Thursday 7 September 2017

آزادیِ اظہار ---- ذیشان احمد مصباحی

0 comments
قلبی واردات ------------------ ذیشان احمد مصباحی
وکیلِ ملزم نے گرجتے ہوئے کہا:
یور آنر! یہ کوئی ڈاکو یا قاتل نہیں ہے، یہ اس کا فن ہے اور ہر شخص کواپنی صلاحیت اور اپنے فن کے مظاہرے کا حق ملنا چاہیے-
٭ ناٹ یور آنر! یہ بکواس ہے، وکیل ملزم سے پوچھا جائے کہ اگر یہ صلاحیت کا استعمال اور فن کا مظاہرہ ہے تو ظلم اور بربریت کیا ہے؟ وکیل مدعی نے سوال کیا-
٭یور آنر! کوئی چیز اس جہان میں ظلم نہیں ہے، یہ ہمارے ذہن کا اختراع ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں-
٭فرض کیجیے، یہ معاملہ آپ کے ساتھ ہوا ہوتا تو؟
٭تو کیا، اگر میں زیادہ تیز ہوتا تو اس کا کام تمام کر دیتا اور اس سے بودا ہوتا تو مارا جاتا-
٭یہ کوئی بات نہیں ہوئی، اس طرح تو قانون کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جاتا-
٭ یور آنر! معافی چاہوں گا یہ کہتے ہوئے کہ قانون کا مطلب ہے ہی کیا؟یہ تونسبتاً تیزاورطاقت ورلوگوں کا بنایا ہوااپنے مفاد کی تکمیل کا آلۂ کار ہے-
٭یور آنر! یہ عدالت عظمیٰ کی توہین ہے، یہ قانون کا مذاق ہے-
٭یہ قانون کا مذاق نہیں، یہی حقیقت ہے- مثال کے طور پر یور آنر!فرض کیجیے، آپ کو ملزم سے ہمدردی ہوتی اور آپ کرسی عدالت کی بجائے اس ملک کی کرسی صدارت پر ہوتے اور اپنے قانونی حق کا استعمال کرتے ہوئے ملزم پر جرم ثابت ہونے کے باوجود اسے معاف کر دیتے تو کیا ہوتا، ملزم بری ہوجاتا، تو کیا یہ قانون کے ہاتھوںقانون کا مذاق نہیں ہے؟
٭یور آنر! ملزم کا وکیل ڈھٹائی پر اترآیا ہے، وہ باتیں الجھا رہا ہے، اس سے بس اتنا سوال کیا جائے کہ ملزم کی براء ت میں اگراس کے پاس کوئی ثبوت ہو تو پیش کرے-
٭ جی ہاں! میرے پاس ثبوت ہے- وزیر اعظم کے بیٹے نے پچھلے مہینے ایک بے قصور آٹو رکشہ ڈرائیور کو گولیوں سے چھلنی کر دیا، یہ واقعہ سر عام ہوا، لیکن پھر بھی وہ باعزت بری ہوگیا- تو کیا وزیر اعظم کا بیٹا اگر قتل کرنے کے بعد باعزت بری ہو سکتا ہے تو ایک ایسا شخص جسے غربت نے تعلیم حاصل کرنے نہیں دیا اور نہ وہ کوئی کام سیکھ سکا، لیکن اس کے پاس یہ ہنر ہے کہ وہ بڑے سے بڑا بینک آسانی سے لوٹ لے، اب پیٹ بھرنے کے لیے یہ نہ کرے تو کیا کرے؟ اسے حکومت کوئی ملازمت کیوں نہیں دے دیتی کہ وہ یہ کام چھوڑ دیتا؟
٭ آرڈر! !!! وقت کم ہے، بات واضح کی جائے، وزیر اعظم کے بیٹے کا نام لینا غلط ہے، اس کاکوئی عینی شاہد نہیں تھا، اس لیے عدالت عظمی اسے بری کرنے پر مجبور تھی-
٭ یس یور آنر!اور ملزم اسوتوش کے خلاف ہمارے پاس چار چار عینی شاہد موجود ہیں-
٭ یہ ایک حقیقت ہے، دنیا جانتی ہے کہ محترم وزیر اعظم کے بیٹے نے سرعام ایک غریب رکشہ والے کو معمولی بات پر گولیوں سے بھون دیا، لیکن قانونی اور حکومتی ظلم کے حوف سے سب نے اپنی زبانیں بند کر لیں-
٭ قانو ن یہ نہیں جانتا کہ حقیقت میں کیا ہوا، قانون کے سامنے جو شواہدآتے ہیں قانون کا فیصلہ انہی پر ہوتا ہے، اور چوں کہ ملزم کی برائت کے لیے ہمارے حریف کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، اس لیے میں عدالت عظمی سے گزارش کروں گا کہ قاتل کو سزائے موت دی جائے-
٭ یہ کیا مصیبت ہے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کو آڑ بنا کر کسی کو زبردستی قاتل ثابت کیا جائے پھر اس کی جان لی جائے، جب کہ میں کہہ چکا ہوں کہ اگر وہ قاتل ہے بھی تو یہ اس کا فن ہے، اس کا پیشہ ہے، ہنر ہے، وہ یہ کام کرنے پر مجبور ہے، لہذا اسے موت کے گھاٹ اتارناتقاضائے انصاف کے خلاف ہے-
٭قاتل کو موت کے گھاٹ اتارنا انصاف کے خلاف نہیں، عین انصاف ہے-
٭ یور آنر میں عدالت عظمیٰ کے حضور اس لب کشائی کی اجازت چاہوں گا کہ قانون برترانسانوں کا بنایا ہوا ایک کھیل ہے جسے جب وہ چاہتے ہیں بگاڑ دیتے ہیں- میں چیلنج کرتا ہوں کہ یہ قانون غلط بنیادوں پرقائم ہے، اسے تبدیل کرنا ضروری ہے-
٭ دنیا کی کوئی بھی عدالت قاتل کو معاف نہیں کرتی، سزا میں کمی بیشی ہوتی ہے، اس لیے اگر ملزم سزائے موت سے بچ بھی جائے تو اسے عمر قید کی سزا تو بہر حال جھیلنی پڑے گی- یور آنر! ہمیں آپ کے فیصلے کا انتظار ہے، وقت ختم ہوا جا رہا ہے اور باتیں ساری بکواس ہو رہی ہیں-
٭ عمر قید بھی کیوں؟ اس غریب کے بچوں کی پرورش کون کرے گا، اس کی جوان بیوی اور بوڑھی ماں کو کون دیکھے گا؟؟
٭اسے تو خود یہ پہلے سوچنا چاہیے تھا-
٭ پہلے کیا سوچتا، وہ مجبور تھا، پھر جس طرح ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی ہے اظہار عمل کی بھی تو آزادی ہے، پیشہ اختیار کرنے کی بھی تو آزادی ہے، اب یہ غریب چوں کہ یہی پیشہ کر سکتا ہے، یہ تو مجبور تھااور مرتا کیا نہ کرتا-
٭ملزم کے وکیل کو خاموش کیا جائے، وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ قتل کوئی قابل تعزیر جرم ہے؟
٭ آرڈر!!! عدلت عظمی ابھی کسی حتمی نتیجے پرپہنچنے سے قاصر ہے، چار ججوں پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیا جا رہا ہے، فیصلہ اس کی رائے آنے کے بعد ہوگا -
(ججوں کا ڈسکشن شروع ہوتا ہے)
پہلا جج: وکیل ملزم نے جو سوال اٹھایا ہے وہ درست معلوم ہوتا ہے-
دوسرا جج: لیکن اگر ایسا کر دیا گیا تو واردات تو قابو سے باہر ہو جائیں گے-
تیسرا جج: ابھی کون سے قابو میں ہیں-
دوسرا جج: کوئی بیچ کی راہ نکالیے- (چوتھے جج سے) آپ خاموش کیوں ہیں؟
چوتھا جج: در اصل میں تو بہت دنوں سے پریشان ہوں کہ یہ قانون کیا ہے اور آخر ہم لوگ صبح سے شام تک یہاں کیا بیچتے ہیں- کتنے بے گناہوں کو سزا دلوائی اور کتنے سزا کے مستحقین کو آزاد کرا دیا- میں تو یہ نہیں سمجھا کہ مجرم وہ بڑے ہیں یا ہم بڑے ہیں- (چند ثانیے محفل خاموش رہتی ہے)
دوسرا جج: جی نہیں! ہم جو بھی کرتے ہیں قانون کے رو سے کرتے ہیں، قانون ہمیں جو حق دیتا ہے اس کا استعمال کر کے اپنے پیشے سے جڑے ہوئے ہیں-
پہلا جج: اگر قانون نے ہمیں ظلم کرنے کا حق دیا ہے جس کے بعد ہم ظلم کرنے میں حق بجانب ہیں توپھر سوال یہ ہوگا کہ وہ شخص جسے قتل و ڈاکہ کے سوا کوئی دوسرا ہنر نہیں آتا کیا اسے بھی اپنے پیشے سے جڑے رہنے کا قانونی جواز مل سکتا ہے؟؟
چوتھا جج: ہم یہاں انصاف کے لیے بیٹھے ہیں یا ظلم کے لیے؟
تیسرا جج: سوال تو اصل یہی ہے کہ اگر مساویانہ انصاف کی راہ میں کسی ظلم کا ارتکاب کرنا پڑے تو وہ ظلم ظلم ہی رہے گا یا انصاف ہو جائے گا؟
پہلا جج: قانونی ارتقا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ظلم اس وقت تک ظلم رہتا ہے جب تک قانون اسے ظلم قرار دیتارہے-
چوتھا جج: یعنی ہمارے پاس ظلم اور انصاف کا کوئی پیمانہ نہیں ہے-
دوسرا جج: پیمانہ ہے اور وہ ہے ہمارا دماغ ، آپ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس مسئلہ پر اس وقت ملک کے چار سب سے بڑے دماغ غور کر رہے ہیں، لہذا یہ جس نتیجے پر پہنچیں گے وہی حق ہوگا-
چوتھا جج: کیا تماشہ ہے؟ ہم کس دور میں آگئے ؟ قسمت کا قلمدان کل تک خدا کے ہاتھوں میں سمجھا جاتا تھا اب ہم جیسے چند خود غرض انسانوں کو تھما دیا گیا ہے جو اپنے مفاد کے علاوہ کچھ سمجھتے ہی نہیں-
تیسرا جج: کیا آپ لوگوں کو نہیں لگتا کہ اظہار رائے کی آزادی کا کچھ غلط استعمال ہونا شروع ہوگیا ہے- یہ قانون خود اپنے آپ میں پیچیدہ اور الجھا ہوا ہے-
دوسرا جج: تاریخ انسانی اپنی تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے، جس کے نتیجے میںعقل انسانی پختہ ہوگئی ہے، اب کوئی بھی پیچیدہ سے پیچیدہ گرہ انسانی عقل کھول سکتی ہے- دوستو !شکر مناؤ کہ مذہبی توہمات سے ہم نکل آئے، بس عقل کا استعمال کرو، فیصلہ کوئی مشکل نہیں ہے-
چوتھا جج: دوستو! اگر دل سے پوچھو تو تاریخ کے اس دور میں ہماری عقل پختہ نہیں ہوئی ہے، الجھاؤ کا شکار ہو گئی ہے- کوئی بھی انصاف پسند اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا- ہمارے اندر اگر ہمت ہو تو تاریخ کے رخ کو پھر سے ماضی کی طرف پھیر دینا چاہیے-
(ایک قہقہہ بلند ہوتا ہے پھر…)
پہلاجج: ایک تجویز ہے- عادی قاتلوں کی طرح عدالت کو ہر دن قتل و غارت گری کے فیصلے کرنے سے روک دینا چاہیے -
دوسرا اور تیسرا جج:بات کچھ معقول ہے
(ڈسکشن ختم ہوتا ہے اور پھر عدالت قائم ہوتی ہے-)
جج: (وکیلوں سے) کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟
٭ یور آنر! ہم جس دور میں جی رہے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ کسی بھی رائے سے اتفاق کر لیں-
٭ (ایک گونہ ناراضگی کے ساتھ ) یس یور آنر! چوں کہ ہم حقیقت پسندی میں اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ ہمارے پاس حق کا کوئی پیمانہ ہی نہیں رہا-
٭یور آنر! ملزم کچھ کہنا چاہتا ہے-
جج: اجازت ہے-
ملزم: سر! ایک انسان کا فیصلہ دوسرے انسان کو کرنے کا حق کیوں دیا گیا ہے؟ یہ انصاف کا قانون ہے یا ظلم کا؟ میں نے تعلیم حاصل نہیں کی ہے، لیکن پھر بھی دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہاں پر جتنے جج اور جتنے وکیل ہیں میں سب سے زیادہ Intelligentہوں - میں جو کر سکتا ہوں ان میں کوئی بھی نہیں کر سکتا اوریہ جوکچھ کر رہے ہیں اگرڈگری کی شرط ختم کردی جائے تومیں کر سکتا ہوں، یور آنر! یقین نہ آئے تو صرف ایک منٹ کے لیے کرسی انصاف میرے حوالے کی جائے پھر دیکھا جائے کہ میں اپنے جرم کا فیصلہ کس صفائی سے کرتا ہوں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پا نی ہو جاتا ہے-
(مجمع خاموش ہے، سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں، میری گھٹن بڑھتی جا رہی ہے، زمین میرے پاؤں سے کھسکنے لگتی ہے، اچانک میں زمین پر گر جاتا ہوں، ادھر میری آنکھ کھل جاتی ہے اور میرے ہاتھ سے نجیب محفوظ کا ناول ’’اولاد حارتنا
[1] چھوٹ جاتا ہے- میرے ذہن میں رات کا وہ مفروضہ اب بھی گردش کر رہا تھا، میں بستر پر پڑا دیر تک سوچتا رہا، پھر تفریح طبع کے لیے ہاتھ میں اخبار اٹھا لیا جس کے پہلے صفحے پر یہ خبر نمایاں طور سے چھپی تھی ـCalifornia allows same-sex marriages (T.O.I May 17,2008) )  
کیلی فورنیا میں ہم جنسوں کی شادی کو جواز فراہم
--------------------------------------------------------
حاشیہ
[1]---’’اولاد حارتنا‘‘ بدنام زمانہ ادیب نجیب محفوظ (۱۹۱۱-۲۰۰۶ء) کا وہ مشہور ناول ہے جس پر ۱۹۸۸ء میں اسے ادب کا سب سے بڑا ایوارڈ نوبل پرائز ملا، یہ پہلا موقع تھا جب کسی عرب کو یہ اعزاز دیا گیا- نجیب محفوظ کا یہ ناول رمز و اشارے کی زبان میں ہے، یہ انبیائے کرام کے واقعات پر مبنی ہے- خلاصہ یہ ہے کہ جبلاوی اپنے ایک بیٹے ادہم کو دوسروں پر فضیلت دیتا ہے، یہ بات ادریس کو ناگوار لگتی ہے اور انتقام کے طور پر سازش کر کے ادہم کو راندۂ بارگاہ بنا دیتا ہے- وہ دوسرے محلے میں آباد ہوتا ہے - اس کی نسل بڑھتی ہے اور بڑی ہو کر تین بڑے کنبوں میں تقسیم ہو جاتی ہے- ایک چوتھا شخص علم پیدا ہوتا اور جبلاوی کو قتل کر دیتا ہے اور ناول اسی پر ختم ہو جاتا ہے-نجیب محفوظ نے اس ناول میں کیا کہنا چاہا ہے؟جب اس سے سوال ہوا تو اس نے اپنی طرف سے کسی وضاحت سے انکار کر دیا-ناقدین نے اس سے یہ معنیٰ اخذ کیے کہ اس نے نسل انسانی کی تاریخ بیان کرتے ہوئے تین کنبوں سے تینوں بڑے آسمانی مذاہب یہودیت، مسیحیت اور اسلام مراد لیا ہے اور علم کے ذریعے جبلاوی کے قتل سے یہ بتانا چاہا ہے کہ جدید علم سائنس نے خدا کا انکار کر دیا اور اب مذہب کا دور ختم ہو گیا- اسی معنی کی بنیاد پر اس کی تکفیر ہوئی- یہ ناول سب سے پہلے جب مصر کے جریدہ الاھرام میں قسط وار چھپنا شروع ہوا تو علمائے ازہر نے اس کی مخالفت کی اور اس کی اشاعت کو روکنا چاہا لیکن اخبار کے ایڈیٹر محمد حسنین ہیکل نے بضد ہو کر اسے مکمل شائع کیا-یہ بیسویں صدی کے چھٹے عشرے کا واقعہ ہے، لیکن مخالفت اتنی ہوئی کہ مصر جیسے مذہب خور ملک میں اس کی کتابی شکل میں اشاعت نہ ہو سکی-پہلی بار۱۹۶۲ء میں لبنان میں اسے دار الآداب نے شائع کیا جب کہ مصر میں پہلی بار دار الشروق کی طرف سے۲۰۰۶ء میں شائع ہوا-اس پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ عمر عبد الرحمان نے یہاں تک کہا کہ ’’اگر ہم نے نجیب محفوظ کو قتل کر دیا ہوتا تو ہندوستان میں سلمان رشدی ظاہر نہیں ہوتا-‘‘ یہ کتاب انگریزی، جرمن اور دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو کر ادب کا عالمی شہ پارہ بن گئی ہے- سوچیے ادب کے بازار میں بے ادبی کو کتنی پذیرائی ہے؟؟؟

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔