Thursday 31 August 2017

احادیث قدسیہ ---- مرتب : مولانا اسیدا لحق محمد عاصم قادری

0 comments
احادیث قدسیہ
                   مرتب : مولانا اسیدا لحق محمد عاصم قادری
                   صفحات:
۱۸۲
                   سن اشاعت: ۲۰۰۸ء
                   ناشر: تاج الفحول اکیڈمی بدایوں
                   تقسیم کار: مکتبہ جام نور دہلی 
                   تبصرہ نگار: ضیاء الرحمٰن علیمی
یوں تو حدیث کی تمام اقسام بلند و بالا شان والی ہیں لیکن حدیث کی وہ قسم جس کے راوی صادق و مصدوق محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اس کی بات ہی کچھ الگ ہے- احادیث کے وسیع ذخیرے میں ہمیشہ اسے ایک نمایاں مقام حاصل رہا- انہی خصوصیات کی بنا پر بعد کے عہد میں علما و محدثین نے احادیث قدسیہ کے مستقل مجموعے تیار کرنے کا اہتمام کیا، عربی زبان میں تو اس موضوع پر کئی کتابیں لکھی گئیں لیکن اردو کے حصے میں چند ایک کتابیں ہی آسکیں - سیف اللہ المسلول حضرت علامہ فضل رسول قادری بدایونی علیہ الرحمہ کے خانوادے کے روشن چشم و چراغ مولانا اسید الحق محمد عاصم قادری کی تازہ ترین تالیف احادیث قدسیہ اسی کمی کو پوری کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے، اسی کتاب کے مطالعے سے میں ابھی ابھی فارغ ہورہا ہوں-
یہ کتاب ۱۸۲ صفحات پر مشتمل ہے،کتاب کے اصل حصے کے آغاز سے قبل سب سے پہلے عرض مرتب کے عنوان سے مولف نے کتاب کی تالیف کاپس منظر، منہج تالیف او راس کے علاوہ دیگر متعلقہ ضروری باتوں کو تحریر کیا ہے، کتاب کی تیاری میں زیر استفادہ کتابوں کا تذکرہ کھلے دل کے ساتھ کیا گیا ہے- مولف چوں کہ ایک عظیم اسلامی یونیور سٹی کے قابل فخر فرد ہیں اس لیے انہوں نے پوری عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے، ورنہ عام ہندوستانی علما کے یہاں یہ عالی ظرفی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے-
 اس کے بعد کتاب کا علمی مقدمہ ہے جس میں حدیث قدسی کی تعریف ، متعلقہ شبہات ، حدیث قدسی اور قرآن کریم کے مابین فرق، حدیث قدسی کی اقسام ، تعداد ، اس کے موضوعات اور موضوع احادیث قدسیہ پر جامع اور پر مغز گفتگو کی گئی ہے اور اخیر میں اب تک کے احادیث قدسیہ کے بعض اہم مجموعوں کے اسماء ذکر کرکے ان پر مختصر گفتگو بھی کی گئی ہے، یہ مقدمہ کئی قسطوں میں جام نور کے صفحات پر بھی شائع ہوچکا ہے-
مقدمے کے بعد احادیث قدسیہ اور صفات باری کے عنوان سے مولانا منظر الاسلام ازہری کا مضمون شامل ہے، احادیث قدسیہ میں چوں کہ بہت سی ایسی صفات وارد ہیں جو اللہ تعالیٰ کے جسمانیت ثابت کرتی ہیں اس لیے اس موضوع پر مضمون شامل اشاعت کرکے قاری کے ذہن میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا پیشگی سد باب کردیا گیا ہے، جسم و جسمانیت ثابت کرنے والی آیات و احادیث سے متعلق اہل علم کے چار نظریات بیان کیے گئے ہیں-
 پہلا نظریہ تفویض کہ ان کا معنی صرف اللہ کو معلوم ہے، دوسرا نظریۂ تاویل کہ ان کا صحیح علم رب تعالیٰ کے پاس ہے لیکن الفاظ و قرائن اگر ساتھ دیں تو ان کا ایسا معنی بیان کیا جائے جو شرعا اور عقلا درست ہو، تیسرا نظریہ تشبیہ و تجسیم کہ ان کالغوی اور حقیقی معنی ہی مراد لیا جائے، چوتھا یہ نظریہ کہ معنی تو ظاہری ہی مراد لیا جائے لیکن کیفیت کو مجہول مانا جائے- پہلے دو نظریات درست ہیں، تیسرا نظریہ صراحتا باطل ہے اور چوتھے نظریے کے متعلق مضمون نگار نے لکھا ہے کہ:
’’ یہ بھی غور وفکر کے بعد تیسرے کے مشابہ ہے اس لیے اس کے بطلان میں کوئی شک نہیں-‘‘(ص:۵۲)
آگے چل کر نظریہ تفویض پر مفصل گفتگو کے دوران لکھا ہے کہ امام حنبل کی جانب بعض محدثین اورابن تیمیہ نے چوتھے نظریے کا انتساب کیا ہے جو درست نہیںہے اور معتدل حنبلی علما نے شدت کے ساتھ اس فکر کا رد کیا ہے، جن میں علامہ ابن جوزی سرفہرست ہیں اور پھردفع شبہ التشبیہ کے حوالے سے ان کی ایک عبارت کا خلاصہ بطور دلیل پیش کیا گیا ہے- ( ص: ۵۸-۵۹)
بلاشبہ علامہ ابن جوزی اس فکر کے شدید مخالف تھے انہوں نے اپنی منفرد ڈائری صید الخاطر میں ’’ سلفیون جہال‘‘ کے زیر عنوان چوتھا نظریہ رکھنے والوں کی خبر لی ہے، ا نہوں نے لکھا ہے کہ ان حضرات کو یا تو کھلم کھلا تشبیہ و تجسیم کا قائل ہونا چاہیے یا پھر تفویض کا، کیوں کہ وارد متشابہ صفات باری میں جس معنی کے معلوم ہونے کا وہ اقرار کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے لیے جسمانیت ثابت کرتا ہے، لہذا انہیں صاف طور پر تجسیم کا قول کرنا چاہیے اور اگر وہ کہیں کہ معنی معلوم کہاں رہا اور معنی تو معلوم ہے لیکن کیفیت مجہول تو پھر یہ کہوںگا کہ ایسی صورت میں معنی معلوم پرایمان کہاں رہا کیوں کہ معنی معلوم کی کیفیت بھی معلوم ہے اور جب معنی معلوم ہی نہیں رہا تو اب انہیں نظریہ تفویض کا اقرار کرلینا چاہیے آگے چل کر علامہ ابن جوزی نے اہل تاویل کا دفاع اور ان حضرات پر کئی معارضے قائم کرکے ان کے نظریے کا بطلان ثابت کیا ہے، بہر حال مولانا منظر الاسلام ازہری کی اس تحریر سے کتاب کی افادیت بڑھ گئی ہے ، البتہ مولانا کے اس مضمون میں صفحہ ۸۳-۸۴ پر سنن ترمذی سے ایک عربی اقتباس نقل کیا گیا ہے لیکن ترجمہ نہیں کیا گیا ہے جو کہ خود مضمون نگار کا اپنے عام اسلوب سے انحراف ہے-
اس مضمون کے بعد اصل کتاب کا آغازصفحہ ۸۷ سے ہوتا ہے، اس حصے میں ۱۳ عناوین کے تحت ۱۰۲ احادیث ذکر کی گئی ہیں ، تمام احادیث سے قبل ان کے معنیٰ و مفہوم کے لحاظ سے ذیلی عناوین قائم کیے  گئے ہیں- احادیث کا ترجمہ فن کارانہ مہارت اور خوبی سے کیا گیا ہے اور ایسا کیوں نہ ہوتاکہ ابو الفیض معینی جو ٹھہرے، ترجمہ تو تمام احادیث کا ہی بڑی خوبصورتی سے کیاگیا ہے لیکن بعض جملوں کا ترجمہ مجھے بہت پسند آیا، مثلا عظمت پروردگار کے عنوان سے مذکور پہلی حدیث کے ایک جملے ’’ سحّاء اللیل والنہار‘‘ کے ترجمے میں لکھا ہے ’’ شب و روز نعمتوں کو بہاتا ہے‘‘ (ص: ۹۳) یہ ترجمہ بڑا خوبصورت اور بھر پور لگا، اسی عنوان کے تحت مذکور حدیث نمبر ۳ میں ایک جملہ ہے : یا عبادی لو انّ اولکم و آخرکم وانسکم وجنّکم قاموا فی صعید واحد فسأ لونی فأعطیت کل انسان مسألتہ ما نقص ذلک ممّا عندی الاّ کما ینقص المخیط اذا أدخل البحر-(ص: ۹۴) اس کاترجمہ اس طرح کیا گیا ہے:
 اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے اور انسان وجنات سب کسی ایک میدان میں کھڑے ہوکر مانگیں اور میں سب کی حاجت پوری کردوں تب بھی میرے خزانے میں اتنی کمی بھی نہیں ہوسکتی جتنی سمندر میں سوئی ڈالنے سے ہوتی ہے-(ص:۹۵)
اس کا لفظی ترجمہ اگر کیا جاتا تو ترجمے کا آخری حصہ اس طرح ہوتا ’’ اور میں سب کی حاجت پوری کردوں تب بھی میرے خزانے میں اتنی ہی کمی ہوتی جتنی سمندر میں سوئی ڈالنے سے ہوتی ہے‘‘ ظاہر ہے سمندر میںسوئی ڈالنے سے سوئی کے ساتھ پانی کا کچھ حصّہ تو لگا ہوتا ہی ہے اور اس طرح کچھ نہ کچھ کمی تو ہوتی ہی ہے لیکن اللہ کے خزانے اتنی بھی کمی نہیں ہوتی، اور سمندر میں سوئی ڈالنے کی تعبیر صرف تمثیل اور ایک محاورہ ہے-
ترجمے پر نظر ڈالتے وقت دو جگہوں پر میری نظر رک گئی، عظمت پروردگار کے زیر عنوان حدیث نمبر ۷ میں حدیث کا آخری ٹکڑا ہے: أین الجبارون، أین المتکبّرون اس کا ترجمہ اس طرح مذکورہے: جبر کرنے والے اور ظلم کرنے والے کہا ںہیں(ص: ۹۷) جب کہ ترجمہ ہونا چاہیے تھا ’’ جبر کرنے والے اور تکبر کرنے والے کہاں ہیں، یہاں کتابت کی غلطی کا بھی امکان ہے کیوں کہ المتکبرون کا لفظ اس حدیث میںدو بار وارد ہوا ہے اور پہلے مقام پر ترجمہ صحیح لکھا ہوا ہے، اعمال صالحہ کی فضیلت کے عنوان کے تحت مذکور حدیث نمبر ۹ میں حدیث کا آخری حصہ ہے : کنت أداین الناس فآمر فتیانی أن ینظروا المعسر ویتجوزوا عن الموسراس کا ترجمہ اس طرح مذکور ہے :
 میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور اپنے نوکروں سے کہا کرتا تھامالداروں کو قرض کی واپسی میں مہلت دیا کرو اور غریبوں سے درگزر کیا کرو-‘‘( ص: ۱۵۸-۱۵۹)
یہاں ترجمہ تو درست ہے لیکن نص حدیث کی طباعت میں تقدیم و تاخیر ہوگئی ہے ’’ موسر‘‘ کی جگہ ’’معسر‘‘ اور’’ معسر ‘‘کی جگہ ’’موسر‘‘ چھپ گیا ہے، بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ حوالے میں بھی باب فضل انظار المعسر ہی لکھا ہوا ہے جو میرے خیال معسر کے بجائے موسر ہونا چاہیے تھا، مولف کے ترجمہ ٔحدیث سے بھی میری تائید ہوتی ہے ، طباعت کی غلطیوں کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ انسان خطا کا پتلاہے اس کا بھر پور ثبوت اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے- بعض احادیث پر اعراب لگا دیاگیا ہے اور بعض پر نہیں، اس کی کوئی معقول و نا معقول وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی، جن احادیث پر اعراب لگایا گیا ہے وہاں صحت کا التزام نہیں کیا گیا ہے ، صرف ایک مثال پر اکتفا کروں گا- عظمت مصطفی کے عنوان کے تحت مذکور حدیث نمبر۲ اعراب سے مزین ہے لیکن حدیث کے آخر ی حصے ’’ حتی یقیم بہ الملّۃ العوجاء‘‘ میں ’’ یقیم‘‘ کی میم ’’ حتی‘‘ کے دخول کے باوجود مضموم ہی ہے، اور پھر اس پر معطوف فعل ’’یفتح ‘‘ کی حاء بھی مضموم ہی ہے، اس کے علاوہ او ربھی مطبعی غلطیاں ہیں، چند نمونے پیش کررہا ہوں کہ آئندہ اشاعت میں ان کی اصلاح ہوجائے - صفحہ ۶۷ پر یہ عبارت تحریر ہے: تاج العروس لمرتضیٰ لتأویل ردّ احد المجتملین الی ما یطابق الظاہر، میرے خیال میں اس میں تاج العروس کا سابقہ بالکل غیر متعلق ہے اور خود بعد والی عبارت پچھلی عبارت کی تکرار ہے، صفحہ ۹۷ پر واشارالی حلقہ کے بجائے خلقہ خاء سے شائع ہوگیا ہے، صفحہ ۱۰۷ پر طواغیت کے بجائے طواغیث ثاء سے ار اگلے صفحے پر مخزول کے بجائے محزول حاء سے چھپا ہے جو غلط ہے، یوں ہی صفحہ ۱۹۶ پر سخاب شائع ہوا ہے جو صاد سے صحیح ہے ، شفاعت کے باب میں تین صفحات پر مشتمل لمبی حدیث میں صفحہ ۱۳۶ پر وانی قد کذبت ثلاث کذبات کے بعد میرے خیال کے مطابق ایک غیر متعلق عبارت فذکرہن ابو حیان فی الحدیث شائع ہوگئی ہے، صفحہ ۱۵۹ پر انک لو عدتہ لوجدتنی عندہ کے بجائے لووعدتہ چھپا ہے جو صحیح نہیں ہے اسی طرح صفحہ ۱۷۷ پر یقظان کے بجائے یقضان ضاد سے لکھا ہوا ہے جو غلط ہے، یہ اغلاط کے چند نمونے تھے غلطیاں اور بھی ہیں ان مطبعی اغلاط نے کتاب کے حسن کو داغدار کر دیا ہے اس طرح کی علمی کتابوں میں ان فاش غلطیوں سے علم دوست قاری بددل ہوتا ہے اور مؤلف کے تئیں اس کا غلط تاثر قائم ہوتا ہے جب کہ کمیاں طباعت کی ہوتی ہیں -
ان کمیوں سے قطع نظر کتاب اپنے مواد مشمولات اورپیش کش کے لحاظ سے عمدہ ہے، میرے خیال میں اگر کتاب کے آخر میں مصادر و مراجع کی ایک فہرست شامل کردی جاتی تو کتاب علمی طور او رباوزن ہوجاتی، کتاب کا انتساب فرنگی محل اور وہاں کی عظیم شخصیات کی جانب کیا گیا ہے ، کتاب کی قیمت ذکر نہیں کی گئی ہے-بہر حال احادیث قدسیہ کا یہ مجموعہ احادیث قدسیہ کے باب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے اور خصوصیت کے ساتھ اہل اردو کے لیے پیش قیمت تحفہ، منہج علمی ہونے کے باوجود اسلوب سادہ اور عام فہم ہے امید کی جاتی ہے کہ ہر حلقے میں مقبول ہوگی-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔