Wednesday 30 August 2017

مرقع انوار (شیخ الاسلام علامہ انوار اللہ شاہ فاروقی کی حیات و خدمات)

0 comments
مرقع انوار
 (شیخ الاسلام علامہ انوار اللہ شاہ فاروقی کی حیات و خدمات)
      تدوین و ترتیب:مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظامی
      صفحات: ۱۲۲۰
      سال اشاعت: ۱۴۲۹ء؍۲۰۰۸ء
      ناشر: مجلس اشاعۃ العلوم، جامعہ نظامیہ، شبلی گنج (حیدر آباد)
      تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی 
شیخ الاسلام علامہ شاہ انوار اللہ فاروقی (۱۲۶۴ھ– ۱۳۳۶ھ؍۱۹۱۷ء) اہل دکن کے لیے تقریبا وہی عظمت و مقام رکھتے ہیں جو اہل شمال کے لیے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رکھتے ہیں- دونوں سنی، حنفی، قادری صوفی و محدث عالم ہیں- دونوں نے ہی اپنی زبان و قلم کو اپنے زمانے کی گمراہیوں اور بد اعمالیوں کے خلاف وقف کر رکھا تھا-البتہ حضرت شیخ الاسلام پر صدیقی جمال غالب تھا جب کہ حضرت محدث بریلوی پر فاروقی جلال- لیکن افسوس کہ حضرت شیخ الاسلام پر اتنا کام نہ ہوسکا جتنا ہونا چاہیے تھا، نیز ہم نے اپنی نادانیوں سے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کے بیچ عصبیت کی ایسی دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں کہ آفاقی شخصیتوں کو بھی ان سے گزرنے نہیں دیتے- یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخ الاسلام انوار اللہ شاہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہم شمالی ہندوستانیوں کی معلومات بے حد محدود ہے- اس تناظر میں مرتب مرقع انوار مولانا شاہ فصیح الدین نظامی کی یہ بات بجا معلوم ہوتی ہے کہ ’’تاریخ کی کتابوں کی چھان بین کے بعد اس بات پر زیادہ حیرت اور افسوس ہوتا ہے کہ شمالی ہند کے تقریباً تمام مؤرخوں نے دکن کے خطے کو یکسر نظر انداز کردیا- نہ وہاں کے صوفیہ کا ذکر ہے اور نہ ان کی بے لوث دینی خدمتوں کا، ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے بھی بندھیاچل کے جنوب میں جھانک کر دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی-‘‘(مرقع انوار، ص۳)
شکایات بر طرف، اس وقت میرے سامنے حضرت شیخ الاسلام علامہ شاہ انوار اللہ فاروقی کی حیات و خدمات پر مولانا شاہ فصیح الدین نظامی کی مرتب کردہ مرقع انوار ہے، جو ضخیم، جامع، مجلد، معیاری، خوب صورت اور دستاویزی ہے- اسے بجا طور پر علامہ انوار اللہ شاہ فاروقی کی شخصیت و خدمات کا انسائیکلو پیڈیا کہا جاسکتا ہے- ترتیب، تدوین اور تزئین میں سلیقہ مندی ہے، ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی مرتب کی عرق ریزی و جاں سوزی کا پتہ چل جاتا ہے، مضامین متنوع ہیں، تکرار نا کے برابر ہے، مرتب کے مطابق اس کی ترتیب و تدوین میں ساڑھے تین سال کا عرصہ لگا ہے- یہ مدت کتاب کی جامعیت کے لحاظ سے کوئی زیادہ بھی نہیں ہے- اس کتاب کی حیثیت ایک مستند ماخذ کی ہوگئی ہے اور ہمیں امید ہے کہ زمانے تک اس سے استفادہ کیا جاتا رہے گا-مرتب موصوف نے اس وقیع دستاویز کو ۱۳؍ مختلف ابواب میں تقسیم کیا ہے اور اگر منظومات و مناقب، عکوس آثار و باقیات اور شجرات کو شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد ۱۶؍ تک پہنچ جائے گی اور کم از کم منظومات کو ایک مستقل باب کا درجہ تو دیا ہی جاسکتا ہے، جس میں حضرت شیخ الاسلام اور جامعہ نظامیہ کے تعلق سے ۲۹؍شعرا کا منظوم خراج عقیدت شامل ہے-
باب اول، شیخ الاسلام: شخصیت، خاندانی پس منظر پر ہے، اس میں ۲۴؍ مقالات/مضامین شامل ہیں، پہلا مقالہ مرتب مرقع کے قلم سے مقدمہ کے عنوان سے ہے جو حیدر آباد ، شیخ الاسلام اور اس تالیف کے پس منظر کو پیش کرتا ہے- باب دوم شیخ الاسلام کی اصلاحی و تجدیدی خدمات پر ہے، اس میں ۱۹؍ مقالات/ مضامین شامل ہیں، اس میں عمومی خدمات پر مضامین کی شمولیت کے ساتھ حضرت کے قائم کردہ جامعہ نظامیہ، دائرۃ المعارف العثمانیہ اور مجلس اشاعۃ العلوم جیسے اداروں کو بھی خصوصیت سے موضوع بنایا گیا ہے- باب سوم شیخ الاسلام کی علمی و ادبی خدمات پر ہے- اس میں دس مقالے ہیں- شروع کے تین شیخ الاسلام معمار اردو زبان و ادب، شیخ الاسلام کی تحریرات روح و دل کے لیے ابر گہر بار، شیخ الاسلام کی تصانیف علم و فن اور بحث کا شاہکار، کے عنوان سے ہیں، جب کہ باقی سات حضرت شیخ الاسلام کی ۵؍ اہم کتابوں مقاصد الاسلام، انوار احمدی، الکلام المرفوع، افادۃ الافہام اور بشریٰ الکرام کے تعارف و تبصرہ پر مشتمل ہیں- باب چہارم شیخ الاسلام بحیثیت صوفی کامل کے عنوان سے ہے- باب پنجم شیخ الاسلام کے تلامذہ و خلفا کے احوال پر مشتمل ہے- مرتب مرقع مولانا فصیح الدین نظامی نے اس باب کے اندر آصف سادس نواب میر محبوب علی خاں، آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں سمیت شیخ الاسلام کے ۱۲؍ مشہور تلامذہ کے حالات قلم بند فرمائے ہیں جب کہ چار خلفاے طریقت کے حالات مولانا محمد محی الدین قادری محمودی نے لکھے ہیں-
باب ششم شیخ الاسلام کی متاع عزیز جامعہ نظامیہ پر ہے- ہفتم کا عنوان ہے شیخ الاسلام جامعہ نظامیہ اور شاہی فرامین، گویا اس کا تعلق بھی جامعہ نظامیہ سے ہی ہے- اس ایک موضوع کے تحت ان دو ابواب پر ۲۱۴؍ صفحات صرف ہوگئے ہیں- میرے خیال سے یہاں فصیح الدین نظامی صاحب کی فیاضی اسراف و تبذیر کے دائرے میں داخل ہوگئی ہے جس کا عذاب بہر حال مرقع انوار کے خریداروں کو جھیلنا ہے-
باب ہشتم شیخ الاسلام کے افکار و نظریات پر مشتمل ہے- اس میں ۱۲؍ موضوعات پر شیخ الاسلام کی گراں قدر تحریروں کے خوب صورت اور جامع اقتباسات شائع ہوئے ہیں- اس کی ترتیب و پیش کش پر فاضل مرتب کے لیے دعائیں نکلتی ہیں-
باب دہم کا عنوان ہے شیخ الاسلام کے معاصر عالمی علما و مشائخ کرام- اس میں دنیا کے ۲۳؍ بڑے عالموں اور اسکالروں کا ذکر ہے- ان ۲۳؍ خوش نصیبوں میں جرجی زیدان، فتحی پاشا زغلول، سید جمال الدین افغانی اور امام محمد عبدہ بھی شامل ہیں- یہ پورا باب مرتب مرقع کی نوک قلم سے معرض تحریر میں آیا ہے- موصوف نے ان تمام مشاہیر کا ذکر مرقع انوار میں کیوں گھسایا ہے، ہم نہیں سمجھ سکے- خصوصاً جرجی زیدان کا نام دیکھ کر اچانک دل میں خیال آیا کہ اگر مقصد صرف حضرت شیخ الاسلام کے معاصر مشاہیر کا ذکر تھا تو ڈارون(۱۸۸۲ء) کارل مارکس(۱۸۸۳ء) اور ہٹلر(۱۹۴۵ء) اس باب میں باریاب ہونے سے کیوں محروم رہ گئے؟ اور اگر جمال الدین افغانی(۱۸۹۷ء) کو اس باب میں شرف یابی کا موقع دیا گیا تو سرسید ہندوستانی (۱۸۹۸ء) کو کس جرم کی پاداش میں روک دیا گیا؟
باب یازدہم میں شیخ الاسلام کے تعلق سے مشاہیر کے تاثرات ہیں- آخر میں دو عنوانات شیخ الاسلام القاب و آداب کے آئینے میں اور شیخ الاسلام کی شخصیت و خدمات پر تحقیقی کتب و مقالات کے ذیل مفید مواد جمع کردیا گیا ہے-
باب دوازدہم و سیزدہم میں علی الترتیب عربی اور انگریزی میں شیخ الاسلام کی شخصیت و خدمات پر مضامین شامل کیے گئے ہیں- ان دونوں ابواب نے ۳۳۰؍ صفحات لیے ہیں- عربی نے ۱۸۴؍ صفحات اور انگریزی نے ۱۴۶؍ صفحات- اردو کے غریب قارئین تو جان پر کھیل کر بے کار کے یہ ۳۳۰؍ صفحات خرید ہی لیںگے لیکن نظامی صاحب کو عربی اور انگریزی کے قارئین پر ضرور ترس کھانا تھا کہ آخر وہ ۱۸۴؍ یا ۱۴۶؍ صفحات کے لیے اس ضخیم بار کو اٹھانے کے مکلف کیوں کر ہوںگے؟ یہ تو تکلیف مالایطاق کے قبیل سے ہوگا- دراصل بات یہ ہے کہ جناب مولانا شاہ فصیح الدین نظامی صاحب نے شعوری یا غیر شعوری طور پر مروجہ سوانحی دستاویزات؍ نمبرات کی تقلید کی ہے، جن میں بلاوجہ یہ ’’بدعت سیئہ‘‘ رائج ہوگئی ہے کہ شخصیت کی عظمت کو دکھانے کے لیے سوانحی کتاب یا نمبر کی ضخامت بڑھائی جاتی ہے- دانستہ طور پر عربی اور انگریزی میں ایک دو مضامین بطور لازمی و ضروری شامل کرکے شتر گربہ کا منظر پیش کیا جاتا ہے اور اپنے ممدوح کی محبت کا جوش ایسا غالب ہوتا ہے کہ اس قبیح منظری کا ہوش تک نہیں رہتا- اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عربی و انگریزی میں ایک دو مضامین شامل کردینے سے ممدوح کا یہ بھاری قصیدہ شیخ ازہر اور امام حرم کے دارالمطالعے یا آکسفورڈ اور کیمبرج کی لائبریریوں کی زینت بن جائے گا تو ایں خیال ست و محال ست و جنوں-
ان تیرہ ابواب کے علاوہ مرقع انوار کے اندر مختلف صفحات پر خطاطی کے نمونے، خوب صورت نقشے، دل آویز اشتہارات، اقوال و اقتباسات او رمنظومات شامل ہیں- شروع کے ۶۲؍ صفحات رنگین آرٹ پیپر ہیں، جن پر کتاب کے اندرونی ٹائیٹل صفحہ، کتاب کی تفصیلات، فہرست اور حضرت شیخ الاسلام کے آثار و باقیات کے دیدہ زیب عکوس ہیں- کتاب کے اندر شجرات خانوادۂ شیخ الاسلام اور شجرات طریقت کی شمولیت نے بھی رونق و افادیت میں اضافہ کردیا ہے-
باب اول میں مقدمہ کے بعد ص:۲۵ پر ’’شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ شاہ فاروقی بیک نظر‘‘ کے عنوان سے مولانا حافظ محمد شبیر احمد نظامی نے حضرت شیخ الاسلام کا آئینہ ایام پیش کیا ہے- اس کا ایک ذیلی عنوان ہے ’’حضرت کے ملکی ہم عصر ادیب‘‘ اور ادیبوں کی فہرست میں حضرت سید محمد اشرفی میاں کچھوچھوی اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کے نام شامل ہیں- اس کے بعد ایک ذیلی عنوان ہے ’’عالمی معاصرین‘‘ اور اس کے ذیل میں حضرت وارث علی شاہ اور حضرت مہر علی شاہ گولڑوی کے نام شامل ہیں، یہ باتیں میرے ذوق پر گراں گزریں- ایک اور ذیلی عنوان ہے ’’وہ باطل نظریات جن کا آپ نے رد فرمایا‘‘ اور اس کے ذیل میں ہے: ’’وہابیہ، شیعہ، قادیانیت، غیر مقلدیت، قدریہ، معتزلہ، جبریہ اور اہل قرآن-‘‘ اس فہرست میں ایک تو ادبی نقص ہے کہ باطل نظریات اور باطل جماعتوں کے نام پے در پے درج کیے گئے ہیں- یا تو صرف باطل جماعتوں کا نام ہوتا یا صرف باطل نظریات کا- دوسری بات جس کے تعلق سے میں سوچنے لگا وہ یہ تھی کہ شیخ الاسلام نے وہابیہ کا رد تو فرمایا لیکن اس کے بطن سے پیدا ہونے والے دیابنہ کے بارے میں ان کے خیالات کیا تھے؟ جستہ جستہ پورے مرقع انوار کو پڑھ لینے کے بعد بھی یہ عقدہ مجھ پر نہ کھل سکا اور میں اب بھی سوچ رہا ہوں- شاید مرتب مرقع جناب فصیح الدین نظامی صاحب اس سے مطلع فرمائیں- واضح رہے کہ شمال میں دیوبندیت کے سب سے بڑے ناقد امام احمد رضا محدث بریلوی شاہ انوار اللہ فاروقی کے قدردان تھے- ایک خط میں حضرت شیخ الاسلام کو محدث بریلوی نے ان الفاظ سے مخاطب کیا ہے:
’’بشرف ملاحظہ والائے حضرت بابرکت جامع الفضائل لامع الفواضل شریعت آگاہ طریقت دست گاہ حضرت مولانا الحاج مولوی محمد انوار اللہ خان صاحب بہادر بالقابہ العز‘‘(کلیات مکاتیب رضا ۱؍۱۰۶)
رئیس القلم علامہ ارشد القادری نور اللہ مرقدہ جو زبان و قلم سے دیوبندیت کے خلاف ہمہ دم محاذ آرا رہے، حضرت شیخ الاسلام کے تعلق سے مثبت خیالات رکھتے تھے- آپ نے علامہ شاہ انوار اللہ فاروقی کی کتاب انوار احمدی کی تلخیص و تسہیل بھی فرمائی جو آج بھی مکتبہ جام نور دہلی سے شائع ہو رہی ہے- اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت رئیس القلم لکھتے ہیں: ’’انوار احمدی کا مطالعہ کر کے میں حضرت فاضل مصنف کے تبحر علمی، وسعت مطالعہ، ذہنی استحضار، قوت تحقیق، ذہانت و نکتہ رسی اور بالخصوص ان کے جذبۂ حب رسول اور حمایت مذہب اہل سنت کی قابل قدر خصوصیات سے بہت زیادہ متاثر ہوا-‘‘ اسی پیش لفظ میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’جی چاہنے لگتا ہے کہ نوک قلم کو آنکھوں سے لگالیں، ہونٹوں سے چومیں اور دل میں اتارلیں-‘‘
بہر کیف! مرقع انوار جماعت اہل سنت کا ایک علمی، تاریخی اور دستاویزی سرمایہ ہے، جس کی پیش کش پر مولانا شاہ فصیح الدین نظامی اور اشاعت پر مجلس اشاعۃ العلوم، جامعہ نظامیہ شبلی گنج (حیدر آباد) بے پناہ مبارک بادیوں کے مستحق ہیں اور جس کو ملک و بیرون ملک کی لائبریریوں اور دانش گاہوں تک پہنچانا خیر خواہان سواد اعظم کا دینی فریضہ ہے- اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس علمی کوشش کو قبول و عام فرمائے(آمین!)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔