Friday 25 August 2017

ہندوستانی مدارس میں رائج نظامِ افتا میں تبدیلی کی ضرورت ہے

0 comments
ہندوستانی مدارس میں رائج نظامِ افتا میں تبدیلی 
کی ضرورت ہے
جامعہ عارفیہ کے استاذ ومفتی رحمت علی سے 
خصوصی گفتگو
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------
مفتی ر حمت علی مصباحی صاحب کا شمار ان محققین مفتیانِ کرام میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی فقہی بصیرت کے ذریعے نظامِ فقہ وافتا کو ایک نئی سمت عطا کی ہے۔ آپ کی ولادت ۱۹؍ ستمبر ۱۹۸۲ء کو صوبۂ بہار کے ضلع سمستی پور کے ایک گائوں ’’میمی‘‘ میں ہوئی۔ مدرسہ معراج العلوم ، کولکاتا میں حفظ کی تعلیم مکمل کی اور وہیں سے درسِ نظامی کا آغاز بھی کیا۔ اعدایہ واولیٰ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ عربیہ اظہار العلوم، امبیڈکر نگر میں ثانیہ سے رابعہ تک کی تعلیم مکمل کی۔ جب کہ خامسہ سے فضیلت کی تعلیم کا مرحلہ جامعہ اشرفیہ، مبارک پور میں طے کیا۔ وہیں سے اختصاص فی الفقہ الحنفی کا کورس بھی مکمل کیا۔ ۲۰۰۶ء میں افتا کی فراغت کے بعد جامعہ رضویہ مظہر العلوم، گرسہائے گنج، قنوج میں دس سال تک منصبِ تدریس وافتا پر فائز رہے۔ خانقاہِ عارفیہ اور صاحبِ خانقاہ سے کئی سالوں سےمتعارف تھے۔ سالِ گزشتہ جامعہ عارفیہ میں تدریسی خدمات سے وابستہ ہوئے اور جامعہ کی تعلیمی وتربیتی سرگرمیوں کو اعلیٰ سمت عطاکرنے میںدیگر رفقا کےساتھ مصروف ہوگئے۔اس وقت ایک بے باک ونکتہ رس خطیب اور جامعہ عارفیہ کے استاذ ومفتی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ قلم سے بھی کچھ حد تک وابستگی ہے، مگر زیادہ زور فقہ وافتا اور تدریس وخطابت پر ہے۔ آپ سے لیے گئے انٹرویو کے چند اقتباسات نذرِ قارئین ہیں:------------ شاہد رضا نجمیؔ
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ماہنامہ دعوت:-
 ہندوستانی مدارس میں اختصاص فی الفقہ کے مروج نظام سے آپ کس حد تک متفق ہیں؟ وہ کون سا طریقۂ کار ہے جس پر بہت کم یا بالکل ہی توجہ نہیں دی جاتی ہے؟
    مفتی رحمت علی مصباحی:-
    ہندوستانی مدارس میں اختصاص فی الفقہ کا جو طریقہ ہے، وہ یہ ہے کہ دو سالہ کورس میں کچھ اصول کی کتابیں ، جیسے فواتح الرحموت، الاشباہ والنظائر، رسم المفتی وغیرہ پڑھائی جاتی ہیں، مشق کے نام پر افتا کے لیے اردو میں سوال دیے جاتے ہیں کہ اس کے جزئیات فقہ حنفی کی مستند کتابوں میں تلاش کرکے جواب لکھے جائیں، اس کو آپ یوں سجھیں کہ انشا میں جیسے اردو سے عربی بنانے کے لیے دیا جاتا ہے وہی صورت یہاں بھی ہے، فرق یہ ہے کہ انشا میں خود عربی بنانی پڑتی ہے اور مشق افتا میں بنےہوئے عربی الفاظ تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ اس سے آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ مروج نظام کتنا مفید ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مفتی کے نام پر ایک ’’باشعور ناقل‘‘ بنانا ہی افتا ہے۔ البتہ دو سال میں کثرت مطالعہ کی وجہ سے اتنا علم ہوجاتا ہے کہ کون سا مسئلہ کس کتاب میں، کس باب میں ملے گا۔ اس طریقۂ کار میں طلبہ کو اصول پڑھاکر اس کا اجرا نہ کرانا، میرے نزدیک سب سے بڑی کمی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ اصول تو وہی رہیں البتہ طلبہ کو اس پر زور دلایا جائے کہ وہ خود ایک ایک اصول پر چند تفریعات جدید وقدیم مثالوں اور مسئلوں سے بیان کریں۔ اس سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ طلبہ کے اندر نئے مسائل حل کرنے کی صلاحیت، استنباط کی قدرت پیدا ہوگی اور آج جو ’’چین کی گھڑی‘‘ جیسے چھوٹے چھوٹے مسائل میں سیمینارکرنے اور پچاس ساٹھ مفتیوں کو بلانے کی ضرورت پڑ رہی ہے وہ نہیں پڑے گی۔
     اختصاص کے طلبہ کو نقل کے بجائے اصلِ ماٰخذ سے استدلال کرنے کا طریقہ سکھایا جائے۔ آیاتِ احکام، احادیثِ احکام، افتا سے متعلق فقہی جزئیات تھوڑے تھوڑے حفظ کرائے جائیں۔ کم سے کم اپنے مذہب کے متون اور دلائل ضرور یاد کرائے جائیں۔ جدید مسائل پر طلبہ کوتحقیقی مشق کے مراحل سے گزارا جائے، تاکہ ان کے اندر استنباطِ مسائل کی قوت پیدا ہوسکے۔ سال میں کم سے کم ۵۰؍ صفحات پر مشتمل ایک فقہی عنوان کے تحت تحقیقی مقالہ لکھوایا جائے۔ افتا کے شرعی مقصد کو ذہن نشین کرائیں کہ اس کا مقصد اسلام کی ترویج واشاعت یعنی اسلام کو پھیلانا ہے، نہ کہ اسلام کے دائرے کو اور محدود کرنا۔نیز اگر ایمان وکفر کا مسئلہ ہو تو اس حوالے سے متکلمین وفقہاکے اصول کو ذہن میں رکھیں، نہ کہ حسب ونسب اور اپنے وبیگانے کے اصول۔
  ماہنامہ دعوت:-
آپ ایک ممتاز شخصیت، ایک جید عالم اور باوقار مفتی۔ مدارس آپ کی تدریسی خدمات کے حصول کے لیے کوشاں۔ پھر یہ جامعہ عارفیہ سے منسلک ہونے کا ارادہ کیسے بن گیا؟
  مفتی رحمت علی مصباحی:-  
    دیکھیے! یہ ہماری خوش بختی اور فیروز مندی ہے کہ تعلیم وتربیت کے اس اعلیٰ دانش گاہ میں ہمیں خدمت دین کرنے اور حضور داعیِ اسلام دام ظلہٗ کے دامنِ تربیت وہدایت میں اپنی شخصیت سازی کا موقع میسر آیا ہے۔ جس پر میں جتنا نازاں رہوں یہ میرے لیے کم ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے مخلص احبابِ درس خصوصا محبِ گرامی مولانا ذیشان احمد مصباحی اور مولانا امام الدین سعیدی کا میں ممنون ہوں کہ انھیں کی تحریک ودعوت پراس اعلیٰ اور ممتاز درس گاہِ علم وفضل میں میری حاضری ہوئی۔ گزشتہ سال مستقل آمد واقامت سے قبل بھی وقتا فوقتا کئی بار یہاں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی اور حضور داعیِ اسلام سے ملاقات وزیارت اور ان کی داعیانہ ومصلحانہ ارشادات وتعلیمات کو سننے اور سمجھنے کا موقع میسر آیا۔ مجھے اس کے اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ پہلی حاضری کے بعد ہی سے یہاں کے تعلیمی اور دعوتی نظام وتربیت کو دیکھ کر میں بہت متأثر ہوا تھا اور یہاں آنے کی تڑپ اور چنگاری میرے دل میں بھڑک اٹھی تھی۔ لیکن بوجوہ میں چند سال تاخیر سے مستقل اقامت کی نیت سے حاضر ہوا۔ حضور داعیِ اسلام نے اپنی کریمانہ شفقتوں کے ساتھ ہمیں اس تعلیمی وتربیتی قلعے میں خدمت کا موقع عنایت کیا جس کے لیے میں حضور کا ممنون واحسان مند ہوں۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ مستقل اقامت کے بعد مجھے اس حقیقت کا بخوبی ادارک ہوا کہ یہاں مجھے اور پہلے آجانا چاہیے تھا۔ یہاں سے پہلی شناسائی کے بعد جتنی تاخیر آنے میں ہوئی، میں ان ایام کا اپنے حق میں ضیاع سمجھتا ہوں۔  
ماہنامہ دعوت:- 
فتوے کے نام پر تکفیر وتضلیل وتفسیق کا جو بازار گرم ہے، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس کی وجہ سے ہمارے دار الافتا اپنا وقار کھوتے چلے جارہے ہیں اور لوگوں کا ان سے اعتماد اٹھ رہا ہے؟
   مفتی رحمت علی مصباحی:-
     فتویٰ جب تک اپنے معنی ومفہوم میں تھا اس وقت تک وہ بہت ہی معتمد اور کار گر تھا۔ لیکن جب سے دنیا کمانے اور شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے اس کی حیثیت بس ایک مقرر کی ہوکر رہ گئی ہے جس کی تقریر رات بھر لوگ سنتے ہیں اور جلسے کے بعد جلسہ گاہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور کچھ اثر مرتب نہیں ہوتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ خود صاحبانِ فتویٰ کے اندر خوفِ خدا کا نہ ہونا اور اس بات کو بھول جانا ہے کہ وہ اپنے معبود حقیقی کے سامنے کبھی جواب دہ ہوں گے۔ بس دنیا طلبی، ابن الوقتی، نام ونمود میں اتنے غرق ہیں کہ وہ کتاب بھی بھول گئے ہیں جس کو پڑھ کر وہ مفتی بنے ہیں۔ اگر وہ اسے نظر میں رکھتے تو شاید دارالافتا کا یہ حال نہ ہوتا۔
    نیز فتویٰ کا مطلب ہے سوال کا جواب دینا، نہ کہ بغیر سوال کے ایسا فتویٰ لکھنا جس سے شریعت کی روح مجروح ہو، جیسا کہ کچھ سال پہلے ہوا۔ بغیر استفتا کے ایک ٹینس کھلاڑی کے کپڑے پر فتویٰ دیا گیا جس کا مذاق پورے ہندوستان میں اڑایا گیا اور وہ فتویٰ بس ایک تاریخی مذاق بن کر رہ گیا۔
    اس بے وقاری کی ایک بڑی وجہ ہر مفتی کا اپنے فتوے کو نصِ قطعی کا درجہ دے کر دوسرے کے فتوے کو رد کرنا اور دارالافتا کو مناظرہ ومباحثہ کا میدان بنانا ہے اور آپس میں اس طرح دست بہ گریباں ہونا ہے کہ جب تک دوسرے کو کافر نہ بنالیں چین کی سانس نہ لیں۔ آپ سوچیے: جب عوام یہ دیکھے گی کہ ایک مفتی دوسرے مفتی کو صرف ایک مستحب میں اختلاف کی وجہ سے کافر بنا رہا ہے تو عوام کی نظر میں ایسے مفتی اور دارالافتا کی کیا اہمیت رہ جائے گی۔  
ماہنامہ دعوت:-
 داعیِ اسلام شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہ العالی کے بارے میں کیا تاثر دینا چاہیں گے؟ 
مفتی رحمت علی مصباحی:-
    مرشد گرامی داعی اسلام ادام اللہ ظلہٗ علینا کی ذات بابرکت کے بارے میں اپنی زبان سے کیا عرض کروں۔ فقط اتنا کہ وہ گم گشتگانِ راہ کے لیے ہدایت کا نور ہیں جن کی روشنی میں وہ ہدایت پاتے ہیں اور اپنی عاقبت سنوارتے ہیں۔ یہاں آنے سے قبل ہم خود کو اور معاشرے کو دیکھتے تو سمجھتے تھے کہ کتابوں میں صحابۂ کرام اوربزرگانِ دین کی سیرت کے متعلق ہم نے جو پڑھا تھا وہ صرف کتابوں تک محدود ہے۔ موجودہ دور میں ان کی سیرت کے حاملین نہیں ہیں، مگر حضور داعیِ اسلام اور یہاں کے اساتذہ وطلبہ کو دیکھ کر  یقین ہوگیا کہ نہیں! جس سیرت وکردار کے متعلق ہم نے پڑھا تھا اس کے حاملین اب بھی موجود ہیں۔حضور داعیِ اسلام کی سیرت وکردار  ایک کھلی کتاب ہے۔ حضور ﷺکی مکی زندگی ہو یا مدنی زندگی، سب کا مکمل جامع نمونہ آپ کی ذات ہے۔ اب صرف دیکھنے والے کی نیت پر ہے کہ وہ کس نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے! 
آنکھ والا ترے جوبن کا تماشا دیکھے
دیدۂ کور کو کیا آئے نظر، کیا دیکھے
ماہنامہ دعوت:-
اس سال شعبۂ دعوت کے تحت مشقِ افتا کا آغاز کیا گیا۔ اس کی افادیت واہمیت پر کچھ روشنی ڈالنا پسند کریں گے؟
   مفتی رحمت علی مصباحی:-
     جامعہ ہٰذا میں بفضلہ تعالیٰ اس سال سے مشق افتا کا کورس شروع کیا گیا ہے۔ یہاں مشقِ افتا کا جو نظام اراکین کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے وہ میری معلومات کے مطابق سب سے الگ اور منفرد ہے۔ پہلی انفرادیت تو یہ ہے کہ یہاں ائمہ اربعہ کے مذاہب پر تخصص کا منہج مقرر کیا گیا ہے جو موجودہ سنی مدارس میں نہیں ہے۔ اس سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایک مفتی کو اپنے مذہب کے علاوہ دوسرے  مذاہب کے مسائل ودلائل معلوم ہوجاتے ہیں اور اس سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہیں۔ مثلا: درس کی کتابوں میں بہت سے مسائل میں ائمہ مذاہب کا اختلاف دکھا کر کئی صفحات دلائل وبراہین اور ان کے رد وابطال میں لکھے جاتے ہیں ،پھر امام کی اصل کتاب دیکھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ اختلاف ہے ہی نہیں۔ پہلے کے زمانے میں امام کی اصل کتاب دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کے مسائل کتابوں میں آگئے۔ آج ضرورت ہے کہ اس طرح کے نظام ونصاب دوسرے مدارس میں بھی نافذ کیے جائیں جس سے حقیقی معنوں میں مفتی ’’مفتی‘‘ ہوکر نکلیں، صرف ناقل ہوکر نہیں۔
  ماہنامہ دعوت:-
 طلبہ مدارس کے لیے کوئی خاص پیغام؟
   مفتی رحمت علی مصباحی:-
    طلبۂ مدارس کے لیے میرا پیغام صرف اتنا ہے کہ وہ ہمت اور حوصلے سے اپنی تعلیم میں لگے رہیں اور یہ سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی چیز انسان سے بڑھ کر نہیں بنائی، سب انسان کے تابع ہیں۔ جب ایک انسان کتاب لکھ سکتا ہے جو انتہائی مشکل کام ہے تو ایک انسان اس کو پڑھ بھی سکتا ہے اور سمجھ بھی سکتا ہے جو آسان کام ہے۔ دنیاوی مشکلات سے نہ گھبرائیں اور نہ ڈریں۔ ہر پریشانی کے بعد آسانی ہے۔ان مع العسر یسرا۔   

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔