Thursday 31 August 2017

اقبال ایک عاشق رسو ل کی حیثیت سے ------ مصنف: ڈاکٹر محمد ہارون الرشید قادری

0 comments
اقبال ایک عاشق رسو ل کی حیثیت سے
          مصنف: ڈاکٹر محمد ہارون الرشید قادری
          صفحات: -۲۱۶
          سال اشاعت:-۲۰۰۵ء
          ملنے کا پتہ: فاروقیہ بکڈپو،مٹیا محل ،جامع مسجد،دہلی۔۶
          تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی  
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کوئی بھی مسلمان اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک ذات رسول مقبول فدا ہ ر وحی علیہ السلام اس کے نزدیک اس کے ماں باپ ،احباء و اقرباء، تمام انسانوں بلکہ اپنی جان سے عزیز تر نہ ہو جائے (بخاری) اقبال جو ایک مرد مومن تھے ان کے اندر بھی یہ دولت سر مدی وافر مقدار میں موجود تھی ، زیر نظر کتاب میں علامہ کی اردو اور فارسی شاعری کی روشنی میں علامہ کی بلند قامت شخصیت کے اسی پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، فاضل محقق جناب ہارون الرشید قادری نے کم صفحات میں اس موضوع پر مواد کا انبار لگا دیا ہے، اس کا اظہار محترم سید حامد کے اس برملا اعتراف سے بھی ہوتا ہے کہ ’’ منجملہ دوسرے فیوض کے اس (کتاب) نے اس پیش لفظ نگار کو ایک طرف صنف نعت کے ارتقا اور دوسری طرف اقبال کے نعتیہ کلام کے بہت سے نہفتہ گوشوں سے آگاہی بہم پہنچائی ہے ۔‘‘ (ص: ۱۸)
زیر نظر کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے، پہلا اور دوسرا باب ’’ اردو شاعری میں عشق رسول کی روایت‘‘ اور ’’ اقبال اور مذہب ‘‘ دراصل موضوع سخن کے لیے تمہید ہیں، صرف تیسرا اور چوتھا باب کا تعلق ہی اصل موضوع سے ہے، کتاب کے شروع میں پروفیسر فاروق احمد صدیقی کا مقدمہ اور جناب سید حامد کا پیش لفظ بھی ہے، صدیقی صاحب کا مقدمہ پڑھ کر معلوم ہوا کہ یہ کتاب مصنف محترم کی پی ایچ ڈی کی تھیسس ہے، جو صدیقی صاحب کی نگرانی میںتیار کی گئی ہے، اور پیش لفظ سے کتاب کی اہمیت ، افادیت اور انفرادیت کا اندازہ ہوتا ہے، سید صاحب نے کتاب کی علمیت پر گفتگو فرما تے ہوئے لکھا ہے کہ’’ ہمارے محتاط مصنف نے بعض بدیہی امور میں بھی صرف اپنی رائے پر انحصار نہیں کیا ہے، بلکہ تائید کرنے والی دوسری رایوں کی نشاندہی بھی کی ہے، عام تصورات و مفروضات کو بھی مصنف تحت تحقیق لاتا ہے‘‘ (ص: ۱۳)
مجھے سید صاحب کی رائے سے یک گونہ اختلاف ہے ،کیونکہ’’ باب سوم‘‘ کے ابتدائی صفحات پڑھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف بغیر کسی دعویٰ کے بھی دلیل میں حوالے پیش کرتے جاتے ہیں اور پھر دلیل ہی دعویٰ بن جاتی ہے، یہ مصنف کا انفرادی کمال ہے۔
مصنف محترم نے صفحہ ۲۳ پر ’’ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی اہمیت‘‘ کے ذیل میں لکھا ہے:’’ مذہب اسلام کا رشتہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہی ہے جو جسم کا روح کے ساتھ ہے،کیوں کہ اسلام کی بنیاد ہی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے، عشق رسول ہی سے اتباع رسول ہے اور اتباع رسول ہی طاعت ربانی ہے، جیسا کہ علامہ شیخ سلیمان نے الجمل میں ارشاد فرمایا ہے کہ’’ محبت ارادہ طاعت کا نام ہے اور طاعت باری کے لیے اتباع رسول لازم ہے۔‘‘ (ص: ۲۳)
مجھے یہاں دعویٰ اور دلیل کی موافقت میں ذرا تامّل ہے ، کیوں کہ دعویٰ ’’ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اساسِ اسلام ہونے کا ہے‘‘ جب کہ دلیل کی آخری کڑی اتباع رسول پر ٹوٹ جاتی ہے، یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ عشق رسول اور اطاعت رسول ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں یا ان میں کچھ فرق بھی ہے؟ پھر یہ کہ کیا عشق کے بغیر اطاعت رسول یا اطاعت رسول کے بغیر عشق رسول کا پایا جانا ممکن ہے؟ ہم نے بہت سے عشاقان رسول کو دیکھے ہیں جو اپنی نمازیں ہند میں نہیں مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ  میں ہی پڑھا کرتے ہیں، کیا ان کاعشق بھی عشق ہی ہے؟
گفتگو چونکہ علامہ اقبال کے واردات عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، اس لیے ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اقبال ایک بڑے عاشق تھے یا بڑے مفکر اور داعی وحدت امت ؟ آج ایک شخص سنتوں کی پیروی میں اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے اور دوسرا و ہ شخص ہے جو صرف گفتار کا غازی ہے ، عمل پر فکر غالب ہے، دونوں میں سے ہم عاشق رسول یا بڑا عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسے کہہ سکتے ہیں؟ کتاب کا عنوان ’’ اقبال ایک عاشق رسول کی حیثیت سے ‘‘ ہے، اس لیے اس میں ان مباحث کو فاضل مصنف کو چھیڑنا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہ کر کے انہوں نے صرف اقبال کی اردو اور فارسی کے نعتیہ اشعار جمع کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے، جو بہر حال ہم جیسے اقبال نا آشنائوں کے لیے غنیمت ہے، ویسے مواد کے پیش نظر کتاب کا عنوان ’’ اقبال کی نعتیہ شاعری ‘‘ ہوتا تو مطابقت زیادہ ہوتی ۔
مصنف کا جو اقتباس میں نے اوپر نقل کیا ہے اس کے آخر میں انہوں نے بطور استشہاد علامہ اقبال کا یہ شعر بھی پیش کیا ہے   ؎
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات
ایسے ہی’’ اقبال کا عشق رسول اردو شاعری میں ‘‘ کے ذیل میں’’ مسجد قرطبہ‘‘ والی نظم کے بعض اشعار نقل کیے ہیں جن میں لفظ عشق کا ذکر ہے مثلاً
اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت وبود
اس طرح اور بھی بہت سے اشعار فاضل محقق نے نقل کیے ہیں جن میں لفظ ’’ عشق‘‘کا ذکر ہے ، میرا خیال ہے کہ علامہ اقبال کا تصور’’ عشق‘‘ جسے وہ لفظ‘ ’’عشق‘‘ سے پیش کرتے ہیں ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے، اس کا دائرہ عشق رسول تک ہی نہیں ہوتا ، ورنہ مثلاً اس شعر کو کیا کہیں گے  ؎
بے خطر کو د پڑا آتش نمردو میں عشق
عقل تھی محو تماشاے لب بام ابھی
صفحہ ۱۱۲ پر جناب ہارون الرشید قادری رقم طراز ہیں:
’’ بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہی فلاح و تقویٰ کا معیار ہے، کیوں کہ ان کے توسل سے اہل دنیا کو ایسی کتاب ملی جو جامع اور ہمہ گیر تعلیم کی حامل ہے۔‘‘
قطع نظر اس سے کہ بانی اسلام کا اطلاق پیغمبر دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسا ہے؟ ہمیں موصوف کے دعویٰ اور دلیل کے بیچ ایسی خلیج نظر آ رہی ہے، جسے کم از کم ہم نہیں پاٹ سکتے، علاوہ ازیں ’’ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کو تقویٰ کا معیار قرار دینے میں بھی ہمیں تامل ہے، کیوں کہ کسی کی تقویٰ شعاری اور اتباع سنت رسول کو دیکھ کر ،اسے معیار بنا کر ہم یہ فیصلہ تو کر سکتے ہیں کہ وہ محب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے، لیکن ہم کسی کی محبت رسول کو معیار بنا کر اس کے متقی ہونے کا فیصلہ کیسے کر یں گے، یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، بات اگر اس طور پر کہی جائے کہ ’’ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت فلاح کی ضامن اور تقویٰ شعاری کے لیے محرک عامل ہے‘‘ تو میرے خیال میں مد عا زیادہ واضح اور قرین حقیقت ہو گا۔
اسی صفحہ پر مصنف نے یہ جملہ بھی لکھا ہے ’’ نبی ہی کی وہ ذات اقدس ہے جو لائق محبت ہو سکتی ہے۔‘‘ ہر چند کہ مصنف کی مراد یہاں پر حقیقی حصر نہیں ہے، تا ہم اس قسم کے جملوں سے جاہل صوفیوں اور عوام  میں غلط احساس بیدار ہوتا ہے اورعملی اسلام سے دوری پیدا ہونے لگتی ہے، میرا خیال ہے کہ ایسے جملوں سے احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، واضح رہے کہ میں یہ بات اسی پس منظر میں کہہ رہا ہوں جس پس منظر میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے عوام کے سامنے احادیث شفاعت سنانے سے منع کیا ہے، اور یہ وضاحت اس لیے تاکہ شک کی سوئی اسامہ پر نہ اٹھے ۔
فاضل مصنف نے ص: ۱۷۷ پر مولانا عبد السلام ندوی کا ایک اقتباس نقل کیا ہے جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے:’’ ڈاکٹر صاحب کے دل میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت محبت الٰہی پر بھی غالب ہے‘‘ یہ جملہ لغویت کی حد تک غلط ہے، علاوہ اس کے فاضل مصنف نے اسے اقبال کی مدح میں پیش کیا ہے، حالانکہ یہ سراسر اقبال کی مذمت ہے، اسے یا تو انہیں ذکر ہی نہیں کرنا چاہیے تھا یا ذکر کرتے توندوی صاحب کی غلط فہمی کا ازالہ ان پر لازم تھا۔
ص: ۱۲۱ پر مصنف نے عنایت اللہ عارف کا یہ اقتباس نقل کیا ہے ’’ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے گرد اقبال کا پورا پیغام گھوم رہا ہے‘‘ بات صد فی صد درست ہے،اس طرح کے اور بھی اقتباسات مصنف نے جمع کیے ہیں، لیکن اس قسم کے مسائل کے تعلق سے عصر جدید میں وہابی ازم کے فلسفے نے جو شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں ، ان کے پیش نظر ان مسائل پر مصنف کو تنقید ی اور علمی بحث کرنی تھی، لیکن انہوں نے اختصار سے کام لیا ہے ویسے بھی آج کل پی ایچ ڈی کرنے والوں کے پاس وقت کم رہتا ہے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید صاحب نے عشق رسول کے حوالے سے اقبال کے بہت سے ایسے اشعار پیش کیے ہیں جن کو پڑھنے کے بعد اقبال کے اندرون کا احساس ہوتا ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کے جن پہلوئوں کو اب تک زیادہ اجاگر کیا گیا ہے ، اقبال کا ’’جہان عشق رسول‘‘ ان سے کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی اس کتاب کو پڑھنے کے دوران اقبال کا یہ شعر پہلی بار نظر سے گزرا  ؎
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میںپھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
اس شعر کے دوسرے بہت سے گوشوں سے قطع نظر لفظ بندہ کا اطلاق بھی قابل توجہ ہے۔ وہ لوگ جو امام احمد رضا بریلوی کے اپنے آپ کو عبد مصطفیٰ کہنے پر چراغ پا ہو جاتے ہیں انہیں چاہیے کہ اقبال کے مزار پر جا کر اپنا سر پھوڑ لیں تاکہ لفظ ’’عبد‘‘ کے اطلاق کے تعلق سے ان کے ذہنوں میں جو الجھن ہے وہ رفع ہو جائے۔
فی الجملہ یہ کتاب ’’ اقبال اور عشق رسول ‘‘ کے موضوع پر ایک اہم پیش کش ہے، اسلوب نگارش میں تحقیقی روح ہے، زبان بھی سادہ و سلیس ہے، اقبالیات میں اسے ایک اضافہ کہنا چاہیے اور حلقہ ٔ  علم و ادب میں اسے شایان شان پذیر ائی ملنی چاہیے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔