Thursday 31 August 2017

برطانیہ کا فریب

0 comments
برطانیہ کا فریب
از قلم: ضیاء الرحمٰن علیمی                                                 
------------------------------
 زیر نظر تحریر دراصل جناب اے- جی نورانی صاحب نے ایک انگریزی مقالے کا تلخیص ترجمہ ہے جو فرنٹ لائن کے شمارہ ۱۵ ؍فروری و ۲۹ فروری میں د وقسطوں میں شائع ہوا ہے-موصوف سپریم کورٹ آف انڈیا کے وکیل ہیں، ان کا شمار ہندوستان کے ممتاز کانسٹی ٹیوشنل ایکسپرٹ میں ہوتا ہے، ہندوستان ٹائمز، دی ہندو، فرنٹ لائن اور دوسرے اقتصادی سیاسی ہفت روزوں کے کالم نگار ہیں، مسلم مسائل سے گہری دل چسپی ہے اور ہندوستانی سیاست ان کا پسندیدہ موضوع، انہوں نے متعدد کتابیں بھی لکھی ہیں، ان کی تازہ ترین کتابوں میں (1)The Muslim of India: A Documentry Record, (2) Islam and Jihadقابل ذکر ہیں، موصوف کی تحریر اپنے اندر بیان کی خوبی ،زبان کی عمدگی اور اسلوب کی روانی لیے ہوتی ہے-زیر مطالعہ تحریر در حقیقت ان چند انگریزی کتابوں پر ان کا تبصرہ ہے جو اپنے موضوع کے اعتبار سے متحد ہیں اور سب قضیہ فلسطین سے متعلق ہیں، اس تحریر کا عنوان اور ذیلی عناوین سب میرے قائم کردہ ہیں، تحریر اپنے موضوع پر میری ناقص رائے کے مطابق جامع ہے، امید کہ جام نور میں اشاعت کے قابل ہوگی اور قارئین کو پسند آئے گی———————————ضیا ء الرحمن علیمی
خمیرمیں گناہ:- 
حیفہ یونیورسٹی میں پالٹیکل سائنس کے استاذ ایلن پیپ(Ilan Pappe)سے ایسوسی ایٹیڈ پریس کے ڈین پیری(Dan Perry)نے پوچھا کیا اسرائیل کی ولادت ناجائز طریقے پر ہوتی ہے؟ اس پر انہوں نے نہایت دیانت داری کے ساتھ واضح لفظوں میں جواب دیا ہاں! یہودیوں نے عربوں کو جلاوطن کر کے ان کی سرزمین پر قبضہ کر لیا، یہودیوں کی خواہش تھی کہ وہ استعمار پسندوں کی طرح عربوں کی زمین پر اپنا قبضہ بھی جما لیں اور اخلاقیات کا دامن بھی نہ چھوٹے، انہوں نے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے مظلوم دکھایا تاکہ ان کی کھلی جارحیت پر پردہ پڑ جائے (APرپورٹ، تل ابیب،۲۴ دسمبر ۱۹۸۵ء)
ایلن پیپ اس وقت یونیورسٹی آف اکسٹیر میں شعبۂ تاریخ کے چیر مین ہیں، انہوں نے ’’فارن پالیسی‘‘ کے شمارہ مارچ، اپریل ۲۰۰۵ء میں مذکورہ فکر کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے اور ایسے ناقابل تردید حقائق ذکر کیے ہیں جو یہاں مفصلاً ذکر کیے جانے کے لائق ہیں ، وہ لکھتے ہیں:ہمیں ان دونوں سوالوں کے مابین کہ اگر اسرائیل کا وجود نہ ہوتا تو کیا ہوتا اور یہ کہ اس کے مسائل سے بھرے ماضی کے پیش نظر اسرائیلی اسٹیٹ کا کیا جواز ہے؟ فرق کرنا ہوگا، پہلے سوال کو بنیادی طور پر اسرائیل کے ظلم و ستم کے شکار فلسطینیوں کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے، اگر اسرائیل کا وجود نہ ہوتا تو۰۰۰،۷۵۰ ہزار فلسطینی بے گھر نہیں ہوتے، پانچ سو فلسطینی قریے، ۱۱ فلسطینی شہر اور ۹۴ فی صد فلسطین کی زراعتی زمین، ہزاروں فلسطینیوں کی تجارت، ان کاکاروبار اور بے شمار لوگوں کا کیریر محفوظ ہوتا، حقیقی فلسطین میں اسرائیل کے علاوہ کوئی بھی سیاسی ڈھانچہ وجود میں آتا تو ۱۹۴۸ء میں فلسطینیوں کو اس آفت سے نبرد آزمانہ ہونا پڑتا جسے یہودی ریاست نے نسلی صفایا کی غرض سے ان کے اوپر ڈھایا تھا، اگر اسرائیل کا وجود نہ ہوتا تو میرے اندازے کے مطابق ۵۰ سال کے عرصے میں پچاس ہزار فلسطینیوں کی جانیں بچ جاتیں، ڈھائی ملین فلسطینی بیس ویں صدی کے دوسرے نصف میں نہایت ظالمانہ فوجی قبضے سے محفوظ رہتے، ایک ملین فلسطینی شہری لونی و نسلی امتیاز کے نظام کی مار نہ جھیلتے-
اس غیر اخلاقی واقعے سے دوسرے دو بھیانک نتائج بر آمد ہوئے،پہلا یہ کہ کرپٹ اور آمر عرب حکومتوں نے اپنے سماجی و اقتصادی مسائل سے صرف نظر کرنے کے لیے بہانے تلاش کر لیے، فلسطینیوں سے ہمدردی رکھنے کے باوجود اسرائیل کے حامی امریکہ سے اتحاد کر لیا تاکہ اپنے ہی عوام پر ان کی گرفت بنی رہی-دی ٹائمز(لندن) نے ۱۱؍فروری ۱۹۸۰ء کی اشاعت میں اسکالر پیٹر ہین ایسی(Peter Hennessy)کا ایک آرٹیکل شائع کیا تھا جس کا عنوان تھاLawrence's Secrat Arabin Slushیہ مضمون پبلک ریکارڈ آفس برطانیہ میں رکھے پچاس سال کے ٹرینرری فائل پر مبنی تھا، اس میں خلاصہ کیا گیا تھا کہ فلسطین کے پڑوسی ممالک کے کچھ ممتاز ترین لیڈروں نے رشوت لی تھی، ۲؍ مارچ ۱۹۲۲ء کو کولونیل سکریٹری ونسٹن چرچل(Winston Churchil)نے ہائوس آف کامن میں ادا کی گئی رقوم کی تفصیلات پیش کی تھی، اس رقم کا بھاری حصہ شریف حسین کے دو بیٹوں فیصل اور عبد اللہ کو ملا جو اس وقت بالترتیب عراق اور ٹرانس چارڈن کے بادشاہ تھے-
دوسرا خوفناک نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ عرب دنیا اور مسلم دنیا سے مغرب کے تعلقات بے حد کشیدہ ہو گئے اور تیسری دنیا میں اس کی امیج بے حد متاثر ہوئی-
اسرائیل کے باشندے تاریخی حقائق کے قبول کرنے میں اپنے مغربی حامیوں یا ہندوستانی ہمدردوں سے زیادہ ایمان دار ہیں، ٹام سیگیو(Tom Segeve)کی کتابOne Palestine Completeاسی کی شاہد ہے، کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ اگر سچائی قبول کر لی جائے تو اسرائیل کا وجود ہی ختم ہو جائے گا لیکن پیپ کے خیال میں سچائی کے اعتراف پر مبنی گفت و شنید میں وجود کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، اسرائیل نے فلسطینیوں کے جسم پر جو کاری زخم لگایا ہے وہ مند مل نہیں ہو سکتا لیکن بہت حد تک زخم پر مرہم رکھا جا سکتا ہے- تاریخی فلسطین میں متحدہ سیکولر ڈیموکریٹک اسٹیٹ کی سفارش حقیقت سے پرے ہو سکتی ہے لیکن کچھ حقیقت پسندوں نے چند ایسی متبادل تجویزیں پیش کی ہیں جو منصفانہ معلوم ہوتی ہیں-
اسرائیل کے مؤقر اخبارHaretzنے ۲۸نومبر ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی کیبنٹ سے متعلق اکیوا ایلڈر (Akiva Eldar)کی ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کار گزار وزیر خارجہ شلومو بین آمی(Shlomo Ben-Ami)کا وزیر اعظم کے آفس سے تیار کردہ رپورٹ پر جس میں فلسطینیوں کے ذریعہ کی جانے والی قانونی پامالیوں کی تفصیلات درج تھیں ایک چونکا دینے والا یہ ریمارک شائع ہوا تھا’’ اگر ناجائز قبضے کی مار جھیلنے والی قوم قابض قوم سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے تو اس پر مغربی دنیا کو کسی طرح کی حیرانی نہیں ہونی چاہیے، ایک مستحکم سماج کا یہ الزام کتنا مضحکہ خیز ہے کہ ظلم و بربریت کے شکار لوگ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے قانون شکنی کر رہے ہیں‘‘(’’اسرائیل :اے ہسٹورک اسٹیٹمنٹ‘‘: ہنری سیگمن، نیویارک بک ریویو، ۸ فروری، ۲۰۰۱ء)
ہنری کسنجر نے لکھا ہے کہ عرب دنیا کو اسرائیل اور امریکہ کے ذریعہ لکھی گئی تاریخ پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، کیا اسرائیل کو تسلیم کرلینے سے میڈیا اور عرب ممالک میں جاری حکومتی اور تعلیمی مہم کا خاتمہ ہو جائے گا جو اسرائیل کو ناجائز، استعماریت پسند اور خطے کا’’ تقریبا‘‘ سب سے بڑا مجرم مانتے ہیں-(انٹر نیشنل ہیرالڈ ٹری بیون،۲۴ ؍اکتوبر۲۰۰۱ء)
اگر تقریبا کی قید ہٹا دی جائے تو یہ اسرائیل کی ایک مکمل اور صحیح لفظی شبیہہ ہے، ناجائز، استعماریت پسند، مجرم، مشرق میں مغرب کی جاسوسی فوج، ۱۹۸۵ء میں ایلن پیپ نے کہا تھا کہ اسرائیل کی خمیر میں ہی گناہ شامل ہے لیکن ان کی تازہ ترین تحقیقات نے اس بات کو شکوک و شبہات سے بالا تر بنا دیا ہے کہ اسرائیل کا جنم ایک بدترین تاریخی اور سنگین بین الاقوامی جرم کی کوکھ سے ہوا ہے، یوں تو اسرائیل کا قیام ۱۴؍مئی ۱۹۴۸ء میں ہوا لیکن اس کے تانے بانے دہائیوں پہلے بنے جا چکے تھے-
انسانیت کے خلاف جرم:- 
پیپ کی تاریخ اسرائیل کے قیام سے پہلے کے دستاویزات پر مبنی ہے، ان کی حالیہ کتابThe ethnic cleasing at Palestineجو زیادہ تر اسرائیل کے سرکاری معلوماتی ذرائع پر مبنی ہے فلسطینیو ں کے نسلی صفایا کی خوفناک حقیقت کو ثابت کرتی ہے، نسلی صفایا کے اس بلو پرنٹ کا نامPlan Daletتھا، اس منصوبے کو حتمی صورت دینے کے لیے۱۰ مارچ ۱۹۴۸ء کو ۱۱؍ افراد ریاست کے قیام سے قبل کی اسرائیلی فوج ہگانا(Hagana)کے ہیڈ کواٹر ریڈ ہائوس میں جمع ہوئے تھے، اس مشاورتی ملاقات کی سربراہی ڈیوڈ بین جورین(David Ben Gurion)نے کی تھی جو بعد میں اسرائیلی ریاست کے پہلے وزیر اعظم بنے، اسی شام کو فلسطینیوں کی جلاوطنی سے متعلق تمام احکامات مختلف فوجی یونٹ کو پہنچا دئیے گئے، چھ ماہ بعد جب یہ ظالمانہ عمل اپنی انتہا کو پہنچا تو اس وقت تقریباً آٹھ لاکھ فلسطینی بے گھر ہو چکے تھے، نصف آبادی اپنی مصیبتوں پر نوحہ کناں تھی، اس وقت ان بے وطنوں کی مجموعی تعداد ۴۰۵ ملین ہے اور یہی لوگ اپنی واپسی کے حق کا مطالبہ کر رہے ہیں، مصنف کے مطابق یہ واقعہ نسلی خاتمے کے منصوبے کا واضح نمونہ ہے جو آج بین الاقوامی قانون کی نظر میں پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے، اسرائیل کے وجود کے ساتھ جڑا یہ واقعہ محض حادثاتی نہیں تھا بلکہ یہ اس منصوبے کا اٹوٹ حصہ تھا جس کے تحت سات سو سال سے فلسطینیوں کی ملکیت میں رہی سر زمین پر قبضہ کرکے اسے یہودی ریاست میں تبدیل کیا جانا اس بنا پر طے پا چکاتھا کہ یہ اٹھارہ سو سال پہلے یہودیوں کی ملکیت میں تھی-
۱۸۵۳ء میں عثمانی حکومت جس کے زیر اقتدار ممالک میں عراق،شام،لبنان،فلسطین میں نصف ملین آبادی عربی بولنے والی تھی جس میں اکثر یت مسلمانوں کی تھی، ۶۰ ہزار عیسائی اور ۲۰ ہزار یہودی تھے، فلسطین دراصل ۱۵۱۷ء سے لے کر ۱۹۱۸ء تک شام کے ایک صوبے کا حصہ تھا اور یہ خود بیروت کا صوبہ بھی تھا، ۱۸۶۴ء میں صوبوں سے متعلق لائے گئے ایک قانون کی رو سے کچھ ذیلی صوبوں کو بلاواسطہ استنبول حکومت کے تحت کر دیا گیا، انہی ذیلی صوبوں میں یروشلم بھی تھا، عصر حاضر کا فلسطین ذیلی صوبہ یروشلم اور بیروت کے سابق صوبہ کے متصل حصوں پر مشتمل ہے،اور اسی لیے اس زمانے کی تحریروں میں فلسطین کا تذکرہ آج کے سیاق میں نہیں ملتا -
فریب کا جال:-
 نومبر ۱۹۱۴ء کی پہلی عالمی جنگ میں عثمانی حکومت نے جرمنی اور ایسٹرو ہنگرین امپائر کا ساتھ دیا، ۱۹۱۸ء میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ جما لیا اور جب ۱۹۴۸ء میں انگریزوں نے فلسطین چھوڑا تو اس وقت یہودی مہاجرین کی بدولت یہودیوں کی آبادی دس گنا بڑھ چکی تھی، برطانیہ میں شائع ’’سروے آف فلسطین‘‘اور’’ اسٹیٹس ٹی کل ایبس ٹرے کٹ آف فلسطین‘‘ اور فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کی ایڈہاک کمیٹی کی رپورٹ پر مبنی اس ٹیبل کو ذرا ملاحظہ کریں:
دراصل برطانیہ نے متضاد وعدے کیے، عثمانی حکومت کے تابع عربوں کو آزادی کا جھانسہ دے کر عثمانی حکومت کے خلاف آمادۂ بغاوت کیا اور فرانس سے حدود ی توسیع کا وعدہ کیا تاکہ اتحاد برقرار رہ سکے، پانچ دستاویزات سے اس شیطانی عمل کا پتہ چلتا ہے-
۱-مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری مک ماہن(Hennry Mc Mahon)(جو ہندوستان کے خارجہ سکریٹری بھی رہ چکے ہیں) اور ہاشمی حکومت کے سربراہ شریف حسین کے مابین ۱۶-۱۹۱۵ میں مراسلت ہوئی جس میں حمایت کے بدلے عربوں کی آزادی کا وعدہ کیا گیا، ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۱۵ء کے ایک مکتوب میں لکھا تھا کہ شریف مکہ کے ذریعہ پیش کردہ نقشے کے اندر آنے والے پورے خطے کو آزادی دی جائے گی، یہ وعدہ اگرچہ’’ اصلاح و ترمیم‘‘ کی قید کے ساتھ مشروط تھا ،جس کے مطابق خاص طور سے مرسین(Mersin)الگزینڈر یتا(Alexandretta) اور شام کے وہ حصے جو دمشق، حامس، اور حاما کے مغرب میں آتے ہیں اور جنہیں خالص عرب قرار نہیں دیا جا سکتا مجوزہ آزادی کے نقشے سے خارج ہوں گے، اس مکتوب سے برطانیہ کی خفیہ مراد یہ تھی کہ اس نقشے سے فلسطین بھی خارج ہوگا، حالانکہ مکتوب کی عبارت اس کی تائید نہیں کرتی، مکتوب کا تجزیہ کرتے ہوئے بار ایلین یونیورسٹی اسرائیل کے پروفیسر مائیکل جے، کو ہین لکھتے ہیں کہ خط کے سر سری جائزے سے پتا چلتا ہے کہ اس طرح کا مطلب نہیں نکالا جا سکتا جیسا کہ برطانیہ نے نکالا ہے کیوں کہ اس میں جن علاقوں کا استثنا ہے وہ آج کے لبنان پر صادق آتا ہے نہ کہ فلسطین پر، بلکہ فلسطین تو ان علاقوں کے اندر آتا ہے جن کومک ماہن عرب قرار دیا ہے (The evaluation of Arab— Zionist Conflict. P:20 to 23)اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ مکتوب بد نیتی پر مبنی تھا ،جیسا کہ ایک ماہ بعد ہی ہندوستان کے وائسرائے کے نام ان کے ایک مکتوب سے واضح ہوتا ہے، ان کے مطابق یہ صرف لفظوی کی بازیگری تھی اور اس کا مقصد عربوں کو سبز باغ دکھا کر برطانیہ کی حمایت کے لیے آمادہ کرنا تھا، بیس صفحات پر مشتمل ایک میمورنڈم میں بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ برطانیہ سے یہ وعدہ لیا گیا تھا کہ فلسطین کو عربوں کی آزادی والے علاقوں میں شامل کیا جائے، دوسرے دستاویز سے پتا چلتا ہے کہ پورا فلسطین ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۱۵ء کے مکتوب میں شامل ہے-
۲-مئی ۱۹۱۶ء میں خارجہ آفس کے سر Mark Sykesاور ان کے فرانسیسی ہم منصب George Picotنے اس علاقے کو زیر اثر علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا ، گفت و شنید کا آغاز ۱۹۱۴ء کی عالمی جنگ کے آغاز سے قبل ۱۹۱۲ء میں ہی ہو چکا تھا ،ایک وہ علاقہ ہوگا جو زیر اثر ہوگا اور دوسرا بلا واسطہ ماتحت، فلسطین کا نظم و نسق برطانیہ فرانس اور روس کے بین الاقوامی اشتراک سے چلایا جائے گا-
۳-۲؍ نومبر ۱۹۱۷ء میں’’ بلفرڈ کلیریشن‘‘ پاس ہوا جس میں یہودیوں کے لیے ایک’’ نیشنل ہوم‘‘ کے قیام کا وعدہ کیا گیا، یہودی ریاست کی جانب دراصل یہ پہلا قدم تھا، اسی ماہ روس کی زمام حکومت بلوشویکس(Bloshevikes)کے ہاتھ آئی اور پھر اس خفیہ حلف نامے کی اشاعت ہوئی-
۴-اس خفیہ سازش کو جان کر جب عربوں کو بڑی پشیمانی ہوئی تو ان کی پشیمانی کم کرنے کے لیے ۱۷؍ نومبر ۱۹۱۸ء کو برطانیہ اور فرانس نے ایک اعلامیہ جاری کیا-
۵-لیگ آف نیشن (۱۹۱۹ء) کے کاویننٹ کے تحت فرانس نے شام اور لبنان کے تعلق سے اور برطانیہ نے عراق، ٹرانس جارڈن اور فلسطین کے تعلق سے ایک مینڈیٹ حاصل کر لیا اور پھر ِSykesاورPicotکے معاہدے پر پوری طرح عمل کیا گیا اور عربوں کو امید و بیم کی حالت میں چھوڑ دیا گیا ، مقصد چوں کہ فریب دینا تھا اس لیے یہ وعدے بھی باہم سر بگریباں تھے، ایک طرف اگر میک ماہن کا یہ وعدہ تھا کہ شام، فلسطین، عراق اور عرب کے دوسرے علاقوں میں آزاد ہاشمی سلطنت قائم کی جائے گی تو دوسرے طرف SykesاورPicotکے معاہدے کے مطابق وسط ایشیا کی ایک استعماری تقسیم ہونی تھی، بلفر کو معلوم تھا کہ’’ نیشنل ہوم‘‘ کی آڑ میں ایک یہودی ریاست کا منصوبہ ہے ،گویا ایک قوم( برطانیہ) نے دوسری قوم(یہودی) سے یہ وعدہ کیا کہ انہیں ایک تیسری قوم(عرب) کی سرزمین دی جائے گی-
اعلامیہ کے آتھر آرتھر جیمس بلفر سابق وزیر اعظم اور خارجہ سکریٹری تھے، ۱۱؍ اگست ۱۹۱۱ء کے نظر انداز شدہ ایک میمورنڈم میں انہوں نے وعدوں کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ دستاویزات باہم مربوط نہیں ہیں، ان میں آزادی کی بات بھی کی گئی ہے اور استعماری کنٹرول کی بھی، در حقیقت دنیا کی چار عظیم طاقتیں صہیونیت کے تئیں مخلص تھیں کیوں کہ ان کے مطابق صہیونیت بذات خود خیر ہو یا شر لیکن اس کا وجود عرصہ دراز پرانی روایات میں ہے ، موجودہ ضرورتوں میں ہے اور مستقبل کی امید میں ہے، اس کے وجود کی قوت سات لاکھ فلسطین عرب کی خواہشات سے زیادہ ہے جو آج اس قدیم سر زمین پر رہ رہے ہیں، فلسطین کا مستقبل جو بھی ہو لیکن یہ نہ ابھی آزاد ہے اور نہ آزاد ریاست بننے کی راہ پر گامزن ہے، چوںکہ مختلف گروپ سے کیے گئے وعدوں کی لفظی تنفیذ ہی ممکن ہے، اس لیے ان وعدوں کے اعلامیہ کو مختصر کر دیا گیا تاکہ وہ فرانس، برطانیہ اور یہودیوں کی خواہشات کے مطابق ہو جائیں اور رہے عربوں سے کیے گئے وعدے جو اس سرزمیں کے حقیقی مالک تھے تو ان کو جان بوجھ کر طاق نسیاں میں ڈال دیا گیا(۱۹۱۹ تا ۱۹۵۹ء برطانوی خارجہ پالیسی کے دستاویزات، سلسلہ نمبر۱،جلد۴، ۱۹۵۲ء ہز مجیسٹی اسٹیشنری آفس،صفحہ ۳۴۲ تا ۳۴۵)
ان دستاویزات میں SykesاورPicotکے دستاویزی نصوص اور بہت سی چیزیں شامل ہیں جن سے فیصلے کے سارے عمل میں بدنیتی کی حقیقت آشکار ہوتی ہے لیکن اس میں ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۱۷ء کا وہ بے حد سنسنی خیز دستاویز نہیں ہے جسے کیبنٹ ممبر لارڈ کرزن نے لکھا تھا اور جو ۱۹۳۸ء میں شائع بھی ہوا تھا ،لیکن کرزن کی رائے سے اس زمانے کے وزیر اعظم ڈیوڈ-لائیڈ جار(Davi Loid George) اتفاق نہیں رکھتے تھے، اس کی وجہ تو یہ تھی کہ کرزن کی تحریر اپنے اندر بے حد علمیت اور ناقابل تردید عقلیت سمیٹے ہوئی تھی وہ اصل معاملے کی گہرائی تک پہنچ چکے تھے ، دوسری بات یہ کہ بلفر، جار ج اور ونسٹن چرچل ان برطانوی قائدین میں تھے جن کے اندر ایک صہیونی اور یہودی حامی دل دھڑکتا تھا، کرزن خلاصہ کرتے ہیں کہ آخر نیشنل ہوم کا کیا مفہوم ہے؟ وہاں نصف ملین شامی عرب بستے ہیں، جن کے آبا و اجداد اس سرزمین پر تقریبا پندرہ سو سال سے رہتے آئے ہیں وہ اس سرزمین کے مالک ہیں، وہ مسلمان ہیں، وہ یہودی مہاجرین کے لیے اپنی آراضی سے دست بردار نہیں ہو سکتے اور نہ ہی وہ ان کے لیے لکڑیاں کاٹ کر لانے والے یا مشکیزہ اٹھانے والے بن کر رہ سکتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ مکے اور مدینے کے بعد یروشلم مسلمانوں کے نزدیک سب سے مقدس شہر ہے، اس لیے یہ ناممکن سی بات ہے کہ مستقبل کا ایسا نقشہ تیار کیا جائے جس میں یروشلم سے مسلمانوں کو خارج کر دیا جائے-
کیبنٹ نے ۳۱؍ اکتوبر کو بدنام زمانہ بلفر اعلامیہ کی منظوری دے دی جسے ۲؍ نومبر ۱۹۱۷ء کو جاری کیا گیا اس کے مسودے میں لکھا تھا"Palestine should be reconstituted as the national home of the Jewish people" (یہودیوں کے نیشنل ہوم کے طور پر فلسطین کا از سر نو نقشہ تیار کیا جانا چاہیے)
لیکن احتجاج کیے جانے پر اسے ترمیم کر کے اس طرح کر دیا گیا "Palestine should be reconstituted as the extablishment of a national home for the Jewish people"(یہودیوں کے لیے ایک نیشنل ہوم قائم کرنے کی غرض سے فلسطین کا از سر نو نقشہ تیار کیا جانا چاہیے)
اس تبدیلی کے باوجود اصل مقصد واضح تھا، کرزن کے مطابق ایک سال بعد صہیونیوں کے مطالبے اور بھی بڑھ چکے تھے، اب وہ ایک یہودی ریاست ہی کی بات نہیں کر رہے تھے، ان کا دعوی صرف قدیم فلسطین تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ اردن ندی کے مشرقی حصے کی زمین پر بھی قبضہ جمانے کی سوچنے لگے تھے، اور اسی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ڈبلیو، زیڈ، او(World Zionist Organization)نے پیرس کی پیس کانفرنس میں ایک نقشہ بھی تیار کر کے پیش کیا تھا، کرزن کے اعتراض کرنے پر بلفر نے جواب دیا کہ برطانیہ کے صہیونی رہنما چیم ویزمن(Chaim Weizmann)نے فلسطین میں یہودی حکومت کے لیے کبھی کوئی دعوی پیش نہیں کیا ہے لیکن کرزن کو معلوم تھا کہ اس نقشے کی تیاری کا مقصد کیا ہے؟ چنانچہ انہوں نے ویز مین کا بیان نقل کیا اور کہا کہ وہ یہودی ریاست کا خواہاں ہے، ایک ایسے یہودی ملک کا جہاں عربوں کی آبادی اقلیت میں ہو اور وہ ان کی محکوم ہو-(کرزن اینڈ برٹش امپیر یلزم ان دی مڈل ایسٹ ۱۹۱۶ء تا ۱۹۱۹ء جان فیشر، صفحہ ۲۱۲ تا ۲۱۴)
ویزمین کی اسی دوہری گفتگو اور مادی منفعت کے پیش نظر شہزادہ فیصل نے ۳؍ جنوری ۱۹۱۹ء کو برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر دیا جس میں فیصل نے عرب ریاستوں اور فلسطین کے نمائندے کے طور پر اس بات پر رضا مندی ظاہر کی کہ بڑے پیمانے پر یہودیوں کی فلسطین ہجرت روکی نہیں جائے گی لیکن اس شرط کے ساتھ عربوں کو آزادی دی جائے گی، انہوں نے اس راز کو دوسرے عرب ساتھیوں سے چھپائے رکھا اور پھر بعد میں سودے بازی سے صاف مکر گئے، اور جب فرانس نے شام سے فیصل کو برطرف کر دیا تو وفاداری کے عوض برطانیہ نے انہیں عراق کا شاہ مقرر کر دیا اور آر، جے، کیو ایڈس نے بلفر کی سوانح میں تجزیہ کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ کنگ کو دیے گئے بلفر کے مشورے کی بنا پر ہی کرزن وزارت عظمی کی کرسی سے محروم ہو گئے-
دستاویزات پر مشتمل میکو سکی کی کتابChurchil's Promised Land: Zionism and State craftسے بہت سے انکشافات ہوتے ہیں- اگر جارج نے آن بان کے لیے ۱۹۱۵ء میں فلسطین پر قبضے کی بات کی تھی تو چرچل نے ۱۹۰۶ء میں ہی یہودیوں کے لیے ’’ہوم لینڈ‘‘ کی بات کی تھی، میکوسکی کی تحقیقات سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ بلفر نے دھوکے کی غرض سے’’ نیشنل ہوم‘‘ کی مبہم تعبیر استعمال کی تھی اور اسی لیے ریاست کے قیام کے سلسلے میں وہ متضاد بیانات دیتے رہے کیوں کہ ریاست کا قیام تو ایک تدریجی منصوبہ تھا جس کے ذریعہ یہودی اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کیا جانا تھا، اعلامیہ کے جاری ہونے کے وقت ۱۷؍ لاکھ کی مجموعی آبادی میں یہودی باشندوں کی تعداد پچاس سے ساٹھ ہزار تک تھی، بلفر نے یوں تو’’ نیشنل ہوم‘‘ کی توضیح نہیں کی تھی لیکن ۱۹۱۸ء میں انہوں نے اپنی مراد خفیہ طور پر بتا دی تھی، ان کو توقع تھی کہ یہودی فلسطین میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لیں گے اور بالآخر ایک یہودی ریاست بھی حاصل کر لیں گے، اس کے علاوہ برطانوی پریس کو بھی پتا تھا کہ اعلامیہ کا مقصد یہودی ریاست کا قیام ہے-(دستاویزات صفحہ:۳۳)
اور دوسرے دستاویزوں سے بھی فریب کا پردہ چاک ہونا ہے، فلسطین میں برطانوی فوجی ایڈمنسٹریشن کے پالٹیکل آفیسر کرنل رچرڈ میٹرٹ زیگن نے کرزن کو آگاہ کرتے ہوئے ۶؍ستمبر ۱۹۱۹ء کو کہا تھا کہ’’ فی الحال فلسطینیوں کو یہ بتانا صحیح نہیں ہے کہ ایچ، ایم ، بی، امریکہ اور برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام چاہتے ہیں‘‘(دستاویزات صفحہ:۴۷۲) بلفر نے بھی ۲۴؍ جون ۱۹۱۹ کی پریس میٹنگ میں کنگ کرین انکوائری کمیشن—پر بحث کرتے ہوئے اپنا یہ ریمارک دیا تھا کہ ہمیں موجودہ برادری کی خواہشات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ ہم ایک ایسی برادری تیار کر رہے ہیں جو کچھ زمانے بعد اکثریت میں ہوگی- (دستاویزات صفحہ: ۱۲۷۷ تا ۱۲۷۸)
صہیونی پروگرام کو جھٹکا:-
 کنگ کرین کمیشن نے جو فلسطینیوں کی رائے معلوم کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اپنی تحقیقات کا آغاز صہیونی حامی ذہن کے ساتھ کیا تھا لیکن فلسطینیوں کی رائے معلوم کرنے کے بعد اور دوسرے عوامل کی وجہ سے اس نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ سفارش کی تھی کہ یہودیوں کی لا محدود، ہجرت کے انتہا پسندانہ صہیونی پروگرام میں اہم اصلاحات کی جانی چاہیے کیونکہ یہودی دراصل فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام چاہتے ہیں اور فلسطین کی غیر یہودی برادری کے دس میں سے نو افراد اس بات پر متحد ہیں کہ وہ کسی بھی شرط پر صیہونی پروگرام کو قبول نہیں کریں گے، اور صہیونیوں کی یہ دلیل کہ فلسطین پر ان کا حق اس لیے ہے کہ دو ہزار سال پہلے یہ سرزمین ان کی تھی، قابل اعتنا نہیں ہے، لیکن ان سب کے باوجود کمیشن کی رپورٹ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا کیوں کہ انہیں یہودی ریاست بہرحال قائم کرنی تھی، ٹام سیگیو کے مطابق یہ خیال بالکل درست نہیں ہے کہ یہودی ریاست اس لیے قائم کی جانی تھی کہ نازیوں نے یہودیوں کا قتل عام کیا تھا ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ ہمدردی کی لہر یہودی ریاست کے قیام میں معاون ثابت ہوتی، ’’ دی لاسٹ تھائوزینڈ ڈیز آف برٹس امپائر ‘‘ کے مصنف نے بھی لکھا ہے کہ چرچل نے پیل کمیشن کے سامنے اس بات کو ثابت کیا تھا کہ یہودی ریاست کا قیام برطانیہ کے قدیم منصوبے میں شامل تھا-
عربوں کی ضمیر فروشی:- 
برطانیہ سے متعلق دستاویزات کے قاری کو اس وقت عربوں کے باہمی اتحاد پر حیرت ہوتی ہے، ۲؍ جولائی ۱۹۱۹ء میں شام کی جنرل کانگریس نے ایک اعلامیہ میں صاف کہا تھا کہ ہم فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے صہیونی دعوے کو مسترد کرتے ہیں اور فلسطین کے کسی بھی حصے میں یہودیوں کی ہجرت کے بھی مخالف ہیں، برطانیہ بھی اس باہمی اتحاد سے خوب واقف تھا اور اسے معلوم تھا کہ اسرائیل کی حیثیت مغرب کے جاسوس کی ہوگی جو ہر وقت عربوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھے گا، چنانچہ عربوں کے اتحاد کو توڑنے کے لیے سودے بازی ہوئی، کہنے والوں میں دو نمایاں نام شریف حسین کے دونوں بیٹے فیصل اور عبد اللہ کا تھا، عبد اللہ نے برطانوی معاہدے کو قبول کرنے کے لیے پانچ ہزار امریکی ڈالر لیے اور پھر ٹرانس جارڈن کا علاقہ بھی عطا کیا گیا، یہودیوں سے اپنی زمینیں بیچنے والوں میں عرب نیشنل موومنٹ کے لیڈران بھی شامل تھے، ٹاٹ سیگیو کے مطابق ان میں یروشلم کے سابق میئر موسی کاظم الحسینی کے ساتھ دوسرے عرب میئر شامل تھے، جب عربوں نے اپنی زمینیں یہودیوں سے فروخت کرنی شروع کر دی تو صہیونیوں کو اندازہ ہو گیا کہ عرب نیشنل موومنٹ میں خلوص کار فرما نہیں ہے چناںچہ و یزمن نے کہا کہ عرب تو خود اپنی زمینیں زیادہ سے زیادہ بولی لگانے والوں کو دینے کے لیے تیار ہیں، اے مرتبہ فیصل کے ایک معاون کو ایک ہزار ڈالر کی کم رقم ملی تو فوراً ہی اس نے مزید کا مطالبہ کیا، اس سے بھی صہیونیوں نے سمجھ لیا کہ ان عربوں کے یہاں دولت کی اہمیت زیادہ ہے اور ان کے ضمیر کا سودا کیا جا سکتا ہے- حاصل یہ کہ سیاست دان ، چور، با عزت افراد، جرائم پیشہ جماعت سب نے صہیونیوں کو اپنی خدمات پیش کیں بلکہ بسا اوقات ڈیمانڈ سے زیادہ سپلائی کے لیے بھی بہت سے افراد حاضر خدمت رہے-
دہشت گردانہ منصوبے:- 
لیکن ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ صرف زمین کی خرید و فروخت کے ذریعہ ہی صہیونی اہداف کی تکمیل ممکن نہیں تھی، اس کے لیے عربوں کو جلا وطن کرنا بھی ضروری تھا چنانچہ روسیولیٹ(Roosevelet)کے خصوصی ایلچی کرنل ہیرالڈ ہاسن(Harald Hoskin)نے ۱۹۴۳ء میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ صرف فوجی طاقت کے ذریعہ ہی عربوں کے اوپر یہودی ریاست تھوپی جا سکتی ہے، اس فوجی طاقت کی تفصیلات سی، آئی، اے کے ایک دستاویز میں ملتی ہے، جنگ کرنے والوں میں ۷۰ ہزار سے لے کر ۹۰ ہزار تک صہیونی فوج ہگانا کے افراد اور چھ ہزار سے لے کر ۸ ہزار تک Irqun Zvai Ceumiنامی زیر زمین دہشت گرد تنظیم کے افراد اور اسٹرن گینگ نامی انتہا پسند جماعت اور پانچ سو وہ افراد شامل ہوں گے جو حکومت کے ذمہ داران ، پولیس آفیسروں کو جان سے مار ڈالنے یا تشدد کے ذریعہ دولت و ثروت اکٹھا کرنے میں نہیں ہچکچاتے ،جب کہ عربوں کے پاس عرب لیجن(Arab Legion)کے علاوہ کوئی اور قابل ذکر فوج نہیں تھی جس کے متعلق شاہ عبد اللہ نے خفیہ طور پر پہلے ہی معاہدہ کر لیا تھا کہ وہ ویسٹ بینک کے آگے نہیں جائے گی-
بہر حال ۱۴؍ مئی ۱۹۴۸ء میں اسرائیل دنیا کے نقشے میں آ گیا ،۱۰؍ مارچ ۱۹۴۸ء کی شام میں ہی تمام فوجی یونٹ کو یہ حکم بھیج دیا گیا کہ وہ منظم انداز میں فلسطینیوں کو جلا وطن کرنے کے لیے تیار رہیں اور اس کے لیے ہر ممکن طریقہ اپنایا جائے، ان کے علاقوں کا محاصرہ کیا جائے، دیہاتی آبادی پر بمباری کی جائے، ان کی املاک کو نذر آتش کر دیا جائے، جائے اور ایسی خندقیں کھودی جائیں کہ جلا وطنوں کے اوپر واپسی  کا دروازہ بند ہو جائے، ہر فوجی یونٹ کو ان علاقوں کی فہرست دی گئی جہاں انہیں یہ سرگرمیاں انجام دینی تھیں اور ایک وقت وہ آیا جب فلسطینیوں پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ ان کی ہی سرزمین اب ان کے لیے اجنبی ہو چکی ہے، ایلن پیپ نے یہ ساری گفتگو ایک میٹنگ ریکارڈ کی روشنی میں کی ہے جس میںMoshe DayanاورYigal Alonشریک تھے -
صہیونیوں نے چار طرح کے پلان بنائے تھےA,B,C,D D-پلان آخری تھا جس کی تکمیل ریاست کے قیامت کے بعد ہوئی، پلانCکے چند پروگرام ملاحظہ کریں:
فلسطین کے سیاسی قائدین ،ان سے ہمدردی رکھنے والے، یہودی مخالف رویہ رکھنے والوںکو قتل کر دیا جائے، فلسطینی ٹرانسپورٹ روز مرہ کی زندگی کے وسائل تباہ کردئیے جائیں اور ان تمام فلسطینی علاقوں کو برباد کر دیا جائے جہاں سے مستقبل میں حملے کا اندیشہ ہو-
پیپ نے لکھا ہے کہ جس فکر کی بنا پر فلسطینیوں کو۱۹۴۸ء میں ان کی سر زمین سے نکالا گیا وہ اب بھی موجود ہے، سیگیو اور پیپ نےBiblical Zionistیعنی ان عیسائیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جن کا یہ اعتقاد ہے کہ یہودیوں کی فلسطین واپسی مسیح موعود کی آمد ثانی سے قبل ہوگی-
خاتمہ:-
  یہ اس اسرائیل کی تاریخ ہے جس کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین صدر جارج ڈبلو بش نے اپنے مڈل ایسٹ کے دورے میں کی ہے، لیکن انہوں نے ناجائز اسرائیلی تعمیرات روکنے اور حقوق انسانی کی پامالی پر لگام کسنے کے لیے کوئی بیان نہیں دیا، اسرائیلی پالیسیوں میں صہیونی محلول شامل ہے، اگر اس کی تہوں میں نہیں اترا گیا تو کل نہ یہودی محفوظ ہوں گے اور نہ فلسطینی، کیوں کہ اضطراب و کشمکش کی بنیاد یہودیت نہیں ہے بلکہ صہیونیت ہے، یہودیت اپنے تمام مسالک کے ساتھ اپنے اندر امن و آشتی کے اصول رکھتی ہے، البتہ صہیونی فکر تکثیری سماج کو قبول نہیں کر سکتی بالخصوص فلسطینیوں سے اس کو خدا واسطے کی بیر ہے، فلسطینی کسی بھی قیمت پر صہیونی ریاست کو قبول نہیں کریں گے، وہ جدوجہد کرتے رہیں گے،یہاں تک کہ ان کے مسئلے کا کوئی منصفانہ حل نکل جائے اور بد قسمتی سے اگر ایسا نہیں ہوا تو صرف عرب اور مسلم دنیا میں ہی نہیں بلکہ برطانیہ اور امریکہ میں بھی ایسا طوفان آئے گا جس کی زد میں وہاں کے سارے لوگ ہوں گے-حقیقت یہ ہے کہ استعمار کا اخلاقیات سے دور کا بھی کوئی واسطہ کبھی بھی نہیں رہا ہے اور آج اسرائیل کے وجود کا بھی کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے، وہ دہشت کی پیداوار ہے، اگر فلسطینی اسلحہ اٹھاتے ہیں تو انہیں شکایت کا بھی کوئی حق نہیں ہے، اب رہی یہ بات آخر خون ریزی کا کیا حاصل ہے؟ ویسے بھی خون ریزی اور تشدد سے آج تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے تو خوش آئند بات یہ ہے کہ اسرائیل کے اندر اور اس کے باہر لوگوں میں تاریخی حقائق کو قبول کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے، ہم فلسطینیوں سے صرف اتنی گزارش کر سکتے ہیں کہ وہ عدم تشدد کا راستہ اختیار کرکے تاریخی حقائق کی روشنی میں اپنے انصاف کی آواز بلند کریں-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔