Thursday 31 August 2017

’’عقل کے مدرسے سے اٹھ عشق کے میکدے میں آ‘‘-------- ذیشان احمد مصباحی

0 comments
 قلبی واردات ------------------ ذیشان احمد مصباحی
’’عقل کے مدرسے سے اٹھ عشق کے میکدے میں آ‘‘
اول نظر میں یقین نہیں آتا کہ یہ اس مفکر کے الفاظ ہوں جس کی نظیر پچھلی کئی صدیوں میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی، اگر کوئی کور مغز عقل کے مدرسے کو خیرباد کہتا ہے تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ، کیوں کہ اس مدرسے کے اسباق اس کے سر سے گزرنے والے ہیں، وہ قوت فکر سے محروم اور دولت عقل سے نابلد ہے، لیکن وہ شخص جو شاہینی فکر کا حامل ہو، جس کے پرواز تخیل سے انجم خائف ہوں اور جس کی سوچ ستاروں سے اوپر کی دنیا تک پہنچ گئی ہو، اگر وہ عقل کے مدرسے کو چھوڑنے اور میکدۂ عشق میں حاضر ہونے کی دعوت دیتا ہے تو حیرت بھی ہے اور ہم جیسے پست ذہنوں کے لیے دعوت فکر بھی- کیوں کہ اگر مفلس کو پیوند بھلا معلوم ہو، خانہ بدوش کو بس اڈے اور ریلوے اسٹیشن پر نیند آئے، حبشی کو سیاہ فام عورت حسین نظر آئے، اندھے کو بجلی آنے یا جانے کی کوئی فکر نہ ہو اور گنجے کو کنگھی سے وحشت ہو تو اس میں حیرت کیا ہے لیکن اگر کوئی سلطان صوف زیب تن کر لے ، رئیس شہر صحرانوردی اختیار کر لے، ایک شہزادہ سیاہ فام عورت کو محبت سے دیکھے، کوئی صاحب بصارت و بصیرت روشنی سے بھاگنے کی کوشش کرے اور زلف خم دار کا مالک پراگندہ بال پھرے تو حیرت بھی ہے اور لمحہ فکر یہ بھی-
اقبال زبردست فکر و دانش کے مالک تھے ، وہ کالج کے پروردہ تھے، دانش کدۂ فرنگ کی روشنی سے اپنی عقل کو چمکایا تھا، اگر ان کی زندگی اور خدمات کو ایک لفظ سے تعبیر کریں تو وہ’’فکر‘‘ کے علاوہ کوئی اور لفظ نہیں ہو سکتا- لیکن باوجود اس کے جب انہوں نے دماغ کی رگیں نچوڑ دیں، فکر کے گھوڑے کو تھکا دیا اور تخیل کے دوش پر ستاروں سے آگے بڑھ گئے تو میکدۂ عشق میں قدم رنجہ ہو گئے اور خانۂ دل کو عقل کی پاسبانی سے آزاد کر کے عشق کے سخت امتحان میں بیٹھ گئے، آخر ایسا کیوں؟
امام علم و فن مولانا روم مدرسۃ العلوم میں استاذ تھے اور علم و فن کا دریا بہا رہے تھے، لیکن اچانک اسے خیرباد کہہ دیا اور ایک مست جا م الست شیخ شمس تبریزی کی جلوہ گاہ معارف میں حاضر ہو گئے اور کل تلک جو ایک ’’ مولوی‘‘ تھے وہ اب ’’مولائے روم‘‘ بن گئے، بعد رحلت عرب وعجم کے مولا ہو گئے اور اب اس اکیسویں صدی میں جسے سائنس اور ٹکنالوجی کے شباب کا عہد سمجھا جا رہا ہے وہ اس پورے عہد کے مولا بنتے جا رہے ہیں، اس ’’ غلام تبریزی‘‘ کے سامنے کل تک مشرق جھکا ہوا تھا آج پورا مغرب اس کا غلام بنتا جا رہا ہے، آخر راز کیا ہے؟
یہ بات بھی ذہن نشیں رکھنے کی ہے کہ عشق و عقل کی جنگ بہت قدیم ہے اور جتنی قدیم ہے اتنی ہی دل آویز بھی اور یہ بھی ایک عجوبہ ہے کہ عقل آلۂ تمیز ہے لیکن عقل کے پر ستار ہمیشہ حیرانی میں مبتلا رہتے ہیں اور عشق راہ تسلیم ہے لیکن جادۂ عشق کے مسافر ہمیشہ جوہر عرفان حق سے مالا مال رہتے ہیں، عقل روشنی کی مدعی ہے لیکن عقلیت زدہ تاریک وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں ، عشق آنکھیں بند کرنے کے مترادف سمجھاجاتا ہے لیکن عشاق کا باطن اتنا روشن ہوتا ہے کہ ان کی نگاہ بصیرت کا سفر اس مقام سے شروع ہوتا ہے جس مقام پر نور بصارت کی انتہا ہوجاتی ہے، عشق و عقل میں تفضیل کی بحثیں بھی اٹھی ہیں اور اس پر معرکے بھی گرم ہوئے ہیں، ہمیں ان مناظروں سے کوئی واسطہ نہیں، اس بندۂ ہیچ مداں نے جو کچھ سمجھا وہ فقط یہ ہے کہ عشق عقل کے اضافی وصف یا ارتقائی شکل کا نام ہے، جب عقل پختہ ہو جاتی ہے تو عشق کی صورت اختیار کر لیتی ہے- اس لیے عشق و عقل کی جنگ حقیقی معنوں میں کوئی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، اقبال یا رومی یا ان کی طرح دوسرے صدہا ہزار اہل دانش و بینش نے عقل کے مدرسے کو چھوڑ کر عشق کے میکدے میں آنے کی جو بات کی ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے’’عقل‘‘ جیسی دولت گراں مایہ کو ترک کر دیا ، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ عقل کے مرحلہ تشکیک سے مرحلہ یقین کی طرف منتقل ہو گئے، حیرانیت سے ایمانیت کی طرف آ گئے اور ان کی عقل مکمل ہو کر عشق میں تبدیل ہو گئی-
اقبال نے یہ بھی کہا کہ دل کے ساتھ پاسبان عقل کا ہونا لازم ہے لیکن اسے کبھی کبھی تنہا بھی چھوڑ دینا چاہیے ، یہ ’’کبھی کبھی‘‘ کا وقت کیا ہے؟ کبھی کبھی دل کو پاسبان عقل سے آزاد کرنے کی دعوت ہرگز ’’ بے عقلیت‘‘ کی دعوت نہیں، میرا وجدان بولتا ہے کہ عقل حَرکی چیز ہے، وہ ہمہ دم تلاش و جستجو میں مصروف رہتی ہے، یہ بڑی اچھی بات ہے، لیکن یہ بڑی بے عقلی کی بات ہے کہ جس چیز کی جستجو ہو اس کے مل جانے کے بعد اسے مضبوطی سے تھام لینے کی بجائے حرکت و حیرانی میں مبتلارہ کر اسے گم کر دیا جائے، اقبال کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ عقل صیاد ہے اور عشق اس کا جال، جب صیاد کی کوششوں سے شکار جال میں آجائے تو اسے وہیں رکھ چھوڑا جائے، پھر شکار کو آزاد کرکے اس کے پیچھے صیاد کو دوڑانا سوائے حماقت کے اور کیا ہے؟ خدا پر ایمان، نبوت و رسالت کا یقین ، یہ ساری باتیں عقل کی جستجو سے ملتی ہیں، لیکن جب عقل نے نبوت و رسالت کا فیصلہ کر دیا ، دل نے شہادت دے دی اور زبان نے اعلان کر دیا، اب اس کے بعد بھی پیغمبر کی باتوں میں بے یقینی، ان کے ارشادات کو عقل کے ترازو پر تولنے کوشش، عقلیت کی بجائے اس لیے بے عقلیت ہے کہ اس کامطلب یہ ہوا کہ اسے اب تک رسالت و نبوت کا ہی یقین نہیں، اس کی عقل ابھی پہلی منزل میں ہی اٹکی پڑی ہے، پہلی منزل کی سیر کیے بغیر دوسری منزل تک پہنچنے کی کوشش عقلیت نہیں بے عقلیت ہے، عقلیت یہ ہے کہ جب پورے غور و فکر کے بعد نبوت و رسالت کا یقین ہو گیا ، جس کے واضح معنی یہ ہیں کہ پیغمبر کا رشتہ خدا سے ہے، پیغمبر جو کچھ کہیں گے خدا کی مرضی اس میں شامل ہو گی اور حقائق کا علم خدا کو حتمی اور یقینی ہے، تو اب پیغمبر کی ہر بات آنکھ بند کرکے مانی جائے اور عقلی تشکیک سے اپنے آپ کو برباد نہ کیا جائے، یہی عقل سلیم کا تقاضا ہے، اس کے بجائے ہر بات میں شبہات میں الجھے رہنا سخت حماقت ہے، جو ایمان بالرسالت کے فقدان کی دلیل ہے-
محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی اپنے مشہور رسالے ’’مرج البحرین‘‘ کی پانچویں فصل کی ذیل میں حقیقت عقل پر تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’ حاصل یہ کہ عقل ایک نعمت ہے جس کا شکر ادا کیا جانا چاہیے اور نعمت عقل کا شکریہ ہے کہ بغیر کسی تردد اور پس و پیش کے اسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اور ان کے احکام کی پیروی میں لگا دیا جائے کہ فرمانے رسول کے خلاف دم زدن کی ہمت نہ رہے تاکہ ایمان کی سعادت سے محرومی نہ ہو- یہ کیسی بد نصیبی اور بدبختی ہے کہ کسی کے سامنے خوان نعمت سجا دیا جائے اور وہ اس کے تعلق سے شک و شبہ میں پڑ کر بحث و جدال شروع کر دے کہ اس کھانے کی حقیقت کیا ہے؟اسے کس نے کہاں سے لایا؟ اس سے سیری ہوگی یا نہیں؟ اس کی کوئی حقیقت ہے یا نہیں؟ وہ ایسے ہی بیہودہ خیالات میں الجھا رہے اور دوسرے آکر اس کھانے کو چٹ کر جائیں- اس طرح دوسرے محظوظ ہوں اور وہ خود محروم رہ جائے-‘‘
(مطبوعہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی اکاڈمی، کوچہ چیلان ،نئی دہلی،ص: ۲۸)
اس بات کی وضاحت امام فخر الدین رازی کے اس واقعے سے بھی ہوتی ہے کہ وقت نزاع شیطان حاضر ہوا اور خدا کی شان وحدانیت پر دلیل مانگ بیٹھا، انہوں نے دلیل دی اور شیطان نے اسے رد کر ڈالا پھر دوسری دلیل دی اور شیطان نے اسے بھی کاٹ دیا، کہتے ہیں کہ قریب تھا کہ دنیا کو ایمان کی دولتیں بانٹنے والا دنیا سے بے ایمانی کی حالت میں کوچ کر جاتا کہ ان کے شیخ نجم الدین کبریٰ نے کہیں دور سے آواز دی اور کہا کہ بحث کیوں کرتے ہو، کہہ دو کہ میں بلا دلیل مانتا ہوں کہ خدا ایک ہے، اس طرح شیطان نامراد واپس ہوا— اس پورے واقعے سے بتانا یہ ہے کہ امام رازی کے شیخ نے انہیں بے عقلی کی دعوت نہیں دی بلکہ عقل کا تقاضا یہی ہے کہ جس چیز کا یقین حاصل ہے اس کو مانا جائے اور بے جا بحث کر کے وقت اور ایمان کو ضائع ہونے سے بچایا جائے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی بحث کی طولانی ختم کرنے کے لیے اگر یہ کہے کہ میں بلا دلیل کہتا ہوں کہ میں انسان ہوں، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پاگل ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عقل حتمی طور پر فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ انسان ہے، اسے اس مسئلہ میں کوئی تذبذب یا شبہ نہیں ہے-
عشق اور عقل کو ایک دوسری مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے، عقل بادشاہت ہے اور عشق جوہریت، یہ دونوں ایسے وصف ہیں جو باہم جمع بھی ہو سکتے ہیں اور نہیں بھی ہو سکتے ہیں، بادشاہ کے پاس ہیرے کے ساتھ دوسرے پتھر بلکہ خس و خاشاک بھی ہوتے ہیں لیکن جوہری کو صرف ہیرے سے غرض ہوتی ہے، ایسا ہو سکتا ہے کہ بادشاہ ہر چیز کا مالک ہو لیکن اسے ہیرے کی شناخت نہ ہو، وہ ہیرا پاس رکھ کر بھی ہیرے کی تلاش میں ہو، لیکن ایسا معاملہ جوہری کے ساتھ نہیں ہو سکتا، اسے ہیرے کی مکمل شناخت ہے، وہ اسے پاتے ہی مٹھی میں بھر لے گا اور شاد کام ہو جائے گا، یہی معاملہ اہل عشق اور اہل عقل کا ہے، اہل عشق کو حقیقت کا عرفان حاصل ہوتا ہے، وہ حقیقت کو پاتے ہی مگن ہو جاتے ہیں مگر اہل عقل جو دولت عشق سے محروم ہوں، اپنے پاس سب کچھ رکھتے ہوئے بھی حقیقت سے بے خبر اور حیران و پریشان ہوتے ہیں، اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ ایمان کے لیے بہت زیادہ علم کی ضرورت نہیں، اگر صرف حقیقت کا ادراک حاصل ہو جائے تو دنیا کی دوسری تمام چیزوں سے بے خبر ہوتے ہوئے بھی دولت ایمان سے سرفرازی ہو سکتی ہے اور تمام علوم و فنون سے واقفیت کے باوجود اگر نگاہ حق شناس نہ ملی جو جوہر شناسی کے لیے ضروری ہے تو حق کا علم منطقی ہونے کے باوجود بھی حق سے دوری ہی رہے گی- ہمیں خدا سے ثروت شاہی بھی مانگنی چاہیے اور نگاہ جوہری ملنے کی بھی دعا کرنی چاہیے-
یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ عشق جہالت نہیں ہے اور عقل لاادریت نہیں ہے، کچھ لوگ اپنے جہل کو عشق سمجھتے ہیں اور کچھ بے یقینی کو عقل سمجھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر بے یقینی عقل ہے تو پھر بے عقلی کیا ہے؟ جاہل ہٹ دھرم ہو سکتا ہے عاشق نہیں ہو سکتا اور بے یقین خبط الحواس ہو سکتا ہے عاقل نہیں، دراصل یہ تدریجی سفر ہے، نقطہ آغاز جہل اور عقل کا سنگم ہے، جہل کی سمت کو چھوڑ کر توفیق الٰہی کے سہارے عقل کی طرف سفر شروع ہوتا ہے، عقل کی طویل وادی ہے، اسی وادی میں وہم بھی ہے اور خیال بھی، قرآن نے جن شعراء کو’’ غاؤون‘‘ کہا، وہ اسی وہم و خیال کے بیچ بھٹکتے رہتے ہیں، اس سے آگے وہ منزل ہے جہاں عقل معلوم شدہ حقائق میں ترتیب و تفکیر کے بعد کسی حتمی نتیجہ تک پہنچتی ہے، یہ نتیجہ حاصل ہوتے ہی عقل مقام تیقن پر فائز ہو جاتی ہے اوریہی مقام عشق بھی ہے، اس تیقن کے بعد اگر طمانیت حاصل نہیں ہوئی اور عقل مسلسل چون و چرا کہتی رہی تو پھر وہ مقام عشق اور مقام تیقن سے نیچے گرتی ہے اور اس کے بعد کا جو مقام ہوتا ہے یہی’’مقام لاادریت‘‘ ہے، اس مقام پر پہنچ کر انسان عاقل نہیں رہ جاتا بلکہ پریشان خاطری کا شکار ہو جاتا ہے، اس کے پاس معلومات کا سمندر ہوتا ہے لیکن اس سمندر میں تموج اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیے کوئی مقام متعین نہیں کر پاتا، وہ علم ہوتے ہوئے جاہل ہوتا ہے، وہ فضائوں میں پرواز کر رہی وہ پتنگ ہوتا ہے جس کی ڈور کٹ گئی ہو، وہ ایک فلک بوس عمارت ہوتا ہے جس کے نیچے بلڈوزر چل گیا ہو، وہ خوب صورت کلی ہوتا ہے جسے شاخ شجر سے جدا کر دیا گیا ہو، اس کے پاس زرق برق کپڑے ہوتے ہیں لیکن انہیں زیب تن کرنے کے لیے صحت مند جسم نہیں ہوتا، اس کے پاس پیٹرول کا ٹینک ہوتا ہے لیکن کوئی گاڑی نہیں ہوتی اور وہ اپنی وسیع معلومات میں الجھا خودکوایسا بے بس محسوس کرتا ہے گویا صیاد اپنے ہی دام میں آ گیا ہو-
دوسرے لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ عقل کی تین منزلیں ہیں، منزل تو ہم، منزل یقین ،منزل لاادریت، خیر الأمور أوسطہا کے تحت عقل کی منزل کمال ،منزل یقین ہے- جہل ،عشق ، انکار - شرک،ایمان، دہریت اور نا سمجھی ،سمجھداری اور پاگل پن یہ اوصاف عقل کی انہی تین منزلوں کے مختلف نام ہو سکتے ہیں- عقل سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ ’’ امراوسط ‘‘ کو اپنایا جائے اور جادۂ اعتدال پر گامزن رہا جائے-
میں نے کہا کہ جاہل ہٹ دھرم ہو سکتا ہے عاشق نہیں، یہاں غور کیجیے تو یہ عقدہ کھلے گا کہ جاہل کو اپنی جہالت پر اسی طرح یقین ہوتا ہے جس طرح عاشق کو اپنے عرفان کا یقین ہوتا ہے- جاہل کو اگر اپنی جہالت کا علم ہو جائے تو پھر وہ جاہل رہے گا ہی نہیں، یہ ایسے ہی جیسے خواب میں دولت بٹورنے والا حقیقت میں خود کو دولت مند سمجھتا ہے ،وہ اسے کبھی خواب نہیں سمجھ سکتا، اگر اسے خواب سمجھ لے تو پھر وہ خواب میں رہا ہی نہیں وہ تو بیدار ہو گیا- یہ وہ مقام ہے جہاں بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ ہدایت و گمرہی منجانب اللہ ہے،یہ انسان کی عاجزی کا مقام ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں اسے اپنے مالک کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور مالک سے توفیق کا طالب ہوتا ہے، یہی طلب توفیق ہی ہدایت کا پہلا زینہ ہے لیکن اس کو کیا کیجیے کہ بغیر فضل خدا وندی یہ طلب بھی تو نہیں پیدا ہو سکتی - لیکن ہمارے اختیار میں یہ ضرور ہے کہ اگر ہمیں اپنی عاجزی کا ادراک ہو جائے تو فوراً ہی دست دعاء دراز کر دیں اور عرض کریں کہ ساری حمد سارے جہان کے رب کے لیے ہے، جو بہت مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ، روز جزاء کا حاکم وہی ہے، خدایا ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں، ہمیں سیدھے راستے پر چلا، ان نیک بندوں کے راستے پرجن پر تونے انعام و اکرام کیا ہے اور ان کی راہ سے بچا جن پر تیرا غضب ناز ل ہوا یا جو تیری راہ سے برگشتہ ہو گئے-(آمین )
ایں قدر گفتیم باقی فکر کن
فکر اگر جامد بود رو ذکر کن

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔