Monday 13 March 2017

کیا ہم یوم الفتح کے لیے تیار ہیں؟

0 comments
کیا ہم یوم الفتح کے لیے تیار ہیں؟
از قلم:- ذیشان احمد مصباحی

تاریخ یوم الفتح:-
۱۰؍رمضان ۸ھ/۱۱؍جنوری ۶۳۰ء کو تاریخ انسانی کی بے مثال فتح  ’’فتح مکہ‘‘ ہوئی- پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ آبائی شہر تھا، جس میں ان کے جد اعلیٰ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا تعمیر کردہ ’’کعبۃ اللہ‘‘ موجود تھا- اسی شہر کے مکینوں کی ستم رانیوں سے تنگ آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ۸؍ سال پہلے اس شہر کو خیر باد کہہ کر مدینہ منورہ ہجرت کرنا پڑا تھا- اسی شہر میں آپ کی دعوت کا مذاق اڑایا گیا، آپ پر ستم کے پہاڑ توڑے گئے، آپ کے متبعین کے ساتھ غیرانسانی سلوک روا رکھا گیا- جب آپ نے اپنے عقیدت کیشوں کے ساتھ مکہ چھوڑ دیا پھر بھی اہل مکہ کو قرار نہیں آیا- وہ آزار کے نت نئے ڈھنگ تلاش کرتے رہے، جس کے نتیجے میں بدر و احد جیسی تاریخی جنگیں لڑنی پڑیں اور شکست و ریخت سے بار ہا دوچار ہونے کے باوجود بھی ان کا غرور سرد نہیں پڑا- اس بیچ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم اپنی حکمت بالغہ سے قبائل عرب کے دل و دماغ پر اپنی عظمت کے نقوش ثبت کرنے میں کامیاب ہوگئے- انصار و مہاجرین کو بھائی بھائی بنادیا- اوس و خزرج کے تنازعات کو ختم کردیا- قبائل یہود سے معاہدے کرلیے اور قبائل عرب کو دعوت اسلام دے کر اپنا ہمنوا بنالیا اور بالآخر ایک ’’اسلامی ریاست‘‘ کی تشکیل فرمائی جس کے حاکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور یہ سب کچھ کرلینے کے بعد جب آپ نے ذی الحجہ ۶ھ /مارچ ۶۲۸ء میں عمرہ کے قصد سے ۱۴۰۰ اصحاب کے ساتھ مکہ میں داخل ہونا چاہا تو مکہ والوں نے روک لیا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اس پوزیشن میں تھے کہ جنگ کر کے بزور طاقت مکہ میںد اخل ہوجاتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا- اس کی بجائے آپ نے ایک تحریری معاہدے کے تحت بظاہر دب کر دس سالوں کے لیے معاہدۂ صلح کرلیا اور بغیر عمرہ کیے واپس ہوگئے- آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے اس صلح کے ذریعہ حاصل شدہ دور امن کا استعمال دعوتی کاز کے لیے کیا اور ملکی و عالمی دعوت پر اپنی نگاہیں مرکوز رکھیں- اب پورے عرب میں بے روک ٹوک اسلام کی دعوت عام کی جانے لگی- گروہ در گروہ قبائل عرب اسلام سے جڑنے لگے، قیصر و کسریٰ تک اسلام کی دعوت پہنچائی جانے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام غربت کے دور سے نکل کر غلبہ کے دور میں داخل ہوگیا- اتفاق سے اس بیچ اہل مکہ کی طرف سے معاہدۂ حدیبیہ کی خلاف ورزی عمل میں آئی- اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کوئی چیز مانع نہیں رہی- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائے واحد کی عبادت کے لیے تعمیر شدہ کعبۃ اللہ کو بتوں سے پاک کرنے کی غرض سے مکہ روانہ ہوئے- راستے میں جوق در جوق قبائل عرب شریک سفر ہوتے رہے اور ۱۰؍ہزار افراد کے ساتھ جب آپ مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت جنگ کرنا تو دور کی بات کسی میں نظر ملانے کی بھی تاب نہ تھی- آپ نے سرکشوں کو بھی یہ کہہ کر معاف کردیا کہ ’’آج تم پر کوئی مواخذہ نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو-‘‘ اس طرح فتح مکہ بغیر کسی مزاحمت کے حاصل ہوئی اور اسلام کا پرچم پورے عرب پر لہرانے لگا-
عصر حاضر میں عالمی اسلامی ریاست کی تشکیل:- 
شیخ حسن البناء (۱۹۰۶-۱۹۴۹) نے ۱۹۲۸ء میں الاخوان المسلمون تشکیل کی، جس کے اثرات بہت جلد عالمی سطح پر محسوس کیے گئے- مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳-۱۹۷۹) بھی اس تحریک سے متاثر ہوئے اور اگست ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی- ان دونوں کی نیتوں پر اگر شبہ نہ کیا جائے تو ان دونوں تحریکوں کا مقصد اسلامی اصولوں پر اسلامی حکومت کی تشکیل تھا- آج ایک صدی کی تین چوتھائی گزر جانے کے بعد کوئی اسلامی حکومت تو قائم نہ ہوسکی- دونوں تنظیمیں خود اپنے دیار مصر اور پاکستان میں اجنبی بن گئیں، خلافت علی منہاج النبوۃ کے دعویدار، دنیا دار قسم کے سیاسی لیڈروں کی خوشامد میں لگ گئے، البتہ یہ ضرور ہوا کہ مودودی صاحب کے تفردات و اجتہادات سے قطع نظر اسلامیات پر ایک اچھا ذخیرۂ کتب جمع ہوگیا، جسے پڑھ کر ہمارے بعض نوجوان دن کے اجالے میں ہندوستان اور امریکہ میں اسلامی حکومت کے قیام کا خواب دیکھنے لگتے ہیں- وہ اچانک پارلیمنٹ اور وہائٹ ہاؤس کو دارالشوریٰ میں تبدیل کردینے کے منصوبے پر غور کرنے لگتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ موقع ملتے ہی کلرک جاب کی طرف ایسے لپکتے ہیں جیسے گیدڑ پس خوردہ شیر کی طرف لپکتا ہے- پچھلے چند سالوں میں دہلی کے اندر ایسے کئی نوجوانوں کے بارے میں جاننے کا اتفاق ہوا جو ہندوستان میں ’’خلافت موومنٹ‘‘ چلا رہے ہیں- یہ لوگ پوری دنیا میں اسلامی حکومت کا پھریرا بلند کرنا چاہتے ہیں، تمناؤں میں الجھے یہ بے چارے یوم الفتح کا خواب دیکھ رہے ہیں، جس کے بعد پوری دنیا اسلام کے زیر نگیں ہوجائے، لیکن یہ معصوم نوجوان ان تدریجی مراحل سے بالکل بے خبر ہیں، جن پر چل کر نبی دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم یوم الفتح تک پہنچے تھے- انہیں صرف نتیجے کی فکر ہے اور یہ منزل کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں، جب کہ نہ انہیں راستوں کا علم ہے اور نہ دشوار گزاریوں کی خبر ہے- نوجوانی کا جنون کبھی کبھار ان سے وہ کام لے لیتا ہے جس سے دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کی تحریک کو فروغ مل جاتا ہے- جب کہ یوم الفتح سے قبل مسلمانوں میں مواخات، غیر مسلموںسے معاہدے، عالمی دعوت و تبلیغ، عددی و فکری اکثریت کا حصول، یہ وہ بنیادی لوازم ہیں جن کے بعد ہی دشمن سپر انداز ہوتا ہے اور بغیر خون خرابے کے فتح مبین کا حصول ہوتا ہے-لیکن عصر حاضر میں بین الاقوامی اسلامی ریاست کی تشکیل کا خواب دیکھنے والے الٹی منطق کا شکار ہیں- وہ جوش میں ہوش گنواں کر شراب کو سیخ اور کباب کو بوتل میں ڈالنے کے در پے ہیں-
کیا ہم یوم الفتح کے لیے تیار ہیں؟:-
عصر حاضر کے بعض سنجیدہ ارباب فکر و دانش کا خیال ہے کہ اس وقت مسلمان مکی دور میں ہیں- گلوب پر مسلمانوں کی نہ عددی اکثریت ہے نہ تعلیمی، معاشی و اقتصادی اور نہ ہی فکری و اعتقادی، کہنے کو تو پچاس سے زائد مسلم ریاستیں ہیں، لیکن سب ہی باطل قوتوں کے دست نگر، ان میں اتنی بھی سکت نہیں کہ اپنی شرطوں پر غیر مسلم ریاستوں سے معاہدے کرلیں- اسرائیلی، امریکی اور برطانوی افواج جب جس پر چاہیں بموں کی بارش کر کے چلی جائیں اور اس کے بعد مسلمان فریاد و ماتم کریں- عرب ممالک کو قدرت نے سونے کے سمندر عطا کیے ہیں، لیکن ان کی فکریں مفلوج اور عقلیں امریکہ و برطانیہ کی گروی ہیں- فلسطین، چیچنیا، کشمیر اور گجرات سے مسلم آہیں بلند ہوتی ہیں اور مسلمان دو اشک بہانے سے زیادہ کچھ نہیں کرپاتے- بابری مسجد دن کے اجالے میں شہید کی جاتی ہے اور میڈیا میں قاتلوں اور مجرموں کے چہرے صاف طور سے دکھائے جاتے ہیں، مگر اس کے باوجود اس کی رپورٹ کے آنے میں ۱۸؍ سال لگ جاتے ہیں، سزا کا اعلان تو شاید مجرموں کے مرنے کے بعد ہو- یہ سارے حوالے اس بات کو بتارہے ہیں کہ مسلمان مکی دور سے گزر رہے ہیں- اس لیے مسلمانوں کو وہی کچھ کرنا چاہیے جو رسول اور اصحاب رسول نے مکی دور میں کیا، جسے دو لفظوں میں استقامت علی الدین اور صبرو در گزر کہا جاسکتا ہے-مکی دور کی ایک اور خصوصیت ہے، اس دور میں رسول کریم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم صبر و شکر کے ساتھ اسلامی دعوت میں پورے انہماک سے لگے رہے اور دعوت کا رخ صرف اہل مکہ تک محدود نہیں رکھا، بلکہ بیرونی وفود تک اسلام کی دعوت پہنچائی، گو کہ اس دعوت کے سامنے بہت ساری رکاوٹیں اور دشواریاں حائل تھیں، مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مشن سے جڑے رہے اور مکہ میں رہتے ہوئے مکے سے باہر اپنے اعوان و انصار کی ایک جماعت پیدا کردی-
موجودہ دور میں ہم اپنا محاسبہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم صرف غلبۂ اسلام کا خواب دیکھتے ہیں، استقامت علی الدین کا فریضۃ کسی اور کے لیے چھوڑ رکھا ہے- دین ہمارے وجود سے دور ہوگیا ہے- دین کے نام پر جو کچھ بچا ہے، وہ ذہنی آسائش اور فکری رفتار ہے- عملی زندگی میں دینی اثرات بہت کم نظر آتے ہیں- صبر و اعراض تو ہم میں ہے ہی نہیں، زود رنجی کوئی ہم سے سیکھے، بات بات پر بگڑنا ہماری فطرت ثانیہ ہے، پورا وجود محکومی سے دوچار ہے لیکن حاکمانہ بخار ابھی بھی ہمارے ذہنی دریچے میں چھپا ہوا ہے اور جہاں تک دعوت و تبلیغ کی بات ہے تو پوری دنیا میں اس کے وسیع تر امکانات کے موجود ہونے کے باوجود ہم ابھی اس میں الجھے ہوئے ہیں کہ پہلے یہ طے کرلیں کہ ہمارا اصل حریف کون ہے اور پھر یہ طے کریں کہ عالمی اسلامی دعوت کے طریقے اور ذرائع کیا ہوںگے؟ اس طرح یہ غیر ضروری مباحث اصل دعوت کی راہ میں بری طرح رکاوٹ پیدا کررہی ہیں-
ممکن ہے کہ بعض اہل دانش کو اس امر میں اختلاف ہو کہ مسلمان آج مکی زندگی میں ہیں اور وہ دلیل میں یہ کہیں کہ آج دنیا مختلف معاہدوں کے رو سے چل رہی ہے، مسلمان بھی ان معاہدوں کے پابند ہیں اور انہی معاہدوں کے رو سے انہیں پوری دنیا میں سفر کرنے اور اسلامی دعوت عام کرنے کا حق حاصل ہے- اس طرح گویا آج مسلمان میثاق مدینہ کے عہد میں جی رہے ہیں- ایسے میں ان کا فرض ہے کہ وہ عالمی معاہدوں کا احترام کریں اور عالمی دعوتی امکان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالم گیر دعوتی مشن میں لگ جائیں، بجائے اس کے کہ وہ وہائٹ ہاؤس پر جھنڈا لہرانے اور پارلیمنٹ کو دارالشوریٰ بنانے کی سوچیں- مسلمانوں کی اس سے بڑی نادانی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس کا اختیار انہیں حاصل ہے اس سے تو نظریں چرائیں اور جو چیز ان کے اختیا رسے باہر کی ہے اس کے درپے ہو کر عام مسلمانوں کی تباہی کا سامان پیدا کریں-
https://drive.google.com/file/d/0B7PawD8kIlKuWW1sYmdfZ2dqWmc/view?usp=sharing

https://docs.google.com/uc?export=download&id=0B7PawD8kIlKuWW1sYmdfZ2dqWmc

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔