Wednesday 30 August 2017

مولانا وحیدالدین خان اور دعواے مسیحیت ومہدویت ----- مصنف: غلام نبی کشافی

0 comments
مولانا وحیدالدین خان اور دعواے مسیحیت ومہدویت
    مصنف: غلام نبی کشافی 
    صفحات:۶۴
    سال اشاعت:۲۰۱۱ء
    ناشر: نعمانی اکیڈمی 114 / 31نظیر آباد، لکھنؤ
    تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی 
اسلام ہرشے میں اعتدال کا نام ہے- اسی لیے اسے دین وسَط اور دین فطرت کہا گیا ہے- گمراہی اس اعتدال سے انحراف کا نام ہے- خواہ وہ انحراف تقصیر اور کمی کے ذریعے ہو خواہ مبالغے اور اضافے کے ذریعے- اسی لیے سورۃ الفاتحہ میں صراط مستقیم کے لیے دعا کی گئی ہے اور مغضوبین اور ضالین کی راہ سے پناہ مانگی گئی ہے -
بیسویں صدی میں برپا ہو نے والی مولانا ابو الاعلی مودودی کی علمی و فکری تحریک جماعت اسلامی ، اسلامی نظام / حکومت الٰہیہ کے قیام کے  ایجنڈا کے تحت قائم ہوئی- اس کی فکری غذا کے لیے مودودی صاحب اور ان کے احباب نے لٹریچر کا انبار لگا دیا - اس لٹریچر میںیہ اصول اپنایا گیا تھا کہ جوبات کہی جائے ٹھونک بجا کے غیر جانبداریت کے ساتھ کہی جائے - صرف تقلیدی فکر کے تحت نہ کہی جائے - یہ بات اچھی تھی اگر اعتدال پر قائم رہتی لیکن اس کے بر عکس ہر بات کو صحیح فریم میں دیکھنے سے زیادہ جماعتی ارباب قلم کے اندر ایک دوسرا شوق پروان چڑھنے لگا اور وہ تھا ائمہ اعلام سے لے کر اصحاب رسول تک کے قد ناپنے کا شوق - بجائے اس کے کہ اسلام کو اصحاب، تابعین اور تبع تابعین کے توارث سے سمجھنے کی کوشش ہوتی اپنی مخصوص فکر کے تحت اصحاب، تابعین اور تبع تابعین کا احتساب شروع ہوگیا - اس طریق فکر نے درجنوں انحرافات جنم دیے جن میں ایک نمایاں انحراف یہ تھا کہ جماعت اسلامی کا پورا دماغ حکومت الٰہیہ کی تشکیل پر صرف ہونے لگا اور اس کے لیے حرب و ضرب کے مسائل پر غور کیا جانے لگا اور اسلام کے دوسرے احکام خصوصا اسلام کے تعبدی پہلو (خالق اور بندے کے درمیان رشتہ عبودیت ) کو ثانوی درجہ دے دیا گیا-
مولانا وحید الدین خان صاحب جو جماعت اسلامی کے ابتدائی دور میں تقریباً پندرہ سالوں تک اس کے سرگرم رکن رہے، انہیں اس بات کا احساس ہوا اور انہوں نے جماعت اسلامی کے اس انحراف فکری کے حوالے سے اس کے ارباب حل و عقد سے مراجعت و مراسلت کی اور جب کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا تو آخر میں انہوں نے اپنا علمی اختلاف ’’تعبیر کی غلطی‘‘ کی شکل میں پیش کردیا - پھر اس کے بعد غیر شعوری طور پر جماعت اسلامی کاتعاقب ، اعتدال کی دعوت اور مثبت طریق فکر و عمل کی تحریک مولانا کی فکر و قلم پر گویا سوار ہوگئی - اگر یہ بات یہیں تک محدود رہتی تو کیا اچھا ہوتا، مولانا کو جو قدرت کی طرف سے زرخیز دماغ اور غیر معمولی قوت تجزیہ عطاہوئی تھی اس سے وہ ملت اسلامیہ کی فکری تشکیل جدید کا بڑا کام کر سکتے تھے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا - مثبت مثبت کی رٹ لگا تے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ نفسیاتی طور پر منفی ذہنیت مولانا پر مسلط ہو گئی- اب انہیں اپنے علاوہ پوری تاریخ اسلام میں کہیں بھی کوئی قابل قدر شخصیت یا تحریک نظر نہیں آتی- مثبت مثبت کی رٹ کے ساتھ تاریخ اسلام ،شخصیات اسلام اور ماضی و حال کے مسلمانوں میں کیڑے نکالنا مولانا کا محبوب مشغلہ بن گیا- اسی کا نتیجہ تھا کہ شروع شروع مولانا کی مثبت فکر کی دعوت نے بہتوں کو متاثر کیا اور پھر رفتہ رفتہ ہر شخص ان سے بیزار ہو تا چلا گیا - مولانا کی شناخت مصلح امت کی بجائے مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کے وکیل کی بن گئی- ۲۰۰۷ء کے الرسالہ میں انہوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑا اور موجودہ دنیا کے لیے محمدی ماڈل سے زیادہ مسیحی ماڈل کو قابل انطباق بتایا - یہ بات بھی ایک حد تک جماعت اسلامی سے فکری اختلاف کی آخری متشددانہ شکل تھی - کیوں کہ جماعت اسلامی کے لٹریچر میں جہاد پر زور دیا گیا تھا خان صاحب کو جہاد کی تاویل و تشریح جدید کر تے کرتے جب جی نہیں بھرا تو آخر کار عصر حاضر کے لیے محمدی طریق دعوت کو ہی ناقص اور ناقابل انطباق ٹھہرادیا جس میں اور دیگر تعلیمات کے ساتھ واضح طور پر جہاد کے احکام بھی شامل ہیں-
مولانا کایہ فکری سفر ۲۰۱۰ء میں اپنے آخری پڑاؤ پر پہنچ گیا- مولانا کا الرسالہ مئی ۲۰۱۰ئــ’’قیامت کا الارم‘‘ بن کر سامنے آیاجس میں آثار قیامت پر گفتگو کر تے ہوئے اشاروں کی زبان میں خود کو مسیح و مہدی بتاتے ہوئے مولانا نے جو کچھ کہا وہ کہا ہی ساتھ ہی اس کے اگلے شمارے یعنی جون ۲۰۱۰ء میں یہ بھی فرمادیا کہ:’’ حدیث میں بیان کردہ علامتیں بتاتی ہیں کہ قیامت اب بہت قریب ہے- اس اعتبار سے غالبا ً یہ کہنا درست ہوگا کہ دجال اور مہدی اور مسیح کا ظہور ہو چکا ہے‘‘-
 (الرسالہ جون ۲۰۱۰ء ص: ۵)
جس مسیح اور مہدی کا ظہور ہو چکا ہے اس کے اوصاف یہ ہیں:
ــ’’ایسی حالت میں مہدی یا مسیح کا پہلا کام یہ ہو گا کہ اسلام کی ایک غیر عسکری آئیڈیالوجی دریافت کریںگے‘‘ (الرسالہ اگست۲۰۱۰ء)
’’دجال کے مقابلے میں جو واقعہ پیش آئے گا وہ یہ ہے کی مسیح اس کے دجل کا علمی تجزیہ کر کے اس کو ایکسپوز(Expose)کر دیں گے -‘‘
( الرسالہ مئی ۲۰۱۰ ء ص: ۵۳)
’’مہدی اپنے احوال کے بر عکس استثنائی طور پر ایک ہدایت یاب انسان ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ مہدی نہ خود اپنے مہدی ہونے کا دعوی کرے گا اور نہ آسمان سے یہ آواز آئے گی کہ فلاں شخص مہدی ہے ، اس کو مانو اور اس کی اتباع کرو -‘‘(الرسالہ مئی ۲۰۱۰ء  صـ : ۳۶)
’’مہدی کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ یواطی اسمہ اسمی  یعنی اس کا نام میرے نام کے موافق ہو گا - یہاں نام سے مراد صفت ہے-‘‘( صـ : ۳۸)
’’مہدی کا کام سیاسی انقلاب کے ہم معنی نہیں ہوگا بلکہ وہ افراد کے اندر ذہنی سطح پر انقلاب پیدا کرنے کے ہم معنی ہو گا‘‘- (صـ : ۳۹)
ـــــــــ’’حدیثوں کے مطالعے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دجال یا دجالیت در اصل سائنسی دور کا فتنہ ہے-سائنسی دور میں پہلی بار یہ ہوگا کہ کچھ لوگ دلائل کے نام پہ حق کا ابطال کریں گے ، وہ یہ تاثردیں گے کہ حق علمی ترقی کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا پھر خدا کی توفیق سے ایک شخص اٹھے گا جو خود سائنسی دلائل کے ذریعے اس دجالی فتنے کا خاتمہ کر دے گا‘‘- (ص: ۱۸)
’’مہدی اور مسیح موعود دونوں ایک ہی شخصیت کے علامتی طور پر الگ الگ نام ہیں-‘‘ (ص:۴۱)
کاغذ کے ان ٹکڑوں کو کوئی بھی جوڑ کر دیکھ لے مولانا وحید الدین خان صاحب کی تصویر بالکل واضح طور پر دکھائی دے گی- مولانا نے واضح لفظوں میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ میں مہدی اور مسیح ہوں لیکن اس  کے ساتھ واضح لفظوں میں یہ ضرور لکھ دیا کہ مسیح و مہدی خود دعوی نہیں کریں گے باقی جو کچھ کہا اس میں اشاروں کی زبان میں سب کچھ کہہ دیا  اور وہ بات ہو گئی جس کا شاعر کو خدشہ تھا:

بے زبانی زباں نہ ہو جائے
راز الفت عیاں نہ ہوجائے
زیر تبصرہ کتابــــ ’’مولانا وحید الدین خان اور دعواے مسیحیت و مہدویت ‘‘ جناب غلام نبی کشافی نے مولانا کے اسی’’ قیامت کا الارم‘‘ کے جواب میں لکھی ہے - کشافی صاحب نے بہت محنت، جاں فشانی ، توازن، حقیقت پسندی اور غیر جانب دارانہ تجزیے کے ساتھ لکھا ہے - یہ کتاب اور اس کے ساتھ مدیر اعلی جام نور کے نام کشافی صاحب کا خط جب موصول ہوا تو دیر تک ہم سوچتے رہے کہ کیا یہ اسی قلم کی سیاہی ہے جو پچھلے دس سالوں سے مولانا کے دفاع میںشعلے اگل رہا تھا اور جسے عرب و عجم میں مولانا کا ثانی کوئی اور نظر نہیں آتا تھا - اور تو اور وحید الدین خان صاحب کے بارے میں گزشتہ سالوں میں جب کبھی جام نور نے بھی کچھ لکھا کشافی صاحب نے آستین چڑھا لی اور دفاعی مورچہ سنبھال لیا - اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ خان صاحب کا اتنا بڑا دفاعی ان کا مخالف کیوں کر ہوسکتا ہے-
کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ کشافی صاحب طبعا حقیقت پسند واقع ہو ئے ہیں - وہ خان صاحب کی موافقت اور دفاع میں بھی اپنے طور پر مخلص تھے اور مخالفت میں بھی مخلص ہیں- لکھتے ہیں:
’’ ان کی ہر تحریر کے احسن پہلو کی تلاش میں اتباع کا جذبہ لیے ان کے الرسالہ مشن کے ساتھ جڑ گیا ،اور یہاں سرینگر میںسیکڑوں افراد کو الرسالہ کا مستقل قاری اور مولانا کے فکرو نظر کا حامی بنا دیا -اس سلسلے میں میںپچھلی دو دہائیوں سے کام کرتا آیا ہوں ،اور اس طویل عرصہ کے دوران میں نے مولانا سے بہت سے معاملات ومسائل میں اختلاف بھی کیا اور درجنوں لمبی تحریریں بھی لکھی ہیں اور اپنے اختلافات کو قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں ان کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی - مگر افسوس کہ عام طور پر میں نے ان کو جواب دینے کے معاملہ میں قاصر،ناکام اور راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے پایا -اور میں اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے دعوت الی اللہ کے جذبہ کے تئیں ان سے اپنے اختلافات کو نظر نداز کرتا رہا-اور ان کا برابر ساتھ دیتا رہا -لیکن جب سے پچھلے چند برسوں کے دوران ان کی نئی کاوشیں اور نئے نظریات ’’مسیحی ماڈل‘‘’’اسوئہ حسنہ‘‘کی صورت میں سامنے آنے لگے،تو شروع شروع میں میں نے بھی قلم اٹھا کر ان کے نِت نئے نظریات کو حق ثابت کرنے کے لیے انہیں کی روش پر چل کر نہ صرف آمناو صدقنا کہابلکہ تاویل وتعبیر کا سہارا اور نئے دلائل کو تلاش کر کے ان کے حق میں چند تا ئیدی تحریریں بھی لکھ ڈالیں -اور میرے اس کام کو بڑی حوصلہ افزائی ملی اور الرسالہ کے خبر نامہ کے تحت میرا بھی ذکر آنے لگا -مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ یا تو میں استعمال ہو رہا تھا ،یا پھر میں غیر محسوس طریقے سے گمراہی کی طرف بڑھنے لگا - لیکن جب پہلی بار محسو س ہونے لگا کہ مولانا اب فائنل طور پر خود ہی مہدی ماڈل اور مسیح ماڈل کے روپ میں جلوہ افروز ہونے کی تیاری کر رہے ہیں ،تو مجھے سخت بے اطمنانی و بے چینی ہونے لگی اور مجھے اب تک کے مولانا کی حمایت وتائید کرنے کے معاملہ میں شرمندگی کا احساس ہونے لگا- اس طرح پھر میں نے مولانا کے تمام نظریات کے حوالے سے نئے سرے سے سوچنا اور غور کرنا شروع کیا تو اس سلسلہ میں الرسالہ مئی ۲۰۱۰ء کا شمارہ مولانا کے مغالطہ انگیز نظریات سے باہر آنے کے لیے بنیاد بنا- ‘‘   
الرسالہ مئی ۲۰۱۰کا مسودہ اشاعت سے قبل مختلف ا ہل نظر کو ارسال کیا گیاتھا جن میں ایک خوش نصیب کشافی صاحب بھی تھے - کشافی صاحب نے مولانا کے معتمد مولانا ذکوان ندوی کو فون کر کے اپنا اختلاف اور احتجاج درج کرایا اور اس کی اشاعت کو روکنے کا مشور ہ دیا لیکن اس کے باوجود جب وہ مسودہ مئی کے شمارے کی شکل میں منظر عام پر آگیا تو کشافی صاحب نے اپنا دینی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے ہوئے اس کا  تنقیدی تجزیہ ’’تاویل سے تلبیس تک‘‘ کے عنوان سے لکھ کر مولانا کے پتے پر روانہ کردیا پھر مزید اضافے کے بعد ’’ دعواے مہدویت اور مولانا وحید الدین خان ‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ الفرقان لکھنؤ کو ارسال کیا جو جنوری اور فروری ۲۰۱۱ء میں قسط وار شائع ہوا پھر مزید اضافے کے بعد نعمانی اکیڈمی لکھنؤ نے اسے کتابی شکل میں شائع کیا جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہے-
زیر تبصر ہ کتا ب۶۴ صفحا ت پر مشتمل ہے جس میں اصل گفتگو ۵۰ صفحات پر پھیلی ہو ئی ہے - کشافی صاحب نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ خاں صاحب کے زعم مہدیت ومسیحیت کا تجزیہ کیا ہے -الفاظ و تعبیرات اور طرز تحریر ایک حد تک خود مولانا سے ملتے جلتے ہیں -کتاب کا انتساب بھی مولانا کے نام کیا گیا ہے اس اعتراف کے ساتھ کہ’’ میں نے معاصر علما میں سے سب سے زیادہ استفادہ انہی کی تحریروں سے کیا ‘‘ کشافی صاحب نے دعواے مہدیت کا تجزیہ نسبتاً زیادہ مفصل انداز میں کیا ہے ،دعواے مہدیت کے ذیل میں پہلا عنوان’’ غلط فہمی یا کچھ اور ،، کے تحت لکھا ہے کہ ’’روایات میں جس مہدی اور مسیح کی آمد کا ذکر آیا ہے وہ دونوں ایک ہیں اور وہ کوئی اور نہیں ،وہ خود ہیں، مولانا اپنے بارے میں اس قدرشدید غلط فہمی کا شکار ہو جائیں گے مجھے آج تک اس کی کبھی امید تھی اور نہ میرے حاشیہ خیال میں اس طرح کا کوئی تصور تھا-‘‘(ص ۱۴)
اس کتاب میں مثالوں کے ذریعے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ مولانا زیر بحث مسئلے میں دور از کار تاویل کرتے ہوئے تلبیس کی حدیں کراس کر دیتے ہیں اور نقل روایت میں عموماً حدیث کا وہ ٹکڑا نقل کر تے ہیں جس سے ان کا مقصد پورا ہوتا ہے اور دوسرے حصے کو جس سے ان کی خیالی عمارت زمیں بوس ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اس کو کلیۃً نظر انداز کر دیتے ہیں مثال کے طور پر خاں صاحب نے ابن ماجہ کی ایک حدیث نقل کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ’’ دجّال جب مسیح کو دیکھے گا تو وہ اس طرح پگھلنے لگے گا جیسے کہ نمک پانی میں گھلتا ہے اور وہ وہاں سے بھاگنا شروع کردے گا، مسیح کہیں گے کہ میرے پاس تیرے لیے ایک ایسی ضرب ہے جس سے بچنا ہرگز تیرے لیے ممکن نہیں ‘‘- 
خاں صاحب نے اس حدیث کی تاویل کرتے ہوئے کہا کہ یہ حدیث تمثیل کی زبان میں ہے اور دجال کو قتل کرنے کا مطلب ــ’’اس کے دجل کا علمی تجزیہ کرکے اس کو ایکسپوز ‘‘ کرنا ہے - قطع نظراس سے کہ یہ تاویل بہت بعید ہے اور ایسی تاویل شریعت اسلامی کو بازیچئہ اطفال بنادینے کے لیے کافی ہے مگر اس سے بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حدیث کا وہ ٹکڑ اجو ہرگز اس تاویل کا متحمل نہیں خاں صاحب نے اسے حذف کردیا کیوںکہ اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ’’ دجال کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام لُد شہر کے مشرقی دروازے پر قتل کریں گے ‘‘ خاںصاحب نے اس کو حذف کردیا کیوں کہ شاید ان کے لیے اس واقعے کی تاویل ’’علمی تجزیہ ‘‘ سے ممکن نہیں تھی -
اسی طرح ابوداؤد کی ایک حدیث جس میں کہا گیا ہے کہ نہر کے اس پار ایک شخص نکلے گا جس کا نام حارث بن حراث ہوگا ، اس کے آگے ایک شخص ہو گاجس کانام منصور ہوگا، وہ آل محمد کو غالب کرے گا جیسے کہ قریش نے رسول اللہ کو غالب کیاتھا اس کی مدد کرنا یافرمایا اس کا حکم ماننا سب پر واجب ہے- خاں صاحب نے اس حدیث کا صرف آخری فقرہ نقل کیا ہے اور اسے مہدی پر چسپاں کردیا ہے -
اسی طرح ایک حدیث میں کہا گیا ہے کہ مہدی رسول اﷲ ﷺ کا ہم نام ہوگا- خاں صاحب نے اس کی تاویل کر کے فرمایا کہ نام سے مراد نام نہیں صفت ہے اور اس معنی کی تائیدمیں ایک دوسری حدیث کو پیش کیا جس میں کہا گیا ہے کہ مہدی رسول اﷲکے اخلاق میں مشابہ ہوںگے اور صورت میں نہیں- خاںصاحب نے مذکورہ دونوں حدیثوں کو ناقص نقل کر کے اپنا مطلب کھینچ نکالاہے، کیوں کہ پہلی حدیث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ آل رسول ہوگا - خاں صاحب چوں کہ آل رسول نہیں ہیں اب یہ ٹکڑا ان کے مقصد میں آڑے آرہاتھا اس لیے انہوں نے اس کو نقل نہیں کیا - اسی طرح دوسری حدیث میں جس سے انہوں نے ہم نامی کی تاویل فرمائی یہ بات بھی مذکور ہے کہ وہ شخص حضرت حسن کی صلب سے ہوگا - اس حصے کو بھی خاں صاحب نے حذف کردیا کیوں کہ اسے نقل کرنا ان کے مشن کے خلاف تھا -
اسی طرح آثار قیامت کے حوالے سے قرآن میں دابۃالارض کا ذکر ہے کہ ایک جانور آخری زمانے میں ظاہر ہوگا اور وہ انسانوں سے باتیں کرکے حق کا اعلان کرے گا- خاں صاحب نے دابۃ الأرض کی تاویل کرتے ہوئے مئی ۲۰۱۰ء کے شمارے میں اس سے مراد دور آخر کا داعی لیا ہے جو دلیل کی زبان میں لوگوں سے ہم کلام ہوگا- اس تاویل بعیدکے ضعف شدید سے قطع نظر یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ الرسالہ جون ۲۰۰۷اء کے شمارے میں دابۃالأرض سے مراد موجودہ زمانے کا ملٹی میڈیا قراردیا ہے اور اس سے پہلے اپنی تفسیر تذکیر القرآن میں دابۃ الأرض سے مراد جانور ہی لیا ہے او ر اس پر یہ بھی نوٹ لگایا ہے کہ  ’’انسانی داعیوں کی زبان سے جو بات لوگوں نے نہیں مانی ، اس کا اعلان ایک غیر انسانی مخلوق کے ذریعے کرایا جائے گا-‘‘ شاید انہی حالات کے لیے شاعر نے کہا ہے :

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیاکچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
جناب غلام نبی کشافی ملت کاترجمان ماہنامہ جام نور کی طرف سے بلکہ پوری ملت اسلامیہ کی طرف سے قابل مبارک باد ہیںکہ انہوں نے ایسے شخص کے خلاف حق کی حمایت میں قلم اٹھایا ہے جس سے انہیں ہمدردی بھی ہے اور محبت بھی-صرف دین کے جذبے نے اظہار حق کی جرأت بخشی ہے وہ عند اﷲاور عندالناس جزا واحسان کے مستحق ہیں - کتاب کی چند باتیں نقل ہوئیں ، پوری کتاب قابل مطالعہ و استفادہ ہے ، مہدیت اور مسیحیت کے تعلق سے خاں صاحب کے افکار کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضرور کیا جاناچاہیے-
مولانا وحیدالدین خاں صاحب کی بعض کتابوں کا مطالعہ راقم تبصرہ نگار نے بھی کیا ہے اور عام اہل علم کی طرح مختلف مسائل میں ان سے اختلاف رائے رکھتے ہوئے بعض مسائل میں ان کا مداح اور قدر دان بھی ہے- مسلم گھروں میں ایسی فکر رسا اور قلم سیال کے مالک کم پیدا ہوتے ہیں - ایسے لوگوں کا حق ہے کہ وہ امت کی علمی و فکری قیادت کریں اگر وہ دین کی راہ مستقیم پر قائم ہوں - لیکن اس کے بر عکس ایسے افرادجو امت کی قیادت و رہنمائی کی صلاحیت رکھتے ہیں اگر وہ اس صلاحیت کو امت کو توڑنے اور عقائد و نظریات میں فساد برپا کرنے کے لیے صرف کریں تویہ کتنے افسوس کی بات ہوگی-
 میں اپنی علمی اور فکری کوتاہی کے تمام تراعترافات کے ساتھ الدین النصح لکل مسلم کے جذبے کے تحت مولانا وحید الدین خاں صاحب سے گزارش کروں گا کہ وہ بہت سے مسائل جن میں انہیں تفرد حاصل ہے، ہمارے ناقص خیال میں دو مسئلے بہت ہی نازک اور بنیادی ہیں، جن کا تعلق ایک طرف دین میں تحریف ، امت میں انتشار اور دنیا میں رسوائی ہے تو دوسری طرف خسران عاقبت سے- پہلا مسئلہ اسوئہ محمدی کو اسوئہ ناقص ثابت کرنے کا ہے اور دوسرا مہدیت و مسیحیت کی تاویل و ادعاکا مسئلہ -جس طریق محمدی کے ’’مکمل ‘‘ ہونے کو خالق کائنات نے اکملت لکم دینکم فرماکر ’’منصوص ‘‘ فرمادیا ، اسے لفظ ’’حسنہ‘‘ کے ذریعے ’’ناقص ‘‘ ثابت کرنا بے ایمانی کی حد تک علمی خیانت ہے - اسی طرح مولانا نے اپنی زندگی میں جو علمی کام کیے ہیں اس کو مزید آگے بڑھانے کی بجائے اپنے مہدی و مسیح ہونے کا خواب دیکھنا دنیا میں اس علمی کام کو بے قدر بنانا ہے اور آخر ت کا معاملہ تو دنیا سے بھی سخت ہوگا - میں کبھی بھی اس خیال کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ مولانا میرے مشورے پر ان دو مسائل پر نظر ثانی فرمائیں گے لیکن میں اﷲ و رسول کا واسطہ دے کر ان سے اس کی گزارش ضرور کرتا ہوں - اگر وہ ایسا کرتے ہیںتو امت ایک بڑے فتنے سے محفوظ رہ جائے گی اور ان کا جو واقعی کام ہے اس کی قدر و قیمت بھی قائم رہے گی -ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب(آمین)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔