Thursday 31 August 2017

ماہنامہ نعت رنگ(شمارہ:۲۱) ------- مرتب:سید صبیح الدین رحمانی

0 comments
ماہنامہ نعت رنگ(شمارہ:۲۱)
              مرتب:سید صبیح الدین رحمانی 
              صفحات:۷۰۴ 
              ناشر:نعت ریسرچ سینٹر ۵۰-بی،سیکٹر۱۱/اے، نارتھ کراچی
              تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی  
نعتیہ ادب کی ترویج و اشاعت اور تحقیق و تنقید کے حوالے سے سید صبیح الدین صبیح رحمانی کی جہد مسلسل کا اکیسواں نقش یعنی کتابی سلسلہ نعت رنگ کا تازہ شمارہ پیش نظر ہے- اس سے قطع نظر کہ ’’زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کہیے‘‘ ہمیں اس وقت صبیح رحمانی کے حوصلے کی داد دینی ہے جو ۱۹۹۵ء سے نعتیہ شاعری کے جداگانہ ادبی تشخص اور فنی حیثیت کو تسلیم کرانے کے لیے نہ صرف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، بلکہ مقصودتک رسائی کے لیے جو اسباب و ذرائع لازم تھے، ان کی طرف عملی پیش رفت بھی کر رہے ہیں- محرومیوں پر شکوہ تو سب کرلیتے ہیں، لیکن محرومی کو شادمانی میں بدلنے کا عزم رکھنے والے صبیح رحمانی جیسے لوگ ہمیشہ کمیاب ہوتے ہیں-
صبیح رحمانی نے ’’ابتدائیہ‘‘ میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ نعتیہ شاعری جیسی مقدس معتبر اور مقبول عام شاعری سے حلقۂ یاران ادب کی بے اعتنائی یا محرومی کی بڑی وجہ ’’اس صنف سخن پر تنقیدی زاویے سے کام نہ ہونا‘‘ تھی-انہوں نے ۱۹۹۴ء میں یہ بات محسوس کی اور اسی سال وفاقی وزارت مذہبی امور حکومت پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ سالانہ سیرت کانفرنس کے موقع پر حفیظ تائب، عاصی کرنالی، حافظ لدھیانوی، مظفروارثی، آفتاب نقوی، بشیر حسین ناظم، سید آل احمد رضوی اور دیگر اساطین سخن اور ارباب اقتدار کے روبرو اس کا برملا اظہار کیا- پھر نعتیہ شاعری کو تنقیدی عمل سے گزارنے کے لیے صبیح رحمانی نے ۱۹۹۵ء میں اقلیم نعت کی بنیاد رکھی، اسی سال کتابی سلسلہ نعت رنگ کا اجرا کیا اور پہلا ہی شمارہ تنقید نمبرشائع کیا- اقلیم نعت کے زیر اہتمام نعتیہ ادب سے متعلق اب تک چھوٹی بڑی ۱۸؍کتابیں شائع ہوچکی ہیں- ۲۰۰۲ء میں اقلیم نعت کے تحت نعت ریسرچ سینٹر قائم کیا، جس کا خاص نشانہ عصری جامعات میں نعتیہ ادب پر تحقیقی کام کرانا، ان کی نگرانی کرنا اور مواد فراہم کرنا تھا- یہ سینٹر بھی کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے- اس نے اب تک ۱۰؍گراں قدر کتابیں بھی شائع کردی ہیں اور اب مختلف ویب سائٹس کے ذریعے نعتیہ ادب کو برقی دنیا سے جوڑنے کا کام جاری ہے-
نعت رنگ محض ایک علمی و تحقیقی مجلہ نہیں رہا، رفتہ رفتہ یہ اردو دنیا کے ادیبوں، شاعروں، تحقیق کاروں اور ناقدین کا نیٹ ورک بن گیا اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صبیح رحمانی نے اپنی اعلیٰ بصیرت وحکمت سے مارکسوادی ادب کو وضو کراکے قبلہ رو کردیاہے، ادب برائے زندگی اور ادب برائے ادب کے شور میں ادب برائے دین یا ادب برائے تطہیر فکر و نظر کی شمع روشن کردی ہے-نعت رنگ نے دراصل لابنگ کا کام کیا ہے- میرے خیال میں مسئلہ یہ نہیں تھا کہ نعت کی جداگانہ فنی حیثیت سے کسی کو انکار ہو، بات یہ تھی کہ بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ اردو ادب پر مارکسوادی جن کا تسلط ہوگیا- وہی جن مختلف روپ میں ترقی پسندی اورجدیدیت و مابعد جدیدیت کے نام سے ابھرتا رہا- اسے آدم کے بشری وجود کے سامنے ملکوتی سجدے پر سخت اعتراض تھا- نعتیہ شاعری کو تسلیم کرنا اور اسے اصناف ادب میں باریاب کرنا محض ایک فن کو تسلیم کرنا نہیں تھا، بلکہ مٹی کے سامنے آگ کا سجدہ ریز ہوجانا تھا- سکے کا دوسرا رخ یہ تھا کہ محبان نعت، ادب اور ادیبوں کا نام سن کر ہمیشہ لاحول پڑھتے رہے- صبیح رحمانی اس سیاق میں منفرد ہیں کہ انہوں نے نعت رنگ کے
ذریعے لابنگ کی- خلیج کو پاٹا- نعت کو تنقیدی عمل سے گزار کر مدعیان فکر و فن کے لیے بھی اسے قابل قبول بنادیا، لیکن منزل ابھی باقی ہے- ہنوز دلی دور است- پاکستانی جامعات کے بارے میں میں زیادہ کچھ نہیں جانتا- ہندوستانی جامعات میں نعتیہ شاعری کو باریاب کرنے میں ابھی مشکلات ہیں- صبیح رحمانی کو اپنے احباب کے ساتھ اس پہلو پر سوچنا چاہیے، اس یقین کے ساتھ کہ
جستجو ہو تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے
یوں تو ہر موڑ پہ منزل کا گماں ہوتا ہے
پیش نظر شمارے میں صبیح رحمانی کے ابتدائیہ کے بعد معصوم انصاری، محمد اکرم رضا، شوکت عابد اور شہزاد مجددی کی خوب صورت حمد و مناجات ہیں- صفحہ ۲۵ سے ’’مقالات و مضامین‘‘ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے- پہلا مقالہ جناب رشید وارثی کا ہے، جو اب ہم میں نہیں رہے- انہوں نے ۱۱؍جون ۲۰۰۹ء کو اس جہان فانی کو خیرباد کہہ دیا- مقالے کا عنوان ہے ’’اردو نعت میں ضمائر کا استعمال‘‘ مطالعے سے معلوم ہوا کہ اس موضوع پر اس سے پہلے راجا رشید محمود، ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی اور صابر سنبھلی داد تحقیق دے چکے ہیں-جناب راجا رشید محمود صاحب کا فتویٰ ہے:
’’آقاحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلم کے لیے’’تو، تم، وہ، اس‘‘ کے استعمال سے اجتناب ہمارے لیے ضروری ہے-‘‘
(ص:۳۴، بحوالہ ماہنامہ نعت لاہور، جولائی ۱۹۹۶ء)
ڈاکٹر سیدابوالخیر کشفی کی رائے ہے:
’’کوئی پانچ سات سال پہلے جب تو کے خلاف ایک تحریک چلی تو میں نے عرض کیا تھا کہ جن صاحبان کے خیال میں اس لفظ میں گستاخی ہے، ان کے لیے تو کا استعمال ممنوع بلکہ حرام ہے، لیکن جو لوگ اس لفظ کی وسعت اور پھیلاؤ سے آگاہ ہیں انہیں اس کے ترک پر کیوں مجبور کیا جائے؟ مگر بعض لوگوں کا مزاج آمرانہ ہوتا ہے-‘‘
(ص: ۳۵؍بحوالہ نعت رنگ، شمارہ۴، مئی ۱۹۹۷ء)
ڈاکٹر صابر سنبھلی نکتہ آفرینی کرتے ہیں:
’’آج کی اردو شاعری فارسی کی گرفت سے آزاد ہوچکی ہے- اس لیے ہمیں اس طرز تخاطب سے بچنا چاہیے اور اگر کوئی مجھ سے متفق نہ ہو تو میں یہی کہوںگا کہ وہ اپنے باپ دادا کو بھی ’’تو‘‘ سے مخاطب کیا کرے-‘‘ (۴۶، بحوالہ نعت رنگ شمارہ۲۰)
رشید وارثی لکھتے ہیں:
’’یہ پیراگراف پڑھ کر افسوس ہوا- خدا جانے ڈاکٹر صاحب کو فارسی جیسی علم و ادب اور علوم و فنون کی پرورش کرنے والی زبان سے اتنی پرخاش کیوں ہے؟ آج ان کی یہ فرمائش ہے کہ فارسی ضمائر سے اجتناب کرنا چاہیے کیوں کہ اس زبان میں لفظ آپ یا اس کا مترادف کوئی لفظ نہیں ہے تو کل عربی زبان پر بھی اسی بنیاد پر حملہ ہوسکتا ہے اور پھر قرآنی آیات اور احادیث کی عبارتوں پر -سوچ اور انداز فکر کی اس بے راہ روی کا ابھی سے انسداد ہونا ضروری ہے ورنہ کل یہ فتنہ فتنہ انکار عربی، فارسی اور پھر فتنۂ انکار قرآن و حدیث کا روپ دھار سکتا ہے-‘‘(ص:۶۴)
ڈاکٹرصابر سنبھلی کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے رشید وارثی نے علامہ اقبال کے چند اشعار نقل کیے ہیں، جن میں انہوں نے اپنی ماں سے تو اور تیرا سے خطاب کیا ہے، اسی طرح رشید وارثی نے اپنے دادا میجر عبدالغفار خان وارثی کے مرثیہ میں کہے گئے چند اپنے اشعار نقل کیے ہیں، جن میں یہی طرز تخاطب اختیار کیا گیا ہے-جناب صابر سنبھلی کی اس عبارت پر حیرتوں کی انتہا نہ رہی :
’’عربی میں آج بھی السلام علیک یا رسول اللّٰہ کا چلن عام ہے- بات وہی ہے جو تو اور تیرا میں ہے- اس کے علاوہ اردو میں واحد حاضر کی ضمیر فارسی اور عربی کے مقابلے میں زیادہ سخت ہے-‘‘
(ص: ۴۷، بحوالہ نعت رنگ ،شمارہ ۲۰)
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے رشید وارثی نے یہ شعر ان کی نذر کیا ہے:
اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ
ڈاکٹر صابر سنبھلی ہندوستان میں اردو نعتیہ شاعری کے سب سے بڑے شاعر اعلی حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے فکر وفن کے پرجوش حامی اور ان کے زبان و اسلوب کے مداح و دفاعی کے طور پر جانے جاتے ہیں اور کبھی قسط وار طویل تحریر ’’کنزالایمان کا ادبی و لسانی جائزہ‘‘ لکھ کر اس کا خراج بھی وصول کرچکے ہیں- ایسے میں تعجب ہوتاہے کہ انہوں نے تو اور تیرا کے حوالے سے فاضل بریلوی کے نقطہ نظر سے تجاہل کیوں برتا؟ان کی ضیافت طبع کے لیے فاضل بریلوی کا صرف ایک شعر نذر ہے:
ترا کھائیں تیرے غلاموں سے الجھیں
ہیں منکر عجب کھانے غرانے والے
کراچی کے محترم عزیز احسن نے ’’تخلیقی ادب اور نعتیہ ادب کی موجودہ صورت حال‘‘ کے عنوان سے خوب داد تحقیق دی ہے- انہوں نے ایک جگہ یہ سوال اٹھایا ہے کہ ’’کیا واقعی اردو کی تمام نعتیہ شاعری ’’ادب‘‘ کی تعریف پر پوری اترتی ہے؟‘‘پھر خود ہی جواب دیا ہے:’’میرا جواب نفی میں ہے-‘‘(ص:۱۰۵) محترم موصوف سے اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ’’کیا واقعی اردو کی تمام غزلیہ شاعری ’’ادب‘‘ کی تعریف پر پوری اترتی ہے؟‘‘ تو بھی یقینا ان کا جواب یہی ہوگا- پھر ان کی اس نکتہ آفرینی کا حاصل کیا ہے، میں نہیں سمجھ سکا- اسی طرح ’’میٹھے نبی‘‘ کے خلاف انہوں نے جودلائل دیے ہیں ان سے شدید کڑواہٹ کا احساس ہوتا ہے- ان سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ’’دور کی کوڑی‘‘ کس بلا کا نام ہے-ویسے فی الجملہ ان کا مقالہ علمی اور قابل قدر ہے-
محمد شہزاد مجددی کا مضمون ’’اردو نعتیہ شاعری میں موضوع روایات‘‘ پسند آیا- انہیں اس سلسلے کو اور دراز کرنا چاہیے- پروفیسر محمد اکرم رضا نے غیرمسلم شعرا کی اسلامی شاعری کے حوالے سے نور احمد میرٹھی کی تحقیقی جمال آفرینی کو ہدیۂ تحسین و آفریں پیش کیا ہے- ان کا دوسرا مقالہ ’’نعتیہ ادب کے تنقیدی نقوش‘‘ ص ۱۳۸ سے شروع ہوتا ہے- نعت رنگ میں جو رنگ پروفیسر اکرم رضا کا ہے، وہ کسی کا نہیں ہے- خوب صورت لفظوں کا استعمال چاہے وہ جیسے کریں انہیں اس کا حق ہے- لفظوں سے جادو جگانا کوئی ان سے سیکھے- وہ معمولی بات بھی اس فنکاری سے کہتے ہیں کہ بڑے بڑوں کے سر سے گزر جائے اور کیا مجال کہ کوئی یہ سمجھ لے کہ وہ کہنا کیا چاہ رہے ہیں- مثلاً اسی مقالے کے شروع میں ان کا ایک خط چھپا ہے، جس کا پہلا جملہ ہے:
’’جب نعت نے ورفعنالک ذکرک کا تاج زرنگار سر کی زینت بنایا تو اس کے حسین ہمہ گیر، جلوہ ہائے ضوبار، عظمت وانفرادیت و شعریت کے چرچے ہرسوپھیل گئے-‘‘ مجال ہے کوئی بڑے سے بڑا مورخ نعت کی تاج پوشی کا سال رقم کردے یا یہ بتادے کہ اس کے بعد کس قسم کے واقعات عجیب و غریب رونما ہوئے جن کا ذکر مذکورہ بالا عبارت میں کیا گیا ہے-اسی طرح اگر کوئی صاحب اس عبارت کی تشریح کردیں تو میں تاعمران کا ممنون رہوں گا:
’’نعت گوئی کی تعداد فکر و تخیل سے زیادہ ہوئی تو تنقید نعت کا تصور وقت کا تقاضا بن کر ابھرا- اگر تنقید تحقیق کا پرچم اپنے وجود کا احساس نہ دلاتا تو رطب و یابس کے نام پر نعت میں وہ کچھ آنے لگتا جو کسی صاحب ایمان کو گوارا نہیں تھا-‘‘
موصوف کا یہ مقالہ مواد سے پر ہے- یہ ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے اپنی بات صرف ۱۳۱؍ صفحات میں سمیٹ دی ہے ورنہ بیان پر انہیں وہ قدرت ہے کہ نعت رنگ کا پورا شمارہ بھی اس کے لیے کم پڑسکتا تھا- حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے ایک شعر کا ترجمہ موصوف نے اتنا تفصیلی کیا ہے کہ اس کی تشریح بھی اس تفصیل سے کسی کے ذہن میں نہیں آسکتی-
نعت رنگ کے اسی شمارے میں حیدرآباد سندھ کے ڈاکٹر حسرت کاس گنجوی کی ایک تحریر پڑھ کر میری حیرتوں کی انتہا نہ رہی- آں موصوف پروفیسر اکرم رضا کے لیے چیلنج بن کرسامنے آئے ہیں- زبان و بیان پر بالکل ایک سی قدرت - الفاظ وتراکیب کا یکساں استعمال- ہندو فلسفہ آواگون کا نظریہ تو پیش کرتا ہے لیکن کوئی ایسا فلسفہ اب تک سامنے نہیں آیا جس کے مطابق بیک وقت ایک روح دو جسموں میں اقامت گزیں رہتی ہو- خیر یہ بحث میرا موضوع نہیں-میں صرف یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ دونوں کی تحریریںایسی ہیں جیسے ایک ہی قلم سے نکلی ہوں- اپنے دعویٰ کے ثبوت میں ڈاکٹر حسرت کاس گنجوی کے مقالے سے چند ابتدائی جملے نقل کرتا ہوں:
’’نعت شناسی محض ایک ترکیب نہیں بلکہ اس کے دامن میں زمانے بھر کے سمندروں کی فراخی اور آسمانوں کی بلندی پوشیدہ ہے- نعت بذات خود ایک صنف سخن نہیں بلکہ عبادت ہے-سعادت ہے، قلب وجان کا قرار ہے، بہاروں کے لیے جان بہار ہے- اس کے روحانی شکوہ کے سامنے تمام اصناف سخن سرخمیدہ ہوجاتی ہیں- یہ مملکت عشق و عقیدت کی تاجدار ہے، جس کے سر پر ورفعنالک ذکرک کا تاج زر نگار جگمگا رہاہے، جس کی حکمرانی شام ابد سے بھی آگے ہے-‘‘(ص: ۴۱۱)
میرا دعویٰ ہے کہ اس متن کی تشریح پروفیسر اکرم رضا کے علاوہ  کوئی دوسرا کر ہی نہیں سکتا، کیوںکہ ورفعنالک ذکرک سے نعت کی تاج پوشی کاواقعہ انہوں نے بھی لکھا ہے- قارئین کو یہ جان کر حیرت و مسرت ہوگی کہ ڈاکٹر حسرت کاس گنجوی کے اس مقالے کا عنوان ہے:’’محمد اکرم رضا کی نعت شناسی-‘‘
موصوف نے پروفیسر اکرم رضا کی نعت شناسی کی توصیف میں لکھا ہے کہ: ’’آپ کی ذات واحد نے اتنا کام کیا ہے کہ ایک ادارے کی کاوشوں کا گمان گزرتا ہے-‘‘(ص:۴۷۲) میرے خیال میں ڈاکٹر حسرت نے بخل سے کام لیا ہے، ورنہ انہیں اس بات کا یقین ہونا چاہیے تھاکہ پروفیسر موصوف کی ذات واحد نہیں مجموعۂ آحاد ہے اور انہوں نے جو کام کیا ہے صرف اس کو سنبھالنے کے لیے کئی اداروں کی ضرورت ہے- تکلف برطرف! پروفیسراکرم رضا ایک خوش فکر صاحب قلم ہیں- طوالت اور عجلت ان کی مجبوری ہے- یقینا ان کے پاس وقت کی قلت اور کام کاانبار رہتاہوگا- اگر انہیں وقت ملتا تو شاید کچھ کم اور مختصر لکھتے، لکھنے کے بعد ایک بار پڑھ بھی لیتے- تاکہ قارئین کے سامنے اپنی عبارتوںکی تشریح کرنے سے بچ جاتے-پھر پڑھنے والوں کو بھی آسانی ہوتی-
نعت رنگ کے پیش نظر شمارے کا ایک خاص حصہ ’’نعت شناسی‘‘ کے عنوان سے ہے- اس کے تحت ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق، نظیرلدھیانوی، پروفیسر اقبال جاوید، پروفیسرمحمد اکرم رضا، رشید وارثی اور ڈاکٹر سراج احمد قادری کی نعت شناسی پر بالترتیب ڈاکٹر محمد یحییٰ نشیط، پروفیسر محمد اقبال جاوید، عزیز احسن، ڈاکٹر حسرت کاس گنجوی، پروفیسر محمد اکرم رضا اور ڈاکٹر شکیل احمد اعظمی نے خامہ فرسائی کی ہے- یہ سلسلہ قابل تحسین ہے- اس سے جہاں نعتیہ ادب کے محققین و ناقدین کی حوصلہ افزائی ہوگی وہیں نعتیہ ادب پر ہورہے جدید تحقیقی و علمی کاموں سے عام قارئین کو واقفیت بھی ہوگی- خدا کرے کہ یہ سلسلہ دراز ہو اور ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘ کی لعنت سے محفوظ رہے-
’’فکر وفن‘‘ کے حصے میں پانچ گراں قدر مقالات شامل ہیں- حضرت خواجہ بندہ نواز، میراعظم علی شائق، احسان اکبر، انور سدید اور طاہرسلطانی کے فکر و فن کے حوالے سے قیمتی تحریریںشامل ہیں- منظومات کا حصہ بھی معیاری ہے- تقریباً چالیس صفحات پر پھیلا ہوا ہے- بہت ہی خوب صورت شاعری کا انتخاب شامل ہے- تنگی دامن گیر ہے ورنہ بعض اشعار پر اظہار خیال کرتا- اس انتخاب کی آخری نعت کا آخری شعر ہے:
کاش اے صبیحؔ ان کی اطاعت میں ہو بسر
عمر عزیز میں نے ابھی تک تباہ کی
نعت رنگ میں خطوط کا حصہ محض توصیفی و روایتی نہیں بلکہ علمی و تنقیدی اوردلچسپ ہوتا ہے- اس بار اس میں۱۹خطوط شامل ہیں- پہلا خط معروف و ممتاز نقاد شمس الرحمن فاروقی کا ہے جو نعت رنگ کو اعتبار بخشتا ہے- فاروقی صاحب لکھتے ہیں:
’’سب سے پہلی بات تو یہ کہتا ہوں کہ آپ صنف نعت کی اہمیت کو دوبارہ قائم کر رہے ہیں اور اسے مذہبی شاعری کے دائرے سے باہر نکال کر-‘‘(ص: ۹۴۶)
مجھے نہیں معلوم صنف نعت کی اہمیت پہلی بار کب قائم ہوئی تھی جسے صبیح رحمانی اب دوبارہ قائم کر رہے ہیں- نعت رنگ کے متعدد شمارے پڑھنے کے باوجود مجھے یہ بھی نہیں معلوم ہوسکا تھا کہ صبیح رحمانی نعت کو مذہبی شاعری کے دائرے سے باہر نکال کر اس کی فنی حیثیت تسلیم کرانے کے درپے ہیں، یہ بات بھی فاروقی صاحب سے معلوم ہوئی- میں
فاروقی صاحب سے یہ بھی جاننا چاہوںگا کہ کسی تحریر کے ’’ادبی‘‘ ہونے کے لیے کیا واقعی  اس کا ’’مذہب سے ارتداد‘‘ ضروری ہے؟
فاروقی صاحب نے مولانا کوکب نورانی کے طویل مراسلے کی تعریف کی ہے اور اسے ’’حرف حرف پڑھنے کے قابل‘‘ بتایا ہے- یہ الفاظ ہم نے خوشی اورحیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ پڑھے - مولانا کوکب نورانی نے اس بار بہت مختصر خط لکھا ہے- صرف آٹھ صفحات میں- اس میں بھی گفتگو ماہنامہ ندائے شاہی مرادآباد کے ’’نعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم نمبر‘‘ کی بعض بے احتیاطیوں پر ہے- خط میں کئی جگہ’’دیوبندیوں‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے- نعت رنگ میں مختلف مسالک کے افراد لکھتے ہیں- ہمیں ڈر ہے کہیں کوئی ’’بریلویوں‘‘ وغیرہ کا استعمال نہ شروع کردے-
احمد صغیرصدیقی کا خط بھی پسند آیا- خدا خدا کر کے انہوں نے مولانا کوکب نورانی کویہ کہہ کر تسلیم کرلیا ہے کہ ’’نعت رنگ میں کوکب صاحب کی شمولیت سے بہت سے مسائل کے حل ہمیں ملے ہیں-‘‘ صغیر صاحب نے مرتب’’ نعت رنگ‘‘ کو یہ مشورہ دیا ہے کہ ’’پرچے کی ضخامت کم کریں اور اشاعت کا وقفہ بھی‘‘- کم از کم ہم اپنی آسانی کے لیے اس کی تائید کرتے ہیں تاکہ شمارہ ہم پورا پڑھ سکیں- جن مقالات و مضامین پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کرسکے ہیں ان کے محررین سے معذرت کرتے ہوئے دعا گو ہیں کہ مولیٰ کریم ’’نعت رنگ‘‘ کو اس کی منزل نصیب کرائے- (آمین)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔