Thursday 31 August 2017

قرآن کریم اور بخاری شریف سے جواب ------ مصنف : مولاناملک محمد شبیر عالم مصباحی

0 comments
قرآن کریم اور بخاری شریف سے جواب
            مصنف : مولاناملک محمد شبیر عالم مصباحی 
            صفحات:۱۶۸
            سن اشاعت :مارچ ۲۰۰۸ء
            ناشر:ادارۂ تصنیفات،۳۹؍رائڈ اسٹریٹ،جامع مسجد،کلکتہ-۱۶
            تبصرہ نگار: ضیاء الرحمٰن علیمی
تقریباً ایک ہفتہ قبل میں اپنے ایک دوست سے اس سلسلے میں گفتگو کر رہا تھا کہ ان دنوں ہمارے اصل حریف غیرمقلدین ہیں جو ہر مسئلے کے ثبوت میں قرآن کریم اور صحیح احادیث خصوصاً بخاری شریف سے کم قیمت پر کسی بھی طرح کی گفتگو کے لیے تیار نظر نہیں آتے ہیں- اس لیے ضرورت ہے کہ ’’جاء الحق‘‘ کے طرز پر نئی نسل خصوصاً جدید تعلیم یافتہ افراد کی ذہنی سطح اور ان کے معیار و اسلوب استدلال کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام معتقدات و معمولات اہل سنت کے دلائل کا ایک ایسا مجموعہ تیار کیا جائے جو صرف قرآن مجید اور صحیح احادیث کے حوالے سے علمی منہج کے مطابق مزین ہو، جس کا مطالعہ کرکے نئی تعلیم یافتہ نسل اپنے دین و مسلک کی حفاظت کرسکے اور اتباع حدیث کے دعوے داروں کو دندان شکن جواب دے سکے- شاید وہ گھڑی اجابت کی تھی چنانچہ کچھ ہی دنوں کے بعد میرے مطالعے میں ایک ایسی کتاب آئی جس کے مضامین کا تعلق اختلافی مسائل سے ہے- اس میں اختلافی مسائل کو سوالات کی شکل میں پیش کیا گیا ہے اور ان کے جوابات صرف قرآن کریم اور بخاری شریف کے حوالے سے ہی دیے گئے ہیں- کتاب کا نام ہے ’’قرآن کریم اور بخاری شریف سے جواب‘‘ اور اس کے مولف ہیں فاضل اشرفیہ مولانا ملک محمد شبیر عالم مصباحی- مولف موصوف اس وقت جامع مسجد رائڈ اسٹریٹ کلکتہ کی خطابت و امامت کے منصب پر فائز ہیں- ان کی یہ تالیف ۱۶۸ صفحات پر مشتمل ہے جس میں اصل مبحث کے آغاز  کیسے قبل فہرست مضامین، شرف انتساب اور مولانا عبدالمبین نعمانی کا تحریر کردہ مقدمہ کے علاوہ امام بخاری کا مختصر تعارف اور صحیح بخاری کا تعارف بھی شامل ہے- تعارف امام بخاری کی ابتدا سے پہلے ’’ازشارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ‘‘ اور اس کے اختتام پر ’’از نزہۃ القاری شرح بخاری‘‘ لکھ کر بڑی علمی دیانت کا مظاہرہ کیا ہے، اگر وہ یہ ’صراحت‘ نہ کرتے تو اس تحریر پر ان کی ملکیت میں کون شبہ کرسکتا تھا، علمی امانت کا یہ مظاہرہ دراصل باطنی طہارت کا پتا دیتا ہے-
اس کتاب میں مجموعی طور پر ۱۰۷ سوالات ہیں جن کا تعلق اختلافی مسائل مثلاً بغیر ٹوپی نماز پڑھنا، علم غیب، حیات انبیا، جمع بین الصلاتین، مردوں کا سننا، قبروں پر پھول ڈالنا، توسل، تبرک، بدعت وغیرہ سے ہے- اس کتاب کو جس اسلوب و ترتیب سے برتا گیا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے اختلافی مسائل کی شہ سرخیاں قائم کی گئیں ہیں، پھر انھیں سوالات کی شکل میں پیش کیا گیا ہے، پھر اس کے بعد جوابات دیے گئے ہیں اور اصل حکم کو بیان کیا گیا ہے، اس کے بعد قرآن کریم آیت/ آیات یا بخاری شریف کے حوالے سے حدیث / احادیث پیش کی گئی ہیں، اور پھر ان احادیث کا شستہ اور سلیس ترجمہ کر دیا گیا ہے-لیکن قرآن کریم کے مفصل حوالے آیتوں کے بعد ذکر کیے گئے ہیں جب کہ اس کے برعکس احادیث کے ذکر کے وقت حوالوں کو مقدم رکھا گیا ہے- اس کتاب کے مطالعے کے بعد قاری کو محسوس ہوگا کہ واقعی مولف محترم نے قرآن کریم اور صحیح بخاری شریف کی احادیث سے معتقدات و معمولات اہل سنت کو سجانے میں بڑی محنت کی ہے- ان کی یہ کوشش جملہ علماو عوام اہل سنت کی جانب سے داد و تحسین کے قابل ہے کہ انھوں نے وقت کی ایک شدید ِضرورت کی تکمیل کی کوشش کی ہے- البتہ پوری کتاب پر ایک نظر ڈالنے کے بعد اس کتاب سے متعلق میرے چند ریمارکس ہیں:
 پہلا یہ کہ اس کتاب کی تالیف کے وقت مولف محترم کے ذہن میں اختلافی مسائل کا دائرہ کتنا وسیع تھا اور اس کتاب میں انھوں نے کس طرح کے اختلافی مسائل کو ذکر کرنے کا ارادہ کیا تھا؟ وہ مسائل جو ہمارے اور وہابیوں (غیرمقلدوں) دیوبندیوں کے درمیان مختلف فیہ ہیں یا پھر وہ مسائل بھی جو کہ ہمارے اور غالی صوفیوں کے درمیان مختلف فیہ ہیں- اگر انھوں نے صرف ان اختلافی مسائل کا ارادہ کیا تھا جو اہل سنت اور وہابیوں، دیوبندیوں کے درمیان مختلف فیہ ہیں تو پھر داڑھی مونچھ کی مقدار، ہاتھ پکڑ کر بیعت، پیر و مرشد کی تصویر جیسے مسائل کو کیوں شامل کتاب کیاگیا ہے مجھے سمجھ میں نہیں آیا، اور اگر انھوں نے اختلافی مسائل کے دائرے کو وسیع رکھا تھا تو پھر انھیں حرف آغاز میں اس کی صراحت کرنی تھی کیوں کہ مولانا عبدالمبین نعمانی کے مقدمے سے اور ویسے بھی اختلافی مسائل سے تبادر ذہنی اسی طرف ہوتا ہے کہ اس کتاب میں صرف اہل سنت اور وہابیوں (غیر مقلد ودیوبندی) کے مابین اختلافی مسائل ہی کو ذکر کیا گیاہوگا-
کتاب میں بعض عناوین ایسے بھی نظر سے گزرے جن کا مختلف فیہ ہونا ہی کم از کم میری نظر میں مشکوک ہے مثلاً: تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ، فجر کی نماز کے بعد سنت پڑھنا (دیکھیے ص: ۱۶؍۱۹)-
دوسرا یہ کہ کہیں کہیں ذکر کردہ احادیث کو کتاب سے کچھ اس طرح کاٹ کر نقل کیا گیا ہے کہ تشنگی کا احساس ہوتا ہے مثلاً صفحہ: ۲۶ پر حدیث نمبر ۱۸ اس طرح منقول ہے: عبداللہ قال سألت النبی الخ- اب یہ عبارت یا تو عن عبداللہ یا حدثنا عبداللہ جیسی عبارت کے سابقے کے ساتھ ہوگی، اس کا سابقہ نہ ہونے کی وجہ سے نقل ناقص معلوم ہوتا ہے- صفحہ ۲۰ پر بھی حدیث نمبر ۱۰ میں ایسی ہی کمی پائی جاتی ہے- احادیث کا حوالے دیتے وقت علمی منہج کا خیال نہیں رکھا گیا ہے چنانچہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے حوالہ دینے کے بجائے احادیث کے ذکر کے بعد حوالہ دیا جاتا اور اگر پہلے حوالہ دے بھی دیا گیا ہے تو اس کی ترتیب اس طرح ہوتی کہ پہلے بخاری شریف، پھر جلد، پھر کتاب اور سب سے آخر میں باب ذکر کر دیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور حوالے پہلے ذکر کیے گئے اور اس میں بھی کسی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھاگیا، اور عموماً ’’کتاب‘‘ کو سب سے آخر میں قوسین دے کر ذکر کیا گیا ہے اور بہت سے مقامات پر تو ’’کتاب‘‘ ذکر ہی نہیں کیا گیا ہے- جب کہ احادیث کی کتابوں کے حوالے میں صفحات سے زیادہ کتاب اور باب کا حوالہ اہتمام کے ساتھ دیا جانا چاہیے کیوں کہ ان دنوں احادیث کے مجموعوں کا ہر دن ایک نیا ا یڈیشن منظر عام پر آتا ہے، ایسے میں کتاب اور باب کا حوالہ بے حد ضروری ہے-
تیسرا یہ کہ داڑھی مونچھ کی شرعی مقدار کے باب میں مولف لکھتے ہیں: حدیث پاک کے الفاظ سے مونچھ کو چھوٹا رکھنے کا حکم سمجھ میں آتاہے، مونچھ کو بالکل صاف کر دینا یقینا غلط ہے‘‘ اور جس حدیث سے انھوں نے اس مسئلے کا استنباط کیا ہے اس میں وارد لفظ ہے ’’احفو الشوراب‘‘ اور کسی چیز کو جڑ سے ختم کر دینا یا سرے سے کسی چیز کا نہ ہونا اس کے معنی میں شامل ہے اس لیے اس کا ترجمہ ’’مونچھیں پست کراؤ‘‘ درست نہیں ہے ہاں اگر انھوں نے قصو الشوراب والی روایت ذکر کی ہوتی تو بات الگ تھی- ترجمے سے قطع نظر مونچھیں بالکل صاف کر دینے کو ’’بالکل غلط‘‘ کہنا بالکل غلط ہے کیوں ہمارے اکابر اسلاف کی بڑی تعداد ہے جو بالکل مونچھیں نہیں رکھتے تھے-
چوتھا یہ کہ جو باتیں انھوں نے صفحہ ۱۶۲ سے ۱۶۵ تک میں کہی ہیں اگر انھیں اور تعارف امام بخاری و صحیح بخاری کو مقدمے کی شکل میں ذکر کر دیا جاتا تو اچھا ہوتا اور علمی ذوق کی سیرابی کا سامان ہوتا-
 اس کے علاوہ بہت سے مقامات پر اعراب کی اور پروف کی کمیاں در آئی ہیں جس سے بہر حال کتاب کو پاک کیا جانا ضروری ہے مثلاً صفحہ ۲۱ پر ’’ولاأکف‘‘ کے بجائے ’’ولاکف‘‘ وکِفی کسرے کے ساتھ تحریر ہوگیا ہے یوں ہی صفحہ ۶۳ پر حدیث نمبر ۵ کے دوسرے پیرا کے آخری حصے میں یحب اللہ و رسولہ کے بجائے یحبہ اللہ و رسولہ تحریر ہے، جو غلط ہے- اسی طرح ’’او‘‘ کا ترجمہ ’’اور‘‘  سے کیا گیا ہے جب کہ درحقیقت یہ راوی کا شک ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کے وصف میں یحبہ اللہ و رسولہ فرمایا ہے یاپھر یحب اللہ و رسولہ  فرمایا- اس قسم کی چند خامیاں اور بھی ہیں- اس کتاب کی نئی بات یہ ہے کہ حرف آغاز کو فہرست مضامین سے مقدم رکھا گیا ہے، جب کہ اسے فہرست مضامین کے بعد ہی آنا چاہیے تھا اور اس کتاب کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اس میں کوموں کے اہتمام سے مکمل اجتناب کیا گیا ہے-
کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب اور کاغذ عمدہ ہے - کتاب اپنے طرز و اسلوب کے لحاظ سے اپنے اندر سادگی اور نیا پن لیے اور اپنے اندر قیمتی معلومات سمیٹے ہوئے ہے، جن سے آشنائی عوام اہل سنت بالخصوص طلبۂ اہل سنت کے دین و مسلک کی حفاظت کے لیے ضروری ہے- یقین ہے کہ کتاب عوام میں ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی اور علما کے مابین بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی -

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔