Thursday 7 September 2017

۱۸۵۷ء کی ۱۵۰ سالہ تاریخ اور عصری تصورات

0 comments
۱۸۵۷ء کی ۱۵۰ سالہ تاریخ اور عصری تصورات
از قلم:- ذیشان احمد مصباحی
تاریخ گوئی یا قصہ گوئی :-
۹؍اپریل ۲۰۰۷ء کو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے انصاری آڈیٹوریم میں’’ انقلاب ۱۸۵۷ء اور اردو اخبارات‘‘ کے موضوع پر ایک سمپوزیم منعقد ہوا، یہ سمپوزیم شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ دہلی کے ذمہ داران نے منعقد کی تھی، شرکاء میں محترمہ شیلا دکشت و زیر اعلیٰ دہلی، مولانا انظر شاہ کشمیری اور دوسری سیاسی و سماجی شخصیات شریک تھیں، میڈیا کی نظر التفات حاصل کرنے کے لیے علمی پروگراموں میں معروف غیر علمی ہستیوں کو دعوت دینا عصر حاضر کی مقبول روایت ہے اور مجموعی طور پر یہ سمپوزیم بھی اس روایت کا مکمل آئینہ دار تھا- اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ ’’ انقلاب ۱۸۵۷ء اور اردو اخبارات‘‘ جو بنیادی موضوع تھا اس پر کسی خطیب نے ڈیڑھ سطری تبصرہ کرنے کی بھی زحمت نہیں کی، ایک دو صاحبان نے اگر اردو اخبارات کا ذکر کیا  بھی تو بڑے تپاک سے مولانا ابو الکلام آزاد کے البلاغ اور الہلال کا اور مولانا محمد علی جوہر کے ہمدرد کا نام لیا اور بیشتر باریش حضرات نے سید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے جوش جہاد کا تذکرہ بڑے کروفرسے کیا جن کی لڑائی انقلاب ۱۸۵۷ء سے ۲۶ سال پہلے سرحد کے سکھوں اور مسلمانوں سے ہو ئی تھی-نا معقولیت کی حد تو یہ تھی کہ اکثر خطباء کا ش ق بھی درست نہیں تھا ،’’ انکلاب ‘‘ اور’’ زنگ آجادی‘‘ جیسے الفاظ کی سمع خراشی نے طبیعت مکدر کر دی تھی- بالآخر وزیر اعلیٰ شیلا دکشت کو اپنے پیش رو مقرروں کے بارے میںیہ کہنا پڑا کہ ’’ ان کی زبان میں وہ چاشنی نہیں ہے جو دہلی اور لکھنؤ کی اردو میں پائی جاتی ہے-‘‘
 میں مصمم ارادے لیے بیٹھا تھا کہ آج تو یہ سوال کر ہی دینا ہے کہ کسی مقرر نے بنیادی موضوع سے متعلق ایک جملہ تک نہیں بولا، پھر آخر اس سمپوزیم کے انعقاد کا مقصد و ضرورت کیا ہے؟ لیکن افسوس کہ تنگی وقت کا بہانہ کر کے منتظمین نے سوال و جواب کے سیشن کو موقوف کر تے ہوئے فاتحانہ شان سے سمپوزیم ختم کر دیا ورنہ جو افسوس آج میں کر رہا ہوں اس وقت وہ کرتے-
۲۶؍ جون ۲۰۰۷ء دن ۱۰؍ بجے جب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے پروفیسر سیدعزیز الدین احمد سے انٹر ویو کے لیے ملا توانہوں نے بھی اس سمپوزیم کا بڑا کربناک ذکر کیا- ان کا فرمانا تھا کہ ’’ بھئی ! جب آپ کو تاریخ کا علم ہی نہیں تو تاریخ پر جلسہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ میں نے جب یہ واقعہ صوفی ناصر الدین سے سنایا تو وہ غرائے، وجہ دریافت کرنے پر کہنے لگے کہ آپ نے پروفیسر صاحب سے یہ کیوں نہیںپوچھا کہ’’ مذہب چھوڑنے کے بعد جن لوگوں نے سائنس پر ایمان لایا تھا ، آج سائنس کے مفروضات کو ٹوٹتا ہو ا دیکھ کر وہ بھی سائنس کو فکشن (افسانہ) سے تعبیر کرنے لگے ہیں، پھر اگر کوئی تاریخ میں قصہ اور داستان کا لطف پیدا کر دے تو اس کا کیا گناہ؟ ‘‘ صوفی صاحب کی اس برجستگی نے مجھے لا جواب کر دیا اور مجھے اعتراف کرنا پڑا کہ شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ والوں نے ۱۸۵۷ء کی تاریخ کو ۲۱؍ ویں صدی کے اخبارات سے جوڑ کر اور اس کا سرا کو سید احمد رائے بریلوی کی پنجاب اور سندھ میں لڑی جانے والی جنگوں (۱۸۲۶-۱۸۳۱ء) سے ملا کر کوئی گناہ نہیں کیا اور اس پر تاریخی نقطۂ نظر سے وہی تنقید کر سکتا ہے جس کی کوتاہ نظری تاریخ گوئی اور قصہ گوئی میں فرق کرتی ہوگی-
۱۸۵۷ء کی وہابیائی تعبیر:-

 پروفیسر خلیق احمد نظامی ایک محقق قلم کار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں- ان کا مرتب کردہ ’’ ۱۸۵۷ء کا تاریخی روزنامچہ‘‘ (از عبد اللطیف دہلوی) میرے پیش نظر ہے، اس پر موصوف کا ۴۶؍صفحات پر پھیلا ہوا مبسوط مقدمہ بھی ہے، مقدمے کا یہ حصہ پڑھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی -’’ حقیقت یہ ہے کہ سید احمد شہید اور ان کے رفقاء کار کے خون سے آزادی کا پودا ہندوستان میں سینچا گیا - انگریزوں نے ان کی تحریک کی نوعیت کو خوب سمجھ لیا تھا اور وہ اس جذبہ سے بھی بے خبر نہ تھے جو جماعت مجاہدین کے قلب و جگر کو گرمائے ہوئے تھا- چنانچہ انہوں نے ایک طرف تو’’ وہابی‘‘ کا لقب دے کر اس مکتب خیال کے لوگوں کو ختم کیا اور دوسری طرف کوشش کر کے اس تحریک کو اس طرح پیش کیا اور کرایا جس سے متاخرین کو ایسا محسوس ہونے لگا گویا اس کا رخ محض سکھوں کی طرف تھا‘‘-(ندوۃ المصنفین اردو بازار، جامع مسجد، دہلی ، دسمبر : ۱۹۷۱ء)
اولِ نظر میں حیرت کی وجہ یہ نہیں بنی کہ پروفیسر صاحب نے کوئی نئی بات کہہ دی تھی، بلکہ حیرت اس لیے ہوئی کہ پروفیسر موصوف جیسے شخص سے جن کا شمار محققین میں کیا جاتا ہے، آخر کیوں ہمیں اسی آواز کی باز گشت سنائی دے رہی ہے جو ہم غلام رسول مہر اور دوسرے نامو رتاریخ سازوں کے صریر خامہ سے سن چکے ہیں- شروع میں یہ شبہ بھی پیدا ہوا کہ ایسے نامور افراد بلا وجہ کسی سے متاثر تو نہیں ہو سکتے، پھر یہ خیال گزرا کہ نامور بننے کے لیے بھی تو کسی معقول وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی، بسا اوقات نا معقولیت بھی شہرت کا سبب بن جاتی ہے- میں نے سر جھٹکا اور مطالعے کی طرف متوجہ ہو گیا، چوںکہ عقیدت مندوں کے لیے موافقین کی رائے مخالفین کی بہ نسبت زیادہ ٹھوس ہوتی ہے کیوں کہ مخالفین کی سچی باتوں کو بھی بسا اوقات جذبۂ مخالفت کا نتیجہ قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے، اس لیے میں نے سید احمد رائے بریلوی کے بارے میں ان کے مخالفین یعنی علماے اہل سنت کی کتابوں کی طرف رجوع کرنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ رائے بریلوی صاحب کے ایک مشہور معتقد کی مشہور کتاب’’ سیرت سید احمد شہید‘‘ کا مطالعہ کرنا شروع کیا- اس کی تلخیص ’’ تذکرہ حضرت سید احمد شہید‘‘ بھی دیکھی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ انگریزوں کے تعلق سے رائے بریلوی صاحب کے خیالات کیا تھے ؟ اور انہوں نے ان کے خلاف کہاں تک فکری و عملی جہاد کیا ؟ تلاش بسیار کہ بعد بھی انگریزوں کی مخالفت یا ان سے جہاد کا کوئی واضح سراغ ہمیں مصنف کتاب مولانا ابو الحسن علی ندوی نہیں دے سکے، جنہیں رائے بریلوی صاحب سے خاندانی نسبت بھی حاصل ہے- بلکہ بر عکس اس کے ایسی چیز ملی جس سے خلیق صاحب کے خیالات کی تردید ہوتی معلوم ہوتی ہے - مثلاً صفحہ ۴۱۸ پر مصنف لکھتے ہیں:’’ لیکن پچھلے برسوں میں بعض فاضل اہل علم کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سید صاحب جنگ آزادی کے ایک رہنما تھے، جن کا مقصد وحید ہندوستان سے انگریزوں کا اخراج اور ملک کو غیر ملکی حکومت سے آزاد کرا کے ایک خالص ملکی حکومت قائم کرنا تھا -‘‘ ندوی صاحب نے تقریباً ۵؍صفحات پر اس نظریے کی پر زور میں تردید کی ہے-
۱۸۵۷ء کی تاریخ رقم کرنے والے اکثر مصنفین کا یہ وطیرہ بن چکاہے کہ وہ تاریخ کا آغاز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی آفاقی شخصیت سے کرتے ہیں، ان کی سیاسی، سماجی اور فکری تحریروں کی تعریف کرتے ہیں، ان کے افکار جہاں بانی و جہاں بینی کا ذکر کرتے ہیں (جن کا رشتہ ہندوستان کی آزادی سے جوڑنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ اسلام آزادی ہند کا سبب بنا کیوں کہ اسلام کی تعلیمات مجموعی طور  پر آزادی کے حق میں ہیں نہ کہ غلامی کے حق میں) پھر حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی ایک تحریر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انہوں نے انگریزی تسلط کا ذکر کیا ہے، اس کے بعد اس خانوادے کی تعریف جذباتی انداز میں کرتے ہیں اور پھر اسی خانوادے کے فرزند (اور فکری باغی ) اسماعیل دہلوی اور ان کے شیخ سید احمد رائے بریلوی کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کی جہادی کارناموں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں ،پھر ۱۸۵۷ء کا ذکر کرتے ہیں—مزید یہ کہ وہ افراد جو نظریاتی طور پر احمد رائے بریلوی اور اسماعیل دہلوی کے متبع و مقلدہیں اور جن کا کسی نہ کسی طرح جنگ آزادی ۴۷ ۱۹ میں نام بھی آتا ہے ان کا نام لے ہیں—اس جذباتی تاریخ نگار ی کے بین السطور سے جو بات باور کرائی جاتی ہے وہ یہ کہ ہندوستان کی آزادی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے نظریات کی رہین منت ہے جس کا علَم عملی طور پر شاہ اسماعیل دہلوی، سید احمد رائے بریلوی اور ان کے معتقدین و متوسلین بلند کیے ہوتے تھے- چوںکہ ایک کھلی سچا ئی یہ ہے کہ اکثر اردو تاریخ نویس وہ افراد تھے جن کا سررشتہ رائے بریلوی اور اسماعیل دہلوی صاحب کے اس فکری نظام سے جا ملتا ہے جس کے خالق وہ خود تھے، نتیجہ کے طور پر۱۸۵۷ء کی تاریخ اپنے پس منظر و پیش منظر کے ساتھ ایسی تحقیقات کا مجموعہ بن گئی ہے جس میں انقلاب ۱۸۵۷ء کی حقیقی تصویر کے سواسب کچھ ہے- چلتے چلتے یہ وضاحت کر دینا بھی ضروری ہے کہ رائے بریلوی اور دہلوی صاحب کے پیرو کاروں کا ’’ وہابی‘‘ نام انگریزوں نے نہیں ہدوستانی سنی مسلمانوں نے رکھا ہے ، بر عکس اس کے وہابی علما ء کی درخواست پر انگریز حکومت نے ان کا نام ’’ اہل حدیث ‘‘ رکھا تھا- (ملاحظہ فرمائیں محمد جعفر تھا نیسری کی کتاب تواریخ عجیب یعنی کالا پانی پر پروفیسر محمد ایوب قادری کا مقدسہ اور مولانا مسعود عالم ندوی کی کتاب ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک)
رائے بریلوی صاحب کے جہاد کا مقصد:- 

پروفیسر خلیق انجم صاحب کی محولہ بالاعبارت پر ایک بار پھر نظر ڈالیے جو وہابیائی تحقیقات کا حاصل ہے- محولہ عبارت کا پہلا جملہ ہے’’ حقیقت یہ ہے کہ سید احمد شہید  اوران کے رفقاء کار کے خون سے آزادی کا پودا ہندوستان میں سینچا گیا‘‘-اس جملے پر تنقیدی نظر ڈالنے سے پہلے رائے بریلوی صاحب کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں، رائے بریلوی صاحب یکم محرم ۱۲۰۱ھ /۱۷۸۶ء کو پیدا ہوئے، ۴؍ سال ۴؍ماہ کی عمر میں تعلیم کا آغاز ہوا،طبیعت پڑھنے کی طرف مائل نہ تھی (سیرت سید احمد شہید اول :۱۱۰) معاش کے مسئلہ سے دو چار حیران و پریشان ۲۰؍ سال کی عمر میں دہلی پہنچے اور شاہ عبد العزیز اور شاہ عبد القادر دہلوی سے ملاقات اور استفادہ کیا(سوانح نگاروں کا اس مسئلہ میں بہت اختلاف ہے) ۲؍ جون ۱۸۲۱ھ یکم شوال ۱۲۳۶ھ کو حج کے لیے روانہ ہوئے اور ۳؍ سال بعد ۱۸۲۴ء میں سفر حج سے واپس ہوئے، واپسی کے بعد ہی جہاد کی تیاری شروع کر دی -۱۷؍ جنوری ۱۸۲۶ء /۷ جمادی الاخری ۱۲۴۱ ھ کو رائے بریلی سے روانہ ہوئے اور گوالیار، ٹونک، اجمیر، پالی، عمر کوٹ، حیدر آباد، کوئٹہ، قندہار، کابل اور پشاور ہوتے ہوئے ۱۱؍دسمبر ۱۸۲۶ء؍۱۸ جمادی الاولیٰ ۱۲۴۲؍ کو نو شہرہ پہنچے،۴؍ سالوں تک چھوٹی بڑی جھڑپیں اور جنگیں ہوتی رہیں، اور بالآخر ۲۴؍ ذی قدہ ۱۲۴۶ھ کو بالا کوٹ کے میدان میں یہ داستان جہاد اپنے اختتام کو پہنچ گئی ، ناکامی کیوں ہوئی؟ ’’ تدبر‘‘ کے ساتھ مولانا محمد سلیمان قاسمی کی ان سطور کو پڑھا جائے تو بات واضح ہو جائے گی-
’’ برا ہو نسلی غرور کا، برا ہو قبائلی عصبیت کا، برا ہو جہالت کا اور ستیاناس ہو علما سوء کی پھوٹ ڈالنے والی حرکات کا اور خدا معاف کرے مخلصین کی بے صبری، بے تدبیری اور نا تجربہ کاری کو، سب نے مل کر کیے کر ائے پر پانی پھیر دیا، حنفیت اور وہابیت کے جھگڑے کھڑے کر دیے گئے ، قبر پرستوں نے سرفروشان اسلام پر کفر کے فتوے داغے،  سرحد کے پٹھانوں نے غداری کی‘‘-(کربلا سے بالاکوٹ تک، ص: ۲۳۱، ناشر مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، ستمبر ۲۰۰۵ء) ہر چند کے یہ پوری عبارت رائے بریلوی صاحب کی گرداب عقیدت میں ڈوبی ہوئی ہے تاہم غیر شعوری طور پر وہ سارے حقائق سامنے آ گئے ہیں جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ان میں دو باتیں نمایاں ہیں اول یہ کہ ان جہادیوں میں بے صبری، بے تدبیری اور نا تجربہ کاری تھی اور دوم یہ کہ شکست کی وجہ وہابیت اور حنفیت کا جھگڑا بنی- بلفظ دگر سید صاحب نے جہاد کا رخ سکھوں سے ہٹا کر مسلمانوں کی طرف پھیر دیا تھا -
سید صاحب کی زندگی کو سامنے رکھیے اور اس کے بعد پروفیسر خلیق احمد کے اس ادعاء کا تجزیہ کیجیے کہ ’’ حقیقت یہ ہے سید احمد شہید اور ان کے رفقاء کار کے خون سے آزادی کا پودا ہندوستان میں سینچا گیا-‘‘ تو سخت مایوسی ہوتی ہے- افق ذہن پر یہ چند سوالات یکایک کھڑے ہو جاتے ہیں-
(۱) یہ بات اس وقت درست تسلیم کی جاتی کہ سید صاحب اوران کے رفقاء کار کا خون انگریزوں نے بہایا ہوتا -
(۲) سید صاحب نے اپنی جنگ کے لیے فوج و سامان فراہم کرنے کے لیے جن علاقوں کا دورہ کیا ان میں اکثر انگریزوں کے زیر نگیں تھے، لیکن انگریزوں نے کہیں بھی سید صاحب کی اس ’’فوجی کارروائی‘‘ سے تعرض نہ کیا، کیا انگریز اتنے ہی بیوقوف تھے؟
(۳) سرحد کے علاقوں پر یا تو سکھوں کا قبضہ تھا یا مسلمانوں پر پھر آزادی کے پودے کی سینچائی کرنے سید صاحب کو وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی؟
(۴)ہندوستان کے مرکز دہلی پر ایک کمزور سہی مسلم سلطنت قائم تھی اور ہندوستانی علاقے نوابوں اور راجائوں کے زیر نگیں تھے، ایسے میں انگریزوں کی ایک بیرونی طاقت تیزی سے ہر جگہ ہر معاملے میں دخیل ہوتی جارہی تھی-ایسی صورت حال میں جہاد کی صرف دو صورتیں ہو سکتی تھیں:
(الف) سید صاحب دہلی کے تخت پر جلوہ فرما مغل شہنشاہ کے تعاون میں اپنی فکر و عمل کی ساری توانائیاں صرف کردیتے اور اس وقت کی ایک مسلم حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کوسہارا دے کر ایک مضبوط سلطنت قائم کرتے اور پھر غیر ملکی تسلط ختم کرنے کی تدبیریں کرتے-
(ب)سید صاحب اپنے اجتہاد کی بنیاد پر تخت دہلی پر جلوہ افروز شہنشاہ کو نا اہل قرار دیتے اور اس کو معزول کر کے دوسری مستحکم مسلم / اسلامی حکومت قائم کرکے اعلائے کلمۃ الحق کے لیے انگریزوں اور مشرکین سے جہاد کرتے-یا انگریزوں اور مشرکین سے ایک ساتھ جہاد کرتے-
مگر سید صاحب نے ان دونوں میں سے کچھ بھی نہ کیا اور کسی مسلم حاکم و امام کے فرمان کے بغیر جو جہاد کی شرط ہے، ہزاروں میل کا سفر کیا اور جہاد کے نام پر غیر منظم لڑائیاں شروع کر دیں- انگریزو ںسے رابطے ہموار ہیں، ہندو راجوں، مہاراجوں کی دعوتیں اڑارہے ہیں اور جہاد کا رخ صرف سکھوں کی طرف اور حنفی سنی مسلمانوں کی طرف ہے، بالفرض اگر یہی عمل ان کا جہاد ہے تو اس جہاد سے ہندوستان کی آزادی  کا کیا رشتہ؟
(۵) جناب شاہ حسین گردیزی صاحب کی تحقیقی کتاب ’’ حقائق تحریک بالا کوٹ ‘‘میرے سامنے ہے، اس میں سید صاحب کے متعدد موافقین و مخالفین اور غیر جانب دار قلم کاروں کے حوالوں سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ سید صاحب کسی طور پر بھی انگریزوں کے مخالف نہیں تھے، ان حوالوں میں شیخ اکرام کا یہ اقتباس بڑا واضح ہے-
’’جب آپ سکھوں سے جہاد کرنے کو تشریف لے جاتے تھے، کسی شخص نے آپ سے دریافت کیا کہ اتنے دور سکھوں سے جہاد کرنے کو کیوں جاتے ہو، انگریز جو اس ملک پر حاکم ہیں وہ دین اسلام کے کیا منکر نہیں ہیں -گھر کے گھر میں ان سے جہاد کر کے ملک ہندوستان لے لو- یہاں لاکھوں آدمی آپ کا شریک اور مددگار ہو جائے گا……سید صاحب نے جواب دیا، سرکار انگریزی گو منکر اسلام ہے مگر مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے-‘‘(حقائق تحریک بالاکوٹ ص:۷۱، مجلس اتحاد اسلامی کراچی بحوالہ موج کوثر از شیخ امحمد اکرام ص:۲۰)
کیا اس کے بعد بھی سید صاحب کو تحریک آزادی کا ہیرو ثابت کرنے کا جنون صحت فکر کا اشاریہ ہوسکتا ہے؟ لیکن یہ سوال بہر کیف اپنی جگہ پر رہ جاتا ہے کہ پھر سید صاحب کی ان معرکہ آرائیوں کا کیا مقصد تھا؟
میرا خیال ہے کہ اس سوال کا جواب سید صاحب کی زندگی کے جزئیاتی واقعات میں تلاش کرنے کی بجائے سرحدی مسلمانوں اور خانوادۂ ولی اللّٰہی سمیت پورے ہندوستانی مسلمانوں کی دوخانوں میں تقسیم اور ان کے گزشتہ ۱۵۰؍ سالہ باہمی جنگ و جدال کا علمی ،فکری اور نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو حقیقت حال سے آگہی زیادہ آسان ہو جائے گی- اوراگرخلیق احمد نظامی صاحب کے جملے کو معمولی تبدیلی کے ساتھ اس طرح کر دیا جائے کہ ’’ حقیقت یہ ہے کہ سید احمد شہید اور ان کے رفقاء کار کے خون سے’’ وہابیت‘‘ کا پودا ہندوستان میں سینچا گیا-‘‘ تو یہ ایسی حقیقت ہوگی جس کا انکار سید صاحب کے موافقین اور مخالفین میں سے کسی کے لیے بھی ممکن نہ ہوگا-
۱۸۵۷ء کی یاد ،غفلت اور شکایت:-

 سال۲۰۰۷ء شروع ہونے سے چند ماہ پیشتر ہی ایک دن حضرت مولانا یٰسین اختر مصباحی صاحب کی مجلس میں حاضر تھا، حضرت نے ۲۰۰۷ء کاذکر کیا اور کہا کہ ’’ آنے والے سال ۲۰۰۷ء کو انقلاب ۱۸۵۷ء کے ۱۵۰ سال مکمل ہو جائیں گے، اس کی یاد حکومتی سطح پر بھی کچھ نہ کچھ منائی جائے گی اور غیر حکومتی سطح پر بھی - اس موقع پر ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اپنے طور پر سمینار و سمپوزیم منعقد کریں، رسائل و جرائد کے خصوصی شمارے شائع کریں اور ان میں خاص طور پر ان علماء کو پیش کریں جن کا کردار انقلاب ۱۸۵۷ء میں کلیدی نوعیت کا ہے‘‘
۲۰۰۷ء کی آمد کے ساتھ ہی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کے علمی ترجمان ماہنامہ اشرفیہ شمارہ جنوری ۲۰۰۷ء کا اداریہ ’’ سال ۲۰۰۷ء انقلاب ۱۸۵۷ء کے نام‘‘ تشریف لایا جس میں مدیر محترم مولانا مبارک حسین مصباحی نے اداریے کے مرکزی نکتے پر زور دینے کے ساتھ کئی دوسرے گوشوں کو اجاگر کیا- دوسرے اردو ،ہندی اور انگریزی اخبارات و رسائل میں بھی اس موضوع پر مضامین شائع ہوئے ، مختلف زبانوں میں اس موضوع پر نئی نئی کتابیں بھی آئیں ، مئی کے مہینے میں حکومتی سطح پر مختلف ثقافتی تقریبات منعقد ہوئیں، اب سال نصف سے زائد گزر گیا اور ۱۸۵۷ء کے تعلق سے امنگیں عموماً ختم ہو گئیں ، تاہم میری معلومات کی حد تک ابھی ماہنامہ اشرفیہ مبارک پو رایک ضخیم نمبر کی تیاری میں مصروف ہے، اس کے ساتھ ہی اعلیٰ پیمانے پر ایک سمینار کے انعقاد کا بھی ارادہ رکھتا ہے، مولانا یٰسین اختر مصباحی کی کوششوں سے دہلی ، ممبئی ، لکھنؤ میں کئی پروگرام ہو چکے اور ابھی کئی تیاری کے مرحلے میں ہیں ، تنظیم ابنائے اشرفیہ شاخ دہلی اور مسلم فائونڈیشن دہلی کے اشتراک سے عنقریب ایک پروگرام جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں منعقد ہونے کو ہے- مولانا یٰسین اختر مصباحی صاحب کی اب تک تین کتابیں’’ انگریز نوازی کی حقیقت‘‘ ،’’ چند ممتاز علماے انقلاب ۱۸۵۷ء‘‘ اور ’’ علماء و قائدین جنگ آزادی ۱۸۵۷ء ‘‘ شائع ہو چکی ہیں، ’’قائدجنگ آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی‘‘ زیر اشاعت ہے، اور ان کے علاوہ ۱۸۵۷ء سے ہی متعلق کئی موضوعات حضرت مصباحی صاحب کے ذہن میں موجود اور صفحۂ قرطاس پر اترنے کے لیے بے تاب ہیں-(أطا اللہ بقاء ہ و جعلہ نفعاً وخیراً للإسلام والمسلمین)اس کے ساتھ ہی مولانا عبد المالک مصباحی کی ایک عمدہ کتاب’’ جنگ آزادی اور وطن کے جانباز‘‘ جلد ہی شائع ہو کرقبول عام حاصل کر چکی ہے- جام نور کا یہ شمارہ جو میرے محترم قاری کے پیش نظر ہے یہ بھی اسی زریں سلسلے کی ایک روشن کڑی ہے-
ان یادوں کی بہاروں کے بعد ہمارے سماجی شعور کو تین احساسات سختی سے جکڑے ہوئے ہیں، یہ احساسات مختلف شکایات ہیں جو حسب ذیل ہیں -
(۱) ۱۸۵۷ء کی یاد شایان شان نہیں منائی گئی-
(۲) مسلمانو ں کو اور خصوصاً علماء کو نظر انداز کر دیا گیا یا ان کے کردار کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے واجبی طور پر وہ مستحق تھے-
(۳) انقلاب کا مرکز ہندوستان کا مرکز رہا، جہاں جہادی جذبہ پیدا کرنے میں علمائے اہل سنت کا مرکزی کردار رہا، لیکن اردو کی معاصر تحریروں میں ان جید علماء کو شعوری طور پر نظر انداز کر دیا گیا-
ان شکایات واحساسات کے تجزیہ سے پیشتر لازم ہے کہ تاریخ کے مفہوم و مزاج کا تجزیہ کر لیا جائے، علامہ عبد الرحمن ابن خلدون اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’ مقدمہ ابن خلدون‘‘ کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں:
’’ واضح رہے کہ تاریخ ایک مقبول، نفع بخش اور مقصد خیر کا حامل فن ہے، یہ گزشتہ قوموں کے اخلاق و اطوار ، انبیاء کرام کی سیرت طیبہ اور سلاطین کی حکومتوں اور ان کی تدابیر جہاں بانی کے احوال سے واقف کراتا ہے، یہاں تک کہ تاریخ کا طالب علم اپنے دینی و دنیوی امور میں ایک بصیرت حاصل کر لیتا‘‘-(ص: ۸،، دارالکتب العلمیہ ، بیروت، ۲۰۰۲ء)
فن تاریخ کے موجد مسلم علماء نے تاریخ نگاری کو اسی مفہوم میں لیا تھا اور مذکورہ مقصد کے لیے ہی اس راہ پر خار کی آبلہ پائی کی تھی، لیکن عصر حاضر میں تاریخ نگار ی کا مفہوم یکسر بدل چکا ہے ، اب پیش گی طور پر کوئی مدعا طے کر لیا جاتا ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے چند دیمک خوردہ کتابوں کے حوالے پیش کر کے اپنے نظریے کی صداقت کا ڈھنڈورا پیٹ دیا جاتا- استشراق کے بعد تاریخ نگار ی نے ایک نئی کروٹ لی اور غایت درجہ خطرناک بنیادی مقصد کو تحقیقات کے صفحوں میں چھپا کر بظاہر نیک مقاصد کے تحت تاریخ نگاری کی جانے لگی-
تاریخ کے اس مزاج کو سامنے رکھنے کے بعد جب ہم اپنی شکایات پر دوبارہ نظر ڈالتے ہیں تو ہماری ساری شکایات بے سود اور لا حاصل معلوم ہوتی ہیں-پہلی شکایت تو اس لیے کہ انقلاب ۱۸۵۷ء کی جدو جہد کا مرکزی مقصد (دیگر تمام اسباب و مقاصد کے ساتھ) راقم السطور کی نظر میں مسلم سلطنت کو دوبارہ سہارا دینا تھا اور اس پر مسلط غیر ملکی عیسائی تسلط کا خاتمہ کرنا تھا- اس کی واضح دلیل چوٹی کے علماء کا فتویٔ جہاد دینا ہے ، اس کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے فتوی جہاد دیے جانے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہونا- ظاہر ہے جو انقلاب اس مقصد کے تحت برپا ہوا ہو اس کا بہت زیادہ چرچا موجودہ جمہوریت کے مفاد کے خلاف ہے، اس کا ذکر اسی قدر کافی ہیجس سے ’’ ہندوستانی قومیت‘‘ اجاگر ہو سکے،ملکی سطح پر کیے جانے والے انقلاب ۱۸۵۷ء کے چرچوں کا چشم بینا سے جائزہ لیا جائے تو اس مدعیٰ پر کسی دلیل کی ضرورت بالکل ہی محسوس نہ ہوگی- دوسری شکایت کی وجہ بھی ’’ ہندوستانیت‘‘ کا یہی مزاج ہے- تیسری شکایت کی وجہ بھی اردو مورخین اور قلم کاروں کی یہی’’ با مقصد تاریخ نگاری‘‘ ہے، چوں کہ ان میں بیشتر وہ افراد ہیں جن کا فکری سر رشتہ ان علماے اہل سنت سے کٹا ہوا ہے، پھر بھلا وہ تاریخ نگاری کے چکر میں ایسا کام کیوں کرنے لگے جس سے ان کے اسلاف کے فکری حریفوں کا نام روشن ہو— یہاں تک تو بات کسی قدر سمجھ میں آتی ہے لیکن اس کے بعد ان کا اہل سنت مجاہدین کی کردار کشی میں تاریخ نگاری کے نام پر مذبوحی حرکتیں کرنا نا قابل برداشت ہو جاتی ہیں-
آخر میں اپنی اس تساہلی کا برملا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ہم شکایت کے مرحلے میں اس لیے ہیں کہ جو کام ہمیں کرنا تھا وہ ہم نے نہیں کیا اور احمقانہ طور پر دوسروں سے یہ امید لگائے رہے کہ وہ ہمارا کام کر دیں گے- ہم اس رویہ کو بدل لیں تو پھر شکایت کی گنجائش ہی نہ رہ جائے گی- درج کردہ شکایات کے پہلے اور دوسرے نکات پر مسلم دانشوران کو بطور خاص سنجیدہ غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے، یہ اسلام،ریاست، عصر اور عروج و زوال کا سنگین مسئلہ ہے جس کی طرف یہاں صرف اشارہ ہی کر دینا ممکن ہے ، سو میں نے کر دیا- رہی تیسری شکایت تو اس کے ازالے کی کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے، یہ ایک خوش آئند بات ہے، تاہم اس عمل میں عموماً ’’رد عمل‘‘ کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے، اس لیے اس موضوع پر لکھنے والوں سے صرف یہی گزارش ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں معروضیت لانے اور عصری اسلوب کی پیروی کرنے کی کوشش کریں-

٭٭٭

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔