Monday 13 March 2017

بیڑیاں آج بھی پہنے ہیں اسیرانِ وطن

0 comments
بیڑیاں آج بھی پہنے ہیں اسیرانِ وطن
ہندوستان کی آزادی کو ایک طویل عرصہ گزر گیا مگر ایسا لگتا ہے 
کہ ہم اب بھی غلامی کی بندش میں ہیں
از قلم:- محمد شاہد رضا نجمیؔ
۱۹۴۷ء میں ہندوستان کی آزادی ہوئی۔ تقریبا دو سو سال تک غلامی کی بندش میں سامراج حکومت کے زیر نگیں رہنے والے باشندگان ہند نے آزادی ملنے پر سکون واطمینان کی سانس لی۔ سوئے اتفاق اسی وقت بعض غیر دانش ورانہ فیصلوں کی بنا پر پاکستان نامی ایک اسلامی ریاست کی تشکیل عمل میں آئی۔ قنوطیت پسند حضرات نے اسے ’’مملکتِ خداداد‘‘ کا نام دیا۔ منشور یہ بتایا گیا کہ وہ ایک خالص اسلامی ملک ہوگا، طالبینِ مولیٰ پوری آزادی کے ساتھ ذکرِ الٰہی کا فریضہ انجام دے سکیں گے، ان کی پیشانیاں پورے سکون واطمینان کے ساتھ حریمِ قدس میں جھکا کریں گی، کسی بھی شرعی امر پر کوئی بھی نالہ اور غلغلہ بلند کرنے والا نہ ہوگا، دین کی تبلیغ واشاعت میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ درپیش نہ ہوگی، حقیقۃ وہ مملکتِ خدا داد ہوگا جہاں ہر طرف خدائی دستور ونظام کا بول بالا ہوگا اور اسلامیانِ عالم کی آرزئوں کا مظہر ہوگا۔ یہ خبر سنتے ہی اسلام کے شیدائیوں نے پاکستان جانے کی حامی بھر لی۔ دانش ورانِ زمانہ نے سمجھایا، مسلم قوتوں کے منتشر ہوجانے کی دہائی دی، مگر ان کی نصیحت اور دہائی جانے والوں کو نہ روک سکی۔ پاکستان میں خدائی نظام تو نافذ نہ کیا جاسکا البتہ مغربی ماحول کو جگہ ضرور مل گئی، آج تک وہاں کے عوام ایک حقیقی جمہوری فضا کے لیے ترس ر ہےہیں۔ پھر پاکستان بھی دو حصوں میں منقسم ہوا اور بنگلہ دیش نامی ایک دوسری اسلامی ریاست منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی۔ اس طرح مسلمانوں کی متحدہ طاقت وقوت کے پرخچے اڑ گئے۔ 
۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء کو ہندوستان کےمنظور شدہ آئینی نظام ودستور کا اجرا عمل میں آیا، دستور میں بلا تفریق سارے ہندوستانیوں کو عدل ومساوات کے سائبان میں جگہ دینے کی بات کی گئی۔ آئین کے پہلے ہی ورق پر یہ عہد نامہ موجود ہے: 
We the people of india having solemnly resolved to constitute india into a sovereign, socialist, secular, to all its citizens, justice, social, economic and political liberty of thought, expression, belief faith, and worship, equality of status and of opportunity and to promote among them all fraternity, assuring the dignity of the individual and the unity and integrity of the nation hereby adopt enact and give to ourselwes this constitution. 
ہم ہندوستانی باشندے پختہ عزم اور صدق دل کے ساتھ ہندوستان کو ایک خود مختار، سوشلٹ، سیکولر، ڈیموکریٹ بنانے، اس میں بسنے والے تمام افراد کے لیےعد ل و انصاف، سماجی، اقتصادی اور سیاسی حقوق ،آزادیِ فکر، اظہارِ خیال، مذہبی اعتقادات ومعموالات میں رخصت، بھائی چارے کے فروغ، ہر فرد کے وقار اور ملک کے اتحاد ویک جہتی کویقینی بنانے کے لیے عزم وعہد کرتے ہیں۔ 
اس عہد نامے کو بار بار پڑھیے! ہندوستان ایک خود مختار، جمہوری ملک ہوگا، اس کے سارے باشندے یکساں حقوق کے مالک ہوں گے، مذہب وعقیدہ اور رنگ ونسل کی بنا پرکوئی تفریق نہیں کی جائے گی، ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہوگی،خود انحصاری کا دائرہ عام ہوگا، کسی کے دین ومذہب پر انگشت نمائی بھی نہیں کی جائے گی، امن ومساوات کی روشنی ہر طرف بکھری ہوگی، فرقہ پرستی، دین بیزاری، تعصب کسی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ غرض کہ ہروہ فعل ہو گا جس کا ایک جمہوری ملک تقاضا کرتا ہے اور ہر اس چیز سے دوری ہوگی جو جمہوریت کے خلاف ہے۔ 
افسوس! یہ عہد نامہ صرف تحریرتک ہی محفوظ رہا۔ نہ خود انحصاری کا دائرہ عام ہوسکا، نہ ترقی اور خوش حالی میں مساوات وشراکت پیدا ہوسکی، مذہب وعقیدہ، رنگ ونسل اور جائے ولادت کی بنا پر تعصب خوب پھیل گیا، اظہارِ خیال اور مراسمِ عبادت کی آزادی بھی نہ مل سکی۔ مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کا کھیل آزادی کے بعد ہی سے شروع ہوگیا۔ 
۳۰؍ جنوری ۱۹۴۸ء کو گاندھی کو قتل کردیا گیا۔ ۱۹۸۰ء میں علاحدہ ملک ’’خالصتان‘‘ کو لے کر پنجاب میں ایک تحریک اٹھی جس نے ہندوستان کے طول وعرض میں کشت وخون کا بازار گرم کردیا، اسی تحریک نے ۱۹۸۴ء میں وزیر اعظم شریمتی اندرا گاندھی کو چتا پر لٹادیا، جس کے بعد ہندو سکھ فسادات نے کئی ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہزاروں ہزار بے گناہوں کے لہو سے ہندوستان کی زمین سرخ ہوگئی۔ ۱۹۹۱ء میں راجیو گاندھی کوبھی بم دھماکہ کے ذریعے موت کی نیند سلادیا گیا۔ ہندو ومسلم فرقہ وارانہ شدت وبربریت کی کشیدگی کے لیے ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا۔ ۱۲۲۷ء میں مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے حکم پر بنائی گئی بابری مسجد کو رام کا جنم بھومی قرار دیا گیا۔ مؤرخین کا رام کے سن ولادت پر آج تک اتفاق نہ ہوسکا، بلکہ بعض مؤرخین کے نزدیک تو خود رام کا وجود بھی مشکوک ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے شدت پسند تنظیموں وشوہند وپریشد، بجرنگ دل، شیوسینا کے ساتھ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے تحریک چلائی۔ ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو تحریک کے اعلیٰ رہنمائوں اور فوجی دستوں کے سینکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں بابری مسجد کو شہید کردیا گیا۔ اس دل دوز سانحے کے بعد پورے ملک میں ہندو ومسلم کش فسادات کا نہ تھمنے والا ایک سلسلہ شروع ہوگیا، نتیجۃ تقریبا تین ہزار افراد موت کی آغوش میں چلے گئے۔ 
۱۸؍ فروری ۱۹۸۳ء کو بھارتی ریاست آسام میں ہندئووں کی جانب سے تشددانہ کاروائی چھ گھنٹوں تک جاری رہی،جسے ’’نیلی قتل عام‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس قتل عام میں عام مقامیوں اور کم ذات کے ہندوئوں نے مسلمانوں کو زندہ جلایا،انھیں قتل کیا اور جو زندہ بچ کر بھاگے ان میں سے ایک بڑی تعداد دریا میں ڈوب کر مرگئی۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مقتولین کی تعداد پانچ ہزار تھی۔ 
۲۲؍ مئی ۱۹۸۷ء کو ہاشم پورہ قتل عام نے ایک بار پھر ہندوستان کی جمہوریت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔تحفظِ قانون کا دعویٰ کرنے والی ہندوستانی فوج کے دستے نے ہی ہاشم پورہ کے محلے سے ۴۲؍ مسلم نوجوانوں کو اٹھایا اور سب کو گولیاں مار کر ایک ندی میں دبادیا، جب چند روز بعد لاشیں باہر آئیں تو لوگ اس واقعے سے آگاہ ہوئے۔ 
  ۲۰۰۲ء میں گجرات کا خون آشام واقعہ پیش آیا۔ شدت پسندی کے پجاریوں نے مسلمانوں کو تہِ تیغ کردیا، ہزاروں لوگوں کو آگ کی نذر کردیا گیا، ہزاروں بچوں کو قتل کردیا گیا، جو باقی بچے وہ یتیمی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے، پاک باز عورتوں کے دامنِ عصمت کو تار تار کردیا گیا، حاملہ خواتین کا پیٹ شق کرکے ان کے معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں پر بلند کرکے فضا میں لہرایا گیا۔ مساجد میں منبر پر مورتیاں رکھی گئیں، درندگی اپنی انتہا کو پہنچی اور ہندوستان کی پیشانی پر شدت وبربریت کا ایک اور بدنما داغ چڑھ گیا۔ 
مظفر نگر کا فساد ہندوستان کے جمہوری کردار کا ایک نہایت ہی کریہہ پہلو ہے۔ بغض وعداوت کے سوداگروں نے یہ افواہ پھیلائی کہ مسلمان لڑکے ’’لو جہاد‘‘ کے نام پر ہندو جاٹ کی لڑکیوں سے شادی کررہے ہیں۔ پھر شرپسندوں نے مسلمانوں کے تیس گھروں کو نذرِ آتش کردیا،گجرات کی طرح یہاں بھی عصمت دری اور قتل وغارت گری جیسی انسانیت کو شرم سار کردینے والی حرکتیں کی گئیں، عبادت گاہوں کو مسمار کردیا گیا، مدارس کو زمیں بوس کردیا گیا۔ شدتِ ظلم کے شکار تقریبا ۷۵ ہزار مسلمان کیمپوں اور کھلے آسمان کے نیچے شب وروز گزارنے لگے، سخت ٹھنڈک اور شدید بارش کی وجہ سے کئی افراد وہیں لقمۂ اجل بن گئے۔ سماج وادی حکومت کے اہلکار اور حکمراں جماعت کے ایم ایل اے اور ایم پی دور کھڑے تماشائے ستم دیکھتے رہے، مگر نہ شرپسندوں کے خلاف کوئی کاروائی کرسکے اور نہ ہی بے گھر مسلمانوں کو سکون واطمینان کا سامان فراہم کرسکے۔ 
ہندو پریشد لیڈروں کے پر فتن اور دہشت گردانہ بیانات اور حکومت کی خاموشی نے جمہوریت کی رہی سہی فضا بھی مکدر کرڈالی۔ کسی نے مسلمانوں کو حب الوطنی سے دور قرار دیا، تو کسی نے انھیں پاکستان جانے کا مشورہ دیا، کسی نے دہشت گردی کا تاجر بتایا تو کسی نے ملک کے لیے ایک بڑا خطرہ۔حالاں کہ حب الوطنی کی چیخیں بلند کرنے اور مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دینے والے آزدی سے لے کر آج تک فرقہ واریت، جنگ، تشدد، منافرت، نفاق، کشت وخون، دغا وفریب کی سوغات کے سوا وطن کو کچھ نہیں دے سکے ہیں۔ 
ریزرویشن کا مسئلہ آج تک دردِ سر بنا ہوا ہے۔ مختلف احتجاجات کے باوجود بھی مسلمان ریزرویشن کے حصول میں کامیاب نہ ہوسکے، ساری پارٹیاں اقتدار میں آنے سےقبل ریزرویشن کے حوالے سے ہزاروں وعدے کرتی ہیں،مگر جیسے ہی برسر اقتدار ہوتی ہیںبے وفائی ان کا مقدر بن جایا کرتی ہے۔  
ہر شخص کو اس کا اپنا مذہب عزیز ہوتا ہے۔ مذہب پر انگشت نمائی ہو یا کسی مذہبی معمول کے خلاف شور وشغب بلند کیا جائے، کوئی بھی مذہبی شخص برداشت نہیں کرسکتا، ہندو مذہب کے مختلف مذہبی شعار اور معمولات ہیں، کسی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان  کے مذہب میں دخل اندازی کرے، یوں ہی ہندو مذہب کے متبعین کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی مسلم مسئلے پر لب کشائی کریں۔ ایسا  کرنا منظور شدہ آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ مگر ایسا ہوا، مسلم پرسنل لا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیا گیا، مسلم مسئلے میں رد وبدل کی کوشش کی گئی، کبھی شاہ بانو کیس کے ذریعے تو کبھی طلاقِ ثلاثہ کا مسئلہ اٹھاکر۔ 
کسی بھی ملک کے وجودوترقی کا دار ومدار اس کی افواج پر ہوا کرتا ہے۔ اگر فوج کی حالت دگر گوں ہوگی تو ملک کے تحفظ واستحکام پر سوالیہ نشان ضرور کھڑا ہوگا۔ آزادی کو اتنے سال گزرنے کے بعد بھی ہندوستانی فوج کی حالت درست نہ ہوسکی،تحفظ وطن کی خاطر سر وجاں کی بازی لگادینے والے ہندوستانی سپاہی اضطراب وپریشانی کے شکنجے سے اب تک نہ نکل سکے۔ سرحد کی حفاظت کرنے والے صحیح غذا سے بھی محروم ہیں، مزید فوجی افسروں کی جانب سے ہونے والی ظلم وزیادتی نے ان کی ہمتوں کو پست کررکھا ہے۔ شکایتوں کے باوجود بھی نہ جانے کیوں کاراوئی سے حکومت گریز کررہی ہے۔ کیا اس طرح کے ماحول میں ان سے کسی عظیم انقلاب کی توقع کی جاسکتی ہے؟۔
آزادی کے بعد سے پیدا ہونے والے حالات کا یہ تو ایک اجمالی جائزہ ہے۔ اس طرح کے نہ جانے اور کتنےدل سوز  واقعات وحادثات تاریخی صفحات پر ثبت ہیں۔حکومت کے کارندے طاقت ودولت کے نشے میں مطلق العنان ہیں اور سیاسی پارٹیاں بے لگام، کشمیر سے کنیاکماری تک کوئی بھی قانون کی بالادستی قبول کرنے کو تیار نہیںہے ، فرقہ پرستی عروج پر ہے،جمہوریت دم توڑ رہی ہے،معیشت روبہ زوال ہے، انگریزوں نے ظلم وزیادتی، تشدد وبربریت کی جو مسموم فضا قائم کی تھی اور جس کے خاتمے کے لیے مجاہدین آزادی نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا تھا آج وہی فضا پھر سے ہموار کی جارہی ہے۔ جسے دیکھ کر ذہن ودماغ سامراج حکومت کی اسی غلامی کی طرف چلا جاتا ہے جس کی کسک اور درد کی شدت نے ہندوستانیوں کو ایک طویل مدت تک پریشان کررکھا تھا اور یہ احساس یقین میں بدلنے لگتا ہے کہ:
بیڑیاں آج بھی پہنے ہیں اسیرانِ وطن
فرق اتنا ہے کہ زنجیر میں جھنکار نہیں

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔