Thursday 31 August 2017

سید التفاسیر معروف بہ تفسیر اشرفی ---- مفسرین : (۱) محدث اعظم ہندسید محمد اشرفی جیلانی (۲) شیخ الاسلام سید محمد مدنی اشرفی جیلانی

0 comments
سید التفاسیر معروف بہ تفسیر اشرفی
        مفسرین : (۱) محدث اعظم ہندسید محمد اشرفی جیلانی
                     (۲) شیخ الاسلام سید محمد مدنی اشرفی جیلانی
        جلد: اول،دوم
        سن اشاعت : ۲۰۰۹ء
        ناشر:شیخ الاسلام ٹرسٹ احمد آباد(گجرات)
        تبصرہ نگار: ضیاء الرحمٰن علیمی
قرآن کریم سارے جہاں کے لیے سرچشمہ ہدایت ہے اور کوئی بھی انسان اسی وقت شاہراہ مستقیم پر گامزن ہوسکتا ہے جب کہ وہ اس کتاب ہدایت کے معانی و مفاہیم کو سمجھتا ہو - عصر صحابہ میں جب خود صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری حیات سے تھے ، تفسیر و ترجمہ لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی لیکن بعد کے ادوار میں جب اسلامی دعوت نے عرب کے جغرافیے سے باہر نکل کر دلوں کو مسحور کرنا شروع کیا تو یہیں سے دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجموں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جو ہنوز جاری ہے- جب ساری دنیا کی زبانوں کو قرآن کریم کے ترجمے کا شرف حاصل ہوا تو اردو زبان اس شرف سے کیوں محروم رہتی، چنانچہ قرآن کریم کے پہلے لفظی اردو ترجمہ کا شرف شاہ محمد رفیع الدین دہلوی (۱۲۳۳ھ/۱۸۱۷ء) کو حاصل ہوا- ان کے بعد ان ہی کے چھوٹے بھائی شاہ عبد القادر (۱۲۳/ ۱۸۱۴ء) نے قرآن کریم کا با محاورہ اردو ترجمہ مکمل کیا لیکن زبان ارتقا پذیر ہوتی ہے چنانچہ اسی ارتقائی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاقادری بریلوی نے ’’کنزالایمان فی ترجمۃالقرآن‘‘کے نام سے ایسا ترجمہ پیش کیا جو اپنے زمانے کا بہترین ترجمہ تھا- یہ ارتقائی اصول اب بھی بلا کم وکاست جاری ہے- ایسا ہی ایک ترجمہ محدث اعظم ہند سید محمد کچھوچھوی قدس سرہ نے معارف القرآن کے نام سے کیا اور بعد میں تفسیری حاشیہ لکھنے کا بھی عزم کیا لیکن عمر نے وفا نہ کی اور صرف تین پارے ہی مکمل ہوسکے- ان کے اس مبارک عزم کو ان کے فرزند جلیل شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی مدظلہ العالی تکمیل کا جامہ پہنانے میں ہمہ تن مصروف ہیں- ان کی اسی جہد مسلسل کا ثمرہ قرآن کریم کے چھ پاروں کی تفسیر ’’سید التفاسیر معروف بہ تفسیر اشرفی‘‘ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے- ’محبت رسول روح ایمان‘ اور’ حدیث جبریل کی فاضلانہ تشریح‘ کی شکل میں ہم ان کے محدثانہ ومحققانہ قلم، ’تصور الہ اور مودودی صاحب‘ ،’اسلام کا نظریہ عبادت اور مودودی صاحب ‘کے توسط سے ہم ان کے ناقدانہ تیور اور اور منبر رسول پر ان کی علمی نکتہ سنجیوں سے آشنا تھے، اس لیے تفسیر اشرفی جب ہمارے ہاتھوں میں آئی تو ہمیں توقع تھی کہ مفسر محترم کا محققانہ قلم تفسیر میں بھی تحقیق و تدقیق کے نئے جلوے بکھیرے گا اور ان کا ناقدانہ تیور اسلامی دعوت کے مخالفین کا محاسبہ کرتا نظر آئے گا لیکن جب صفحات پلٹے تو مفسر محترم کے ایک دوسرے قلم سے آشنائی ہوئی اور وہ ان کا داعیانہ قلم تھا-
تحقیق و تدقیق اور دوسرے مختلف گوشوں سے لکھی گئی تفسیریں تو پہلے سے ہی موجود ہیں لیکن ایسی کوئی تفسیر موجود نہیں جو مباحث کی گرداب میں پھنسائے بغیر قرآن مجید کے اصل مضامین اور اصل پیغام کو انتہائی سادہ لب ولہجے میں لوگوں کے دلوں میں اتار دے اور اس طرح ایک عامی کو بھی قرآن کے گھنیرے سائے میں چند ساعتیں گزارنے کا موقع میسر آجائے- حضرت محترم کی یہ تفسیر اس کمی کو پوری کرنے کی ایک مشکور کوشش ہے -
زیر نظر تفسیر کے ابھی صرف چھ پارے مکمل ہوئے ہیں جسے دو جلدوں میں ہندوستان سے شیخ الاسلام ٹرسٹ احمد آباد نے شائع کیا ہے-جلد اول میں حضرت محدث اعظم ہند کی لکھی ہوئی تفسیر کا پہلا پارہ جو زمانے کے دست برد سے بچ گیا ہے، شائع کیا گیا ہے- محدث اعظم ہندکا اسلوب تفسیر یہ ہے کہ انہوں نے ترجمے کے بعد تفسیر کرتے وقت معتبر تفاسیر کے خلاصے کو اپنے ترجمے میں اس طرح پرو دیا ہے کہ ترجمہ و تفسیر کے الفاظ کو اگر کسی طرح ممتاز نہ کیا جائے تو قاری بالکل اندازہ نہیں لگا سکتا کہ کون سا حصہ اس میں ترجمہ ہے اور کون سا تفسیر اور اسی عمل کو ان کے فرزند محترم نے بھی اتنی فن کاری کے ساتھ انجام دیاہے کہ جلالین کے اسلوب کی ہم آہنگی کا گمان ہوتا ہے- کسی طرح کی کوئی فقہی، کلامی اور فنی بحث نہیں چھیڑی گئی ہے بلکہ انتہائی سادگی کے ساتھ قرآنی مضامین کی ضرورت بھر تشریح کردی گئی ہے -اگر کہیں کوئی فنی وعلمی و فقہی بحث ذکر کی گئی ہے تو انتہائی سادہ اسلوب میں اسے اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ قاری کا ذہن مضامین قرآن سے ہٹنے نہ پائے اور گوہر مقصود’تذکیر‘ہاتھ سے جانے نہ پائے-اور اسی لیے پوری تفسیر میں مختلف تفاسیر کی عربی عبارتوں کے ذکر سے مکمل اجتناب کیا گیا ہے - تفسیر قرآن بالقرآن کرتے وقت بھی نص قرآنی کے بجائے ترجمہ قرآن پر اکتفاکیا گیا ہے اور یہی طریقہ احادیث رسول سے استدلال کے وقت بھی اختیار کیا گیا ہے اور کہیں بھی استدلال کے مقام پراس بات کا بڑا لحاظ رکھاگیاہے کہ سادگی باقی رہے اور تسلسل کلام میں رخنہ نہ پڑے - ربط آیات ربط سور و مضامین کو پورے التزام کے ساتھ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ دو بظاہر مختلف مضامین پر مشتمل آیتیں باہم فطری طور پر مسلسل ومربوط نظر آنے لگتی ہیں ، مختلف سورتوں کے آغاز میں بسملہ کے ترجمے کو تفسیری طور پر اس طرح منظم کرکے لکھ دیا گیا ہے کہ بسملہ کا ماقبل و مابعد بالکل ہم آہنگ معلوم ہوتا ہے-
فرمان باری واتخذاللہ ابراہیم خلیلا وللہ ما فی السموات ومافی الارض وکان اللہ بکل شی محیطاکے مابین ربط قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ اس مقام پر کوئی یہ نہ سوچے کہ دنیا میں لوگ اپنی ضرورت کی وجہ سے کسی کو دوست بناتے ہیں تو حق تعالیٰ کو کون سی ضرورت پیش آگئی جس کے لیے اس نے خلیل بنایا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو اس لیے خلیل نہیں بنایا کہ اسے خلیل کی ضرورت تھی بھلا اس کو خلیل کی کیا ضرورت کیوں کہ اس کی شان ’’اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہر ایک کو گھیرے میں لیے ہے-‘‘(جلد: ۲، ص: ۲۶۹-۲۷۰)
سورۃ المائدہ اور سورۃ النسا کے مابین ربط دکھلاتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’جس طرح سورہ البقرہ اور سورہ آل عمران دونوں سورتوں میں توحید اور رسالت پر زیادہ زور دیا گیا ہے اسی طرح سورہ نساء اور سورئہ المائدہ میں پاک دامن اہل کتاب عورتوں سے نکاح کے احکام بیان کیے گئے ہیں اور عدل و انصاف کرنے اور تقوی اور پرہیزگاری کا حکم ان دونوں سورتوں میں ہے- سورہ المائدہ کھانے پینے، شکار، احرام، چوروں اور ڈاکوؤں کی حد اور کفارہ ،قسم کے احکام میں منفرد ہے ، جیسے سورہ نساء خواتین کے حقوق ، وراثت اورقصاص کے احکام میں منفرد ہے‘‘-  (ج:۲، ص: ۳۲۲)
پوری تفسیر میں قرآن کی سادہ تفہیم کے عظیم مقصد کوپیش نظر رکھا گیاہے اور ہر جگہ انداز تخاطب قرآنی اختیار کیا گیاہے جس سے قاری دوران مطالعہ ہر لمحہ اپنے رب سے ہم کلام نظر آتا ہے البتہ مفسر محترم کی زبان پر تدریسی رنگ نمایاں ہے،جب کہ اس تفسیر کے قاری کی اکثریت عام لوگوں کی ہو گی ، اس لیے اگر زبان کی تھوڑی تسہیل ہوجائے اور ثقیل عربی الفاظ کے استعمال سے گریز کیا جائے تو بہت بہتر ہوگااورشاید اسی کمی کو محسوس کرتے ہوئے شیخ الاسلام ٹرسٹ نے دوسری جلد کے آخر میںتفسیر میں در آئے مشکل الفاظ کی ڈکشنری تیار کردی ہے جس سے آسانی ضرور پیدا ہوگی- دوسری بات مجھے مفسرمحترم کے اختیار کردہ تفسیری منہج کے متعلق کہنی ہے کہ حوالہ جات کی کثرت سے اگر چہ مطالعے کا تسلسل ٹوٹتا ہے لیکن آج کے علمی دور میں سادہ تحریروںمیں بھی حوالے کا التزام بہتر ہوتا ہے- اس لیے اگر حوالہ جات ذکر کردیے جاتے تو تفسیر کی سادگی بھی برقرار رہتی اور اس کے ساتھ ہی اس کی معتبریت پر انگلی اٹھانے والے کی قلعی کھل جاتی- امید ہے کہ اس کی تلافی کے لیے مفسر محترم ہر جلدکے آخر میںزیر مطالعہ تفسیری کتابوں کی فہرست کا اضافہ کردیں گے- اس کے علاوہ دوران مطالعہ دو تین مقام پر میری نظر رک گئی - جلد۲، صفحہ۲۳۹ پر عبد اللہ بن عمرو بن ام مکتوم کی جگہ غلطی سے ’مکتوب‘ کمپوز ہوگیا ہے، یوں ہی میرے خیال میں طلیحہ رسیدی کے بجائے طلیحہ اسدی صحیح ہے جو جلد ۲،صفحہ ۳۹۴ پرغلطی سے رسیدی تحریر ہوگیا ہے اور ایک خاص کمی یہ ہے کہ ہر جگہ مختلف الفاظ کے رسم خط میں جدید رسم خط کی بجائے قدیم خط کو اختیار کیا گیا ہے مثلا ’کیلئے‘،’اسکا‘، ’انکے‘ وغیرہ جو جدید اصول املا کے مطابق درست نہیں ہیں- قرآنی تراجم کو ایک خاص رنگ سے ممتاز کردیا گیا ہے اور تفسیر کے اہم حصوں کو خاص رنگ سے نمایاں کردیا گیا ہے- لیکن ہر وہ مقام جس کو اس تفسیر میں نمایاں کیا ؎گیا ہے اس کو قطعی طور پر تو رہنے دیجیے میں ظنی طور پر بھی نمایاں نہیں قرار دے سکتا-
اصل تفسیر کے آغازسے قبل ہر دو جز میں عرض ناشر کے عنوان سے اشاعت کے پس منظر اور اس سے متعلق باتیں ذکر کی گئیں - جلد اول میں مقدمے کے عنوان سے مولانا ابو الفضل محمد فخر الدین علوی کی ایک تحریر ہے جب میں نے اس تحریر کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے ایسا لگا جیسے یہ تحریر میری نظر سے پہلے بھی کہیں گزر چکی ہے- دماغ پر تھوڑا زور ڈالنے سے یاد آیا اور پھر پتا چلا کہ اس تحریرکا بڑا اور اہم حصہ علامہ غلام رسول سعیدی کی تفسیر تبیان القرآن جو بارہ جلدوں میں ہے کے مقدمے سے’ چند‘ اور’ بعض‘ کی تبدیلیوں کے ساتھ ماخود ہے-اگر مقدمہ نگار نے یہ تحریر خود لکھی ہے تو ہم اسے ’سرقے میں توارد ‘کا نام دے سکتے ہیں- ایسا لگتا ہے کہ گلوبل اسلامک مشن امریکہ جس نے اس تفسیر کو سب سے پہلے شائع کیا تھا ، سی ڈی لینے کے بعد شیخ الاسلام ٹرسٹ احمد آباد نے بغیر کسی تحقیق اور نظر ثانی کے اسے ہندوستان سے شائع کردیا ہے -
ان ساری باتوں سے قطع نظر مقصد و مخاطب کو پیش نظر رکھتے ہوئے تفسیر نہایت عمدہ ہے اور قطعیت کے لہجے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس تفسیر سے قرآن فہمی عام ہوگی ، قرآن کے مطالعے کا ذوق پیدا ہوگا اور قرآنی شہادت کے مطابق ’خیر کثیر ‘جس سے اب تک صرف علما ہی بہرہ ور ہوتے رہے ہیں، اب عوام بھی اس سے بڑی آسانی کے ساتھ مالا ہوں گے -

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔