Saturday 25 March 2017

مغرب پر اسلامی خوف ووحشت کے منڈلاتے بادل

0 comments
مغرب پر اسلامی خوف ووحشت کے منڈلاتے بادل
تحریر: ڈاکٹر عبدالرحیم ہلالی ۔۔۔۔ ترجمہ: محمد شاہد رضا نجمیؔ
  -----------------------------------------------------------------------------------------------------------
  زیر نظر مضمون جامعۃ الازہر، مصر کے علمی وفکری ترجمان ماہنامہ ’’الازہر‘‘(مئی ؍۲۰۱۶ء)سے ماخوذ ہے۔
مضمون نگار ڈاکٹر عبدالرحیم سعد الدین ہلالی ’’الکلیۃ الشرعیۃ، جامعۃ الازہر‘‘ کے استاذ ہیں۔
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------
    آخر وہ کون سی چیز ہے جو مغرب کو اسلام سے خوف زدہ کیے ہوئے ہے؟ ذہن کے کینوس پر ابھر نے والا یہ ایک منطقی سوال ہے کہ آیا مغربی حکومتوںنے اسلامی اقدار کے نظام کا معروضی مطالعہ کرلیا ہے اور یہ ان کے نزدیک واضح ہوگیا ہے کہ مغربی تہذیب کے لیے اسلامی نظام ایک خطرہ ثابت ہورہا ہے؟ انسانیت کی خیر خواہی اور فلاح وبہبود کی خاطر ہم مغرب کی ساری حکومتوںکو اس بات کی دعوت دیتے ہیںکہ وہ اسلامی اقدار کا مطالعہ کریں، تاکہ اسلامی اور غیر اسلامی حکومتوں کے مابین ثقافتی سلسلے برقرار رہ سکیں، نیز  باہمی بد گمانی اور غلط احساسات سے احتراز ممکن ہوسکے۔ 
    اس تعلق سے اسلام اور یورپ کے عنوان پر سویڈن میںمنعقد حالیہ کانفرنس میں مغربی اتحاد کے مبصر کا تبصرہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔ جس میںانھوں نے یورپ کو تین بڑی خطائوں کے ارتکاب سے بچنے کا مشورہ دیا ہے۔  
    پہلی خطا:-اسلامی اقدار وروایات کی پابندی کو انتہا پسندی سے جوڑ نا۔اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات واتہامات کے پیچھے یہی سبب کار فرما ہے۔ جب کہ اس طرح کے الزامات واتہامات کو جنم دینے والے کردار واعمال ایسی محدود جماعت اور افراد کے عکاس ہیں جو نہ اسلام کے قائد ورہنما ہیں اور نہ ان میںکوئی اسلامی شناخت پائی جاتی ہے۔
    دوسری خطا:-اسلامی حکومتوں پر مغربی روایات کا جبری نفاذ، حالاں کہ اسلامی حکومتوں کا خود اپنا عمدہ، قابلِ احترام اور مستقل نظام وروایت ہے۔
    تیسری خطا:- یورپ کے تیس ملین مسلمان باشندگان پر یہ الزام لگانا کہ وہ یورپین نہیںہیں۔ جب کہ در حقیقت خود یورپین ہی اسلامی تعلیمات کو بلا پس وپیش قبول کررہے ہیں۔  اسی سیاق میں سویڈن کے سفیر ’’انجمار کارلسون‘‘ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلم عناصر سے ملے بغیر یورپی اتحاد کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے مزید یہ بھی کہا کہ اگر ہم یہ مان لیںکہ اسلام اور مغرب کے درمیان موجودہ خلا کی بھرپائی ممکن نہیں ہے، توہم یورپین مسلم نسلوں کو ساتھ لے کر چلنے میںناکام ہوجائیں گے جن کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی جارہی ہے۔
    آنے والی سطروں میںہم اسلام کی بعض تہذیبی روایات کا ذکر کرتے ہیں جو مسلمانوں کے لیے باعثِ فخر اور غیر مسلموں کی جانب سے احترام کی مستحق ہیں؛ کیوںکہ وہ روایات ساری انسانیت کے درمیان امن وسکون عام کرنے والی ہیں۔ 
    اسلام میں عورت کا مقام:-
 بلاشبہ اسلام عورت کو مرد کے برابر درجہ دیتا ہے؛ کیوں کہ انسانی رشتے کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں۔ مرد وعورت دونوں کو شادی کا حق اور ہر ایک کو دوسرے کی جانب سے متساوی حقوق حاصل ہیں۔ مرد وعورت کے مابین اقتصادی وضع میںفرق غالبا اس وجہ سے ہے کہ عورت کے فرائض وحقوق مرد کی بہ نسبت بہت کم ہیں۔ قرآن کریم نے اس کی جانب اشارہ فرمایا ہے کہ مرد پر عورت کی کفالت واجب ہے اور کفالت کا وجوب مرد وعورت کے طبعی اختلا ف کی وجہ سے ہے۔چناں چہ ارشادِربانی ہے:   اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآء ِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوٰلِہِمْ  فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ۔(النساء:۳۴ )مرد عورتوں کے مربی ونگراں ہیں؛ اس لیے کہ اللہ رب العزت نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے بھی کہ مردوں نے ان پر اپنے اموال خرچ کیے ،تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں، خاوند کی عدم موجودگی میں گھر کا تحفظ کرتی ہیں، جس طرح اللہ نے تحفظ کا حکم دیا ۔
    مذہب حنفی کے مطابق عورت کو بذات ِخود نکاح کا حق حاصل ہے، اسی طرح وہ زوجیت کے عمل میںمکمل شریک ہے۔یوں ہی شوہر سے اختلاف کی صورت میں اسے مال دے کر فسخِ نکاح کا بھی حق رکھتی ہے۔ فسخ نکاح کی یہ صورت’’ خلع‘‘ کہلاتی ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت زیادہ اہم ہے کہ علاحدگی کے خواہاں مرد وعورت کے لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ روا نہیںکہ وہ ایک دوسرے کے تعلق سے کوئی برا رویہ اختیار کریں، بلکہ ان پر واجب ہے کہ سابقہ رشتے کا لحاظ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی سے پیش آئیں۔ یہی حکم دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجعت کرنے والے مرد کے لیے بھی ہے کہ وہ عورت سے سختی اور شدت کے ساتھ معاملہ نہ کرے، نہ ہی حقوق سے دست برداری کے لیے اس پر دبائو ڈالے۔ بلکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ وہ برتاؤکریں،جس سے شرافت و کرامت اور باہمی احترام ومحبت کی عکاسی ہوتی ہو۔ اللہ رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:  ’’وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء َ- فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ- فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ -سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ۔‘‘ یہی وہ بلند اور با عظمت طریقہ ہے جسے دین اسلام عورت سے مرد کے معاملات میںاپنانے کا حکم دیتا ہے، یہاں تک کہ شدید اختلافات کی جگہوں میںبھی اسی طرح کردار پیش کرنے کا حکم دیتا ہے۔البتہ مرد وعورت کے درمیان جواحکام میں تفاوت نظر آتے ہیں وہ دونوں کے فرائض وحقوق مختلف ہونے کی وجہ سے ہیں۔
    اسلام میں آزادی کا تصور:-
 اسلامی میںآزادی کا مکمل احترام ہے، جب کہ اس سے انسانی اقدار کی پامالی لازم نہ آئے۔
    (آزادی کی مختلف مختلف نوعیں ہیں:)
    اعتقادی آزادی:سب سے پہلی آزادی اعتقادی آزادی ہے۔ قرآن کریم نے ’’لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ  قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ۔(البقرۃ: ۲۵۶)‘‘ فرما کر اسے تحفظ فراہم کردیا ہے۔ اسلام ہی وہ پہلا مذہب ہے جس نے انسانیت کو اعتقادی آزادی کا تصور دیا اور دوسرے مذاہب کے متبعین کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے کا درس بھی۔ خلیفہ راشد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ضعیف وناتواں اور ترش مزاج یہودی کے ساتھ رفق ونرمی فرمایا کرتے تھے؛ کیوں کہ وہ کسب ِمعاش پر قادر نہیںتھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ناپسند کیا کہ آدمی بوڑھا ہونے کے بعد بھی تکلیف ومشقت برداشت کرے۔ آپ نے اس کے لیے بیت المال سے وظیفہ جاری فرمادیا۔
     بلاشبہ دین اسلام دلوں میںرقت ونرمی کے پودے اگاتا ہے اور دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کا حکم دیتا ہے، جب تک وہ خوش دلی اور امن وسلامتی کے ساتھ رہیں۔ اسی حوالے سے اللہ رب العزت کا یہ ارشاد ہے: ’’ لَا یَنْہٰیکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقٰتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیٰرِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَ تُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ  اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۔(الممتحنۃ:۸)‘‘ جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالااللہ رب العزت ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف برتنے سے منع نہیں فرماتا ہے۔ بیشک انصاف والے اللہ کو محبوب ہیں ۔
    علمی آزادی:-
اسلام نے علمی آزادی کی وہ وسیع فضا قائم کی ہے جس کے مطابق ایک مجتہد ومحقق خاطی ہونے کی صورت میں بھی ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔
    سیاسی آزادی:-
 سیاسی آزادی کی ضمانت اس طرح دی گئی ہے کہ عامۃالناس اپنے معاملات میں حاکم سے رجوع کرسکتے ہیں، بشرطے کہ مقصود امت کی بھلائی ہو۔ اسلام میںشورائی نظام سیاسی آزادی کی اساس ہے، جس کی بنا پر لوگوں کو اپنا حاکم منتخب کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ جب لوگ کسی شخص کو اپنا حاکم منتخب کرلیں اور وہ اللہ رب العزت کی اطاعت وفرماں برداری کو لازم پکڑلے تو لوگوںپر اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔
    حاکم مصالح شخصی کی تحصیل کے لیے اپنے اثر ورسوخ کا استعمال نہیںکرسکتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی نے اس پر روشن دلیلوں سے حجت قائم فرمادی ہے۔ اسلامی تاریخ سے واقف سبھی لوگ جانتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی۔ اس سے محض یہی نتیجہ نہیں نکلتا کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وصالِ ظاہری کے وقت کسی دنیوی مال ومتاع کے مالک نہ تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم چیز یہ ہے کہ آپ نے وہ سیاسی نظام قائم فرمایا جس میں غیر مسلم بھی آزادی کی سانسیں لے رہا ہے۔ چناں چہ کوئی یہودی رہن رکھے بغیر اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بھی قرض نہیں دے سکتا، اسے سلطانِ وقت سے خوف کھانے کی ضرورت نہیںہے۔
     کیاانسانی روایات میںاللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس فعل سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ کردار موجود ہے جس کا مظاہرہ آپ نے خطبہ وداع سے قبل فرمایا تھا۔ لوگوں سے ارشاد فرمایا:’’فَمَنْ کُنْتُ جَلَدْتُ لَہ ظَھْرًا فَھٰذَا ظَھْرِیْ فَلْیَسْتَقِدْ مِنْہ، وَمَنْ کُنْتُ شَتَمْتُ لَہ عِرْضًا فَھٰذَا عِرْضِیْ فَلْیَسْتَقِدْ مِنْہ۔‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی:باب من اسمہ ابراھیم)اگر میںنے کسی کو کوڑے لگائے ہیں تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے وہ اپنا بدلہ لے لے اور اگرمیری ذات سے کسی کی حرمت وتوقیر پامال ہوئی ہو تو وہ بھی اپنا بدلہ لے لے۔ بلاشبہ آپ کی ذات وہ نورانی ذات ہے جو احساسات کو نرم کردیتی ہے، انسان اپنا نفس گناہوںسے پاک وصاف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ اپنے رب سے ملاقات کے وقت اس کے عفو وکرم کا امید وار ہوجاتا ہے۔
    اسلام میں مال کا تصور:-
 اسلام ذاتی ملکیت کا احترام کرتا ہے اور لوگوں کو شرعی طریقے سے کسبِ رزق اور بلا مکر وفریب شرف وامانت کے ساتھ سرمایہ کاری پر ابھارتا ہے۔ چناں چہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا۔‘‘جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (صحیح مسلم) اسلام رضائے مولا کی خاطر درست طریقے پرانفاقِ مال کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے کسب معاش کی فی حد ذاتہ کوئی انتہا نہیں، لہذا حصولِ مال کے لیے بغض وعداوت اور غلط طریقوں کا سہارا لینا غیر درست ہے۔ جب کسی حرام چیز کا حلال چیز سے اختلاط ہوجائے تو وہ اس کی حیثیتِ شرعی بگاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ اصحابِ ثروت کے لیے غیر نفع بخش اشیا میں اموال صرف کرنا جائز نہیں ہے۔ قرآن کریم اور سنت نبوی نے ظلم وزیادتی اور جبر وتشدد کے ذریعے کسبِ معاش کو سخت حرام قرار دیا اور زکاۃفرض کیا تاکہ لوگوں کے دل انانیت وخود نمائی سے پاک ہوجائیںاور فقرا ومحتاجین کے ساتھ انھیںانسیت حاصل ہوجائے۔
    اسلام میں باہمی تعاون، خستہ حال اور مضطرب لوگوں کے درمیان اطمینان وسکون کا ماحول قائم کرنے اور اخلاقی اقدار کی اشاعت پر درج ذیل حدیث سے بڑھ کر کوئی دلیل نہیں پیش کی جاسکتی!اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:  ’’اَیُّمَا اَھْلُ مَحَلَّۃٍ (مَدِیْنَۃٍ اَوْ قَرْیَۃٍ) ھَلَکَ فِیْھِمْ اِمْرَوٌ ضِیَاعًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْھُمْ ذِمَّۃُاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ۔‘‘ (معجم ابن الاعرابی)اگر کسی شہر یا علاقے میں کوئی شخص مجبور ولاچار ہلاک ہوجائے تو وہاں کے افراد سے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بری الذمہ ہیں۔
     ابن حزم نے اپنی کتاب’’المحلیٰ‘‘ میں اس حدیث پاک سے یہ استدلال کیا ہے کہ اگرکسی شہر یا علاقے کے لوگ کسی غریب مرد یا عورت کو بھوکا چھوڑ دیں اور وہ بھوک کی شدت سے ہلاک ہوجائے تو سارے شہر کے لوگ کے قتل کے ذمہ دار ہوںگے اور ان پر قصاص واجب ہوگا۔
    یہ وہ بعض اسلامی اقدار وروایات ہیں جو معروضی مطالعہ کے لائق ہیں۔ اگر انسانیت انھیںاپنالے تو اطمینان وسکون کی نعمت سے سرفراز ہوجائے۔




0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔