Wednesday 30 August 2017

حدیث افتراق امت:تحقیقی مطالعہ کی روشنی میں ---- مصنف : مولانااسیدالحق محمد عاصم قادری

0 comments
حدیث افتراق امت:تحقیقی مطالعہ کی روشنی میں
      مصنف : مولانااسیدالحق محمد عاصم قادری 
      صفحات:۸۴
      سن اشاعت :نومبر ۲۰۰۸ء
      ناشر: تاج الفحول اکیڈمی،بدایوں 
      تقسیم کار:مکتبہ جام نور،دہلی
      تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی 
مولانا اسید الحق محمد عاصم قادری کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ وہ بہت ہی دل چسپ موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں اور اگر موضوع خشک بھی ہو تو وہ اپنے زر نگار قلم ، ادبی و علمی اسلوب اور تخلیقی ذہن سے اس میں دلچسپی پیدا کردیتے ہیں- مولانا جام نور میں جب سے لکھ رہے ہیں ان کو جام نور سے اور جام نور کو ان سے ایک منفرد پہچان ملی ہے- ان کی اب تک کی تمام تحریریں پوری دلچسپی اور توجہ سے پڑھی گئی ہیں- یہ اور بات ہے کہ ہمارے بعض کرم فرما ان کی تحریروں کو دلچسپی سے کم اور توجہ سے زیادہ پڑھتے ہیں-ان کا علمی و تحقیقی مقالہ  ’’حدیث افتراق امت: تحقیقی مطالعہ کی روشنی میں‘‘ جب جام نور ( مئی تا اگست ۲۰۰۵ء) میں قسط وار شائع ہوا تو توجہ اور تشکیک سے پڑھنے والے قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوگیا- شکوک تو اس گنہ گار تبصرہ نگار کو بھی ہوئے، مگر جوں جوں تحریر اپنے اختتام کو پہنچی تقریباً سب کا ازالہ ہوگیا- اسی طرح جام نور کے نقد نگار ابو الفیض معینی صاحب کو بھی اس پر اہل علم کی جانب سے کچھ کھٹے میٹھے رد عمل کی توقع تھی، ان کا اندیشہ غلط بھی نہیں تھا کیوں کہ جام نور کے ہی معروف قلم کار مولانا ملک الظفر سہسرامی بنفس نفیس اپنے معروضات یا معارضات لکھنے والے تھے- انہی کی سرزمین سہسرام کے ایک فاضل جنہوں نے درس نظامیہ کی تکمیل نہیں کی ہے، اور بقول راوی مجہول، آغاز بھی نہیں کیا ہے، بہار شریعت کے حوالے سے ، مولانا اسید الحق کے مقالے کا دندان شکن جواب بھی دیا (اگر واقعی مولانا کے مقالے میں دندان تھے تو)جو ابھی تک تشنۂ طباعت ہے- سنا ہے درس نظامیہ کے ماہرین اس تنقیدی کلامی جوابی تحریر کو ’’شرح عقاید‘‘ کے بعد داخل درس نظامیہ کرنے پر غور کررہے ہیں-
المختصر ! مولانا کی تحریر چھپی ، کسی علمی حلقے سے، زبانی یا ذہنی تشویش کے علاوہ ، کوئی رد عمل نہیں آیا ، وقت گزرتا رہا، مولانا کو اس مقالے کو کتابی شکل میں شائع کرنے کاارادہ ہوا، لیکن اشاعت سے قبل اپنی تحریر کو ہندوستان کے چند مستند علما تک انہوں نے اپنا پورا مقالہ بغرض نظر ثانی و اصلاح بھیجا، جب کہیں سے کوئی اصلاح ، رد عمل، اختلاف یا توثیق نہیں آئی تو بالآخر خود پوری سنجیدگی اور کشادہ قلبی کے ساتھ مقالہ پر نظر ثانی کی اور اس موضوع پر مزید مطالعہ کیا، جتنا مطالعہ کرتے گئے، اپنے اختیار کردہ موقف پر اطمینان میں اضافہ ہوتا گیا، بعض نئے حوالوں اور مباحث کا اضافہ کیا، جن مقامات پر غلط فہمی پیدا ہوسکتی تھی، ان کو اور واضح کیا اور کامل اطمینان کے بعد نومبر ۲۰۰۸ء میں کتاب کو پریس کے حوالے کردیا- وہ بھی اس وسعت ظرفی کے ساتھ کہ ’’ مجھے نہ ہمہ دانی کا زعم ہے اور نہ ہی دعوی عصمت، علوم اسلامیہ کا ایک معمولی طالب علم ہوں، جس سے ہر قسم کے غلطی کاصد فی صد امکان ہے، لہٰذا اگر کوئی سنجیدہ اور علمی تنقید سامنے آتی ہے تو مجھے مقالہ پر نظر ثانی کرنے اور غلطی واضح ہونے کی صورت میں اپنی خطا کے اعتراف اور قبول حق میں کوئی تامل نہیں ہوگا-‘‘(ص:۷ ،حرف آغاز)
مذکورہ کتاب اس وقت میرے تبصرے کی میز پر ہے-میں نے اسے توجہ سے دوبارہ پڑھا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر اس کتاب میں وہ کون سی بات ہے جس کو لے کر ہمارے یہاں تشویش کا ماحول ہے- ہمارے پڑھے لکھے لوگ بھی ’’ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہیں- دل میں یہ خطرہ گزرا کہ حدیث افتراق امت کی تشریح میں مولانا کا اختیار کردہ موقف ضرور کسی نہ کسی جہت سے کمزور ہوگا جبھی تو پہلے اس کے حوالے سے تشویش ہوئی اور اب خاموشی ہے، نہ تائید نہ مخالفت-لیکن پھر یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ مولانا نے تو کوئی نئی بات کہی ہی نہیں ہے، مولانا کے ساتھ تو تمام متقدمین و متاخرین علما ہیں- عبد اللہ ابن مبارک ،ابو الحسن اشعری، ابو المظفرالاسفرائنی، امام بیہقی ، امام غزالی، شیخ عبد الحق محدث دہلوی، مجدد الف ثانی، محقق دوانی، شاہ عبد العزیز دہلوی ، علامہ عبد الحلیم فرنگی محلی،شاہ انوار اللہ فاروقی وغیرہ وہ علما ہیں جن کو مولانا نے اپنی تائید میں کھڑا کردیا ہے- اور تو اور عصر حاضر کے جید عالم دین شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں کچھوچھوی کا موقف بھی وہی ہے جو مولانا نے اختیار کیا ہے-
واضح رہے کہ حدیث افتراق امت کے تعلق سے مولانا کا موقف ان کے الفاظ میں یہ ہے ’’ اس حدیث میں امت سے بعض حضرات نے امت دعوت مرادلیا ہے مگر یہاں امت اجابت زیادہ صحیح ہے- … حدیث کے الفاظ میں ’’کلہا فی النار‘‘ سے’’ خلود فی النار‘‘  نہیں بلکہ صرف ’’ دخول فی النار‘‘ مراد ہے- … فرقہ ناجیہ کے علاوہ باقی فرقے گمراہ اور گمراہ گر ہوں گے، ان کے شر سے عوام کومتنبہ کرنے کے لیے ان کا ردو ابطال کیا جانا ضروری ہے-‘‘
 (ص: ۷۶)
عوام و خواص کی تشویش کے حوالے سے کافی غور و خوض کرنے کے بعد میں اس کی ایک وجہ تلاش کرلینے میں کامیاب ہوگیا،جس کا تعلق اس کتاب سے نہیں ہندوستان کے موجودہ ماحول سے ہے، جس میں ہر داعی صلح کلی، ہر حکیم ودانا منافق، ہر دانشور مشکوک اور ہر فقیہ اسلاف مخالف نظر آتا ہے، جہاں تشدد کا نام تصلب ، جہالت کا نام خوش عقیدگی ،اعتدال کا نام صلح کلی اور حکمت کا نام منافقت پڑگیا ہے ، جس کی وجہ سے انجینئر بلڈنگ کا نقشہ بنانے کی بجائے فقیہ ومحدث کے ایمان کی پیمائش کر رہا ہے، فقیہ رائے دیتے وقت جاہلوں کے جم غفیر سے ڈرتا ہے، پیر اپنا موقف مریدوں کی خواہشات کے مطابق طے کرتا ہے اور ایک سڑک چھاپ مولوی جماعت کے ارباب حل و عقد علما ومشائخ سے ان کی سنیت کا سر  ٹیفکیٹ مانگتا ہے- اسی ماحول نے عوام کو تکفیری مزاج کا خوگر بنا دیا ہے، عوام چاہتے ہیں کہ چند سروں کے سوا پوری دنیا کی تکفیر کردی جائے- خواص اس حقیقت کوسمجھتے ہیں لیکن عوام سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اظہار حق کردیں تو خود ہمارے ایمان کے لالے پڑجائیں-
 مولانا اسید الحق نے چوں کہ اپنی اس تحقیق سے جماعت اہل سنت کا علمی موقف واضح کردیا ہے کہ ۷۲ فرقے امت اجابت سے ہیں، گمراہ ہیں،اپنی گمراہی کی سزا جھیلنے کے بعددامن رحمت پروردگار میں چھپ سکتے ہیں- یہ اور بات ہے کہ ’’ وہ فرقے جو ضروریات دین کا انکارکرکے باجماع امت کافر و مرتد ہوگئے وہ دراصل امت اجابت سے نکل کر اب امت دعوت میں شامل ہوگئے- وہ اپنے کفر کی وجہ سے دائمی عذاب کا مزہ چکھیں گے، ایسے فرقے ملت اسلامیہ سے خارج ہیں، ان کا شمار نہ اسلامی فرقوں میں ہوگا اور نہ وہ ان ۷۲ فرقوں میں گنے جائیں گے-‘‘ (ص:۷۰)
مولانا اسیدالحق نے یہ بات بھی بڑی اچھی کہی ہے کہ ’’ کسی فرقے کے کسی شخص معین کی تکفیر اور اس پورے فرقے کی تکفیر میں زمین آسمان کا فرق ہے، یہاں گفتگو فرقوں کی ہورہی ہے شخصیات کی نہیں اور پھر کسی قول کے کفر ہونے اور اس کے قائل شخص معین کی تکفیر میں بھی فرق ہے-‘‘ (ص:۷۱)
ہم بصد ادب و احترام اپنے بڑوں سے عرض گزار ہیں کہ وہ جماعت سے جہالت کا طلسم توڑنے کی کوشش کریں اور عالموں پر جاہلوں کی حکمرانی اور پیروں پر مریدوں کے تسلط کے جو کالے بادل چھائے ہیں انہیں صاف کرکے مطلع کو بے غبار کرنے کی سعی بلیغ کریں- دین کے رہنما علما ومشائخ ہیں، سیاسی لیڈر، امیر وکبیر، ڈاکٹر انجینئر، بنیے اور مارواڑی نہیں- اسلام علم وبصیرت کا مذہب ہے نہ کہ درہم و دینار کا-
بات جب حدیث افتراق امت کی ہوتی ہے تو لازمی طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ فرقہ ناجیہ کی تعریف کیا ہے؟ اس کے بغیر بات ادھوری رہ جاتی ہے- اس کا احساس مولانا اسید الحق کو بھی ہے، فرماتے ہیں: یہ مقالہ ادھورا رہے گا اگر اس میں ’’ فرقہ ناجیہ‘‘ کی تعریف اور ’’ما انا علیہ واصحابی‘‘ کی تشریح نہ کی جائے-‘‘ (ص:۷۲) اس کے بعد مولانا نے علمی انداز میں ۳؍ صفحات پرداد تحقیق دی ہے، مگر اس کم فہم کے نزدیک نہ تو ’’ فرقہ ناجیہ‘‘ کی تعریف ہوسکی ہے اور نہ ما انا علیہ واصحابی کی تشریح، اور اس طرح یہ مقالہ ادھورا ہی رہ گیا ہے-اگر اس ایک کمی کو کوئی شخص مقالے پر تشویش کا باعث قرار دے تو میں اس کا ہمنوا ٹھہروں گا- لیکن میرے خیال سے موجودہ تشویش کی یہ وجہ نہیں ہے ، وجہ وہی ہے کہ ۷۲؍فرقوں کو کافر اور جہنم کا دائمی مستحق نہیں کہا گیا ہے-
کتاب کے بنیادی موضوع کی اہمیت و افادیت اور جامعیت کے علاوہ اگر کتاب کے اسلوب، معیار وانداز تحقیق ، زبان وبیان ، نقد و نظراور معارضات و معروضات کی بات کریں تو ہمارے یہاں اس معیار کی کوئی تحریر نہیں ہے-اصلاح فکر اور تصحیح عقیدہ کے علاوہ یہ کتاب جدید اہل قلم اور طلبۂ مدارس کے لیے زبان و بیان اور انداز تحقیق کی جہت سے بھی بہت زیادہ اہم اور مفید ہے-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔