Tuesday 23 January 2018

فضلاے مدارس کے لیے عصری تعلیم کتنی مفید ہے؟

0 comments
فضلاے مدارس کے لیے عصری تعلیم کتنی مفید ہے؟
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
-----------------------------------------------------------------------
اسلام میں جہاں زندگی اور مابعد زندگی کے بے شمار فلسفے اور اصول ملتے ہیں وہیں ’’تجدید دین‘‘ کا قانون بھی ملتا ہے، جس کے مطابق ہر صدی کے آغاز میں ایسے ذی علم ، با ہمت، حقیقت پسند اور اسلام دوست افراد جنم لیتے ہیں جو اسلام کو بے اصولیوں اور بے اعتدالیوں سے پاک کر کے اس کے صحیح خد و خال کو پیش کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔اگر ہم یہاں کچھ دیر ٹھہر کر اس اصول کے پس منظر پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ اصول ایک قدرتی اور فطری امر پر مبنی ہے۔ دراصل عہد کی تبدیلی اور قوموں کے عروج و زوال  سے تہذیب و تمدن میں کافی تغیر ہوتا ہے، سوچنے اور برتنے کا انداز بدلتا ہے، پھر قدامت پر ستی وجدت پسندی کی ایک جنگ چھڑتی ہے ،کوئی غیر ضروری روایات کی بقا کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے کے لیے تیار ہوتا ہے تو کوئی جدت و بدعت کے فتوے داغنا شروع کرتا ہے۔ نتیجۃً اسلام کی بنیادی تعلیمات اور حقیقی پیغامات پس پشت رہ جاتے ہیں اور بز عم خویش حامیان اسلام غیر ضروری امور میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔
آج کے اس برقی دو ر میں جس سرعت کے ساتھ تہذیب و ثقافت کا تبادلہ ہو رہا ہے اس سے ایک با رپھر اسلام جدت پسندی اور قدامت پرستی کے نرغے میں آ گیا ہے۔ دونوں جانب سے اپنے اپنے موقف کی تائید میں دلائل پیش کی جا رہی ہیں۔ جو اموراس وقت موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ان میں ایک ’’فضلا ے مدارس کی عصری تعلیم‘‘ بھی ہے۔ اسے اگر ہم اس وقت کے اہم ترین موضوعات میں سے ایک قرار دیں تو بجا ہوگا،فضلاے مدارس ملکی وبیرون ملکی یونیورسٹیوں کا رخ کر رہے ہیں یا اس کے لیے اپنے پر تول رہے ہیں، اس سے ابھی سے ایک تابناک مستقبل کے آثار محسوس کیے جا نے لگے ہیں، کیو ں کہ تعلیم کوئی بھی ہو بہر حال اپنا رنگ دکھا کر رہتی ہے۔ مگر فضلاے مدارس کے اس خروش پر بہت سی جبینیں شکن آلود ہیں، بہت سے لوگ اسے آزادی ، بے مسلکی، گم رہی،بے راہ روی اور بے دینی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں، جو بلاوجہ نہیں ہے، ان کے پاس بھی معقول دلائل و شواہد موجود ہیں ۔نئی تعلیم کی روشنی نے واقعی بہت سے فضلاء کی نگاہوں کو چکا چوندھ کر دیا ہے اور برقی قمقموں اور سائبر کی اسکرینز کی چمک نے انہیں بے راہ اور منزل سے دور کر دیا ہے،جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مدارس کے طلبہ کو دنیا سے بالکل الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ مذہب و شریعت کی تمام تر بہجتیں مدارس کی فصیلوں میں محصور بتا کر ان سے باہر نظر یں اٹھانے کو سخت ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے۔پھر اچانک جب وہ باہر کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں اور ان کے کان حالات ،تقاضے ،بلند فکری اور وسیع ظرفی جیسے الفاظ سے آشنا ہوتے ہیں تو ان کی مرعوب ذہنیت ان کے معانی ومصداق کی تعیین میں انہیں اعتدال و توازن پر قائم نہیں رہنے دیتی۔ نتیجۃً و ہ حد سے زیادہ کشادہ دلی اور وسیع ظرفی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں، یونیورسٹیز اور ان کے افراد کی ہر ہر ادا ان کے نگاہوں میں قابل تقلید ٹھہر تی ہے اور مدارس اور اہالیان مدارس کی ہر روش پسماندگی و بیزاری کی علامت ۔پھر مدارس پرلعنت وملامت اور یونیورسٹیز کی تعریف و توصیف کا ایسا خبط سوار ہوتا ہے کہ تنقید وتبصرہ سے آگے بڑھ کر بغاوت ومخالفت پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات یہ جنون انہیں اسلامیات کا بھی باغی بنا دیتا ہے۔
میر ے خیال میں درس گاہ خواہ دینی ہو یا عصری، اس کے سارے افراد مفید ہی نہیں ہوتے، بہت سے مدارس میںزیر تعلیم طلبہ بھی نہایت بد اخلاق، نکمے، ملک وملت کے بوجھ اور قوم وسماج کے لیے لعنت ہوتے ہیں، اگر اسی طرح یونیورسٹیز میں بھی بعض مثالیں مل جائیں(جو شاذ ہیں) تو صرف اسی وجہ سے یونیورسٹیز سے منہ موڑ لینا اور یہاں کے محاسن او رخوبیوں سے دست بردار ہو جانا، انصاف کا خون ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ صرف چند افراد سے بنتی ہے، اور میرا وجدان بول رہا ہے کہ عصری تعلیم چند ایک فضلاے مدارس کے ذریعے آ نے والی طوفانی آندھی کو نرم خرام ہوا میں تبدیل کر دے گی۔تاریخ کو ایک نئی اور خوش گوار سمت عطا کرے گی اور ان کے اندر مدارس کی تعلیم سے بیزاری، اسلامیات و ایمانیات کی پامالی اور بے مذہبی و بے مسلکی کی بجائے اسلام کی تبلیغ کا بے پایاں جذبہ، تعمیری افکار،قوت ارادی اور قوت عمل پیدا کرے گی اور وہ اسلام کے تئیں بہت کچھ کر دکھائیں گے۔ اس لیے ارباب مدارس پر لازم ہے کہ وہ اس وقت مثبت اور تعمیری جہت پر کام کریں، یعنی یونیورسٹیز کی جانب سے طلبہ کے رخ کو موڑنے کے بجائے اسے اچھی سمت دینے کی کوشش کریں، ان کے اندر دعوتی مزاج پیدا کریں، اس کے لیے سب سے پہلے ان کے سینوں میں صحیح افکار و نظریات اور رسوم و معمولات کے تعلق سے ایمان و یقین پیدا کریں، پھر انہیں ذہنی طور پر ان افکار و نظریات کو عالمی پیمانے پر پھیلانے کے لیے تیار کریں، اور اسی جذبے کے تحت انہیں عصری درس گاہوں میں برضا و رغبت بھیجیں، جہاں ہر مذہب و مسلک کے افراد رہتے ہیں، جو مذہب کو خاندانی رسم و روایت کے پس منظر میں نہیں دیکھتے، بلکہ مذاہب کا آزادانہ علمی و تقابلی مطالعہ کرتے ہیں، اور مطالعہ کے بعد جو جہت زیادہ قوی اور صحیح نظر آتی ہے اسی پر ایمان لاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام علم، فکر اور عقل کی کسوٹی پر پورے طور پر اترنے والا واحد مذہب ہے۔ اگر بحیثیت مسلمان ہم اسلام کی صداقت پر اسی انداز میں یقین رکھتے ہیں تو ہمیں اسلام کی اس صداقت اور یونیورسٹیز کے آزادانہ ماحول سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔ اپنے تربیت دادہ دعاۃ و مبلغین کو یونیورسٹیز میں بھیجنا چاہیے کہ وہ وہاں جائیں، وہاں ایک طالب علم سے زیادہ خود کو داعی و مبلغ بنا کر رکھیں، ہر مذہب کے ماننے والوں سے ملیں، اسلام کے تعلق سے ان کے خیالات معلوم کریں، ان کی بدگمانیاں دور کریں اور انہیں بتائیں کہ انسانیت مذہب سے الگ ہو کر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی اور اسلام کے علاوہ کوئی ایسا مذہب نہیں جس کو اختیار کر کے آدمی صحیح معنوں میں انسان بن سکے۔
اب تک مدارس کے جو فارغین یونیورسٹیز کا رخ کیے ہیں ان کی ذہنیت صرف یہ رہی ہے کہ ہم دینیات سے نکل کر عصریات میں داخل ہورہے ہیں۔ ان سے اہل مدارس کو جتنی شکایتیں ہوسکتی ہیں یا ہیں، وہ سب اسی ذہنیت کا نتیجہ کہی جاسکتی ہیں۔
 اب آئندہ آنے والے فضلاء سے اگر وہ چاہتے ہیں کہ وہ شکایتیں نہ ہوں تو ان کے لیے صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے مذکورہ بالا ذہنیت کی تبدیلی۔ اب اس کے بعد جو فارغین یونیورسٹیز کا رخ کریں ان کے اندر یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ ایسی فضا سے جہاں تبلیغی کا م بہت محدود پیمانے پر ہوسکتا تھا، نکل کر ایک کشادہ فضا میں داخل ہورہے ہیں جہاں وہ ہمہ گیر پیمانے پر تبلیغ و دعوت کا کام کرسکتے ہیں۔ یہاں ان کے سامنے مسلمانوں کے وہ شریر بچے نہیں ہوں گے جن کی اصلاح کے لیے صرف ایک طرح کی کوشش کافی ہوتی ہے، بلکہ یہاں ہندو، سکھ، عیسائی، جین اور بدھ مذاہب کے افراد بھی ہوں گے جن کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنی ہوگی۔ اور اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ان کے اعتراضات و شبہات کو دلائل سے دور کرنا ہوگا۔
آج یونیورسٹیز میں بین المذاہب والمسالک اختلاط ہے۔ یہاں پر جو بھی ضعیف الایمان، نحیف الفکر اور تقلیدی و روایتی مسلمان آئے گا چند دنوں میں ہی یہاں باغ و بہار کی مسحور کن فضاؤں اور دل فریب ہواؤں میں اس کے روایتی تانے بانے سب یکسر بکھر جائیں گے۔ وہ ایک کمیونسٹی، بے دین، خود غرض، جنس پرست اور مالی جانور بن جائے گا۔
 اس کے برعکس یہاں قدم رنجہ ہونے سے قبل ایمان و یقین کی شمع سے دل کی دنیا روشن ہوتو ایسا شخص اس آزاد ماحول میں بھٹکنے اور روشنی کی تلاش کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔ اور انہیں اس منزل تک پہنچا دے گا جو ہر انسان کی صحیح منزل ہے۔
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔