Saturday 26 August 2017

قرآن کریم کی سائنسی تفسیر : ایک تنقیدی مطالعہ ----- مولف: مولانا اسید الحق محمد عاصم قادری

0 comments
       قرآن کریم کی سائنسی تفسیر : ایک تنقیدی مطالعہ
        مولف: مولانا اسید الحق محمد عاصم قادری
        ضخامت: ۶۴ صفحات
        سال اشاعت : ۱۴۲۹ء/۲۰۰۸ء
       ناشر: تاج الفحول اکیڈمی ،بدایوں 
       تقسیم کار : مکتبہ جام نور ،۴۲۲ مٹیا محل ،جامع مسجد، دہلی-۶
       تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی 
بات اس وقت کی ہے جب میں الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں زیر تعلیم تھا، استاذ گرامی حضرت علامہ محمد احمد مصباحی کے کمرے میں پہلی بار بدایوں سے شائع ہونے والا ماہانہ مجلہ مظہر حق کا ایک شمارہ زیب نگاہ بنا، مدیر مفتی عبد الحکیم نوری تھے جن کی شخصیت میرے لیے مانوس و معلوم تھی، میں پرچہ الٹ پلٹ کر دیکھا تو ایک عنوان پر نظر ٹک گئی، میں نے جلدی جلدی اس کے مندرجات پر ایک سرسری نظر دوڑائی، مضمون بہت پسند آیا ، یہ سلسلہ وار مقالے کی ایک قسط تھی، جی میں آیا کہ کاش میں پورے مقالے کو پڑھ سکتا، لیکن یہ میرے لیے ممکن نہ ہو سکا، اب یہ مقالہ کتابی شکل میں میرے سامنے ہے جس کے مولف ہیں میرے بزرگ دوست صاحب زادہ مولانا اسید الحق محمد عاصم قادری بدایونی، جن سے شناسائی کی پہلی وجہ بھی یہی علمی مقالہ بنا- اواخر ۲۰۰۴ء میں میں دہلی چلا آیا اور آتے ہی مدیر اعلیٰ جام نور مولانا خوشتر نورانی کی رفاقت میں تحریک جام نور کو آگے بڑھانے میں مصروف ہو گیا، میں نورانی صاحب سے بار بار اصرار کرتا رہا کہ آپ مولانا اسید الحق سے کہیں کہ وہ اپنا علمی مقالہ پھر سے جام نور میں شائع کرائیں، موصوف کے کہنے پر بالآخر مولانا اسید الحق نے اپنے مقالے پر نظر ثانی کی اور بعض حذف و اضافات کے بعد جام نور کو ارسال کیا، جو اگست ۲۰۰۶ء تا نومبر ۲۰۰۶ء کے شماروں میں  قسط وار شائع ہوا—جام نور کا جو ہم نے معیار متعین کیا ہے اس کے پیش نظر ہمیں بہت سارے غیر مطبوعہ مضامین بھی شائع کرنے سے معذرت کرنی پڑتی ہے جس کے لیے ہمارے بعض کرم فرما ناراض بھی ہو جاتے ہیں، لیکن یہ مطبوعہ مقالہ تھا جسے نہ صرف ہم نے شائع کیا بلکہ اس کے لیے مقالہ نگار سے گذارش کی اور اصرار کیا-
کتاب کے’’پیش لفظ‘‘ میں مولف محترم نے جو معلومات فراہم کی ہے اس سے اس مقالے کی مزید اہمیت و مقبولیت معلوم ہوئی،’’ پیش لفظ‘‘ کے مطابق یہ مقالہ موصوف نے ازہر شریف میں دوران طالب علمی عربی زبان میں ’’ التفسیر العلمی للقرآن دراسۃ نقدیہ‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا، بعد میں اسے اردو میں منتقل کر کے ۲۰۰۳ء میں ماہنامہ مظہر حق بدایوں میں قسط وار شائع کرایا، پھر یہی مقالہ سہ ماہی’’بدایوں‘‘ کراچی میں شائع ہوا، حذف واضافات کے بعد ۲۰۰۶ء میں جام نور نے شائع کیا اور جام نور سے ہی ماہنامہ’ سوے حجاز‘‘ لاہور نے مارچ ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں شامل کیا- اب یہ مقالہ کتابی شکل میں آ گیا، ہمیں امید ہے کہ اب بھی اسے دوسرے رسائل شائع کریں گے اور اہل علم حوالے میں اس کاذکر کریں گے-
کتاب ضخامت کے لحاظ سے وزنی نہ سہی ، لیکن علمیت اور ثقاہت کے لحاظ سے ضرور باوزن ہے، موضوع کے جتنے ضرور ی گوشے ہو سکتے تھے مقالہ نگار نے سب کا احاطہ کر لیا ہے، تمہید کے بعد سائنسی تفسیر کا مفہوم بیان کیا گیا ہے، اس کے بعد سائنسی تفسیر کے حوالے سے متقدمین و متاخرین و معاصرین کی آراء نقل کی گئی ہیں، متقدمین میں امام غزالی، امام رازی اور امام سیوطی کی آراء شامل کی گئی ہیں جبکہ متاخرین و معاصرین کو دو خانوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک خانہ ہے حامی گروپ کا جبکہ دوسرا مخالف گروپ کا- سائنسی تفسیر کے حامیوں میں علامہ شیخ طنطاوی الجوہری، علامہ عبد الرحمن الکواکبی، علامہ طاہر بن عاشور، ڈاکٹر حنفی احمد، ڈاکٹر جمعہ علی عبد القادر اور امام متولی الشعراوی کی آراء کو جگہ دی گئی ہے جبکہ مخالفین میں سے امام ابو اسحاق شاطبی، شیخ محمد شلتو ت اور علامہ عبد العظیم الزرقانی کی آراء شامل ہیں- اس کے بعد مقالہ نگار نے ۳ صفحات میں موافقین و مخالفین کی آراء کا ’’ تنقیدی جائزہ‘‘ لیا ہے،جس کا مقصد موافقین و مخالفین کی بعض آراء کو رد کرنا اور بعض کو قبول کرنا ہے جو معروضی تحقیق کی شان ہے، اس ذیل میں انہوں نے بطور خلاصہ ۵؍نکات بیان کیے ہیں جن کا حاصل یہ ہے:
(۱) قرآن کے سائنسی اعجاز کو خارج از امکان بتانا ایسے ہی غلط ہے جیسے اس کے مظاہر اعجاز کو صرف سائنسی اعجاز میں منحصر ماننا-
(۲) ایک نص قرآنی مختلف معانی کا محتمل ہو سکتا ہے، لیکن ان معانی میں اختلاف تنوع ہونا چاہیے نہ کہ اختلاف تضاد -
(۳) یہ صحیح ہے کہ قرآن کتاب ہدایت ہے، سائنس یاہندسہ کی کتاب نہیں، لیکن اگر کوئی حقیقت علمیہ اور نظر یہ کو نیہ بلا تکلف و تحکم کسی آیت پر مطبق ہو تو اس سے منہ موڑ لینے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے-
(۴) قرآن اس سے بے نیاز ہے کہ اس کی صداقت وصحت پر علوم جدیدہ سے سند اور دلیل لائی جائے، البتہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے اسلام کی دعوت و تبلیغ میں مدد لی جا سکتی ہے-
(۵) سائنسی تفسیر کے مخالفین کہتے ہیں کہ سائنسی نظریات و تحقیقات کے اندر خود ہی ثبات نہیں ہے، ایسے میں قرآن و سائنس میں مطابقت کی تلاش قرآن کو کتاب تضاد بنا کر پیش کرنا ہے، ڈاکٹر جمال مصطفی پروفیسر شعبہ تفسیر جامعہ ازہر جواب میں کہتے ہیں کہ’’ اگر کسی حقیقت علمیہ ثابتہ کی نظیر کسی آیت کے محتمل معانی میں سے کسی ایک میں پائی جائے تو اس احتمال کوتسلیم کیا جائے گا، مگر اس پر جزم وقطعیت کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، اب اگر کسی زمانے میں بالفرض اس نظریے کے خلاف دلیل قائم ہو جائے تو بھی قرآن پر کوئی حرف نہیں آئے گا، کیوں کہ ہم نے اس حقیقت علمیہ پر نص قطعی کا دعویٰ نہیں کیا تھا-‘‘ پروفیسر صاحب کا جواب بظاہر معقول ہے مگر ’’فیہ مافیہ‘‘- (ص:۴۰)
ان نکات پر غور کرنے سے جو بات سب سے پہلے واضح ہو کر آتی ہے وہ یہ کہ مولانا اسید الحق قادری بھی سائنسی تفسیر کے حامیوں میں سے ہیں، یہ اور بات ہے کہ وہ اس کے لیے تکلف و تحکم اور کھینچ تان کے قائل نہیں ، سائنسی تفسیر لکھتے وقت ان کے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی ایسی نئی بات نہ کہہ دی جائے جو کسی پرانی تفسیر،جو امت کا عقیدہ یا معمول ہو،کے خلاف ہو، یا وہ ایسی بات ہو جس کا رد قرآن کی کوئی دوسری آیت کر رہی ہو—بڑے ادب کے ساتھ یہاں میں چوتھے نکتے کے پہلے حصے کے بارے میں یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ یہ سائنسی تفسیر کے مخالفین کا ’’خطیبانہ جملہ‘‘ ہے ، اور خطیبانہ جملے صرف کانوں کو بھلے معلوم ہوتے ہیں، اگر اس طرح کے جملوں سے سائنسی تفسیر کا رد کرنا ممکن ہوتو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ’’ قرآن اس سے بے نیاز ہے کہ اس کی صداقت و صحت پر علوم بلاغت سے صحت و سند لائی جائے-‘‘ اور یہ کہہ کر وہ قرآن کی ماضی میں لکھی گئی بلاغی تفسیروں کو رد کر سکتا ہے جن کا کردار اعجاز قرآن کے اظہار میں بہت نمایاں تسلیم کیا گیا ہے- یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ قرآن سائنسی تفسیر کا محتاج ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ آیا مسلم علماء کو اس بات کی ضرورت ہے یا نہیں کہ وہ سائنسی تفسیر کریں تاکہ دین اور قرآن کے تعلق سے مشکوک ذہنوں کے شبہات کا ازالہ ہو اور انہیں یقین یا حق الیقین کی دولت ملے؟
عالی مرتبت مولانا اسید الحق نے مخالفین کی اس بات کو’’ درست‘‘ قرار دیا ہے، اس کے بعد خود ہی یہ سوال قائم کیا ہے کہ’’ اگر سائنسی تفسیر نہ کی جائے تو آخر’’ خوگر پیکر محسوس‘‘ اور دلیل و مشاہدہ کے عادی عقلیت پسند اور مادہ پرست انسان کو کیوں کر قرآن کی صداقت کا قائل کیا جا سکتا ہے؟‘‘ پھر خودہی اس کا جواب دیا ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ یورپ و امریکہ میں جن لوگوں نے گزشتہ برسوں میں اسلام قبول کیا ہے ان میں ایک تعداد ان کی بھی ہے جو سائنسی تفاسیر سے متاثر ہو کر اسلام کی طرف مائل ہوئے لیکن اکثریت ان کی ہے جو اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کرد امن اسلام سے وابستہ ہوئے- موصوف نے اپنی اس بات کی تائید میں ڈاکٹر احمد المرسی کی کتاب’’ لماذ ا أنا مسلم؟‘‘کا حوالہ دیا ہے جس میں ۰۰ ۱ غیر مسلموں کی داستان ایمان افروز ہے، موصوف لکھتے ہیں کہ ان میں’’ صرف ۱۹؍ لوگ ایسے ہیں جو قرآن اور سائنس کی حیرت انگیز تطبیق دیکھ کر متاثر ہوئے، باقی سب لوگوں کو قرآن کی انہیں تعلیمات نے متاثر کیا ہے جن کا ہم نے ما قبل میں ذکر کیا ہے ‘‘(ص: ۳۸) خیال رہے کہ موصوف یہ بات سائنسی تفسیر کے مخالفین کی تائید اور سائنسی تفسیر کی عدم ضرورت کے اثبات میں لکھ رہے ہیں، لیکن کوئی غور کر کے بتائے کہ اس بات سے سائنسی تفسیر کی عدم ضرورت ثابت ہورہی ہے یا ضرورت؟ موصوف کی بات مان لینے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ آج اسلام کی ۱۹؍ فی صد تبلیغ صرف سائنسی تفسیر کی رہین منت ہے(مسلم اور غیر مسلم ذہنوں کے دین کے تعلق سے شبہات کا ازالہ الگ )کیا اس سے سائنسی تفسیر کی شدید ضرورت ثابت نہیں ہوتی؟
موصوف نے پانچویں نکتہ کے ذیل میں پہلے مخالفین کا ایک اعتراض نقل کیا جسے’’ نہایت برجستہ اور منطقی‘‘ بتایا(ص: ۳۹) جس کے جواب میں اپنے استاذ ڈاکٹر جمال مصطفی کا اقتباس پورے ایک صفحے میں نقل کیا جو مجھے’’نہایت برجستہ اور منطقی‘‘ معلوم ہوا(اس میں میرے فہم کا قصور بھی ہو سکتا ہے) پھر اس کو’’ بظاہر معقول مگر فیہ مافیہ‘‘ (ص: ۴۰)کہہ کر آگے بڑ ھ گئے- اب یہ کم علم یہ کہنے کی اجازت چاہتا ہے کہ یہ نکتہ نہ رہا’’ معمہ‘‘ بن گیا- نیز اس ’’ فیہ مافیہ‘‘ کو اگر اجاگر کر دیا گیا ہوتا تو مجھ جیسے کم علموں کی رہنمائی ہو جاتی، پھر یہ سوال بھی مولانا اسید الحق پر قرض رہتا ہے کہ اگر وہ سائنسی تفسیر کے حامیوں میں ہیں تو مخالفین کے اس اعتراض کا معقول اور صحیح جواب کیا ہے جو ’’ فیہ مافیہ‘‘ کے نقص سے بری ہے؟
سائنسی تفسیر کے موافقین و مخالفین کی آراء کا تجزیہ و محاکمہ کے بعد موصوف نے’’ قرآن اور سائنس میں تعارض کی حقیقت‘‘ ’’سائنسی تفسیر میں بعض بے اعتدالیاں‘‘ ’’ سائنسی تفسیر کے رواج کے اسباب‘‘ اور ’’ سائنسی تفسیر کے جواز کے لیے کچھ شرائط‘‘ نہایت اختصار اور جامعیت کے ساتھ رقم کیے ہیں، یہ ساری باتیں صرف ۶؍ صفحات میں سما گئی ہیں اور خاص بات یہ کہ کوئی ضروری گوشہ تشنہ بھی نہیں ہے- اس کے بعد ’’غیر مقبول سائنسی تفسیر کی کچھ مثالیں‘‘ دی ہیں، اس ذیل میں تین مثالیں ہیں، پہلی آیت کریمہ’’ و یقذفون بالغیب من مکان بعید‘‘ (السبا: ۵۳) کی تفسیر ٹیلی فون، ٹیلی گراف، ٹی وی اور ریڈویو وغیرہ سے، دوسری مثال ہے دابۃ الأرض (النمل :۸۲) کی تفسیر سٹیلائٹ سے اور تیسری مثال ہے ، سبع سموات کی تفسیر سات سیاروں یا مختلف قسم کی گیسوںکی سات تہوں وغیرہ سے، فاضل اجل مولانا اسید الحق قادری نے نہایت عالمانہ انداز و اسلوب اور دلائل و براہین سے ان تفاسیر کو رد کیا ہے اور ان کے اندر جدید مفسرین نے جو کھینچ تان کی ہے اسے اجاگر کیا ہے -
کتاب کے مندرجات میں ایک چیز کی کمی رہ گئی ہے، وہ یہ کہ جس طرح غیر مقبول سائنسی تفاسیر کی مثالیں دی گئی ہیں مقبول سائنسی تفاسیر کی کچھ مثالیں بھی دی جانی چاہیے تھیں، اس کمی کا احساس مولف موصوف کو بھی ہے جس کا اظہار انہوں نے’’ پیش لفظ‘‘ (ص:۷) میں کیا ہے- اس سلسلے میں وہ ایک مستقل مقالہ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کا ہمیں شدت سے انتظار ہے -
کتاب اپنے موضوع پر مکمل ہونے کے ساتھ کئی دوسری جہتوں سے بھی اہم ہے، علمی مباحث کو عام فہم اسلوب میں پیش کرنے کی مثالیں آج کل کم ملتی ہیں، یہ ان میں ایک اچھی مثال ہے، زبان و بیان کے حوالے سے تو کچھ کہنا ہی نہیں ہے، اس سلسلے میں مولانا اسید الحق کا ہمزاد ابو الفیض معینی برصغیر میں ہلچل مچا چکا ہے، صرف ایک لفظ ’’سنہ ثالثہ‘‘ ایسا تھا جس پر نظر رکی، خیال آیا کہ ممکن ہے کہ مولانا اسید الحق ازہری نے’’ پیش لفظ‘‘ آخر آخر میں لکھا ہواور اتنی فرصت نہ ملی ہو کہ وہ ابو الفیض معینی حیدر آبادی کو بغرض اصلاح دکھلا سکتے، خیر یہ بھی ضروری تھا تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ اسید الحق صرف بدایونی نہیں ازہری بھی ہیں-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔