Monday 15 January 2018

مسلمانوں کے لیے دوسرا درس عبرت --- سچر کمیٹی رپورٹ کے بعد لبراہن کمیشن رپورٹ

0 comments
مسلمانوں کے لیے دوسرا درس عبرت
سچر کمیٹی رپورٹ کے بعد لبراہن کمیشن رپورٹ
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
-----------------------------------------------------------------
 سال بعد ۳۰؍ جون ۲۰۰۹ء کو جسٹس منموہن سنگھ لبراہن نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم ہند مسٹر منموہن سنگھ کو سونپ دی- بات صیغۂ راز میں تھی- ۵؍ مہینے کے بعد ۲۳؍ نومبر کو یہ رپورٹ کسی طرح ایک اخبار تک پہنچ گئی- ۲۴؍ نومبر کو حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی پارلیمنٹ میںاس پر بحث کرانی پڑی- جن لوگوں کو یہ رپورٹ مورد الزام ٹھہرا رہی ہے یعنی بی جے پی، آر ایس ایس ، شیو سینا اور دوسری بھارت ماتا کی وفادار جماعتوں کے سرکردہ لیڈران ، وہ پارلیمنٹ میں چراغ پا تھے کہ آخر کیوں رپورٹ کی خبر قبل ازوقت لیک کر گئی- اس کے ذمہ دار موجودہ حکومت اور اس کے سربراہ وزیر اعظم مسٹر منموہن سنگھ ہیں- بحث کا بیشتر وقت اسی ہنگامے کی نذر ہوگیا اور ابھی نتیجہ آنا باقی ہے- ہندوستانی پارلیمنٹ اور عدلیہ اس سلسلے میں بہت سنجیدہ ہے- وہ عجلت میں کوئی قدم اٹھانا نہیں چاہتی - امید کی جاتی ہے کہ اس رپورٹ پر مکمل سنجیدہ غور وفکر کے بعد اگلے پچاس سو سالوں میں مجرموں کے خلاف سخت سے سخت سزا کا اعلان کردیا جائے گا-
لبراہن کمیشن رپورٹ ۱۰۲۹ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے-اس کا آغاز ان تمہیدی کلمات سے ہوتا ہے:
’’ کچھ لوگوں کے لیے اقتدار کی ہوس ہی سب سے اہم چیز ہے اور اقتدار کے حصول کا عام ذریعہ سیاست ہے - اقتدار کے حصول کے لیے اور صرف ذاتی مفاد کے لیے سیاست کے استعمال کی خواہش و کوشش مستقل جاری ہے- سیاست کے مطلوبہ نتائج جس طور پر بھی حاصل ہوجائیں ، ان کے پیچھے اور دوسرا کوئی مقصد نہیں ہوتا- حصول اقتدار کے دوران، دستور، ملک، افراد اور سماج پر جو زور دیا جاتا ہے اس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا-زندگی سیاست زدہ ہوکر رہ گئی ہے- معروضیت ، علمی امانت اور منطقیت اس عمل میں مفقود ہوکر رہ گئی ہے- سیاسی اقتدار اور مطلوبہ سیاسی نتائج کے حصول کے لیے ، دستور قانون، تحریری یا غیر تحریری اخلاقیات او رپند ومواعظ کو حقیر و بے معنی سمجھ کر دیا جاتا ہے-صحت مند اور جائز طرز عمل کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا- سیاسی غیر جانب داریت پورے طور پر مفقود ہے -‘‘
جسٹس لبراہن نے اپنے ان ابتدائی کلمات میں ہندوستانی سیاست کا صحیح نقشہ کھینچ دیا ہے - مسلمان خبروں پر آہ و فغاں تو کرتے ہیں، مگر اس نقشے کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے- سیاست کا یہ نقشہ جب ہمارے ذہن شریف میں آجائے گا تواس کے بعد ہم آہ و فغاں کرنا بند کردیں گے اور وہ عمل کرنا شروع کریں گے جو اس جمہوری ریاست میں عزت و وقار دلا سکتا ہے - کیوں کہ جسٹس لبراہن کی یہ تمہید اس حقیقت کومنکشف کررہی ہے کہ ہندوستان میں آہ وفغاں کا کوئی حاصل نہیں - بد قسمتی سے مسلمان اب تک یہی کرتے آئے ہیں-
دوسرا کام مسلمانوں نے صرف یہ کیا ہے کہ قوم کی قیادت کا بورڈ لگا کر سیاست کے ناپاک گلیاروں میں پہنچے ہیں اور اپنے ضمیر کا سودا کرکے دوچار لاکھ روپے لے کر باہر آگئے ہیں- بس یہی ہے مسلم قیادت جس کے بارے میں لبراہن کمیشن رپورٹ لکھتی ہے:
"While the RSS, VHP, Shiv Sena, Bajrang Dal and the BJP brought the temple construction movement to the front burner and caused it to boil over, the fanatic Muslim leadership making the counterclaim were either completely complacent and had no substantial or effective leadership or were simply incompetent."
(جس وقت آر یس ایس،وشو ہندو پریشد،شیو سینا،بجرنگ دل اور بھارتی جنتا پارٹی رام مندر تعمیر کی تحریک زور و شور سے چلا رہی تھیں اور اس میں گرمی پیدا کررہی تھیں، اس وقت خیالی مسلم قیادت جو ان کی مدمقابل تھی یا تو بالکل خاموش تھی اور اس کے اندر کوئی بنیادی اور موثر قائدانہ رول موجود نہیں تھا یا مسلم قائدین بالکل ہی کورے تھے)
سچر کمیٹی رپورٹ اور لبراہن کمیشن رپورٹ میں امر مشترک:-
 سچر کمیٹی رپورٹ او رلبراہن کمیشن رپورٹ دونوں کا تعلق اگرچہ دو مختلف مسائل سے ہے، تاہم دونوں میںامر مشترک یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے کمزور، نحیف و ناتواںاور بے دست و پا شبیہ پیش کر رہی ہیں -سچر کمیٹی رپورٹ نے بتایا کہ مسلمان تعلیمی میدانوں میں ہندوستان کے دلتوں اور قبائلی قسم کی پسماندہ قوموں سے بھی پیچھے ہیں-وہ قوم جو ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت ہے، وہ ہندوستان کی سب سے زیادہ ان پڑھ اور ناخواندہ ہے، جب کہ لبراہن کمیشن رپورٹ نے مسلمانوں کی سیاسی بے وقعتی کا آئینہ دکھا دیا اور یہ بتادیا کہ اس قوم کی ہندوستان میں کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے اور اگر ہم اس معاملے کی گہرائی میں اتر کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس سیاسی اپاہج پنے کا ذمہ دارکوئی اور نہیں صرف مسلمان ہیں- ہم چاہیں تو اس مظلومیت کا ٹھیکرا حکومت وقت کے سر بھی پھوڑسکتے ہیں، جیسا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی عام سرشت ہے- لیکن میں سمجھتا ہو ںکہ ایسا کرنا نہ صرف اپنے عیوب کو چھپانے کی شعوری کوشش ہے، بلکہ اپنے آپ میں غلط اور لاحاصل بھی ہے-
مغل دور کے بعد مسلمانوں کا تعلیمی اور سیاسی موقف:-
 مغل عہد حکومت مسلمانوں کا آخری عہد مباہات تھا جس کے بعد مسلمان آسمان سے سیدھے زمین پر تو آگئے، مگر ان کا ذہنی تفاخر باقی رہا، عظمت رفتہ کی یاد یں ہمیشہ انہیں تسلیاں دیتی رہیں اور ذلت کی زندگی گزارتے ہوئے بھی احمقوں کی جنت میں شاداں و فرحاں رہے، دوسری طرف عہد مغلیہ کے خاتمے کے بعد وہ داخلی و خارجی سطح پر ایسے مسائل سے دوچار ہوتے رہے کہ وہ خود کو حالات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کرسکے-نہ موجودہ سیاست میں صحیح مقام حاصل کرسکے اور نہ ہی معاصر تعلیمی نظام سے خود کو جوڑ سکے- انتہا یہ ہوئی کہ جن لوگوں نے سیاست اور تعلیم سے خود کو جوڑنا چاہا، وہ جادئہ اعتدال سے اتنے منحرف ہوگئے کہ اس کی وحشت سے سیاست حاضرہ سے لاتعلقی اور جدید تعلیمی نظام سے علاحدگی عام مسلم مزاج میں شامل ہوگئی اور ایسا ہونا فطری بھی تھا- اس لیے کہ برطانوی دور میں جو مسلمان جدید تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے، وہ اسلام کے اصولی عقاید و احکام کا انکار کر بیٹھے اور جنہوں نے جدید سیاست میں قدم رکھا وہ قشقہ کھینچنے اور دیر میں بیٹھنے پر آمادہ ہوگئے اور اب جب کہ جدید جمہوری ہندوستان کی تشکیل کے ۶۰؍ سال گزر گئے تو معلوم ہوا کہ مسلمان ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی غیر تعلیم یافتہ، کمزور اور بے اثر قوم ہیں - نہ سیاست میں ا ن کا وجو د ہے اور نہ وہ ہندوستان کے تعلیم یافتہ شہری ہیں-
زوال مسلم کا ذمہ دار کون ؟
 مسلمانوں کا طبقہ اشرافیہ دو گروپ میں بٹا ہوا ہے - ایک مذہبی گروپ جس میں علما ومشائخ ہیں، جب کہ دوسرے گروپ میں جدید تعلیم یافتہ ، ارباب ثروت اور اصحاب سیاست شامل ہیں- ہندوستان میں مسلم قیادت ان دونوں گروپ سے تشکیل پاتی ہے اور مجموعی طور پر ۱۰۰؍ فیصد نا کام ہے -یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی حیثیت نہ تو عام ہندو شہریوں کی ہے، جو ہندوستان کا اکثریتی حکمراں طبقہ ہے، نہ سکھوں کی ہے جو ۲؍ فیصد ہوتے ہوئے بھی اتنا دم خم رکھتے ہیں کہ اپنی ہر بات حکومت سے منوالیتے ہیں، ہر لمحے تشدد پر آمادہ بھی رہتے ہیں اور عام ہندوستانیوں کی نظر میں ملک کی امن پسنداور باوقار قوم کے طور پر بھی دیکھے جاتے ہیں - نہ مسلمانوں کی حیثیت ہندوستانی دلتوں کی ہے ، کہ انہیں کمزوراور لاچار سمجھ کر بہت سے حقوق و مراعات حاصل ہیں اور نہ وہ عیسائی ، پارسی اور بدھ قوموں کی طرح عوامی و حکومتی نگہ لطف و کرم کے سزاوار ہیں-
آزاد ہندوستان میں پچھلے ۶۰؍ سالوں کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ ناکام مسلم قیادت کے دونوں میں سے ہر ایک گروپ اپنے کو بری الذمہ اور دوسرے کو زوال کا حقیقی ذمہ دار ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے - مذہبی گروپ کو فرقہ پرست، بنیاد پسند، جدید تعلیم کا مخالف اور نہ جانے کیا کیا کہا جاتا رہا ہے، جب کہ دوسری طرف مذہبی طبقے کا یہ کہنا ہے کہ زوال کے باوجود مسلمانوں کے لیے عملی طور پر تھوڑا بہت جو کچھ کیا وہ مذہبی طبقے نے ہی کیا ہے - غیر مذہبی طبقے بیانات تو دیتے رہے ہیں، لیکن زمین پر اتر کر مسلمانوں کے مفاد کے لیے کچھ نہیں کیا ہے -
اس سے قطع نظر کہ زوال مسلم کا کون کتنا ذمہ دار ہے ، یہ سچائی بے نقاب ہے کہ زوال کے ذمہ دار دونوں ہیں اور اب مسلمانوں کی ترقی کے لیے نہ صرف ان دونوں گروپ کو سنجیدگی کے ساتھ غو رو خوض کرنے اور مثبت طور پر عملی پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ عام مسلمانوں کو بھی اپنے قومی وجود کو ثابت اور بہتر کرنے کے لیے جد وجہد کرنا ہوگا-
جمہوریت کا ادراک:-
 ہندوستانی مسلمان نحیف و ناتواں اور بے بس کیوں ہیں ؟ اس سوال کا جواب ایک جملے میں یہ ہے کہ انہیں جمہوریت کا ادراک نہیں ہوسکا ہے - کچھ مسلمان وہ ہیں، جو اس جمہوری ریاست میں حالات حاضرہ اور سیاست حاضرہ سے بے تعلق، بلکہ بے خبررہ کر ’’ اپنے ایمان‘‘ کے ساتھ جینا چاہتے ہیں- اکثر مسلمان ابھی عہد رفتہ کی زریں یادوں کے سہارے جی رہے ہیں-کچھ مسلمان جمہوریت کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرہ سمجھ کر اس سے نجات پانے کی فکر میں سرگرداں ہیں- کچھ جدیدیت پسندوں  کے ذہن میں یہ بھوت سوار ہے کہ ہمارے زوال کی سب سے بڑی وجہ ہمارا دین و ایمان ہے، اس لیے مسلمانوں کو اپنے مذہب اور اپنی تہذیب و ثقافت سے الگ ہوکر ہندوستان کے اکثریتی طبقے اور عام ذہن کے ساتھ اشتراک و انضمام کرلینا چاہیے-یہ تمام خیالات باعث حیرت بھی نہیں- جن زوال کی شکار قوموں کا یہی حال ہوتاہے ، وہ نہ سچ کا سامنا کرنا چاہتی ہیں اور نہ ہی آسانی سے سچائی انہیں سمجھ میں آتی ہے- وہ ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتی ہیں اور ہر جگہ انہیں پستی کے نشانات نظر آتے ہیں-
جمہوریت ایک عوامی حکومت ہے جہاں عوام اپنی محنت اور صلاحیت کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں - جمہوری ریاست میں نہ ماضی کی یادیں کچھ سہارا دے سکتی ہیں اور نہ حکومت سے گریز کچھ نفع بخش ہوسکتا ہے اور نہ ہی حکومت سے کسی بھیک کی امید عزت و سرخروئی دلا سکتی ہے- حکومت سے بھیک کی امید سوائے حماقت کے اور کچھ بھی نہیں ہے، کیوں کہ جمہوریت میں حکومت، عوام سے علاحدہ کوئی چیز نہیں ہے- جمہوریت میں عوام ہی حاکم اور وہی محکوم ہیں- یہ بات مسلمانوں کے لیے بھی اتنی ہی درست ہے، جتنی دوسری قوموں کے لیے درست ہے - افسوس یہ ہے کہ جمہوری ریاستوں میں جینے والے مسلمانوں کو اپنی محکومی حیثیت تو یاد ہے مگر انہیں اپنی حاکمانہ حیثیت کا احساس نہیں ہے- ضرورت ہے اس احساس کو جگانے کی-اس احساس کے بیدار ہونے جانے کے بعد سارے شکوک وشبہات کا از خود ازالہ ہوجائے گا اور مسلمان یہ سمجھنے لگیں گے کہ جمہوری ریاست میںترقی نہ حکومت سے بھاگ کر ممکن ہے نہ مذہب سے گریز کرکے ممکن ہے- جمہوری ریاست میں صرف جمہوری طریقے پر ترقی اور سرخروئی ممکن ہے، جس کی اسلام بھر پور اجازت دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حکومت کے جو تین ستون ہیں مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ ، مسلمان ان میںشامل ہوں اور حق مانگنے کی بجائے اپنا حق لینے کا ہنر سیکھیں- نیز حکومت کے چوتھے ستون یعنی میڈیا پر بھی اپنی گرفت مضبوط کریں- اور ظاہر ہے کہ ان تمام ستونوں کی زمین تعلیم اور صرف تعلیم ہے ،جس کے میدان میں مسلمانوں کی ناگفتہ صورت حال سچر کمیٹی پیش کرچکی ہے اور اب ۳؍ مہینے کے لیے مقرر ہونے والے لبراہن کمیشن نے۱۷؍ سال کے بعد جب اپنی رپورٹ پیش کی ہے تو پھر ہمیں اپنی لاچاری اور عدم تحفظ اور تعلیم کی ہمہ گیرضرورت کا احساس ہونے لگا ہے-
لبراہن کمیشن رپورٹ کے بعد:-
 لبراہن کمیشن نے آر ایس ایس ، وی ایچ پی، بی جے پی، بجرنگ دل، حکومت اتر پردیش کے ساتھ ۶۸؍ افراد کو نام بنام بابری مسجد کے انہدام کا ذمہ دار قرار دیا ہے، جن میں ایل- کے- اڈوانی ، اشوک سنگھل ، اچاریہ دھر میندر دیو، بال ٹھاکرے ، کے ایس سدرشن،لال جی ٹنڈن، مہنت پرم ہنش رام چندر داس ، مرلی منوہر جوشی، پرمود مہاجن ، پروین توگڑیا ،اوما بھارتی ،وجے راجے سندھیا ، ونے کٹیار او روشنوہری ڈالمیا کے نام شامل ہیں-آر ایس ایس کو اس سلسلے کی کلیدی تنظیم اور کلیان سنگھ کو اس حادثے کاکلیدی ذمہ دار بتاتے ہوئے مسٹر اٹل بہاری واجپئی کو نام نہاد روشن خیال لیڈر اور در پردہ فرقہ پرست ذہنیت کا حامل شخص بتایا گیا ہے جس کی رضا مندی اور کوشش بابری مسجد انہدام میں شامل ہے - دوسری طرف یہ رپورٹ سو فیصد کانگریسی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ذمہ داروں میں کانگریس کا نام دور دور تک نہیں ہے- لیکن سوال ہے کہ جو رپورٹ تین مہینے میں پیش ہونی تھی، اس کے آنے میں ۱۷؍ سال لگ گئے تو کیا اس رپورٹ کی بنیاد پر مجرموں کو آسانی سے سزادی جاسکے گی ؟ اب تک جو تجزیے سامنے آئے ہیں وہ اس کی نفی کرتے ہیں- ایسے میں مسلمان کیا کریں؟؟ کیا اپنی شکست تسلیم کرلیں، بابری مسجد قضیے سے دست بردار ہوجائیں ، یا وہ متحدہ طور پر اس کے لیے عدالت عالیہ سے اس کے لیے فریاد کریں اور فاسٹ ٹریک عدالت کی تقرری کا مطالبہ کرکے اس مسئلے کو اس کے انجام تک پہنچائیں؟
اپنی شکست تسلیم کرنا یا بابری مسجد قضیے سے دست بردار ہوجانا نہ صرف دینی و شرعی طور پر غلط ہے، بلکہ جمہوری طور پر بھی غلط ہے کہ جمہوریت جو ہمیں حق دے رہی ہے اس کا استعمال نہ کریں- نیز ایسا کرنے سے یہ مسئلہ ختم بھی نہیں ہوگابلکہ اس کے بعد چند سالوں میں ہی پھر رام مندر تعمیر کی تحریک زور پکڑے گی اور پھر رات دورات میں رام مندر کی تعمیر مکمل ہوجائے گی- اس لیے مسلمانوں کے لیے صحیح راستہ یہی ہے کہ وہ اب عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں - ان کے اس عمل میں زور اور استحکام کیسے پیدا ہوگا؟ اس سوال پر غور کرتے ہوئے اپنی ممکنہ جد وجہد جاری رکھیں-یہ تو ممکن نہیں کہ تمام مکاتب فکر متفق و متحد ہوجائیں جس کی وکالت ہمارے عام دانش وران کرتے ہیں- البتہ یہ ممکن ہے کہ اس مسئلہ پر ہندوستان کے تمام مکاتب فکر والے اپنی بساط بھر کوشش کرتے رہیں جو شرعی طور پر ان پر واجب ہے اور جمہوری طور پر جو ان کا حق ہے-
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔