Thursday 31 August 2017

اہل سنت کی آواز (خصوصی شمارہ: اکابر مارہرہ)

0 comments
سال نامہ اہل سنت کی آواز
(خصوصی شمارہ: اکابر مارہرہ)
             مدیر اعلیٰ:سید نجیب حیدر قادری برکاتی نوری
             مدیر معاون: ساحل شہسرامی( علیگ)
             صفحات:۶۱۶
             سن اشاعت :ذی قعدہ ۱۴۳۰ھ/نومبر۲۰۰۹ء
             ناشر:خانقاہ برکاتیہ ، بڑی سرکار، مارہرہ شریف ،ضلع ایٹہ (یوپی)
             تبصرہ نگار: ضیاء الرحمٰن علیمی  
تصوف حرکی چیز ہے اور خانقاہیں حرکت وعمل کے گہوارے- جب تک خانقاہی نظام میں اضطراب مسلسل رہااور خانقاہی افراد کے دلوں میںاسلام کی دعوت کی تبلیغ واشاعت کی خلش رہی تب تک تصوف کی کرن آفتاب نیم روز کی طرح کائنات کے گوشے گوشے کو منور کرتی رہی اور جیسے ہی تصوف اور خانقاہی نظام سے اضطراب رخصت ہوا اور اس کی جگہ جمود و تعطل نے لے لی خانقاہی نظام رخصت ہوگیا اور اس کی اثر انگیزی کا دائرہ بھی شب و روز سمٹتا چلا گیا ، ایسے میں ضرورت اس بات کی تھی کہ خانقاہی نظام کا احیا ان ہی بنیادوں پر کیا جائے جن پر وہ اپنے دور عروج میں قائم تھا- رب تعالیٰ کا شکر ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی نظام تصوف کے احیا کا بھی آغاز ہوگیا ہے اور مختلف خانقاہوں میں زندگی کی چنگاریاں اب شعلہ بننے کی لیے تیار ہیں، صرف چند پھونکوں کی ضرورت ہے-
خانقاہی نظام کی ابتری کے دور میںخانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف کو اس باب میں اولیت حاصل ہے کہ اس نے سب سے پہلے اکیسویں صدی کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے عملی اقدام کیا اور دوسری خانقاہوں کو یہ ذہن دیا کہ کام کیسے کیا جاتاہے- ان کی کوششوں میں جہاں تعمیری ، تعلیمی اور تنظیمی امور شامل ہیں وہیں ان کی کاوشوں کا دائرہ تحریروقلم کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہے- ان کی تحریری کاوشوں کا ہی ایک نمونہ ہے’’ اہل سنت کی آواز‘‘ جو ہر سال ایک نئے موضوع پر دستاویزی شان لیے ہوئے مذہبی صحافت کے افق پر نمودار ہوتا ہے اور اسی سالنامے کا تازہ شمارہ اس وقت ہمارے تبصرے کی میز پر ہے-اسی سال کا خصوصی شمارہ جو ۶۱۶ صفحات پر مشتمل ہے اکابر مارہرہ مثلاً حضرت صاحب البرکات شاہ برکت اللہ مارہروی ، حضرت سید محمد حمزہ عینی او رسید شاہ آل احمد اچھے میاں رحمہم اللہ کی زندگی کے مختلف گوشوں کو اجاگر کرتا ہے- اگر دونوں اداریوں کو مقدمے کی اور مختلف شہ سرخیوں کو ابواب کے منزل میں مان لیا جائے تو یہ ایک مستقل کتاب ہے جو ایک مقدمہ اور آٹھ ابواب پر مشتمل ہے-مجموعی طور پر اس شمارے میں بشمول دو اداریوں کے ۷۱؍ مقالات ومضامین اورمنظومات شامل ہیں-پہلے حصے میں سب سے پہلے امام احمد رضا قادری کے عربی شجرہ درودیہ کا عکس شامل ہے ،پھر حضرت میر عبد الجلیل بلگرامی کا تحریر کردہ منظوم فارسی نسب نامہ پھر اس کا ترجمہ اور پھرامام احمد رضاقادری کا منظوم شجرہ قادریہ شامل ہے لیکن اس حصے کا سب سے اہم مقالہ مولانا عبد المبین نعمانی صاحب کاتحریر کردہ وہ مفصل مقالہ ہے جس میں انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے لے کر فاتح بلگرام حضرت سید محمد صغریٰ قدس سرہ تک کے بزرگوں کامختصر مگر جامع تعارف پیش کیا ہے- دوسرا حصہ جو بلگرام شریف سے متعلق ہے اسے ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی کے زرنگار قلم نے تحریر کیا ہے اورپھر بلگرام کی عظمت و بزرگی سے متعلق حضرت میر عبد الجلیل بلگرامی، میر سید شاعر بلگرامی ، امام احمد رضا قادری ، شیخ علی بخش ظہیر بلگرامی اور صغیر بلگرامی کی تحریرکردہ فارسی اور اردو نظمیںشامل ہیں -تیسرا حصہ جس کو مارہرہ مطہرہ سے متعلق موادکے لیے خاص کیا گیا ہے اس میں ڈاکٹر محمد افضال برکاتی کا ایک مقالہ ہے جس میں’’مارہرہ مطہرہ- جلوہ گاہ سادات زیدی ‘‘ کے عنوان سے گفتگو کی گئی ہے اور بقیہ چند نظمیں ہیں جنہیں سید شاہ محمد حمزہ عینی، شاہ جلال بسوی خرد مارہروی، سید اسمعیل حسن وقار مارہروی ، سید محمد اشرف برکاتی اور بیکل اتساہی نے تحریر کیا ہے -چوتھے حصے میں بھی ایک مفصل مقالہ شامل ہے جو حضرت شاہ برکت اللہ مارہروی کی زندگی کی مختلف گوشوں کا احاطہ کرتاہے اور چھ نظمیں ہیں ،جنہیں حضرت شاہ روح اللہ برکاتی ، امام احمد رضا قادری ، قاضی غلام شبر، شیخ ارادت اللہ ، مولانا علی احمد سیوانی اورساحل شہسرامی نے تحریر کیا ہے - پانچواں حصہ بھی ایک مقالہ پر مشتمل ہے جو حضرت سید شاہ محمد حمزہ مارہروی کی حیات و خدمات سے متعلق ہے اور اس کے مقالہ نگار ہیں ساحل شہسرامی، بقیہ منظومات کا حصہ ہے جنہیں بالترتیب امام احمد رضا قادری ، محمد عارف بلگرامی اور قاضی غلام شبر برکاتی حسرت بدایونی نے تحریر کیا ہے - یہ منقبتیں حضرت حمزہ عینی اور ان کے والد ماجد شاہ آل محمد کی شان میں کہی گئی ہیں- چھٹے حصے میں شمس مارہرہ حضرت آل احمد اچھے میاںمارہروی کی شخصیت پرایک تحریر ہے- ساتواں حصہ جو منظومات سے متعلق ہے مختلف شعرا کی فکری کاوشوں پر مشتمل ہے- اس میں نعتیں بھی ہیں اور منقبتیں بھی، اور ان منقبتوں کا تعلق بھی مارہرہ کی مختلف شخصیات سے ہے-
آخری حصے میں خانقاہ برکاتیہ کی دینی،مذہبی، مسلکی، دعوتی، تعلیمی اور تعمیری سرگرمیوں کی روداد ذکر کی گئی ہے - اب اگر رسالے کے دو اداریوں اور آخری حصے کو الگ کر دیا جائے تو اس کے سات حصے جنہیں سات ابواب کا نام بھی دے سکتے ہیں، میں اکابر مارہرہ کی زندگیوں کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے- حضرت سید نجیب حیدر قادری برکاتی نے اپنے اداریے میں توقع کے مطابق اور خصوصی شمارے کی مناسبت سے خانقاہ برکاتیہ ، اس کی تاریخ ، خصوصیات وامتیازات اور پھر کتاب کے مشمولات اور اس میں اختیار کیے گئے منہج سے متعلق مختصراور جامع گفتگو کی ہے اور پھر اکابر مارہرہ کے حالات زندگی کی اشاعت سے حاصل ہونے والے فوائد کا بیان کیاہے اورپھر ان مرحومین کو یاد کیا ہے جن کا نسبی یا روحانی یا کسی اور قسم کا رشتہ خانقاہ برکاتیہ سے تھااور جو پچھلے ایک سال کے دوران داغ مفارقت دے گئے - اس کے بعد البرکات کی متعدد سرگرمیوں کو بیان کیا ہے اور اخیر میں عرس قاسمی برکاتی میں ہونے والے پروگراموں کی توسیع کا ذکر کیا ہے- ان کا پورا اداریہ تعمیری اور امید افزا فکر کا غماز ہے - دوسرا اداریہ جسے ساحل شہسرامی علیگ نے تحریر کیا ہے، میں بھی خانقاہ برکاتیہ کی تاریخ، اس کے امتیازی نقوش، اس کے علم و فضل اور اس کے علمی ذخائر سے متعلق گفتگو کی گئی ہے اور ارباب علم و عقیدت مندان خانقاہ کو اس بات کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے مشائخ و اکابر پر علمی و تحقیقی کام کریں - مختلف حصوں میں جس شخصیت کے متعلق جو بھی مقالہ شامل اشاعت کیا گیاہے وہ بہت معلوماتی اور دستاویزی ہے، خصوصیت کے ساتھ مولانا اختر حسین فیضی مصباحی، ساحل شہسرامی اور مولانا اسیدالحق صاحب کی تحریریں اپنے موضوع پر بڑی معلومات افزا اور علمی رنگ لیے ہوئی ہیں ، ڈاکٹر محمد افضال برکاتی کی تحریر بھی اچھی ہے ، مولانا عبد المبین نعمانی صاحب کی تحریر بڑی مفصل اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لے کہ فاتح بلگرام تک کی شخصیتوں کے احوال زندگی کا احاطے کیے ہوئے ہے - ان کی تحریر جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقوش حیات پر مشتمل ہے وہاں تک تو مفصل حوالوں سے مزین اور علمی آہنگ لیے ہوئے ہے لیکن اس کے بعد کے حصہ میں اس معیار کو برقرار نہیں رکھا گیا ہے اور مجمل حوالوں پر اکتفا کیا گیا ہے اور آگے چل کر حوالوں میں ایسے  رموز ذکرکیے گئے ہیں جن کے اسرار تک رسائی شاید اسی کو ہوسکتی ہے جو ان سے واقف ہو، کم ازکم وہ اسرار مجھ پرنہیں کھل سکے-
پورے مجلے کے مطالعے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس میں بعض مقالہ نگاروں نے تساہل سے کام لیتے ہوئے علمی آہنگ کی رعایت میںتھوڑے تساہل سے کام لیا ہے-علمی منہج کی رعایت یا تو بالکل نہیں کی یا پھر بہت کم کی ہے اور صرف چند کتابوں کو سامنے رکھ کر مقالات تحریر کردیے ہیں ،یا تو ان کے پاس مواد کی کمی تھی اس لیے انہو ںنے چند دوسرے درجے کی کتابوں کو سامنے رکھ کر اول درجہ کی کتابوں کے حوالے سے مقالہ تحریر کردیا ہے یا پھر انہوں نے بے اعتنائی برتتے ہوئے مصادر و مراجع کے تفصیلی حوالے سے گریز کیا ہے - حالانکہ اس رسالے کے سارے موضوعات علمی ہیں اس لیے مقالات بھی علمی رنگ وآہنگ میں ڈھلے ہونے چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہے - عموماً ہوتا یہ ہے کہ جب مقالہ نگار حضرات کے ذمے مقالہ نگاری سونپی جاتی ہے تو یونیور سٹی کے طلبہ کی طرح وہ بھی اپنی ذمہ داری کو بالکل طاق نسیان میں ڈال دیتے ہیں اور پھر جیسے جیسے مقالات کے جمع کرنے کی تاریخ قریب ہوتی ہے اور جیسے جیسے ذمہ داری دینے والی شخصیت کا احساس ان کے ذہن و دماغ پر دباؤ ڈالتا ہے ویسے ویسے ان کی یادداشت پھر سے واپس آنے لگتی ہے -اورپھر وہ مقالہ نگاری کے لیے ذہن بناتے ہیں اورجب ذہن سازی سے فارغ ہوتے ہیں تب ان کے پاس اپنی ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے چند روز ہی بچ جاتے ہیں- وقت کی قلت کے مد نظر جلدی جلدی جیسے تیسے مقالے تحریر کرتے ہیں او رڈاک کے حوالے کرکے اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجاتے ہیں-اس رسالے میں ’’گہوارئہ اکابر مارہرہ — بلگرام شریف ‘‘ اسی نوعیت کا حامل ایک مقالہ ہے بلکہ ا س سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر- یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ یہ مقالہ خصوصیت کے ساتھ وہ حصہ جو غلام علی آزاد بلگرامی کی حیات و خدمات سے متعلق ہے ، ڈاکٹر علیم اشرف جائسی کے اس مقدمے سے ماخوذ ہے جو انہوں نے شمامۃ العنبر فی ما ورد فی الہندمن سید البشرکے اردو ترجمے پر لکھا ہے - کوئی بھی قاری اس مقالہ کے صفحہ ۱۷۳ سے لے کر ۱۸۸ تک حصے کا ڈاکٹر علیم اشرف جائسی کے مقدمے کو سامنے رکھ کر مقابلہ کرسکتا ہے - مقابلے کے بعد یہ حقیقت طشت از بام ہوجائے گی- صفحہ ۱۷۳ سے ۱۰ صفحے اس طرح لیے گئے ہیں کہ اس میں کچھ لفظی تبدیلیاں کی گئی ہیں او رصفحہ ۱۸۳ تا۱۸۸من وعن نقل کردیا گیا ہے - البتہ من و عن نقل سے قبل تحریر کے اصل مالک کا نام ذکر کردیا گیا ہے -لیکن یہ صرف علمی امانت کاسہارا لے کر اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنا ہے کیوں کہ اگر صفحات کے صفحات نقل کرنے کی اجازت صرف اس شرط کے ساتھ دے دی جائے کہ نقل سے قبل تحریر کے اصل مالک کا نام ذکر کردیا جائے تو پھر ایسی صورت میں ہر مقالہ نگار کسی موضوع پر لکھتے وقت اپنی جانب سے چند باتیں تحریرکرنے کے بعد اس موضوع پر کسی معتبر شخصیت کی تحریر محض ان کا نام عمومی طور سے ذکر کر کے اپنے مقالے میں شامل کرلے گا اور اس طرح مقالہ نگاروں کی صف میں کھڑا ہوجائے گا - دوسری بات یہ کہ اگر علمی دیانت کاتقاضا یہ ہے کہ اقتباس نقل کرتے وقت مصنف کے نام کے بعد اس بات کی وضاحت بھی کی جائے کہ یہ اقتباس اس مصنف کی کس کتاب سے ماخوذ ہے لیکن یہاں پر ایسا بھی نہیں کیا گیا - جو حصہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ لیا گیا ہے نہ اس کی ترتیب میں کوئی فرق ہے اور نہ شہ سرخی میں ، بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شمامۃ العنبر کے مقدمے کو سامنے رکھتے ہوئے اخذ ونقل کے عمل کا آغاز کیا گیا ہے اور پھر اس کے بعد اسی کی ایک دوسری صنف کا استعمال کرکے بقیہ حصے کو من و عن (مصنف کے نام کے ساتھ) نقل کردیا گیا ہے گویا سرقے کی دونوںقسموں کے مابین صرف ایک خط فاصل ہے اور وہ یہ کہ پہلے حصے کا سرقہ تحریف لفظی کے ساتھ ہے اور دوسرے حصے کا سرقہ مصنف کا نام لے کراور اس طرح شمامۃ العنبر کے اکیس صفحاتی مقدمے کو پندرہ صفحات میں ملخص کردیا گیا ہے - ماسبق کی ہماری یہ گفتگو بغیر دلیل کے نہ رہ جائے اس لیے پہلے شمامۃ العنبر کے مقدمے سے ایک اقتباس نقل کیا جارہا ہے اور پھر اس کے بعد ’’ گہوارئہ اکابر مارہرہ — بلگرام شریف‘‘ سے ایک اقتباس نقل کیا جائے گا اور دونوں اقتباسات کے مقابلے کے بعد سرقے کی نوعیت آشکارا ہوجائے گی -ڈاکٹر علیم اشرف جائسی’’ سفر وسیاحت‘‘ عنوان کے تحت اپنے مقدمے میں لکھتے ہیں :’’ آزاد کے بعض سوانح نگاروں کے مطابق انہوں نے بلگرام میں اپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد مزید تعلیم کے لیے دہلی کا سفر کیا تھا، لیکن وہاں انہوں نے کیا پڑھااور کس سے پڑھا اس ضمن میں کچھ معلومات دستیاب نہیں ہیں- تعلیم سے مکمل فراغت کے بعد اپنے ماموں سید محمدکے بلانے پر انہوں نے سندھ کا سفر کیا جہاں ان کے ماموں ایک سرکاری منصب ( محصل و پرچہ نویس) پر فائز تھے، آزاد کے وہاں پہنچنے پر ان کے ماموں انہیں اپنا قائم مقام بناکر بلگرام واپس آگئے- جہاں وہ چار سال تک مقیم رہے- اس درمیان آزاد نے ان کی ذمہ داریوں کو بخیر خوبی نبھایا- سندھ سے واپسی کے دوران انہیں دہلی میں یہ اطلاع ملی کہ ان کا خاندان عارضی طور پر الہ آباد میں مقیم ہے، لہذا انہوں نے دہلی سے الہ آباد کا سفر کیا اور وہاں کچھ عرصہ قیام بھی کیا-( ص: ۶)
’’ گہوارئہ اکابرمارہرہ ‘‘ کے مقالہ نگار بھی ’’سفر وسیاحت‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں : علامہ آزاد کے بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے انہوں نے بلگرام میں اپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد مزید حصول علم کے لیے دہلی کا بھی سفر کیا تھا - لیکن وہاں انہوں نے کس سے پڑھ اور کیا پڑھا اس سلسلے میں تفصیل دستیاب نہیں - البتہ جب انہوں نے تحصیل علم سے فاتحہ فراغ پڑھا تو ان کے ماموں سید محمد جو سندھ میں ایک سرکاری منصب پر فائز تھے ان کے بلانے پر علامہ آزاد نے سندھ کا سفر اختیار کیا- علامہ آزاد جب سندھ تشریف لے گئے تو ان کے ماموں نے انہیں اپنا نائب مقرر کیا اوروہ خود بلگرام واپس آگئے - بلگرام میں ان کا قیام چار سالوں تک طویل رہا ، اس وقفہ میں علامہ آزاد کو جو ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں ان کو انہوں نے بخیرو خوبی نبھایا پھر وہ سندھ سے جب واپس آنے لگے تو انہیں دہلی میں خبر ملی کے ان کا خاندان الہ آباد میں ہے ،لہذا انہوں نے بلگرام کے بجائے دہلی سے الہ آباد کا سفر کیا اور وہ وہاں کچھ دنوں مقیم رہے-( ص: ۱۷۵)
ایک دوسری اور اہم بات جو مطالعے کے دوران سامنے آئی وہ یہ ہے کہ میر عبد الواحد بلگرامی اور حضرت صاحب البرکات کے تذکرہ نگار وں میں سے کسی نے بھی ان دونوں بزرگوں کے پاس موجود سلاسل قدیمہ جو شاہ صفی سائیں پوری رحمۃ اللہ علیہ سے پہنچے تھے، کا کوئی نمایاں تذکرہ کیا ہے ، دونوں حضرات میںسے کسی نے بھی شاہ صفی رحمۃ اللہ علیہ کا سطری تعارف بھی پیش نہیںکیا جب کہ کم از کم میر عبد الواحد بلگرامی کے تعارف میں ان کے شیخ طریقت اور ان کے سلسلے پر مختصر گفتگو کی جانی چاہیے تھی-
بہر حال رسالہ اپنے مواد کے لحاظ سے بڑاقیمتی اور معلوماتی اور پیش کش کے لحاظ سے بھی عمدہ ہے ، صرف قلم کاروں سے اتنی گزارش ہے کہ یہ سالنامہ چوں کہ دستاویزی اہمیت کاحامل ہوتا ہے اس لیے مقالات جدید علمی آہنگ کا لحاظ رکھتے ہوئے تحریر کیے جائیں-اس سے اس کی علمی قدر و قیمت بہت بڑھ جائے گی اور تمام علمی حلقوں میں کھلے دل کے ساتھ اس کا استقبال کیا جائے گا-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔