Tuesday 23 January 2018

عصرحاضر میں مسلم نمائندہ نسل کی تعمیر کیسے ہو؟

0 comments
عصرحاضر میں مسلم نمائندہ نسل کی تعمیر کیسے ہو؟
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
----------------------------------------------------------------------------
(۱) جوان نسل کسی بھی سماج کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے- ریڑھ کی ہڈی جسم کے درمیان میں ہوتی ہے اور اسی پر بالائی اور زیریں وجود قائم ہوتا ہے- اگر وہ مضبوط ، مستحکم اور مستقیم ہے تو پورا جسم مضبوط، مستحکم اور مستقیم ہوتا ہے ورنہ قدجھک جاتا ہے اور جسم اپاہج بن جاتا ہے- ٹھیک اسی طرح جوان نسل سماج کی درمیانی نسل ہوتی ہے، اس سے اوپر بوڑھے ہوتے ہیں جو اپنا کام کر چکے ہوتے ہیں ، وہ تھکے ہارے ہوتے ہیں اور اپنی ساری امیدیں انہی جوانوں سے وابستہ رکھتے ہیں اور اس سے نیچے بچے ہوتے ہیںجو انہی جوانوں کو اپنا آئیڈیل بنا کر اپنا تعلیمی و تربیتی سفر طے کرتے ہیں- جوان نسل علم و فکر اور سیاست و بصیرت کے اعتبار سے بھی قوم کی نمائندہ ہوتی ہے اور جسمانی طاقت، فوجی قوت اور سیاسی استحکام کے لیے بھی وہی بنیاد ہوتی ہے - اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی سماج میں جوانوں کی کیا اہمیت ہے-
سماج کے بوڑھوں کو جوان نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی بے راہ و بے کار جوانوں کو رہبر و رہنما اور باکار بنایا سکتا ہے - ایسے میں صرف نوجوان اور بچے بلفظ دیگر نسل نو ہی ایسی ہے جس کی بہتر تعلیم و تربیت کے ذریعے اسے خود کار، پر عزم، مدبر اور قائدانہ و امیرانہ صلاحیتوں کا حامل بنایا جا سکتا ہے- نئی نسل کی اچھی تعلیم و تربیت سے ہی قوم کی نمائندہ نسل کی تعمیر و تشکیل ہو سکتی ہے اور اسی کے توسط سے ہی کسی بھی قوم کے بہتر مستقبل کا خواب سجایا جاسکتا ہے- اگر نئی نسل کی تعمیر و تشکیل صالح خطوط پر نہ کی گئی تو پھر سماج میں بے کار اور اوباش جوانوں کی کثرت ہوگی جو قومی اور ملی تباہی کا الارم ہے-
مسلمانوں کی نئی نسل کی موجودہ تعمیر و تشکیل ان کے دینی و ملی کے مستقبل کے لیے امید افزا ضرور ہے لیکن اطمینان بخش نہیں ہے- امید افزا اس لیے کہ دینی اور ملی سطح پر پسپائی کا ایک مبہم احساس تقریباً آج کے ہر مسلمان کے اندر پیدا ہو چکا ہے اور کسی بھی قوم کے اندر اس احساس کا پیدا ہونا اس کی ترقی کی راہ کا پہلا زینہ ہے کیوںکہ جرم کا اعتراف خیر کے دروازے کھولتا ہے اور اسی طرح زوال کا ادراک عروج کی راہیں ہموار کرتا ہے - اس اعتبار سے مسلمانوں کی نئی نسل کی تعمیر و تشکیل خواہ جس طور پر ہو امید افزا اس لیے ہے کہ ایک چنگاری ہر نوجوان کے سینے میں سلگ رہی ہے جو کبھی بھی شعلہ بن کر اپنی راہ خود متعین کر سکتی ہے- چوںکہ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ بہتا ہوا پانی اپنی راہ خودبنا لیتا ہے اس لیے کاروان مسلم کے دل میں پیدا شدہ یہ احساس زیاں دیر یا سویر متاع کا رواں کی بازیافت از خود کرلے گا-
دوسری طرف مسلمانوں کی نئی نسل کی موجودہ تعمیر و تشکیل کے ناقابل اطمینان ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قومی و ملی تعمیر کے تین مدارج ہوتے ہیں (۱) تفکیر (۲) تدبیر اور(۳) تعمیل- او ر مسلمان اب تک تفکیری مرحلے کو بھی عبور نہیں کر سکے ہیں- مسلم اشرافیہ فکری انتشار بلکہ فکری دیوالیہ پن کا شکار ہے- ۱۶؍ ویں صدی مغربی دنیا کی نشاۃ ثانیہ اور مسلم دنیا کے زوال کا نقطۂ آغاز ہے- اس وقت سے اب تک پچھلے چار سو سالوں میں تسلسل کے ساتھ مسلمان مذہبی اور سیاسی ہر دو سطح پر پسپا ہوتے آ رہے ہیں- ابتدائی دو صدیوں میں تو وہ احمقوںں کی جنت میں جیتے رہے جب ان کی آنکھ کھلی تو سب کچھ لٹ چکا تھا، جب کہ آخری دو صدیاں عظمت رفتہ کو یاد کرنے اور دل بہلانے میں بسر ہوگئیں-اس دوران مسلمان اپنی شکست کو چھپانے کے لیے یہ کہتے رہے کہ مغرب کی جدید ترقی مسلمانوں کی دین ہے- اب اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ مسلم نفسیات میں یہ احساس گھر کرتا جا رہا ہے کہ یا د ماضی سواے عذاب کے کچھ بھی نہیں ہے، مستقبل کی سرفرازی کے لیے ہمیں اپنے حال میں جدوجہد کرنا ضروری ہے - لیکن بد قسمتی سے حال میں جدوجہد کس انداز کی ہو اس کے خطوط واضح طور پر سامنے نہیں آ سکے ہیں- مغرب کی سازش ہے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو Devide & Ruleیہ بات پچھلے سو سالوں سے شد و مد کے ساتھ دہرائی جا رہی ہے لیکن اس سازش کو ناکام کیسے بنایا جائے، مسلم ذہن اس کا حل اب تک دریافت نہیں کر سکا ہے- ایسے غیر یقینی اور پر آشوب ماحول میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ نئی نسل کی تعمیر و تشکیل قابل اطمینان ہو- اس اجمال کی قدرے تفصیل یہ ہے:
(الف) تقریباً نصف سے زائد مسلم بچے ابتدائی تعلیم و تربیت سے محروم ہیں- ان بچوں پر کچھ تبصرہ کرنا ہی بے کار ہے- یہ ایک کرب ہے کاش مسلم اشرافیہ اس کا احساس کرے اور اسلامی نظام زکوٰۃ کے عملی نفاذ کے ذریعے اس کا مد اوا تلاش کرنے کی فکر کرے-
(ب)زیر تعلیم مسلم بچوں اور نوجوانوں کی اکثریت سرکاری اسکولوں اور تیسرے درجے کے پرائیویٹ اسکولوں میں ہے- ایسے طلبہ دینی تعلیم و تربیت سے تقریباً محروم ہیں- ان سے مسلمانوں کے دینی مستقبل کی امیدیں وابستہ کرنا محض عبث ہے اور ملی مستقبل کی توقع بھی تقریباً فضول ہے- بہت زیادہ یہ ہوگا کہ یہ بچے جوان ہو کر بے روز گار نہیں رہیںگے دوسرے اور تیسرے درجے کی کسی نہ کسی ملازمت سے وابستہ ہو جائیں گے-
(ج)زیر تعلیم بچوں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد وہ ہے جو دینی مدارس میں ہے جہاں دینی تعلیم اس معیار کی نہیں ہے کہ اس کے توسط سے اسلام کے عالمی سفیر اور دعاۃ و مبلغین پیدا ہوں،اسلام پرجدید اعتراضات اور سوالات کرنے والوں کا شافی جواب دینے والا دستہ تیار ہو اور اس تعلیم سے مسلم اقتصادی و سیاسی پسماندگی کے حل کی توقع توکی ہی نہیں جا سکتی - اس کے بارے میں صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے مقامی سطح کا دینی شعور پیدا ہوتا ہے اور اسی میں سے استثنائی طور پر بعض آفاقی دینی شعور کی مثالیں بھی نکل آتی ہیں-لیکن اصولی اعتبار سے مستثنیات پر تکیہ نہیں کیا جا سکتا - مدارس کی تعلیم کے بارے میں آخری طور پر صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے-Something is better than no thing.
(د) زیر تعلیم مسلم بچوں اور نوجوانوں کی قلیل تعداد اعلیٰ سطحی پرائیویٹ اسکولوں میں ہے- ان کا معاشی اور جدید معاشرتی مستقبل محفوظ ہے- لیکن کیا ایسے بچوں سے مسلمانوں کے دین و ملت کے مستقبل کی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں؟ شاید نہیں اور قطعاً نہیں! ہمیںتو اس بات کی فکر اور دعا کرنی چاہیے کہ ایسے بچوں اور نوجوانوں کی مو ت ہی اسلام پر ہو جائے- اگر یہ بھی ہو جاتا ہے تو بہت غنیمت ہے- چہ جائیکہ یہ نسل بڑی ہو کر مسلمانوں کے دینی و ملی استحکام کا سبب بنے-
(۳) دینی اداروں میں عصری شعور کا فقدان ہے اور عصری اداروں میں دینی شعور کا-یہ ایسا خلا ہے جسے مسلم انٹلی جینسیا واضح طور پر محسوس کر رہی ہے-اس خلا کا پر کیا جانا عصر حاضر میں مسلم نمائندہ نسل کی تعمیر و تشکیل کی ضمانت ہے-اس بنیادی کمی کے علاوہ بھی ایسے کئی ضروری عناصر ہیں جن کا دینی و عصری اداروں میں فقدان ہے مثلا دینی اداروں کا حال یہ ہے کہ
(الف) دینی اداروں میں قرآن ،حدیث،فقہ اور سیرت کے علوم پڑھائے جاتے ہیں مگر ان اداروں میں ایسی تربیت کا فقدان ہے جس سے ان علوم کو دل میں اتارا جائے-بلفظ دیگر دینی ادارے عالم بنانے کا کام کر رہے ہیں عامل بنانے کا کام نہیں کر رہے ہیں اور اسلامی نقطئہ نظر سے عمل کے بغیر کوئی بظاہر کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو وہ در حقیقت جاہل ہے-
(ب) دینی اداروں میں طلبہ کے اندر جو نفسیات پیدا ہوتی ہے اس میں اصلاح کے بالمقابل افساد اور اتحاد کے بالمقابل اختلاف کے عناصر زیادہ ہوتے ہیں- دینی ادارے داعی اور مبلغ پیدا کرنے کے بجائے بالعموم مقرر اور مناظر پیدا کر رہے ہیں-
(ج) دینی مدارس میں مسالک اور فرقوں کے بارے میں تو معلومات فراہم کرادی جاتی ہے اور وہ بھی اس شدت کے ساتھ کہ مسلکی تصلب بسا اوقات اسلامی حمیت پر غالب آجاتا ہے، مگردوسری طرف مذاہب واقوام کی معلومات فراہم نہیں کی جاتی- نتیجے کے طور پر فارغین مدارس کی فکری جد وجہد کا محور صرف مسلکی مسائل ہو تے ہیں ملی ،بین مذاہبی اوربین اقوامی مسائل پر ان کی نظر نہیں ہوتی یا بہت کم ہوتی ہے-
اسی طرح عصری ادروں میں پروان چڑھ رہے طلبہ کی تعلیم و تربیت میں کئی ضروری عناصر کا فقدان ہے، مثلا
(الف) مارکس کے فارمولوں کے مطابق عصری دانش گاہوں میں زیر تعلیم طلبہ معاشی حیوان بنتے جا رہے ہیں- صرف مذہبی نہیں انسانی اقدار بھی بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں- اس فکر میں جی رہے طلبہ جب جدید مذہبی دنیا کی’’مذہبی تجارت‘‘ کو دیکھتے ہیں تو وہ اپنی خود سری اور بے راہ روی میں اور پختہ اور جری بنتے چلے جاتے ہیں- ایسے طلبہ کے سامنے عصری اداروں کے اندر یا باہر مذہب کے نام پر جی رہے لوگوں میں’’مثالیت‘‘ نظر نہیں آتی- سماج میں مخلص اور صحیح معنوں میں مذہبی افراد کا فقدان اس معاشی حیوانیت کو مزید تقویت فراہم کررہا ہے-
ّ(ب)  عصری اداروں میں جوطلبہ مذہب پسند واقع ہیں،جو بالعموم سائنس کے طلبہ ہیں،ان کی رہنمائی صحیح ڈھنگ سے نہیں ہو پا رہی ہے- مختلف فرقوں اور مسالک سے وابستہ افراد ان طلبہ کی مذہبیت کا استحصال کر رہے ہیں- ایک بڑا طبقہ وہ ہے جو ان طلبہ کو اسلامی رواداری اور عالم گیریت کے اسباق پڑھانے کے بجائے تشدد اور نفرت کے اسباق پڑھا رہا ہے- اگر ان طلبہ کی صحیح اسلامی متصوفانہ تربیت ہوتی ہے تو یقینی طور پر ان طلبہ سے مسلمانوں کے بہتر سیاسی،سماجی، علمی،تعلیمی اور ملی مستقبل کی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں-
(ج) عصری اداروں میں اسلام پڑھانے والے اساتذہ بالعموم’’مثالی مسلمان‘‘ نہیں ہیں-علمی و فکری طور پر بھی ان کے اندر وہ استحکام نہیں ہے جو ہونا چاہیے- اسلامی مآخذ ومصادر پر بھی ان کی گرفت مضبوط نہیں ہے- وہ مستشرقین کی چبائی ہوئی ہڈیاں چوستے ہیں اور مگن رہتے ہیں-اس سے عصری اداروں میں  اعلی دینی تعلیم بہت متاثر ہے اور اس کے منفی اثرات یہاں زیر تعلیم اسلامیات کے طلبہ اور دیگر طلبہ پر مرتب ہو تے ہیں-
(۴) مثالی مسلم سماج کی تشکیل اسی وقت ممکن ہے جب اس میں ایسے جوان ہوں جو سو فیصد مسلمان ہوں اور سوفیصد اکیسویں صدی کے انسان ہوں - ان کا دل مسائل کتاب و سنت سے معمور ہو اور ان کی عقل جدید طرز حیات کے ہرہر پہلو سے واقف ہو- ان کے ہاتھوں میں ہدایت کا قرآنی چراغ ہو اور ان کے پیروں تلے ان کی تعمیر کردہ شاہراہ ہو- ان کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے دین بھی ہو اور دنیا بھی ہو- دین ودنیا کسی بھی جہت سے کمزورجوان مثالی مسلم سماج کی تشکیل نہیں کر سکتے-
ایسے جوانوں کی تعمیر بخاری ومسلم میں وارد حدیث جبرئیل کی روشنی میں بہتر طور پر کی جا سکتی ہے- یہ حدیث اللہ پر، رسولوں پر،آخرت پر، بعث بعد الموت پر،آسمانی کتابوں پر، فرشتوں پر اور قیامت کے دن پر ایمان لانے کا مطالبہ کرتی ہے-نیز اسلام کے پانچ ارکان(۱)  کلمہ شہادت(۲) نماز (۳) روزہ (۴) زکوٰۃ(۵) حج کی نشاندہی کرتی ہے- مثالی مسلم سماج اسی وقت تشکیل پا سکتی ہے جب اس کے جوان ان ارکان پر پوری ایمانداری سے عامل ہوں- ایمان ان کے دل کی گہرائی میں اترا ہوا ہو اور وہ ارکان اسلام کے پابند ہوں- پھر اس حدیث میں ’’احسان‘‘ کی تعلیم فرمائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ عبادت اس طور پر کرو گویاتم خدا کو دیکھ رہے ہو یا اس طور پر کرو کہ خداتمہیں دیکھ رہا ہے- اسلامی نقطئہ نظر سے مومن کی زندگی کا ہر حصہ اگر وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے تو وہ عبادت ہے، اس لیے ضروری ہے کہ مسلم جوان زندگی کے جس شعبے سے وابستہ ہوں وہاں خدا کوحاضر وناظرسمجھیں اور پوری ایمانداری کے ساتھ اپنا کام احسن طریقے پر کریں- خواہ مسجد میں ہوں کہ تعلیم گاہ میں، تجارت میں ہوں کہ ملازمت میں، ادب کے بازار میں ہوں کہ سائنس کی لیباریٹری میں، جہاں ہوں اپنی ذمہ دار یاں’’احسان‘‘ کی روشنی میں احسن طریقے پر انجام دیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ مثالی مسلم معاشرہ تشکیل نہ پائے-
(۵) عصر حاضر میں اسلام کی عالمی دعوت وتبلغ اور مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے ایسے دعاۃ و مبلغین اور سفرا مطلوب ہیں جو دینی علوم اور جدید علوم سے پورے طور پر آراستہ ہوں- ان کی نظر سماجیات،تاریخ، فلسفہ،عمرانیات،سیاسیات، اقتصادیات، جدید سائنسی علوم،جدید ٹکنالوجی اور اکتشافات پر گہری ہو- جدید دور میں اسلام کاداعی ومبلغ اور سفیر بننا آسان نہیں ہے، اس کے لیے باعزم نوجوانوں میں سے کچھ کو خالص اللہ و رسول کی رضا جوئی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنی ہوںگی- اس کے ساتھ انھیں اخلاص،وللہیت،ایمان راسخ،عمل کامل،تواضع اور راست بازی کے زیور سے بھی آراستہ ہونا ہوگا-ساتھ ہی ساتھ پیش کش کے جدید ذرائع اور تکنیک سے واقف ہونا بھی ضروری ہے- ان صلاحیتوں اور خوبیوں سے لیس اگر مسلم جوان سامنے آتے ہیں تو اکیسویں صدی میں اسلام کی دعوت وتبلیغ کا کار عظیم وجلیل بہتر انداز میں انجام پائے گا- یہی جوان اسلام اور مسلمانوں کے نمائندہ ثابت ہوں گے اور اکیسویں صدی کو وہ سب کچھ دینے کے اہل ہوں گے جس کی اس صدی کو شدید ضرورت ہے-
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔