Thursday 7 September 2017

رضویات: پس منظر وپیش منظر

0 comments
رضویات: پس منظر وپیش منظر
از قلم:- ذیشان احمد مصباحی
فقیہ اسلام حضرت مولانا شاہ احمدرضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اپنے زمانے کی نابغۂ روزگار شخصیت تھے-بلاشبہ وہ ایک جہان معنی تھے -ان کی ہشت پہلو شخصیت کو جس طرف سے بھی دیکھیے وہ اپنے آپ میں منفرد وممتاز نظر آتی ہے- انہوں نے پوری ایک صدی کو متاثر کیا- ایک زمانہ ان کا معترف ہے- ان کے افکارو خیالات نے نہ صرف اپنے دور کو متاثر کیا اورنہ وہ صرف اپنے عہد میں مجالس علما اورعوام میں مقبول اور زیربحث رہے بلکہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ان کے افکارو خیالات اورتحقیقات پر بحث ونظر اور علم وتحقیق کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلاگیا- یہ بات خود اپنے آپ میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی عبقریت کا آخری ثبوت ہے اور سچائی بھی یہی ہے کہ عہدرضاسے اب تک عرب وعجم میں ان کا ثانی کوئی دوسرا نظر نہیں آتا-
یہ بات ایک تسلیم شدہ حقیقت کے طور پر اب سامنے آتی جارہی ہے کہ اعلیٰ حضرت ایک شخص نہیں ایک تحریک کانام ہے اور بقول مخدوم گرامی حضرت شیخ ابوسعیدشاہ احسان اللہ محمدی صفوی’’اعلیٰ حضرت کی ذات سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے- ‘‘اورجہاں تک حالات اور واقعات کی تبدیلی سے بعض جزوی مسائل اورفروعی نظریات سے اختلاف کا مسئلہ ہے تو یہ کوئی نیا نہیں، اصول فقہ کا قاعدہ ہے : تختلف الاحکام باختلاف الزمان- حالات کے بدلنے سے مسائل بھی بدل جاتے ہیں-
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی تاریخ اسلام کی اس مقدس لڑی کے ایک فیروز بخت دانہ ہیں جس میں شاہ ولی اللہ ، مجدد الف ثانی، شیخ محقق، غزالی ورازی اور امام احمدبن حنبل، امام شافعی اور امام ابوحنیفہ جیسی عظیم شخصیات ہیں جنہوں نے اسلام کے علمی کاررواں کو آگے بڑھایا، جو بلاشبہ راہ حق کے استعارے ہیں، جن کے علمی وفکری سرمایے کے احسان سے بعد والے نہ سبک دوش ہوئے اور نہ رہتی دنیا تک ہوں گے- جزوی طور پر بعدوالوں نے اختلاف تو ضرور کیا یا حالات کی تبدیلی کے سبب مختلف اقوال میں ترجیح دینے کا عمل توضرور کیا لیکن ان شخصیتوں کاانکاریا ان کے احسانات کی ناسپاسی کسی کے لیے ممکن نہیں رہی-
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی کتاب حیات کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات بڑی حیرت انگیز نظر آتی ہے کہ جو لوگ اس زمانے میں خود اپنے طور پر ماہ ونجوم کی حیثیت رکھتے تھے، وہ بھی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی سے اکتساب فیض کو غنیمت اور چندلمحے کی صحبت کو سرمایۂ حیات تصور کرتے تھے-مولانا امجدعلی اعظمی، مولانا ظفر الدین بہاری، مولانا عبد العلیم صدیقی میرٹھی، مولانا نعیم الدین مرادآبادی ، مولانا سید محمدکچھوچھوی ، مولاناسید سلیمان اشرف بہاری، اور ان جیسے دوسرے بہت سے علما ایسے تھے جو خود اپنی شناخت آپ تھے- ہر شخص اپنی جگہ آفتاب وماہتاب تھا لیکن یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوتی ہے کہ فاضل بریلوی ان کے بیچ ستاروں کی جھرمٹ میں ماہ کامل نظر آتے ہیں-ان عہد ساز شخصیات کا بارگاہ فاضل بریلوی میں سجدۂ نیاز لٹانا بس یوں ہی تو نہیں ہوسکتا- کچھ تو ایسی بات تھی جو تعلق اور عقیدت کیشی پر مجبور کررہی تھی-
ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح امام ابوحنیفہ قدس سرہ نے ماہرین کی ایک ٹیم اپنے گرد جمع کرلی تھی او ران کی مشاورت اورتعاون سے فقہ اسلامی کی تدوین کا فریضہ انجام دیا اسی طرح اعلیٰ حضرت نے اپنے دورمیں متخصصین کی چنندہ جماعت اکٹھا کرلی تھی جن کے تعاون سے خصوصیت کے ساتھ فقہ اسلامی پر ایسا کام کیا جس کی نظیر نہ تو بعد میں نظر آتی ہے اور نہ اس سے قبل کی قریب کی صدیوں میں کوئی اس کی مثال ملتی ہے-
کسی بھی شخصیت کی عظمت کا راز اس شخصیت کے پھیلاؤ سے سمجھا جاتا ہے -شخصیت جب بڑی ہوتی ہے توسب سے پہلے وہ اپنے گھر کی چہاردیواری سے باہرآتی ہے، پھر اس کی عظمت اس کی علاقائی حدوں کو توڑتی ہے پھر ملکوں کی سرحدیں مٹ جاتی ہیں- شخصیت جس قدر بڑی ہوتی جاتی ہے انفس وآفاق میں اس کے چرچے اسی قدر بڑھتے چلے جاتے ہیں-کسی عبقری شخصیت کی شناخت یہ بھی ہے کہ اسے جغرافیہ کی لکیریں اورزمانے کی رفتار پابجولاںنہ کر سکیں-عبقری شخصیتیں کسی ایک گھر، کسی ایک خطہ، یا کسی ایک زمانے کی نہیں ہوتیں اور نہ ہی گردش زمانہ ان کے گہرے نقوش کو مٹا سکنے میں کامیاب ہوتی ہے- اس تناظر میں جب ہم اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمدرضا خاں فاضل بریلوی کی شخصیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو پھر ہمیں ان کی عبقریت اور آفاقیت میں کوئی شبہ نہیں رہتا اور ان یارانِ کرم پر افسوس ہوتاہے جو اعلیٰ حضرت سے عقیدت کے نام پران کی شخصیت کو کسی گھر یا خطے میں محدود کرنے کی غیر شعوری کوشش کرتے ہیں-
روایتوں میں مذکور ہے کہ نبی کا کوئی وارث نہیںہوتا- اس سے ایک لطیف نکتہ یہ بھی ملتا ہے کہ علوم نبوت پر بھی کسی کی وراثت یا کسی کی جاگیر نہیں ہوتی- وہ خلقِ خدا کے عام استفادے او رہدایت کا سرمایہ ہوتے ہیں اور ان میںسب کا حصہ ہوتاہے- جس طرح امام ابوحنیفہ، امام غزالی، امام رازی، مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی شخصیت خطے اور کنبے سے بہت بلند ہے، بلا تمثیل اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی شخصیت بھی زمان ومکان کی قید سے اب آزاد ہوچکی ہے -اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس شخصیت پر قبضہ کرنے کے زعم میں اسے محدود کرنے کی غیر شعوری کوشش سے باز آجائیں- اسے اس کا صحیح حق دیں- اس پر تجارت اور سیاست نہ کریں-بلکہ ہر ممکن طور سے اس کے علمی ذخیرے کی تقسیم وترسیل کریں اور جدید اسالیب اورجدید سائنسی وتکنیکی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اسلام کے متوارث علمی وفکری سلسلے کوآگے بڑھانے کی کوشش کریں-
یہ بات بالکل سچ ہے کہ بیسویں صدی میں مختلف جہات سے فاضل بریلوی کے فکر وفن پر جس معیاراور وسعت سے کام ہونا چاہیے تھا اتنا نہیں ہوسکا - لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ جتنا کام فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی شخصیت اورفکر و فن پر کیا گیا اتنا بیسویں صدی کی کسی اور شخصیت پر نہیں ہوا-انیسویںاوربیسویں صدی کے ممتاز علماے ہندمیں غالباً اعلیٰ حضرت کی شخصیت ان میں سب سے زیادہ خوش نصیب ہے جو دینی سطح پر علمی کام کرنے والوں کی مرکز توجہ بنی رہی- بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی پر کام کرنے کا جوش اتنازیادہ بڑھا کہ اس عہد اور اس سے ماقبل عہد کے اکابراہل سنت پر کام کرنے کا رجحان ہی کالعدم ہوگیا-فکررضا کی اشاعت کا جذبہ ایک جنون کی شکل اختیار کرگیا اور ہر شخص نے ایک ہی راگ الاپنا شروع کردیا- اس سے جہاں ایک طرف دوسرے علماے اہل سنت اور ان کی خدمات فراموش ہوگئیں اور بعض ممتاز سنی شخصیتیں دوسروں کے کھاتے میں چلی گئیں تو دوسری طرف ایک منفی اثر یہ بھی پڑا کہ اعلیٰ حضرت پر ہونے والے کام کا معیار پستی کا شکار ہوگیا-اعلیٰ حضرت کی نعتیہ شاعری، اعلیٰ حضرت کا عشق رسول ، اعلیٰ حضرت کا ترجمۂ قرآن جیسے موضوعات پر ہزاروں مضامین لکھے گئے اور بیشتر مضامین میں ایک ہی بات کی تکرار کی جاتی رہی- رضویات پر لکھنا اور لکھوانا ، چھپنا اور چھپوانا ایک فیشن بن گیا- نتیجہ یہ ہوا کہ رضویات پر مضامین رسائل وجرائد میں دیکھے جانے لگے اور ان کو پڑھنے اور مطالعہ کرنے کی بجاے صرف مضمون دیکھ کرہی دل کو تسکین پہنچائی جانے لگی-
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے رشحاتِ قلم کا بڑاحصہ فتوؤں پر مشتمل ہے- ڈاک کے ذریعے ان کے فتاویٰ لکھنے کے ساتھ ہی ملک کے طول وعرض میں پھیلتے رہے -پڑھے جاتے رہے اور اپنا اثر دکھاتے رہے- پھرمطبع اہل سنت بریلی (قیام۱۳۱۳ھ) کے ذریعے اعلیٰ حضرت کے بعض کتب ورسائل ان کی زندگی ہی میں زیور طبع سے آراستہ ہوئے اور بڑے پیمانے پرا ن کی تقسیم ہوئی- تحفہ حنفیہ پٹنہ اور دبدبۂ سکندری رام پور کے توسط سے بھی اعلیٰ حضرت کے افکارو تحقیقات ملک بھر میں پھیلتے رہے-اعلیٰ حضرت کے شاگر د مولانا ظفرالدین بہاری غالباً وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے حیات اعلیٰ حضرت لکھ کر اعلیٰ حضرت کی حیات وخدمات کو مدون کیا- افسوس کہ اس کی مکمل اشاعت بیسویں صدی کے گزرجانے کے بعدہی ممکن ہوسکی اوراشاعت ہوئی بھی تو اس طورپر کہ پاکستان کا نسخہ ہندوستانی نسخے سے مختلف ہے اور ہندوستانی نسخہ پاکستانی نسخہ سے مختلف ہے -دونوں نسخے ایک دوسرے کی بہ نسبت ناقص ہیںجس کی تصحیح نہایت ضروری ہے- مولانا ظفرالدین بہاری کے بعد اعلیٰ حضرت کے برادرزادے مولانا حسنین رضا بریلوی کا نام بھی اس خصوص میں قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے سیرت اعلیٰ حضرت مع کرامات لکھ کر راز دارخانہ ہونے کی حیثیت سے اعلیٰ حضرت کی شخصیت کے بہت سے گمنام پہلوؤں کو اجاگر کیا - مولانا برہان الحق جبل پوری نے اکرام امام احمدرضا لکھا اور ایک شاگرد ہونے کی حیثیت سے اعلیٰ حضرت کی شخصیت کے تعلق سے بہت سی قیمتی یادوں کو محفوظ کردیا- مولانا بدرالدین احمدقادری گورکھ پوری کی کتاب سوانح اعلیٰ حضرت نے بھی اعلیٰ حضرت کی شخصیت اور ان کے کارناموں کو عوام تک پہنچانے میں بڑا کلیدی کردار اداکیا-اس طرح کی اور کتابیں بھی لکھی گئیں اور ان سب کا انداز اور اسلوب روایتی تھا-اعلیٰ حضرت کے اصل علمی سرمایہ یعنی فتاویٰ رضویہ کی تدوین واشاعت سنی دارالاشاعت مبارک پور کے ذریعے ہوئی- اس حوالے سے مولانا عبد الرؤف بلیاوی اور مفتی عبد المنان اعظمی کا نام بہت ہی قابل احترام ہے ،جنہوں نے تدوین کا یہ عظیم فریضہ انجام دیا-
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے افکارو خیالات کی جدید علمی اسلوب میں اشاعت کے لیے مولانا محمد احمد مصباحی، صدر المدرسین الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اور ان کے رفقا مولانا یٰسین اختر مصباحی ، مولانا بدرالقادری ، مولانا افتخار احمد مصباحی، مولانا عبد المبین نعمانی وغیرہ نے۱۹۷۶ء میں المجمع الاسلامی قائم کیا جہاں سے امام احمدرضا اور تصو ف، امام احمدرضا اور رد بدعات ومنکرات ، امام احمدرضا کی فقہی بصیرت جیسی بلند پایہ کتابیں علمی انداز میں سامنے آئیں-اس کے ساتھ ترجمہ وتسہیل اور جدیدپیراگرافنگ کے ساتھ اعلیٰ حضرت کے درجنوں رسائل  خصوصاًجدالممتار حاشیہ رد المحتارپہلی بار اشاعت پذیر ہوئے- یہی کام اس سے قبل پاکستان میں حکیم موسیٰ امرتسری نے مرکزی مجلس رضا کے قیام (۱۹۶۸ء) اور ماہنامہ جہان رضا کی اشاعت اور اعلیٰ حضرت کی کتابوں اور اعلیٰ حضرت پر لکھی جانے والی کتابوں کی اشاعت وتقسیم کے ذریعے کیا -
۱۹۷۰ء میں پروفیسر مسعود احمد مجددی حکیم محمد موسیٰ امرتسری کی تحریک پر مرکزی مجلس رضا کے پلیٹ فارم سے رضویا ت پر کام کرنے کی طرف متوجہ ہوئے اور رضویات پر نئے انداز سے کام کرنا شروع کیا- اعلیٰ حضرت کی شخصیت کے مختلف گوشوں پر درجنوں اعلیٰ معیاری کتابیں لکھ کرعلمی اور دانش ور طبقہ کو پہلی بار چونکا دیا اور سب کو رضویات کی طرف متوجہ کردیا -پروفیسر مسعود کے علاوہ پاکستان میں مولانا عبد الحکیم شرف قادری ، مفتی عبد القیوم ہزاروی، مولانا عبد الحکیم اختر شاہجہاں پوری، سید وجاہت رسول قادری (ادارہ تحقیقات امام احمدرضا کراچی) اور ہندوستان میں مولانا یٰسین اختر مصباحی کا نام بہت نمایاں ہے جنہوں نے کمیت و کیفیت اور تنوع ہر لحاظ سے رضویات پر بڑا کام کیا-ہندوستان میں رضویات کی اشاعت کے حوالے سے الحاج سعید نوری اور رضا اکیڈمی اور مولانا عبد الستار ہمدانی اور مرکز اہل سنت برکات رضا کے نام بھی اس ضمن میں بہت اہم ہیں- ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نام ہیں جن کا شمار نہ اس مختصر سی تحریر میں ممکن ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے- ان تمام کاموں میں سب سے ممتاز اور اہم کام فتاویٰ رضویہ کی جدید اشاعت تھی- چوں کی فاضل بریلوی کی ہشت پہلو شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو فقہ وفتاویٰ کا ہے کیوں کہ بنیادی طور پر وہ ایک عالم اور مفتی تھے اور ان کا سب سے بڑا سرمایہ ان کے فتاویٰ تھے جو کچھ فتاویٰ رضویہ کے قدیم نسخے میں چھپے ہوئے تھے اورکچھ کتابوں اور رسالوں کی شکل میں مطبوع تھے اور کچھ منتظر اشاعت تھے -مفتی عبد القیوم ہزاروی نے اس پورے علمی ذخیرے کو عربی اور فارسی عبارات کے ترجمے اور حوالوں کی تخریج کے ساتھ ایک ساتھ شائع کرنے کا عزم کیا، مختلف جلدوں پر مختلف ماہر علما کی خدمات لیں اور سب کی اجتماعی کاوش سے فتاویٰ رضویہ تیس ضخیم جلدوں میں چھپ کر پہلی بار سامنے آیا جس میں اعلیٰ حضرت کے تقریباً تمام دستیاب فتاویٰ یکجا ہوگئے ہیں- اس کام کومیں بنیادی اور کلیدی اس لیے قرار دیتا ہوں کہ کسی شخصیت کا اصل سرمایہ اس کی اپنی تحریریں ہوتی ہیں رہا اس شخصیت اورا س کے فن پر تحقیق کا معاملہ تو جب اصل سرمایہ موجود ہوگا تو ثانوی تحقیقی عمل تو ہوتا ہی رہے گا-
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی پر عصری دانش گاہوں میں علمی تحقیق کا سلسلہ بھی شروع ہوا- سب سے پہلے مولانا حسن رضا نے پٹنہ سے اعلی حضرت کی فقہی خدمات پر پی ایچ ڈی کی- اس کے بعد اعلیٰ حضرت کی نعتیہ شاعری ، اعلیٰ حضرت کے عشق رسول اور دوسرے موضوعات پر دنیا بھر کی مختلف یونیورسٹیوں میں ایم، فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے گئے-کولمبیا یونیورسٹی امریکہ سے اوشا سانیال نے اعلیٰ حضرت کی شخصیت پر مقالہ لکھا جو انگریزی زبان میں چھپ کر آگیا ہے- مولانا ممتازاحمد سدیدی نے جامعۃ الازہر سے اعلیٰ حضرت کی عربی شاعری پر مقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کی، مولانا صادق الاسلام نے پروفیسر اختر الواسع کی نگرانی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں اعلیٰ حضرت کی تحریک اور اس کے اسباب واثرات پر اپنا مقالہ لکھ کر جمع کردیا ہے -اس طرح دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ حضرت کے فکروفن پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے گئے اور لکھے جارہے ہیں ،جس سے جدید علمی طبقہ اعلیٰ حضرت کی شخصیت اور ان کے افکار سے متعارف ہوا اور متعار ف ہورہا ہے -لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہاں پھر دو بارہ یہ اظہار کرنا ضروری ہے کہ اعلیٰ حضرت کی عبقری شخصیت جتنی مستحق تھی اتنا کام اس پر اب تک نہیں ہوسکا- میری نظر میں چند امور ایسے ہیں جن پر توجہ دینے اور کام کرنے کی ضرورت ہے-
(۱)اب تک جدید اسلوب اور معیار کے مطابق فاضل بریلوی کی شخصیت پر ایک مستقل قاموسی سوانح نہیں لکھی جاسکی- پروفیسر مسعود احمد مجددی نے بھی بارہا اس کا اظہار فرمایا اور اپنی تحریروں میں کئی جگہ اسے لکھا بھی- انہوں نے باضابطہ ایک انسائیکلوپیڈیا تیار کرنے کا منصوبہ بنایاتھا- اس کا خاکہ بھی تیار کرلیا تھا- اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کام کو جلد از جلد تکمیل تک پہنچایا جائے- یہ گروپ ورک ہے- اس کے لیے محققین کی ایک ٹیم اور وافر سرمایے کی ضرورت ہے- رضویات کے غم میں دبلے ہونے والے کاش اس کام کی طرف متوجہ ہوتے!
(۲) اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی پر مختلف ویب سائٹس موجود ہیں لیکن اب تک کوئی ایسی ویب سائٹ نہیں بن سکی جس میں بیک وقت اردو ،عربی، اور انگلش میں فاضل بریلوی کی شخصیت وسوانح پر مواد ہو- ان کی تمام کتابیں اور تمام فتاویٰ موجود ہوں- ان سے استفادہ کرنا اور ان کا مفت ڈاؤن لوڈ کیا جانا ممکن ہو- انٹرنیٹ جوعلم کی تبلیغ اور معلومات کی ترسیل کی حیرت انگیز ایجاد کی شکل میں سامنے آیا ہے اس سے کماحقہ استفادہ نہ کرنا اور اس کے توسط سے اعلیٰ حضرت کے افکار وتحقیقات کی برقی ترسیل نہ کرنا جدید ذرائع سے ہماری ناواقفیت یا تساہلی یا فاضل بریلوی سے جھوٹے دعوی محبت کی دلیل ہے-
(۳) مفتی عبد القیوم ہزاروی اور ان کے رفقانے اپنی انتھک جدوجہد سے فتاویٰ رضویہ کی جدید اشاعت کردی- رضویات کے باب میں اب تک کا یہ سب سے بڑا کام ہے- ان کے شائع کردہ پاکستانی نسخے کی ہندوستان سے بھی اشاعت ہورہی ہے لیکن مختلف اہل علم نے بتایا کہ ترجمہ اور تحقیق وتخریج میں عجلت کے سبب بہت سی خامیاں راہ پاگئی ہیں- اس بات کو ایک حدتک میں نے بھی محسوس کیا- اب ـضرورت ہے کہ ہندو پاک میں رضویات پر کام کرنے والا کوئی تحقیقی ادارہ یااعلیٰ حضرت سے منسوب کوئی بڑی شخصیت یہ بیڑا اٹھائے- محققین کی ایک ٹیم کو تمام تر سہولیات فراہم کرے اور موجودہ ترجمہ وتحقیق اور تخریج پر نظر ثانی کرکے اسے فتاویٰ کی شایان شان بنائے پھر اس کی تصحیح کے بعد از سرنو اس کی اشاعت ہو اورموجودہ نسخے کی اشاعت ثانی موقوف کردی جائے-
(۴)فتاویٰ رضویہ کی جدید اشاعت کافائدہ یہ ہوا کہ اردو دنیا کے لیے فاضل بریلوی کے گنج ہاے گراں مایہ سے استفادہ آسان ہوگیا لیکن عالم عرب اب بھی ان سے محروم ہے- اگر فتاویٰ رضویہ کا زبان وادب کے ماہرین کے ذریعے عربی ترجمہ ہوجاتاہے تو عالم اسلام اس عالم ربانی کی تحقیقات ونوادرات سے پورے طورپر استفادہ کرسکتا جو اس کا حق ہے- یہ کام تاج الشریعہ علامہ اختررضا خاں ازہری جو خود بھی عربی زبان پر نظررکھتے ہیں، کی سرپرستی میں ہوجائے یا کوئی اور صاحب یا کوئی اور ادارہ اس کام کو اپنے ذمے میں لے لیں تو رضویات کا ایک بڑا کام ہوجائے گا -یہ کام بھی شخصی نہیں اجتماعی ہے -اس کے لیے بھی ماہرین کی ایک پوری ٹیم چاہیے جنہیں اعلیٰ وظائف دیے جائیں اور جدید سہولیات فراہم کی جائیں- اگر اس کے بعد یہ کام انگریز ی میں بھی ہوجائے تو صرف عالم اسلام ہی نہیں بلکہ پورے عالم انسانیت کے لیے اعلیٰ حضرت کی تحقیقات سے استفادہ ممکن ہوجائے گا لیکن یہ کام بعد کے مرحلے کا ہے، عربی ترجمہ اس سے پہلے ضروری ہے-
 رضویات کے حوالے سے یہ چاربنیادی کا م ہیں جوفاضل بریلوی کادم بھرنے والوں کی توجہ کے طالب ہیں- کام کرنے کے یہ ہیں جن کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے اور جو کام نہیں ہے اس کو کام بنا کر رضا رضا کا شورمچایاجارہا ہے -اب نمائشوں کی نہیں کام کی ضرورت ہے -حافظ ملت مولاناشاہ عبد العزیز مرادآبادی کا قول ہے:’’ ہرمخالفت کا جواب کام ہے -کام کرونام ہوہی جائے گا-‘‘ جو حضرات نمائش کو ہی اپنا کام بنائے ہوئے ہیں وہ یا درکھیں کہ وقتی طور پر وہ چاہے جتنا خراج وصول کرلیں اور اعلیٰ حضرت کے نام پر چاہے جتنا کما لیں، تاریخ انہیں اپنے صفحات میں مثبت طور پر ہرگز جگہ نہیں دے گی- اس کے ساتھ میں اس بات کی بھی وضاحت کرنا چاہتاہوں کہ اعلیٰ حضرت پر کام کرنا جوایک فیشن سابنتا جارہا ہے، خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو کہ مصداق ہر کوئی اعلیٰ حضرت پر لکھنے کے لیے اور اعلیٰ حضرت کے نام پر اکیڈمی قائم کرنے کے لیے جو بے چین نظر آرہا ہے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے -اس کاجو سب سے بڑا نقصان ہے وہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے دین وملت کے دوسرے ضروری موضوعات ہماری بے التفاتی کا شکار ہیں اور دین ودنیا کے جو دوسرے کام ہیں ان کو کرنے کے لیے کوئی کمربستہ نہیں ہوپارہا ہے- جن قوموں سے عقابی روح رخصت ہوجاتی ہے اور وہ بھیڑ کی چال چلنے کی عادی ہوجاتی ہیں وہ کبھی زندگی کی دوڑمیں سرخ رو نہیں ہوسکتیں-



0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔