Wednesday 25 April 2018

کودرا (شیعہ سنی مفاہمہ پر ایک تقلیب انگیز روداد)

1 comments
            نام کتاب: کودرا (شیعہ سنی مفاہمہ پر ایک تقلیب انگیز روداد)
مصنف: راشد شاز (علی گڑھ )
صفحات: ۲۳۹
قیمت: ۳۰۰ روپئے
ناشر: ملی پبلی کیشنز، ابوالفضل، نئی دہلی۔۲۵
تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی 



راشد شاز کی ’’کودرا‘‘ نے زمانے کے بعد تبصرہ نگاری سےتوبہ کو توڑ دیا ۔ تجسس ، تحیر، حسرت ، مسرت، غضب، جھلاہٹ ، رشک، اشک، آہ اور اضطراب جیسی مختلف کیفیات سے گزرتا ہوا اس کے مطالعے سے فارغ ہوا ۔ کودراسفرنامے کے روپ میں ایک افسانوی بیانیہ ہے، جس کا مرکزی کردار ’’علی کودرا‘‘ ہے۔ علی کودراایک حنفی نقش بندی مسلمان ہے، جو سعودی کی جامعۃ المدینہ اور ایران کےحوزۂ علمیہ سے فراغت کے بعد اپنے اندرون میں دومستقل وجود؛ شیعہ اور وہابی میں منقسم ہوگیا ہے۔ وہ بوسنیا کے صدر اول داعی اتحاد اسلامی علی جاہ عزت بیگووِچ کے زیر سایہ متحدہ اسلام کے لیے جدو جہد میں ناکام ہوچکا ہے اور مسلم اتحاد سے مایوس ایک قلندرانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ علی کودرا کے علاوہ سلیمان علوی ، شیخ حسن فولادی اور شیخ حذیفی، پروفیسر وولف، ڈاکٹر پیا، المینہ، عبد الحمیداور باسم بھی اس سفری-افسانوی بیانیہ کے اہم کردار ہیں، جو شیعہ ، سنی مناظرہ ومفاہمہ کی میز پر مختلف رنگ وآہنگ کے ساتھ براجمان ہیں ۔ یہ میز گیارہ روزہ سفر کے مختلف لمحات میں پارسی فال کے اساطیری قلعہ بورل کے سمینار ہال، لائبریری، کافی سینٹر، پائیں باغ اور بالاخانوں پر سجائی جاتی ہے۔علی کودرا اور سلیما ن علوی کے ذریعے مصنف کو بہت سے نئے حقائق ودقائق کا انکشاف ہوتاہے، یا یوں کہیے کہ مصنف اپنے زیادہ گہرے خیالات کےلیے علی کودرااور سلیمان علوی کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ 
کودرا کی ٹریجڈی مسلم امہ کے خلفشار وانتشار اور پوری تاریخ میں باہمی نفرت وعداوت اور قتل وغارت کا مرثیہ ہے۔ اس سے جڑا ہوا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلمان مختلف تاریخی بیانیوں اور مقدس گروہی تعبیرات کے سبب اصلِ دین سے بہت دور آپڑے ہیں، اتنا دور کہ اب وہ اپنی اصل کی طرف پلٹنے کی سوچ بھی نہیں سکتے ۔ شاز صاحب کے نزدیک اس ٹریجڈی کا حل بہت سادہ ہے اور وہ یہ کہ پوری امت قرآن کو اپنا واحد منشور تسلیم کرلے اور حدیث، فقہ، تفسیر ، تاریخ یہاں تک کہ قراءات کے نام پر جو لائبریریاں بھری پڑی ہیں، ان سب کو نذرِ آتش کردیا جائے ؛ کیوں کہ اختلاف وفساد کی ساری جڑیں انھیں قراءات ، تفسیرات، احادیث وآثار اور تواریخ وتعبیرات میں پیوست ہیں۔ 
راشد شاز نے پوری امت کو جس طرح شک کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے ، موصوف کا یہ عمل میرے لیے اس بات کا جواز فراہم کرنے کے لیے کافی ہے کہ میں بھی انھیں اسی کٹہرے میں لاکھڑا کروں ، لیکن میں ان کے خلوص ، درد اور کرب پر شک کی لکیر کھینچنا مناسب نہیں سمجھتا ۔ مجھے اس اعتراف میں بھی باک نہیں کہ ان کا یہ آسان حل کانوں کو انتہائی خوش کن معلوم ہوتاہے، مگر غور کرنے پر یہ عقدہ کھلتا ہے کہ موصوف کا یہ حل ایسے ہی ہے جیسے کوئی ٹریفک آفسر ایکسیڈنٹ کے بڑھتے حادثات کو دیکھتے ہوئے سڑکوں سے تمام گاڑیوں کو اٹھوالیے جانے کی تجویز منظور کرلے، یا سپریم کورٹ کا جج وکیلوں کے استدلالات ومعارضات سے تنگ آکر قانون کی تمام کتابوں اور عدالت کے تمام سابقہ فیصلوں کو یک لخت کالعدم قرار دیتے ہوئے صرف دستورِ ہند پڑھنے،پڑھانےاور اسی کی روشنی میں مقدمات لڑنے اور فیصل کرنے کا فرمان جاری کردے۔ 
در اصل راشد شاز نے جو ٹریجڈی پیش کی ہے اور جس پر گذشتہ دو تین عشروں سے وہ کام کررہے ہیں ، وہ کچھ ہے بھی ایسی درد انگیز اور اعصاب شکن کہ جس کا گہرا مطالعہ صرف جناب راشد شاز کو ہی نہیں ، کسی بھی مرد مومن کو، بلکہ کسی بھی دردمند انسان کو معصومیت اور بغاوت پر آمادہ کردے ۔اگرچہ اس ٹریجڈی کا کوئی اثر ان مقدس شخصیات پر نہیں پڑتا جو اسلام کی آفاقی سرفرازی کی جگہ مقامی اور گروہی، بلکہ شخصی تحفظات اور فیروزمندیوں کے لیے جینے والے ہیں۔لیکن اس کے باوجود جناب راشد شاز کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ تمام آثاروروایات کو رد کرکے قرآن کے راست فہم کی کوشش اصلِ اسلام تک پہنچانے کے بجائے، زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ ہمیں ایک نئے اسلام تک پہنچادے۔ در اصل قرآن کے فہم کو اجماع کے پابندکرنےاور غیر اجماعی صورتوں میں اختلافات کو گوارا کرنے کے لیےمسلم ذہن کو آمادہ کرنے کے بجائے، اگر اجماع کو توڑنے اور اختلافات کو مٹادینے کی سرتوڑ کوشش کی جائے تو ہمارا سر تو ٹوٹ جائےگا ، لیکن یہ کوشش اپنے تمام تر جوش و خروش اور اخلاص وللہیت کے باوصف بارآور نہیں ہوسکتی۔ ایسی کوششیں امت کے اختلافات کو مٹانے سے رہیں ، ہاں ان سے بعض نئے اختلافات ضرور جنم لیں گے اور پرانے اختلافات میں مزید شدت وغلظت ضرور پیدا ہوجائے گی۔
محترم راشد شاز چودہ سو سالہ مسلم اکادمیہ سے پیدا علمی اور فکری التباسات کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں، لیکن مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ کودرا کے مطالعے سے منکشف ہوا کہ آں موصوف بہ نفسِ نفیس التباسات کے ایسے گھنے جنگل اور وسیع سمندر میں پھنس چکے ہیں کہ اب ان پر آبادی وصحرا اور سمندراور کنارہ کے امتیازات موہوم سے ہو کر رہ گئے ہیں۔ آخری صفحات میں موصوف نصیریوں ، قادیانیوں اور بہائیوں کو بھی دائرۂ اسلام میں داخل کرنے کی مبہم سی وکالت کر گئے ہیں، جو بالترتیب الوہیتِ علی، انکارِ ختمِ نبوت اور تسلسلِ وحی کے قائل ہیں۔ اس سےزیادہ حیرت اس پر ہے کہ شاز صاحب کے پاس اسلام میں ان فرقوں کی شمولیت کے لیے کوئی علمی بنیاد اور اصولی ضابطہ نہیں ہے، سوائے اس کےکہ تکفیر؛ قتل وتفریق کو جنم دیتی ہےاور یہ لوگ خود کو مسلمان کہلانا پسند کرتے ہیں۔ گویا شاز صاحب ایسی انفعالیت میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ اب انھیں کسی بھی ایسے ضابطے پر ایمان نہ رہا ، جو کفر واسلام کے بیچ کوئی لکیر کھینچتی ہو۔ 
میرے نزدیک رفعِ نزاع اور قیامِ امن کے نام پر مسلمانوں کو اپنے گراں قدر علمی تراث سے دست برداری کی دعوت دینا خالص جہالت اور علم دشمنی کی دعوت ہے یا اپنے واحد بیانیہ کو حتمی بیانیہ تسلیم کرانے کا ایک نفسیاتی ہلوسہ ہے ۔ میں راشد صاحب کی اس فکر سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ کتاب اللہ کے علاوہ کسی کتاب کو بھی تقدیس کا حامل نہ سمجھا جائے ، نہ کسی کو تحقیق و تنقید اور بحث و تمحیص سے ماورا خیال کیا جائے ، لیکن یہ بات ہمارے فہم سے بالاتر ہے کہ کتاب اللہ کے علاوہ ساری کتابیں دریا برد کردی جائیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہی حل درست ہے تو پھر ’’کودرا‘‘ ہی کیوں لکھی اور پڑھی جائے۔ایسی صورت میں مناسب تو یہ ہے کہ صرف قرآن کے نسخے بانٹے جائیں، وہ بھی صرف عربی نسخے کہ ترجمے میں بھی تو اختلافات ہیں، اور پوری امت کو عربی پڑھائی جائے، تاکہ سب قرآن سمجھ لیں اور بغیر کسی وسیلے کے اپنے تمام مسائل کا حل راست طور سے قرآن سے نکالیں ۔ 
تکفیریت کے جس عفریت نےآج بھیانک تباہی مچا رکھی ہے، جواب تک لاکھوں لاکھ فرزندان توحید کو لقمۂ اجل بناچکا ہے،عالم اسلام کو تقسیم در تقسیم اور تضعیف در تضعیف سے دوچار کردیا ہے اور امت مسلمہ کوزخموں سے چور ایک جسد بے روح بنا رکھا ہے، میر ے نزدیک اسے دوبارہ بوتل میں بند کرنے کا معقول طریقہ وہی ہے ، جسے متکلمین نے صدیوں پیش تر پیش کیا ہے۔ وہ یہ کہ جو بھی ضروریاتِ دین کا قائل ہو ، وہ مسلم ہے اور جوان میں سے کسی کا انکار کرے ، وہ غیر مسلم ۔ فقہی کتابوں میں کفریات کی جو لسٹ تیار کی گئی ، ان پر تکفیر کا کاروبار بند کیا جائے ، جیسا کہ علامہ ابن ہمام او ر دیگر محقق فقہا نے اس کا اظہار کیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی بتائی جائے کہ غیر مسلم کے معنی واجب القتل کے نہیں ہیں ، بلکہ مذہبی آزادی اور اکرامِ انسانیت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ 
رہا یہ مسئلہ کہ ضروریاتِ دین کیا ہیں؟ تو ا س کی تفصیل وتوضیح بھی کی جائے اور حسبِ ضرورت تنقیحِ مزید سے بھی گریز نہ کیا جائے ۔ ماہرینِ علمِ کلام نے کتبِ کلامیہ میں اس پر مفصل بحث کی ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امت جن امور پر متفق ہے اور جو صراحت ووضاحت کے ساتھ نصِ قطعی سے ثابت ہیں ، صرف وہی ضروریاتِ دین کا حصہ ہیں ، جن پر اسلام کی بنا ہے۔ ان امور کے علاوہ جتنے مسائل ہیں، ان میں علمی استدلالات وتحقیقات سے امت کی ایک متفقہ رائے بنانے کی کوشش کی جائے ۔ اس راہ میں جہا ں تک کامیابی ملے، فبہا، ورنہ پھر ان اختلافات کو گوارا کیا جائے ۔ فروعی اختلافات میں باہمی نزاع اورنفرت انگیزی کی جو فضا قائم ہے، اسے ختم کیا جائے اور اختلافات کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھا اور سکھایا جائے ۔ ہمارے نزدیک یہ قابلِ عمل اور ممکن العمل راہ ہے ۔ شاز صاحب کے لیے کوئی ضروری نہیں کہ وہ مجھ سے اتفاق کریں ، جس طرح یہ ضروری نہیں کہ اسلاف کے فہم قرآن کے برخلاف ان کا فہمِ قرآن عینِ قرآن ہو ۔ ان کا یہ اصرار درست ہے کہ اسلاف کا فہمِ قرآن، عین قرآن نہیںہے، لیکن اسی طرح یہ بات بھی تو درست ہے کہ جب وہ راست طور سے قرآن کی طرف آئیں گے تو ان سے قرآن براہِ راست بات نہیں کرےگا ، یہ ان کا فہم ہی ہوگا ، جو ان کے اور قرآ ن کے بیچ وسیلہ بنے گا۔ 
آخری صفحات میں سنی شیعہ مناقشوں کے درمیان اس بات کی وضاحت خاصی دل چسپ ہے کہ دونوں کے مواقف کے لیے خاصا مواد فریق مخالف کی کتابوں میں موجود ہیں، اسی طرح ان کی بیشتر وہ روایات جو فریقین کو ایک دوسرے کےخلاف انتہائی حد تک مشتعل و متنفر کرتی ہیں، انتہائی حد تک ضعیف ومنکرہیں۔سرمایہ دارانہ نظام، جدید سائنسی تباہی، غیر انسانی رجحانات کے فروغ اور ان کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے بھی ضمنی طور پر بہت ہی مفید معلومات اورصالح جذبات کتاب میں موجود ہیں۔
کتاب کے زبان و اسلوب، ترتیب و پیشکش اور ربط و تاثر کے حق میں اتنا کہنا کافی ہے کہ ان کے پیچھے راشد شاز کا تخلیقی ذہن کارفرما ہے۔



1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔