Tuesday 14 March 2017

علما، فتویٰ اور میڈیا

0 comments
علما، فتویٰ اور میڈیا
ایک فاضل دوست سے ٹیلی فونی گفتگو پر مبنی ایک فکر انگیز تحریر
از قلم:- ذیشان احمد مصباحی
صبح سویر ے ہی موبائل کی گھنٹی بجتی ہے—
ہیلو!!
السلام علیکم !
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ، کون؟
پہچانا نہیں ! آپ بھی نہ جانے دہلی جا کر ہم لوگوں سے اتنا دور کیوں ہو گئے؟
اچھااچھا، خیریت تو !سنائیے کیسے کیسے یاد کیا؟
یاد کیا کرتا ، آپ لوگ ،میڈیا والے لوگ یادوں سے بھی دور ہیں، بہت دور ، مگر میڈیا کی شرارتیں آپ کی یاد تازہ ضرور کر دیتی ہیں اور اس کے ساتھ ہمارے مفتی صاحبان کی گولہ باریاں الگ ہیں، ان میں کتنے تو ایسے ہیں جو یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ان کے توپ کا رخ کس طرف ہے؟
کہنا کیا چاہتے ہیں ؟ صاف کہیے نا!
آپ بھی یہ صاف صاف بتا دیجیے کہ کیا ایسا نہیں لگتا کہ حالیہ دور میں جہاد ایشو اور فتویٰ ایشو مسلمانوں کے خلاف سب سے بڑے ایشوز ہیں؟
جہاد حق کے لیے جدوجہد کرنے کا نام ہے اور فتویٰ عوام کومسائل حق سے روشناس کرنے کا نام ہے، یہ مسلمانوں کے سب سے مستحکم ہتھیار ہیں ، مسلمان جب تک جہاد کرتے رہیں گے ان کی دنیا سر بلند رہے گی اور جب تک فتویٰ دیتے، لیتے اور اس پر عمل کرتے رہیں گے ان کا دین سر بلند رہے گا، ان دونوں کو چھوڑ کر وہ سب کچھ تو ہو سکتے ہیں ، مسلمان نہیں۔
مولانا! آپ فکری تشدد میں مبتلا ہیں، جو چیزیں امت کے وقار کو مجروح کر رہی ہیں آپ ان کو دین و اسلام کا لازمہ بتا رہے ہیں-
میں فکری تشدد میں نہیں آپ ابلاغی تو حش میں مبتلا ہیں، ذرائع ابلاغ نے اپنی بادمسموم سے انسانی مجتمع کو علی شفا حفرۃ من الہلاکۃ کر دیا ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ اس کی مسموم گیس آپ کے دماغ میں بھی سرایت کر گئی ہے-
دیکھیے! آپ عربی میں اردو مت بولیے، صاف لفظوں میں یہ بتائیے کہ کیا آج جہاد کے موضوع کو لے کر پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام نہیں کیا جا رہا ہے؟
کیا جا رہا ہے، اور اس کا جواب یہ ہے کہ ہم جہاد صحیح رخ پر کریں اور جہاد کی تفہیم صحیح انداز میں کریں۔ 
کیا آپ اس سے انکار کریں گے کہ پچھلے چند سالوں سے میڈیا فتویٰ کے ایشو کو لے کر براہ راست علماے دین و مفتیان شریعت کی تذلیل کر رہا ہے اور بالواسطہ عوام کے دلوں سے شریعت کے احترام ، عظمت اور حیثیت کو کم کرتا جا رہا ہے؟
یہ تو ہے -
اور کیا آپ اس حقیقت سے نظر یں چرالیں گے کہ میڈیا کو غذا فراہم کرنے والے یہی علمائے دین اور مفتیان شریعت ہیں؟
بھلا وہ کیسے؟
۲۰۰۳ء میں سامنے آنے والا گڑیا، عارف اور توفیق کا سانحہ یاد ہے؟ اس میں میڈیا کو اسلام کی جگ ہنسائی کا موقع کس نے فراہم کیا؟
میڈیا کو کسی نے موقع فراہم نہیں کیا اور نہ کوئی کرتا ہے، میڈیا تو خود ہی مواقع کی تلاش میں رہتا ہے اور اسے سڑک پر چلتے راہ گیر مرچ مسالہ فراہم کر دیتے ہیں۔ میڈیا کی ضررساں حریت پر پابندی لگنی چاہیے۔
یہ مکمل سچ نہیں ہے، اگر علما کی رائے میڈیا کے سامنے مختلف نہیں ہوتی اور وہ ایک انداز میں تر جمانی کرتے تو راہ چلتے راہ گیر وں کی باتیں عوامی اور جاہلوں کی بات کہی جاتی ۔ یہاں تو عوامی باتوں کی تائید بہت سے علماء کر دیتے ہیں اور پیچید گی یہیں آتی ہے۔
۲۰۰۵ء کا عمرانہ کا مسئلہ یاد ہے ؟ آپ نے دیکھا کہ میڈیا کے سامنے علماے احناف اور علماے اہل حدیث نے مناظرے شروع کر دیے۔
بھائی آپ خلط مبحث مت کیجیے، اتنا یاد رکھیے کہ مسائل میں اختلاف فطری ہے، اب جس عالم کی جو رائے بنتی ہے اس کا اظہار تو اس پر واجب ہے، جب اس سے سوال ہوگا تو وہ اپنی رائے پیش کرے گا ہی۔
اختلاف فطری ہے ، اظہار واجب ہے اور میڈیا ذریعہ اظہار ہے- تو جب میڈیا کے توسط سے باتیں سامنے آتی ہیں تو ہمیں تکلیف کیوں ہوتی ہے؟
تکلیف اس لیے ہوتی ہے کہ میڈیا کے لوگ ان باتوں کو پیش کر کے اسلام پر زبان طعن دراز کرتے ہیں اور شریعت کا مذاق اڑاتے ہیں۔
اگر بات ایسی ہی ہے تو کیا علماء کو اظہار رائے کے وقت اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ ایسی حکیمانہ پالیسی اپنائیں جس سے میڈیا کو تضحیک کا موقع کم سے کم ملے-ابھی حالیہ دنوں دو فتوے اور آئے جنہوں نے میڈیا کو ایک بار پھر کھل کر شریعت اور علماے شریعت کے خلاف زہر اگلنے کا سنہرا موقع دے دیا۔ ایک تو مرادآباد کے مفتی کلیمی صاحب کا فتویٰ اور دوسرا دیوبند کا فتوی جس کے بارے میں ایک میڈیا چینل نے یہ دعویٰ کیا کہ مفتی صاحب نے پیسے لے کر فتویٰ دیا ہے ۔ آپ اس پہلو پر بھی غور کیجیے کہ میڈیا باری باری دیو بند اور بریلی کو سامنے لا رہا ہے۔ سب باری باری خوش ہو رہے ہیں لیکن نتیجہ کیا نکل رہا ہے ، دیکھ رہے ہیں آپ؟ ۱۹۷۲ ء میں ہندوستان کے ہر مکتب فکر کے علماء نے یہ ضرورت محسوس کی تھی کہ سب کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہونا چاہیے جہاں سے وہ اپنے مشترکہ مسائل کی وکالت کر سکیں، اس وقت دیو بند اور بریلی کا اختلاف بھی نیا تھا، علماء اور عوام کے اندر مسلکی تصلب بھی آج سے زیادہ تھا، اپنے تحفظات کا خیال بھی آج سے زیادہ تھا، میڈیا کے حملے بھی اسلامیان ہند کے خلاف کم سے کم تھے، کیوں کہ ابھی میڈیا نے شرارت کے نت نئے گر نہیں سیکھے تھے، لیکن اس کے باوجود علماء مشترکہ مسائل کے حل کے لیے ایک میز پر آ گئے، آج ۳۴؍ سالوں بعد آپ اندازہ کیجیے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مشکلات ومسائل کس قدر بڑھ گئے ہیں، میڈیا کی شر انگیزیاں کتنی بڑھ گئی ہیں، اس کے ساتھ اس پر بھی غور کیجیے کہ علماء اور عوام میں اب وہ پہلے جیسا تصلب نہیں رہا، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کا پلیٹ فارم بڑھتا گیا ، ان کی اجتماعیت کا جنازہ نکلتا گیا، ایک بورڈ سے چار بورڈ ہو گئے، پہلے بورڈ کی لڑائی حکومت سے تھی اب بورڈ کی لڑائی بورڈ سے ہے، کچھ چہروں کو انفرادی فائدے ضرور ملے، انہیں لوگ جان گئے، ان کی ایک شناخت بن گئی، میڈیا نے انہیں کو ریج دیا اور وہ خوش ہو گئے، لیکن اجتماعی طور پر مسلمانوں کا کتنا نقصان ہوا آپ محسوس کر رہے ہیں؟ آج ان لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو دوسرے مسالک کے لوگوں کے ساتھ کسی سیاسی پارٹی کے دفتر میں بریڈ اور کافی اڑاتے ہیں، لیکن وہی افراد مسلم مسائل کے حل کے لیے ایک میز پر نہیں آ سکتے۔
آج تو آپ بہت برہم ہو یار! کوئی نئی بات سامنے آئی ہے کیا؟
نئی بات کے بارے میں مت پوچھیے ذیشان صاحب ! آنکھیں کھول کر اور کانوں کو اذن سماعت دے کر کسی عوامی جگہ پر چلے جائیے، ہوٹل، گاڑی، دفتر ، لائبریری، پلیٹ فارم ، بس اسٹینڈ اور پھر سنیے علمائے دین کے خلاف عوام کی ہرزہ سرائیاں اور دیکھیے ان کی پیشانیوں پر نفرتوں کی سلوٹیں۔
آپ حالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیجیے محترم ! یہ جو کچھ ہو رہا ہے سب میڈیا کی کارستانیاں ہیں۔
 اور یہ سب کچھ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ہم لوگ میڈیا کو ذریعہ اظہار کی بجائے بھوت،شیطان اور عفریت سمجھتے رہیں گے۔ میڈیا کا مطلب صرف اتنا ہے کہ یہ آپ کے ایک خیال کو ہزاروں زبان عطا کردیتا ہے اور بہ آسانی ہزاروں لوگوں سے آپ کو ہم کلام کرا دیتا ہے۔افسوس کہ جو لوگ میڈیا کی بعض بدتمیزیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں ان کے پاس صرف ایک زبان ہوتی ہے۔ اگر ان کا یہ احتجاج میڈیا کے توسط سے ہوتا تو کم ازکم عوام کے سامنے میڈیا کی بے احتیاطیاں تو آجاتیں۔ لیکن ہم پر تو اب تک کیمرے کا خوف ہے۔
جناب! جذبات میں بے قابو مت ہوئیے، تصویر کا مسئلہ خالص فقہی مسئلہ ہے؟
جی ہاں! یہ فقہی مسئلہ ہے، یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ یہ فقہی مسئلہ ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ’’ اسلامی فقہ‘‘ سماج ، سماج کی ضرورت اور حالات و کوائف سے ہٹ کر الگ سے کوئی چیز نہیں ہے؟
آپ جس جذباتیت میں بول رہے ہیں اسی جذباتیت نے آج مسلم دنیا میں وہ علمی بحران پیدا کر دیا ہے جو مسائل کو سلجھانے کی بجائے الجھاتا جا رہا ہے۔
بات مکمل کرنے کے لیے اس میں اتنا اور اضافہ کر لیجیے کہ یہ بحران فقہ اور دانشوری میں قائم اس ترسیلی فاصلہ (Communication Gap) کی وجہ سے پیدا ہواہے جس کے سبب فقیہانِ حرم اور دانش ورانِ عصر ایک دوسرے کو سمجھنے میں بری طرح غلطی کر رہے ہیں۔ اسلام جب عباسی دور میں داخل ہوا تھا تو اسی طرح کا ایک بحران پیدا ہوا تھا، اور اس کی وجہ فقہااور فلاسفہ کے پیچ ترسیلی فاصلے کاہونا تھی، فلسفیوں نے علماے دین اور فقہائے شریعت کے خلاف عوام کے ذہن و دماغ کو پراگندہ کر دیا تھا، فلسفیوں کا جادو عوام کے سر چڑھ کر بول رہا تھا، علماء نے اس صورت حال کو سمجھنے کے بعد فلسفہ کی طرف رخ کیا، جس کے نتیجے میں متکلمین کی ایک جماعت سامنے آئی، فلسفہ اور فقہ میں پیدا فاصلہ ختم ہو گیا لیکن خیال رہے کہ کسی فلسفی نے فقہ سیکھ کر غزالی نہیں بنا، ایک فقیہ نے فلسفہ پڑھ کر غزالی بنا۔ آج دانشوروں کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ فقہ پڑھیں، انہیں تو بس اپنی عقل کا گھوڑا دوڑا دینا ہی اپنی ہر لا علمی پر پردہ ڈالنے کے لیے کافی ہے، آج فقیہ کو دانشور بننے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ دانشوروں کے سر سے عصری دانشوری کا بھوت اتار سکے، زمانے کو پھر غزالیوں کی ایک جماعت چاہیے اور عوام و خواص کے ذہنی اضطراب کو دور کرنے کے لیے پھر سے المنقذ من الضلال جیسی تحریریںچاہییں۔کل اور آج میں فرق صرف اتنا ہے کہ کل فلسفہ کی گمراہیاں تھیں آج تاریخ، سماجیات ، انسانی علوم، گلوبلائزیشن ، سیکولرائزیشن ، صحافت اور میڈیا کی گمراہیاں ہیں۔ افسوس کہ آج عصری علوم کے نام پر مدارس میں کمپیوٹر اور سائنس پڑھانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ان کی ضرورت و اہمیت اپنی جگہ، مسلم بچوں کے لیے یہ سب پڑھنا ضروری ہے تاکہ وہ خوش حال ہوں، سر اٹھا کر جی سکیں، لیکن علماء کی جماعت کو جدید چیلنجیز کا مقابلہ کرنے اور اسلامیات کے تعلق سے پیدا شدہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے کمپیوٹر آپریٹر ، ٹائپسٹ ، اکائونٹسٹ اور معالج بننے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آج خوشی ہے کہ مدارس کے ماحو ل میں جدید مسائل اور چیلنیجیز کے تعلق سے گفتگو ہو رہی ہے لیکن غم ہے کہ عموماً یہ گفتگو صحیح سمت میںنہیں ہوتی۔
ارے یار !تو تو ہم دلّی والوں سے بھی زیادہ سمجھدار ہو گیا ہے، فون پر بھی تقریر کی پریکٹس کر لیتے ہو، اور سنائو سب خیریت تو ہے؟
وہ تو ہے، مگر مجھے تم سے آج جس موضوع پر گفتگو کرنی تھی اس پر ہم آنہیں پا رہے ہیں اور ہماری بات دوسری طرف چلی جا رہی ہے۔
وہ کون سا موضوع ہے؟
یہ موضوع ہے فقہی اختلاف کو میڈیا کے سامنے کس طرح پیش کیا جائے؟ آج اظہار رائے کی آزادی کو غیر ضروری حد تک ضروری قرار دے دیا گیا ہے، میڈیا ہر مسئلے میں نہ صرف اس کے واقف کارو ںکی رائے لیتا ہے بلکہ ان کی بھی رائے لیتا ہے جن کو اس مسئلے کی ہوا تک نہیں لگی ہو، شرعی مسائل میں بھی آپ دیکھتے ہیں کہ مختلف باتیں پیش کرنے کے لیے مختلف مکاتب فکر ، مختلف ذہن و دماغ ، پڑھے ، بے پڑھے، میڈیا سب کی آراء لیتا ہے اور یہ توطے ہے کہ فروعی مسائل اکثر مختلف فیہ ہیں، پھر بعض اختلافات بین المسلکی سطح کے ہیں اور بعض اختلافات ایک ہی مسلک کے علماء کے بیچ ہیں، اجماعی مسائل بہت تھوڑے ہیں اور ایسے مسائل جن میں کسی ایک عالم کا بھی اختلاف نہ ہو تو بہت ہی کم ہیں، ایسے میں علماء کیا کریں، ہر عالم اپنی رائے پیش کرے، جو اس پر واجب ہے اور جو میڈیا چاہتا ہے یا پھر کوئی اور راستہ ہے جس پر چل کر ہم سائنٹفک اور معقول انداز میں میڈیا کو جواب بھی دے دیں اور عوامی الجھن کا مداوا بھی کر دیں؟ ہے کوئی صورت؟
ارے بھائی! تم یہ سب سوالات مجھ سے کیوں کر رہے ہو؟ میںکوئی اتنا بڑا دقاق تھوڑے ہی ہوں، مجھے تو اپنی کلاسیز اور تعلیم سے فرصت نہیں ملتی، مشکل سے کھینچ تان کر ہر مہینے جام نور کے لیے ایک مضمون لکھ لیتا ہوں اور بس! لیکن یار تم نے سوال کر کے سوچنے پر مجبور ضرور کر دیا۔
جو مسائل سوچنے کے ہیں ان پر سوچنے کے لیے تو کسی کو فرصت نہیں ، لیکن سوچنا تو پڑے گا ہی-
 ایسا کرتے ہیں کہ جام نور کے اگلے شمارے میں اس موضوع پر تحریری مباحثہ رکھ دیتے ہیں ، اس سے یہ ہوگا کہ اس کے ضروری گوشے اور کچھ اہم تجویزیں سامنے آ جائیں گی۔
گوشے نکالنے اور تجویزیں لکھنے سے کچھ ہونے کو نہیں ہے۔
اب اتنے Negativeاور قنوطیت زدہ بھی مت بنیے۔ 
تو پھر؟——پھر یہ کہ پہلے انسان کوئی خواب دیکھتا ہے ، اس کے بارے میں سوچتا ہے، دو چار لوگوں کو اپنی فکر میں شریک کرتا ہے، اس طرح رفتہ رفتہ اس خواب کو سچائی میں بدلنے کے لیے ایک کارواں تیار ہو جاتا ہے، اس لیے مباحثے اور مذاکرے بالکل بے معنی وبے مقصد بھی نہیں، ان سے کچھ لوگ سرسری ضروری گزر جاتے ہیں،مگر بہت سے پختہ ذہنوں پر ان کی ضرب پڑتی ہے اور وہ ٹوٹتے بکھرتے ہیں، اور بہت سی نئی، نازک  نوخیز فکروں میں یہ مباحثے سما کر اپنی جگہ بنا لیتے ہیں، اب وہ فکر یں جب پختہ ہوتی ہیں تو اس موضوع کے حوالے سے ان کے ارادے بھی پختہ ہوتے ہیں ، اس طرح جدید مسائل پر یہ مباحثے نئی نسل کی تعمیر ہی نہیں کرتے ، ان کے اندر اچھے مستقبل کی تعمیر کے جوش بھی جگاتے ہیں۔
خیر ! ہم بہت دور آ گئے۔ ہمارے اصل سوال کا جواب دیجیے! کہ میڈیا کے سامنے فقہی اختلاف کو کیسے پیش کیا جائے؟ آپ قلم کار ہیں اور قلم کار فکر کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر کام کے موتی نکال ہی لیتا ہے-آپ کو اس پر ضرور سوچنا چاہیے ، آپ اس پر سوچیے اور کچھ قیمتی موتی نکال باہر لائیے۔
میں فکرکے تاریک جنگل میں گم ہو گیا، میرا سر مختلف دیواروں سے، چٹانوں سے، درختوں سے ٹکرا رہا تھا، خیال کی موجیں اتنی تیز تھیں کہ میں خود کو سنبھال نہیں سکتا تھا—’’ ایسا کرو، فون رکھو، میں رات میں تمہیں فون کرتا ہوں۔‘‘ —میں سوچنے لگا تھا۔
۱۰؍ ۱۱؍ ۱۲؍ بج گئے، میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچا’’ رات۱؍بجے پھر موبائل کی گھنٹی بجی۔ اس وقت تک کچھ پوائنٹ ذہن کے پردے پر جگنوئوں کی طرح جھلملا نے لگے تھے۔ دوسری طرف جانی پہچانی آواز تھی-’’جی کیا ہوا؟ کوئی نتیجہ؟‘‘
ایک بات سمجھ میں آئی، وہ یہ کہ مسلمانوں کا ایک عالمی فقہی ادارہ ہونا چاہیے۔
وہ تو ہے، انٹر نیشنل فقہ اکیڈمی۔ مگر کیا فائدہ؟ اور آپ کس دنیا میں ہیں؟ کیا اس خوش فہمی میں کہ ایک عالمی ادارہ کوئی حکم صادر کرے گا اور سارے مسالک کے علماء اس کے سامنے سپر انداز ہو جائیں گے؟ آپ ہندوستان سے باہر مت جائیے، صرف ملکی سطح پر بات کیجیے۔
ملکی سطح پر بھی اگر ایسا ہو جائے کہ کوئی ایک فقہی فورم ہو، جس کی بات سب کے لیے قابل قبول ہو۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کا حشر ہم دیکھ چکے ہیں اوراب ما شا ء اللہ ہر جماعت میں الگ الگ بلکہ دو دو تین تین فقہ اکیڈمیاں بھی بن گئی ہیں، اور ایک کے سمینار میں طے شدہ مسائل کو مسترد کرنے کے لیے آناً فاناً دوسری اکیڈمیاں اپنا سمینار کر ڈالتی ہیں۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کی بات مت کر یے جناب، اس میں تو فقط ایک مسلک کے چند لوگوں کا تسلط تھا جس کو ٹوٹنا ہی تھا۔
بجا، لیکن کیا کبھی آپ نے اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت کی کہ اس تسلط سے دوسرے مسالک کے لوگوں کی جو دشواریاں تھیں وہ تسلط کے ختم ہو جانے کے بعد بڑھیں یا کم ہوئیں؟ میں اتنا تو ضرور سمجھتا ہوں کہ شرعی قوانین کے تحفظ کے لیے عمومی طو ر پر مسلمانان ہند کے پاس جو کچھ زور تھا وہ بھی ختم ہو گیا— اور کوئی صورت ، کوئی مسیحائی؟ 
مسلم پرسنل لاء بورڈ سے مسلم پرسنل لاء بورڈ جدید ، شیعہ بورڈ یا خواتین بورڈ وغیرہ جو بھی علاحدہ ہوئے ہیں وہ اپنی علاحدگی کے جواز میں یہی کہتے ہیں کہ بورڈ ان کو مناسب نمائندگی نہیں دے رہا تھا،اگر آج افہام و تفہیم کے ذریعہ بورڈ کو تیار کیا جائے اور وہ سب کی شکایتیں سننے اور مناسب شکایتیں دور کرنے کے لیے تیار ہو جائے تو میرے خیال میں اتحادوتقویت کی پھر ایک صورت بن سکتی ہے-
دیکھیے دو صورتیں ہوتی ہیں - ایک تنظیم برائے شخصیت اور دوسری شخصیت برائے تنظیم— یہ جتنے بورڈ ہیں ان کے بانیان کی نیت اگر’’شخصیت برائے تنظیم ‘‘ہے، ایک اچھا کام کرنے کے لیے الگ تنظیم بنائی ہے ،تب تو وہ افہام و تفہیم کے لیے ضرور تیار ہو سکتے ہیں اور اپنی شکایتیں ختم ہونے کے بعد وہ چاہیں گے کہ حسب سابق اجتماعیت کے ساتھ تحفظ شریعت کے لیے کام کریں ، لیکن اگر ان کی نیت’’ تنظیم برائے شخصیت ‘‘ہے ، یعنی اگر انہوں نے اپنی شخصیت اور شناخت کے لیے تنظیم قائم کی ہے تب تو وہ کسی قیمت پر اپنی تنظیم کو تحلیل کرکے اجتماعیت کی راہ اختیار کرنے کی نہیں سوچ سکتے -
میں خاموش تھا، فکر کا گھوڑا کسی دلدل میں الجھ گیا تھا۔
میرے پاس ایک تجویز ہے ، ذرا غور سے سنیے!
جی! سنائیے!!
اس تجویز کا تعلق اجتماعیت سے نہیں انفرادیت سے ہے، پہلے انفرادی طور پر ہر عالم کو اپنے اندر دوسروں پر اپنی فقہی رائے مسلط نہ کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا، اہل علم نے اجتہاد کے تعلق سے یہی کہا ہے کہ مجتہد اپنی رائے پر سختی سے ضرور قائم رہے، لیکن دوسروں کے لیے بھی اجتہاد کرنے یا دوسرے مجتہد کی تقلید کرنے کی اجازت دے۔ اگر یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو وثوق کے ساتھ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ میڈیا کے سامنے فقہی مسائل کا الجھائو کم سے کم ہو جائے گا۔ آپ ان ممالک پر نظر ڈالیے جہاں مسلم حکومتیں قائم ہیں، وہاں حکومت کے جو معتبر عالم ہوتے ہیں حکومتی سطح پر ان کی رائے ہی فیصل مانی جاتی ہے، اب وہ علماء جو اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں وہ اپنے طور پر اس رائے کو غلط ضرور تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ ہر وقت حکومت سے جنگ کرنے یا میڈیا کے سامنے اپنی بات پیش کرنے کے لیے بے چین نہیں رہتے۔پاکستان میں عدالتی سطح پر ایک ساتھ دی گئی تین طلاق کو ایک طلاق تسلیم کر لیا گیا ہے، پاکستان میں حنفی علماء کی بڑی تعداد ہے جو اس سے اتفاق نہیں رکھتے، وہ اس پرعلمی انداز میں بحث ضرور کرتے ہیں لیکن اس مسئلے کو لے کر حکومت سے الجھے نہیں رہتے۔ ہندوستان ایک غیر اسلامی جمہوریہ ہے۔ اگر اس ملک میں کوئی عالم اپنی رائے سے پیچھے ہٹنے کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں ہوتا تو پھر میڈیا کے سامنے اسلام کا خداہی حافظ ہے۔
آپ محسوس کرتے ہیں کہ اس میں کتنی دشواریاں ہیں؟
ایک منٹ!مجھے اپنی بات مکمل کرنے دیجیے— اگر اس بات کو ہندوستانی علماء قبول کر لیتے ہیں اور اپنی ہر رائے پر ہر جگہ مناظرہ کرنے کے لیے سمیٹی ہوئی آستین نیچے گرا دیتے ہیں تو —میری رائے میں اس پیچیدگی کے حل کا دوسرا مرحلہ یہ ہوگا  کہ— یا تو سارے مسالک ایک پرسنل لاء بورڈاور ایک فقہی اکیڈمی کے بینر تلے جمع ہو جائیں یا پھرہر مسلک کے پاس جس طرح الگ الگ بورڈ اور اکیڈمی ہیں اپنے حال پر قائم رہیں اور جن مسائل میں حکومتی سطح پر کوئی مطالبہ کرنا ہو، کوئی لڑائی لڑنی ہو ، کوئی محاذ چھیڑنا ہو تو محاذ آرائی سے پہلے ہر مسلک کے اداروں کے ماہرین کی گفتگو ہو او ران کے متفقہ فیصلہ یا اکثریت کے فیصلے کو قابل قبول سمجھ کر حکومت کے سامنے اسی کے لیے جدوجہد کا آغاز کر دیا جائے۔ یہاں میں اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کر دوں کہ— ہم پہلے مسلمان ہیں، حنفی ،شافعی، مالکی، حنبلی، سلفی بعد میں ہیں، اس لیے جہاں اسلام کی رسوائی کی صورت آن پڑے تو فوری طور پر دوسرے فقہی اسکول کے احکام کے اتباع پر غور کرنا شروع کر دینا چاہیے- اسی طرح ہم یہ بھی عرض کر دیں کہ سلفی صاحبان جو ہندوستان میں مٹھی بھر ہیں ان کو غرہ یہ ہے کہ صرف وہی احادیث پر عمل کرتے ہیں،باقی احناف و شوافع احادیث پر عمل نہیں کرتے، ان کو اپنی اس فکری ارہابیت سے نیچے آنے کی ضرورت ہے، اپنے سینے میں وسعت لانے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی یہ بھی لحاظ رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان میں (کیرالہ اور بعض دوسرے علاقوں کے سوا) ۹۰؍۹۵ فی صد مسلمان حنفی  ہیں، اب اگر حکومت کے سامنے ، عدالت کے سامنے ،میڈیا کے سامنے کوئی مسئلہ آتا ہے جس کا تعلق احناف سے ہو اور حنفی علماء اپنے مسلک کے مطابق وکالت کر رہے ہوں تو ایسے مواقع پر سلفی حضرات کو اپنا پیمانۂ صبر توڑ کر میڈیا کے سامنے اپنے عمل بالحدیث کے نعرے لگانے سے پرہیز کرنی چاہیے، کیوں کہ اس رویے سے ان کے گمان کے مطابق عمل بالحدیث رائج ہونے کی بجائے عوام میںتضحیک بالحدیث رائج ہو جائے گی- اب انہیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان کو عزیز کیا ہے؟
تم بہت دور کی کوڑی لے آئے۔ تم جس چیز کو وسعت فکر و نظر سمجھ رہے ہو، بہت ممکن ہے کہ یہ غیر متصلبانہ سوچ ہو، اور یاد رکھو تصلب بہر کیف ضروری ہے۔
کیا اس وقت بھی جب اسلام کی جگ ہنسائی ہو رہی ہو؟
ہاں! اس وقت بھی ، کیا ہنسنے والوں کے خوف سے ہم اپنی شریعت بدل لیں گے؟ 
میں شریعت بدلنے کی نہیں، وقت ضرورت ایک فقہی رائے  کوچھوڑ کر دوسری رائے پر عمل کرنے کی بات کررہا ہوں۔
یہ کام بہت دشوار ہے، یہ ہر ایرے غیرے کا کام نہیں۔
وہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ اس کام کو ہمارے ماہر ین، محققین علماء و فقہا کرنا شروع کر دیں، اور اگر وہ یہ کام نہیں کریں گے تو پھر یہ کام ہر سڑک چھاپ مولوی کرنا شروع کر دے گا جس کے خلاف صرف وہ اپنے غم و غصہ کا اظہار ہی کر سکیں گے۔
یار !ہماری آج کی گفتگو میں کچھ اہم پوائنٹس آ گئے ہیں، سوچتا ہوں کہ اس گفتگو کو قلم بند کر کے جام نور میں شائع کردوں تاکہ یہ باتیں ہمارے بڑوں کی نظروں سے بھی گزریں ، اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ عصر حاضر کے اس اہم مسئلہ پر بہت سے لو گ سوچنا شروع کر دیں گے اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ بہت سے لوگ میری یا تمہاری سوچ میں جہاں خامی ہوگی اس کی نشاندہی کر دیں گے اور ہماری فکر کی اصلاح ہو جائے گی۔ کیا کہتے ہو؟
شائع کر دو مگر میرا نام مت دینا۔
کیوں؟———بس ایسے ہی… ع   ڈرتا ہوں کہ برسات میں جل جائے نہ خرمن
تم سے میں اس مسئلے پر بھی گفتگو کرنا چاہتا تھا کہ میڈیا کے سامنے مسئلہ تکفیر کو کس انداز میں پیش کیا جائے؟ اچھا پھر کبھی۔ السلام علیکم 
وعلیکم السلام ! خدا حافظ ——————شب بخیر!!!  

https://drive.google.com/file/d/0B7PawD8kIlKuRnNrNmN1MkhIVVU/view?usp=sharing
https://docs.google.com/uc?export=download&id=0B7PawD8kIlKuRnNrNmN1MkhIVVU

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔