Tuesday 14 March 2017

اہلِ سنت کی تفہیمِ جدید

0 comments
اہلِ سنت کی تفہیمِ جدید
چیچینیا کانفرنس میں اہل سنت کی تشریح و تعبیر کا پس منظر و پیش منظر
از قلم:- ذیشان احمد مصباحی
عصرحاضر میں اہل سنت کی تعریف و توضیح ملکی اور عالمی تناظر میں کس قدرضروری ہوگئی ہے ،اس کا ثبوت درج ذیل دو واقعات ہیں:
(۱)مجلس شرعی مبارک پور کے ۲۲؍ویں سیمینار منعقدہ ۹-۱۱؍دسمبر۲۰۱۴ء میں ایک موضوع ضروریات دین اور ضروریات اہل سنت کی تنقیح وتوضیح بھی تھا-
(۲)۲۵؍اگست ۲۰۱۶ء کو چیچینیا کے صدر رمضان قدیر وف کی دعوت پر ایک عالمی اجلاس منعقد ہوا ،جس کا واحد مقصد اہل سنت کی تشریح و تعبیر کرنا تھا،اس کے شرکا میں شیخ الازہر احمدطیب،شیخ حبیب علی جفری ، جمہوریہ مصر کے سابق مفتی اعظم شیخ علی جمعہ اور موجودہ مفتی اعظم شیخ ابراہیم شوقی علام کے ساتھ مسلم دنیا کے درجنوں مشاہیر علما،فقہا اور مشائخ شامل تھے-
پہلا واقعہ اگر ملکی تناظر میں ہے تو دوسرا عالمی تناظر میں-یہ مسئلہ کس قدر اہم ہے ،اس کی تعبیر و تشریح کس قدرضروری اور دقت طلب ہے ،اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ’’ مجلس شرعی‘‘ مبارک پورمیں جو علما شریک ہوئے ،ان میں بعض وہ بھی تھے،جنھوں نے ضروریات دین کی فہرست  میں اس عقیدے کو بھی شامل کیا تھا کہ رسول پاک ﷺ کو اس طرح تسلیم کرنا کہ آپ عالم ماکان ومایکون ہیں-اسی طرح ضروریات اہل سنت  کے تحت درج ذیل امور کو بھی شامل کیا تھا: 
(الف): سرکارغوث اعظم کو کل اولیا کا سردارماننا۔ (۱)
(ب): جمعہ کی اذان ثانی کو مسجدسے باہر کہے جانے کو مستحب کہنا۔ (۲)
(ج):اقامت میں حی علی الفلاح پر کھڑاہونا۔ (۳)
(د):نماز میں آمین بالجہرنہ کرنا۔ (۴) 
(ہ): علما ومشائخ اہل سنت سے عموماً اور اعلیٰ حضرت سے خصوصاً محبت و عقیدت کا اظہار کرنا۔ (۵) 
ملکی اور عالمی پیمانے پر اہل سنت کی تعبیر و تشریح اور توضیح کس قدر ضروری ہے،اس سلسلے میں چند باتیں مزید قابل ذکر ہیں:
(۱) مصر اور دیگر بلاد عالم میں اہل سنت و جماعت خود کو صوفی کہنے لگے ،نتیجہ یہ نکلا کہ جدید افکار وخیالات کے حاملین ،متشدد جماعتیں ،ائمہ مجتہدین اور اولیائے صالحین پر تبرا کرنے والے،بات بات پر کفرو شرک کا فتویٰ لگانے والے،حتی کہ اہل قبلہ کو مباح الدم سمجھنے والے اور خون کی ندیاں بہانے والے اہل سنت بن گئے-اب ایسے میں شیوخ ازہراور عالم اسلام کے دیگر اکابر اہل سنت کواپنی خطا کا شدت سے احساس ہورہا ہے اور وہ اہل سنت و جماعت کے لقب کو پھر سے حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں،جو ان سے دوسروں نے غصب کررکھا تھا-
(۲)کچھ یہی حال ہندوستان میں ہوا-سید سلیمان ندوی کے بقول ہندوستان کے قدیم مسلک پر سختی سے جمے رہنے والے بدایونی علما تھے ، اسی روایت کو بریلوی علما نے آگے بڑھایا -ظاہر ہے ،یہی مسلک اہل سنت اور مسلک اہل تصوف تھا،لیکن بیس ویں صدی میں یہ مسلک ’’بریلوی‘‘ کے نام سے متعارف ہوا-پروفیسر مسعود احمد نقش بندی کے بقول یہ کام اعلیٰ حضرت مولانا احمدرضا خاں فاضل بریلوی کے مخالف علما نے کیا-لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ خود ان کے موافق علما کو یہ لقب اتنا پسند آیا کہ وہ خود کو فخریہ بریلوی کہنے لگے اور اسی پر بس نہیں ہوا،بلکہ بعض علما کو اس پر اصرا ر بھی ہوگیا-یہ بات اس لیے بھی درست ہے کہ ۲۰۰۷ء میں جب راقم نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ’’بریلوی ‘‘غیروں کا دیا ہوا لقب ہے ،ہمیں خود کو اہل سنت ہی کہنا چاہیے تو اس پر بریلوی حلقے سے شدیداحتجاج ہوااورآج جب میں ’’سنی بریلوی علما ‘‘لکھتا ہوں تو بعض (بریلوی )احباب مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ آپ اس طرح کی تعبیر استعمال نہ کریں-بہرحال اس میں شک نہیں کہ قدیم مسلک اہل سنت کو جس طرح عالم عرب میں مسلک صوفیہ کا عنوان دے دیا گیا،اسی طرح برصغیر ہندوپاک میں اسے بریلویت یا مسلک اعلیٰ حضرت کا عنوان دے دیا گیا-ظاہرہے ،جب یہ عنوان سازی ہورہی تھی اس وقت احباب اہل سنت کی نگاہوں میں اس کے منفی اثرات نہیں تھے،جو مستقبل میں پیش آنے والے تھے-اب اس کا احساس شدید ہونے لگا ہے،اب برصغیر میں بھی یہ اصطلاح غیر واضح ہوکر رہ گئی ہے-بریلویت اہل سنت کی نمائندگی کرنے کے بجائے عام نگاہوں میں ایک مخصوص فرقے کی علامت بن گئی ہے-برصغیر میں بھی اب اس بات کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے کہ اہل سنت کی قدیم تعبیر کی بازیابی ہواور اسے اس کا صحیح مقام دیا جائے-
(۳)اہل سنت کے اپنے عقائد و امتیازات ہیں،جن کا توارث صدیوں پر محیط ہے-اہل سنت کی تعبیر و تشکیل انہی بنیادوں پر کی جانی چاہیے- اہل سنت کو انہی افکارو عقائد کی روشنی میں پیش کیا جاسکتا ہے-مسلمانوں کے سواد اعظم نے جن عقائد پر اتفاق کیا،وہی اہل سنت کے عقائد ہیں- جن عقائد میں خود علمائے اہل سنت مختلف ہوگئے،وہ سنیت کے عقائد نہیں ہیں،وہ ثانوی درجے کے فروعی عقائد ہیں،جو کبھی سنیت کی بنیاد نہیں بن سکتے - مثال کے طور پر اعلیٰ حـضرت فاضل بریلوی ،پیغمبر آخرالزماں ﷺ کے لیے علم ماکان ومایکون ثابت مانتے تھے،لیکن جب ایک عرب عالم کی کتاب ان کے موقف کے خلاف آئی ،جو اتفاق سے ’’حسام الحرمین‘‘کے مصدقین میں تھے ،اس پر فاضل بریلوی کے مخالفین نے واویلا مچایااورکہا کہ فاضل بریلوی کہتے ہیں کہ یہ ان کے فتویٰ’’حسام الحرمین‘‘کے مصدق ہیں،جب کہ یہ فاضل بریلوی کے علم غیب کے موقف کو تسلیم نہیں کرتے- اس پرفاضل بریلوی نے واضح کیا کہ اگرمذکورہ عالم دین علم ماکان و مایکون کا انکارکرتے ہیں تو یہ ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے،کیوں کہ اہل سنت خود اس مسئلے میں مختلف ہیں-اکثر فقہا اور محدثین اس کے مخالف ہیں،جب کہ صوفیہ اس کے قائل ہیں اور میں یہاں صوفیہ کے مسلک پر ہوں-فاضل بریلوی نے یہ بھی واضح کیا کہ عقائد کا پہلا درجہ ضروریات دین کا ہے،جس پر اسلام کی بنیاد ہے-دوسرا درجہ ضروریات اہل سنت کا ہے،جن پر تمام اہل سنت متفق ہیںاور ان سے اختلاف رکھنے والا گمراہ ہے،تاہم دین سے خارج نہیں ہے اورتیسرا درجہ وہ ہے،جس میں خود اہل سنت مختلف ہیں، ان کا ماننایا نہ ماننا،مدارسنیت نہیں ہے- تفصیل کے لیے دیکھئے فاضل بریلوی کارسالہ’’خالص الاعتقاد‘‘-
فاضل بریلوی کے اس واضح موقف سے اہل سنت اور سنیت کو سمجھنا کس قدر آسان ہے-لیکن افسوس کہ خو دان کے محبین کے بڑے حلقے میں یہ فکر جمی ہوئی ہے کہ فاضل بریلوی کے ہرہرموقف اور نظریے کوتسلیم کرناعین سنیت ہےاور ان کے کسی بھی نظریے سے علمی اختلاف کرناان سے اور سنیت سےبغاو ت ہےاور اعلیٰ حضرت کی محبت عین سنیت اور ان سے محبت نہ کرنا گمرہی ہے-بعض حضرات بہت نیچے آئے تو یہ کہنے لگے کہ اعلیٰ حضرت سے مسائل میں تو اختلاف کیا جاسکتا ہے،عقائد میں کسی طرح اختلاف روانہیں ہے- 
  (۴)ابھی کچھ دنوں قبل’’امین شریعت‘‘(بریلی)نامی ایک رسالے پر نظر پڑی -مضمون نگار کوئی مفتی خالد علی رضوی شمسی ہیں-مضمون کا مہمل اور بے معنی عنوان یہ تھا’’فتنوں سے خبرادرمیری بے خبری ہے‘‘-یہاں اسی مضمون کا ابتدائی حصہ حاضر خدمت ہے:     
’’ایک سازش کے تحت ضروریات دین کے مقابل ضروریات مذہب اہل سنت کی اصطلاح پڑھنے کو مل رہی ہے،اس پر بعض احباب نے عام فہم تبصرہ کی درخواست کیا (کی)ہے-وہابیوں ،دیوبندیوں اور دیگر مرتدین کو حکم کفر سے بچانے اور حسام الحرمین شریف جس میں ایسوں کی علمائے عرب و عجم نے تکفیرکیا(کی)(۶)،اس کوبے اثرکرنے کے لیے ضروریات دین کے مقابل ضروریات اہل سنت کی اصطلاح ایجاد کی گئی ہے - جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے بائیسواں (بائیس ویں)فقہی سیمینار میں پہلی مرتبہ یہ اصطلاح سامنے آئی، جس پر سیمینار کے ایک مندوب مولوی(مفتی) رضاء الحق اشرفی نے یوں اظہار خیال فرمایا کہ اب سے پہلےقدیم و جدید کتابوں میں میرے مطالعہ کی حد تک یہ اصطلاح یعنی ضروریات دین کے مقابل ضروریات اہل سنت دیکھنے کو نہیں ملی،مولوی رضاء الحق صاحب کو حیرت اس لیے ہوئی کہ انھوں نے اب تک ضروریات دین کی تعبیر سنیت اور سنیت کی تعبیر ضروریات دین ہی پڑھا تھا(پڑھی تھی) اور دونوں اصطلاحوں میں وہ نسبت تساوی جانتے تھے،مگر ضروریات دین کے مقابل ضروریات اہل سنت کو لایا گیا تو انھیں کہنا پڑا ، جو سطور گزشتہ میں مسطور ہوا،مگر سوال ہے کہ ایسی صریح باطل بات پر بھی مولوی رضاء الحق کے علاوہ اور کسی نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟‘‘   
مفتی صاحب قبلہ سے میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ ’’ضروریات دین‘‘ کے مقابل ’’ضروریات اہل سنت‘‘نئی ایجا د یا نئی اصطلاح نہیں ہے اور نہ کوئی سازش ہے،اس پر خود سے غور فرمالیں تو بہتر ہوگا،ورنہ ایں طعن منجرمی شود بہ اکابر دین-سردست آپ فاضل بریلوی کی کتاب ’’خالص الاعتقاد ‘‘ضرورپڑھ لیں،مجھے یقین ہے کہ آپ جامعہ اشرفیہ،مبارک پور کے سیمینار کے خلاف احتجاج کے بجائے تائیدکرناپسندفرمائیں گے-
 قارئین سے عرض ہے کہ یہ طویل اقتباس نذرکرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ موجودہ زمانے میں سنیت کی تعبیر و تشریح کس قدر ضروری ہوگئی ہے،کیسے کیسے لوگ دین اور سنیت کی حقیقت سے بے خبررہ کر بھی خود کو باخبر سمجھ رہے ہیں-علما کا یہ حال ہے تو عوام کا کیا ہوگا،اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے-
  چیچنیااعلامیہ پرچندسوالات:-
کہاوت ہے کہ بیل پکے تو کوے کوکیا؟یہ کہاوت مجھے اس وقت زیادہ یاد آئی ،جب گزشتہ دنوں چیچینیا کی راجدھانی گروزنی میں منعقد کانفرنس ’’اہل سنت کون ہیں؟‘‘پر ہندوپاک کے سنی بریلوی حلقے میں ضرورت سے زیادہ شادیانۂ مسرت کی گونج سنائی دی-ایک صاحب نے اس کی اردو رپورٹ میرے واٹس ایپ پر بھیجی ،جس میں اس بات کی صراحت تھی کہ وہابیوں کو سنیت سے خارج کردیا گیاہے-اس کے نیچے آں موصوف نے مجھے کلمات تبریک پیش کرتے ہوئے لکھا کہ مبارک ہو کہ وہابیوں کو اسلام سے خارج کردیا گیاہے-میں نے قبلہ موصوف سے پوچھاکہ کہاں اور کس نے خارج کیا ؟جواب آیا ،چیچینیا کانفرنس میں-میں نے عرض کیا :لیکن آپ کی رپورٹ میں تو اس کا ذکر نہیں ہے،کہیں ایسا تو نہیں کہ سنیت سے اخراج کو آپ اسلام سے اخراج سمجھنے کی غلطی کررہے ہیں؟بے چارے خاموش ہوگئے-آں موصوف کے علاوہ بھی بہت سے بریلوی حضرات اس بات پر سوشل میڈیا میں بغلیں بجارہے تھے کہ چیچینیا کانفرنس میں وہابیوں کو سنیت سے خارج کرکے اسلام سے خارج کردیا گیا ہے اور علمائے عرب اور شیوخ ازہر کا فیصلہ ہمارے بریلویانہ موقف کو مستحکم کرتا ہے،حالاں کہ چیچینیا کانفرنس میں اہل سنت کی تعبیر و تشریح ان کی محدود فکر وخیال پر کسی تازیانے سے کم نہیں-یہ سب دیکھتے ہوئے فیس بک کی وال پر ہم نے درج ذیل سوالات قائم کیے:    
 ’’خبروں کے مطابق چیچنیا کانفرنس میں اشعریت اور ماتریدیت کے ساتھ تصوف اور تقلید کو بھی سنیت کا لازمی حصہ قرار دیا گیا ہے، اس پر یہ سوال اپنی جگہ کہ اس وقت اس کانفرنس کے سیاسی اور سماجی پس منظر کیا ہے،ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سنیت کی مذکورہ بالا تعریف ہندوپاک کے سنی بریلوی حلقے کے لیے قابل قبول ہے؟ یا یہ کہ سنیت کی عالمی یا مقامی صورت حال کے پیش نظر ابھی اس میں مزید شرطوں کا اضافہ لازمی ہے؟ اگر اضافہ لازمی ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ اضافی شرطیں کیا ہیں؟ اور کیا ہندوپاک کے نمائندگان اہل سنت ان شرطوں کے اضافے کے لیے مذکورہ بالا کانفرنس کے ذمہ داروں سے یا شیوخ ازہر سے جو اس کانفرنس میں پیش پیش تھے، رابطہ کرنے کی زحمت کریں گے؟
کانفرنس کی مذکورہ بالا قرار داد سے یہ صاف ہو گیا ہے کہ وہابیہ اہل سنت سے نھیں ہیں، اس پر ہندوپاک کے سنی بریلوی حلقے میں بڑی مسرت ہے، لیکن اب یہاں یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیا ہندوپاک کا بریلوی طبقہ وہابیوں کے سنیت سے اخراج پر قانع ہے یا مزید آگے بڑھ کر وہ ان کو دین سے بھی خارج کریں گے؟
اگر یہ حضرات صرف سنیت سے اخراج پر قانع ہیں تب تو انھیں حج کے ایام میں وہابی امام کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی تکلف نھیں کرنا چاہیے کیوں کہ اہل سنت کا موقف یہی ہے کہ اگر امام بدعتی ہے اور اس کے عزل پر قدرت نھیں اور دوسرا آپشن نھیں تو جماعت اور جمعہ اس امام کے پیچھے ادا کی جائے گی اور اس کا اعادہ بھی نھیں کیا جائے گا، جو لوگ اہل بدعت کے پیچھے نماز کو مطلقا ناجائز کہتے ہیں وہ اہل سنت کے نزدیک اہل سنت نھیں، اہل بدعت ہیں- اسی اصول کے پیش نظر شیوخ ازہر وہابیہ کو سنیت سے خارج بھی کرتے ہیں اور ان کے پیچھے نمازیں بھی پڑھتے ہیں-
اور اگر ہندوپاک کے سنی بریلوی وہابیوں کے سنیت سے اخراج پر قانع نھیں ہیں تو پھر انھیں چاہیے کہ چیچنیا کانفرنس کی قرار داد پر جلسۂ مسرت کرنے کے بجائے جلسۂ احتجاج کریں اور شیوخ ازہر سے وہابیہ کی تکفیر کا مطالبہ کریں، بصورت دیگر خود شیوخ ازہر کے حوالے سے اپنی رائے قائم کریں اور یہ بتائیں کہ وہابیہ کو مسلمان سمجھنے والے کا کیا حکم ہے؟ وہابیوں کو مسلمان سمجھنے والے کافر ہیں، خارج از اہل سنت ہیں یا خود بھی وہابی ہیں؟
چیچنیا کانفرنس کی قرار داد کی رو سے ہندوپاک میں بڑی تعداد میں موجود دیوبندیت کا کیا حکم ہے؟ اس پر بھی گفتگو کی جانی چاہیے، یہ جماعت اشعریت و ماتریدیت کے ساتھ تصوف اور تقلید کی بھی قائل ہےـ، بعض حلقے سے اس قسم کی آواز آئی ہے کہ اس کانفرنس میں دیوبند کا کوئی نمائندہ شریک نھیں ہوا، جس کے معنی یہ ہیں کہ دیوبند بھی سنیت سے خارج ہے، میں کہتا ہوں کہ اگر یہ استدلال درست ہو تو اس کی رو سے صرف دیوبندیت ہی نھیں، بریلویت بھی سنیت سے خارج ٹھہرے گی ،کیوں کہ اس کانفرنس میں بریلی سے بھی کوئی نمائندہ شریک نھیں تھا- ہاں یہاں یہ بات ضرور کہی جائے گی کہ دیوبندیت تقلید و تصوف اور اشعریت و ماتریدیت کے ماننے کے باوجود سنیت بلکہ دین سے خارج ہے، کیوں کہ اساطین دیوبند پر گستاخی رسالت اور انکار ضروریات دین کی پاداش میں حسام الحرمین میں کفر کا فتوی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ تشریح اپنی جگہ مطلوب ہے کہ دیوبند کے چار اساطین کی تکفیر کا انطباق عصر حاضر میں کن کن پر ہوتا ہے؟ یہ مرحلہ اگر فخر ازہر کہے جانے والے مفتی اختر رضاخان ازہری اور دیگر بریلوی علما کے اتفاق سے طے ہوجاتا ہے تو اس کے بعد ان کو چاہیے کہ اس پر شیوخ ازہر کی تصدیقات بھی حاصل کریں، کیوں کہ اس وقت عالمی سطح پر ازہر اسلام اور سنیت کی نمائند گی کررہا ہے، ایسے میں آج حسام الحرمین سے کہیں زیادہ حسام الازہر کی ضرورت ہے-
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه، اللهم اهدنا الصراط المستقیم واجمع الأمة المسلمة علیہ، واحفظ قلوبنا من أمراض النفاق، والتحزب والتفرق، لک الحمد، و منک البدایۃ والیک النھایۃ- ‘‘
جوابات: فیس بک پر پوسٹ ہونے والے مذکورہ سوالات پر درجنوں احباب نے کمنٹس کیے-بعض تائیدی تھے تو بعض میں جزوی یا کلی طور پر اختلا ف و احتجاج بھی تھا،لیکن کسی بندۂ خدا نے ان سوالات کے جوابات نہیں دیے-اب ذیل میں چند اہم جوابی نکات رقم کیے جاتے ہیں-
کانفرنس کا پس منظر:-
خوارج عصر جواس وقت عالم اسلام اور عالم انسانیت میں خون کی ندیاں بہا رہے ہیں،یہ لوگ خود کو مسلمان اور اہل سنت و جماعت ہونے کے مدعی ہیں-گروزنی کانفرنس کے مختلف رپورٹس اور تبصروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل نشانہ انہی خوارج کو سنیت اور اسلام کی نمائندگی سے خارج کرنا تھا-یہ قابل ستائش قدم تھا- دلچسپ بات یہ ہے کہ چیچینیا کانفرنس کا جو اعلامیہ جاری ہوا ہے ،اس میں نامزد طور پر سعودی اور وہابی علما کو بھی سنیت سے خارج نہیں کیا گیا ہے بلکہ اہل سنت کے طبقات میں اشاعرہ اور ماتریدیہ کے علاوہ ان محدثین کو بھی شامل کیا گیا ہے،جو اشاعرہ اور ماتریدیہ کی طرح صفات باری میں تاویل کے قائل نہیں ہیں بلکہ تفویض کے قائل ہیں-ظاہر ہے ،یہی امام احمد ابن حنبل اور حنابلہ کا مذہب ہے-سعودی علما بالعموم اپنے آپ کو حنبلی مکتب فقہ سے جوڑتے ہیں،شیخ ابن تیمیہ اور شیخ ابن عبدالوہاب کو بھی یہ حضرات حنابلہ میں شمار کرتے ہیں،ایسے میں وہابی علما کو گروزنی کانفرنس سے خوش ہونا چاہیے تھا،لیکن انٹرنیشنل میڈیا اور انٹرنیٹ پر ہونے والے ان کے تبصروں سے ان کے شدید ردعمل کا اندازہ ہوا- یہ احتجاج ان کی طرف سے گویا اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کا تعلق امام احمد ابن حنبل کے مسلک تفویض سے نہیں ہے اور شاید وہ تفویض پر راضی نہ رہ کر تشبیہ اور تجسیم کے مدعی ہیں-نعوذ باللہ من ذالک وھدانا اللہ و ایاھم- 
کانفرنس کے پس منظر کے تعلق سے درج بالا وضاحت کے باوجود محب گرامی مولانا منظرالاسلام ازہری کے وہ سوالات اپنی جگہ ہیں ،جو انھوں نے ’’جام نور‘‘کے سوالات کے جواب میں فیس بک پر لکھا ہے:   
’’اس وقت میری دلچسپی صرف یہ جاننے کی ہے کہ کیا مسلمانوں کا مسئلہ اس وقت سنیت کی تعریف ہے یا عالم اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے عذاب سے نکالنے کی فکر ؟یہ مشائخ یقیناً ہمارے لیے قابل احترام ہیں، مگر کیا سعودی، چین، برما، سوڈان، ہندوستان، عراق، یمن، شام، لیبیااور ان جیسی دوسری حکومتوں سے کھلے عام یہ مطالبہ نہیں کرسکتے کہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکا جاے؟ کیا یہ وقت اس بات کا نہیں ہے کہ مشائخ عالم عرب کی حکومتوں سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ یورپ اور امریکا جیسی بڑ ی طاقتوں سے اپنی شرط منوانے کی کوشش کریں؟ اس وقت سنیت کی تعریف کرنا اور کسی کو مسلمان رکھنے اور نہ رکھنے پر اتفاق کرنا امت کا مسئلہ نہیں ہے- علماے ہند کی ذمہ داری ہے کہ وہ بہ حیثیت امت سامنے آئیں اور امت کی فکر کریں-‘‘
سنی بریلوی علما کااتفاق؟
ہندوپاک کے معاصرسنی بریلوی علما کو جہاں تک میں جانتا ہوں ،وہ چیچینیا کانفرنس میںسنیت کی مذکورہ بالاتعریف سے اتفاق نہیں کرسکتے، کیوں کہ وہ ’’حسام الحرمین‘‘کی تصدیق سے دست بردار نہیں ہوسکتے،اس کے بعد یہ بڑا اور اہم سوال قائم ہوجاتا ہے کہ سنیت کسی متعین فکر یا عقیدے کی تصدیق کا نام ہے یاکسی کتاب یا فتوے کی تصدیق کا نام؟موجودہ گلوبلائزیشن کے عہد میں مذکورہ علما کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ ان کی یہ شرط ملکی تناظر میں ہے یا عالمی تناظر میں؟بہردوصورت اپنی بات اہل سنت کے عالمی نمائندگان ،بالخصوص علمائے ازہر کے روبرو رکھنا ہوگاتاکہ اہل سنت کی تفہیم عالمی تناظرمیں ہوسکے،سنیت کی آفاقیت قائم رہے اور مستقبل میں ہماری شناخت اور تعلق اہل سنت و جماعت کے عالمی دھارے سے جڑا رہے-کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا پرسکون جذبۂ حقانیت ہمیں ہی سواد اعظم سے کاٹ دے اور ہم عالمی سطح پر خودایک فرقہ بن کر رہ جائیں ،جس کے لیے اپنوں کی طرف سے غیرشعوری سرگرمیاں اور دوسروں کی طرف سے شعوری کوششیں جاری ہیں-
وہابیہ کی تکفیر کا مسئلہ:-
گزشتہ دنوں اپنے ایک استاذ،جوجامعہ اشرفیہ مبارک پور کے مفتی بھی ہیں،سے میں نے دریافت کیا کہ حضور!وہابیہ کی تکفیر کے سلسلے میں کیا موقف ہے؟’’فتاویٰ رضویہ‘‘میں دونوں طرح کی عبارتیں ملتی ہیں،حتی کہ بعض مقامات پر اساطین وہابیت شیخ ابن تیمیہ ،شیخ ابن عبدالوہاب اور شاہ اسماعیل دہلوی کی تکفیر سے بھی خود کو روکا ہے اور اپنے آپ کو متکلمین کے مذہب پر رکھتے ہوئے عدم تکفیر کو مسلک محتاط قراردیا ہے-
استاذگرامی نے ارشادفرمایا:ہاں!یہ اشکال بہت سے لوگوں کو ہوا ہے-میں نے اس میں تطبیق کی یہ راہ نکالی ہے کہ جب تک علمائے دیوبند کی صریح کفریات سامنے نہیں آئی تھیں،اس وقت تک وہ کف لسان اور تاویل کرتے رہے اور جب یہ کفریات سامنے آگئیں تو اس کے بعد انھوں نے ان کی تکفیر کردی-
میں نے عرض کیا:لیکن موجودہ سعودی علما کو علمائے دیوبند کی کفریات کی کیا خبر؟اب تو معاملہ الٹا ہوگیا ہے اور بعض متشدد وہابیہ جس طرح بریلو یت کی تردید کرتے ہیں،اسی نہج پر دیوبندیت کی بھی تردید کرتے ہیں-تصوف کی وجہ سے اکابر پرستی اور قبر پرستی کا الزام ان پر بھی ہے-
استاذ گرامی نے کہا کہ ہاں! یہ مسئلہ تو ہے،اس پر غورکرنے کی ضرورت ہے-
دوسری طرف علمائے ازہر کو لے لیجیے کہ وہ ایک طرف وہابیت کی شدیدترید بھی کرتے ہیں،لیکن اس کے باوجود حرمین میں اقتداکے بھی قائل و عامل ہیں-اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انھیں اہل قبلہ اور اہل اسلام سمجھتے ہیں،ورنہ وہ ان کے پیچھے نماز کیوں پڑھتے،کیوں کہ اس پر تو اہل سنت کا اتفاق ہے کہ جہاں ترک اقتدا میں ترک جمعہ و جماعت لازم ہو ،وہاں اہل ہویٰ اوراہل ضلالت کی اقتدا کی جائے گی-مزید یہ کہ ابھی گزشتہ دنوں سعود ی نیشنل ڈے کے موقع پر ۲۲؍ستمبر ۲۰۱۶ء کو مفتی اعظم مصرشیخ ابراہیم شوقی علام نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو مبارک باد دی اور مصر و سعودی کے تحفظ کے لیے دعائیں کرتے ہوئے دونوں ممالک کے تعلقات استوار کیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا-واضح رہے کہ یہی مفتی اعظم اپنی دینی و علمی خدمات کے اعزاز میں امام حرم شیخ السدیس کے ہاتھوں اوائل ستمبر میں تقدیری شیلڈ سے بھی نوازے جاچکے ہیں،جس کی تفصیل برقی ذرائع پر موجود ہے-المختصر!ہندوپاک کے سنی بریلوی علما پرلازم ہے کہ وہ وہابیت کے تعلق سے اپنا موقف انتہائی واضح انداز میں پیش کریں اور اس کو اہل سنت کے عالمی دھارے سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کریں-بطورخاص علمائے ازہر-’’اگروہ اہل سنت ہیں‘‘- سے رابطے استوار کریں اور اپنی بات ان کے سامنے رکھیں تاکہ متفقہ طورپر کسی ایک نتیجے پر پہنچنا آسان ہوجائے-
اس کے علاوہ دیگر سوالات پر بھی ہمارے بڑے علما اور ذمہ داران کو غورکرنے کی ضرورت ہے،تاکہ موجودہ گلوبلائزیشن کے عہد میں ہم خود کواسلام اور سنیت کے عالمی دھارے سے جوڑکررکھ سکیں،بصورت دیگر مین اسٹریم سے فکری و عملی طورپرالگ ہونا مستقبل میں ہمارے لیے کس قدر نقصان دہ ہوسکتا ہے،اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا-                       
-----------------------------------------------------------------
 حواشی:
(۱) گویا سلسلۂ رفاعیہ،سلسلۂ مداریہ اور سلسلۂ مجددیہ کے وہ حضرات ،جوتمام اولیا پر بلا استثنا غوث پاک کو فضیلت نہیں دیتے،وہ سنیت سے خارج ہیں-
(۲) یعنی عرب و عجم کے تمام صاحب سلاسل شیوخ اورعلما،جوفاضل بریلوی کے فتوے سے پہلے یا بعد میں داخل مسجد جمعہ کی اذان ثانی کے قائل اور عامل رہے یا اب بھی ہیں، وہ سب سنیت سے خارج ہیں-
(۳) یعنی وہ تمام علما و مشائخ جو حی علی الفلاح پر کھڑے نہیں ہوتے،بیک جنبش قلم سنیت سے باہر ہیں،جب کہ بالعموم عالم عرب میں سنی علما و مشائخ کے یہاں اقامت کے شروع میں ہی کھڑا ہونا مروج ہے-
(۴) اس کا مطلب یہ ہوا کہ سنی ہونے کے لیے ’’حنفی‘‘ہونا شرط ہے،کیوں کہ احناف کے علاوہ دیگر فقہی مکتب میں’’آمین بالجہر‘‘پر عمل ہے-گویا شوافع وغیرہ سنی نہیں رہے-  
(۵) یعنی اب وہ علما و مشائخ اہل سنت ،جن سے فاضل بریلوی کےعلمی اختلافات رہے اوردونوں طرف سے تردید وابطال کا سلسلہ رہا،اگر ان کےیا ان کی اولادوں یا ان کے وابستگان کے اندر اعلیٰ حضرت سے عقیدت نہ رہی تو وہ بھی سنیت سے محروم رہے- 
(۶) مفتی صاحب کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ ’’حسام الحرمین‘‘میں صرف پانچ مخصوص اشخاص کی تکفیر کی گئی ہے،حسام الحرمین کا موضوع وہابیہ کی تکفیر نہیں ہے-
https://drive.google.com/file/d/0B7PawD8kIlKuRHdpQ21vdVBiemM/view?usp=sharing

https://docs.google.com/uc?export=download&id=0B7PawD8kIlKuRHdpQ21vdVBiemM

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔