Thursday 7 September 2017

آزادی نسواں کے علم برداروں سے ایک اپیل

0 comments
آزادی نسواں کے علم برداروں سے ایک اپیل
از قلم:- ذیشان احمد مصباحی
 علمی د نیا میں آ ج مطالعہ و تحقیق کے دو طریقے رائج ہیں، ایک یہ کہ آپ اپنے طور پر جس نتیجے کو صحیح اور درست سمجھے ہوئے ہیں خواہ وہ گھر یا ماحول کی وجہ سے ہے یا معاشرہ یا تعلیم کے زیر اثر ہے، اس کو سامنے رکھ کر اسی کی صحت کے اثبات پر دماغ کا سارا زور صرف کر دیں ،اس کے موافق جتنے دلائل آئیں انہیں پورے شد و مد کے ساتھ پیش کریں اور جو خلاف دلائل آئیں انہیں رد کرنے کے لیے دماغ کو نچوڑ کر رکھ دیں۔ یہ موضوعی طرز تحقیق ہے جو آج بالعموم رائج ہے۔
تحقیق کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی مسئلے کے بارے میں جو آپ کے سابقہ خیالات یا نظریات ہیں ،انہیں فراموش کر دیں اور مسئلے کے سارے پہلو سامنے لائیں اور موافق و مخالف ساری دلیلوں پر تنقیدی نگاہ ڈالیں ،اب مثبت یا منفی جو جہت بھی قوی اور محکم نظر آتی ہے اسے بلاچون و چرا تسلیم کر لیں، اسے معروضی طرز تحقیق کہا جاتا ہے جسے بہت کم لوگ اپناتے ہیں ،یہ تحقیق کا وہ طریقہ ہے جو آزادی فکر اور آزادی رائے کی دعوت دیتا ہے۔ مگر افسوس کہ اسے وہ افراد بھی پورے طور سے نظر انداز کر جاتے ہیںجو آزادی فکر کا علم لیے گلا پھاڑ پھاڑ کر آزادی کے نعرے لگاتے پھرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آزادی کے نعرے لگانے والے یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ہر شخص کو آزاد انہ سوچنے اور کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے ۔ عورتوں پر نوازشات کی بارش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نیم عریاں ہی نہیںمکمل عریاں رہنا بھی اس کا حق ہے،کسی خارجی مصلحت کو بتا کر اسے اس کے اس شخصی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ مگر وہیں دوسری خاتون جو حجاب یا اسکارف لگانا چاہتی ہے اور شخصی طورپر اسے پسند کرتی ہے تو اسے اس کا حق نہیں دیا جاتا اور اسے روایت پسند کہہ کر اس کے گرد زندگی کی راہیں مسدود کر دی جاتی ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ آزادی فکر کے علم برداروں نے اپنے طور پر یہ طے کر لیا ہے کہ آزادی کا جو مفہوم وہ سمجھتے ہیں وہی آزادی ہے۔اس کے خلاف آزادی ہو ہی نہیں سکتی اور نہ کسی کو اس کے خلاف آزادی کی تشریح کرنے کی آزادی ہے۔ یہ آزادی کا غلامانہ تصور موضوعی طرز تحقیق کا نتیجہ ہے ۔
اگر آپ تا ریخ کے طالب علم ہیں تو محسوس کرتے ہو ں گے کہ تاریخ، ماضی کی تلاش اور کھنڈرات میں دبے حقائق کی باز یافت میں جہاں معروضی طرز تحقیق کا استعمال کرتی ہے وہیں ماضی اور حال کے معاشرے کا تقابل کرتے وقت بالعموم موضوعی انداز اختیار کر لیتی ہے، ماضی کے معاشرے میں اسے انسانی زندگی بے کیف سی لگتی ہے اور وہ اپنے پیش رووں کے طریق معاشرت پر استہزا اور اہانت پر آمادہ نظر آتی ہے ۔حالانکہ اگر معروضی انداز میں پر سکون زندگی کی تلاش کی جائے تو وہ حال کے بالمقابل ماضی میں زیادہ بہتر نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جدیدیت کے حا ملین بھی کبھی کبھی اپنے ضمیر کو بے اختیار ماضی کی طرف پلٹتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔
تاریخ کے اس موضوعی طرز عمل کو سمجھنے کے لیے صرف یہ ایک مثال کافی ہے کہ تاریخ ماضی کے ان بادشاہوں پر تو کھل کر لعنت کرتی ہے جو اپنی ہوس کی پیاس بجھانے کے لیے درجنوں باندیاں رکھتے ، ان کے رقص و سرود کی محفلیں سجاتے ،ان کو بازوئوں میں بھرتے اور پھر انہیں انعامات و کرامات سے نوازتے ، تاریخ کو یہ چیزیں صنف نازک کے اوپر شدید مظالم نظر آتی ہیں لیکن آج عورتوں کو ایر ہوسٹس، سیلز گرل اورکال گرل بنا دیا گیا ہے ،فلمو ںاور فیشن شوز میں اس کے انگ انگ کی نمائش کرائی جا رہی ہے۔ اور طوائف خانوں کو لائسینس فراہم کر کے چند سکوں کے عوض کھلونے کی طرح اسے استعمال کیا جارہا ہے ۔صنف نازک کے ساتھ وہ سلوک جوماضی میں صرف باشاہ کیا کرتا تھا آج عام و خاص ہر کوئی کر رہا ہے لیکن پھر بھی تاریخ کی نظر میں آج کی عورت ماضی سے آزاد ہے، اور اسے مکمل حقوق حاصل ہیں۔ تاریخ کی نظر میں ماضی کا ظلم آج انصاف اس لیے بن گیا ہے کہ تجزیہ کرتے وقت اس نے موضوعی طرز عمل اختیار کر لیا ہے او ریہ فرض کر لیا ہے کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ صحیح ہو رہا ہے۔
مذکورہ گفتگوکی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ تحقیق و جستجو کا معروضی طریقہ غیر جانب دارانہ طریقہ ہے، اس سے جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے کوئی ضروری نہیں کہ وہ آپ کی انا اور مزاج کے مطابق ہی ہو، بلکہ بسا اوقات آپ کی سوچ سے ٹکراتی ہوئی بات بھی سامنے آ سکتی ہے۔ اس کے بر خلاف موضوعی طریقہ تنگ نظری پیدا کرتا ہے اور صحیح نتیجے تک پہنچنے سے روکتا ہے جب کے معروضی طریقہ اعلی ظرفی اور وسعت نظری پیدا کرتا ہے۔ اس سے شی کی وہ تصویر سامنے آتی ہے جو حقیقت اور واقعیت میں ہے نہ کہ وہ جسے آپ نے پہلے سے حقیقت فرض کر رکھا ہے۔
ایک اندھے اور ایک لنگڑے سے اگر آپ یہ سوال کریں کہ انسان میں عیب کیا ہے، اندھا پن یا لنگڑا پن؟ تو اندھا لنگڑا پن کو اور لنگڑا اندھاپن کو عیب ثابت کرنے میں ایک مناظراتی مجلس گرم کر دے گا۔ چوں کہ ہر ایک نے یہ فرض کر لیا ہے کہ وہ جس عیب میں مبتلا ہے وہ عیب ہے ہی نہیں۔ اب ان کی جتنی باتیں ہوں گی اسی موضوعی فکر کے تحت ہوںگی جن کا نہ کو ئی نتیجہ سامنے آئے گا اور نہ کوئی حاصل۔
مغرب کے ہوس پر ستوں نے اپنی نفسانیت کی تکمیل کے لیے عورتوں کو ایک پر فریب نعرہ دیا ’’ مرد و عورت برابر ہیں؟‘‘بظاہریہ ایک میٹھی آواز تھی، جس پر عورتوں نے لبیک کہا اور تسلیم کر لیا۔ شاطر ظالموں نے عورتوں کو اس پر فریب نعرے سے خوش کر کے جی بھر کے اپنی ہوسناک نگاہوں سے عورتوں کے حسن کو پیا اوران کو اپنے بازوئوں میں بھر کے حیوانیت اور شہو ت پرستی کی ننگی ناچ رچائی۔ اسلام جو معروضی فکر کا حامل ہے اور کسی بھی مسئلے کے سارے پہلوئوں اور تمام کوششوں پر نظر ڈالنے کے بعد ہی کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے، اس نے مغرب کے اس رویے کے خلاف صدائے احتجاج بلندکی اور یہ بتایا کہ عورت اتنی ارزاں نہیں جسے ہر کوئی کھلونا بنا لے، اس کے حسن کا سودا، ناز و ادا، آواز و انداز کی بازی اور اس کی عزت وعصمت کا کاروبار اس کا اعزاز نہیں، اس کی کھلی توہین ہے۔ ہوٹلوں اور ریستو رانوں،پارکوں، تماشہ گاہوں اور کارو بار کے فروغ کے لیے فیشن شو کے نام پر ان کی بلیک میلینگ ان کے ساتھ ہمدرد ی نہیں ظلم ہے، ایسا ظلم جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔
مغرب کے تنگ نظر اور موضوعی فکر کے حاملین نے اسلام کی اس آواز کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور وہ لیتے بھی کیسے جب کہ یہ آواز ان کی شہوت پرستی اور ہوس ناکی کی راہ میں شدید رکاوٹ پیدا کر رہی تھی، اسلام نے نان و نفقہ اور عدل و انصاف کے شرائط کے ساتھ انسان کو چار شادیاں تک کی اجازت دی ہے۔ لیکن ان کی طبیعت کل جدید لذیذ اور’’ ہر لحظہ از دیگر جام‘‘ کی طالب تھی، وہ چند سکوں پر ہر نئی رات حسن و جمال کی کسی نئی دیوی کے ساتھ گزارنے اورا پنی شہوت کی آگ کو اور ہوا دینے کے خواہاں تھے۔ اس لیے انہوں نے اسلام کے فارمولے کو رد کر دیا، اور اس کی تجویز کو بنیاد پرستی کے طعنے کے ساتھ عورتوں کو محصور اور مقید کرنے کا الزام دیتے ہوئے اپنے قوی ذرائع ابلاغ سے خوب خوب پیش کیا اور بمصداق’’ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ ہو جائے ‘‘ان کی باتیں اکثر مردوں اور عورتوں کی سمجھ میں آ گئیں۔
’’مساوات‘‘ کے اس نعرے کے پیچھے اہل مغرب کے اندر عورتوں کے ساتھ کتنی ہمدردی تھی، اس کے پیچھے ان کے کیا مقاصد تھے،اس سے قطع نظر کیا واقعی مرد و عورت کے بیچ فطرت نے مکمل مساوات پیدا کی ہے؟ نیز مساوات کے دعوایداروں نے کیا واقعی عورت کو مساوات کا درجہ دے دیا ہے اور ان کی عورتیں ان کی برابر ہو گئی ہیں؟ ان دو نوں سوالات پر آج کے ہر با شعور مرد و عورت کو غور کرنا چاہیے۔ بطور خاص عورتوں کو مکمل آزادی کے ساتھ معروضی انداز میں غور کرنا چاہیے کہ مغرب کی آواز میں ان کے لیے ہم دردی ہے یا فریب؟ لیکن اس سے پہلے اپنے ظرف کو انہیں اتنا وسیع کر لینا ہوگا کہ اگر بعض باتیں فی الواقع ان کی موجودہ سوچ کے خلاف بھی سامنے آئیں تو وہ بسر و چشم قبول کر لیں۔ جب ہی وہ صحیح نتیجے تک پہنچ سکتی ہیں، موضوعی فکر اور تنگ نظر سوچ کسی کو بھی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچا سکتی۔
مرد و عورت کے بیچ ظاہری ساخت و ہیٔت اور جسمانی طاقت و قوت میں فرق اس قدر نمایاں ہے جس کا کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا، شاید پاگلوں کو بھی نہیں ۔ہاں !ذہنی اور فکری سطح پر دونوں کا مختلف ہونا اور مرد کا عورت کی بہ نسبت فائق و بر تر ہونا بظاہر واضح نہیں ہے۔ اور اس کو سمجھنے میں اکثر لوگوں کو دھوکہ ہو جاتا ہے۔ اسلام اس سطح پر بھی تفریق کا قائل ہے، اس نے مرد کو فکر و تدبر میں عورت سے برتر بتایا ہے۔ اسے مساوات کے علم بر دار خوب اچھالتے ہیں اور اسلام کے خلاف عورتوں کو بھڑکانے کے لیے اسے ایک زبردست ہتھکنڈا کے طورپر استعمال کرتے ہیں ۔اور چوں کہ اکثر انسان موضوعی فکر کے حامل ہیں جس کے سبب اپنے خلاف بات خواہ کتنی بھی سچی کیوں نہ ہو، اسے مسترد کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں،اس لیے عورتیں عموماً مساوات کے علم برداروں کے جھانسے میں آ جاتی ہیں۔ اور اسلام کی سچی بات انہیں کڑوی لگتی ہے اور اسے وہ اپنے خلاف ظلم تصور کرنے لگتی ہیں۔ لیکن اگر معروضی انداز میں غور کریں تو وہ خود بھی اسی نتیجے پر پہنچے گی جو اسلام کہہ رہا ہے، اور تاریخ کی بعض خواتین کی حیرت انگیز ذہانت، غیر معمولی تدبر اور بے پناہ قوت فکر ونظر اور حکومت و سلطنت کی صلاحیت سے جو انہیں دھوکہ ہوتا ہے اس کی حقیقت ان پر واضح ہو جائے گی۔ اور انہیں اس بات کا یقین ہو جائے گا کہ ایسے واقعات جزوی اور استثنائی ہیں اور اسلام کی بات ایک عمومی ہے۔ ورنہ کم از کم آج ان ممالک میں جہاں مساوات کے علم برداروں کے مطابق عورت مکمل آزاد ہے اور مرد کے شانہ بشانہ عروج و ارتقا کے سفر میں گامزن ہے، عظیم عہدوں پر عورتیں ضرور ہوتیں، لیکن افسوس کہ بڑے عہدوں پر عورتوں کا تناسب چند فیصد بھی مشکل سے ملے گا۔ دور مت جائیے تہذیب مغرب کے سب سے بڑے ٹھیکیدار امریکہ کا ہی جائزہ لیجیے جہاں خد مت کے لیے ہر جگہ تقریباً سو فی صد عورتوں کا ہی تناسب ہے مگر آج تک کوئی خوش نصیب امریکہ کی صدر نہیں بن سکی۔ اگر خواتین مجھے میری تلخ نوائی سے معاف رکھیں تو ان کے سامنے یہ رپورٹ بھی پیش کر دوں جسے سنڈے ٹائمز لندن کے حوالے سے ٹائمس آف انڈیا نے اپنی ۷؍فروری ۲۰۰۵ کی اشاعت میں پہلے صفحے پر شائع کیا ہے:
Men's brain cells transmit impulses 4 times faster than women's.
مردوں کے ذہن کے خلیے عورتوں کی بہ نسبت چار درجے تیز  حرکت کرتے ہیں…سائنس دانوں نے یہ تحقیقی رپورٹ ہارورڈ یونیورسٹی کے پریسیڈینٹ لاری سمرس کی زیر نگرانی تیار کی ہے۔مردوں کی ذہانت کی تیزی کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے:
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کے اعصاب پر موٹے پردے ہوتے ہیں۔ اور اس میں چکنا ہٹ اور چربی ہوتی ہے جو اعصاب کی حفاظت کرتے اور اس کے نظم و نسق کو بہتر بناتے ہیں۔‘‘
مرد و عورت کے بیچ اس فطری تفریق کے بعد آزادی و مساوات کے علم برداروں کو اس پہلو پر غور کرنا چاہیے کہ فطر ت نے دونوں صنف کو ایک دوسرے سے مختلف کیوں بنایا ہے؟ پھر یہ نقطہ بھی توجہ کا طالب ہے کہ جب دونوں فطرتاً مختلف ہیں تو پھر دونوں کی ذمہ داری بھی مختلف ہونی چاہیے۔ جو کام پتھر سے لیا جاتا ہے و موم سے نہیں لیا جا سکتا۔شوہر اگر دن بھر پیٹھ پر چاول کی بوریے ڈھو رہا ہے تو مساوات کا نعرہ لگاکر بیوی کی پشت پر آٹے کی بوری نہیں لادی جا سکتی ۔
رہا یہ سوال کہ کیا مساوات کے دعویدار وں نے عورت کو مساوات کا درجہ دے دیا ہے؟ تو اس کے لیے ابھی حالیہ دنوں پوپ جان پال کے انتقال کے بعد دوسرے پوپ کے انتخاب کے واقعے کو اگر سامنے رکھیں تو بڑی حد تک ان کے نعرۂ مساوات کا کھوکھلا پن ظاہر ہوجائے گا۔ دنیا کو حیرت ہوئی کہ جہاں پوپ منتخب ہونے کے لیے درجنوں مرد صف بستہ تھے وہاں ایک عورت کو بھی جگہ نہیں دی گئی۔ مساوات کے نعرے لگانے والوں کا عورتوں کے ساتھ یہ غیر مساوی سلوک خودان کے اصول  مساوات کے پیش نظرکس قدر ظالمانہ ہے؟امریکہ کے منصب صدارت کے تعلق سے جوبات گزری،بڑی حد تک اس سے بھی نعرۂ مساوات کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ مزید وہاں عورتوں پر مردوں کی الطاف و عنایات کی یہ روداد بھی پڑھ لیجیے کہ وہاں سن بلوغ سے پہلے سے ہی ہر بچے کو اپنے معاملات میں مکمل آزادہونے اور بوائے فرینڈ یاگرل فرینڈ کے شریک زندگی ہونے کے باوجود ہر۴۶ سیکنڈ پر ایک زنا بالجبر کا واقعہ پیش آتا ہے۔ اس مسئلے کو ٹائمس آف انڈیا اشاعت ۱؍مئی ۲۰۰۵ء کی اس رپورٹ سے بھی سمجھا جا سکتا ہے جسے اس نے ایک فلمی اداکارہ کے حوالے سے شائع کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے:
This is a male-dominated industry.
فلمی دنیا مردوں کے زیر اثر ہے …یہ برتری اس طور پر ہے کہ فلم میں ایک عورت مردوں کی توجہ فلم کی طرف مبذول کرانے کے لیے اپنی ہر طرح نمائش کراتی ہے ،بسااوقات سر راہ اپنی چادر عصمت کے تار تار ہونے کا شرمناک منظر بھی اسے پیش کرنا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود فلم میں اس کی حیثیت ثانوی ہو تی ہے۔اسے ہیرو کی بہ نسبت پیسے بھی کم ملتے ہیں ۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ جس میدان میں عورت کو سب سے زیادہ آزاد سمجھا جاتا ہے وہاں بھی اس کی حیثیت اب تک ثانوی ہی ہے۔ اب ایسے میں بھلا یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ مساوات اور آزادی نسواں کے علم بر داروں نے عورتوں کو مکمل مساوات کا درجہ دے دیا ہے؟ کیا صرف اس وجہ سے کہ کاروبارکو فروغ دینے اور خریداروں کو اپنے پروڈکٹس کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہر دروازے او رہر کاؤنٹر پر انہوں نے نازک اندام حسینائوں کو نصف عریاں کر کے کھڑا کر دیا ہے؟
میر ے خیال میں قبل اس کے کہ حال ماضی بنے اور مستقبل کا تاریخ نگارہمارے بے مہار رویوں اور غیر متوازن فکر و عمل پر لعنت و نفریں بھیجے ہمیں آج ہی اپنے حال کا محاسبہ کر لینا چاہیے۔ آزادی کے مغربی نعرے باز جن کی تنقید کا نشانہ صرف قدامت پسندی اور روایت پرستی ہوتی ہے انہیں اپنی جدیدیت اور روشن خیالی کا بھی کھلے ذہن کے ساتھ معروضی جائزہ لینا چاہیے۔ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ان کی روایت مستقبل میں تنقید واحتساب کی میز پر رکھی جائے تو اس میں روشن دماغی کی بجائے ہوس پرستی اور زراندوزی جیسے امراض ہی نظر آئیں اور انسانیت پر حیوانیت کا مکمل تغلب دکھائی دے۔    
 ٭٭٭

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔