Thursday 31 August 2017

سالنامہ اہل سنت کی آواز (خصوصی شمارہ گوشہ خواجہ غریب نوازرضی اللہ عنہ)

0 comments
سالنامہ اہل سنت کی آواز
(خصوصی شمارہ گوشہ خواجہ غریب نوازرضی اللہ عنہ)
        مدیراعلیٰ: سیدنجیب حیدرقادری برکاتی نوری
        معاون مدیر: ساحل سہسرامی
        جلد؍۱۵، ذی قعدہ ۱۴۲۹ھ؍نومبر ۲۰۰۸ء
        صفحات:۶۵۶
        ناشر:دارالاشاعت برکاتی خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ،ضلع ایٹہ،(یوپی)
        تبصرہ نگار: ضیاء الرحمٰن علیمی
خواجۂ خواجگاں، عطائے رسول حضرت سیدنا معین الدین چشتی سنجری رحمۃ اللہ علیہ اس مقدس گروہ صوفیہ کے سرخیل اوراس جماعت کے سردارہیں،جس نے ہندوستان میں توحید ورسالت کی شمع روشن کی ہے-آپ کے ذریعے لاکھوں انسانوں کوتوحید وایمان کی دولت ملی، امن وآشتی، انسان دوستی، بھائی چارگی کی دعوت عام ہوئی، بقائے باہمی کے زریں اصول ملے، مختصر یہ کہ ہندوستانیوں پرعموما اوراسلامیان ہندپر خصوصا آپ کے احسانات اتنے ہیں کہ اس سے عہدہ برآہونا ممکن نہیں، لیکن احسان کافطری تقاضاہے کہ محسن کویادکیاجائے، ان کی بارگاہ میں عقیدتوں کاخراج پیش کیا جائے، عہدخواجہ سے لے کراب تک شاہ وفقیر، فقیہ وصوفی، دانشور وفلسفی سب کے سب اپنے اس عظیم محسن کویادکرتے رہے ہیں، ان کی بارگاہ میں محبتوں کانذرانہ پیش کرتے رہے ہیں اوریہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا-
خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ جوپندرہ سلاسل تصوف کاحسین سنگم ہے،جہاں تصوف کے چاربڑے دریاقادریت،چشتیت، نقشبندیت اورسہروردیت مرج(Merge) کرتے ہیں، اس سے قبل بھی اسی فطری تقاضائے احسان کی بناپراپنے دوعظیم محسنین مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورحضورغوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہوں میںسالنامہ’’اہل سنت کی آواز‘‘ کے توسط سے حضرت امین ملت مدظلّہ العالی کی سرپرستی اورفیق ملت حضرت نجیب حیدر قادری کی ادارت میں شاندار خراج عقیدت پیش کرچکاہے، اوراس بار خواجہ معظم پر’’اہل سنت کی آواز‘‘ کاخصوصی شمارہ لے کراپنے عظیم محسن اورسلسلۂ چشتیہ کے واسطے سے اپنے روحانی مورث اعلی کی بارگاہ میں عقیدتوں کاگلدستہ پیش کرنے کے لیے حاضرہے،یہی خصوصی شمارہ اس وقت زیر تبصرہ ہے، یہ شمارہ جسے گوشہ خواجہ غریب نوازکانام دیاگیاہے چھوٹے سائز کے ۶۵۶ صفحات پرمشتمل ہے اوربنیادی طورپر دوحصوں میں منقسم ہے، پہلا:گوشۂ خواجہ غریب نواز، دوسرا: گوشۂ خانقاہ، گوشۂ خواجہ غریب نوازجو ۶۰۸ صفحات پرپھیلا ہواہے منظوم ومنثور کے اعتبارسے دوحصوں میں بٹاہے،منثور حصے میں ادارتی تحریروں کے علاوہ ۳۴ عناوین کے تحت مختلف قلم کاروں کی نگارشات شامل ہیں-
اپنے اداریے میں رفیق ملت حضرت سیدنجیب حیدرقادری برکاتی نے چھٹی صدی ہجری کی سیاسی صورت حال پراختصار وجامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اورپھرخواجۂ پاک کے نزدیک تصوف کے معانی ومفاہیم بیان کرنے کے بعدپابندی شریعت، سلوک واحسان کے مراتب، اہل طریقت واہل حقیقت کے ضروری شرائط کے تعلق سے ان کے موقف کی وضاحت کی ہے اورحضرت خواجہ کے زمانے اورموجودہ صورت حال میں یکسانیت دکھلاکر عصرحاضر میں ان کی تعلیمات کی معنویت کوواضح کیا ہے اوریہ امید ظاہرکی ہے کہ موجودہ خصوصی شمارے کامطالعہ ضرورہماری زندگیوں کوپہلے سے بہتربنادے گا۔آگے مختلف ذیلی عناوین کے تحت حضرت امین ملت مدّظلّہ العالی کی دعوتی خدمات، خانقاہی، تعلیمی اورتعمیری سرگرمیوں،مزارات پرحاضری کے آداب سے متعلق چندجامع پیراگراف لکھنے کے بعدحضرت مسعود ملت کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ مزارات پرحاضری سے متعلق ان کی چند سطریں میرے دل کو چھوگئیں،لکھتے ہیں: ’’ہمارے اکثر زائرین اسی اعتبارسے (شرعی اعتبارسے) حاضری کرتے ہیں،جواس اندازسے نہیں کرتے انہیں محبت اورنرمی سے سمجھانے کی ضرورت ہے، ہمارے علمائے کرام درگاہ معلّی میں اگرضرورت سمجھیں توزائرین کی نرم لہجے لیکن مضبوط لفظوں میں اصلاح کرسکتے ہیں،ہم ان کے ممنو ن ہوں گے‘‘(ص:۱۲) سیاست حاضرہ اورتعلیم کے متعلق بھی نہایت بیش قیمت باتیں تحریر فرمائی ہیں،طلبہ مدارس کی صلاحیتوں کااعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ہمارے مدارس کے طلبا بے حدمحنتی ہوتے ہیں، قوت حافظہ لا جواب ہوتی ہے،ان میں اکثر بے حد ذہین ہوتے ہیں… یہ طالب علم اگرمناسب منصوبہ بندی اورصحیح مضامین کے انتخاب کے ساتھ سول سروسز کے مقابلے میں شرکت کریں توانہیں ان شاء اللہ ضرورکامیابی ملے گی‘‘(ص:۱۵) میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح کی اصلاحی، بصیرت افروزاورحوصلہ افزا باتیں کسی اورخانقاہ کی جانب سے بھی لکھی جاتی ہیں۔ اداریے کے بارے میں برملایہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ مکمل طورسے خانقاہ برکاتیہ کے مذہبی افکارونظریات کاعکاس ہے۔
اداریے کے بعدمعاون مدیرساحل سہسرامی صاحب کی تحریراس خصوصی شمارے کے مختلف پہلوؤں پرعلمی وفنی حیثیت سے روشنی ڈالتی ہے،بلکہ اگرمیں یہ کہوں توغلط نہ ہوگاکہ ان کی یہ تحریر اس شمارے کے لیے مقد مے کی حیثیت رکھتی ہے، جس سے شمارے کے مشمولات، اس کی تہذیب وترتیب میں اختیار کیے گئے منہج اوردوسری ضروری باتوں سے آشنائی ملتی ہے، ان دونوں ادارتی نگارشات کے بعد’’گوشۂ خواجہ غریب نواز ‘‘کااصلاآغاز ہوتا ہے،گوشۂ خواجہ غریب نواز کی سرخی کے نیچے مشہورزمانہ رباعی ’’بگرداب بلاافتادہ کشتی‘‘ ذکرکرکے گویا آنے والی تحریروں کی ترتیب وتہذیب میں آپ کی ذات گرامی سے مدد کی فریاد کی گئی ہے، اگلے صفحے پرخواجہ معظم سے منسوب حضرت امام حسین کی شان میں کہی گئی رباعی ذکرکی گئی ہے،یہ شایدگوشۂ خواجہ غریب نواز کاعلامتی آغازہے،اس کے بعدحضرت خواجہ کی فارسی میں لکھی ہوئی نعت وحمد شامل ہے،مولانا جمیل احمدقادری استاذ سٹی ہائی اسکول،علی گڑھ نے ان کا عمدہ اورسلیس اردوترجمہ کیا ہے، مولانا موصوف علوم شرعیہ کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ فارسی زبان پراچھی دسترس رکھتے ہیں، امید کی جاتی ہے کہ فارسی زبان کے حوالے سے مستقبل میں ان کے علمی کارناموں سے ہمارے کان آشنا ہوں گے-
مولانانعمان ازہری نے حضرت سیدالعلماء علیہ الرحمۃ کی گراں قدرتقریر کوسلیقے سے تحریر کاجامہ پہنایاہے،حضرت خواجہ کے اسفار کے تذکرے میں سبزوار کے نواب محمدیادگارکاجو اعتقادی اعتبارسے شیعہ تھاتذکرہ عام طورسے مورخین نے کیا ہے،حضرت کی اس تقریر میں بھی اس کاتذکرہ ہے لیکن اس کی اصلاح کا واقعہ ذکرکیاگیاہے کہ جب اس نے حضرت خواجہ کے ہاتھوں سے بنے کباب کھائے تواس کے دل کی دنیابدل گئی جب کہ دوسرے مورخین نے اس حصے کومولانا ضیاء الدین بلخی جومنکر تصوف تھے کی اصلاح کے واقعے میں ذکرکیاہے اورنواب کی اصلاح میں یہ واقعہ ذکرکیاہے کہ وہ حضرت کی شخصیت اورغیظ وغضب بھری نگاہ کی تاب نہ لاکر بے ہوش ہوگیا اورپھرہوش میں آنے کے بعدتائب ہوا۔ڈاکٹر سیدلیاقت حسین معینی شعبۂ تاریخ اے ایم یوعلی گڑھ نے جواس خصوصی شمارے کے مہمان مدیربھی ہیں،حضرت خواجہ کی حیات وافکار اوردرگاہ معلّی کی مرجعیت کاعمدہ علمی تاریخی تجزیہ پیش کیا ہے اوران لوگو ںکی خبرلی ہے جوحضرت کی شخصیت وعظمت اوردرگاہ شریف کی تاریخی اہمیت کوکم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں،اورجن کایہ مانناہے کہ حضرت خواجہ کی درگاہ عہداکبرسے قبل مرجع خلائق نہیں تھی،وہ لکھتے ہیں: حضرت خواجہ اجمیری کے وصال کے بعدآستانہ عالیہ پرزائرین اورعقیدت مندوں کاسلسلہ جاری رہاگوکہ وہی نام نہاد کمیونسٹ ذہن کے لوگوں کایہ دعویٰ رہاکہ درگاہ شریف کواکبرنے پروان چڑھایا جس کی تردید میں خاکسار نے ایک مضمون بعنوان’’درگاہ قبل ازاکبر‘‘ کے نام سے لکھااور تاریخی شواہدکے ذروں کوجمع کرکے ثابت کردیاکہ وصال خواجۂ اعظم(۱۲۳۶ء) سے اکبراعظم کی پہلی حاضری ۱۵۶۲ء تک یہ مقام روحانیت، انسانیت اورقومی یک جہتی کامنبع ومرکزرہا‘‘ اگلے پیراگراف میں عہد اکبرمیں زائرین کی آمدکے اضافے کے اسباب کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’مغلیہ دورمیں بلاشبہہ زائرین کی آمد میں اضافہ ہواجس کی خالص وجہ بادشاہ کی متواتر حاضری سے راستوں میں سہولیات آرام، خوشحالی اورحفاظت ہے نہ کہ سیاسی معاملہ‘‘(ص:۶۵-۶۶) پورامضمون لائق مطالعہ ہے اگرچہ بعض باتوں پرعلما کی جبین شکن آلود بھی ہوسکتی ہے-
مولانا مبارک حسین مصباحی ایڈیٹر ماہنامہ اشرفیہ نے حضرت خواجہ معظم کی حیات، اسفاراوراخلاق کریمانہ وغیرہ پرعمدہ گفتگو کی ہے،خلفائے کرام کی تفصیلی فہرست دی ہے اورحضرت خواجہ کی تصانیف کے منکروں کوانصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے،ایک جگہ انہوں نے نامکمل جملے کے درمیان قوسین میں لفظ’’ھرون‘‘ کی تحقیق پیش کی ہے جس سے جملے کاتسلسل ٹوٹتانظرآتاہے اورقاری اجنبیت محسوس کرتاہے،بہتر یہ ہے کہ اس قسم کی زائد معلومات مقالے کے آخرمیں حاشیے کی شکل میں فراہم کی جائے-حضرت مولانا حنیف خان رضوی نے خواجہ صاحب کے ملفوظات کے حوالے سے ان کے فضل وکمال ذوق علم ومعرفت پرقیمتی گفتگو کی ہے لیکن علم اوراقسام علم کی گفتگونے کچھ زیادہ ہی جگہ لے لی ہے،مولانا عبدالمبین قادری نعمانی ’’حضرت خواجہ غریب نوازاور اتباع سنت‘‘ کے عنوان سے ہمیشہ کی طرح اس شمارے میں بھی شاندار اصلاحی تحریر لے کرحاضر ہوئے ہیں، ان کی یہ تحریر عقیدت مندان خواجہ اورزائرین اجمیر کومحاسبۂ نفس کی پرزور دعوت دیتی ہے، امیدہے کہ ان کی اس تحریر کے مطالعے سے ہم اپنی اصلاح ضرور کریں گے-
حضرت غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خواجہ معظم کی ملاقات ہوئی یانہیں اس سلسلے میں مورخین کی آرامختلف ہیں،قابل استناد مآخذ سے یہی پتاچلتاہے کہ ان کی ملاقات حضورغوث پاک سے نہیں ہوئی، البتہ بعض دوسرے مراجع میں ملاقات کاذکربھی ملتاہے،عصرحاضرکے محققین میں ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم مصباحی کے مطابق خواجہ صاحب کی غوث پاک سے نہ صرف ملاقات ثابت ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے اپنے ماموں غوث اعظم سے خرقۂ خلافت بھی پہناتھا، اسی قضیے سے متعلق شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ کاوہ فتوی بھی زینت شمارہ ہے جس میں انہوں نے پرزوردلائل سے اپنے اس موقف کوصحیح بتلایا ہے کہ حضرت خواجہ کی ملاقات حضرت غوث پاک سے نہیں ہوئی تھی۔ حضرت مفتی نظام الدین رضوی نے دلیل العارفین کی روشنی میں خواجہ صاحب کی حنفیت کوثابت کیا ہے اور انیس الا رواح کے حوالے سے آپ کے پیر ومرشد کا بھی حنفی ہونا ثابت کیا ہے اور آج کے غیر مقلدیت زدہ دور میں تقلید اور خصوصیت کے ساتھ مذہب حنفی سے عوام الناس کو وابستہ رہنے کی دعوت دی ہے اور اس حقیقت کو بھی واضح کیاہے کہ ائمہ کی تقلید میں ہی اصل کتاب وسنت کی پیروی ہے- مفتی آل مصطفی مصباحی نے ’’حضرت خواجہ کی دعوت توحید‘‘ کے عنوان سے مقالہ تحریر فرمایا ہے، میر ا خیال ہے کہ مفتی صاحب اگر توجہ فرما تے تو اس عنوان پر اس سے بہتر تحریر پیش فرما سکتے تھے-
طرزتربیت جتنا عمدہ ہوتا ہے تربیت کے اثرات اتنے ہی ہمہ گیر ہوتے ہیں، حضرت خواجہ کے طرز تربیت اوراصلاح پر مولانا اختر حسین فیضی مصباحی نے عمدہ تحریر قارئین کی خدمت میں پیش کی ہے۔ حضرت خواجہ غریب نوازکی بیعت وخلافت کے عنوان سے مفتی مطیع الرحمن رضوی پورنوی کا مضمون نامکمل اور تشنہ ہے- ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی نے حضرت خواجہ کے مشائخ سلسلہ کا مختصر مگر جامع تعارف پیش کیا ہے۔ سید مولانا شاہد علی رضوی نے ارشادات خواجہ غریب نواز کی روشنی میں سورئہ فاتحہ کے فضائل بیان کئے ہیں ، تحریر اپنے مشمولا ت کے لحاظ سے عمدہ ہے مگر خاتمہ نہ ہونے کی وجہ سے بات ادھوری سی معلوم ہوتی ہے- حضرت خواجہ غریب نواز کی تعلیمات اور تبلیغ اسلام کے عنوان سے سید مغیث احمد قادری چشتی کی تحریر اچھی ہے-’’حضرت خواجہ غریب نواز کے ملفوظات گرامی ‘‘کے عنوان سے ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی کی تحریر بہت علمی اور موضوعی ہے، انہوں نے ملفوظات کی اہمیت وافادیت پر گفتگو کرنے کے بعد ان ملفوظات میں پائی جانے والی خامیو ںاور ان کے مختلف اسباب کو بیان کیا ہے اور پھر ایسی صورت میں ہمیں کون سا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اسے بھی بیان کیاہے ، وہ لکھتے ہیں!’’خطائے بزرگان گرفتن خطااست‘‘ایک بلند پایہ اخلاقی اصول ہے اور ذومعنی ہے، اس کے ایک معنی تویہ ہیں کہ بزرگوں کی غلطیوں کی نشان دہی کرنا اور ان پر تنقید کرنا بجائے خود خطا اور خلاف ادب ہے، دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ بزرگوں سے جو غلطیاں سرزد ہوگئی ہیں ان کی تقلید اور پیروی غلط ہے اور ان سے بچنا چاہئے‘‘اور آگے لکھتے ہیں:’’دوسرا عمدہ اسلامی اصول وہ ہے جو ہر موقع ومحل کے لئے انتہائی کار آمد ہے’’خذما صفاودع ماکدر‘‘یعنی خوبیوں کو اختیار کرو اور خامیوں سے صرف نظر کرلو‘‘-(ص:۲۵۱)
ساحل سہسرامی صاحب نے حضرت کی شاعری اور اس کے صوفیانہ گوشوں کا مفصل تجزیہ پیش کیا ہے- محترم موصوف کی تحریر اپنے اندر علمیت اور ادبیت سمیٹے ہوئی ہے،ان کی دوسری تحریروں کی طرح میں اس تحریر سے بھی لطف اندوز ہوا، مولانا نفیس احمد مصباحی نے حضرت خواجہ کی روحانیت اور کرامت پر جامع تحریر لکھی ہے اور یہ ذکر کیا ہے کہ اصل کرامات کرامات معنوی ہیں، عوام کے نزدیک حسی کرامتوں کی اہمیت اگرچہ زیادہ ہوتی ہے لیکن معیار ولایت کرامات معنوی ہوا کرتی ہیں، حضرت سے میری شکایت صرف اتنی سی ہے کہ کرامات کی علمی بحث اپنی افادیت کے باوجود کچھ طویل ہوگئی ہے- ہندوستان میں چشتی فیضان کا دائرہ بہت وسیع ہے -اسی دائرے کی وسعت پر کچھ روشنی پروفیسر فاروق صاحب نے ڈالی ہے- سلسلہ برکاتیہ کو مطمح نظر بنا کر ساحل سہسرامی صاحب نے ’’مشاہیر مشائخ چشت ایک نگاہ میں‘‘کے عنوان سے ایک اور معلوماتی تحریر لکھی ہے، ہندوپاک کے اکابر مشائخ چشت پر ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی کی تحریر پر مغز اور جامع ہے- پروفیسر مسعود انور علوی استاد شعبۂ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صوفی مزاج ہیں اِنڈوعرب لٹریچر کے ایکسپرٹ مانے جاتے ہیں ، حضرت بابا فرید قدس سرہ اور ان کے خلفاء کے متعلق ان کی تحریر عمدہ اور قابل مطالعہ ہے البتہ صفحہ ۴۲۹ پر ان کے مقالے میں نثار احمد فاروقی صاحب کو مدظلہ لکھا گیاہے جب کہ وہ چند سال قبل انتقال کرچکے ہیں، ممکن ہے کہ یہ مقالہ ان کی حیات میں ہی تحریر کیا گیا ہو اور اس شمارے میں اشاعت کے لئے مقالہ دینے سے پہلے انہوں نے نظرثانی نہ کی ہو-’’ وحدت الوجود مشائخ چشت کا منظور نگاہ نظریہ ‘‘ اس عنوان پر علامہ محمد احمد مصباحی نے خامہ فرسائی کی ہے- میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا کیوں کہ انہوں نے شروع میں ہی ذکر کیا ہے کہ وحدت الوجود ایک خالص عرفانی مسئلہ ہے اور میں ابھی اہل عرفان کی محبت کو ہی اپنے لئے حرز جاں بناتا ہوں-ملفوظات مشائخ چشت پر مولانا صدرالوری قادری کی تحریر موضوعی او رلائق مطالعہ ہے ،’’چند ممتاز چشتی اوراد ‘‘کے عنوان سے ڈاکٹر محمد افضال بر کاتی کا مقالہ عمدہ اور جدید انداز لئے ہوئے ہے، ان کی تحریر کا خاتمہ بھی مجھے اچھا لگا-
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کی جڑیں قدیم ہیں لیکن عام طور سے مورخین یہ مانتے رہے ہیں کہ ہندوستا ن میں پہنچنے والا اولین سلسلہ سلسلۂ چشتیہ ہے- ڈاکٹر غلام یحیی انجم نے اپنے مقالے میں سلسلہ چشتیہ کی قدامت بیان کرنے کے علاوہ اپنے اس موقف کو بھی دہرایا ہے کہ سلسلہ چشتیہ اور قادریہ دونوں ساتھ ساتھ ہندوستان میں آئے اور اگر دونوں کی آمد میں فاصلہ ہے تو صرف سالوں کا ہے نہ کہ صدیوں کا- آستانہ خواجہ غریب نواز کی عمارتوں پر حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمۃ کی تحریر معلوماتی اور عازمین اجمیر شریف کے لئے خصوصا لائق مطالعہ ہے-عرس خواجہ معظم کی اہمیت وفوائد پر خواجہ حسن نظامی ثانی دہلوی کی تحریر بہت عمدہ ہے اور خواجہ معظم کے عرس شریف کی معنویت پر خوب روشنی ڈالتی ہے، انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد بھی ترمیم واصلاح کی شرط کے ساتھ عرس خواجہ کی افادیت کے قائل تھے-ڈاکٹر قمرالہدی فریدی نے سبع سنابل شریف کے چشتی گوشوں کوعمدہ اندازمیں قلم بندفرمایاہے-’’خانوادۂ برکاتیہ اورفیضان چشت‘‘ کے عنوان سے مولانا اسیدالحق بدایونی نے جامع و مختصرتحریرلکھی ہے مگرسچ پوچھئے توہمیں ان سے زیادہ کی توقع تھی،اورآخرمیں مولانا یٰسین اخترمصباحی کی تحریر بعنوان’’ بارگاہ خواجہ غریب نوازمیں امام احمدرضا کی حاضری‘‘ سے نہ صرف امام احمدرضا قدس سرّہ کے دل میں خواجہ معظم کی عظمت، درگاہ معلّی میں آپ کی حاضری،وہاں سے آپ کے روحانی تعلقات کاپتاچلتاہے بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ درگاہ معلّی کومنبع فیوض وبرکات سمجھتے تھے-
اس خصوصی شمارے کادوسراحصہ منظومات پرمشتمل ہے جوشعرا کی جانب سے بارگاہ خواجہ میں عقیدتوں کاخراج ہے-ثناخوانان خواجہ کے اس خصوصی زمرے میں آخری مغل تاجدار بہادرشاہ ظفر اورداغ دہلوی کودیکھ کرخوشی ہوئی،منظومات کے انتخاب میں بادۂ نودرجام کہنہ وہ بھی فارسی اردو اورپوربی کے امتزاج کے ساتھ پلانے کی کوشش کی گئی ہے-شمارے کاتیسرا حصہ گوشۂ خانقاہ ہے، آغاز میں گوشۂ خانقاہ کی سرخی کے نیچے مارہرہ مطہرہ کی عظمت کوبتلانے والی رباعی ذکرکی گئی ہے،آئندہ صفحات میں احمدمجتبی صدیقی صاحب نے حضرت امین ملت کی ہمہ جہت خدمات کولفظوں کا عباپہنایا ہے،پھرمختلف شعرا کی نعتیں اورمنقبتیں ہیں،اس کے بعدمحمداکبر قادری برکاتی صاحب نے عرس قاسمی۲۰۰۷ء اورتیرہواں سالانہ فاتحہ حضوراحسن العلماء کی تفصیلات لکھی ہیں اورسب سے آخرمیں احمدمجتبی صدیقی صاحب نے مسلمانان اہل سنت کی آرزؤوں کے محور جامعہ البرکات کی تعلیمی وتعمیری سرگرمیوں کی رپورٹ لکھی ہے،ہم رب تعالیٰ کی بارگاہ میں دست بدعاہیں کہ جامعہ البرکات بہترسے بہتر کی جانب رواں دواں رہے-
زیرتبصرہ خصوصی شمارے میں کمپوزنگ کی غلطیاں ضروردرآئی ہیں لیکن ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اس کے پروف ریڈر تن تنہا ساحل سہسرامی صاحب ہیں،ویسے بھی غلطیاں اتنی بھی نہیں ہیں کہ داخلی وخارجی حسن گہن آلودہوسکے، مجموعی طورپرشمارہ اپنے مشمولات اورپیش کش کے لحاظ عمدہ اوربیش قیمت ہے اورخواجۂ معظم کی شخصیت وعظمت، آپ کے ملفوظات وفرامین کی افادیت ومعنویت اوردوسرے بہت سے گوشوں پروشنی ڈالتاہے اورہمیں ان کی تعلیمات پرعمل کر نے کی دعوت دیتاہے- امیدکی جاتی ہے کہ شمارہ ہرحلقے میں پسند کیا جائے گا اوربیماردلوں کوخواجہ شناس بنانے میں اہم کردار اداکرے گا-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔