Thursday 31 August 2017

تصوف، صوفیہ اور دہشت گردی

0 comments
تصوف، صوفیہ اور دہشت گردی
از قلم: ضیاء الرحمٰن علیمی                                         
------------------------------
میں ایک بات قارئین سے شیئر(Share ) کرنا چاہوں گا کہ دہشت کردی کے حوالے سے جماعت اہل سنت کے بعض افراد کا نظریہ منفی ہے- ان کا یہ ماننا ہے کہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں گمراہ اسلامی فرقے ہی ملوث ہیں اور وہی اسلام اور نظریہ جہاد کی پر تشدد تعبیر و تشریح کے ذریعہ دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کررہے ہیں، اس لیے ہمیں کھل کر یہ کہنا چاہیے کہ ابن تیمیہ اور ابن عبد الوہاب کی ہم نوا جماعتیں دہشت گرد ہیں اور سنی صوفی اسلام کا دہشت گردی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جب کہ در حقیقت ایسا نہیں ہے- اب سے کچھ دنوں قبل تک میڈیا بھی اسی لیے صوفی اسلام کی مدح سرائی کرتا رہا ہے لیکن کیرالا کے عبد الجبار کی گرفتاری کے بعد اب میڈیا کوبھی یہ احساس ہو چلا ہے کہ ایک صوفی بھی وقت آنے پر اپنے ہاتھ میںمشین گن لے سکتا ہے- انگریزی روز نامہ ’’ دی ہندو‘‘ مورخہ ۱۶؍ فروری ۲۰۰۹ کے ادارتی صفحے پر ٹیررزم ایکسپرٹ پروین سوامی کا ایک مضمون بعنوانthe Sufi with Kalashnikov شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے تجزیاتی انداز میں لکھا ہے کہ کیسے اور کن اسباب کی بنا پر ایک صوفی بھی دہشت گردی پر آمادہ ہوجاتاہے- عبد الجبار کی سرگزشت میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ ایک صوفی مسلمان ا ور حضرت شیخ ابن العربی کی تحریروں کا دل دادہ تھا- چشتی قادری سلسلے کی ایک شاخ نوریشہ سلسلے سے تعلق رکھتا تھا- آگے انہوں نے لکھا ہے کہ اسلامی تاریخ میں صوفیہ پہلے بھی تشدد ( خواہ وہ اسلامی نظریے سے جہادرہا ہو یا کچھ اور) میں ملوث رہے ہیں- مغلیہ حکومت کے زمانے میں مشہور صوفی شاہ ولی اللہ (علیہ الرحمہ) نے احمد شاہ ابدالی کو جاٹ اور مراٹھوں کے خلاف جنگ کی دعوت دی اور یہ دلیل دی کہ کافروں کا مقدر ذلت ہی ہے- ایسے ہی مشہور صوفی امام غزالی سے جہادی تحریک الاخوان المسلمون کے بانی حسن البنا بے حد متاثر تھے- اگر چہ حسن البنا نے امام غزالی کے صوفیانہ خیالات کو رد کیا ہے لیکن محققین کے مطابق الاخوان کے صوفیانہ اعمال جیسے شیخ کی قسم کھانا، ان کی بیعت کرنا اور ان جیسے دوسرے اعمال القاعدہ جیسی تنظیموں میں بھی رائج ہیں- اسی طرح سید احمد رائے بریلوی نے مہاراجا رنجیت سنگھ کے خلاف جہاد کیا جب کہ وہ خود ایک صوفی تھے اور آج بھی جہادی جماعتیں ان سے انسپائریشن(Inspiration ) لیتی ہیں- اخیر میں مضمون نگار نے مثبت انداز میں اپنے مضمون کو یہ لکھتے ہوئے ختم کیا ہے کہ دہشت گردی کے اپنے اسباب ہوتے ہیں اور وہ اسباب جب بھی پائے جائیں گے دہشت گردی جنم لے لے گی ، کوئی بھی انسان، کسی بھی مذہب کا ہو، کسی بھی سلسلے سے تعلق رکھتا ہو، دہشت گردی پر آمادہ ہوجائے گا-
مذکورہ بالا تحریر کے خلاصہ سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اسلام، تصوف اور گمراہ جماعتوں کامطالعہ ان افراد کا کیسا ہے اور کس نوعیت کا ہے- اس میں بہت سے مغالطے ہیں لیکن اس سلسلے میں میرا اپنا ایک تجربہ ہے اور اسی بنا پر عبد الجبار جیسے صوفی افراد کی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے وابستگی پر مجھے کوئی حیرانی نہیں ہے- ا ولاً تو شمالی ہندوستان اور جنوبی ہندوستان کے صوفیہ بہت سے معاملات میں مختلف ہیں، جنوبی ہندوستان کے صوفیہ ہمیشہ سے صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی نظریہ جہاد کو اپنے سینے سے لگائے رہے جب کہ تبلیغی ، دعوتی حکمتوں کی وجہ سے اور دوسرے اسباب کی وجہ سے شمالی ہندوستان کے صوفیہ نے عام طور پر دعوت جہاد کے بجائے انسانی رواداری کو عام کیا لیکن دونوں اپنی اپنی جگہ پر مکمل طور پر صحیح تھے اور کسی کے طرز عمل کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایاجاسکتا- دوسری بات یہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کیرالا ہمیشہ سے صوفیۂ کرام کا مرکز رہا ہے اور انہی کی شبانہ روز کوششوں سے وہاں اسلام کی تبلیغ و اشاعت ہوئی، گزشتہ دہائیوں میں جب جماعت اسلامی نے اپنے قدم وہاں جمانے کی کوشش کی تو انہو ںنے اپنا پروفائل شمالی ہندوستان کے طرز کا متشددانہ نہیں رکھا،بلکہ بہت سے صوفیانہ رسوم ورواج کو جو ںکا توں رہنے دیا، تاکہ اجنبیت حائل نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ وہاں کے جماعت اسلامی سے وابستہ افراد موسیقی فلم اور اس جیسی دوسری سوسائٹیوں کی سرپرستی کرتے ہیں- خود سال بھر قبل میرے ایک روم میٹ تھے، وہ جماعت اسلامی سے وابستہ تھے، جے این یو میں شعبہ ادب اور جمالیات (Arts&Aesthetic )میں ریسرچ کر رہے تھے، ابن العربی کی فصوص الحکم کا انگریزی ترجمہ Pearls of wisdom اور فتوحات مکیہ کا انگریزی ترجمہMekken Revelations کثرت سے مطالعہ کرتے تھے، مولانا روم کی مثنوی کا انگریزی ترجمہ رکھے ہوئے تھے اور دنوں شخصیات سے بے حد متاثر تھے، لیکن نظریاتی اعتبار سے جماعت اسلامی کے ہارڈ کور تھے، اب اگر بالغرض کبھی وہ کسی قسم کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں گرفتار ہوتے ہیں تو یہ کہا جائے گا کہ ایک صوفی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے، جب کہ درحقیقت ایسا نہیں، اس لیے اس سلسلے میں ہمارا نظریہ واضح رہنا چاہیے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ ہم دہشت گردی کے معاملات کو کسی مذہب ، جماعت اور سلسلے سے جوڑ کر نہ دیکھیں، کیوں کہ یہ ہماری بہت بڑی غلطی ہوگی اور اس کے نتائج سنگین ہوں گے بلکہ ہم جب بھی اس موضوع پر گفتگو کریں تو اسباب و وجوہ کے تناظر میں کریں، یہی ہمارے لیے سود مند ہوگا-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔