Thursday 31 August 2017

دعوتِ دین کا قرآنی منہج

0 comments
دعوتِ دین کا قرآنی منہج
                                                           ازقلم: ضیاء الرحمٰن علیمی        
------------------------------------------
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ دعوت و تبلیغ کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ مذاہب کی تاریخ ۔چنانچہ مذہب کی ابتداء کے ساتھ ہی دعوت و تبلیغ کے باسعادت مشن کا آغاز ہوا، انبیاے کرام میں سب سے پہلے ابو البشر حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام نوع انسانی کی جانب ربانی پیغام کے ساتھ تشریف لائے، اور لاثانی اصول دعوت کے مطابق لاہوتی نغمے سے نا آشنا کانوں کو لاہوتی نغمے سے آشنا کرایا، اور پھر یہ سلسلہ چلتا ہی رہا، انبیاے کرام وقفے وقفے سے تشریف لاتے رہے اور دعوت و تبلیغ کا مقدس کارواں آگے بڑھتا چلا گیا، دعوت و تبلیغ کے اس نورانی قافلے میں کچھ رسولان عظام بھی تھے جو نئی شریعت اور صحائف آسمانی سے نوازے گئے تھے، ان آسمانی کتب و صحائف نے بھی دعوتی مشن میں حصہ لیا اور اس کی کامیابی کے لیے کچھ اصول و ضوابط متعین کیے جو مذاہب کی تبلیغ و اشاعت میں رہنما اصول ثابت ہوئے۔
 انہی آسمانی کتابوں میں ایک نام قرآن کریم کا بھی ہے جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیاجس میں زندگی کے تما گوشوں کا احاطہ کرلیا گیا ہے اور خلوت و جلوت، فرد و جماعت سے متعلق جملہ مسائل پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے، چونکہ اس کتاب نے اپنے نزول کے ساتھ ہی جملہ مذاہب پر مہر نسخ ثبت کردی اور نبیوں کی تشریف آوری کے سلسلے کے خاتمہ کا اعلان کردیا، اس لیے اس نے اپنے متبعین کو دوسرے مذاہب سے زیادہ واضح اور مستحکم مناہج دعوت سے آشنا کرایا، اور دعوت و تبلیغ کے ایسے لاثانی اصول عنایت فرمائے جو دعاۃ و مبلغین کی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم انہی اصول کی جانب رہنمائی کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے ’’ ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ھی احسن‘‘ یعنی اپنے رب کی طرف حکمت اور حسن موعظت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اس طریقے پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو (پ:۱۴، النحل آیت:۱۲۵)
قرآن کی یہ آیت کریمہ یوں تو نہایت مختصر معلوم ہوتی ہے لیکن اس کی تفصیل و تفسیر رقم کرنے کے بعد امام فخر الدین رازی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس آیت کے آفاق ومعانی اور اس کے اسرار و رموز کی پہنائیوں میں رہوارقلم کو رکاب دینے کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ قرآن کریم کے معانی کی گہرائیوں تک رسائی عوام کے بس کی چیز نہیں بلکہ اس کے لیے اس بحر کے غواض ہی کی ضرور ت ہے، امام فخر الدین رازی علیہ الرحمۃ والرضوان نے اس کی تفسیر میں صمیم آیت سے متعلق کچھ گفتگو کرنے سے قبل ایک ضروری تمہیدی گفتگو فرمائی ہے اور اپنے خاص اسلوب میں منطقیانہ بحث فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کی دعوت کے لیے حجت کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر استدلال و استناد کی دو وجہیں ہوتی ہیں۔ پہلی سامعین و مخاطبین کے دل میں اس مذہب و عقیدہ کی ترسیخ، دوسری خصم کی تبکیت، پھر آگے فرماتے ہیں، ’’ والقسم الاول یقسم علی قسمین لان الحجۃ اما ان تکون حجۃ حقیقیۃً یقینیۃً قطعیۃً مبرأہً عن احتمال النقیض واما لا تکون کذالک بل تکون حجۃً تفید الظن الظاہر والاقناع الکامل(تفسیر کبیر جلد:۷، ص:۲۸۶)
یعنی قسم اول کی دوقسمیں ہیں، کیوں کہ حجت یا تو قطعی یقینی حقیقی اور احتمال نقیض سے بری ہوگی یا ایسی نہیں ہوگی، بلکہ حجت ایسی ہوگی جو ظن ظاہر اور کامل اقناع کا فائدہ دیتی ہوگی، پھر آگے فرماتے ہیں جس کا ماحصل یہ ہے کہ حجتیں تین طرح کی ہوتی ہیں (۱) حجت قطعی جو عقائد یقینیہ کا فائدہ دے، اور اسی کو حکمت کا نام بھی دیا جاتا ہے اور یہی مرتبہ و مقام کے اعتبار سے سب سے اعلیٰ و اشرف ہے،اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ’’ ومن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیراً کثیراً‘‘ جسے حکمت ملی اسے خیر کثیر ملا (۲) امارات ظنیہ اور دلائل اقناعیہ، اور انہیں ہی حسن موعظمت بھی کہا جاتا ہے (۳) ایسی دلیلیں جن سے مقابل کو خاموش اور لاجواب کرنا مقصود ہو، اور یہی جدل ہے، اور جدل کی بھی دوقسمیں ہیں: (۱) دلیل ایسے مقدمات سے مرکب ہو جو سب کے نزدیک مسلم ہوں جیسا کہ مشہور قول ہے، یا دلیل ایسے مقدمات سے مرکب ہو جو اس قائل کے نزدیک مسلم ہو، اور اسی کو احسن طریقے پر مجادلہ کہا جاتا ہے (۲) دلیل ایسے مقدمات سے مرکب ہو جو باطل و فاسد ہوں، پھر آگے فرماتے ہیںاور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل علم تین طرح کے ہوتے ہیں (۱) کاملین کا طبقہ جو حقیقی معرفت اور علم یقینی کا طلب گار ہوتا ہے (۲) اہل خصومت کا طبقہ جن کا مقصود تلاش حق نہیں ہوتا (۳) ان دونوں کے درمیان کا طبقہ جو فضل و کمال میں نہ تو محققین حکماء کے مرتبہ کے ہوتے ہیں اور نہ نقصان میں اہل عناد کے درجہ کے ہوتے ہیں ،بلکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو فطرت کی اصالت اور خلقت کی سلامتی پر باقی ہوتے ہیں، چنانچہ پہلے درجہ کے لوگوں سے قطعی اور یقینی دلائل کی روشنی میں گفتگو کی جاتی ہے اور دوسرے طبقہ کے لوگوں سے جدل و مناظرہ سے کام لیا جاتا ہے اور تیسرے درجے کے لوگوں سے حسن موعظمت کے ساتھ گفتگو کی جاتی ہے اور چوں کہ پہلے اور تیسرے طبقے کے لوگوں کی ہی کثرت ہے اور وہی لوگ حق کی ہدایت کے لیے آمادہ ہوتے ہیں، اس لیے دعوت کی نسبت صرف انہی دو طبقوں کی جانب کی گئی ہے۔ تو گویا اللہ کے فرمان کا یہ معنی ہوا ’’ ادع الاقویاء الکاملین الی الدین الحق بالحکمۃ وہی البراہین القطعیۃ والیقینیۃ و عوام الخلق بالموعظۃ الحسنۃ وھی الدلائل الاقناعیۃ الظنیۃ والتکلم مع المشاغبین بالجدل علی الطریق الا حسن ( نفس مصد، ص:۲۸۷)
ذہنی قوت و کمال رکھنے والوں کو حکمت کے ساتھ دین حق کی دعوت دیجیے اور وہ براہین قطعیۃ یقینیۃ ہیں، اور عوام الناس کو حسن موعظت کے ساتھ بلائیے اور وہ اقناعی ظنی دلائل ہیں اور مخاصمین سے احسن طریقے پر جدل و مناظرہ کیجیے۔
 الحاصل امام فخر الدین رازی علیہ الرحمۃ کی اس بحث سے یہ حقیقت خوب اچھی طرح روشن ہوگئی کہ منہج دعوت میں قرآن کا موقف یہ ہے کہ سامعین و مخاطبین کو مد نظر رکھتے ہوئے ،کہیں براہین قاہرہ سے مذہب کے اثبات کا کام لیا جائے تو کہیں حسن موعظت سے اپنے مذہب کی زلفوں کا اسیر بنانے کی کوشش کی جائے اور اگر کبھی کسی ایسے انسان سے واسطہ پڑجاے جس کی نیت اچھی نہ ہو اور قبول حق کے لیے آمادہ نہ ہو تو ایسوں سے مجادلہ سے بھی گریز نہ کیا جائے تاکہ ان کی ناک خاک آلود ہو اور غرور کا سر نیچا ہوجائے، لیکن ایسے مواقع پر بھی تہذیب و شرافت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے اور مناظرہ اس طرح ہو کہ اس میں بھی حسن کا پہلو نمایاں ہو اور کوشش اسی بات کی ہو کہ وہ حق کو گلے لگالے اور یہی اہل علم کی شان بھی ہوا کرتی ہے، نا مناسب طریقے سے بحث و مباحثہ جاہلوں اور نادانوں کا خاصہ ہے۔
 اسی آیت کریمہ سے دعوت کا یہ پہلو بھی واضح ہوتا ہے کہ داعی کے لیے صاحب علم ہونا بھی ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایک دانا  اورحکیم و نباض کی طرح ہو جو نبض دیکھتے ہی مرض کی حقیقت اور کیفیت علاج سے آگاہ ہوجاتا ہے، چنانچہ اگر علاج نا ممکن ہوتا ہے تو مرض سے شفا دینے والی دوا نہیں دیتا، اور اگر شفا کی امید ہوتی ہے تو مناسب حال دوا تجویز کردیتا ہے، کیوں کہ ظاہر ہے اگر مبلغ ان صفات کا جامع نہیں ہوتا تو پھر اس کی کامیابی کے امکانات بقدر نقصان شرائط کم سے کم ہوتے چلے جائیں گے اور جو مبلغ جس حد تک داعیانہ صفات کا حامل ہوگا اسی حد تک اس کی کامیابی کے مواقع روشن ہوتے چلے جائیں گے۔ قرآن کریم کی دوسری بعض آیتوں سے کچھ اور داعیانہ اوصاف کی جانب رہنمائی ملتی ہے، چنانچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے ’’ یا ایھا الذین آمنو لم تقولون مالا تفعلون کبر مقتاً عند اللہ ان تقولوا مالا تفعلون ( جز: ۲۸، سورۃ الصف، آیت:۲۔۳)
 اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے؟یہ بات اللہ کے نزدیک سخت نا پسندیدہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو تم نہیں کرتے۔ اسی طرح یہ بات دوسرے مقامات میں بھی کہی گئی ہے۔ اس طرح کی تمام آیتوں کا مستفادیہ ہے کہ مبلغ کا حسن کردار کا مالک ہونا محامد و محاسن سے آراستہ ہونا ضروری ہے، نیز یہ بھی از بس ضروری ہے کہ مبلغ شفقت ورأفت کا اعلیٰ نمونہ ہواور تنفیذ احکام میں تدریج سے کام لینے والا ہو، جیسا کہ آیت کریمہ ولوکنت فظاً غلیظ القلب لانفضوامن حولک ( اور اگر تم تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے۔ (جز:۴،سورۃ آل عمران آیت :۱۵۹)
 یہ بات تو بہت واضح ہے کہ داعی کا مخلص ہونا بھی بے حد ضروری ہے، کیوں کہ جب تک وہ اپنے اس کام میں مخلص نہیں ہوگا اس کے مثبت نتائج بر آمد نہیں ہوسکتے اور اس کا جب تک مقصود رضائے حق نہیں ہوگا وہ حقیقی کامیابی سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا۔
لیکن یہ بھی ایک تابندہ حقیقت ہے کہ قرآن خود بھی مذہب کا داعی ہے ،و ہ کائنات کی وسعتوں میں بسنے والے ہر انسان کو دعوت فکر  اوردعوت مطالعہ دیتا ہے، تو اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ خود قرآن کریم نے ان اصول کی کتنی پاسداری کی ہے، چنانچہ قرآن کا گہرائی سے مطالعہ  کرنے والے ہر انسان پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قرآن کریم نے کسی بھی مقام پر دعوت کے ان اصولوں سے سر مو بھی انحراف نہیں کیا ہے، قرآن کا جس قدر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے اسی قدر یہ بات مستحکم انداز میں ایک ناقابل انکار حقیقت بن کر سامنے آتی ہے اور پورا قرآن کریم بالخصوص مکی سورتیں اس حقیقت پر شاہد عدل ہیں۔ اگر قرآن کریم کا کوئی قاری ان سورتوں اور آیتوں کو ان کے اسباب نزول   کے آئینے میں ملاحظہ کرتا ہے تو اس حقیقت کا چہرہ اور بھی درخشاں نظر آتا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر سامع و مخاطب حکماء و محققین کے طبقے سے ہے تو حکمت سے لبریز دلائل پیش کیے گئے ہیں اور ٹھوس دلائل سے ان کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی گئی ہے، اور اگراس کاتعلق عوام الناس سے ہے تو حسن موعظت کے ذریعے اس کی فکر کو مہمیزدینے کی کوشش کی گئی ہے، اور اگر سامع و مخاطب کا تعلق اس گروہ سے ہے جو نزاع پر آمادہ ہے تو اس سے مسلمہ مقدمات سے مرکب دلائل سے مناظرہ و مجادلہ کیا گیا ہے تاکہ یا تو مخاطب حق قبول کرلے یا اگر سعادت ازلی سے محروم ہوچکا ہے تو کم از کم اس کے لیے مذہب اسلام پر انگشت نمائی کی گنجائش باقی نہیں رہ جائے، ملاحظہ کریں چند قرآنی اقتباس جو ہماری گفتگو کی شہادت دیتے ہیں، ارشاد باری ہے۔
الم نجعل الارض مھٰداًo والجبال اوتاداًo وخلقنٰکم ازواجاًoو جعلنا نومکم سباتاًo وجعلنا اللیل لباساًo وجعلنا النہار معاشاًo وبنینا فوقکم سبعاً شداداًo وجعلنا سراجاً وھاجاًo و انزلنا من المعصرات مائً ثجاجاًo لنخرج بہٖ حبا و نباتاًo وجنّٰتٍ الفافاًo (جز:۳۰؍ سورۃ النبأآیت ۶۔۱۶)
 کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہ کیا اور پہاڑوں کو میخیں، اور تمہیں جوڑے بنایا اور تمہاری نیند کو آرام کیا، اور رات پردہ پوش کیا اور دن کو روزگار کے لیے بنایا اور تمہارے اوپر سات مضبوط چنائیاں چنیں، اور ان میں ایک نہایت چمکتا چراغ رکھا، اور پھربدلیوں سے زور کا پانی اتارا کہ اس سے پیدا فرمائیں اناج اور سبزہ اور گھنے باغ ( کنز الایمان)
ایک دوسرے مقام پرہے ’’ فلینظر الانسان مم خلق oخلق من مائٍ دافق oیخرج من بین الصلب والترائب oانہ علی رجعہٖ لقادر o( جز:۳۰؍ سورۃ الطارق آیت:۸۔۵)
تو چاہیے کہ آدمی غور کرے کہ کس چیز سے بنایا گیا، جست کرتے پانی سے جو نکلتا ہے پیٹھ اور سینوں کے بیچ سے، بے شک اللہ اس کے واپس کردینے پر قادر ہے ( کنزالایمان ) ایک اور مقام پر ہے۔
افرایتم ما تحرثون oاانتم تزرعونہ ام نحن الزارعون oلو نشاء جعلنٰہ حطاماً فظلتم تفکھون oانا لمغرمون oبل نحن محرومون oافرایتم الماء الذی تشربون oاانتم انزلتموہ من المزن ام نحن المنزلون oلو نشاء جعلنٰہ اجاجاً فلولا تشکرون o( جز: ۲۷؍ سورۃ الواقعۃ آیت:۶۳۔۷۰)
تو بھلا بتاؤ جو تم بوتے ہو کیا تم اس کی کھیتی بناتے ہو یا ہم بنانے والے ہیں؟ ہم چاہیں تو اسے روندن کردیں، پھر تم باتیں بناتے رہ جاؤ کہ ہم پر چٹی پڑی، بلکہ ہم بے نصیب رہے، تو بھلا بتاؤ تو وہ پانی جو پیتے ہو کیا تم نے اسے بادل سے اتارا یا ہم ہیں اتارنے والے؟ ہم چاہیں تو اسے کھاری کردیں، پھر کیوںنہیں شکر کرتے ( کنزالایمان)
قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیات مقدسہ کو ان کے اسباب نزول کی روشنی میں مطالعہ کرنے اور سامعین و مخاطبین کی حالتوں سے آگہی حاصل کرنے کے بعد یہ واضح ہوجائے گا کہ کس قدر معجزانہ و مبلغانہ اسلوب کے ساتھ اچھوتے دلائل سے مرصع کر کے لوگوں کے دلو ں میں درس توحید کو جاں گزیں کرانے کی کوشش کی گئی ہے، ایک ایک لفظ دل کی گہرائیوں میں اترتا معلوم ہوتا ہے، اس کے علاوہ قرآن کریم میں بیان کردہ تمامی دلائل قدرت و براہین توحید، قصص و امثال، حکمت اور حسن موعظمت کے اعجازی نمونے ہیں۔
تو ان سے پوچھو کیا تمہارے رب کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کے بیٹے، یا ہم نے ملائکہ کو عورتیں پیدا کیا اور وہ حاضر تھے؟ سنتے ہو! بے شک وہ اپنے بہتان سے کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے اور بے شک وہ ضرور جھوٹے ہیں، کیا اس نے بیٹیاں پسند کیں، بیٹے چھوڑ کر؟ تمہیں کیا ہے، کیسا حکم لگاتے ہو؟ تو کیا دھیان نہیں کرتے؟ یا تمہارے لیے کوئی کھلی سند ہے تو اپنی کتاب لاؤ اگر تم سچے ہو ( کنزالایمان ) ایک دوسرے مقام پر ہے ’’ قل ان کان للرحمن ولدٌ فانا اول العٰبدین‘‘ ( جزء:۲۵؍ سورۃ الزخرف آیت:۸۱)
تم فرماؤ بفرض محال رحمن کے کوئی بچہ ہوتا تو سب سے پہلے میں پوجتا ( کنزالایمان) ایک اور مقام پر ارشاد ہے ’’ افنجعل المسلمین کالمجرمین مالکم کیف تحکمون ام لکم کتب فیہ تدرسون ان لکم فیہ لما تخیرون ام لکم ایمان علینا بالغۃ الی یوم القیمۃ ان لکم کما تحکمون سلھم ایھم بذالک زعیم ام لھم شرکاء فلیاتو بشرکائھم ان کانوا صٰدقین۔
 ( جز:۲۹؍ سورۃ القلم، آیت ۳۵۔۱۴)
کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کا ساکردیں گے، تمہیں کیا ہوا کیسا حکم لگاتے ہو؟ کیا تمہارے لیے کوئی کتاب ہے؟ اس میں پڑھتے ہو کہ تمہارے لیے اس میںوہ ہے جو تم پسند کرو یا تمہارے لیے ہم پر کچھ قسمیں ہیں، قیامت تک پہنچتی ہوئی، کہ تمہیں ملے گا جو کچھ دعویٰ کرتے ہو، تم ان سے پوچھو ان میں کون اس کا ضامن ہے؟ یا ان کے پاس کچھ شریک ہیں، تو اپنے شریکوں کو لے کر آئیں اگر سچے ہیں ( کنزالایمان)
ان تمام آیتوں میں فکر و نظر کو تکلیف دیں تو معلوم ہوجائے گا کہ کیسا مسکت اسلوب اپنا یا گیا ہے اور کس عمدہ طریقے سے مناظرہ کیا گیا ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم نے دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں ہمارے لیے نہایت روشن خطوط کی نشاندہی کی ہے، اور ساتھ ہی ان تمام دعوتی اسالیب کی مثالیں پیش کر کے نشان راہ کو اور واضح کردیا ہے، صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی ان تمام خطوط کی پیروی کریں، اور عملی طور پر اس سے سرمو انحراف نہ کریں، اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بہت جلد ہم اپنی کوششوں کا ثمرہ اپنے ماتھے کی آنکھوں سے ملاحظہ کریں گے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔