Monday 13 March 2017

رلانے آتی ہے یادِ حسین روز مجھے

0 comments
رلانے آتی ہے یادِ حسین روز مجھے
یزید پر لعنت بھیجتے صدیاں بیت گئیں، مگر اب بھی ہم یزیدیت 
سے نکلنے کو تیار نہیں
از قلم:- محمد شاہد رضا نجمیؔ
تاریخ نے اپنے سینے میں اقوامِ عالم کی بے شمار جنگوں کے تذکرے کو محفوظ کیا، حق کے متوالوں اور باطل کے پرستاروں کے مابین غیر محدود معارک ہوئے، لیکن جو شہرت وبرتری کربلا کی جنگ کو ملی وہ کسی اورکے حصّے میں نہ آئی۔ زمانے کی برق رفتاری کے ساتھ پیش آئے ہوئے واقعات وحادثات لوگوں کے اذہان سے محو ہوتے چلے گئے، مگر صدیاں بیت گئیں واقعاتِ کربلا محو کیا ہوتے قدامت کی گرد بھی اب تک ان پر نہ لگ سکی ہے۔ سنی ہوئی داستانیں اگر کوئی سنائے تو طبیعت بوجھل ہونے لگتی ہے، لوگوں کی سماعتیں ایک ہی واقعے کو چند بار سننے کی عادی نہیں ہوتیں، مگر عجب وارفتگی ہے کہ ہر سال واقعاتِ کربلا سننے کے بعد بھی شوق بڑھتا ہی رہتا ہے، نہ زبانیں بیان سے تھکتی ہیں، نہ کان سننے سے انکار کرتے ہیں، واقعاتِ کربلا پر جب بھی گفتگو کی جائے ایک نئی اور انوکھی معلوم ہوتی ہے۔ 
ماہِ محرم الحرام کی آمد سے قبل ہی اس کے لیے تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں، جلوس واجتماعات کا انعقاد، نذرونیاز کا اہتمام،نہایت ہی ذوق وشوق کے ساتھ داستانِ کربلا سننے کا جذبہ اس پر مستزاد۔ لیکن جیسے ہی پہلا عشرہ ختم ہوتا ہے مسلمان پھر اپنی وہی قدیم روش پر آجاتے ہیںجس پر قائم رہتے ہوئے آج وہ زوال وپستی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارا ذوقِ سماع صرف قصص وواقعات ہی تک محدود رہ گیا ہے، ان کے پس منظر میں غور وخوض کرنے اور ان سے ملنے والے پیغامات اخذ کرنے کی نہ ہماری کوشش رہی، نہ ہی ہمارے خطبا اور واعظین نے ان کے بیان کی زحمت گوارا کی۔ ہمارا پورا سال ان خرافات وبدعات کو فروغ دینے میں گزر جاتا ہے جن کے سدباب کے لیے سید الشہدا امام حسین؄ نے اپنے پورے کنبے کو راہِ خدا میں قربان کردیا تھا۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امامِ حسین ؄  نے یزید کی بیعت سے انکار کیوں فرمایا، اس کا مطالبہ یہ تو نہیںتھا کہ العیاذ باللہ آپ دین اسلام سے برگشتہ ہوجائیں، نماز وروزہ، زکوٰۃ وحج یا دیگر اسلامی فریضے کی ادائیگی سے روگردانی کریں، اس کا محض ایک ہی مطالبہ تھا اور وہ بیعت کا تھا۔ امامِ حسین ؄ جانتے تھے کہ بیعت کرلینے پر دنیوی مال ومتاع، زیب وزینت، آسائش وآرام کے ذرائع قدموں میں ہوں گے اور انکار کی صورت میں مصائب وآلام، ظلم وجبر، وحشت وبربریت کی ایک وسیع فضا قائم کردی جائے گی، ان سب کے باوجود آپ نے اس کی بیعت سے انکار فرمایا اور پھر کرب وبلا کا وہ کرب ناک واقعہ پیش آیا جس پر تاریخِ عالم آج تک گریہ زار اور ماتم کناں ہے۔ چشمِ فلک نے ایسا خوں آشام منظر کبھی نہ دیکھا ہوگا کہ ایک باپ کے سامنے اس کے شیر خوار بچے کو شہید کیا جارہا ہے، پانی کے چند قطرے دینے کے بجائے حلقوم پر تیر چلائے جارہے ہیں، جوان بیٹے کی جوانی قربان ہورہی ہے، عظیم بھائی کے بازو کٹ رہے ہیں، بھانجے، بھتیجے، عزیز واقارب کی لاشیں خاک وخون میں غلطاں ہیں، پھر بھی زبان پر نہ کوئی گلہ ہے ، نہ کوئی شکوہ، امامِ حسین ؄  صبر وشکر کا عظیم پیکر بنے ہوئے خدائے قدیر وجبار کی بارگاہ میں ان ساری قربانیوں کی باریابی کے ملتجی ہیں، اخیر میں خود بھی جامِ شہادت نوش فرمالیتے ہیں مگر یزید کی بیعت پر راضی نہیں ہوتے۔ 
 آخر آپ نے بیعت کیوں نہیں کی، یزید کافر ومشرک تو نہیں تھا، مرتد وبےدین تو نہیں تھا، صرف فاسق ہی تو تھا۔ یہی وہ نازک پہلو ہے جہاں پر لوگوں کی زبانیں اور قلم لغزش کا شکار ہوجاتے ہیں اور طرح طرح کے ہفوات پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔’’ دانش مندی یہی تھی کہ یزید کی بیعت کرکے اپنی اور اپنے خاندان کی جان کا تحفظ کرلیا جاتا، مصلحت بھی اسی کی متقاضی تھی، یہ تو خود کو اور دوسروں کو ہلاکت کی راہ پر لے جانا ہوا۔‘‘ اس طرح کے بے بنیاد سوالات ناقص فہم وادراک کا نتیجہ ہوا کرتے ہیں۔ یزید خلافت کا مدعی تھا حالاںکہ وہ اس کا اہل نہیں تھا۔ خلیفہ ہونا ایک عظیم منصب ہے، جو بادشاہت سے بڑھ کر ہے، ہر ہر ملک کا اپنا اپنا بادشاہ ہوتا ہے جب کہ پورے عالمِ اسلام کا خلیفہ صرف ایک ہی فرد ہوتا ہے جسے ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ گویا پوری اسلامی دنیا اسی کے ماتحت ہوتی ہے۔ یزید خلافت کا مدعی تھا مگر ساتھ ہی فاسق وفاجر بھی تھا، شراب وکباب کا دل دادہ اورمختلف قسم کے اخلاقی جرائم کا عادی تھا۔ اس کو خلیفہ تسلیم کرنا پورے عالمِ اسلام کو ایک فاسق وفاجر شخص کے علم تلے جمع کرنا تھا اور جس قوم کا امیر ایک فاسق وفاجر ہو اس کے ہاتھ تباہی وبربادی کے سوا اور کیا لگ سکتا ہے۔ جب سربراہ ہی فسق وفجور میں مبتلا ہو گا تو قوم سے اس طرح کے مفاسد کیوں کر دور کرسکے گا۔ امامِ حسین ؄ چوں کہ آلِ مصطفوی کے ایک عظیم فرد اور پوری قومِ مسلم کے قائد ورہنما تھے؛ اسی لیے یزید شدت سے آپ کی بیعت کا خواہاں تھا۔ امامِ حسین ؄ جانتے تھے کہ اگر میں نے بیعت کی تو سارے لوگ میرے اتباع میں اس کی بیعت کرلیں گے، اس طرح دینِ اسلام کی لگام ایک فاسق وفاجر شخص کے ہاتھوں میں چلی جائے گی اور اسلامی نظام حکومت میں ایک فاسد دور کا آغاز ہوجائے گا۔ اسی بنا پر آپ نے اس کی بیعت سے انکار فرمایا۔
کربلا کی یادیں ہمارے لیے دوہرے غم کا باعث ہیں۔ ایک تو یہ کہ نواسۂ رسول اور جگر گوشۂ بتول کو اولاد اور احباب سمیت میدان کربلا میں اسی رسول کا کلمہ پڑھنے والے ظالموں نے انتہائی بے دردی سے تہ تیغ کردیا اور دوسرے یہ کہ صدیاں بیت گئیں یزید پر لعنت بھیجتے، مگر اب بھی ہم یزیدیت سے نکلنے کو تیار نہیں۔جو برائیاں یزید میں تھیں اور جن کی بنا پر امامِ حسین ؄ نے اس کی بیعت سے انکار فرمایا تھاان سے کہیں زیادہ برائیاں اور خامیاں خود ہم میں موجود ہیں۔ شراب وکباب کی عادت، روزہ ونماز اور دوسرے دینی امور سے غفلت، ظلم وجبر، تشدد وتعنت، حق تلفی اور ابن الوقتی، یہ ساری برائیاں اس میں موجود تھیں اور یہی ساری برائیاں ہم میں بھی موجود ہیں۔ اس لیے ہمیں یزید کے خلاف بولنے اوراٹھنے سے پہلے خود اپنے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم اپنے وجود کو یزیدیت سے پاک نہ کرلیں ہمارے لیے یزید کے خلاف برسرپیکار ہونے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا۔
اس تناظر میں یہ ضروری ہے کہ محرم کے مہینے میں صرف جلوس واجتماعات اور نذر ونیاز پر اکتفا کرنے کے بجائے صبر وشکر، تحمل وبرد باری،مذہبِ اسلام پر استقامت، دنیوی مال ومتاع پردین کی ترجیح، خدائے وحدہٗ لاشریک کی راہ میں جان، مال، اولاد، خاندان قربان کرنے کا جو عظیم درس واقعاتِ کربلا سے ملتا ہے اس پر ہمیشہ عمل کریں اور اسے ہی اپنی زیست کا حقیقی عنوان بنائیں۔ 
رلانے آتی ہے یادِ حسین روز مجھے
میں وہ نہیں جو محرم کا انتظار کرے

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔