Thursday 31 August 2017

قادیانی مذہب ------ مصنف: پروفیسر محمدالیاس برنی

0 comments
 قادیانی مذہب
                         مصنف: پروفیسر محمدالیاس برنی
                         تقدیم: مولانا نفیس احمد مصباحی
                         صفحات:۱۲۰۸
                         سال اشاعت :۱۴۲۹ء/۲۰۰۸ء
                         ناشر: الہادی پبلی کیشن، تحریک اسلامی، ۳بی،مومن 
                         ورروڈ،خضرپور،کولکاتا-۲۳
                          تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی 
’’قادیانی مذہب یہ ایک کتاب کا نام ہے جوتقریباً ایک ہزار صفحہ کی ہے اورجناب مولانا الیاس برنی صاحب ایم- اے، ایل- ایل- بی پروفیسر جامعہ عثمانیہ وناظم دارالترجمہ عثمانیہ کی شہرہ آفاق تصنیف ہے،ظل سبحانی اعلیٰ حضرت حضور نظام کے مکتوب مبارک میں بھی مولانا برنی کا ذکرتھا- یہ کتاب قادیانی عقاید کے جزوکل کا ایک ایسا مکمل آئینہ ہے جوموجودہ زمانہ کے لٹریچر میں بے نظیر کہا جاسکتاہے-‘‘
(قادیانی مذہب ص :۱۵۷، خواجہ حسن نظامی، اخبار’’منادی‘‘ دہلی، ۱۹؍جون ۱۹۳۶ء)
’’مذہبی مباحث میں پروفیسر برنی صاحب کا طرزنگارش اوراسلوب اظہار مدعا اتنا دلکش اورسنجیدہ ہے کہ ا س حیثیت کی دوسری کتاب اب تک ہم نے نہیں دیکھی،کتاب کیا ہے، قادیانی مذہب کی ایک انسائیکلو پیڈیا ہے اورگو یا پورے قادیانی لٹریچرکا عطروخلاصہ ہے-‘‘(ص:۱۵۵، روز نامہ ’’پیغام‘‘دہلی،۲۸؍مئی ۱۹۳۶ء)
’’اس کتاب کی تالیف میں برنی صاحب نے قادیانی مذہب کا سارا لٹریچر کھنگال ڈالاہے-اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بعض ضروری تشریحات اورحواشی کے علاوہ مصنف نے خوداپنی طرف سے کچھ نہیں لکھاہے۔۔۔۔۔۔۔اس موضوع پربلکہ شائد مناظرے کی تاریخ میں اس نوعیت کی پہلی کتاب ہے-‘‘
(ص ۱۵۴،رسالہ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ،اکتوبر ۱۹۳۶ء)
’’انہوں نے لفظی نزاعات اوربحث ومناظرہ کی راہ سے ہٹ کرقادیانیت کا تجزیہ جس انداز سے کیا ہے، وہ بیک وقت اچھوتا بھی ہے اوردلچسپ بھی اوراس سے پروفیسر صاحب کی جدت طبع اورذوق علم دونوں کا اظہار ہوتا ہے-‘‘ (ص :۱۵۲،رسالہ’’ اسلام‘‘ ،لاہور اگست ۱۹۳۶ء)
’’یوں توقادیانی مذہب سے متعلق غیرقادیانی صاحبان نے بہت سی کتابیں لکھیں لیکن یہ کتاب ان سب سے مکمل اورمستند ہے-‘‘(ص : ۱۵۰، اخبار’’مشیر‘‘دکن ،حیدرآباد،۲۳؍مئی ۱۹۳۶ء)
’’قادیانی مذہب کے متعلق ہرقسم کی معلومات بلاحاشیہ آرائی جس قدر مستند موادسے اس کتاب میں جمع ہیں،وہ اورکتابوں میں دستیاب نہیںہوسکتیں-اس کتاب کی اشاعت سے قادیانی فرقے میں اگرہرمرتبہ ہلچل مچ گئی توکوئی عجب نہیں، اوریہی اس کی افادیت اورکامیابی کی سب سے روشن دلیل ہے-‘‘
(ص،۷۹،رسالہ’’فاران‘‘ بجنور،جولائی ۱۹۳۵ء)
’’کمال تعجب کا مقام ہے کہ یہ تمام الفاظ خودمرزاصاحب اوراس کے حواریوں کی کتابوں سے اخذکیے گئے ہیں- ترتیب میں جوکمال پروفیسر صاحب نے کیا ہے اس کی نظیر اگرناممکن نہیں توفی زمانہ محال ضرور ہے-‘‘(ص ۸۰، رسالہ صوفی، پنڈی بہاء الدین،جولائی ۱۹۳۵ء)
’’قادیانیت کی تردید میں اب تک علمائے اسلام نے دفتر کے دفتر تیارکردیے ہیں لیکن عموماً وہ تحریریں مولویوں کے قلم سے نکلی ہوئی ہیں جوانگریزی تعلیم یافتہ طبقے کی ذہنیت سے کوئی مناسبت نہیں رکھتیں اوراس لیے اپنے مقصدمیں بھی زیادہ موثرنہیں ثابت ہوئی ہیں- حال میں سراقبال اورسرمرزا ظفر علی وغیرہم کی تحریروں کے باعث بحث کا رخ بدلا ہے اوراب ہمارا جدید طبقہ بھی ادھر متوجہ ہوچکاہے- پروفیسر الیاس برنی صاحب اس سلسلہ میں السابقون الاولون میں شامل ہونے کا شرف رکھتے ہیں اوروہ ترتیب زمانی میں سراقبال وغیرہم سے بھی اس باب میں متقدم ہیں-‘‘(ص: ۸۱، اخبار’’صدق‘‘لکھنؤ،۲۱؍جون ۱۹۳۵ء)
’’اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اندازبیان بہت ہی شریفانہ اوراستدلال مخلصانہ ہے- قادیانی مذہب کے عہد بہ عہدارتقا اوراس کی حقیقت کے متعلق یہ کتاب ایک بیش قیمت ذریعۂ معلومات ہے-‘‘(ص:۷۰،اخبار مدینہ، بجنور،۱۷، نومبر ۱۹۳۴ء)
’’قادیانی مذہب کے مزعومات کی تردید یوں توبے شمار علماء وفضلاء نے کی لیکن واقعہ یہ ہے کہ خالص علمی رنگ میں پوری تحقیق اور تدقیق کے بعد کامل سنجیدگی اورمتانت سے برنی صاحب نے جس طرح یہ کتاب لکھی ہے، ان ہی کا حق ہے-‘‘
(ص:۷۰،اخبار خلافت، بمبئی،۳۰ ستمبر ۱۹۳۴ء)
’’قادیانی اوراہل سنت مباحثات کے متعلق ایسی متین کتاب غالباً نہیں دیکھی گئی، جس کو مخالف وموافق سب ٹھنڈے دل سے پڑھ کرسکون قلب کے ساتھ رائے قائم کرسکتے ہیں-‘‘
(ص: ۶۳،رسالہ ’’بلاغ‘‘ امرتسر، اپریل ۱۹۳۴ء)
’’قادیانی مذہب‘‘ سب سے پہلے رجب ۱۳۵۲ھ(۱۹۳۳ء) میں شائع ہوئی، پہلے ایڈیشن میں پانچ مختصر فصلوں کے تحت تقریباً پچاس عنوانات درج تھے، تقطیع چھوٹی، حجم ۱۲۰؍صفحات، دوسرے ایڈیشن ( ۱۳۵۳ھ)میں گیارہ فصلوں کے تحت تقریباً ڈھائی سوعنوانات درج ہوئے، تقطیع متوسط حجم ۳۴۰:صفحات ،تیسرے ایڈیشن( ۱۳۵۴ھ )میں تیرہ فصلوں کے تحت چارسو عنوانات درج ہوئے،صفحات بڑھ کر ۶۲۵ ہوگئے، چوتھا ایڈیشن (۱۳۵۴) بڑی تقطیع کے ہزارصفحات پرپھیل گیا،اس میں ۲۰؍فصلوں کے تحت ۹۰۰؍سے زائد عنوانات،چار تمہیدیں اورچار ضمیمے تھے- پانچویں ایڈیشن (۱۳۵۵ھ) میں پھرتقریباً ۲۰۰؍عنوانات کا مزید اضافہ ہوا- ۱۳۷۰ ھ میں کتاب کا چھٹا ایڈیشن سامنے آیا اوراس میں بھی کافی اصلاح واضافہ ہوا- باربار اضافے کے ساتھ اس برق رفتاری سے ا س کتاب کی مختلف اشاعتوں کا سامنے آنا اس کی اہمیت وافادیت ومقبولیت بتانے کے لیے کافی ہے- نیزاسی دورمیں پے درپے ملک کے نامور اخبارات ورسائل کا اس پر ریویوشائع کرنا اوردل کھول کر اس کی تعریف وتوصیف کے ساتھ اس کی انفرادیت کی گواہی دینا،جس کی چند جھلکیاں اوپرمذکور ہوئیں، اس کتاب کوکسی مزید تبصرے سے بے نیاز کردیتا ہے-اس لیے ہم اپنی رائے زنی سے اس مہتم بالشان کتاب کومحفوظ رکھتے ہیں- البتہ اس کتاب کے سرسری مطالعہ سے جوفائدہ ہمیں حاصل ہوا اسے قارئین کے ساتھ ضرورShare کرنا چاہیں گے-
یہ سوالات ماضی میں میرا تعاقب کرتے رہے ہیںکہ ختم نبوت کے تعلق سے مسلمانوں کے موقف واضح، متعین اوردودوچار کی طرح حتمی ویقینی ہونے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ مرزاقادیانی کے گرد ایک جم غفیر لگارہا، علماء کی بڑی تعداد اس کے ردوابطال میں لگ گئی، اقبال جیسے دانا وبینا مسلمان طویل عرصے تک تذبذب کا شکار رہے اورآج بھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طورپریہ فتنہ سرابھارتا رہتا ہے؟؟؟اس کتاب کے مطالعے سے یہ سوالات خود بخود حل ہو گئے اورقادیانی کی مبہم،دورخی، سحروکید میں الجھی ہوئی پالیسی کوپہلی بار کسی حدتک تفصیل سے سمجھنے کا موقع ملا- اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کتاب کے مصنف جناب پروفیسر الیاس برنی (ولادت۱۸۹۰ء وفات ۱۹۵۹) ایک مقام پرلکھتے ہیں:
’’کیفیت یہ ہے کہ مرزغلام احمدقادیانی صاحب نے اپنے مذہب کوجس شکل میں پیش کیا وہ مدتوں ابہام، التباس اورتضاد کی بدولت چیستاں اورمعمہ بنارہا، حتی کہ خود مرزا صاحب کواوران کے صاحب زادے میاں محمود احمدصاحب خلیفہ قادیان کواعتراف بلکہ اصرار ہے کہ مدت تک خود مرزا صاحب کوٹھیک پتہ نہ چل سکا کہ وہ کیا دعویٰ کررہے ہیں اور کیا حیثیت رکھتے ہیں-بہ مشکل تمام آخرعمرمیں مرزاصاحب کچھ سمجھے کہ وہ واقعی نبی اوررسول ہیں لیکن پھربھی انہوں نے اس درجہ بات گول رکھی کہ اب تک قادیانیوں کی لاہوری جماعت باوجود مرزاصاحب کی پیرو ہونے کے ان کے ادعاے نبوت ورسالت کی تاویل کرتی ہے- ان ہی الجھنوں کی بدولت مدت تک مسلمان مترددرہے کہ بالآخرمرزاصاحب کے مذہب پرکیاحکم لگائیں۔۔۔۔چنانچہ ڈاکٹر سرمحمداقبال نے بھی جوحال میں انگریزی مضامین لکھے ہیں،ان میں افسوس کیا ہے کہ مدت تک مسلمان دھوکے میں رہے اورحال میں ان پرقادیانی تحریک کی پوری حقیقت کھلی-‘‘(ص:۱۰۴،۱۰۵،تمہید چہارم)
’’قادیانی مذہب‘‘ کے پیش نظر جدید ایڈیشن میں ’’پیش لفظ‘‘ ازمولانا یسٓ اختر مصباحی، (۲؍صفحات)’’ حرف آغاز‘‘ ازمحمد امتیاز احمد(۲؍صفحات)کے علاوہ مولانا نفیس احمدمصباحی استاذ عربی ادب الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پورکی نوک قلم سے ۴۸؍صفحات پرمشتمل ایک وقیع تقدیم بھی شامل ہے،جس میں قادیانیت،رد قانیت، قادیانی مذہب کے مصنف کے حالات اورقادیانیت کے خلاف علمائے اہل سنت کی تاریخی معرکہ آرائیوں اوران کی ناقابل فراموش قربانیوں پرتفصیل سے عالمانہ گفتگو کی گئی ہے- اس سے اگر کتاب میں چارچاند نہیں لگے ہیں توموجودہ دورکے قاری کے لیے روشنی اوربصیرت کا سامان ضرورمہیا ہوگیا ہے- حضرت مولانا سے مجھے شرف تلمذبھی حاصل ہے،اس لیے ان کے نام کے ساتھ ’’ادیب اسلام‘‘ کا لقب پڑھ کرحیرت انگیز مسرت ہوئی-
کتاب دوحصوں پرمشتمل ہے، ہرحصے میں دس دس فصلیں ہیں، شروع میں مصنف کی طرف سے ایک ’’تعارف‘‘ اور۵ تمہیدیں ہیں،تمہیدیں کتاب کی پانچ ابتدائی اشاعتوں کی ہیں اور تعارف چھٹی اشاعت کاہے، زیرنظرجدید ایڈیشن اسی چھٹی اشاعت پر مبنی ہے- علاوہ ازیں آخرمیں ۵؍ ضمیمے بھی شامل اشاعت ہیں -
 اس کتاب کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کی نبوت کی طرف پرواز کرنے کی ابتدا نبی،نبوت اورخاتم النبیین کی جدید تفسیر وتعبیر اورفلسفیانہ وساحرانہ عبارت آرائیوں سے ہوئی ہے- دوران مطالعہ خیال آیا کہ دیوبندی جماعت کے مستند عالم جناب مولانا قاسم نانوتوی نے بھی اپنی کتاب تحذیرالناس میں یہی کارنامہ انجام دیتے ہوئے رقم فرمایا ہے کہ’’ اول معنی ختم النبیین معلوم کرنے چاہئیں تاکہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو، سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنیٰ ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں‘‘----ایک دوسرے مقام پر---’’غرض اختتام بایں معنیٰ تجویز کیا جاوے جو میں نے عرض کیا تو آپ کا خاتم ہونا انبیاء گذشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے-‘‘ (تحذیر الناس، ص: ۳/۱۳، کتب خانہ امدادیہ، دیوبند)
 اتنی بڑی جسارت کرنے کے باوجود نانوتوی صاحب کی خوش نصیبی دیکھیے کہ وہ آج بھی ملک کی ایک بڑی تعداد کی آنکھوں کا تارہ بنے ہوئے ہیں جب کہ انہی آنکھوں میں مرزاقادیانی کی حیثیت ایک کانٹے کی ہے، یہ کھلی ہوئی دوہری پالیسی ہے،جس کا مقدمہ میں اہل علم کی بارگاہ میں دائر کرتے ہوئے عرض گزار ہوں کہ آخرآج جولوگ اتحاد امت کا نعرہ بلند کررہے ہیں،جووقت کا تقاضا بھی ہے، وہ ان دوہری پالیسیوں کونظراندازکیوں کرجاتے ہیں؟؟
گفتگو ختم کرتے ہوئے اس جلیل القدر تصنیف کی ازسرنومجلد،کمپوزڈ،خوب صورت اشاعت کرنے والی تنظیم ’’تحریک اسلامی‘‘ کولکاتا، اس کے اراکین وممبران اوراس کے روح رواں جناب مولانا محمدامتیاز احمدمصباحی کومبارک باددینا اپنا فریضہ سمجھتاہوں، مولانا نے جب سے الجامعۃالاشرفیہ میں داخلہ لیا اپنی دعوتی، اصلاحی، تنظیمی کارگزاریوں کے سبب طلبہ میں نمایاں وممتاز رہے، الجامعۃ الاشرفیہ میں ان کی تنظیم ’’پیغام اسلام‘‘ کے نام سے کام کررہی ہے، جس نے اب تک متعدد کتب ورسائل شائع کیے -مولانا کولکاتاکے رہنے والے ہیں،غالباًوہاں کے نوجوانوں کوساتھ لے کر وہاں ’’تحریک اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھی ہے، اوراس کی طرف سے یہ تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے، وہ اس کے بعدمجاہد آزادی مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی رد عیسائیت میںمعرکۃ الآراء تصنیف’’اظہار الحق‘‘ کی اشاعت کا ارادہ رکھتے ہیں،خدا انہیں ان کے مقصد میں کامیابی سے ہم کنار فرمائے اورہمیں حسب استطاعت ان کے تعاون اورحوصلہ افزائی کی توفیق خیربخشے ،آمین-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔