Tuesday 29 August 2017

علامہ فضل حق خیرآبادی:چند عنوانات ----- مصنف:خوشتر نورانی

1 comments
          علامہ فضل حق خیرآبادی:چند عنوانات
            مصنف:خوشتر نورانی
            صفحات: 208
            سال اشاعت:2011
            ناشر:ادارۂ فکر اسلامی،دہلی 
            تقسیم کار: مکتبہ جام نور دہلی
            تبصرہ نگار: ضیاء الرحمٰن علیمی 
بحث ونظر ، تحقیق وتنقید جگر کا وی کا عمل ہے اور ظاہر ہے کہ اس عمل کو وہی انجام دے سکتاہے جو اس میدان کی اخلاقیات سے آشنا ہو اور جسے اپنے موضوع تحقیق کے ساتھ عشق کی حد تک لگاؤ ہو - موضوع کے تعلق سے اسی اخلاص کی کمی اور تحقیق وتنقید کی اخلاقیات سے ناآشنائی کی وجہ سے تساہل پسندی عام ہوچکی ہے اور اب تحقیق کے نام پر وہ عمل رائج ہوگیا ہے جسے عام زبان میں Cut Paste کانام دیا جاتا ہے- لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب سرے سے خالص تحقیقی کام ہی ناپید ہے- آج بھی بعض استثناء ات ایسے مل جاتے ہیں جن میں علمی اور تحقیقی تقاضوں کا پورا پاس و لحاظ ہوتا ہے اور جنہیں علم کے عہد زوال میں تحقیق کا شہ کار کہنا پڑتا ہے- مولانا خوشتر نورانی کی زیر نظر کتاب اسی نوعیت کا ایک عمدہ استثنا ہے-
علامہ فضل حق خیرآبادی کی سیاسی زندگی اورآپ کے مجاہدانہ کردار وافکار پر مشتمل کتاب ’’علامہ فضل حق خیرآبادی چند عنوانات ‘‘ ۲۰۸ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے- کتاب کا انتساب مفتی انتظام اللہ شہابی ، مولانا عبدالشاہد خان شراونی ، مولانا عبدالحکیم شرف قادری اور حکیم سید محمود احمد برکاتی کے نام کیاگیاہے- اس کے بعد’’ اظہاریہ‘‘ ہے جس میں مؤلف نے کتاب کی تالیف کے پس منظر اور پھر اس موضوع پر مطالعے کے نتیجے میں منکشف ہونے والی باتوں کاتذکرہ کیاہے- خاص طورسے علامہ کی زندگی کے چند پہلو مثلاانگریزی ملازمت، ہم نامی کا شبہ اور فتویٔ جہاد وغیرہ جن کو بنیاد بناکر بعض محققین نے جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں علامہ کی شرکت کو مشکوک قراردیاہے، ان کوہی کیوں انہوں نے اپنا موضوع تحقیق بنایا اس کی وجہ بھی ذکرکی ہے- تحقیق وجستجو کے بعد حاصل ہونے والے انہی نتائج کو انہوںنے ’’علامہ فضل حق خیرآبادی چند عنوانات‘‘ کا سرنامہ دے دیاہے- اس کتاب میں کیاچیز نئی ہے اورعلامہ کی کن نئی جہتوں سے انہوںنے قارئین کو متعارف کرایا اس کا تذکرہ بھی اسی اظہاریہ میں کیاہے- اور اپنے منہج بحث سے قارئین کو روشناس کرایاہے ، مؤلف کا یہ اظہار یہ اس کتاب کے مطالعے کے لیے لازمی مطالعے کی حیثیت رکھتاہے- اس کے بعد پروفیسر معین الدین عقیل ، صدرشعبہ اردو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی پاکستان کا مقدمہ ہے جس میں انہوںنے کتاب کی قدروقیمت کا جائزہ لیاہے-
اصل کتاب کا آغاز ’’توقیت فضل حق ‘‘ کے عنوان سے ہوتاہے- اس میں علامہ کی ولادت سے وفات تک کے واقعات کو تاریخ وسنین کے لحاظ سے مرتب کرکے علامہ کی کتاب حیات کو مرتب انداز میں پیش کرنے کی سعی مشکور کی گئی ہے- ’’ تحقیق کے دوپیمانے‘‘ کے عنوان سے بعض محققین کے اس دہرے معیار کا تذکرہ کیاگیاہے جس کی وجہ سے معاصر شواہد اور اساسی مآخذ کی روشنی میں جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں علامہ کی شرکت کا ثبوت پائے جانے کے باوجود ان کی شرکت مشکوک ہوتی نظر آتی ہے اور معاصر شواہد اور اولین مآخذ کی روسے شاہ اسماعیل اور سید احمد رائے بریلوی کے انگریز مخالف نہ ہونے اور انگریزی سرکار کے خلاف ان کے کسی جہادکا ثبوت نہ ہونے کے باوجود وہ سب سے بڑے انگریز مخالف اور ان کے خلاف سب سے بڑے جہادی کے روپ میں سامنے آتے ہیں- پھر معاصر مآخذ سے انقلاب۱۸۵۷ء میں علامہ خیرآبادی کی شرکت کاثبو ت پیش کیاگیاہے اور اس کے برخلاف سیداحمدرائے بریلوی اورشاہ اسماعیل دہلوی کے تعلق سے معاصر مآخذ سے ہی اس بات کا ثبوت پیش کیاگیاہے کہ یہ دونوں حضرات انگریزوں کے مخالف نہیںبلکہ انگریزوںکے وفادارتھے-
اس کے بعد ’’ علامہ فضل حق خیرآبادی اور معرکۂ ستاون کافتوی جہاد‘‘ کے عنوان سے علامہ کی اس جنگ میں شرکت کی جہتوں پر گفتگو کی گئی اور پھران وجوہ کا جائزہ لیاگیاہے جن کی بناپر محققین نے اس جنگ میں علامہ کی شرکت سے انکارکیاہے -مصنف کتاب نے بارہ جہتوں سے علامہ کی اس جنگ میں شرکت کو ثابت کیاہے-محققین کے انکار کی وجوہ کا خلاصہ کرتے ہوئے مؤلف لکھتے ہیں:’’علامہ خیرآبادی کی معرکہ ستاون میں شرکت پر محققین کے انکارکی وجوہات کو اختصار ا یوں بیان کیاجاسکتاہے : (۱) علامہ کی وفات کے تقریبا آٹھ دہائیوں تک ان کی مبسوط سوانح کا منظر عام پرنہ آنا، (۲) ’’باغی ہندوستان‘‘ میں بعض نامعتبر روایات کا شامل ہونا (۳) آزادیٔ ہند کے بعد علامہ کے تعلق سے مزید معلومات کی حصولیابی کے لیے محققین کا قومی اور ریاستی محافظ خانوں کی طرف مراجعت نہ کرنا (۴) معاصر شواہد سے صرف نظرکرتے ہوئے سطحی معلومات کی بنیادپر عجلت میں منفی موقف اختیارکرنا- ‘‘(ص:۴۸)
اس کے بعد مؤلف نے مولانا عرشی کے مقدمے کاتذکرہ کیاہے اوران کے اٹھائے گئے سوالات کامعتبر مآخذ کی روشنی میں جواب دیاہے- اس کے بعد انہوںنے ’’ایک اہم دستاویز کی بازیافت‘‘ کے عنوان سے نیشنل آرکائیوز آف انڈیاسے حاصل شدہ میوٹنی پیپرز سے متعلق ایک دستاویزکا ذکرکیاہے- اس کی عبارت نقل کرکے ا س سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی ہے- اس کے بعد مالک رام کے مقدمے کا تذکرہ کیاگیاہے اور اس سے اقتباس نقل کرکے اس پر جرح کیاگیااوراس مقدمے کے نتائج کی تردید کی گئی ہے- اس کے بعد مالک رام کے اس تبصرے پر کہ’’ اگر علامہ نے مسرت اورخندہ پیشانی کے ساتھ عدالت کا فیصلہ سناہوتا توپھر وہ باربار حکومت سے یہ درخواست کیوںکرتے اور یہ کیوں لکھتے کہ وہ بے گناہ اور مظلوم ہیں‘‘ اس کا الزامی جواب دیاگیاہے- مؤلف لکھتے ہیں: ’’اصل میں معرکہ ستاون کی ناکامی کے بعد انگریزوںکے مظالم کا جو دور شروع ہوا اس نے بڑے بڑوں کے حوصلے پست کردیے- ایسے پرآشوب حالات میں معرکۂ ستاون کی کئی قدآور شخصیتوں نے انگریزی قہرسے محفوظ رہنے کے لیے خلاف واقعہ اپنی بے گناہی اور مظلومیت کا بیان دیا، ان میں سب سے بڑی مثال بادشاہ ہند بہادر شاہ ظفر کی ہے-‘‘(ص:۶۰)
آگے چل کر بہادر شاہ ظفر نے اپنی مظلومیت کی داستان جو عدالت کو سنائی اس کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد نتیجہ نکالتے ہوئے مؤلف لکھتے ہیں:
’’ مقدمے کے دوران بادشاہ کے ان بیانا ت سے مالک رام جیسے نامور محققین کو علامہ خیرآبادی کی طرح بادشاہ کے لیے بھی یہی فیصلہ دیناچاہیے کہ ’’ جب ہنگامہ شروع ہوا تو بادشاہ عملا اس سے الگ تھلگ رہے ، نہ علمی پہلو سے اس میں شریک ہوئے نہ عملی لحاظ سے -‘‘ (ص:۶۱)
’’علامہ فضل حق خیرآبادی اور سید فضل حق رامپوری‘‘ کے عنوان سے ہم نامی سے پیدا شدہ اشکالات کا جائزہ لیاگیاہے جس کی وجہ سے بعض ناقدین نے یہ کہا کہ علامہ پر اس جنگ میں جن باغیانہ سرگرمیوں کا مقدمہ چلاتھا دراصل وہ سرگرمیاں ان کی نہیں تھیں بلکہ مولوی سید فضل حق رام پور ی کی تھیں- اس پوری بحث کوبڑے سلیقے سے مؤلف نے چھیڑ کر بحث کے ایک ایک پہلوپر گفتگو کی ہے اور پھر اس پر اپنے چند معروضات پیش کیے ہیں اور ناقدین سے چند سوالات کیے ہیںاور پھر انہوںنے معروضات کی روشنی میں یہ ثابت کیاہے کہ مولوی سید فضل حق رام پوری بھی اگرچہ انقلاب ستاون میں عملی طورپر شریک تھے لیکن علامہ اور ان کے اوپر عائد کیے گئے الزامات اور مقدمات الگ تھے، اس لیے علامہ کی انقلابی سرگرمیوںکو سید فضل حق رام پوری کی سرگرمیاں قرار دے کر ان کو انقلاب ستاون سے الگ نہیں کیاجاسکتا-
علامہ فضل حق خیرآبادی کی انگریزی ملازمت کو بنیاد بناکر بعض ناقدین نے علامہ کو انگریزوںکا وفادار قراردیاہے اور اس طرح انقلاب ستاون میں ان کی شرکت سے انکار کیاہے، مؤلف نے اس عنوان کے تحت بھی تحقیقی اورتجزیاتی گفتگوکی ہے-دوران گفتگوانہوںنے ہندوستان کا سیاسی اور معاشرتی پس منظر بیان کیاہے کہ کیسے انگریزوں نے ہندوستان پر اپنے قدم جمائے- پھر سقوط دہلی کے بعد علما کے نقطۂ نظر میں کیسے تبدیلی آئی اور کس طرح دومایہ ناز علمانے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتوی دیا اس کاتذکرہ کیاگیاہے، لیکن گزرتے زمانے کے ساتھ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا نقطہ نظر بدلااور انہوںنے بھی مشروط طورپر انگریزی ملازمت کی اجازت د ے دی- اور اسی نقطۂ نظر پر علما کی بڑی تعداد نے اتفاق کرلیا- اس کے بعد انگریزی ملازمت میں شامل ہونے والے ۴۵؍علماکی فہرست دی ہے جن میں اکثر علماکا تعلق شاہ اسماعیل دہلوی اور ان کے نظریات کے ہم نواؤں سے ہے -اس سے یہ ثابت کیاگیاہے کہ انگریزی ملازمت ان علماکی معاشی مجبوری تھی اس سے ان کے انگریز مخالف ہونے اور نہ ہونے کاکوئی ثبوت نہیں ملتا- انگریزی ملازمت ایک الگ چیزہے ، اور انگریز نوازی ایک جداگانہ شی ہے- بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوںنے انگریزی ملازمت نہیں کی اس کے باوجود وہ ہمیشہ انگریزوںکے وفادار رہے اوربہت سے ایسے بھی ہیں جنہوںنے انگریزی ملازمت کی لیکن اس کے باوجود ہمیشہ انگریز مخالف رہے- پہلے گروپ میں مولوی نذیر حسین دہلوی جیسے لوگ شامل ہیں جب کہ دوسرے گروپ میں علامہ فضل حق خیرآبادی جیسے دوسرے علماشامل ہیں- اس کے بعد علامہ کی انگریزوںسے نفرت پہ متعدد شواہد پیش کیے گئے ہیں -
 اس کے بعد ’’ایک نایاب قصیدے کی بازیافت ‘‘کے عنوان سے علامہ کے قصیدۂ رائیہ کا خلاصہ پیش کیاگیاہے- اس کے بعد قصیدۂ نونیہ کا جائزہ پیش کیاگیاہے- ان دونوں قصیدوںکے پس منظر اور ان کے علمی پہلوپرگفتگو کرنے کے بعد’’ قصیدہ رائیہ اور نونیہ چند نئے حقائق‘‘ کے عنوان سے قارئین کو چند اہم اورنئی معلومات فراہم کی گئی ہیں -مثلایہ کہ علامہ کو گرفتار کرنے کے لیے انگریزی سرکار کی طرف سے انعام بھی رکھا گیاتھا اور یہ بتایاگیاہے کہ علامہ کے ان دونوں قصائد میں مجاہدین کی تعریف اور انگریزوںکی مذمت سے پتاچلتاہے کہ وہ انگریزوں کے دوست نہیں بلکہ ان کے مخالف تھے- بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوںنے کبھی بھی انگریزوںکی موافقت نہیںکی، کیوںکہ قصیدہ رائیہ علامہ کے ابتدائی عہد کے قصائد میںہے، جب کہ قصیدہ نونیہ علامہ کے آخری دورکاہے- ان دونوں قصائد میں مضامین کی یکسانیت یہ بتاتی ہے کہ علامہ اپنی زندگی کے کسی بھی عہد میں انگریزوں کے بہی خواہ نہیں رہے- اس کے بعد ’’مرکز علم وفن خیرآباد کی سیر‘‘ کے عنوان سے گفتگوکرتے ہوئے مؤلف نے کتب خانہ قادریہ میں خانوادہ خیرآباد کے علمی نوادر کا تذکرہ کیاہے، نوادرات کا یہ تعارف لفظی اور معنوی لحاظ سے مولانا اسید الحق قادری بدایونی کی اس تحریر سے ملتاجلتاہے جوانہوںنے اپنی کتاب ’’خیرآبادیات‘‘ میں لکھی ہے- اور اخیر میںعلامہ کی اس حویلی کا تذکرہ کیاہے جو کبھی رشک سمر قند وبخارا ہوا کرتاتھاجہاں پہلے طالبان علوم دوردراز سے شد رحال کرکے آیاکرتے تھے- کتاب کے اخیرمیں تین ضمیمے ہیں- پہلے ضمیمے میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک فارسی تحریر ہے جو شاہ غلام علی مجددی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک خط کے جواب میںہے جس میں انہوںنے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے انگریزوں کی ملازمت سے متعلق اپنے کچھ شبہات کا اظہار کیاتھا، فارسی متن کا ترجمہ بھی ذکر کردیاگیاہے - دوسرے ضمیمے میں قصیدہ رائیہ کا متن اعراب کے ساتھ ذکرکیاگیاہے -چوںکہ ابھی ڈاکٹرسلمہ سیہول کا مرتب کردہ دیوان فضل حق منظر عام پر نہیں آیاہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس قصیدے کا متن اور اس کا خلاصہ پہلی بار منظر عام پر آرہاہے- تیسرے ضمیمے میں قصیدہ نونیہ کامتن اور اس کا ترجمہ شائع کیاگیاہے- اس کا متن اگرچہ ڈاکٹر سلمہ سیہول کی کتاب ’’علامہ فضل حق خیرآبادی ‘‘ میں شائع ہوچکاہے لیکن اس کا ترجمہ پہلی بار منظر عام پر آرہاہے- یہ قصیدہ ۲۳۵؍اشعار پر مشتمل ہے- سب سے آخرمیں ان کتب ومقالات اور رسائل ودستاویزات کی فہرست دی گئی ہے جن سے مؤلف نے براہ راست استفادہ کیاہے- ان کی تعداد ۵۰؍ہے- کوئی بھی محقق طبیعت انسان کتابیات کو ہی دیکھ کر اندازہ کرسکتاہے کہ مؤلف نے اس کتاب کی ترتیب وتحقیق میںکتنی محنت کی ہے، پوری کتاب عناصر تحقیق سے پر اپنے اندر معروضیت لیے ہوئے ہے- اخذ نتائج میں منطقی اصول تحقیق کو مدنظر رکھاگیاہے- قاری مطالعہ کے وقت ایسا محسوس کرتاہے کہ کسی دانش گاہ کا کوئی ماہر استاذ کسی خاص موضوع پر لیکچر دے رہاہے ،جس میں وہ اپنے سامعین کا ذہنی تسلسل توڑے بغیر انہیں ایک منطقی نتیجے تک لے جانے کی کوشش کررہاہے- بحث میںاصالت، تحلیل میں سنجیدگی اور ہمہ گیریت ہے ، قاری کتاب کے مطالعے کے بعد فطری طورپر اس نتیجے تک پہنچتاہے جہاں مؤلف پہنچانا چاہتے ہیں- زبان وبیان میں انتہائی حلاوت وشائستگی اور طراوت ہے- کہیں کہیں طنز کی ملاحت ونمکینی بھی ہے- اس موضوع پر اتنی سنجیدہ کاوش کے لیے مؤلف مولاناخوشتر نورانی مبارکبادکے مستحق ہیں- چند معمولی غلطیوں کے استثناکے ساتھ کتاب میں دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ پروف کی غلطیوں سے مکمل طورسے پاک ہے - البتہ صفحہ ۴۳ پر لکھا ہے : ’’جنرل بخت کے مشوروں سے علامہ بعد از جمعہ جامع مسجد میں علما کے سامنے تقریر کی‘‘ ، یہاں علامہ کے بعد ’’نے‘‘ چھوـٹ گیاہے- صفحہ ۸۱پر لکھاہے ’’کیاصرف علامہ دامن فضل ہی ملازمت کی اس تہمت سے داغ دارہے؟‘‘ یہاں پر ’’علامہ ‘‘ کے بعد ’’کا ‘ ‘ چھوٹ گیاہے- صفحہ ۱۰۳؍پر تیسری سطرمیں انار اللہ کی ’’ر‘‘ چھپنے سے رہ گئی ہے ، اسی صفحہ پر اگلے پیرامیں اقتدار کے بجائے اقتداچھپ گیاہے، صفحہ ۱۱۸؍ پر قصیدہ رائیہ کے شعرنمبر ۱۳۵کادوسرامصرعہ ہے : فلایری فی قراھم غیر تمصیر ، میرے خیال سے یہ ’’قُراھم‘‘ کی بجائے ’’قِراھُم‘‘ ہوناچاہیے ، ترجمہ بھی اسی کی تائید کررہاہے - صفحہ ۱۴۱پر نچلے اقتباس سے دوسری سطر میں لکھا ہے ’’ اسے دلیل اورحجت کے طورپر پیش کرنا پختہ ذہن وفکر کی علامت ہے‘‘ ، میرے خیال میں یہ ’’ناپختہ ذہن‘‘ ہوناچاہیے تھا- یہ کتاب بہر حال داخلی اور خارجی خوبیوں سے مرصع ہے اور تحقیقی مزاج رکھنے والوںکے لیے خصوصیت کے ساتھ لائق مطالعہ ہے-میں سمجھتاہوںکہ علامہ فضل حق خیرآبادی کی انقلابی سرگرمیوں اور معرکۂ ستاون میں ان کی شرکت کے موضوع پر یہ کتاب سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے-

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔