Wednesday 30 August 2017

۱۸۵۷ء پس منظر و پیش منظر --- مولف : مولانا یٰسین اختر مصباحی

0 comments
                 ۱۸۵۷ء پس منظر و پیش منظر
       مولف : مولانا یٰسین اختر مصباحی 
       صفحات: ۳۰۴
       سن اشاعت ۲۰۰۷ء /۱۴۲۸ھ
       طابع و ناشر: دارالقلم ۹۲/۶۶ قادری مسجد روڈ ، ذاکر نگر، نئی دہلی-۲۵
       تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی  
مولانا یٰسین اختر مصباحی صاحب کی تازہ ترین کتاب ’’۱۸۵۷ء پس منظر و پیش منظر‘‘ پیش نظر ہے- یہ ادارہ تصنیف و تحقیق ’’دارالقلم دہلی‘‘ کے سلسلہ مطبوعات کی بیسویں کڑی ہے جبکہ انقلاب ۱۸۵۷ء سے متعلق مباحث پر مشتمل مولانا موصوف کی چھٹی کتاب ہے، سال ۲۰۰۷ء کو ملک بھر میں انقلاب ۱۸۵۷ء کی ۱۵۰؍ سالہ برسی کے طور پر منایا گیا -حضرت مولانا نے بھی نہ صرف اس سال کو انقلاب ۱۸۵۷ء کے نام کر دیا بلکہ اپنی فکر کو، اپنے قلم کو، اپنے وقت کو اور خود اپنے آپ کو انقلاب ۱۸۵۷ء کے نام وقف کر دیا ، جس کے نتیجے میں پے در پے ۶؍ کتابیں منصہ شہود پر آئیں ، جن کا وصف مشترک پچھلے ۱۵۰؍ سالوں میں تاریخ گری کی مذموم روایت کا پردہ چاک کر کے انقلاب ۱۸۵۷ء کی حقیقی تصویر پیش کرنا ہے -حریفوں نے تاریخ نویسی کے نام پر انقلاب ۱۸۵۷ء کے وقت ،اس سے پہلے اور اس کے بعد کے اپنے پرکھوں کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی جو کوشش تھی مولانا مصباحی موصوف نے اپنی بے لاگ تنقید، معروضی مطالعہ اور غیر جانب دارانہ تحقیق کی روشنی میں یہ واضح کیا ہے کہ یہ لوگ اپنے وقت میں یا تو ’’زیرو‘‘ تھے یا پھر ان کا کردار ایک ’’ویلن‘‘ کا تھا- ایسے میں انہیں’’ ہیرو‘‘ کہنا تاریخ کے ساتھ بھونڈا مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں-
زیر تبصرہ کتاب ’’ ۱۸۵۷ء پس منظر و پیش منظر‘‘ کو مولف محترم نے ۱۸؍ عناوین /مضامین پر مشتمل رکھا ہے- ’’ شعاع نور‘‘ اور’’ مشعل راہ‘‘ کے عنوان سے دین و سیاست کے تعلق سے ایک ایک صفحہ پر قرآن اور حدیث کے متن و ترجمہ کے ساتھ اقتباسات نقل کیے ہیں- صفحہ ۷-۱۶ ؍ دس صفحات پر ایک گراں قدر، فکر انگیز اور معلوماتی ’’ تقدیم ‘‘ بعنوان’’ گذارش احوال واقعی‘‘ سپرد قلم کی ہے- صفحہ ۱۷-۲۵ ؍ پر ’’ پہلی اور آخری جنگ آزادی(۱۸۵۷ء)‘‘ کے عنوان سے انقلاب ۱۸۵۷ء کی روداد، معتبر تاریخی حوالوں کے ساتھ پیش کی ہے، ساتھ ہی اس کے اسباب ووجوہ پر بھی فاضلانہ تبصرہ کیا ہے- وہ اپنی آخری سطور میں لکھتے ہیں:
’’ انگریز مجموعی طور پر ہندو اور مسلمانوں دنوں کا مشترکہ دشمن تھا، کیوں کہ ہندواور مسلمان ہی کی اس ملک کی غالب اکثریت تھی اور کئی جگہوں پر ہندو اور مسلمان دونوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ کی- تاہم ۱۸۵۷ء کے جتنے بھی انقلابی تھے وہ سب کے سب بہادر شاہ ظفر کو ہی اپنا بادشاہ سمجھتے تھے- اسی لیے رانی لکشمی بائی، نانا پیشوا، تانتیہ ٹوپے وغیرہ نے سبز پرچم لہرایا تھا-‘‘(ص: ۲۵)
اس سے پہلے والے پیراگراف میں رقم طراز ہیں:
’’ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے اندر جوش و خروش اور جذبۂ جہاد علما کے فتاویٰ کی بنیاد پر ہی تھا اور ان کا جذبہ یہ بھی تھا کہ انگریزوں نے مکر وفریب اور ظلم و جارحیت کے ذریعے یہ ملک ہم سے چھینا ہے، اس لیے ہمیں بڑھ کر ان انگریزوں سے بزور قوت و طاقت دوبارہ اپنی اس میراث کا وارث بننا ہے اور اس ملک پر ہمیں اپنی حکومت قائم کرنی ہے‘‘- (ایضاً)
تاریخ اسلامیان ہند میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (وفات ۱۱۷۶ھ/۱۷۶۲ء) کی ذات وہ نقطہ ارتکاز ہے جہاں مسلمانان ہند کے موجود تمام مکاتب فکر کا سلسلہ اپنے کمال و انتہا پر پہنچتا ہے- ایک دلچسپ بات یہ بھی ذہن میں رہے کہ شاہ صاحب کی وفات ۱۷۶۲ء کے ۶۲؍ سال بعد بھی سواد اعظم کی ایک ہی لکیر تھی جو سیدھی اور مستقیم تھی، شاہ صاحب کے پوتے اسماعیل دہلوی (وفات ۱۸۳۱) کی تقویۃ الایمان آنے کے بعد اختلاف و انتشار کا دور شروع ہوا- سواد اعظم اہل سنت کے سوا آج جتنی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں سب اسی تقویۃ الایمان کے راستے شاہ صاحب تک پہنچتی ہیں، جبکہ سواد اعظم کا عظیم طبقہ اسے کراس کر کے شاہ صاحب تک پہنچتا ہے- اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شاہ صاحب کی ذات جو اسلامیان ہند کے لیے نقطہ اتحاد ہے اور جناب اسماعیل دہلوی کی ذات جو نقطۂ اختلاف ہے، ایک ہندوستانی مسلم مورخ کے لیے کتنی توجہ اور اہمیت کی حامل ہیں- مولانا یٰسین اختر مصباحی صاحب نے زیر تبصرہ کتاب میں اسی اہمیت کے پیش نظر شاہ صاحب پر دو مضامین (۱) فکر ولی اللہی کے وارث وامین، اور (۲) کتب شاہ ولی اللہ میں تحریف و الحاق، شامل کیے ہیں- جبکہ تین مضامین جناب اسماعیل دہلوی، ان کی کتاب تقویۃ الایمان اور ان کے اور ان کے شیخ سید احمد رائے بریلوی کے فسانہ جہاد کی بابت شامل کیے ہیں- پہلا مضمون’’ تقویۃ الایمان اور مباحثہ جامع مسجد دہلی‘‘ کے عنوان سے ہے جو اپنے مشمولات کو بخوبی ظاہر کرتا ہے- دوسرا مضمون ’’ رائے بریلی سے بالا کوٹ کا ایک سفر‘‘ اور تیسرا مضمون’’ فتح و نصرت کے الہامات اور بشارتوں کا انجام‘‘ کے عنوان سے ہے-ان میں تاریخی حقائق اور دہلوی و رائے بریلوی صاحبان کے عقیدت مندوں کے مستند حوالوں سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ یہ دونوں حضرات نہ صرف انگریزوں کے مخالف نہ تھے بلکہ شدید موافق و معاون بھی تھے- بین السطور سے یہ بات بھی اجاگر ہوتی ہے کہ انقلاب ۱۸۵۷ء کو اسماعیلی یا وہابی علماء سے جوڑنا تاریخ سے ناواقفیت پر مبنی ہے یا تاریخی فراڈ کا نتیجہ ہے-
شاہ اسماعیل کے حامی غیر مقلد علماء میں دو نام بہت نمایاں ہیں، ایک شیخ الکل میا ںجی نذیر حسین دہلوی کا اور دوسرا جناب حسین احمد بٹالوی کا واضح رہے کہ بٹالوی صاحب ایک زمانے میں مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے رفیق و ہمراز بھی تھے- یہ دونوں صاحبان نہ صرف انقلاب ۱۸۵۷ء کے مخالف تھے، بلکہ انگریزوں کے حامی اور ان کا ریزہ خوارہ بھی تھے- اس تاریخی حقیقت کو مصباحی صاحب نے ایک مضمون بعنوان ’’ علماے صادق پور (پٹنہ) اور میاں جی نذیر حسین دہلوی‘‘ میں اجاگر کیا ہے-
حالات کے ساتھ خیالات کا بدل جانا کوئی حیرت کی بات نہیں، لیکن حیرت و افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگ حالات بدلنے کے ساتھ حقائق کو بھی بدلنے لگتے ہیں- اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مولوی رشید احمد گنگوہی کے انتقال (۱۹۰۵ء) کے ۳؍ سال بعد مولوی عاشق الٰہی میرٹھی نے تذکرۃ الرشید لکھی اور شد و مد کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ اکابر دیوبند، مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولانا قاسم نانوتوی صاحبان انگریزوں کے وفادار تھے اور انہوں نے انقلاب ۱۸۵۷ء میں کسی طرح کا کوئی حصہ نہیں لیا تھا لیکن آزادی ہند ( ۱۹۴۷ء) کے بعد جب حالات انگریز مخالف ہوئے تو علماے دیو بند نے اپنے ساتھ اپنے اسلاف و اکابر کو بھی کانگریسی اور انگریز مخالف ثابت کرنا شروع کر دیا- مولانا مصباحی صاحب نے زیر نظر کتاب میں شامل اپنے مضمون ’’قصبہ شاملی کی جھڑپ کا اصل واقعہ‘‘ میں اسی جھوٹ کو اس کے گھر کی راہ دکھائی ہے- ۳۱ ؍صفحات پر پھیلے ہوئے اس مبسوط تحقیقی مقالے کا اختتام مصباحی صاحب نے اس سوال پر کیا ہے:
اس دور کی ایسی کوئی تحریری روایت نہیں ملتی ، جس میں مولانا میرٹھی کے بیان کی کوئی تردید و تکذیب کی گئی ہو، پھر بعد کے عام انگریز مخالف ماحول میں مذکورہ قدیم تاریخ کو بدل کر نئی تاریخ بنانے کا جواز کہاں سے اور کس طرح پیدا ہو گیا؟ (ص: ۱۸۹)
’’ تاریخ نویسی سے تاریخ سازی تک‘‘ کے زیر عنوان ۸؍ صفحات پر تاریخ سازی کی بوالعجبیاں پیش کی ہیں، مثلاً یہ کہ سلطان ٹیپو کا انگریزوں کے خلاف جہاد شاہ عبد العزیز کے ہندوستان سے متعلق دارالحرب ہونے کے فتوی سے متاثر ہوکر تھا جب کہ سلطان ٹیپو شاہ صاحب کے فتوی (۱۸۰۳ء) سے ۴؍ سال پہلے نومبر ۱۷۹۹ء میں جام شہادت نوش فرما چکے تھے- اس طرح کی اور بو العجبیوں سے قارئین کے ذوق ظرافت کی ضیافت فرمائی گئی ہے-
اب ذیل میں کتاب کی چند نمایاں خصوصیات اور کچھ معروضات پیش کی جاتی ہیں :
(۱) کتاب کے عنوان سے اندازہ تھا کہ اس میں انقلاب ۱۸۵۷ء سے پہلے اور بعد کے حالات کا مربوط ذکر ہوگا اور نقد و تجزیہ کے ذریعہ ماضی کی ۲۰۰ سالہ سیاسی، سماجی اور مذہبی تاریخ پیش کی گئی ہوگی-لیکن مطالعہ کے بعد اندازہ غلط ثابت ہوا، اس میں ۱۸۵۷ء کے پس منظر پیش منظر کے حوالے سے مختلف موضوعات پر مضامین ہیں، یہ کوئی مربوط تاریخ نہیں ہے-
(۲) اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ’’سردلبراں در حدیث دیگراں‘‘ نہیں، بلکہ ’’ سرد لبراں درحدیث دلبراں‘‘ کے انداز میں لکھی گئی ہے- جو بات جس گروپ کے خلاف کہی گئی ہے اسی گروپ کے مستند اور معتبر حوالے نقل کر دیے گئے ہیں، اپنی طرف سے بہت کم کہا گیا ہے بلکہ بیشتر مقامات پر تو صرف مخالف کی عبارتیں نقل کرنے پر اکتفا کر لیا گیا ہے-
(۳) یہ کتاب چوں کہ’’ سردلبراں در حدیث دلبراں‘‘ ہے، اس لیے بیشتر مقامات میں وضاحت پر سرّیت غالب ہے- مثلاً مصباحی صاحب نے اپنا ایک مضمون’’ ہندوستان!دارالاسلام یا دارالحرب؟‘‘ اس کتاب میں کیوں شامل کیا ہے؟ بغیر عمیق تفکر کے نہیں سمجھا جا سکتا- اسی طرح’’ علماے صادق پور اور میاں نذیر حسین دہلوی‘‘ کے زیر عنوان مقالہ کو پورے طور پر وہ نہیں سمجھ سکتا جو پہلے سے’’ علماے صادق پور‘‘ کے تعلق سے قابل قدر معلومات نہیں رکھتا-ویسے کتاب کی یہ خصوصیت (سریت) حریف ومتعصب مورخین کے لیے نہایت کاٹ دار اور موثر ہے- شاید یہ بات وضاحت میں نہیں آ پاتی- لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سریت کتاب کی عام فہمیت کو زک پہنچارہی ہے-
(۴) مصباحی صاحب نے بعض مقامات پربہت ہی طویل اقتباسات نقل کر دیے ہیں،ان اقتباسات میں مزید دوسروں کے اقتباسات نقل ہیں، ایسی جگہوں پر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کہاں سے کہاں تک کی عبارت کس کی ہے، اس کا سابقہ خود میرے ساتھ اس کتاب کے دو مضامین میں ہوا اور مجھے کافی غور و خوض کرنا پڑا- ایک ’’ کتب شاہ ولی اللہ میں تحریف والحاق‘‘ میں اور دوسرے’’ تاریخ نویسی سے تاریخ سازی تک‘‘ میں-اسی لیے طویل عبارتیں نقل کرنا جدید طرز تحقیق میں پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا-
(۵)’’مدرسہ دیوبند کے بانی اور مقصد قیام‘‘ کے زیر عنوان مضمون بھی کافی وقیع اور عالمانہ ہے- اس میں فضلاے دیوبند اور محققین دیوبند کے حوالے سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مدرسہ دیوبند کے بانی مولانا قاسم نانوتوی نہیں،سید عابد حسین چشتی ہیں اور یہ بھی محقَق کیا گیا ہے کہ سید عابد صاحب نے جن مقاصد کے لیے ادارہ کی بنیاد رکھی تھی نانوتوی صاحب کے زمام سنبھالنے کے بعد وہ یکسر بدلتے چلے گئے-’’ مقصد قیام‘‘ کے تبدیل ہونے سے متعلق تو مصباحی صاحب کے پیش کردہ حقائق کی روشنی میں کسی اختلاف کی گنجائش نظر نہیں آتی البتہ ’’دارالعلوم کے بانی‘‘ کے تعلق سے جو کچھ کہا گیا ہے اس میں سخن گستری کی کسی قدر گنجائش نکل سکتی ہے-ہاں! مضمون کا بین السطور جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ قیام دارالعلوم دیوبند اور انگریز مخالفت میں کوئی رشتہ نہیں، تاریخ گروں کے لیے ایک چیلنج کا درجہ رکھتا ہے-
(۶) کتاب کا عنوان’’ ۱۸۵۷ء پس منظر و پیش منظر‘‘ اپنے اندر بہت ہی وسعت اور عمومیت رکھتا ہے جب کہ اس کے مندرجات صرف مخصوص پس منظر و پیش منظر کو محیط ہیں- اور وہ ہے وہابی ، دیوبندی، غیر مقلد مورخین کی انقلاب ۱۸۵۷ء کے پس منظر و پیش منظر کی غلط تصویر کشی کا تصفیہ-مصباحی صاحب نے ۱۸۵۷ء کے پس منظر و پیش منظر میں مسلکی حقائق کو پہلی بار ان کی حقیقی صورت میں پیش کیا ہے ، ورنہ اس سے پہلے تو ’’ تھے کواکب کچھ نظر آتے تھے کچھ‘‘—تاہم ۱۸۵۷ء کے پس منظر و پیش منظر کے حوالے سے کم از کم ایک کتاب مزید لکھی جا سکتی ہے، جس میں متعصب ہندو، قوم پرست مورخین اور کمیونسٹ مورخین کی پھیلائی ہوئی تاریخی گمراہیوں کا ازالہ ہو اور ہندی اور انگریزی میں من مانی جو تاریخ سازیاں ہو رہی ہیں، انہیں بے نقاب کیا جائے- اے کاش حضرت مصباحی صاحب اس عظیم کام کے لیے بھی کمر ہمت کس لیں تو جس طرح انہوں نے عوام و خواص اہل سنت کاسر اپنی ان تازہ کتابوں سے اونچا کر دیا ہے، ہندوستان کے عام مسلمانوں کا سر بھی اس کی وجہ سے آبرو مندانہ اٹھ سکے گا-ورنہ وہ اپنے آپ کو تو بس تاریخی مجرم ہی سمجھا کرتے ہیں-
عرض آخر:-انقلاب ۱۸۵۷ء سے متعلقہ مباحث کی پہلی کڑی’’ انگریز نوازی کی حقیقت‘‘ جب زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آئی تو جام نور نے اس وقت اس پر ایک شاندار اور بے لاگ تبصرہ شائع کیا،اس کے بعدپے درپے کتابیں آتی رہیںجب مصباحی صاحب کی یہ چھٹی اور غالباً آخری کتاب شائع ہوئی تو پھر ہم نے اس پر تبصرہ کرنا واجب اور ضروری سمجھا-
جب میں تبصرہ کرنے کے لیے بیٹھا تو دیر تک سوچتا رہا کہ میں مصباحی صاحب کی اس کتاب پر نقد و تبصرہ لکھوں، ان کی کتابوں کا تعارف لکھوں یا خود مصباحی صاحب کے اس عظیم کارنامے کے اعتراف میں ان کا نثری قصیدہ لکھوں-بلاشبہ انہوں نے جماعت کا ایک فرض کفایہ ادا کر دیا ہے، تاریخ سے انصاف کیا ہے، حقائق کو ناحق ذبح ہونے سے بچایا ہے اور تنہا وہ کام کیا ہے جسے کرنے کے لیے ایک بڑی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے- اس لیے میں آخر میں زیر تبصرہ کتاب کی مقبولیت کی توقع ظاہر کرنے کی بجائے جماعت کے ارباب حل و عقد سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ مصباحی صاحب جیسے سر فروش مجاہد اہل قلم کی بھر پور پذیرائی کریں- وہ یقینی طور پر پوری جماعت کی جانب سے بے پناہ شکریے اور اعزاز کے مستحق ہیں-خدا ان کی عمر دراز فرمائے انہیں مزید خدمات کی توفیق بخشے اور ہم نو آموزوں کو ان سے خوب خوب مستفید فرمائے-(آمین)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔