خوانی میں مصروف آج کے روشن خیال(لغوی معنی میں نہیں) مسلم دانشوران کے موقف کے لیے اس قسم کی خبریں بڑی ٹھوس دلیلیں فراہم کرتی ہیں، وہ کہنے لگتے ہیں کہ صدام مطلق العنان حکمران تھے اور مطلق العنانیت غیر اسلامی حکومت ہے، اس کے برعکس جمہوریت اسلامی طرز حکومت ہے، اس پس منظر میں ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کوئی اسلام کا دشمن نہیں، کیوں کہ اس نے مسلمانوں کو ایک غیر اسلامی حکومت سے نجات دے کر اسلامی حکومت کے سائے میں کھڑا کر دیا ہے۔
یہ باتیں بظاہر معقول بھی لگتی ہیں، لیکن ’’اسلامی جمہوریت‘‘ کی صحیح تفہیم سے قطع نظر بھی یہاں یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کیا عراق کی حکومت اب جمہوری ہو گئی؟ عراق سے پہلے افغان طالبانیوں کے پنجے سے آزاد ہونے کے بعد کیا اب جمہوری نظام کے تحت چل رہا ہے؟ صدام بھی اپنے دور اقتدار میں ووٹنگ کراتے تھے اور سو فیصد ووٹ سے کامیاب ہوتے تھے، ان کی اس کامیابی کے بارے میں آج کہا جاتا ہے کہ وہ ڈکٹیٹر تھے ، اس لیے الیکشن برائے نام تھا، ہوتا تو وہی جو ان کی مرضی ہوتی ۔ یہ بات ایسی معقول ہے جو سو فی صد درست ہو سکتی ہے مگر سوال ہے کہ کیا آج عراق میں جو جمہوری انتخاب ہو رہا ہے اس میں سب کچھ وہی نہیں ہو رہا ہے جوامریکہ کی خواہش ہے؟ کیا آج واقعی جمہوری انتخاب ہو رہا ہے یا انتخاب برائے نام ہے؟ یہ تسلیم کر لینے میں کتنی صداقت ہے کہ ’’عراق عوام کے حوالے ہو گیا‘‘؟
کیا اسلام مخالف سازشیں شباب پر ہیں؟
  ’’امریکہ اسلام کا دشمن نہیں اپنے مفاد کا دوست ہے‘‘ یہ سخن سازی ہے ان اہل ہنر کی جو شب وروز عالمی ایوارڈز کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں، یہ بات ایسی ہی ہوئی جیسے کوئی کہے کہ’’بھگت سنگھ کو سولی پر چڑھا کر انگریزوں نے کسی ہندوستانی کا خون نہیں بہایا بلکہ ایک باغی حکومت کو کیفر کردار تک پہنچایا۔‘‘ یا کوئی یہ کہے کہ ’’ بھیڑیا بکری کا دشمن نہیں اپنے پیٹ کا دوست ہے۔‘‘ بہر کیف! آج کے جو حالات ہیں وہ اس طرف واضح اشارہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف آج چہار طرفہ محاذ آرائی جاری ہے، پوری دنیا میں اسلام مخالف سازشیں ہو رہی ہیں، اسلامی تہذیب وثقافت،اسلامی فکر وخیال اور اسلامی اقتصادو معیشت کو ختم کرنے کی تیاریاں اپنے شباب پر ہیں، یہ بات مسلم عوام ، علماء اور دانشوران کی زبانوں پر اس قدر جاری ہے کہ ’’زبان خلق کو نقارۂ خدا کہیے‘‘ کے مصداق اسے ناقابل انکار حقیقت کہا جا سکتا ہے مگر یہیں پر ہمارے دوسرے کچھ ایسے دور اندیش اور حالات آشنا دانشوران ہیں جو اس قسم کی باتوں کو ایک مفروضہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پوری دنیا اپنے اپنے مفاد ، ترقی اور شہرت و برتری کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہے، کسے فرصت جو کسی دین و مذہب کے خلاف سازش کر نے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرے۔
یہ بات صحیح بھی معلوم ہوتی ہے کیوں کہ مثال کے طور پر آج جو ننگی فلمیں بن رہی ہیں ، حسینہ عالم کوئز منعقد ہو رہے ہیں یا ڈالر کی حدت اور سکّوں کی کھنک پر یا آزادی کے پر فریب فلسفے بیان کر کے عورتوں کو طرح طرح سے بے آبرو کیا جا رہا ہے، اس تعلق سے ہم یہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ان کے پیچھے اسلام مخالف ذہنیت یا سازش کار فرما ہوتی ہے، اس کے بر خلاف یہ بات زیادہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس کے پیچھے مادی منافع کا حصول، صنعتی فروغ اور تجارتی اشیاء کی زیادہ سے زیادہ کھپت کرنے کی سوچ کارفرماہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مقام پہ پہنچ کر میرے قارئین گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہوں گے، لیکن اگر وہ اس نکتے کو سامنے رکھیں تو عقدہ حل ہو جائے کہ ’’مسلمانوں کی فکر کا محور یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آج اسلام کے خلاف سازش ہو رہی ہے یا نہیں، اصل محور یہ ہونا چاہیے کہ آج مغربی دنیا جو کچھ کر رہی ہے اس سے اسلام کا فائدہ ہو رہا ہے یا نقصان؟‘‘
سچی بات یہ ہے کہ آج مختلف ازم (نظریات) دنیا کو اپنے مطابق ڈھالنے کی جی توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ ہر از م کی خواہش ہے کہ پوری دنیا کی تہذیب و ثقافت اور فکر و خیال اس کے سانچے میں ڈھل جائے، وسیع پیمانے پر ہرازم کی تبلیغ ہو رہی ہے، ہندومت، سکھ مت، یہودیت،عیسائیت اور اسلام جیسے باضابطہ مذہبی افکار کے علاوہ سیکولرزم، کمیونزم، مارکس ازم، ڈیموکریسی جیسے متعدد غیر مذہبی افکار ہیں،جن کی تبلیغ و ترویج میں مذہبی تبلیغ سے کہیں زیادہ جدوجہد ہو رہی ہے۔ یہ نظریات ایک دوسرے سے متصادم ہیں، ان میں سب سے نمایاں اسلام اور میٹرلزم(مادیت) ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسلام کا مطلب دولت کو چھوڑ کر دین سے لپٹنا نہیں ہے اور نہ ہی میٹر لزم کا مفہوم دولت کمانا ہے، بلکہ اسلام دین کے ساتھ جائز طریقوں سے دولت کمانے کی ترغیب دیتا ہے جب کہ میٹرلزم کے نزدیک دولت کا حصول ہی سب کچھ ہے، اس کے حصول کے لیے کون سی تدبیریں ہو رہی ہیں، ان کے جائز یا ناجائز ہونے سے اسے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
ان سارے نظریات کا ایک تصورحیات ہے، ایک دستور العمل ہے، ایک دائرہ کار ہے، جس کی حدود میں وہ اپنا عمل جاری کیے ہوتے ہیں، اب یہا ںہم یہ کہیں کہ ایک ازم دوسرے ازم کے خلاف کام کرتا ہے یا یہ کہیں کہ ہر ازم اپنے مفاد میں کام کرتا ہے، بات برابر ہے۔ کیوں کہ مثلاً اسلام کا جتنا ہی فروغ ہو گا مادیت( میٹرلزم) اسی قدر کمزور ہوگی اور میٹرلزم کا عروج اسلام کے زوال کا باعث بنے گا۔اس کو ہم ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ جتنے مسلم ملکوں پر قبضہ جماتا جائے گا اسلام کا زور ٹوٹتا چلا جائے گا،خواہ امریکہ کی نیت اپنے مفاد کا حصول ہو یا اسلام کی تضعیف ۔
یہودی عینک کی فریب کاریاں:-
بارہویں پر وٹوکول میں یہودی ماہرین نے لکھا ہے:’’ہماری منظوری کے بغیر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ خبر کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی ،اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہم یہود یو ں کے لیے یہ ضروری ہے کہ خبر رساں ایجنسیاں قائم کریں جن کا بنیادی کام ساری دنیا کے گوشے گوشے سے خبروں کا جمع کرنا ہو، اس صورت میں ہم اس بات کی ضمانت حاصل کر سکتے ہیں کہ ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی خبر شائع نہ ہو سکے۔
( مغربی میڈیا اور اس کے اثرات ،ص:۹۶)
آج ہم ذرائع ابلاغ کے توسط سے دنیا کے چپے چپے کے حالات جان کر بھی جو انجانے سے لگتے ہیں اس کی وجہ اسی مذکورہ بالا منصوبے کے تحت بنائی گئی وہ عینک ہے جو آج ہماری نگاہوں کو بے نور بنا رکھی ہے۔ اس منصوبے کے مطابق یہودی دانشوران اوراہل ثروت نے پوری تند ہی سے کام کیا او ر وہ آج اپنی کامیابی کی انتہاء پر ہیں، نیوز ایجنسیاں قائم ہوئیں، جولیس ریوٹر ( پ ۱۸۱۶ء) نے جو جرمن یہودی تھا، انیسویں صدی کے نصف اول میں ہی ریوٹر ایجنسی قائم کیا جس کی بنائی ہوئی خبریں انٹر نیشنل اخبارات اور چینلوں کے لیے وحی کا درجہ رکھتی ہیں،۱۸۳۵ ء میں فرانس کے ایک یہودی خاندان نے ہاوس نیوز ایجنسی قائم کیا جو بعد میں فرانس پریس ایجنسی کے نام سے مشہور ہوا،۱۸۴۸ء میں ایسوسی ایٹیڈ پریس (امریکہ) قائم ہوا جس پر%۹۰یہودیوں کا قبضہ ہے اور ۱۹۰۷ء میں دو امریکی یہودیوں نے یونائیٹیڈ پریس کی بنیاد رکھی، آج آخبارات و رسائل ودیگر ذرائع ابلاغ جو اپنے دہانے سے بارود کے گولے اگل رہے ہیں وہ دراصل انہی نیوز ایجنسیوں کے تیار کردہ ہیں ۔ ایسے میں ان کی کس خبر پر یقین کیا جائے اور کسے مشکوک سمجھا جائے، ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اور یہ مسئلہ صرف ہمارے لیے ہی نہیں مسیحی علما ودانشوران کے لیے بھی سردرد کا باعث بنا ہوا ہے، بیسویں صدی کے آغاز میں ہی جبکہ ابھی ان ایجنسیوں کا ابتدائی دور تھا بعض مسیحی مفکرین نے ان کے شدید خطرات کی پیش گوئی کی تھی۔ امریکی دانشور اڈریان آر کنڈر۳۱؍ نومبر ۱۹۳۷ء کو نیویارک میں اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:’’عالمی خبر رساں نیوز ایجنسیوں کے ذریعہ یہودی تمہارے دل و دماغ کو دھو رہے ہیں، وہ اپنی مرضی کے مطابق دنیا کے حالات وحوادث دیکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں، یہ نہیں کہ واقعی حقائق اور حوادث کیا ہیں۔(مغربی میڈیا : ۱۵۹)
ہمیں نہیں معلوم کے مسیحی دنیا پر اس قسم کے لیکچرز کا کیا اثر پڑا، البتہ موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ یہودیوں نے صرف مسیحیوں کے دل و دماغ کو ہی نہیں ، ہر قوم کے فکر و خیال کو دھو ڈالا ہے اور اب ہر کوئی انہی کے مطابق دنیا کے حالات کو دیکھنے اور سمجھنے پر مجبور ہے۔
بلکہ آج جو ہم یہ سمجھ رہے ہیںکہ یہودی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں کس چکے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ یہ ’’سمجھ‘‘ بھی انہی کی دی ہوئی ہے۔ ویسے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کی یہ ساری کارستانیاں صرف دو صدیوں کی ہیں ، دو صدیوں میں انہوں نے ہمیں اپنے طلسماتی جالے میں الجھا دیا ہے۔لیکن اگر ہم ’’امکان‘‘ کو سامنے رکھ کر تازہ دم ہو جائیں اور آزادانہ سوچنا شروع کردیں تو کوئی بعید نہیں کہ کم از کم ہم اس صدی کے ختم ہوتے ہوتے اپنے آپ کو اس جالے سے باہر کر لیں۔لیکن یہ رہ گزر جنون کی ہے،قدم بڑھاتے وقت  ہم سے ہر شخص  ؎
خرد سے کہہ دے اسی موڑ پر ٹھہر جائے
جنوں کا وقت ہے اب ایسی رہ گزر آئی
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔