Thursday 31 August 2017

نفرت کی تجارت

0 comments
نفرت کی تجارت 
                                            از قلم: ضیاء الرحمٰن علیمی
 ------------------------------
نفرت کے دو سودا گر:- 
۱۴مئی ۲۰۰۸ کو اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساٹھ سال مکمل ہوگئے ہیں، سنگھ پریوار کے محبوب ترین ملک اسرائیل میں اس وقت جشن کا سلسلہ جاری ہے، اس جشن کو ’’جشن جنگ آزادی‘‘ کا نام دیا گیا ہے لیکن مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان ساٹھ سالوں کو کس نام سے یاد کیا جائے، گناہ کے ساٹھ سال کہیں یا نسل کشی کے ساٹھ سال، بربریت کے ساٹھ برس قرار دیں یا حقوق انسانی کی پامالی کے ساٹھ برس، میرا خیال یہ ہے جو بھی کہہ لیا جائے بالکل درست اور عین مناسب ہے-یہ وہی ’’جنگ آزادی‘‘ تھی جس میں ہونے والی نسل کشی کے متعلق اسرائیلی مورخ ’’بینی مورس‘‘ نے نہایت بے شرمی کے ساتھ لکھا ہے کہ اس میں سات لاکھ فلسطینیوں کا قتل عام ضروری تھا، کیوںکہ تاریخ میں بسا اوقات ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نسل کشی کا جواز فراہم ہوجاتا ہے اور ایسی ہی دہشت گرد ریاست کے جشن آزادی کے ’’سنہری موقع‘‘ پر اسرائیل حاضری کے دوران امریکہ کے ’’صدر ذی وقار‘‘ ’’حقوق انسانی کے علمبردار‘‘ جارج واکر بش نے اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کی خوب ثنا خوانی کی اور فر مایا کہ اسرائیل کا قیام در اصل بائبل کی پیش گوئی کی تکمیل اور ابراہیم و موسی اور داؤد (علیھم السلام ) سے کئے گئے رب تعالیٰ کے ایک وعدے- یعنی اولاد اسرائیل کے وطن کا تحفظ ہے-
اس وقت ہمیں قضیۂ اسرائیل اور فلسطین سے کوئی سرو کار نہیں ہے، اسرائیل کا تذکرہ صرف اس مناسبت سے آگیا کہ اسرائیل اور سنگھ پریوار میں چند باتیں مشترک ہیں، دونوں ہی نفرت کے سوداگر ہیں، وہاں صہیونی نظریہ سرگرم عمل ہے تو یہاں ہندو ازم کے احیا کا، وہ فلسطینیوں کے دشمن ہیں تو یہ ہندوستانی مسلمانوں کے، اور یہ دونوں ہی اسلام اور مسلمانوں کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں-
خمیر میں نفرت: -
 ہندو مت کے احیا کی نمائندہ سب سے قدیم تنظیم آر ایس ایس ہے جو اکثر ی طور پر اعلیٰ طبقات کے ان ہندوؤں پر مشتمل ہے جن کا تعلق ہندوستان کے شہروں میں رہنے والے متوسط گھرانے سے ہے، اس تنظیم نے اپنے روز اول سے ہی نفرت کی کاشت کی ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو بگاڑا ہے اور اس ملک کی جمہوری فضا کو زہرآلود کرنے کی کوشش کی ہے، ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا، ہمیشہ مسلمانوں کو مشکوک نظر سے دیکھتی ہے گویا یہ کہہ لیا جائے کہ اس کی پوری تاریخ ہی نفرت کی داستان سے بھری ہوئی ہے-
نفرت سے بھری اس تاریخ سے اگر کوئی مسلمان پردہ ہٹانے کی کوشش کرے تو شاید مشتبہ قرار دے دیاجائے، لیکن ہم یہاں ایسے ملک کے مورخ کی شہادت پیش کریںگے جو آر ایس ایس کا فیوریٹ ملک ہے اور جس ملک کے مورخ کی شہادت ناقابل تردید ہوگی، آرنٹ شانی (Ornit Shani) حیفہ یونیورسٹی اسرائیل کے ڈپارٹمنٹ آف ایشین اسٹڈیز میں لکچرار ہیں، فرقہ وارانہ فسادات اور قتل عام کے واقعات میں سنگھ پریوار کے رول سے متعلق ۲۱۵ صفحات پر مشتمل ان کی ایک کتاب کیمبرج یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے Communalism, caste and Hindu Nationalism the voilence in Gujrat اس کتاب میں انھوںنے ہندوستان میں ہوئے مسلم کش فسادات، اس کے در پردہ عوامل اور پھر اس میں سنگھ پریوار کے رول کا علمی انداز میں بڑی گہرائی سے جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ ہندوستان میں ذات پات کی سیاست سے ہندو قومیت کے جذبات کو فروغ ملا ہے (کتاب پر مکمل تبصرہ ملاحظہ کرنے کے لیے دیکھئے اے جی نورانی کا مقالہ Origins of hatred ، فرنٹ لائن شمارہ ۲۳ مئی ۲۰۰۸) اور ان کے اس موقف کی تائید اس واقعے سے ہوتی ہے کہ ۱۹۹۰ میں جب وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کی رپورٹ کو عملی جامہ پہنانے کی بات کہی تو اس کے رد عمل میں اڈوانی نے رتھ یاترا شروع کی اور مسلم مخالف ایجنڈوں اور ہندو قومیت کی اساس پر ہندوؤں کو متحد کرنے کی کوشش کی ، یوں ہی گجرات میں ہونے والا ۱۹۸۵ کا حادثہ جو در حقیقت ذات برادری کا تنازعہ تھا حیرت انگیز انداز میں فرقہ وارانہ تشدد میں اسی لیے بدل گیا تھا کہ اس وقت ہندو قومیت کا سہارا لے کر بھڑکتے ہوئے ذات پات کے جذبات کو مسلم مخالف جذبات میں تبدیل کردیا گیا اور اسی لیے ماہرین کا ماننا ہے کہ ہندو قومیت کانعرہ دراصل اس بے چینی اور اضطراب کو چھپانے کی کوشش تھی جو نچلی ذاتوں پر ان کی کمزور پڑتی گرفت کی بنا پر پیدا ہوا تھا-
کمیونلزم اور ہندو شناخت جسے ہم ایتھنو ہند وازم کا نام بھی دے سکتے ہیں ایک ایسا فینو منا ہے جس نے ۱۹۸۰ کی دہائی سے زور پکڑنا شروع کیا اور پھر آہستہ آہستہ پورا ملک اس کی گرفت میں چلا گیا، اسی مسئلے کو اچھال کر ۹۳-۱۹۹۲ میں ممبئی کے مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور ۲۰۰۲ میں گجرات کے مسلمانوں کا نسلی صفایا کرنے کی کوشش کی گئی، ان کے علاوہ اور دوسرے صوبوں میں بھی انہی جذبات کا سہارا لے کر مسلم کشی کے واقعات انجام دیے گئے، ایسے حالات میں ریاستی حکومتوں کا یہ فرض تھاکہ وہ مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات کرتیں اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے مضبوط منصوبے بناتیں لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ کبھی تو اس طرح کے حادثات کو روکنے میں دل چسپی نہ دکھا کر اور کبھی ان واقعات کی انجام دہی میں سرگرم حصہ داری کے ذریعہ اس بات کا ثبوت فراہم کیا گیا کہ سخت گیر ہندو ذہنیت اعلیٰ حکومتی طبقے پر بھی اثر انداز ہے- بسا اوقات فرقہ وارانہ فساد پھیلانے والے ہندوؤں کی قیادت خود پولس نے کی، پولٹیکل وائے لینس اینڈ دی پولس ان انڈیا کے مصنف کے ایس سوبرامنیم نے اترپردیش پولس آفیسر وی بھوتی نارائن رائے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ۱۹۳۱ سے لے کر ۱۹۹۳ تک دس ہندو مسلم فسادات میں پولس نے غیر جانب دار قانون نافذ کرنے والی جماعت کے طور پر کام نہیں کیا بلکہ ایک ہندو فوج کے طور پر کام کیا اور آج کل تو صورت حال بہت زیادہ بگڑ چکی ہے، آئے دن ہونے والے فیک پولس انکاؤنٹر کے واقعات اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور پولس اسکنڈل کی دوسری خبروں نے پولس کے حوالے سے لوگوں کے اعتبار کو ہی متزلزل کردیا ہے اور اب یہ حقیقت طشت از بام ہوچکی ہے کہ ہندو تو کا دائرہ ٔ اثر صرف اعلیٰ حکومتی طبقے تک ہی محدود نہیں بلکہ قانون کے محافظوں تک پھیلا ہوا ہے اور مسلم کش فسادات میں وہ وہی رول ادا کرتے ہیں جو سنگھ پریوار انہیں ڈکٹیٹ کرتا ہے-
ہندوستانی سماج کو خطرہ: -
 اس وقت آر ایس ایس کی ایک سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی کرناٹک میں فتح کے نشے میں چور ہے اور سنگھ پریوار کی ذہنیت رکھنے والے لوگوں نے ایک بار پھر سے نفرت کا بازار گرم کر رکھا ہے، ہندو قومیت کو اچھالا جارہا ہے، اشتعال انگیزی کی کوشش کی جارہی ہے، مسلمانوں کو آمادہ تشدد ہونے پر مجبور کیا جارہا ہے لیکن انداز اس بار مختلف ہے، اس مرتبہ تکنالوجی کا سہارا لیا گیا ہے- ریڈف میسج ڈاٹ کام، یوٹیوب اور اس جیسے دوسرے میسیج بورڈ پر ایسے میسیج بھیجے جارہے ہیں جو مذہبی منافرت پھیلانے والے اور مسلمانوں کے خلاف ہندو جذبات بھڑکانے والے ہیں اور جو پیغمبر انسانیت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی والے کلمات پر مشتمل ہیں- ریڈف ڈاٹ کام کو بھیجے گئے ایک میسیج میں لکھا ہے ’’ہم متحد ہو کر دنیا پر حکومت کرسکتے ہیں، اگر ہندوستان کے سارے ہندو متحد ہوجائیں تو ہم ۲۰۱۲تک آسانی کے ساتھ دنیا کے سپر پاور اور حاکم بن سکتے ہیں‘‘ ایک دوسرے میسیج میں لکھا ہے ’’ہندوستان ایک ہندو راشٹر ہے اس لیے ہندوستانی جھنڈے کا رنگ صرف زعفرانی اور سفید ہونا چاہیے‘‘ گجرات میں کامیابی کے بعد نریندر مودی کے خطاب سے متعلق یوٹیوب کو ۵۲ ہزار پیغامات موصول ہوئے تھے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے - اس کے ایک پیغام میں لکھا ہے ’’مسلمان کیوں دہشت گرد ہیں؟ وہ کیوں مجرمانہ کردار کے حامل ہیں؟ وہ ہر جگہ اپنے سماج پر بوجھ ہیں، ہمیں ان کو ہندوستان سے بھگا دینا چاہیے‘‘، دوسرے میسیج میں لکھا ہے ’’ہندوستان میں غربت اور جرائم کے بنیادی طور پر ذمہ دار اسلام اور مسلمان ہیں‘‘، یو ٹیوب کے ایک میسیج میں تو سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایسی ہرزہ سرائی کی گئی ہے کہ ان کو قید تحریر میں لانا دشوار ہے- (دیکھیے تہلکہ ، شمارہ ۷ جون ۲۰۰۸)
دعوت فکر:- آخر کون ہیں جو اس طرح کے میسیج لکھتے اور ان کو عام کرتے ہیں، ذہن و فکر پر ذرا زور ڈالیں تو واضح ہوجائے گا کہ یہ ہندوؤں کا انگریزی داں متوسط طبقہ ہے جو ہندو تو کا دلدادہ اور پوری دنیا میں ہندوتو کے غلبے کا خواہاں ہے، انہیں ہندوستانی قومیت سے کوئی سرو کار نہیں ہے بلکہ ہندو قومیت ان کے ماتھے کا جھومر اور ہندو شناخت ان کا تمغۂ امتیاز ہے، ان کے کچھ بیہودہ میسیج کو ہم باتھ روم کی بکواس کہہ کر خارج کرسکتے ہیں لیکن وہ میسیج جن میں استدلال، عقلیت اور تاریخ کا سہارا لیا گیا ہے انہیں ہم یکسر نظر انداز نہیں کرسکتے بلکہ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہندوستان میں عقلیت پسندوں کا بھی ایک طبقہ فاسشٹ ہے اور یہ طبقہ ہندوستان میں اتنا ہی سرگرم عمل ہے جتنا کہ صہیونی طبقہ اسرائیل میں-
اب اس طرح کے میسیج پر اطلاع پانے کے بعد اگر مسلمان بھڑک جائیں اور پر تشدد و اقعات رونما ہوجائیں تو فورا مسلمانوں پر یہ الزام لگا دیا جائے گا کہ ان کے یہاں رواداری نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے- یہ ہمیشہ دہشت پھیلانے کے لیے تیار بیٹھے رہتے ہیں اور یہ کہا جائے گا کہ مذہب اسلام میں ہی کچھ ایسی باتیں ہیں جن کی بنا پر مسلمان فورا اشتعال انگیزی پر اتر آتے ہیں- اس کے علاوہ اور بھی نہ جانے کیسی کیسی دل آزار باتیں کہی جائیںگی ، لیکن اس حقیقت کو مد نظر رکھنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہوگاکہ رد عمل میں ہونے والے تشدد سے زیادہ وہ دانستہ عمل قابل مذمت ہے جس نے تشدد بھڑکانے کا کام کیا ہے، ویسے بھی تشدد کے لیے صرف اسلحے کا ہی استعمال ضروری نہیں ہے بلکہ سافٹ ویر کے اس دور میں سافٹ وائے لینس بھی اپنے عروج پر ہے- کھلے ذہن کے ساتھ اگر اس مسئلے پر غور و فکر کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ مسلمان نہ تو نفرت کی تجارت کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو اس کی اجازت دیتے ہیں، ان کا مذہب انہیں اس بات کی اجازت نہیں د یتا کہ وہ دوسرے مذاہب کے ’’ مذہبی رہنماؤں‘‘ کے تعلق سے دشنام طرازی کریں یا ان کے رسوم و روایات کا مذاق اڑائیں اور نہ ہی اس کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی مقدس ہستیوں کے تعلق سے گستاخانہ تحریر و تقریر چپ چاپ پڑھتے اور سنتے رہیں-
اسلام وہ مقدس مذہب ہے جس نے قبیلوں میں بٹی عرب قوم کو اخوت کی لڑی میں پرو دیا ، مسلمان جہاں گئے انھوںنے اخوت و رواداری کا پیغام عام کیا، اسلام کا پیغام جہاں بھی پہنچا اس نے دلوں کو مسخر کرلیا، لوگ بلا کسی مزاحمت کے اس کے دامن کرم سے وابستہ ہوتے چلے گئے، خصوصیت کے ساتھ ہندوستان کے ہندو مسلمانوں پر عدم رواداری کا الزام کسی بھی طرح نہیں لگا سکتے کیوں کہ صوفیہ کرام کے دامن عاطفت میں اتنی پنہائی تھی کہ لوگ بلا تفریق مذہب و ملت ان کے دامن میں آکر پناہ لیا کرتے تھے- اس مقدس جماعت سے لوگوں کی گرویدگی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض امرا اور علماکے رویے سے دل برداشتہ ہو کر دہلی چھوڑنے کا ارادہ فرمالیا، خبر ملنے پر عوام کا ایک جم غفیر اکٹھا ہوگیا اور آپ کی جدائی کے صدمے سے بلک بلک کر رونے لگا، آخر کار حضرت خواجہ کو ان کے حال زار پر رحم آگیا اور آپ نے اپنا ارادہ ترک فرمادیا اور پھر ہمیشہ کے لیے دہلی کے ہی ہو کر رہ گئے، لوگوں کی عقیدت کا یہی حال ہندوستان کے دوسرے صوفیہ کرام کے ساتھ بھی رہا اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان ان نفوس قدسیہ کے عہد عروج میں محبت و الفت کا لالہ زار بنا رہا-
آخری بات: - 
گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، یہاں نفرت کی سوداگری کا کوئی مستقبل نہیں ہے لیکن ایسے وقت میں جب کہ ساری دنیا دہشت گردی اور دہشت گرد طاقتوں کے خلاف صف آراہے، ہندو مذہب کے علمبردار ان دہشت گردوں سے ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے کو سخت خطرہ لاحق ہے ان کا حلقہ اثر روز بروز بڑھتا جارہا ہے، نوجوان ہندوؤں کو فکری طور پر یرغمال بنایا جارہا ہے، لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہندوستانی دانشور، سیکولرزم کے علمبرداران اور تمام محبان وطن آگے آئیں اور نفرت کے ان تاجروں، افتراق و انتشار کے ان سوداگروں سے ہندوستانی عوام کو بچانے کی کوشش کریں اور حکومت کو بھی چاہیے کہ ملک میں رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں اکثریتی طبقے کے بعض افراد کی دہشت گردانہ سر گرمیوں سے ہوش کے ناخن لے اور ایسی طاقتوں کی پیش قدمی روکنے میں اتنی ہی دل چسپی دکھائے جتنی سیمی کے سلسلے میں دکھائی ہے تاکہ بقائے باہم کی فضا قائم ہو، محبت و الفت کی باد بہاری چلے اور سارے ہندوستانی باہم مل جل کر ملک کی تعمیر و ترقی میں رول ادا کریں اور پھر چڑھتے سورج کی طرح فرقہ پرستوں پر یہ بات واضح ہوجائے کہ مسلمانوں کو علیٰحدہ کر کے دیکھا جانے والا ہندوستان کے درخشندہ مستقبل کا ہر خواب محض خواب پریشاں ہے- سماج کا ہر طبقہ سکون و اطمینان کے ساتھ زندگی گزارے اور پھر ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع فراہم ہوں دوریاں سمٹیں اور لوگ مذہب اسلام کے غیر جانب دار مطالعے کی جانب مائل ہوں اور مجھے امید ہے کہ اگر ایسا ہوا اور ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے تعصب کی عینک اتار کر، ذہن و فکر کے دریچے وا کر کے اسلام کے مطالعے کی کوشش کی تو انہیں اسلامی تعلیمات میں زندگی گزارنے کے ایسے ابدی اور آفاقی اصول نظر آئیںگے کہ وہ اپنے آپ کو اسلام کے دامن رحمت سے وابستہ کرنے میں فرحت و انبساط محسوس کریںگے اور پھر وہ خود مذہب اسلام کی نصرت و حمایت میں اٹھ کھڑے ہوںگے-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔