Thursday 31 August 2017

عربی محاوارات مع ترجمہ و تعبیرات ------ مصنف: مولانا اسید الحق قادری بدایونی

4 comments
عربی محاوارات مع ترجمہ و تعبیرات
            مصنف:اسید الحق قادری
            صفحات:224
            سال اشاعت:2011
            ناشر:تاج الفحول اکیڈمی بدایوں
            تقسیم کار:مکتبہ جام نور دہلی
            تبصرہ نگار: ضیاء الرحمٰن علیمی
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ زبان صرف قواعد وگرامر کے علم، لغوی تبحر اور ترکیبی باریک بینی سے نہیں آتی ہے بلکہ سلاست وروانی اور فصاحت کے ساتھ لکھنے اور بولنے کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ اہل زبان کو بولتے ہوئے سناجائے اور اسی زبان کے لٹریچر کا کثرت وباریک بینی سے مطالعہ کیاجائے اور جو تعبیرات حاصل ہوں یا توان کو ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ کرکے اسی کو بار بار ذہن میں دہرایاجائے یاپھر نوک قلم سے ان کا شکار کرکے ان کو پابند سلاسل کردیاجائے تاکہ بوقت ضرورت ان کا استعمال کیاجائے- تعبیرات کے ضمن میں خصوصیت کے ساتھ چند چیزیں کسی بھی زبان میں بہت اہم ہوتی ہیں (۱) صلات والے افعال (Phrasal Verb) (۲) محاورات (Idioms) (۳) امثال وحکم (Proverbs & Sayings) کسی بھی زبان کے لیے عموما اور عربی زبان لکھنے اور بولنے والے کے لیے خصوصا ان تینوںسے وافر حصہ ہونا ضروری ہے- غیر عرب حضرات کو عربی سکھانے کے لیے مختلف کوششیں ہوئیں اور جب تک زبان زندہ ہے تب تک کوششیں ہوتی رہیں گی- ہندوستانیوں کو عربی سکھانے اور زبان کی باریکیوں سے آگاہ کرانے کی غرض سے بھی مختلف کامیاب کوششیں مختلف ڈھنگ سے ہوئی ہیں اور ان کابھی سلسلہ جاری ہے- اسی ضمن کی ایک کاوش ’’ عربی محاورات‘‘ کے نام سے اس وقت میرے مطالعے کی میز پر ہے جو مولانا اسیدالحق محمدعاصم قادری بدایونی کے قلم سے وجود میں آئی ہے-
یہ کتاب ایک اظہاریہ ، تین تقاریظ اورپھر مرتب کے ایک علمی مقدے پر مشتمل ہے جس میں مؤلف نے عربی اردو محاورات سے متعلق تحقیقی اور تجزیاتی گفتگو کی ہے- محاورے اور ضرب الامثال میںہونے والے خلط مبحث کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے - یہ نو آموزمترجمین کے لیے نافع ہوگا- علاوہ اس کے اور بھی دوسرے عمدہ مباحث ہیں جو محاورات سے واقفیت حاصل کرنے والوںکے عموما اور عربی محاورات سے آشنائی حاصل کرنے والوںکے لیے خصوصا لازمی مطالعے کی حیثیت رکھتے ہیں- اس کے بعد اصل کتاب کا آغاز ہوتاہے، اصل کتاب دوابواب پر مشتمل ہے: باب اول میں ان محاورات کو ذکر کیاگیاہے جن کا پہلا جز فعل ہے اور باب دوم میں ان محاورات کو بیان کیاگیا ہے جن کا پہلا جزاسم یا حرف ہے- محاورات کو حروف تہجی کی ترتیب سے ذکر کیاگیاہے، لیکن عربی مادے کاخیال نہیںکیاگیاہے- جیساعام عربی ڈکشنری کے مرتبین کی روش رہی ہے بلکہ جدید مرتبین کے طریقے پر محاورے کے پہلے لفظ کا اعتبار کیاگیاہے-
مقدمے میں محاورات اور ضرب الامثال میں خلط مبحث کے عنوان سے جو بحث کی گئی ہے اس ضمن میںمحاورہ اور مثل کے درمیان فرق کرنے کے لیے یہ بات اہم ہے کہ مثل میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اورمحاورات کے صیغوں میں حسب ضرورت تبدیلی ہوتی ہے- محاورات کی تعریف میں Oxford's Adnced Learner's English Dictionaryمیںلکھا ہے:
" A group of words whose meaning is different fwrom the meaning of tghe inidvidual words." (P:770)
ترجمہ: الفاظ کا ایسامجموعہ جس کا معنی اس کے مفرد الفاظ کے معانی سے مختلف ہو-
اس تعریف میں محاورے کے لیے یہ ضرور ی قرار دیاگیاہے کہ وہ الفاظ کا مجموعہ ہو جو کم از کم دوپر مشتمل ہوگا- اس اعتبار سے محاورے کی یہ تعریف عربی محاورے کی تعریف سے مختلف ہے کہ اس میں محاورہ یک لفظی بھی ہوسکتاہے، لیکن اس اعتبار سے یہ تعریف عربی محاورے کی تعریف کے موافق ہے کہ انگریزی محاورہ بھی مرکب اضافی اورمرکب توصیفی ہوسکتاہے-
مثل کو محاورے سے اس طرح الگ کیاگیاہے :
" A well known phrase or sentence that gives advice or says that is generally true"(P:1215)
اس سے بھی چند باتیں نکل کر سامنے آتی ہیں- پہلی یہ مثل کوئی جملہ ہوگادوسری یہ مثل حقائق ونصائح پر مشتمل ہوںگے اب اس طرح کے جملوں کو اگر ان کے مخالف مواقع پر مجازا استعمال کیاجارہاہے تو یہ امثال ہوںگے اوراگر ایسا نہیں ہے بلکہ استعمال مجازی ہے اور مثل کی دوسری خصوصیات نہیں ہیں تو یہ محاورہ ہوگا-
یہ تو چند باتیں محاورات وامثال کے ذیل میں رہیں-
کتاب میں قرآنی محاورات، قدیم محاورات، جدیدمحاورات اور معرب محاورات پر بھی اچھی گفتگو کی گئی ہے- بعض محاورات کے پس منظر پر مثالوں کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے- محاورات وامثال سے متعلق کی گئی مختلف جہاتی گفتگو سے یقینی طورپر طالبان علوم عربیہ کو عربی محاورات وامثال کی اچھی طرح تفہیم ہوسکے گی اور ان کا واضح تصور سامنے آئے گا- البتہ مقدے سے متعلق میری چند معروضات ہیں- پہلایہ کہ ڈاکٹر احمد علی ہما م کے حوالے سے محاورے کی جو تعریف کی گئی ہے وہ اس طرح شروع ہوتی ہے ’’ التعبیر الاصطلاحی یمکن ان یتکون من کلمتین اواکثر(ص ۲۷) ‘‘ اور اس کا ترجمہ اس طرح کیاگیاہے: ’’ التعبیر الاصطلاحی ایک کلمے یا ایک سے زیادہ کلمات سے وجود میں آتی ہے-‘‘ جب کہ درحقیقت ترجمہ یہ ہونا چاہیے تھا : ’’التعبیر الاصطلاحی دوکلمے یادوسے زیادہ کلمات سے وجو دمیں آتی ہے-‘‘ اس مقام پر کاتب یا پرورف ریڈرنے غلطی سے یا تو ’’ کلمۃ ‘‘ کوکلمتین کردیا ہے یا پھر ترجمے میں ’’دوکلمے‘‘ کی بجائے ’’ ایک کلمے‘‘ کاتب نے لکھ دیا اور اس کی تصحیح ہونے سے رہ گئی ، لیکن سیاق یہ بتارہاہے کہ یہاں ڈاکٹر احمد علی ہمام کی تعریف میں ’’کلمتین‘‘ہی تھا کیوںکہ آگے مؤلف نے لکھا ہے- ’’ مگر عربی میں العتبیر الاصطلاحیکے لیے یہ قید نہیں ہے کیوںکہ یہ کبھی یک لفظی بھی ہوتی ہے-‘‘ (ص:۲۷)
دوسرایہ کہ جہاں قدیم محاورات کی تقسیم کی گئی ہے وہا ںپہلی قسم ان محاورات کی بتائی گئی ہے جو اب متروک ہیں اگر ایک دو پیراگراف میں ان پر گفتگو کرکے ان کی کچھ مثالیں پیش کردی جاتیں تو بحث اورمکمل ہوتی - یہاں پر مجھے ایک گونہ تشنگی معلوم ہوئی-
تیسرا یہ کہ مغربی ماہر لغت ’’  سستتکیفیش‘‘ میری معلومات کی حد تک یہ کوئی مستشرقہ ہیں جنہوںقدیم عربی پر مختلف زاویوں سے گفتگو کی ہے، ان کا پورانا م پیٹرک سوزان سستتکیفیش ہے اور ان کے نام کا تلفظ شاید کچھ اس طرح ہے(Patrick Susan Sttkeevece)
کتاب کا وہ حصہ جو محاورات پر مشتمل ہے خاص دل چسپ اور لائق مطالعہ ہے -محاورات کو مثالوںسے مزین کردیاگیا ہے اور مؤلف کو جہاں ضرورت محسوس ہوتی ہے وہاں انہوںکچھ توضیح بھی پیش کردی ہے- اگرچہ جتنے محاورات کتاب میں جمع کردیے گئے ہیں ان کو معتد بہ کہاجاسکتاہے اور طالبان علوم عربیہ اگر اسے اپنے خزانہ دماغ میں جمع کرلیں تو ان کی عربی تحریر وتقریر میں اس کا نمایاں اثر ظاہر ہوگا اور وہ شائستہ تحریر لکھنے اوربولنے کی راہ پر گامزن ہو جائیں لیکن اس کے باوجود جمع کردہ محاورات عربی زبان کی وسعت کے لحاظ سے یقینا ’’ مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں- چنانچہ مؤلف محترم سے میری ایک گزارش ہے کہ تعبیرات نوٹ کرنے کے سلسلے کو وہ جاری رکھیں اور ہر نئے ایڈیشن میں اضافے کرتے رہیں- اس سے محاورات کے ذخیرے میں اضافہ ہوتارہے گااور طالبان علوم عربیہ کو بڑا فائدہ ہوگا- ان محاورات کے مطالعے کے بعد خود طالبان علوم عربی کے اندر ذوق بیدارہوگا اور وہ کسی بھی کتاب کا مطالعہ سرسری نہیںکریںگے بلکہ مؤلف کتاب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ تعبیرات نوٹ کرنا شروع کریںگے اوراسی طرح قطرہ قطرہ دریا ہوجائے گا-
کتاب میں ذکرکردہ محاورات کی جو مثالیں دی گئی ہیں- ان پر یقینا عراق امریکہ کا غلبہ ہے جس کے لیے مؤلف نے پہلے سے ہی معذرت کرلی ہے، لیکن میرے خیال میں ترتیب ونظرثانی کے دوران اگر ان مثالوں میں تنوع پیداکر دیاجاتا تو بہتر ہوتا ، اس لیے کہ خاص طورپر طلبہ مدارس کی ایک ذہنیت ہے کہ ان کو جس طرح کی مثالیں کتاب میں لکھی ملتی ہیں اسی ڈھنگ سے پھر وہ ساری مثالیں لانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح ان کا زاویہ فکر یک رخی ہوجاتاہے- مثالوں میںتنوع کی صورت میں ان کے بھی فکری دریچوں کے کھلنے کی امید تھی- ویسے مثالیں عموما طلبہ کے مزاج سے ہم آہنگ اورتربیتی انداز کی بھی ہیں-
محاورات کے ضمن میں پیش کردہ بعض مثالیں بہت پسند آئیں - مثلا من عرکہ الدھر صار من الصوب خداعۃ ( ص : ۱۳۰) الی متی یعیش العالم العربی تحت رحمۃ امریکا(ص: ۱۷۳) اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں- بعض مثالوں میں مجھے تکلف بھی محسوس ہوا ، ایسا لگا کہ شاید ان مثالوں کو کچھ آسان بنایاجاسکتا تھا، اگرچہ میں اس بات پر مصر نہیں کہ ان میں واقعی تکلف ہے بھی - یہ بھی ہوسکتاہے کہ ایسا خود میری کور ذوقی کا شاخسانہ ہو، بعض مثالیں ایسی ہیں جن کے مادے سے قرآن حکیم میں مثالیں موجود ہیں لیکن مؤلف نے اس کی مثال قرآن سے نہیں پیش کی ہے، مثلا فاضت عیناہ( ص :۱۳۶) قرآن کریم میں ہے: واذا سمعوا ماانزل الی الرسول تری اعینھم تفیض من الدمع (المائدۃ)- دوسرے مقام پر ہے: وأعینھم تفیض من الدمع حزنا الا یحدوماینفقون (التوبۃ) اسی طرح عمی قلبہ (ص: ۱۳۱) کے ضمن میں بھی قرآنی مثال نہیں ہے جب کہ قرآن میں ہے: لاتعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور - ان کے علاوہ بعض مقامات پر میری نگاہ ٹھہرگئی مثلا ص: ۷۵؍پر لکھا ہے: دائما ما احرزت جریدۃ - شاید اس میں ’’ما‘‘ زائد ہے اور غلطی سے درآیاہے، اور اگر ’’ما‘‘ حینما اور طالما کی طرح ہے یا تفہیم کے لیے ہے تو میرے نظر سے ابھی تک ’’دائماما‘‘ کی نظیرنہیں گزری ، یہ پہلی بارہے- بعض مثالوں میں افعال کا استعمال ماضی یامضارع کی شکل میں کیاگیاہے لیکن اس کاترجمہ اس کے برعکس کیاگیاہے- مثلا : عندما یرخی اللیل سدولہ خرج الجیش لیغار علیٰ عدوّہ: اس کے ترجمے میںہے: جب رات گہری ہوگئی تو لشکر اپنے دشمن پر شب خون مارنے نکلا - (ص: ۸۰)
 اس طرح کی مثالیں اور بھی ہیں،دیکھیں ص: ۸۸، أنارلہ الطریق ص: ۱۲۶ طأطأرأسک، ص: ۱۴۲ لایالو الاستاذجہداً کے ضمن میں-
اسی طرح ’’لفظ انفاسہ‘‘ کے ضمن میں ’’لفظ‘‘ باب تفعیل سے ذکر کیا گیاہے جب کہ محاورہ میں ’لفظ‘‘ میرے علم کی حدتک مجرد سے ہی مستعمل ہے ، اس کے علاوہ اور بھی پروف کی غلطیاں نظر آئیں مثلا ’’غزنی‘‘ (ص: ۹۶) اس کاتلفظ الف سے ہے - قرن العشرین (ص: ۱۱۷) کی بجائے القرن العشرین  ہوناچاہیے- اسرار الکونیۃ (ص: ۱۶۱) کی بجائے الاسرارالکونیۃدرست ہے- المطابۃ تطویر (ص: ۱۸۷) کی بجائے المطالبۃ بتطویر  صحیح ہے- المیزان الانسانیۃ کی بجائے میزان الانسانیۃ درست ہے- أنھار ص:۲۰۰) غلط ہے اور ’’ اِنھار‘‘  صحیح ہے- اسی طرح ’’قارب ‘‘ (ص:۲۰۰) غلط اور ’’قارِب ‘‘ صحیح ہے ، اسی طرح الذی تقدم امریکا (ص: ۲۰۳) کی بجائے تقدمہ امریکا ہوناچاہیے تھا- اسی طرح کی کچھ پروف کی کمیاں ہیں ورنہ یہ کتاب یقینا اہل سنت وجماعت کے طلبہ کے لیے خصوصا اور علوم عربیہ کے طالبان کے لیے عموما نعمت غیر  مترقبہ ہے- اسی ڈھنگ کی ایک کتاب ’’ منتخب تعبیرات‘‘ کے نام سے علاء الدین ندوی صاحب کی بھی ہے لیکن اس میں کوئی علمی بحث اور وضاحتیں نہیں ہیں- پھر اس کا دائرہ انتخاب محاورات تک محدود نہیں ہے بلکہ متنوع قسم کی منتخب تعبیرات کو اس میں جمع کردیاگیاہے- اس کتاب سے جہاں طلبہ کی تحریری اور تقریری صلاحیت بیدار ہوگی وہیں ترجمہ کی باریکیوں کی طرف ان کی توجہ مبذول ہوگی اور مقارناتی ادب کے لیے بھی ان کے ذہن وفکر کے دروازے واہوں- یہ اپنے آپ میں ایک مختصر اور تحقیقی کام ہے- اب میں اس انتظار میں ہوںکہ کوئی مرد میدان اٹھے اور اس طرح عربی منتخب تعبیرات کی کوئی ایسی کتاب ترتیب دے جس میں اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی کی بھی متبادل تعبیرات جمع کردی گئی ہوں- اس کتاب سے میں نے بھرپور استفادہ کیاہے اور کئی مقام پر خود میں نے بھی اپنی تصحیح کی ہے- امید کرتاہوں کہ یہ کتاب میری طرح دوسرے لوگوں کے لیے رہنما اور عربی زبان کا سلیقہ سکھانے والی ہوگی اوربہت جلد ہر سطح کے طالبان علوم عربی کے مطالعے کی میزپر نظر آئے گی-

4 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔