Thursday 31 August 2017

عریانیت کا سیلاب

0 comments
عریانیت کا سیلاب
                                                            ازقلم: ضیاء الرحمٰن علیمی        
------------------------------------------
پس منظر: - زندگی کی تصویر کتنی تغیر پذیر ہے، رفتار زمانہ کس قدر تیز ہے ، ہمارا ملک، ہمارا صوبہ، ہماری سوسائٹی، ہمارا گرد و پیش کتنی تیزی کے ساتھ بدلتا جا رہا ہے، تہذیب و ثقافت میں کتنی سرعت کے ساتھ تبدیلی آرہی ہے، رہن سہن نشست و برخاست ، بول چال، سلوک و برتاؤ میں بدلاؤ کا عنصر کتنی تیز رفتاری کے ساتھ اپنا رنگ دکھا رہا ہے، ایک زمانہ تھا مشرقی تہذیب و ثقافت کی دنیا میں دھوم تھی، خاتون مشرق کے تئیں لوگوں کے دلوں میں احترام تھا، مشرقی آنچل کے تقدس کی قسمیں کھائی جاتی تھیں، ہماری مائیں پردہ نشیں، ہماری بہنوں میں حجاب کا رجحان اور ہماری بیٹیوں میں ردائے عفت کا چلن تھا، انہیں عریانیت کے نام سے کڑھن ہوتی تھی، بے حجابی کے نام پر ہزاروں لعنتیں بھیجا کرتی تھیں-
پیش منظر: - لیکن حا لات نے انگڑائی لی ،زمانے نے کروٹ بدلی، عالمی منظر نے چولا بدلا، دنیا میں ہونے والے نت نئے ایجادات نے انسانی زندگی کا رخ موڑ دیا ،ہیو مین لائف کی اسکرپٹ ہی بدل گئی، زندگی میں سہولتوں کی فراوانی ہوئی، اسباب عیش ونشاط کی بہتات ہوئی اور انسان لذت کو شیوں میں مصروف ہوگیا، شعوری اور لاشعوری طور پر فحاشی وعریانیت ہماری زندگی کا حصہ بن گئی، کچھ دنوں تک ہماری طبیعت کو نا گوار ی کا احساس رہا اور پھر آہستہ آہستہ گزرے شام وسحر کے ساتھ ہم نے جوازکے راستے تلاش کرنے شروع کردیئے فحاشی وعریانیت کے مفہوم ، اور اس کی تفہیم کے لئے علمی مجلسیں منعقد کرنے لگے، ہمارے مذا کرے کی محفلوں میں یہ بات آنے لگی کہ فحاشی وعریانیت کی کتنی قسمیں ہیں ، کون سی قسم سماج کے لئے کرب وآزار اور کون سی سراپا قرار اور تہذیب وثقافت کی عکاس، اور پھر نوبت بہ ایںجا ر سیدکہ جمالیاتی عریانیت (Aesthetic Nudity)کو سماج ومعاشرے کا خوبصورت پہلو سمجھاجانے لگا بلکہ یہ شکایت بھی کی جانے لگی کہ بالی ووڈ یا دوسرے لفظوں میں کہہ لیجئے کہ ہندوستان جمالیاتی عریانیت کے میدان میں بہت پیچھے ہے، کیوں کہ ہندوستان کی ادا کارائیں ابھی بھی جمالیاتی نقطئہ نظر پر مبنی عریاں مناظر فلمانے میں ہچکچاہٹ اور جھجھک محسوس کرتی ہیں جبکہ عریانیت اداکاری کا نا قابل انفکاک پہلو ہے۔
ایک خطرناک رجحان :- عریانیت کے سانپ نے سب کو ڈساہے، بچہ ہو یا بوڑھا ضعیف العمر ہو یا نوجوان، ہر کوئی اس کا گزیدہ ہے، پورا سماج ہی زہر آلود ہو چکا ہے، پوری فضا ہی مسموم ہو چکی ہے، پوری کہانی ہی غمناک ہے،لیکن اس کہانی کا سب سے کربناک پہلو یہ ہے کہ اب ہمارے بچوں اور بچیوں کی معصومیت ، ان کا بھولا پن ، ان کی سادگی ، ان کی شگفتگی رخصت ہورہی ہے، فلموں نے عام طور پر اور ’’چینی کم‘‘ جیسی فلموں نے خاص طور پر ہماری بچیوں میں ان احساسات اور جذبات کو بیدار کردیاہے جو بلو غت کی علامت سمجھے جاتے رہے ہیں ، اب سات سال سے لے کر دس سال کی بچیاں اس اندازمیں رہنا سہنا پسند کرنے لگی ہیں جس انداز میں ان کی بڑی بہنیں رہتی ہیں ، وہ اپنے ہیئر اسٹائل کا بھر پور خیال رکھتی ہیں، اپنے کپڑوں کی فٹنگ پر ان کی خاص نظر رہتی ہے، اونچے ہیلز والی چپل ان کی پہلی پسند ہوتی ہے، اپنی جسمانی ساخت اور اس کی نشو ونما کے بارے میں فکر مند رہتی ہیں ، پلاسٹک سرجری کے لئے کم سن لڑکیوں کے بڑھتے وزٹ سے پلاسٹک سرجنز پریشان ہیں ، بیوٹی پارلرز اور کا سمیٹک شاپ کی جانب ان کے روز بروز بڑھتے قدم سے مارکیٹ میں ہلچل ہے، آئیڈیل جسمانی ساخت کے لئے کام کرنے والے اداروں میں ان کی بڑھتی آمدورفت سے معاشرتی امور کے ماہرین قلبی اضطراب کا شکار ہیں ، چھ سال کی بچیاں اپنے جسم کو خوبصورت بنانے کے لئے اور اپنے آ پ کو خوبصورت کہلوانے کے لئے فکر مند نظر آرہی ہیں ، حسن کے اعلیٰ معیار کو پانے کی خواہش بڑھتی جارہی ہے، Tanmayaنام کی بچی اپنے نئے ہیئر اسٹائل کے ساتھ گھر پہنچتی ہے اور فوراً اپنی ماں سے سوال کر بیٹھتی ہے موم ! ایم آئی لوکنگ سیکسی اینف ؟(دیکھئے نونا والیا کا مقالہ :لٹل ویمن ، سنڈے ٹائمز آف انڈیا، ۱۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء)
اہل دانش کا اضطراب :- سول سو سائٹی کے لئے کام کرنے والے افراد اس صورت حال سے بہت رنجیدہ ہیں ، ذمہ دار افراد اس بات سے ناخوش ہیں کہ مارکیٹ میں کم سن بچیوں کے لئے وہ ساری چیزیں کیوں فروخت کی جارہی ہیں جو صرف بڑی عمر کی لڑکیوں کے کام کی ہیں، ان کا ماننا ہے کہ یہ کم سنوں کے ساتھ نا انصافی ہے، اس سے ان کا بچپن کھو گیا ہے، ان کی سادگی چھین لی گئی ہے، Minakshi Gigi Durhamنامی ایک مصنفہ کی اس موضوع سے متعلق تین کتابیں :
The media Sexualization of young girls
The lolita effect اور What we can do about it?
منظر عام پر آچکی ہیں، جس میں انہوں نے کم سن لڑکیوں میں بڑھتے جنسی ونسوانی احساسات ، اس کے اسباب وعوامل اور پھر اس کے مضر اثرات کا جائزہ لیا ہے، انہوں نے اپنے بلاگ The lolita effectپر یہ بحث بھی چھیڑ رکھی ہے کہ آخر کیسے ایک فیشن میگزین نے ایک پندرہ سالہ لڑکی کی نیم عریاں تصویر شائع کی ہے؟ ایک شوسیولوجسٹPatrica Oberio کا کہنا ہے کہ چمک دمک میں رہنے کی مسابقہ آرائی بہت بڑ ھ گئی ہے، کم سن بچیاں شادیوں کی تقریب میں دلہنوں کی طرح بن سنور کر جانا پسند کرتی ہیں، اس عمر میں یہ رجحان بہت تشویشناک ہے،ان کم سنو ں کی صحت وتندرستی پر بھی اس کے منفی اثرات کا دائرہ وسیع تر ہو تا جا رہا ہے، ایک حالیہ سروے کے مطابق دس سال کی لڑکیاں بے چینی اور قلبی اضطراب کا شکار ہیں ، کیوں کہ وہ حسن کے ایک تصوراتی معیار تک پہنچنا چاہتی ہیںاور یہی خواہش ان کو مضطرب وبے قرار بنائے رکھتی ہے-
ذمہ دارکون؟ اس پوری صورت حال کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ اس عریاں کلچر کے فروغ میں کون سی چیزیں رول پلے کررہی ہے ؟اس سوال کے جواب میں بچوں کے ساتھ کام کرنے والے مصنف آنند کا کہنا ہے کہ اس پوری دل آزار صورت حال کے لئے ٹیلی ویژن ذمہ دار ہے، اس میں تھوڑی اور عمومیت پیدا کرکے یہ کہہ لیا جائے کہ سماج کی اس درگت کے لئے الکٹرانک میڈیا ذمہ دار ہے تو بات زیادہ منا سب اور مکمل ہو جائے گی-قدیم زمانے کایہ حال تھا کہ اگر کہیں برائی جنم لیتی تو اس کی خبر ہم تک بر سوں بعد پہنچتی تھی، انسانی زندگی میں اگر کوئی منفی رجحان سامنے آتا تو عام انسانوں تک اس کے دائرئہ اثر کے پھیلنے سے قبل ہی وہ درگور کر دیا جاتا تھا ، لیکن موجود دنیا بڑی مختلف ہے، اب دینا کے ایک گوشے میں کوئی فتنہ سر اٹھا رہا ہے اور چند ساعتوں میں وہ پوری دینا کے لئے کرب وآز ار کا سبب بن جاتا ہے، میڈیا کے واسطے سے پل بھر میں وہ لوگوں کے گھروں میں گھس جاتا ہے، کسی ادا کارہ نے کسی فیشن ڈیزائنرسے کوئی خاص لباس تیار کروایا کہ اگلے دن ہماری بہن بیٹاں اسی طرز کے لباس کا آرڈر دیتی نظر آتی ہیں، گویا فحاشی وعریانیت کی نمائندہ شخصیات کی ہر عر یانیت اگلے ہی لمحہ ہمارے سماج پر حملہ آور ہو جاتی ہے-
ایک نظر ادھر بھی:-اس دل فگار صورت حال کے لئے ذمہ دار کوئی بھی ہو اتنی بات تو ہمیں تسلیم کرنی ہی ہوگی کہ فحاشی وعر یانیت کی اس گرم بازاری کے لیے کسی نہ کسی طرح ہم بھی ذمہ دار ہیں ، ہم میڈیا کی اخلاق سوز حرکتوں کا شکوہ کیوں کریں ، ہم میڈ یا کو مورد الزام کیوں قرار دیں جبکہ ہم نے اپنے سماج کی حفاظت کے لئے کوئی طریقہ کار اپنا یا ہی نہیں ، ہم نے اپنے کم سنوں کی اخلاقی تربیت کا کوئی انتظام کیا ہی نہیں،اسلامی طرزحیات سے انہیں واقف کرایا ہی نہیں ، عفت وپاک دامنی اور پر دے کی عظمت وحرمت سے ان کو آشنا کرایا ہی نہیں ، فحاشی وعریا نیت کی خرابیوں کو ان کے سامنے اجا گر کیا ہی نہیں ، ہم کرتے بھی کیوں جب کہ ہمارا وجود خود ہی غیر اسلامی طرز حیات کا مرقع تھا - اس ترقی یافتہ عہد میں بھی بہت سے خوش قسمت خاندان ایسے ہیں جو فکر کی اسلامیت اخلاق کی پاکیزگی ، کردار کی بلندی ، روح کی بالیدگی ، ایمان کی خوشبو ، دامن کی عفت ، تہذیب کی خوب صورتی اور تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں ، اور اس دور پر فتن میں بھی سچے پکے مسلمان کی طرح زندگی بسر کررہے ہیں، اور یہ سب ان کی ذاتی کاوشوں ، نجی دل چسپیوں ، ان کی زندہ ضمیری اور احساس ذمہ داری کی بنا پر ہی ممکن ہو سکا ہے ، اور کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہم بھی کوششیں کریں، اپنی متعلقہ ذمہ داریوں کو نبھا ئیں تو ہمارا ماحول بھی اسلامی نہ بن سکے ، ہمارا سماج اسلامی طرز حیات کا نمونہ نہ بن سکے ، ہم معاشرتی چیلنجوں کا سامنا نہ کرسکیں اور ہماری زندگیاں اسلامی تہذیب وثقافت کے ڈھانچے میں نہ ڈ ھل جائیں ، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کو زندگیوں میں اتار لیا جائے ، اسلامی طرز پر نسلوں کی تربیت کی جائے ، اخلاقی خوبیوں سے آراستہ کیا جائے، حرا سے لائے ہوئے نسخہ کیمیا کی عظمت اور اس کے تقدس کو ان کے دلوں میںبسا دیا جائے ، اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ضرور اللہ تعالی کی توفیق ہمارے شامل حال رہے گی اور ہم ایک بہتر معاشرہ ، بہتر نسل اپنے پیچھے چھوڑنے میں کامیا ب ہو جائیںگے، اور دنیاکا کوئی بھی فتنہ ہماری سوسائٹی پر حملہ آور ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔